جمعرات، 7 مارچ، 2013

Sar Mundate hi... Pade

سر منڈاتے ہی۔۔۔ پڑے


شام کا وقت ہے اور میں اپنے آنگن میںلیٹا،اپنے آپ میں گم ،سُراور تال کے ساتھ گنگنا رہا ہوں:

مری خبط الحواسی کا بدل کچھ ہو نہیں سکتا

کریلاآم پر چڑھ کر بھی میٹھا ہو نہیں سکتا

اگر صحبت شریفوں کی بھی مل جائے تو کیا حاصل

کہ گدھا لاکھ کوشش کر لے،گھوڑا ہو نہیں سکتا


یہ سرخوشی و سرمستی کا عالم مجھ پرتبھی سے طاری ہے، جب سے بورڈ کے ا متحان ختم ہوئے ہیں۔ چوں کہ اب چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں اور بورڈ کے نتیجے آنے ہی والے ہیں، اس لیے کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ کہیں کچھ گڑبڑ ہوا، تو کیا ہوگا؟پھر یونی ورسٹی کا خیال آتے ہی دل میں نئی نئی امنگیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ کیوں کہ ہم نے جو کچھ یونی ورسٹیوں کے بارے میںسنا ہے، ان کو لے کر دل میں طرح طرح کی گدگداہٹ ہوتی رہتی ہے۔ یونی ورسٹی ایسی ہوگی، ویسی ہوگی، ہاسٹل کی زندگی میں آزادی ہی آزادی ہوگی۔ نہ گھر کا کام اور نہ ہی یہاں کی طرح سے وہاں قدم قدم پر کوئی ٹوکنے والا ہوگا۔ اف! کیا دن ہوں گے؟ یہ سوچ کر دل جھوم جھوم اٹھتا تھا۔ بس اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ آزادی اور خوشیاں دامن پھیلائے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ دن اب دور نہیں جب آسمان ہمارے قدموں میں ہوگا اور ہم روز ایک نئی دنیا کی سیر کریں گے۔
بہر حال کفر ٹوٹا خداخدا کر کے! بورڈ کے نتیجے بھی آگئے اور ہم نے یو نی ورسٹی کے داخلی امتحان میں کامیابی بھی حاصل کر لی۔ اس وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یونی ورسٹی سے دعو ت نامہ نہیں آیا ہے بلکہ اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی ہے۔ پھر کیا تھا؟ بس یوں سمجھیے کہ بلی کے بھاگ سے چھینکا ٹوٹا۔ خیالوں کی فاختہ اڑنے لگی، امنگوں نے آسمان پر کمندیں ڈالیں اورجوش و ولولوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ چلو اس جلادخانے سے کسی طرح جان تو چھوٹی۔
یونی ورسٹی پہنچے، داخلے کی کارروائی مکمل کی۔ یہاں داخلے کے ساتھ ہی ساتھ ہاسٹل بھی مل گیا، اس لیے کسی قسم کا کوئی ٹنشن نہیں رہا۔ کچھ نئے دوست بنائے اور شام کے وقت تھوڑی بہت یونی ورسٹی کی سیر کی اور ڈھابے پرجا کر چائے پی۔ اس کا لطف کچھ ایسا تھا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سب کے سب نہایت خوشگوار موڈ میں تھے۔ اگلے دن پاس کے بازار کی تفریح اور کچھ ضروری سامان خریدنے کا پروگرام بنایا گیا اور سب اپنے اپنے کمروں کو روانہ ہو گئے۔ اگلے دن طئے پروگرام کے مطابق ہم لوگ پاس کے بازار گئے۔ بازار توعموما تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بھارت میں ایک ہی جیسے ہو تے ہیں مگر اس شہر کا تو عالم ہی کچھ اور تھا۔ قدرت کی صناعی اور فن کاری پر ایما ن لانا ویسے ہی لگ رہا تھا جیسے سنت کے بعد فرض کا اداکرنا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہرہرپل ایک بر چھی جگر کے پار اترتی جا رہی ہے۔ اف یہ قیامتیں ! سر سے گزر جائیں گی کیا؟ جسم نقاب میں لیکن جسم کا خوب ترین اور حسین ترین حصہ وار کرنے کو آزاد، واللہ!
جو بھی گزرا اسی نے لوٹا ہے                دل بھی اپنا پرانی دلی ہے
شاعروں نے آنکھوں کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا! جھیل، سمندر، شراب خانہ، برچھی، کٹار، تلوار اور یہ وار کرنے کو آزاد۔ کوئی سنبھلے تو کہاں تک سنبھلے؟ ہائے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا               لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
قدرت کے حسین ترین شاہکاروں کا جائزۂ نظری لیتے اور ان کی تعریفیں کرتے ہو ئے، دنیاکی تمام فکروں سے آزاد، ہاسٹل آئے، اف! کیا موڈ تھا اس وقت؟ کچھ کچھ شاعری کی طرف بھی طبیعت مائل تھی اور کچھ تک بندیاں بھی چل رہی تھیں۔ جیسے:
کیا بتاؤںسوچ کر کیاآیا تھا                           ڈھونڈتا رائی تھا پربت پایا تھا
لگ رہا تھا مجھ کو ایسا اس گھڑی               ہاتھ میں بچے کے گویا پھلجھڑی

اسی کیف و سرور کے موڈ میں کچھ دن بیتے۔ اس کے بعد شاید سنیچر کا دن تھا اور ہم حسب معمول ہاسٹل پہنچ کر ڈائننگ ہال گئے، کھانا کھایا اور ابھی باہر نکلنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ ایک سینیر (Senior)نے کہا! کہاں؟ کمرے! معصومیت کے ساتھ میں نے کہا۔ کمرے کہاں؟ پہلے اِدھر تو تشریف لے چلیے! بزرگوار نے فرمایا۔ شریفوں کی مانند بندہ ان کے ساتھ ہو لیا۔ ذرا آگے بڑھا تو دیکھتا ہوں کہ چند لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور درجنوں لوگ کھڑے ہیں۔ فدوی بھی انھیں درجنوں میں ہم بن کر کھڑا ہو گیا۔ یہاں سب ایک دوسرے کو تذبذب سے دیکھ رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے؟ شاید کسی نے کوئی غلطی کی ہو، اسی سلسلے میں کچھ جانچ پڑتال ہو۔ اتنے میں بیٹھے ہوئے صاحبان میں سے ایک صاحب نے کڑکتی ہوئی آواز میں اعلان کیا کہ "چلو، دھرّے لگاؤ"۔ دھرّے لگاؤ! یہ کیاہوتا ہے؟ کبھی سنا نہیں۔"ابھی ہم سب سوچ ہی میں تھے کہ ایک نے نہایت معصومیت سے دبی زبان میں پوچھا، دھرّا لگانا کیا ہوتا ہے؟" ابھی بتاتے ہیں بیٹا! ابھی بتاتے ہیں۔ ایسا سمجھوگے کہ عمر بھر نہیں بھولوگے"۔ اب کہ بزرگوار کے تیور سے اندازہ ہواکہ ہو نہ ہو کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ اتنے میں ایک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے "چلو بولو! ہم 98 کے دھرّے ہیں۔ زور زور سے بولتے ہوئے یہیں سے شروع کرو اورپوری فیلڈ کا چکر لگا کر آؤ۔ اگر کسی نے آنا کانی کی تو پھر سمجھ لے گا ! سمجھ گئے نا! ہاں! تو پھرچلو، شروع ہو جاؤ"۔

یہ ایک ایسا کام تھا جو بالکل غیر متوقع اور آفتِ ناگہانی کی طرح آن پڑا تھا۔ ایسا لگا جیسے ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا ہو۔ وہ خوابوں کا محل جو ہم نے پچھلے کچھ دنوں میں تعمیر کیا تھا، شیخ چلی کے محل کی طرح ڈھیر ہو گیا۔ اندھے کے ہاتھ کی بٹیر چھوٹتی نظر آنے لگی۔ سبھی معتوب جو ہاتھ آئے تھے چار و ناچار، بے یار و مددگار، بے حس اور بادل ناخواستہ ایک طرف کو چل پڑے لیکن کسی کے بھی منھ سے وہ فقرہ نہیں نکل رہا تھا، جس کا کہ حکم کیا گیا تھا۔ اتنے میں ایک گرجتی ہوئی آواز آئی" لگاؤ بے" اب رفتہ رفتہ آواز آنی شروع ہوئی تو وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔" زور زور سے، بلند آواز سے"۔ اب آفت زدوں کی ٹولی دھرّے بھی لگانے لگی اور دوڑنے بھی لگی۔ 

اب وہ گھر جس سے بیزار رہتے تھے، محل لگنے لگا۔ ڈانٹ میں پیار جھلکنے لگا۔ اس وقت جو خیال ذہن میں آرہے تھے ان کا منجملہ ماحصل یہ ہے کہ لاکھ کا گھر خاک میں مل گیا۔ اڑتی چڑیا قید ہو گئی، خیالوں کی فاختہ اپنے پر سمیٹنے لگی۔ انگریز ظالم یہ لعنت چھوڑ کر گئے ہیں، یہ پڑھائی ہے کہ جہالت اور ہم لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں یا دھرّے لگانے؟ واہ ری قسمت! دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے؟ خیر! کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ کسی طرح میدان کا ایک چکر پورا ہوا اور معتوب وہیں جا کھڑے ہوئے، جہاں سے چلے تھے۔ کچھ نرم، کچھ گرم اور کچھ کھٹی کچھ میٹھی بھی سننی پڑی۔ کچھ کو دوبارہ چکر لگانے کا حکم ہوا۔ جو باقی بچے ان سے سوال و جواب ہونے لگے۔ کیا نام ہے؟ کہاں سے آئے ہو؟ مشغلہ کیاہے؟ اس کے بعد انہیں جوابات سے سوال پیدا کیے جاتے، جس سے محفل ٹھہاکوں سے گونج اٹھتی۔ ایک نے بتایا کہ اسے ترجمے سے دلچسپی ہے تو اس سے کہا! چلو اس sentence کا ترجمہ کرو۔ marry was killed behind the bush " میری جھاڑی کے پیچھے ماری گئی"۔اتنا کہنا تھاکہ قہقہوں کا جوالا مکھی پھوٹ پڑا۔ ایک جو ذرا سا اسمارٹ بننے کی کوشش کر رہا تھا، اس کی طرف خاص نگاہِ کرم ہوئی اور "تو بڑا اسمارٹ بن رہا ہے، چل یہ ماچس کی تیلی لے اور اس برا مدے کی لمبائی اور چوڑائی ماپ کر بتا"۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ میں آیا کہ یہ مذاق ہے، کہیں ماچس کی تیلی سے لمبائی اور چوڑائی ماپی جاتی ہے؟ بھلا یہ بھی کوئی کرنے کا کام ہے کہ تیلی سے حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے برآمدے کی لمبائی ماپی جائے۔ بندہ ابھی اسی شش و پنج میں ہی تھا کہ" کیا بے!" کی کڑکتی ہوئی آواز آئی اور ساتھ ہی یہ بھی کہ "اٹھنا پڑے گا کیا؟" اب کہ بندے کو موقعے کی نزاکت کا اندازہ ہوا اور مجبور نے وہ آلہ لے لیا، جس سے کہ لمبائی ماپ کر بتانی تھی۔ اب تو بندے کو کاٹو تو خون نہیں! یا اللہ! اس آفت سے جان کیسے چھوٹے گی؟ ماچس کی تیلی سے برا مدے کی لمبائی ماپتے ماپتے بندے پر نہ جانے کتنی قیامتیں گزر گئیں۔ کتنی مرتبہ یہ بھی بھول گیا کہ تیلیاں کتنی ہوئیں؟ کئی بار تو یہ بھی بھول گیا کہ میں کون ہوں؟ میں ہوں بھی یا نہیں؟ یہ بھی خیال آیا کہ فرہاد نے کوہ کنی کی ہو تو کی ہو مگر اتنی جاں فشانی کا سامنا تو اس کو بھی نہیں کرناپڑا ہوگا اور نہ ہی مجنوں پر اتنی سخت گزری ہوگی۔ پچھلی تمام باتیں فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے رقصاں تھیں۔ دل ہی دل میں لعنت ملامت کرتا جا رہا تھا کہ ’’سرور ڈنڈاؔ‘‘ کی بات یاد آگئی کہ’’ چپ ہو جاؤ سالو ورنہ تخلص گھسیڑ دوں گا‘‘ ان کی تو۔۔۔ جی میں آیا کہ سر پھروں کا سر توڑ دوں اور گھر بھاگ جاؤں مگر دائیں بائیں نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ تمام معتوب، بندے ہی کی طرح کے غیر مفید کاموں میں لگے ہوئے ہیں، اس لیے بندہ بھی خاموش ہی رہا۔ اتنے میں ایک اور آواز آئی"ارے اوئے خان صاحب! ادھر آ جائیے، یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے"۔ جی ہی جی میں خوش ہوا، چلو جان بچی اور چہرے پر ذرا سی بشاشت لیے پھر معتوب خانے کے در پر حاضر ہوا کہ چلو کسی نے رحم کیا ہے، لگتا ہے اب نجات مل جائے گی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں ایک ظالم نے کہا "مسکرا رہا ہے، چل بتا! body میں کتنے چھید ہیں؟ ’’چار!" بے ساختہ زبان سے نکل گیا۔ اتنے میں ظالموں کے سرغنہ نے کہا! "انگلی ڈال ڈال بتا! کہاں کہاں ہیں؟" بندے نے حکم کی تعمیل میں جیسے ہی انگلی کان میں ڈالی ویسے ہی ذہن کہیں اور پہنچ گیااور ہاتھ وہیں کا وہیں رک گیا کہ ہائے! اب کیا ہوگا؟ اتنے میں سرغنہ نے کہا "کیا ہوا بیٹا؟ کیا ہوا؟ آگے بڑھو"۔ اس کے آگے جو کچھ ہوا وہ بتاؤں گا تومزہ کرکرا ہو جائے گا۔ لہٰذا معاف ہی رکھیے۔ 

سحر کے وقت کمرے پہنچا تو چادر اوڑھ کے خوب رویا، یا خدا اس کو تعلیم کہتے ہیں؟ تو سزا اور قیامت کو کیا کہیں گے؟ اس وقت تمام چیزیں الٹی نظر آنے لگیں۔ لفظوں کے معنی بدل گئے، گھوڑا گدھا اور بھنڈی چِچِنڈا نظر آنے لگی۔ سچ ہے، وحشت میں چیزیں الٹی ہی نظر آتی ہیں۔ بقول غالبؔ:

وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے

 مجنوں نظر آتی ہے لیلٰی نظر آتا ہے 

اپنی حالت پر آنسو بہا ہی رہا تھا کہ خیال آیا کہ نہ جانے اس بیچارے کا کیا حال ہے؟ جس کوظالموں نے ساڑی پہنایا تھا پھر نکاہ کا خطبہ اور جلوہ بھی کروایا او ر اس کے بعد کے مرحلے! اف! توبہ توبہ! یونی ورسٹی میں یہی سب ہوتا ہے یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ اسی لیے بندہ اس دن سے آج تک اپنے اس خیال پر قائم ہے کہ یونی ورسٹی میں پڑھائی لکھائی کے علاوہ دنیا کے تمام کاموں کی بہترین تربیت ہوتی ہے۔
اسی حالت میں کب نیند آ گئی، خدا جانے! آنکھ کھلی تو کلاس کی دھن، آناً فاناً تیار ہو، ڈپارٹمنٹ پہنچے تو دیکھا کہ ایک نئی مصیبت وہاں ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ قدرت کے حسین ترین شاہکار ہمارے منتظر بیٹھے تھے۔ کلاس کے بارے میں پوچھنے پرصرف اتنا پتا چلاکہ ایک ہفتے تک تو ہم لوگ لیں گے، اس کے بعد کا پتہ نہیں۔ قریب تھا کہ میں غش کھا کر زمین پر آ رہتا لیکن ایک ہم جماعت نے سنبھال لیا۔ اس دوران آفتوں کی ٹولی میں سے ایک نے پوچھا۔ "اچھا! ایکٹنگ (acting)کرتا ہے؟" دوسری نے پوچھا، ’’ایکٹر (actor)ہو؟‘‘میں نے کہا! "نہیں"۔ "اچھا !پھر کیا کرتے ہو؟" تیسری نے پوچھا۔ یہ سوال بندہ سننے سے رہ گیا اور رات کی فلم آنکھوں کے سامنے گھوم گئی اور سوچا! بیٹا جو حجامت رات کو بننے سے رہ گئی ہے، وہ یہاں بن جائے گی۔ "کیا کرتے ہو؟ ابھی تم نے کچھ بتایا نہیں!",  "جی! میں نے چونکتے ہوئے کہا؟ جی میں شاعر ہوں"۔ "تو پھر کچھ سناؤ؟" ۔ اتنا سننا تھا کہ میں نے جھلا کر کہا: 


کچھ مری خبط الحواسی مجھ کو راس آئی بہت

کچھ دوست نما دشمنوں نے کی پذیرائی بہت

مصلحت لے آئی A 2 Z میں مجھ کو کھینچ کر

ورنہ،خود کشی کرنے کو تھیں اور ترکیبیں بہت

دل ہی دل میں کفِ افسوس مل رہا تھا کہ کہاں آ پھنسے؟ حجامت بن رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ واہ ری قسمت! سر منڈاتے ہی اولے پڑے، وہ بھی پٹا پٹ۔ 

نوٹ: یہ انشائیہ "ظرافت" بنگلور شمارہ مارچ۔ اپریل ۲۰۰۹ میں اور "ادبی محاذ", کٹک سہ ماہی میں جنوری۔ مارچ ۲۰۱۱میں شائع ہو چکا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...