بدھ، 20 مارچ، 2013

Chakbast ke kalaam me Manzar o Jazbat nigari


چکبست کے کلام میں منظر و جذبات نگاری


            چکبستؔ کے بزرگوں کا وطن لکھنؤ تھا مگر ان کی ولا دت ۱۸۸۲ء میں فیض آباد میں ہو ئی ۔ چکبستؔ نے لکھنؤ ہی سے ۱۹۰۵ء میں کیننگ کالج سے بی۔ اے۔ اور ۱۹۰۸ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر نے کے بعد وکالت شروع کر دی۔ اس پیشے میں ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہو ئی اور ان کا شمار لکھنؤ کے ممتا ز وکیلوں میں ہونے لگا۔ ایک مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں وہ  ۱۲/فر وری ۱۹۲۶ء کو رائے بر یلی گئے، عدالت میں بحث کی اور سہ پہر کو لکھنؤ واپس آنے کے لیے رائے بریلی ریلوے اسٹیشن پر جیسے ہی ریل میں بیٹھے کہ فالج کا حملہ ہوا اور چندگھنٹوں بعد وہیں ان کا انتقال ہو گیا ۔

            چکبست ؔ کا ذہنی میلان ابتدا ہی سے شاعری کی طرف تھا۔ جس وقت چکبست ؔ نے ہوش سنبھالا، اس وقت لکھنؤ کی فضاء پر آتَش ؔ (خواجہ حیدر علی) انیسؔ(میر ببرعلی) اور دبیر (مرزا سلامت علی) کی شاعری کا رنگ چھایاہوا تھا اورغا لب ؔ کی شاعری کا سکہ پوری اُردو دنیا پر اپنی مملکت قائم کیے ہو ئے تھا۔ چکبستؔ نے ان تمام شعرأ کا اثر قبول کیا لیکن میر انیسؔ کے رنگ شاعری سے وہ سب سے زیادہ متا ثر ہوئے اور اکثر و بیشتر ان کے رنگ کو اپنا نے کی کوشش بھی کی، جس میں انہیں خاطرخواہ کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ اس کااندازہ ہمیں ان کی شاعری کا مطا لعہ کرتے وقت بخوبی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر شاربؔ ردولوی اپنے مضمون ’’چکبستؔ کی شاعرانہ اہمیت‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’مسدس کی ہیئت،لکھنؤکے محاورے، زبان کے انداز اوربعض خاص تراکیب کے استعمال کی وجہ سے کہیں کہیں ان کے یہاں انیسؔ و دبیر ؔ کا اثر معلوم ہونے لگتا ہے‘‘ (تنقیدی مباحث، ص:۱۷۱)
            چکبستؔ کی تمام شاعری میں حب الوطنی کا جذبہ مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ ان کی شاعری اسی جذبے کے اِردگرد گردش کرتی نظر آتی ہے۔ غزلیں ہوں، نظمیں یا مر ثیے، سب میں اس جذبے کی فراوانی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے شعری مجمو عے ’’صبحِ وطن‘‘ سے ان کی نظمیں  ’’خاکِ ہند‘‘، ’’ہمارا وطن دل سے پیارا وطن‘‘  اور ’’وطن کو ہم وطن ہم کو مبارک‘‘  کافی مشہور ہیں۔ خاکِ ہند کو خاص طور سے اردو کی وطنیہ شاعری میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس نظم میں چکبستؔ نے بڑے فنکارانہ انداز میں ملک کے روشن ماضی، اس کی روحانی عظمت اور وطن کے ان عظیم رہنماؤں کا ذکر کیا ہےجو ساری دنیا کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

            مندرجہ بالا خصوصیت کے علاوہ چکبستؔ کی شاعری میں منظر نگاری و جذبات نگاری کی بہتر ین مثا لیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔  حالاں کہ منظر کشی کی روایت اُردو میں ہمیشہ پسندیدہ سمجھی جاتی رہی ہے لیکن اردو میں اس کی اچھی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔ منظرکشی اورجذبات نگاری کے لیے، جس بلندتخیل، مشا ہدے کی گہرا ئی او رزورِ بیان کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب چکبستؔ کے یہاں بہ حسن و خوبی نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے مختلف قدرتی منا ظر کی اتنی حسین اور دلکش تصویریں پیش کی ہیں کہ وہ اصل سے بھی زیادہ حسین او ردلکش نظر آنے لگتی ہیں ۔ مثال کے لیے‘‘جلوہٴ صبح’’ سے اس کی مثال ملاحظہ ہو :
دریائے فلک میں تھا عجب نور کا عالم
چکر میں تھا گر داب صفت نیر اعظم
اٹھتی تھیں شعا عوں کی جو مو جیں شررِ دم
سیا رے حبا بوں کی طرح مٹتے تھے پیہم
تھی شورشِ طو فان سحر غرب سے تا شرق
آخر کو سفینہ مہ گر دوں کا ہوا غرق
وہ صبح کا عالم ، وہ چمن زار کا عا لم
مر غانِ ہوا نغمہ زنی کر تے تھے باہم
ہنگا مِ سحر باد سحر چلتی تھی پیہم
آرام میں سبزہ تھا تہِ چا درِ شبنم
ہرسمت بندھی نغمۂ و بلبل کی صدا تھی
غنچوں کی نسیمِ سحری عقدہ کشا تھی

            مندرجہ بالانظم میں شاعر نے صبح کا بڑا حسین منظر پیش کیا ہے ۔ پرندوں کی چہچہا ہٹ ، صبح کی فر حت بخش ہوا ، سبزہ پر شبنم کی بوندوں کی اتنی خوبصورت و دلکش تصویر وہی شاعر پیش کر سکتا ہے، جس کا مشا ہدہ کافی گہرا ہو ۔ ان کی نظم ‘‘دہرہ دون کی سیر’’ پڑ ھتے ہو ئے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے کسی مصور نے دہرہ دون کے پہاڑوں، دریاؤں اور چشموں کی تصویر یں کھینچ کر ہمارے سامنے پیش کر دی ہوں:
گھنے درخت، ہری جھاڑیاں زمیں شاداب
لطیف و سرد ہوا پاک و صاف چشمۂ آب
کمی کہیں نہیں شا دابیوں کے ساماں میں
ٹھہر گئی ہے بہار آکے اس گلستاں میں
جو دور جائیے بستی سے،اور ہی ہے سماں
یہ سوچتا ہے پہاڑوں کو دیکھ کر انساں
بشر پہ رعب یہ قدرت کا چھا گیا کیسا؟
یہ بل زمین کی تیوری پہ آگیا کیسا؟
بلندیوں سے جو ہو مائلِ نشیبِ نظر
فریب دیتا ہے ندی کا پیچ و خم اکثر
نگہ کو دور سے پانی جو ہے نظر آتا
سپید ناگ چلا جا رہا ہے بل کھاتا
ایسے اشعار وہی شاعر کہہ سکتا ہے جو فطرت کا حسن شناس ہو اورفطرت کی کیفیات کو اپنے قلب و نظر میں اُتار لینے کاہنر جانتا ہو۔ ان اشعار میں دہر دون کی پہا ڑیوں کے حسن کی حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے ۔ چکبست ؔ کی ایک اورنظم ‘‘کشمیر’’  میں بھی منظر نگاری کے بہترین نمو نے ہمیں دیکھنے کوملتے ہیں، جس کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر شاربؔ ردولوی فرماتے ہیں :
’’جہاںکشمیر کی تعریف کر تے ہیں،وہاں کشمیر کی صبح کی منظرکشی ان کے گہرے مشا ہدے او راظہار پر مضبوط گرفت کو ظا ہر کر تی ہے’’۔            (تنقید ی مبا حث ، ص:۱۷۳ )
            اس نظم ‘‘کشمیر’’ میں چکبستؔ نے وادی ِکشمیر کی جو تصویر پیش کی ہے،اس سے ہر کو ئی لطف اندوز ہو سکتا ہے مگر اس شخص کی بات کچھ او رہی ہو گی،جس نے قدرت کے اس جنت نما باغ کے دلکش مناظر کو اپنے ذہن میں بسا رکھا ہو ۔ یہ تصویر یں زندگی سے کتنی بھرپور، کتنی دلکش و دل آویز معلوم ہو تی ہیں، ان کااندازہ چکبستؔ کے ساتھ کیجیے :

ہر لالۂٴ کہسار ہے شکلِ گلِ راحت
داغ اس کے ہیں خالِ رخِ حورائے مسرت
کیا سبزۂ خوش رنگ ہے سرمایۂ عشرت
دل کے لیے ٹھنڈک ہے جگر کے لیے فرحت
ایسا نہیں قدرت نے کیا فرش کہیں پر
اس رنگ کا سبزہ ہی نہیں روئے زمیں پر
وہ صبح کو کہسار کے پھولوں کا مہکنا
وہ جھاڑیوں کی آڑ میں چڑیوں کا چہکنا
گردوں پہ شفق، کوہ پہ لالے کا لہکنا
مستوں کی طرح ابر کے ٹکڑوں کا بہکنا
ہر پھول کی جنبش سے عیاں ناز پر ی کا
چلنا وہ دبے پا ؤں نسیمِ سحری کا
            چکبست ؔ نے کا ئنات او راپنے ماحول کا تفصیلی مطا لعہ کیا تھا، جس کے جستہ جستہ ٹکڑے ان کی شاعری میں مصورانہ بانکپن لیے ہو ئے ہیں ۔ بقول کالی داس گپتا رضا:

‘‘ ‘‘راما ئن کا ایک سین’’،  ‘‘وطن کا راگ’’ اور  ‘‘گو کھلے’’ ، غرض کو ئی نظم ایسی نہیں ہے ،جس میں چکبستؔ نے فطرت کی تصویر یں پیش نہ کی ہوں لیکن،منظر نگاری کے سلسلے میں ‘‘سیر ِدہرہ دون’’،  ‘‘برسات’’ اور ‘‘جلوہٴ صبح’’ فطرت کی شاعری کے دلکش ادب پارے ہیں ’’۔( مقدمہ انتخابِ کلام چکبستؔ، ص: ۲۵)

            ان کی یہ منظر نگاری ان کےشخصی مر ثیوں میں جذبات نگاری کے ساتھ بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔ اپنے ایک نوجوان عزیز جن کا نام تیج نرا ئن چکبستؔ تھا، ان کی وفات پر انہوں نے ایک نظم بہ عنوان ‘‘نشترِ یاس’’ کہی تھی۔ یہ نظم ان کی جذبات نگاری کے سلسلے میں بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس نظم سے ایک بند ملاحظہ ہو:

دعائیں دیتے تھے جس گود میں کھلا کے تجھے      اسی میں آج سلایا کفن پنہا کے تجھے
گناہ گار ہوئے لکھنؤ میں لا کے تجھے          خموش بیٹھے ہیں اب خاک میں ملا کے تجھے
دعا کا غم نہ دوا کی ہے جستجو باقی
جو دل میں ہے تو ہے مرنے کی آرزو باقی

            اس نظم میں چکبستؔ نے اپنے جذبات کو جس طرح  خوبصورت لفظی پیرہن عطا کیا ہے، وہ ان کی فنکا رانہ مہا رت کی دلیل ہے ۔ چکبستؔ کی قوتِ مشا ہدہ او رالفاظ پر قدرت ایسی ہے کہ وہ کسی بھی منظر کی جب تصویر کشی کر تے ہیں تو اس کی جزئیات پربھی ان کی نگا ہ ہو تی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مخصوص منظر کی ہو بہو تصویر ہماری آنکھوں میں رقص کر نے لگتی ہے۔

            اس مضمون  میں اب تک ہم نے منظر نگاری سے بحث کی ہے اور اب آئیے جذبات نگاری کی طرف رخ کر تے ہیں اور ا س کے لیے ‘‘راما ئن کا ایک سین’’ سے بہترکو ئی دوسری نظم نظر نہیں آتی ۔  ‘‘راما ئن کا ایک سین’’ میں دو عظیم روحیں اپنے کر دار و عمل سے جن آفاقی صداقتوں کی مثال دنیا کے سا منے پیش کر تی ہیں، اس کا اظہار چکبستؔ نے بڑے جذ باتی اور ڈرا ما ئی انداز میں کیا ہے ۔ یہ نظم اپنی روانی ، شیر ینی اور شستگی کے اعتبار سے ان کی فنکارانہ صلا حیت کی آئینہ دار ہے۔ اس میں انسان کی عظمت ، درد و غم کی کسک او رزندگی سے پیار کا اظہار چکبستؔ نے بڑے مو ثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ اس نظم میں چکبستؔ کی جذبات و منظر نگاری اپنی انتہا کو پہنچی ہو ئی نظر آتی ہے ۔ جب رام چندر جی بن باس جانے کے لیے دیگر افرادِ خانہ سے رخصت ہو کر ماں کے پاس جاتے ہیں، اس وقت کی تصویر چکبستؔ نے اس طرح پیش کی ہے :
دل کو سبنھا لتا ہوا آخر وہ نو نہال
خاموش ماں کے پا س گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہو گیا ہے وہ ہے شدتِ ملا ل
تن میں لہو کانام نہیں زرد رنگ ہے
گو یا بشر نہیں کو ئی تصویرِ سنگ ہے
اس نظم میں آگے ماں کی کیفیت یوں بیان کر تے ہیں :
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نورِ نظر پہ دیدہٴ حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہو ئی لبوں کی بھری ایک سرد آہ
لی گو شہ ہا ئے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
چہرے کا رنگ حالتِ دل کھولنے لگا
ہر موئے تن زباں کی طرح بولنے لگا
            ماں کی دلی کیفیات کا اظہار،جس فطری خوبصورتی کے ساتھ کیا گیا ہے،اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ایسے وقت جب کہ بیٹا ماں سے چالیس سال کے لیے جدا ہو رہا ہو اور اس پر سے طرفہ تماشہ یہ ہو کہ جنگل میں جانے کے لیے رخصت ہونے آیا ہو، ایسے میں کون ایسی ماں ہوگی ،جو اپنے لاڈلے کو جنگل میں جانے کی اجازت دے دی گی او روہ بھی کس کلیجے سے؟ اب جب کہ رام چندر جی رخصت ہو نے کے لیے ماں کے پاس آئے ہیں، اس وقت کی کیفیت، منظر و جذبات نگاری ملا حظہ ہو :
روکر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں
میں جانتی ہوں،جس لیے آئے ہو تم یہاں
سب کی خو شی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہر گز کہوں گی ہاں
کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں
جو گی بنا کے راج دلا رے کو بھیج دوں
لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
ہو تے نہ میری جان کو سامان یہ بہم
ڈستا نہ سانپ بن کے مجھے شو کت و حشم
تم میرے لال تھے مجھے کس سلطنت سے کم
میں خو ش ہوں پھو نک دے کو ئی اس تخت و تاج کو
تم ہی نہیں تو آگ لگا ؤں کی راج کو
            یہ اشعار چکبستؔ کے زبردست مشا ہدے او رانسانی نفسیات پر ان کی گرفت کی غما زی کرتے ہیں ۔ یہاںشاعرنے جذبات نگاری و منظر نگاری کا جو امتزاج پیش کیا ہے، اس کے لیے دفتر کے دفتر سیاہ کرنے پڑیں گے ۔اس سلسلے میں شارب  ردولوی اپنی آراٴ کا اظہار یوں کرتے ہیں:
‘‘ راما ئن کا ایک سین’’  میں ایک اور خصوصیت سامنے آتی ہے او روہ ہے جذبات نگاری ۔۔۔جذبات نگاری کا فن کافی دشوار ہے ۔ اس لیے کہ انسانی  جذبات کی سطحیں،رشتے اور تعلقات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے کامیاب جذبات نگاری کے لیے انسانی نفسیا ت سے واقفیت او راس کے اظہار کے لیے زبان پر پوری قدرت لازمی ہے ور نہ حقیقی جذبات نگاری نہیں ہو سکتی’’ (تنقید ی مبا حث ،ص:۱۷۶)
            چکبستؔ کی نظموں کو پڑ ھنے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انہیں منظر نگاری و جذبات نگاری کے فن پر زبردست گرفت حاصل تھی ۔ ان کی منظر و جذبات نگاری، ان کے گہرے مشا ہدے ، قدرتی مناظر کی بہتر ین تصویر کشی او رانسانی نفسیات و کیفیات پر ان کی ما ہرا نہ فنکا ری کی دلیل ہے ۔

            کتابیات :

۱۔چکبست لکھنوی،  (صفحہ  ندارد)،  صبحِ وطن،  انڈین پریس لمیٹیڈ، الہ آباد
 ۲۔چکبست، گپتا، کا لی داس گپتا(مرتب)، ۱۹۸۱ء، کلیاتِ چکبست (نظم)،  ساکار پبلشرز پرائیوٹ لمٹیڈ، بمبئی
۳۔ تنقیدی مباحث،  پروفیسرشارب ردولوی، ایجو کیشنل پبلشنگ ہا ؤس،  دہلی۔۱۹۹۵ء
۴۔چکبست اور باقیاتِ چکبست،  کالی داس گپتا رضا، ومل پبلیکیشنز، بمبئی۔۱۹۷۹ء
۵۔چکبست: حیات اورادبی خدمات، ڈاکٹر افضال احمد، سرفراض قومی پریس، نادان محل روڈ، لکھنؤ۔۱۹۷۵ء
۶۔ روحِ چکبست، رضوان احمد، رام نرائن لال ارون کمار، کٹرہ، الہ آباد۔۱۹۸۸ء

نوٹ: یہ ٕضمون ’’نیا دور‘‘، لکھنؤ میں فروری ۲۰۰۸ میں شائع ہو چکا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...