بدھ، 27 مئی، 2020

امیر مینائی کا مختصر تعارف


امیر مینائی کا مختصر تعارف

پیدائش: ۲۱/فروری 1829ء - وفات:  ۱۳/ اکتوبر1900ء

شاعر ، ادیب ، امیر احمد نام مولوی کرم محمد کے بیٹے اور مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تھے۔ لکھنؤ میں پیداہوئے درسی کتب مفتی سعد اللہ اور ان کے ہمعصر علمائے فرنگی محل سے پڑھیں۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت تھی۔ شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے ۔ 1852ء میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کیں۔ 1857ء کے بعد نواب یوسف علی خاں کی دعوت پر رامپور گئے۔ ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے اُن کو اپنا استاد بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رامپور چھوڑنا پڑا۔ 1900 میں حیدرآباد گئے وہاں کچھ دن قیام کیا تھا کہ بیمار ہوگئے اور وہیں انتقال کیا۔

متعدد کتابوں کے مصنف تھے ۔ ایک دیوان غیرت بہارستان ، 1857ء کے ہنگامے میں ضائع ہوا۔ موجودہ تصانیف میں دو عاشقانہ دیوان مراۃ الغیب ، صنم خانہ عشق اور ایک نعتیہ دیوان محامد خاتم النبین ہے۔ دو مثنویاں نور تجلی اور ابرکرم ہیں۔ ذکرشاہ انبیا بصورت مسدس مولود شریف ہے۔ صبح ازل آنحضرت کی ولادت اور شام ابد وفات کے بیان میں ہے۔ چھ واسوختوں کاایک مجموعہ بھی ہے۔ نثری تصانیف میں انتخاب یادگار شعرائے رامپور کا تذکرہ ہے، جو نواب کلب علی خان کے ایما پر 1890ء میں لکھا گیا۔ لغات کی تین کتابیں ہیں۔ سرمہ بصیرت ان فارسی عربی الفاظ کی فرہنگ ہے جو اردو میں غلط مستعمل ہیں۔ بہار ہند ایک مختصر نعت ہے۔ سب سے بڑا کارنامہ امیر اللغات ہے اس کی دو جلدیں الف ممدودہ و الف مقصورہ تک تیار ہو کر طبع ہوئی تھیں کہ انتقال ہوگیا۔

سرکتا جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جوان ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یکلخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ ، جناب آہستہ آہستہ
قلندرانہ شاعر، مرد متقی حضرت امیر مینائی سے راقم کا پہلا تعارف چوتھی جماعت میں اس وقت ہوا 
جب ہمارے عزیز دوست اور امیر مینائی کے پڑ پوتے مبین احمد مینائی نے  خانوادہ مینائی سے اپنی وابستگی بتلاتے ہوئے کہا کی پی آئی بی کالونی کا مشہور مینا بازار دراصل امیر مینائی کے نام سے موسوم ہے۔ بیس سال گذرنے کے بعد آج بھی اس نجیب الطرفین خاندان سے ہمارے تعلقات تلمیذ قوئ ہیں۔ قیصر تمکین صاحب کی کتاب جس کا تبصرہ پچھلے دنوں شائع کیا، ان میں ایک عدد مضمون امیر مینائی کے بارے میں تھا جو کہ ان کی حیات و خدمات کا بہت خوب احاطہ کرتا ہے۔ اس کے اقتباسات اس بلاگ پر قسط وار شائع کرنے کا ارادہ ہے، امید ہے قاریئن کو پسند آے گا۔ پسندیدگی کی صورت میں محترم قیصر تمکین صاحب کی کتاب ضرور خرید کر علم دوستی کا ثبوت دیں کہ وہ ایسے مضامین سے بھرپور ہے۔
ذکر امیر از قیصر تمکین
ایک ایسے دور میں جب کہ علم وادب کے اطوار و اقدار ہی بدل چکے ہوں ،معجزہ فن کی ترکیب عوامی رابطہ اداروں کی مرہون منت بن چکی ہو اور افکار شائستہ و جمیل کوحیثیت آثار کہنہ و فرسودہ کی دے کرنسیاً منسیا قرار دیا جا چکا ہو،امیرزادگان انگلستان کا یہ اقدام کہ ایک مرد متقی و مجذوب عصر کی برسی منائیں ہر آئینہ داد و ستائش کا مستحق ہے.اظہار تعجب اس تقریب پریوں بھی ضروری ہے کہ حضرت امیر مینائی اپنی قلندرانہ پاکباز حیات واعمال کی بنا پر مجالس ادب کے ان مرکزی دھاروں سے بلکل الگ تھے جہاں ضرورت شعری کا عذر کر کے اخلاقی وشرعی ردا کی دھجیاں اڑانا امر مستحسن خیال کیا جاتا ہے.
عام طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ ادیب وفنکار کا منکرشریعت و شرافت ہونا ایک امر لازمی ہے.گویا اگر کردار میں کجی اور افعال پر از معائب نہ ہوں تو اسے سندفن اور رتبۂ شعر عطا ہی نہ ہو سکےگا.افسوس یہ ہے کہ اس مفروضے کی ترویج میں بڑا ہاتھ ترقی پسندوں کی بے راہ روی کا بھی رہا ہے.ترقی پسند جوانوں کے ایک بڑے حلقے نے سرعام یہ دعوے کیےکہ کوئی شاعر جب تک پینے اور پی کر بہکنے کا قائل نہ ہواسکی رموز شعر سے واقفیت ہی مشکوک رہے گی. امیر احمد مینائی کو یکسر فراموش کر دیے جانے اور ان کی خدمات کو زینت طاق نسیاں بنانے میں بھی یہی وجہ کار فرما رہی ہے کہ وہ متوازن شہری اور ثقہ بزرگ تھے اور ارتکاب انہوں نے کبھی بھی تمیز و تہذیب سے لا پرواہی کا نہیں کیا.اس پر طرہ یہ کہ تعلق ان کا ہمیشہ ہی مذہب کے اعلیٰ معیاروں اور اپنے الله و رسول سے رہا.جن احباب کی نظر میں مذہب.خواہ وہ کوئی مذہب کیوں نہ ہو بیل کے لیے لال رومال لہرانے کی سی کیفیت رکھتا ہووہ کسی ایسے شاعریا ادیب کو کیسے انگیز کر سکتے ہیں جس نے پورا ایک دیوان ہی نعت کا مرتب کر ڈالا ہو اور جو اپنے لیے موءجب افتخارو امتیاز یہی ایک بات سمجھاتا ہوں کہ اسے رحمتہ العالمینّ کی غلامی کا شرف حاصل ہے.امیر احمد مینائی کے اس مخلصانہ  و والہانہ دیوان نعت کے بارے میں حضرت جدامجد مولانامحسن کاکوروی نے فرمایا تھا-
یہ دیواں کیا ہے گویا اک گلستاں ہے ہدایت کا
ثمرہے یا کہ محبوب الٰہیّ کی رسالت کا
جب ١٨٥٧ءمیں فرنگی سازشوں اور سامراجی مظالم کے خلاف بغاوت کے شعلے لکھنؤ میں بھڑک اٹھے تو حضرت امیر مینائی شہر سے آٹھ میل دور مغرب میں اودھ کے مردم خیز قصبے کا کوری میں پناہ گیر ہوئے اور وہاں اپنے ہم عصر اور اس زمانے کے بلند پایاوکیل و مصنف محسن کاکوروی کے مکان پر قیام پذیر ہوئے.اپنے دوست کے اخلاص و مروت اورعشق رسول سے محسن کا کوروی بہت متاثر ہوئے.انہوں نے اپنے نومولود نواسے کا نام بھی امیر احمد رکھا-محسن کا کوروی  کے بیٹے نورالحسن نیر کا کوروی تھے جو ان دنوں ایسی فرہنگ مرتب کرنے میں مصروف تھے جس میں لکھنؤ اور اسکے اطراف و اکناف میں بولی جانے والی اور ہمہ وقت تغیر پذیر اردو زبان کے الفاظ و اصطلاحات جمع کی جا سکیں.اسی کوشش میں انہوں نے اپنی نادر روزگار لغت نوراللغات مرتب فرمائی اور اپنے گھر کو نور اللغات آفس کا نام دیا.یہی دفتر نوراللغات راقم الحروف کا ددھیال تھا.الانہ محسن کے نومولود نواسے امیر احمد اس خاکسار کی دادا تھے.اس طرح راقم اگرچہ براہ راست امیر زادگان میں نہیں ہے مگر پھر بھی ادب  و شعر کے وسیلے سے امیر مینائی مرحوم سے ایک واسطہ تو رکھتا ہی ہے چناں چہ آج کی تقریب اور اس میں شرکت کی سعادت سب سے زیادہ اسے خاکسار کے لیےموجب مسرت ہے. برسبیل تزکرہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا اس موقع پر نہ مناسب ہوگا.امیر مینائی علامہ محسن کا کوروی کے ہم عصراورقریبی دوست تھے لیکن تاریخ ادب اردو کے مصنف رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ حضرت محسن کا کوروی امیر مینائی کے خورد اور شاگرد تھےیہ غلط فہمی یوں ہوئے کہ وہ مصنف نوراللغات اور محسن کا کوروی کے باپ بیٹے کے رشتے سے نہ واقف تھے (انہیں معلوم نہیں تھا کہ نورالحسن نئیرکا کوروی مصنف نوراللغات اصل میں علامہ محسن کے صاحبزادے تھے .وہ مصنف نوراللغات کو بزرگ سمجھے)والد مرحوم مشیر احمد علوی ناظرکاکوروی نے سکسینہ صاحب کو اس غلطی کی طرف توجہ دلائی.سکسینہ صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ کتاب کی بعد کی اشاعتوں میں اس کی تصحیح کر دینگے مگر یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک لوگ راقم کے دادا امیر احمد علوی کو علامہ محسن کے نواسے کے بجاۓانکا بتا تصور کرتے ہیں.”افکار”کراچی کی اشاعت میں بھی یہی غلط فہمی حال ہی میں دہرائی گئی اور یہ لکھا گیا کے علامہ محسن راقم الحروف کے پر دادا تھے.
میں نے بہت سی باتیں بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں جن کی تصدیق یا تردید کا کبھی وقت نہ مل سکا .حال ہی میں میرے ایک استفسار کے جواب میں علامہ نورالحسن نیر کا کوروی کے پوتے مولوی اطہر محسن علوی نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ان کا ذکر بہت ضروری ہے تاکہ حیات امیر کے سلسلے میں ایک اور بیان بھی ملحوظ خاطر رہے:
       ”امیر مینائی ١٦ شعبان ١٢٢٤ ہجری (مطابق ١٨٢٦عیسوی)میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم والد کی سر پرستی میں حاصل کی۔ اس کے بعد علماۓ فرنگی محل اور دیگرعلماۓ عصر مثلاً سعدالله(شاگرد مفتی صدر الدین آزردہ)سے تحصیل علم کی.   شاعری کا مشغلہ اگر تکمیل علم سے پہلے شروع ہو جاۓ تو علوم کے حصول میں  رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.امیر کے والد نے اس کا خیال رکھا.ایک بار امیر اپنے   والد کے پیرداب رہے تھے والد نے پوچھا کہ تم شاعری بھی کرنے لگے ہو.  ہم بھی سنیں ہمارا امیر کیسے شعر کہتا ہے.جواب میں امیر نے شرماتے ہوئے بتایا    کہ بارش نہیں ہو رہی ہے.لوگ پریشان ہیں.موجودہ کیفیت کو میں نے اس طرح نظم   کیا ہے..
     ”ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی
    اس غم سےہےیادوسرےاشکوں کی روانی”
شفیق باپ نے بیٹے کی کوششوں کو سراہا لیکن ساتھ میں ہدایت کی کے پہلے علوم متدادلہ سے کماحقہ واقفیت  پیدا کرلیں اس کے بعد شاعری کریں.یہی وجہ ہے کہ امیر احمد مرحوم نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاعری کی طرف توجہ کی.جس ماحول میں تربیت ہوئی اسکا تقاضا تھا کہ وہ ایسا استاد تلاش کرتےجو ان کے مذاق کا ساتھ دیتا چناں چہ مظفرعلی خاں اسیر کا سا استاد ان کو مل گیا جو رکاکت وابتدال سے بلند تھا.اسیر ہی کی وساطت سے ١٨٥٢ء میں امیر کو واجد علی شاہ کے یہاں ملازمت حاصل ہوئی اسی دوران امیر نے ارشاد السلطان اور ہدایت السلطان نامی کتابیں لکھیں ابتدائی کلام کا مجموعہ جس کو بہارستان کے نام سےموسوم کیا تھا ١٨٥٧ء کے ہنگامے میں تلف ہوگیا چناں چہ اس زمانے کا جو رنگ تھا اس کا اندازہ پوری طرح نہیں کیا جا سکتا ہے جو تھوڑا بہت کلام ملتا ہے اس میں اخلاقی مضامین پاۓ جاتے ہیں.مثلاً…
حوصلہ عالی اگر ہو ہر جگہ معراج ہےدار بھی ہے شاخ سدرہ دیدہ منصور میں
واجدعلی شاہ کی معزولی اور شہر کے ہنگاموں نے دیگر شرفا کی طرح امیر مینائی کو بھی لکھنؤ چھوڑنے پر مجبور کیا.امیر کاکوری چلے گئے جہاں محسن کا کوروی کی صحبت نے امیر کے نعت گوئی کے جذبے کو شہ دی.محسن کے قصیدے،ابیات نعت کی تضمین جو امیر نے کی وہ اسی فیض صحبت کا نتیجہ ہے.امیر مینائی مرحوم نے کاکوری کے کس گھر میں کب تک قیام کیا اسکا تزکرہ کہیں نہیں ملتا ہے.محسن کاکوروی کا جو مکان پھاٹک کے نام قصبے کے محلے باؤلی سے متصل تھا ان کے  پڑپوتے حافظ رضوان علوی نے کھدوادیا اس لیے اب اس کا یا وہاں کے کتب خانے کا کوئی بھی نشان نہیں ہے.احسن الله ثاقب جنہوں نے امیر مرحوم کے خطوط ترتیب دیے تھے انہوں نے بھی اس مسلے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی.ثاقب کی اہمیت یہ ہے کہ وہ پہلے محسن کاکوروی کے شاگرد تھے جب ١٨٨٧ءمیں وو رامپور منتقل ہوئے تو حسب فرمائش محسن کاکوروی امیر مینائی کو اپنا کلام دکھانے لگے .
اپنے عارضی قیام لکھنؤ کے دوران ١٨٨٥ء میں امیر مینائی نے ایک جریدہ “دامن گلچیں” کے نام سے نکالا.ابتدائی پرچوں میں ہندوستان کے بہترین شعراءطبع آزمائی کرتے تھے.امیر، داغ، جلال،  ریاض اور شوق وغیرہ نے بھی اس میں اپنا کلام چھپوایا.منشی امیر مینائی کے اصرار پر محسن نے دو تین غزلیں بھیجیں ایک غزل کا مطلع تھا.
غزل کہنے میں ہے تعمیل ارشاد امیر
بعد مدّت آج محسن خامہ فرسائی ہوئی
غالباً اسی شعر کی وجہ سے بعض تزکرہ نگاروں نے جن میں رام بابو سکسینہ بھی شامل ہیں حضرت محسن کا کوروی کو امیر مینائی کا شاگرد بھی لکھ دیا ہے.امیر مینائی کا لکھنؤ میں قیام عارضی ہی رہا اور وہ بقول امیراحمدعلوی چند ماہ بعد رام پور واپس چلے گئے اور “دامن گلچیں” کی کلیاں مرجھا گئیں.
کہا جاتا ہے کہ محسن کا کوروی نے جب اپنا مشہور نعتیہ قصیدہ”سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل” لکھا توامیر مینائی کو خواب میں زیارت رسولّ نصیب ہوئی انہوں نے دیکھا کہ سرکار دوعالمّ نے اس قصیدے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.جب محسن کا کوروی کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے قسم کھالی کہ اب صرف مدح رسولّ ہی میں ساری صلاحتیں صرف کرینگے.انہوں نے عام گفتگو بھی کم کردی بس ہر وقت درود پڑھا کرتے اگر فکرشعر کرتے تو صرف نعت لکھتے.اسی سے متاثر ہو کر حضرت امیر مینائی نے پورا ایک دیوان ہی مدح رسولّ میں مرتب کر ڈالا.ان سے پہلے نعتیہ دیوان کی روایت اردو میں نظر نہیں آتی ہے حالانکہ عربی و فارسی میں متعدد نعتیہ دوا دین موجود ہیں.اسی دیوان امیر میں وہ مشہور نعت بھی شامل ہے جس کا ایک شعر مرحوم ناصر جہاں کی مترنم آواز میں بہت مقبول ہے.
جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں
حسرت آتی ہے یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں
عشق رسولّ کا اثر الله کے شکر سے ہمارے خانوادےپر بہت رہا.محسن کے صاحبزادے نورالحسن نیرکا کوروی نے بھی وکالت چھوڑ کر لکھنے پڑھنے میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ان کے سگے اور واحد بھانجے یعنی راقم کے دادا امیر احمد علوی نے بھی ڈپٹی کلکٹر چھوڑ کر قبل ازوقت وظیفہ لے لیا اور کاکوری میں گوشہ نشین ہو گئے.بقیہ زندگی لگ بھگ بائیس برس،تصنیف و تالیف میں صرف کردی.انکا ذکر یہاں یوں ضروری ہے کے انہوں نے بعض شعراء، انیس ، رند اور مظفر پر بڑامجتہدانہ کم کیااور جہاں تک مجھےعلم ہے امیر مینائی پر پہلی باقاعدہ اور مبسوط کتاب”طرہ امیر “کے نام سے تصنیف فرمائی.اس کتاب میں امیر مینائی کے محاسن شعری اور فنی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے.یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امیر مینائی کے بارے میں جو مصدقہ باتیں تذکروں میں پائی جاتی ہیں انکی بنیاد “طرہ امیر “کے مندرجات پر ہی ہے اس کے علاوہ حضرت امیر مینائی پر مصدقہ معلومات منشی فداعلی عیش کی تحریروں سے حاصل ہوتی ہیں.
منشی فدا علی عیش حضرت امیر مینائی کے ہم عصر اور شناسا تھے ان کا تزکرہ ١٨٦٩ء میں شائع ہوا اس کا نام منشی صاحب نے “مجموعہ داسوخت”رکھا تھا لیکن بعد میں یہ “شعلہ جوالہ” کے نام سے زیادہ مشہور  ہوا.اس کی پہلی جلد حضرت امیر مینائی کے نام سے ہی شروع ہوتی ہے.ان دو کتابوں کی موجودگی میں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی تاریخ پیدائش میں کئی جگہ فرق پایا گیا ہے.امیر کے معاصر داغ ،جلال ،تسلیم اور رند تھے ان سب کی زندگی ہی میں امیر مینائی کی تاریخ پیدائش ٢١ فروری ١٨٢٩ء مان لی گئی تھی لیکن پھر بھی بعض حضرات نے سال پیدائش ١٨٢٨ء لکھا ہے امیر احمد علوی کی تحقیق کی روشنی میں فرمان فتح پوری نے بھی قطعیت کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ انتقال کے وقت حضرت امیر مینائی کی عمر ٧١ برس تھی جن حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے انہوں نے ہجری سال کو انگریزی تقویم کے مطابق بنانے میں قدرے تساہلی سے کام لیا ہے.
امیر مینائی نے خود بھی لکھا ہے کہ ان کا سال پیدائش ١٢٢٤ ہجری تھا.انہوں نے اپنے حالات اپنے بڑے بھائی طالب حسین مینائی کی تصنیف “آئینہ ایمان” کے دیپاچے میں تحریر کیے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ١٦٧٤ ہجری میں رام پور میں مفتی عدالت کا عہدہ قبول کرنے سے پہلے وہ تلاش روزگار میں کانپور اور ہمیرپور میں بھی رہے تھے.”طرہ امیر” کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی ایک مختصر سوانح حیات ان کی زندگی ہی میں ان کے ایک شاگرد ممتاز علی آہ نے شائع کی تھی اور ایک شاگرد احسن الله خاں ثاقب نے ان کے خطوط کا  مجموعہ بھی شائع کرایا جو مکاتیب امیر مینائی کے نام سے منظرعام پرآیا.اصل میں یہ مجموعہ پہلے خطوط امیر احمد کے نام سے ١٩١٠ء میں چھپا تھا بعد میں اسکا دوسرا ایڈیشن ١٩٢٤ء میں مکاتیب امیر احمد مینائی کے نام سے نکلا.
امیر مینائی کی شاعری اور ان کے مقبول عام اشعار کی ستائش میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان کی نثر پر کام نسبتاً بہت کم ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کہیں امیر مینائی کا ذکر چھڑتا ہے تو گفتگو ان کے نعتیہ کلام یا ان کی نامکمّل امیراللغات پر ہونے لگتی ہے انکی دوسری بہت اہم اور پراز معلومات نثری تصانیف نغمہ قدسی، شرح ہدایت السلطان ، سرمۂبصیرت، بہارہند، خیابان آفرینش ،محاورات مصادر اردو وغیرہ سے نہ تو زیادہ ترادب دوست حضراتواقف ہیں اور نہ انکی نثری تصانیف پر توجہ ہی کرتے ہیں حالانکہ نثری تصانیف میں حضرت امیر نے جو تذکرہ یادگار چھوڑا ہے اسکے ذکر کے بغیر امیر مینائی کی ہمہ جہت شخصیت کا بہت ہی اہم پہلو پردۂاخفا میں ہی رہ جاتا ہے.
انتخاب یادگار کی وجہ تالیف امیر مینائی نے یہ لکھی ہے کہ “ایک دیں نواب یوسف علی خاں وائی رام پور کو یہ خیال آیا کہ ایک تزکرہ شعرائے ماضی و حال کا ایسا ہو کے اس سے خاص وائی ریاست کے متوطن و متوسل شاعروں کی مختصر کیفیت سخن گوئی کی حقیقت نقش صفحہ روزگار ہوں “اس بڑے میں واقف کار حضرات کا کہنا ہے کے چونکہ یہ تزکرہ امیر مینائی نے نواب کی فرمائش پر لکھا تھا اس لیے مؤلف کو آزادانہ اظہار خیال کا موقع نہ مل سکا کیونکہ بہت سے معمولی شعراء رام پور کے حالات بھی نواب کی سفارش پر امیر نے اس میں شامل کیے.پہلے شعراء کی تعداد ٤٧ تھی بعد میں یہ بڑھ کر ساڑھے پانچ سو کے قریب ہو گئی.
لطیفہ یہ ہے کہ اس “بھرتی “کے باوجود راز یزدانی رام پوری نے “انتخاب یادگار “پر یہ اعتراض کیا ہے کے حضرت امیر مینائی نے شعرائے رام پور کے ساتھ انصاف نہیں کیا.ان کا کہنا ہے کہ دہلوی دبستان سے متاثر شاعروں کو بھی اہمیت نہیں دی گئی.صرف لکھنؤ کےشعراءکو دل کھول کر داد دی گئی ہے.اس اعتراض کے جواب میں نیاز فتح پوری نے نگار کے ایک مخصوص شمارے میں لکھا ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ تذکرے کی ترتیب و اشاعت میں قدم قدم پر نواب دخل اندازی کر رہے تھے اور معمولی معمولی شاعروں کے نام شامل کرا رہے تھے.شعرائے لکھنؤ کو جھنڈے پر چڑھانے کا دعویٰ قطعی غلط ہے.بہر حال یہ تزکرہ ١٨٨٠ء میں پہلی بار شائع ہوا لیکن اسکی اشاعت میں انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکرامیرمینائی نے اپنے شاگرد اسد اللہ خاں کے نام ایک خط میں یوں کیا ہے.
“میں اپنی تالیف کو اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کے ہدیہ احباب کروں علی الخصوص یہ تزکرہ جس میں مجھ کو حالات تاریخی اور انتخاب اشعار میں ایسی مداخلت ہے جیسے قلم کا دست کاتب میں.”      ” فقیر امیر ٢٩ نومبر ١٨٨١ء”
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں.
“بندہ پرور اس تذکرے میں اگر کچھ محاسنہوں تو اہل ہنر جانیں اور جو اس میں بہ مجبوری قبائح ہیں قرار واقعی ان کو میرا دل جانتا ہے.مگر کیا کروں.مامور تھا ،مجبور تھا.اس کا اشارہ ہے آپ غور سے پڑھیے گا تو سمجھ جائیےگا کہ مؤلف مجبور تھا.”
اس معاملے میں اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ریاست رام پور کے حالات یا وہاں کے شب و روز کے بارے میں بلا کم و کاست کچھ لکھنے کی آزادی تو امیر کو نہ تھی مگر شعراءکے ذکر اور انکے کلام پر تبصرے انہوں نے پوری آزادی سے کیے ہیں یے ضرور ہے کے بہت سے غیر ضروری نام انہیں محض نواب کی سفارش پر تذکره میں شامل کرنا پڑے پھر بھی ان شعراءکے فن اور کلام کے حسن و قبتح پر تبصرے کی آزادی امیر مینائی کو بہر حال حاصل تھی.
امیر مینائی کی دوسری نہایت ہی اہم ادبی خدمت امیراللغات کی ترتیب و تالیف ہے اس بارے میں ان کا اپنا بیان ملاحظہ فرمائیے.”جب سے ہوش سنبھالا ، آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھا کہ اچھے اچھے اہل زبان اور زباندان سر زمین سخن کے فرمانروا ہیں.انہیں کی صحبتوں میں اردو زبان کی چھان بین کا شوق مجھے بھی ہوا.اسی زمانے میں آرزو ہوئیاور بڑھ کر بے چین کرنے لگی کہ اردو زبان کے بکھرے ہوئے موتیوں کی ایک خوشنما لڑی بناؤں.اتنے میں لکھنؤ   کی سلطنت مٹ گئی وطن کی تباہی اور گھر بار لٹنے سے چندے حواس ہی نہ جمع ہو سکے.الفاظ کیسے؟لیکن آرزو کی آگ دل میں سلگتی رہی یہاں تک کے فردوس مکاں نواب یوسف الی خاں وائی رام پور نے مجھے بلا کر اطمینان کا سایہ دیا.اتنی فرصت تو نہ پا سکا کہ اپنے ارادے کو پورا کر سکوں تا ہم کچھ کچھ شغل چلتا گیا.١٨٨٤ء میں سر الفرڈ لائل صاحب بہادر، لیفٹنٹ گورنر مغربی و شمالی اور چیف کمشنر اودھ نے اردو کے ایک جامع لغت کی فرمائش کی.نواب خلد آشیاں نے مجھے حکم دیا.یہاں تو تمنا ہی تھی…..”
افسوس کہ یہ کام مکمل نہ ہو سکا کیونکہ نواب خلد آشیاں مرض الموت میں مبتلا ہو کر رحلت فرما گئے اور الفرڈ لائل بھی انہی دنوں ہندوستان کو خیر باد کہہ گئے اس پر تاسف کرتے ہوئے امیر مینائی فرماتے ہیں:
“اردو کی قسمت میں ہی یہ بداہے کہ سنورنے نہ پاۓ.میں اسے کیا کروں اور کوئی کیا کرے”
اس کے باوجود امیر مینائی نے مختلف شہروں کے دورے کیے.ہر جگہ لوگوں نے ہمت افزائی کی اور لغت مرتب کرنے کی”تمنا کوشہ دی”انہوں نے رام پور میں امیراللغات کا دفتر قائم کیا اور محنت ویکسوئی سے تالیف لغت میں منہمک ہو گۓ.
امیر مینائی ایک نہایت ہی بلند پایہ شاعر تھے.داغ نے جن شوخیوں اوراکثر اوقات غیر شائستہ تراکیب کو رواج دیا ان سے امیر مینائی نے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کی.داغ امیر کی اس شائستگی کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی اس باب میں کوئی اعتراض بھی نہیں کیا.نیاز فتح پوری نے ایک خط میں تقریبًا اسی نکتے کو چھیڑَا  ہے فرماتے ہیں.امیروداغ کے موازنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں میں شمال و جنوب کی نسبت ہے.لیکن صنم خانہ عشق لکھ کر امیر نےخواہ مخواہ ایک عذاب مول لیا ہے.اسی لیے کہہ ان کے شایان شان نہ تھا اور دوسروں کے لیے بھی کہ ان کو داغ کی سطح پر گفتگو کرنا پڑتی ہے.”
آگے چل کر اسی خط میں نیاز لکھتے ہیں”امیر شاعر تھے اس میں کلام نہیں لیکن آپ کو معلوم نہیں شاعر دو قسم کے ہوتے ہیں.وہبی واکتسابی.میں نے یہ تقسیم اور طرح کی ہے مطلق شاعر اور شاعر با لقوت.یعنی ایک وہ جو سواۓشعر کہنے کے اور کسی کام کا نہیں، یعنی شعر نہ کہے گا تو کرےگا کیا.اور دوسرا وہ جو دوسری تمام انسانی اہلیتوں کے ساتھ شعر گوئی کی بھی اہلیت رکھتا ہے.سو ظاہر ہے کے جہاں تک محض شعر کا تعلق ہے امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں.داغ صرف شاعر تھے اور کچھ نہیں.امیر سب کچھ تھے مگر وہبی شاعر نہیں.داغ کا سرمایہ ہستی اسکی شاعری تھی اور امیر کے لیے یہ امر باعث فخر و ناز نہ تھا.داغ نے تمام عمراسی ماحول میں بسر کردی جو گوشت پوست کے متعلق ہونے والی شاعری کے لیے ضروری ہے اور امیر کو نماز پنجگانہ اور تہجد گزاری سے کہاں فرصت تھی جو اس طرف توجہ کرتے.
 ”ہر چند مراۃ الغیب(امیر کا دیوان اول)کی شاعری بھی صرف اسیر کی سی شاعری ہے جس میں جذبات وغیرہ سے بہت کم سروکار ہے لیکن خیر ایک مخصوص رنگ اس زمانے کا ہے جو اچھا نہیں تو برا بھی نہیں ہے لیکن”صنم خانہ عشق”لکھ کر انہوں نے کمال ہی کر دیا.غضب خدا کا امیر ایسا شخص اور عامیانہ جذبات نگاری میں اس سطح تک اتر آئے کہ،
رخسار نازک ہوں تو آج ایک مانوں گا نہ میںدو بوسے لوں گا جان من اک اسطرف اک اسطرف
“امیر ایسے سنجیدہ و متقی شخص کی طرف سے ہم یہ سب گوارہ نہیں کر سکتے.البتہ ایک بات میری سمجھ میں اب تک نہ آئ کہ وہ ہی امیر جو مرات الغیب میں یکسر بے آب و رنگ نظر آتے ہیں اور صنم خانہ عشق میں شرمناک حد تک عریاں ……کیونکر لکھنؤ پہنچ کر دفعتاً دہلی کی فضاؤں میں پہنچ گئے.لکھتے ہیں.
         ” کچھ آج نہیں رنگ یہ افسردہ دلی کا            مدت سے یہی حال ہے یارو مرے جی کا              کھاتے ہو قسم نہیں میں عشق             صورت تو امیر اپنی دیکھو              اک کنارے پڑاہوا ہے امیر      کچھ تمہارا غریب لیتا ہے     کوئی امیر ترا درد دل سنے کیونکر     کہ ایک بات کہے اور دو گھڑی روۓ
حیران ہوں کہ جس میں ایسے اشعار کہنے کی اہلیت ہو وو اپنے نام سے “مراۃ الغیب” اور “صنم خانہ عشق کی نسبت گوارہ کرے.”
                           (سالنامہ نگار پاکستان)مکتوبات نیاز نمبر دسمبر ١٩٨٥ء
امیرمینائی کے بارے میں نیاز کے استعجاب کی بنا پر کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں.کچھ رنگ زمانہ ، کچھ شوخی احباب اور کچھ محض تفنن طبع،ان سب کا اثر ان پر ہوا ہوگا اور چونکہ بقول نیاز امیر مینائی محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ اور بھی بہت کچھ تھے اس لیے بطور تفریح اوقات انہوں نے معاصرین کے رنگ میں کچھ کہا ہو.اس بارے میں سرراہے گفتگو کے نتیجے میں خلیق ابراہیم خلیق نے جو خود بھی دبستان لکھنؤ کے بہت ہی موقر مؤد رہے ہیں ایک ذاتی خط میں تحریر فرمایا.
“داغ اور امیر جس معاشرے سے تعلق رکھتے تھے اس میں اور اس سے پہلے کے معاشروں میں جنسی خواہشات و واردات کا برملا کھلم کھلا اظہارعمومی طور پر معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا.علماءومشائخ بھی فطری میلانات کو رد نہیں کرتے تھے اور حسرت موہانی کی زبان میں “زہد کی عصیاں نظری “عام تھی خواجہ میر درد جیسا صوفی صافی شاعر بھی اس سے مبرا نہیں تھا.ان کا شمار بھی حسرت موہانی کے نقطۂ نظر کے مطابق گنہگاران صالح میں ہو گا.وہ ذرا سنبھل کر چلتے تھے جبکہ دوسرے کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آجاتے تو ابتدال کی حدیں پار کر جاتے تھے.مومن جیسا متشرع بھی اپنی مثنویوں میں کھل کھیلا ہے..رہی ابتدال کی بات تو تقریباً سبھی اس سے آلودہ تھے.کسی کے ہاں مبتذل اشعار کی خاصی تعداد ہے کسی کے ہاں کم،کسی کے ہاں بہت ہی کم  یا نہ ہونے کے برابر ہے.ہمارے منافقانہ معاشرے میں حسرت موہانی،ان کے ہمنوا ترقی پسندوں اور دوسرے وسیع النظر اور کشادہ دل لوگوں کے علاوہ بیشتر علماء و مشائخ اور نقادانہ ادب میں شوخی طبع یا شئے لطیف کا فقدان اور ہوس کا وفور ہے…”
بعض محققین اور تزکرہ نگاروں نے امیر و داغ کا ذکر اس طرح کیا ہے گویا دونوں ایک دوسرے کے رقیب تھے یا دونوں کے شاگرد اور طرف دار انیسیوں اور دبیریوں کی طرح ہر وقت لاٹھی پونگے پر آمادہ رہتے تھے.اس باب میں نیاز کا یہ جملہ کہ”امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں ہے”خاصا قابل غور اور لحاظ ہے.امیر احمد علوی نے طرہ امیر میں اکثر جگہوں پر امیر اور داغ کے طرز ادا پر تبصرہ سا کیا ہے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے.نقوش کے ادبی معرکے میں کہیں امیر و داغ  کی معاصرانہ چشمکوں کا ذکر نہیں ہے ہاں ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے ایک جگہ دونوں کو حریف و مقابل کی حیثیت سے پیش کرنا چاہا ہے انہوں نے ایسی محافل کا ذکر بھی کیا ہے جہاں داغ کے تلامذہ امیر کے فن یا ان کے قدردانوں کی ٹوپی اچھالنے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن اس بارے میں خاصی چن بین کے باوجود دوسری کسی جگہ کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے خود امیر مینائی انتہائی شریف النفس  تھے اس بارے میں ان کے ایک خط کا حوالہ کافی ہوگا.امیر مینائی اور داغ میں بہت بے تکلفی تھی اس لیے داغ کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں:
“مدت کے بعد نوازش نامہ آیا.ممنون یاد آوری فرمایا.بندہ نواز مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کسی خط کا جواب قلم انداز کیا ہو.یہ میرے مقدر کی نہ رسائی ہے کہ کوئی خط نہ پہنچا ہو.”
داغ نے نظام دکن سے سفارش کی تھی کے امیر مینائی کو سلطان الاساتذہ کا خطاب مرحمت فرمایا جاۓ.یہ ذکر جب امیر کے نام ایک خط میں آیا تو حضرت امیر مینائی نے لکھا-….اول تو میں خطاب لینے کے قابل ہی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں اور پھر درخواست دے کر خطاب مانگنا تو بلکل پسند نہیں……میاں اب وقت آگیا ہے کے مرحوم کے خطاب بارگاہ شہنشاہ حقیقی سے عطا ہو.اور کوئی حوصلہ نہیں…امیر فقیر.”
یہ خط ٣١ مارچ ١٨٩٠ء کو مرزا داغ کو دکن بھیجا گیا.ان دنوں امیر مینائی رام پور میں تھے اس کے کئی برس بعد دکن جانا ہوا جہاں وہ اپنی لغت کی اشاعت کے سلسلے میں سرکاری گفتگو کے لیے گئے تھے.بعض حضرات کا خیال ہے کہ چونکہ انہوں نے نظام سے خطاب عطا کرنے کی درخواست نہیں کی تھی (عام طریقہ یہی تھا کہ امراء درخواست کرتے اور نظام منظوری دیتے تھے)اور ایک طرح نظام کے طریقہ کار کی توہین کی تھی اس لیے لغت کے سلسلےمیں بھی کوئی مالی امداد کا سبیتا نہ ہو سکا.دربار حیدرآبادی کو مستقل بدنامی سے بچانے کے لیے کہا گیا کہ نظام اپنی علالت کی وجہ سے امیر مینائی سے نہ مل سکے.
تھوڑے ہی دنوں بعد یعنی  آج سے ٹھیک سو برس پہلے ١٣ اکتوبر ١٩٠٠ء کو حضرت امیر مینائی رحلت فرما گئے اور وہیں حیدرآباد میں سپرد خاک کیے گئے.
حضرت امیر مینائی کی غزلیات مجموعہ نعت اور محاسن شعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ابو محمد سحرنے پی ایچ  ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ بھی کلام امیر کی خوبیوں پر لکھا ہے لیکن اس وقت بڑی ضرورت یہ ہے کہ امیر مینائی کی نثری تصنیفات اور ان کے نقد شعر کی روش پر تفصیل سے کام کیا جائے.اس کے لیے ضرورت ذہنی سکون اور مطالعے کی ہے کیونکہ ان کی نثری تصانیفکی تعداد بیس پچیس کے قریب ہے ان پر سیر حاصل تحقیقی کام کسی ایک فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہے.یہ کام تو کسی یونیورسٹی یا ادبی ادارے کی سرپرستی میں آسانی سے ہو سکتا ہے.یہ بھی ممکن ہے کے خانوادہ مینائی کا کوئی امیر زادہ کمر ہمت کس لے.اگر نئی صدی میں بھی یہ کام نہ ہو سکا تو خود بقول امیر..
 پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
چند غزلیں اور آرا
وصل ھو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کی بات کو کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائي کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے
کہتے ہيں آئے جواني تو يہ چوري نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھيں
آپ تو سوتے ہيں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
آدمی زاد ہيں دنيا کے حسيں ،ليکن امير
يار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
۲
اچھے عیسٰی ہو، مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں، تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سَو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بے تابی کو
ہجر اچھا، نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے
آگیا اس کا تصور، تو پکارا یہ شوق
دل میں جم جائے الہی، یہ خیال اچھا ہے
برق اگر گرمئی رفتار میں اچھی ہے امیر
گرمئیِ حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے

۳
تیر کھانے کی جو ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی جو تمنا ہے تو سر پیدا کر۔
۴
دن میرا روتا ہے میری رات کو
رات روتی ہے میرے دن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلیں کن کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے؟
۵
کہتے ہیں یہ اچھی ہے تڑپ دل کی تمہارے
سینے سے تڑپ کر کبھی باہر نہیں آتا۔
۶
ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
کچھ اور بلا ہوتی ہےوہ دل نہیں ہوتا
گردن تن بسمل سے جدا ہوگئی کب سے
گردن سے جدا خنجر قاتل نہیں ہوتا۔
۷
تری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے۔
۸
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گذرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے۔
امیر مینائی کے قریبی عزیز داری کے دعویدار اور معروف ادیب جناب قیصر تمکیں لکھتے ہیں؛
ایک ایسے دور میں جب کہ علم وادب کے اطوار و اقدار ہی بدل چکے ہوں معجزہ فن کی ترکیب، عوامی رابطہ، اداروں کی مرہون منت بن چکی ہو اور افکار شائستہ و جمیل کوحیثیت آثار کہنہ و فرسودگی دے کرنسیاً منسیا قرار دیا جا چکا ہو،امیرزادگان انگلستان کا یہ اقدام کہ ایک مرد متقی و مجذوب عصر کی برسی منائیں ہر آئینہ داد و ستائش کا مستحق ہے.اظہار تعجب اس تقریب پریوں بھی ضروری ہے کہ حضرت امیر مینائی اپنی قلندرانہ پاکباز حیات واعمال کی بنا پر مجالس ادب کے ان مرکزی دھاروں سے بلکل الگ تھے جہاں ضرورت شعری کا عذر کر کے اخلاقی وشرعی ردا کی دھجیاں اڑانا امر مستحسن خیال کیا جاتا ہے.
عام طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ ادیب وفنکار کا منکرشریعت و شرافت ہونا ایک امر لازمی ہے.گویا اگر کردار میں کجی اور افعال پر از معائب نہ ہوں تو اسے سندفن اور رتبۂ شعر عطا ہی نہ ہو سکےگا.افسوس یہ ہے کہ اس مفروضے کی ترویج میں بڑا ہاتھ ترقی پسندوں کی بے راہ روی کا بھی رہا ہے.ترقی پسند جوانوں کے ایک بڑے حلقے نے سرعام یہ دعوے کیےکہ کوئی شاعر جب تک پینے اور پی کر بہکنے کا قائل نہ ہواسکی رموز شعر سے واقفیت ہی مشکوک رہے گیامیر احمد مینائی کو یکسر فراموش کر دیے جانے اور ان کی خدمات کو زینت طاق نسیاں بنانے میں بھی یہی وجہ کار فرما رہی ہے کہ وہ متوازن شہری اور ثقہ بزرگ تھے اور ارتکاب انہوں نے کبھی بھی تمیز و تہذیب سے لا پرواہی کا نہیں کیا.اس پر طرہ یہ کہ تعلق ان کا ہمیشہ ہی مذہب کے اعلیٰ معیاروں اور اپنے الله و رسول سے رہا.جن احباب کی نظر میں مذہب.خواہ وہ کوئی مذہب کیوں نہ ہو بیل کے لیے لال رومال لہرانے کی سی کیفیت رکھتا ہووہ کسی ایسے شاعریا ادیب کو کیسے انگیز کر سکتے ہیں جس نے پورا ایک دیوان ہی نعت کا مرتب کر ڈالا ہو اور جو اپنے لیے موءجب افتخارو امتیاز یہی ایک بات سمجھاتا ہوں کہ اسے رحمؐتہ العالمین کی غلامی کا شرف حاصل ہے.امیر احمد مینائی کے اس مخلصانہ  و والہانہ دیوان نعت کے بارے میں میرےجدامجد حضرت مولانامحسؒن کاکوروی نے فرمایا تھا-
یہ دیواں کیا ہے گویا اک گلستاں ہے ہدایت کا
ثمرہے یا کہ محبوب الٰہیّ کی رسالت کا

جب ١٨٥٧ءمیں فرنگی سازشوں اور سامراجی مظالم کے خلاف بغاوت کے شعلے لکھنؤ میں بھڑک اٹھے تو حضرت امیر مینائی شہر سے آٹھ میل دور مغرب میں اودھ کے مردم خیز قصبے کا کوری میں پناہ گیر ہوئے اور وہاں اپنے ہم عصر اور اس زمانے کے بلند پایاوکیل و مصنف محسن کاکوروی کے مکان پر قیام پذیر ہوئے.اپنے دوست کے اخلاص و مروت اورعشق رسول سے محسن کا کوروی بہت متاثر ہوئے.انہوں نے اپنے نومولود نواسے کا نام بھی امیر احمد رکھا- محسن کا کوروی  کے بیٹے نورالحسن نیر کا کوروی تھے جو ان دنوں ایسی فرہنگ مرتب کرنے میں مصروف تھے جس میں لکھنؤ اور اسکے اطراف و اکناف میں بولی جانے والی اور ہمہ وقت تغیر پذیر اردو زبان کے الفاظ و اصطلاحات جمع کی جا سکیں.اسی کوشش میں انہوں نے اپنی نادر روزگار لغت نوراللغات مرتب فرمائی اور اپنے گھر کو نور اللغات آفس کا نام دیا.یہی دفتر نوراللغات راقم الحروف کا ددھیال تھا.الانہ محسن کے نومولود نواسے امیر احمد اس خاکسار کے دادا تھے.اس طرح راقم اگرچہ براہ راست امیر زادگان میں نہیں ہے مگر پھر بھی ادب  و شعر کے وسیلے سے امیر مینائی مرحوم سے ایک واسطہ تو رکھتا ہی ہے چناں چہ آج کی تقریب اور اس میں شرکت کی سعادت سب سے زیادہ اسے خاکسار کے لیےموجب مسرت ہےبرسبیل تزکرہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا اس موقع پر نامناسب نہ ہوگا.امیر مینائی علامہ محسن کا کوروی کے ہم عصراورقریبی دوست تھے لیکن تاریخ ادب اردو کے مصنف رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ حضرت محسن کا کوروی، امیر مینائی کے خورد اور شاگرد تھے۔ یہ غلط فہمی یوں ہوئی کہ وہ مصنف نوراللغات اور محسن کا کوروی کے باپ بیٹے کے رشتے سے نہ واقف تھے(انہیں معلوم نہیں تھا کہ نورالحسن نئیرکا کوروی مصنف نوراللغات اصل میں علامہ محسن کے صاحبزادے تھے .وہ مصنف نوراللغات کو بزرگ سمجھے) والد مرحوم مشیر احمد علوی ناظرکاکوروی نے سکسینہ صاحب کو اس غلطی کی طرف توجہ دلائی.سکسینہ صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ کتاب کی بعد کی اشاعتوں میں اس کی تصحیح کر دینگے مگر یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک لوگ راقم کے دادا امیر احمد علوی کو علامہ محسن کے نواسے کے بجاۓانکا بیٹا تصور کرتے ہیں.”افکار”کراچی کی اشاعت میں بھی یہی غلط فہمی حال ہی میں دہرائی گئی اور یہ لکھا گیا کے علامہ محسن راقم الحروف کے پر دادا تھے.
میں نے بہت سی باتیں بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں جن کی تصدیق یا تردید کا کبھی وقت نہ مل سکا .حال ہی میں میرے ایک استفسار کے جواب میں علامہ نورالحسن نیر کا کوروی کے پوتے مولوی اطہر محسن علوی نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ان کا ذکر بہت ضروری ہے تاکہ حیات امیر کے سلسلے میں ایک اور بیان بھی ملحوظ خاطر رہے:
       ”امیر مینائی ١٦ شعبان ١٢٢٤ ہجری (مطابق ١٨٢٦عیسوی)میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم والد کی سر پرستی میں حاصل کی اس کے بعد علماۓ فرنگی محل اور دیگرعلماۓ عصر مثلاً سعدالله(شاگرد مفتی صدر الدین آزردہ)سے تحصیل علم کی. شاعری کا مشغلہ اگر تکمیل علم سے پہلے شروع ہو جاۓ تو علوم کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.امیر کے والد نے اس کا خیال رکھا.ایک بار امیر اپنے والد کے پیرداب رہے تھے والد نے پوچھا کہ تم شاعری بھی کرنے لگے ہو. ہم بھی سنیں ہمارا امیر کیسے شعر کہتا ہے.جواب میں امیر نے شرماتے ہوئے بتایا، کہ بارش نہیں ہو رہی ہے.لوگ پریشان ہیں.موجودہ کیفیت کو میں نے اس طرح نظم کیا ہے..
                              ''ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی
                              اس غم سےہےآباداشکوں کی روانی''

شفیق باپ نے بیٹے کی کوششوں کو سراہا لیکن ساتھ میں ہدایت کی کے پہلے علوم متدادلہ سے کماحقہ واقفیت  پیدا کرلیں اس کے بعد شاعری کریں.یہی وجہ ہے کہ امیر احمد مرحوم نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاعری کی طرف توجہ کی.جس ماحول میں تربیت ہوئی اسکا تقاضا تھا کہ وہ ایسا استاد تلاش کرتےجو ان کے مذاق کا ساتھ دیتا چناں چہ مظفرعلی خاں اسیر کا سا استاد ان کو مل گیا جو رکاکت وابتدال سے بلند تھا.اسیر ہی کی وساطت سے ١٨٥٢ء میں امیر کو واجد علی شاہ کے یہاں ملازمت حاصل ہوئی اسی دوران امیر نے ارشاد السلطان اور ہدایت السلطان نامی کتابیں لکھیں ابتدائی کلام کا مجموعہ جس کو بہارستان کے نام سےموسوم کیا تھا ١٨٥٧ء کے ہنگامے میں تلف ہوگیا چناں چہ اس زمانے کا جو رنگ تھا اس کا اندازہ پوری طرح نہیں کیا جا سکتا ہے جو تھوڑا بہت کلام ملتا ہے اس میں اخلاقی مضامین پاۓ جاتے ہیں.مثلاً
حوصلہ عالی اگر ہو ہر جگہ معراج ہے
دار بھی ہے شاخ سدرہ دیدہ منصور میں

واجدعلی شاہ کی معزولی اور شہر کے ہنگاموں نے دیگر شرفا کی طرح امیر مینائی کو بھی لکھنؤ چھوڑنے پر مجبور کیا.امیر کاکوری چلے گئے جہاں محسن کا کوروی کی صحبت نے امیر کے نعت گوئی کے جذبے کو شہ دی.محسن کے قصیدے،ابیات نعت کی تضمین جو امیر نے کی وہ اسی فیض صحبت کا نتیجہ ہے.امیر مینائی مرحوم نے کاکوری کے کس گھر میں کب تک قیام کیا اسکا تزکرہ کہیں نہیں ملتا ہے.محسن کاکوروی کا جو مکان پھاٹک کے نامی قصبے کے محلے باؤلی سے متصل تھا ان کے  پڑپوتے حافظ رضوان علوی نے کھدوادیا اس لیے اب اس کا یا وہاں کے کتب خانے کا کوئی بھی نشان نہیں ہے.احسن الله ثاقب جنہوں نے امیر مرحوم کے خطوط ترتیب دیے تھے انہوں نے بھی اس مسلے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی.ثاقب کی اہمیت یہ ہے کہ وہ پہلے محسن کاکوروی کے شاگرد تھے جب ١٨٨٧ءمیں وو رامپور منتقل ہوئے تو حسب فرمائش محسن کاکوروی امیر مینائی کو اپنا کلام دکھانے لگے۔
اپنے عارضی قیام لکھنؤ کے دوران ١٨٨٥ء میں امیر مینائی نے ایک جریدہ “دامن گلچیں” کے نام سے نکالا.ابتدائی پرچوں میں ہندوستان کے بہترین شعراءطبع آزمائی کرتے تھے.امیر، داغ، جلال،  ریاض اور شوق وغیرہ نے بھی اس میں اپنا کلام چھپوایا.منشی امیر مینائی کے اصرار پر محسن نے دو تین غزلیں بھیجیں ایک غزل کا مطلع تھا.

غزل کہنے میں ہے تعمیل ارشاد امیر
بعد مدّت آج محسن خامہ فرسائی ہوئی

غالباً اسی شعر کی وجہ سے بعض تزکرہ نگاروں نے جن میں رام بابو سکسینہ بھی شامل ہیں حضرت محسن کا کوروی کو امیر مینائی کا شاگرد بھی لکھ دیا ہے.امیر مینائی کا لکھنؤ میں قیام عارضی ہی رہا اور وہ بقول امیراحمدعلوی چند ماہ بعد رام پور واپس چلے گئے اور “دامن گلچیں” کی کلیاں مرجھا گئیں.
جناب قیصر تمکین کی یاداشتیں اپنی جگہ درست اور یہ سوال اپنی جگہ درست کہ اتنی مختصر مدت میں امیر مینائی نے نواب واجد علی شاہ کے کہنے پر اتنی دقیق کتب کس طرح مرتب فرمائی تاہم پیر سیال کےامیر مینائی کو دیئے گئے القاب خود پیر سیال کی کم علمی اور کج فکری پر دال ہیں۔ پیرسیال ایک فرد کو ان القابات سے نواز رہے ہیں جو جناب ختم ؐالمرتبت کے لیے ایک پورا دیوان مرتب کرتا ہے اور اسے قابل شفاعت بھی گردانتا ہے۔البتہ یہاں ایک نکتہ قابل توجہ ہے کہ کیا واقعی اس معجزے کی کہانی جناب امیر مینائی نے لکھی ہے؟ اس کہانی کے لکھے جانے کی تفصیل تو ابھی آگے آرہی ہے تاہم یہ بات قابل توجہ ہے کہ شاہ علی اﷲ محدث دہلوی لکھنؤ، بادشاہ مرزا غازی الدین حیدر کے دور نوابی میں لکھنؤ تشریف لائے تھے۔ غازی حیدر کا دور اقتدار، ۱۸۱۴ سے ۱۸۱۹ کے درمیان ہے، اس دوران جناب شاہ صاحب اور احمد شاہ ابدالی کا بیٹا،
ہندوستان کی معاشی بدحالی کی وجہ سے لکھنؤ منتقل ہوئے۔غازی حیدر نے دونوں اصحاب کا وظیفہ مقرر کیا اور اس وظیفے کو ایک 'وقف'کی صورت میں محفوظ کردیا۔ آج تک ان کی اولادیں اس وظیفےکو حاصل کررہی ہیں۔ اس عنائیت کا صِلہ جناب شاہ صاحب نے ''تحفہ اثناعشری'' کی صورت میں دیا۔ اس کتاب کی وجہ سے لکھنؤ میں مناظروں کا بازار گرم ہواہے اور پہلا شیعہ، سُنی فساد لکھنؤ میں ۱۹۰۶ میں ہوا۔ بہرحال اس کتاب میں رجب کے کونڈوں کی نذر کو بدعت کہا گیا ہے۔ یعنی پیرسیال کا یہ دعوی کہ یہ کہانی امیر مینائی نے گھڑی ہے، جھوٹ ہے۔ ہم نے جان بوجھ کر جھوٹ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لیے کہ علمأ دین پر لازم ہے کہ جب تک انہیں کسی خبر کا یعقین نہ ہو اسے نشر نہ کریں ورنہ اس حدیث پیغمبؐر کی زد میں آجائیں گے جو جھوٹوں پر لعنت کے لیے کہی گئی ہے۔ یہان یہ سوال بجا طور پر دراز ہوسکتا ہے کہ امیر مینائی کی کہانی لکھنے کو ان کی لکھنؤ آمد پر کیوں اختصاص ہے؟ یہ اس لیے کہ آگے چل کر آپ مطالعہ کریں گے کہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے نوابین لکھنؤ نے شیعہ مذہب میں کیا کیا خرابیاں پیدا کیں۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ سوال کرے کہ شیعوں کی گمراہی امیر مینائی سے تو شروع نہیں ہوتی تو اس بات کا جواب ہم اس طرح دیں گے کہ آپ کو جو شیعہ گمراہ نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے معاشرے کی دھتکارے ہوئے طبقات جب اپنی بخشش کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں تو انہیں رحم اور معافی کاعندیہ یہیں سے ملتا نظر آتا ہے باقی اسلامی فرقے تو تمام انسانیت کو جہنم میں ڈالنے کے داعی ہیں۔ بہرحال یہ مقالہ اس بحث کا متحمل نہیں ہے۔
اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ امیر مینائی کے لکھنؤ آنے سے قبل یہ رسم لکھنؤ میں رائج تھی وگرنہ جناب شاہ صاحب اس سے واقف نہ ہوتے۔ اس سلسلے میں اسی طرح کی غلطی جناب مفتی غلام مصطفی رضوی صاحب کو لاحق ہوئی ہے جنہوں نے اس کہانی کا محض منظوم سمجھا ہے اور اسے منشی جمیل احمد کا کلام کہا ہے۔ اگر تو یہ کتابت کہ غلطی نہیں اور امیر کی جگہ جمیل نہیں لکھا گیا تو منشی جمیل احمد سے غالباً، مفتی صاحب کا مطلب علامہ جمیل مظہری ہوسکتا ہے۔ علامہ جمیل مظہری ایک بلند پایہ ادیب تھے۔ ان کا نام ادب کی دنیا میں نہائیت ادب سے لیا جاتا ہے ۔ وہ قادرالکلام شاعر اور سوزگذار مرثیہ نگار تھے۔ ان کی مرثیہ نگاری کی وجہ سے شائید مفتی صاحب کو ایسا مغالطہ پیدا ہوا ہو۔ چونکہ مفتی صاحب نے اپنے فتوی میں منشی جمیل کے بابت کوئی حوالہ نہیں دیا اس لیے ہم اس مغالطے پر کوئی بحث کرنے سے قاصر ہیں اور چونکہ مفتی صاحب نے کوئی ہرزہ سرائی بھی نہیں کی اس لیے ہم ان کی شان میں سخت زبان بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ بہرحال انہیں اپنے اس فتوی میں منشی جمیل احمد کا تعارف کرانا ضروری تھا۔ ہم یہ بہتر جانتے ہیں کہ علامہ جمیل مظہری کا ایک مختصر تعارف دج کردیں۔


How to use voice typing in Urdu