جمعرات، 28 مارچ، 2013

Aarzu Lakhnavi ki Ghazal Goyi

آرزوؔ لکھنوی کی غزل گوئی



اردو شاعری کی تاریخ میں دبستان لکھنؤ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ شاعری کی تمام اصناف سخن میں ریختی اور معاملہ بندی کو چھوڑ کر اس دبستان نے اردو زبان کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اس کا اعتراف تمام اہل اردو کو ہے۔ اردو شاعری کی ابتدا سے دورِ حاضر تک غزل ہمیشہ ہی شاعروں کی پسندیدہ صنف سخن رہی ہے۔ترقی پسند تحریک کے دور میں کئی ادبیوں نے غزل کی گردن زدنی کا اعلا ن کیا لیکن اس دور میں بھی اصغرؔ گونڈوی، فانی بدایونی، اقبال سہیل، حسرتؔ موہانی اور جگرؔ مرادآبادی نے یہ ثابت کر دیا کہ غزل ہمیشہ وقت کے ساتھ رہی ہے اور رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ غزل ہمیشہ سے اردو کی تمام اصناف سخن میں سب سے زیادہ مقبول صنف رہی ہے اور شاید آئندہ بھی رہے گی۔ غالبا غزل کے اسی کس بل کو دیکھتے ہوئے اسے اردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے۔ اردو شاعری کی اسی مقبول ترین صنف کو آرزوؔ لکھنوی نے اپنی طبع آزمائی کے لیے منتخب کیا اور اپنی جولانیٔ طبع کے جوہر دکھائے۔ ویسے تو انہو ں نے اپنی طبعِ رساکا جوہر دکھانے کے لیے قصیدہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، مرثیہ اور سلام بھی بہ کثرت کہے ہیں، جن کے دیکھنے سے ان کی پُرگوئی اور زبان پر بے پناہ قدرت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن جو چیز ان کی ناموری کا اصل سبب بنی ،وہ غزل ہی ہے۔

آرزو لکھنویؔ کا اصل نام سید انور حسین اور عرفیت منجھو صاحب تھی۔ ان کی ولادت 1872ء میں لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ ان کے والد میر ذاکر حسین، یاسؔ لکھنوی بھی شاعر تھے۔ انہوں نے بیٹے کی ولادت پر مادۂ تاریخ یوں رقم کیا تھا:
بار دیگر شکر کردم از زبان

پانچ سال کی عمر سے آرزوؔ کا سلسلۂ تعلیم شروع ہوا۔ فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں حکیم میر قاسم علی صاحب سے پڑھیں۔ اس کے بعد جو کچھ تعلیم حاصل کی وہ مولانا سید آغاحسن صاحب سے حاصل کی۔ علمِ عروض حکیم میر ضامن علی جلالؔ لکھنوی سے سیکھا اور ان ہی سے اصلاحِ سخن بھی لیا۔ چوں کہ گھر میں شعر و شاعری کا ماحول تھا یعنی والدِ بزرگوار اور بڑے بھائی میر یوسف حسن، قیاسؔ لکھنوی شاعر تھے۔ لہٰذا سید انور حسین، آرزوؔ لکھنوی نے بھی بارہ سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ استاد کی توجہ اور محنت سے لکھنؤ کے باکمال شاعروں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہو ں نے شاعری پر اتنی مہارت حاصل کر لی کہ استاد نے اپنے دوسرے شاگردوں کو انہیں کے پاس بھیج دیا۔ جلالؔ لکھنوی کی وفات کے بعد آرزوؔ کو ان کی گدی مل گئی۔ آرزوؔ نے تقریباً 15 برس کی عمر میں اپنی پہلی غزل نواب منجھلے آغا صاحب معینؔ کے مشاعرے میں پڑھی تھی۔ یہ مشاعرہ طرحی مشاعرہ تھا اور طرح تھی ’’انجمن میں نہیں، چمن میںنہیں،‘‘ آرزو لکھنوی کی غزل کا مطلع تھا:
ہمارا ذکر جو ظالم کی انجمن میں نہیں
جبھی تو درد کا پہلو کسی سخن میں نہیں
ایک اور شعر یوں تھا کہ :
شہیدِناز کی محشر میں دے گواہی کون
کوئی لہو کا بھی دھبہ مرے کفن میں نہیں
ان دونوں اشعار سے اس شاعرکی طبعِ رسا کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے، جو پندرہ برس کے سن میں اس بلند پایہ تخیل کے شعر کہہ رہا ہو۔ کم سنی میں اس طرح کا زبان و بیان، لطافت اور نکھرا ہوا شعری ذوق دیکھ کر لکھنؤ کے اہلِ زبان واہ واہ کہہ اٹھے۔ پھر کیا تھا آرزو کا چرچا ہونے لگا اور ان کی مشق نے آگے آنے والے دنوں میں یہ ثابت کر دیا کہ یہ بچہ ایک ہونہار طالب علم ہے اور آئندہ خاندان کا نام روشن کرے گا۔
آرزوؔ کے زمانے کا لکھنؤ آج کا لکھنؤ نہیں تھا۔ اس زمانے کے لوگ جب کسی ہونہار بچے کو جان لیتے تھے تو اس کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے تاکہ بچہ اپنی مشق جاری رکھے اور آگے چل کر نام پیدا کرے۔ ایسے ہی ایک بزرگ میرن صاحب تھے، جنہوں نے آرزو کو ایک دن یہ مصرع دیا:
’’ اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں‘‘
مصرع دے کر بزرگوار نے کہا کہ ’’صاحب زادے تم اس پر ایک سال میں مصرع لگا دو تو میں تمہیں شاعر مان لوں۔‘‘ انہوں نے کہا میں ابھی کوشش کر کے دیکھتا ہوں، کیوں کہ ایک سال زندہ رہنے کا کیا اعتبار ہے۔ یہاں تو ایک سانس کے بعد دوسری کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ تھوڑی دیر کے غور و فکر کے بعدہی اس پر یہ مصرع لگا دیا کہ:
’’دامن اس یوسف کا آیا پرزے ہو کر ہاتھ میں 
اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں‘‘
ان اشعار کو دیکھ کر آرزوؔ کی موزونیِ طبع کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے شروع شروع میں اپنے استاد کی شاعری کا رنگ اختیار کیا تھا، جسے ہم ان کی شاعری کا دور اول کہہ سکتے ہیں۔ ان کی اس دور کی شاعری میں جذبات کا دریا بے اختیار ہو کر بہتا چلا جاتا ہے۔ آرزو کا شمار ان شعرأمیں ہوتا ہے، جنہوں نے لکھنوی زبان کو بھی سنوارنے کا کام کیا۔ انہوں نے زبان و قواعد اور عروض پر کافی کام کیا اور اس سلسلے میں ان کا رسالہ ’’نظامِ اردو‘‘ ایک اہم تصنیف سمجھا جاتا ہے۔


آرزو لکھنوی اردو کے ان چند باکمال شعرأمیں سے ہیں، جن کا قلم نثر کے میدان میں بھی بڑی روانی سے چلتا ہے۔ چنانچہ کئی قابل قدر ڈرامے مثلاً ’’متوالی جوگن‘‘، ’’دل جلی بیراگن‘‘ اور ’’شرارۂ حسن‘‘ وغیرہ ان کے قلم سے وجود میں آئے۔ انہو ں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی پہچان، ان کی غزلوں سے ہی ہے۔ ان کے کلام کے چار مجموعے ’’فغانِ آرزوؔ‘‘، ’’جہانِ آرزوؔ‘‘ ، ’’بیانِ آرزوؔ‘‘ اور ’’سریلی بانسری‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ زبان و بیان پر ایسی مہارت حاصل تھی کہ ان کا کچھ کلام ایسا بھی ہے، جس میں فارسی و عربی کا ایک لفظ بھی شامل نہیں ہے۔ گاندھی جی اسی زمانے میں ہندوستانی زبان کے فروغ کی کوششیں کر رہے تھے۔ لہٰذا آرزوؔ نے ہندوستانی میں بھی اپنی دھاک جمائی۔ بمبئی اور کلکتہ کے تھیٹروں کے لیے ڈرامے اور فلموں کے لیے نغمہ نگاری بھی کی کیوں کہ ڈراموں اور فلموں میں ہندوستانی کو خاص طور سے پسند کیا جاتا تھا۔ ان کی اس رنگ کی شاعری کو ’’سریلی بانسری‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آسان زبان میں لکھنے کے باجود وہ اپنے خیالات وجذبات کا اظہار بڑے سلیقے سے کر لیتے تھے۔ لکھنوی زبان کے اس استاد شاعر کا انتقال ۱۹۵۱ میں کراچی میں ہوا۔


آرزو کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا دور، ان کی شاعری کا ابتدائی زمانہ ہے، جس میں حضرت جلالؔ لکھنوی کا اثر خاص طور سے نمایاں ہے۔ آرزو کی شاعری کا یہ وہ دور ہے، جس میں انہوں نے بڑی محنت اور زبردست طریقے سے شاعری کی مشق بہم پہنچائی۔ اس پہلے دور کا رنگ ذیل کے اشعار سے دیکھا جاسکتا ہے:
اس دل سے خدا سمجھے جس نے ہمیں مارا ہے

 جو دشمنِ جانی ہے وہ جان سے پیارا ہے 

راحت ہو کہ بے چینی دونوں میں ہے اک لذت
جو تم کو گوارا ہے وہ ہم کو گوارا ہے


خودکشی کا آپ پر الزام دھرتے جائیں گے 
ہم تو مرتے ہیں مگر بدنام کرتے جائیں گے 
مجھ کو میری روش مٹاتی ہے                    پاؤں کی خاک سر پہ آتی ہے 

اپنے کیے کا رونا کیا ہے

رونے سے آخر ہونا کیا ہے؟

سنگِ در اس کا خاک گلی کی
تکیہ کیا ہے بچھونا کیا ہے ؟

پھل نہیں اچھا عشق کا اے دل
ایسے شجر کا بونا کیا ہے ؟
ان اشعار سے ان کے ابتدائی رنگ شاعری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آرزو کی لگن، مشق اور فن عروض پران کی گرفت کو دیکھتے ہوئے استاد جلال لکھنوی نے اپنے کچھ شاگردوں کو ان کے سپرد کر دیا تھا کہ ان سے کلام کی اصلاح لیا کریں۔ یہیں سے آرزو کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں ان کی شاعری میں پہلے کے مقابلے تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے اور شاعری پر میرؔ اور مومنؔ کا رنگ غالب آنے لگتا ہے۔ اس دور میں ان کی شاعری میں سوزو گداز، رنج و الم، درد انگیزی اور تخیل آفرینی کی فضا شروع ہوتی ہے۔ ان کی غزلوں میں متانت و سنجیدگی کے باوجود شوخی، ادا اور چھیڑ کی ادا بھی پائی جاتی ہے۔ شگفتہ بحر، لفظوں کا موزوں انتخاب اور دلکش ترکیبوں کے ساتھ سوز و گداز کا عنصر کافی موثر ہو جاتا ہے۔ اس دور کی کیفیت کا اندازہ درج ذیل اشعار سے کیا جا سکتاہے:
پھر مرے زہد کے ساماں پہ تباہی آئی
قصد توبہ کا کیا تھا کہ جمائی آئی 

یوں آگ لگاتے پھرتے ہو کیوں جب گرم ہو اسے ڈرتے ہو
دل پہلے جلاکر خاک کیا اب ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہو

جاتے کہاں ہیں آپ نظر دل سے موڑ کے

تصویر نکلی پڑتی ہے آئینہ توڑ کے 

کیا جانے ٹپکے آنکھ سے کس وقت خونِ دل
آنسو گرا رہا ہوں جگہ چھوڑ چھوڑ کے 


ہم آنکھیں کھولے بیٹھے تھے جب سارا عالم سوتا تھا 
مانند چراغ اک سوختہ تن گہہ ہنستا تھا گہہ روتا تھا

پردہ اٹھ کر گر گیا ہم پھر بھی ہیں محروم دید
آنکھ میں آنسو تھے کیوں کر آنکھ بھر کر دیکھتے
آرزوؔ ہشیار تھے جو ہوش کھو بیٹھے کلیم
خیر آنکھوں کی نہ تھی گر آنکھ بھر کر دیکھتے

آرزوؔ کی شاعری کا تیسرا دور وہ ہے جب کہ ان کی شاعری میں ادا بندی، تصوف اور فلسفیانہ مضامین شامل ہوئے۔ یہ وہ دور ہے، جب انہیں ہر صنف کی طبع آزمائی پر پوری قدرت حاصل ہوچکی تھی۔ ان کی قادرالکلامی کا اندازہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ غزل کے علاوہ قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، رباعی وغیرہ میں بھی انہوں نے اچھا خاصا ذخیرہ چھوڑ ا ہے۔ ان کے دیکھنے سے نہ صرف ان کی پرگوئی کا بلکہ ان کے شاعرانہ انداز، تخیل، لب و لہجے اور زبان پر بھی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود زبان اورمحاورے میں بھی انہوں  نے ایک خاص روش اختیار کی تھی، جسے پڑھ کر میرؔ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ اس دور میں فلسفے نے ان کی شاعری پر غالبؔ کا رنگ بھی پیدا کر دیا تھا۔ مشکل سے مشکل صوفیانہ اور فلسفیانہ مضامین کو ایسی صفائی اور روانی سے ادا کر جاتے ہیں کہ قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ شاعر کیسا مضمون اتنی خوبی کے ساتھ ادا کر گیا۔ غالبؔ کی اکثر زمینوں میں آرزو ؔنے غزلیں کہی ہیں لیکن زبان و بیان اور طرز ادا کو دیکھنے سے میرؔ ہی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس دور کی شاعری کی مثالیں ملاحظہ ہوں:
دوست نے دل کو توڑ کر نقشِ وفا مٹا دیا
سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا
بیٹھا ہوں اپنے قتل کا ساماں کیے ہوئے 
یعنی خیالِ ناوکِ مژگاں کیے ہوئے 
یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں
آلودہ میرے خون میں داماں کیے ہوئے 

نہ تھا جس میں کوئی اس آنکھ میں اب اک تمہیں تم ہو
یہ گھر سنسان ہوکر بچ گیا سنسان ہونے سے 
بے کل ہے ادھر جی، تو ادھر آنکھ ہے چنچل 
دونوں میں پہل دیکھیے ہوتی ہے کدھر سے 

گھر یہ تیرا سدا نہ میرا ہے           رات دو رات کا بسیرا ہے 

کھینچ کر لوگ ترے در سے لیے جاتے ہیں
کیا محبت کے صلے یوں ہی دیے جاتے ہیں
یہی جینا ہے تو مرنے کو برا کیوں کہیے 
کوئی امید نہیں پھر بھی جیے جاتے ہیں 

شاعرانہ خصوصیات کا ذکر تب تک مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ آرزو کی خالص اردو کا ذکر نہ کیا جائے۔ ایسی غزلیں بہت سی ہیں اور خاص طور سے ان کامجموعۂ کلام ’’سریلی بانسری‘‘ اس سلسلے میں قابلِ ذکر ہے، جس میں انہوں نے عربی فارسی کے الفاظ سے گریز کیا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی آسان زبان میں وہ اپنے تاثرات و محسوسات نہایت خوبی اور روانی کے ساتھ کیسے نظم کر جاتے ہیں؟ ان کی خوبیِ زبان ایسی ہے کہ زمین کیسی ہی مشکل کیوں نہ ہو، ردیف کیسی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو؟ مگر ان کی آب دار طبیعت اپنی زبان دانی کے جوہر دکھا کے رہتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سہل ممتنع پر جو قدرت آرزو کو حاصل تھی، اردو شاعری میں بہت کم لوگوں کو ایسی قدرت نصیب ہوئی ہے۔ فارسی عربی الفاظ سے مبرا اشعار کی مثالیں دیکھیے:
اندھیرے گھر میں کبھی چاندنی نہیں آتی
ہنسی کی بات پہ بھی اب ہنسی نہیں آتی
کر ہی کیا سکتا تھا آنکھوں کا ذرا سا پانی
جب لگی بجھ نہ سکی کھول کے ابلا پانی
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی بہالے گیا برسات کا پہلا پانی 

نہیں کچھ اس کا پچھتاوا کہ جی کی رہ گئی جی میں
یہ جانے کون گھبراہٹ میں کیامنھ سے نکل جاتا 

جہاں لے کے پہنچی ہے جی کی اداسی
وہ کیسی جگہ ہے نہ گھر ہے نہ بن ہے 

ملی آنکھ ماتھے سے ٹپکا پسینا 
یہ چاہت کے ساون کی پہلی جھڑی ہے 

ہے ایک ہی ہو ناتو یہ ان بن نہیں اچھی
میرا نہ بن تو مجھے اپنا سا بنادے 

درج بالا اشعارکے مطالعے سے ہمیں آرزو کی زبان اور ان کے مشاہدات و تجربات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں اور یہ بھی کہ ان کا ذوق کتنا نتھرا ہوا تھا۔ شاعر جہاں عاشق و معشوق کی باتیں کرتا ہے، وہاں معاملات کیسے ہی نازک مرحلے کے کیوں نہ ہوں، اپنی انانیت کے جذبے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ انہیں تصوف اور فلسفے سے خاصا لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی کچھ کچھ جھلک درج بالا اشعار میں بھی نظر آتی ہے۔ ایک بات اور خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ تمام شعر سہل ممتنع کی مثال کے طور پر بھی پیش کیے جا سکتے ہیں۔


اب تک ہم نے آرزوؔ لکھنوی کی حیات ان کی شاعری کی خصوصیات کا جو مطالعہ کیا ہے، اس سے آرزو ؔکی زندگی، ان کی حیات،ان کے کارنامے اور شاعری کی جملہ خوبیوں کااندازہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ آرزوؔ لکھنوی کا شمار اردو زبان کے ان ماہرین میں ہوتا ہے، جنہوں نے زبان کی نوک پلک سنوارنے میں بڑی کاوشیں کی ہیں۔ شاعری میں خالص ہندوستانی زبان استعمال کرنے کا سہرا ان کے سر ہے، حالانکہ انشاء اللہ خاں کا نام بھی اس سلسلے میں لیا جاسکتا ہے، جنہوں نے ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ دیسی زبان میں لکھی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایک نے شاعری میں کمال دکھایا ہے تو دوسرے نے نثر میں۔

نوٹ: یہ مضمون ’’ نیا دور‘‘ لکھنؤ کے جنوری 2011  کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...