جمعہ، 30 نومبر، 2012

Deewan-e-Ghalib ki Pahli Ghazal: Tafheem-o-Tajzia

دیوانِ غالب کی پہلی غزل : تفہیم و تجزیہ 

غالب کی تفہیم کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے کو محیط ہے ۔ اس عرصے میں کتنے ہی دانشور، شارحین اورمحققین نے غالب کی شاعری کی مختلف جہا ت کا احاطہ کر نے کی کوششیں کیں لیکن کیا ان مفا ہیم تک ان کی رسائی ممکن ہو سکی؟ کیا شعر کے ان تمام پہلو ؤں کا احاطہ کر لیا گیا؟ جوکہ شاعر کا اصل مد عا تھا۔ کیاحقیقت میں ان مفاہیم تک شارحین پہنچ سکے جوکہ شاعر بیان کرنا چاہتا تھا؟ کیوں کہ غالب نے اپنے اشعار کی جو شرح خود پیش کی تھی، اسے ان کے لائق و فائق شاگرد یعنی حالی نے قبول نہیں کیا اور حالی نے جو تا ویل پیش کی، اس سے مختلف نظم طبا طبا ئی نے شرح پیش کی۔ اسی طرح طباطبا ئی کو حسرت موہانی نے، حسرت موہانی کو بیخود مو ہانی نے قبول نہیں کیا اور یہ سلسلہ یوں ہی شمس الرحمٰن فاروقی تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ اگر کسی ایک کی تاویل سے دوسرا سخن شناس مطمئن ہو تا تو شاید مزید تشریح کی ضرورت نہ پیش آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرعہد میں سخن فہم حضرات نے غالب کو اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کو ششیں کی ہیں اوراس سلسلے کے آئندہ بھی جاری رہنے کے قوی امکانات ہیں۔ میں تفہیمِ غالب میں کوئی اضا فہ تو نہیں کر سکتا، پھر بھی دیوانِ غالب کی پہلی غزل کے بارے میں، جسے ان کی سب سے زیادہ مشکل غزل سمجھا جاتا ہے، دو باتیں عرض کر نا چا ہتا ہوں ۔
غزل کا مطلع اپنے عہد کی روایت سے مختلف ہی نہیں بلکہ منفرد بھی ہے، جس میں غالب نے تنظیم دوجہاں اورانسانی تقدیر پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی حوصلہ مندی اور فکری بلندی تھی ورنہ زمانے کاعام چلن بنے بنائے راستوں پر ہی چلنے کا رہا ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شو خیِ تحریر کا 
 کاغذی ہے پیر ہن، ہر پیکرِتصویر کا

مطلعے کو پڑ ھتے ہی غالب کا یہ شعر :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے         جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے
بے سا ختہ ذہن میں آجا تا ہے اورغا لب کے ’’گنجینۂ معنی کے طلسم ‘‘ کا قا ئل ہو نا پڑ تا ہے۔ کیوں کہ اس شعر میں جس قدر معنوی پہلو پو شیدہ ہیں، اسی قدر صنعتیں بھی موجود ہیں۔ اس طرح کی تہ داری شاعری میں عام نہیں۔ اس شعر کی تشریح خود غا لب نے کی ہے کہ ’’نقش کس کی شو خیِ تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورت تصویر ہے، اس کا پیر ہن کا غذی ہے ۔ یعنی ہستی اگر چہ مثل تصا ویر اعتبار محض ہو، موجب رنج و آزار ہے ‘‘۔
شعر کی گرہ کھو لنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے شعر کے کلیدی لفظ کو تلاش کر لیا جائے ۔ اس کے ہاتھ آجانے کے بعد شعر کی گر ہیں خود بخود کھلتی چلی جائیں گی ۔ زیر بحث شعر میں لفظ ’’کِس‘‘ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے بعد ’’نقش‘‘ اور’’شوخیِ تحریر‘‘ خاص تو جہ کے طالب ہیں۔ اگر ’’کِس‘‘ کو خالقِ کونین کا استعارہ تسلیم کر لیا جائے تو شعر کے معنی کسی حد تک واضح ہو جائیں گے لیکن شعر کی معنو یت محدود ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ’’کِس کی‘‘ کے استفہام کا لطف بھی جاتا رہے گا، جو کہ اس شعر کی حقیقی جاذبیت ہے۔ پھر بھی اتنا کہا جاسکتا ہے کہ’’کِس‘‘ کا اشارہ خالقِ مطلق کی طرف ہی ہے کہ اس نے ازراہِ شوخی تصویر کو ناپائیدار بنایا ہے، اسی لیے تصویر اپنی زبان بے زبانی سے فریاد کر رہی ہے کہ جب ہستی کو نا پا ئیدار ہی بنا نا تھا تو اس میں اس درجہ کمال، اس درجہ کشش رکھنا کیا ضروری تھا ؟
دنیا کی یہ رنگا رنگی یہ کشش یہ دلفر یبی اور موہ کیا ہے ؟ جب کہ ہر چیز فانی ہے۔ 
قدیم زمانےہی میں  کیا آج بھی یہ چلن عام ہے کہ شعری مجموعوں کے آغا ز میں حمد، نعت اور منقبت  کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غالب نے روش عام سے گریز کرتے ہوئے، دیوان کے پہلے ہی شعر میں تخلیقِ کا ئنات پر سوالیہ نشان لگایا۔ اس شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غا لب کا ئنات کے فلسفے کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کا ئنات کا راز کیا ہے؟ جہاں ہر شئے مجبورو لاچا ر دکھا ئی دیتی ہے اورشاید اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہی انہوں نے کہا تھا کہ :
سبزہ و گل کہا ں سے آئے ہیں ؟
ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے ؟
جب کہ تجھ بن نہیں کو ئی موجود ہے 
پھر یہ ہنگا مہ ائے خدا کیا ہے ؟
اب شعر کے اس مفہوم کی طرف رخ کر تے ہیں، جس کا ذکر عموماً کیا جاتا ہے کہ ایران میں رسم تھی کہ فریادی فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر دربار میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ کیوں کہ  کاغذ کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، یہ ہوا کے تیز جھو نکے سے، آگ کی گرمی سے، حتٰی کہ ذرا سی رگڑ لگنے سے بھی تار تار ہو سکتا ہے، لہٰذا کا غذی پیرہن فریادی کی بے بساطی کی دلیل سمجھا جاتا تھا یعنی اس دنیا میں انسان کی ہستی ٹھیک کا غذی پیرہن کی طرح ہے، جس کی کہ کوئی ساکھ ،کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ چوں کہ مصور، تصویر کو کاغذ پر بناتا ہے، جس کا وجود عارضی اور بے بساط ہوتا ہے، اس لیے تصویر اپنے خالق سے جدائی پر فریاد کر رہی ہے۔ 
زیربحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کا غذ ی ہے پیرہن ہرپیکرِتصویرکا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے، لہٰذا ’’شوخیِ تحریر‘‘ سے اگر انسانی ’’شعور و احساس‘‘ مراد لیے جائیں اورسا تھ ہی ساتھ فرشتوں اور تمام جانداروں کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان کی عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے جو کہ خالق کائنات کی ’’شوخیِ تحریر‘‘ کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔
غا لب کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے، اس بات کو خاص طورسے ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی شاعری کا اصل جوہر استفہام، فلسفہ، فکر کی بلندی اور احساس کا وہ انوکھا پن ہے جو ہمارے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ اس لیے ان کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں مذکورہ با توں کا لحاظ خصوصی طورپر رکھنا ہوگا۔ اس شعر پر اگرصنائع لفظی اورمعنوی کے اعتبار سے غور کریں تو تلمیح، استعارہ، تجاہلِ عارفانہ، تجنیس صوتی اور حسن تعلیل کا ذکر کرنا ناگریز ہوگا لیکن ذہن نشین رہے کہ غالب کی شاعری میں ان چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اورتفکر و تخیل کی اول۔ اس شعر کے مفہوم کو واضح کر نے میں غالب ہی کا ایک شعر ہماری رہنمائی کچھ اس طرح کر رہا ہے کہ :
نہ تھا کچھ، توخدا تھا؛ کچھ نہ ہوتا، تو خدا ہو تا 
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہو تا؟ 
اس شعر کا پہلا مصرع بالکل واضح ہے اوردوسرا ہماری رہنمائی اس طرح کر رہا ہے کہ میرے وجود نے یا میرے ہو نے نے، مجھ کو یعنی انسان کو خوار و رسوا کیا ہے ورنہ میں تو ’’کُل‘‘ کا ’’جُز‘‘ تھا مگر افسوس کہ ’’کُل‘‘ سے بچھڑنے کے باعث میں کہیں کا نہیں رہا ۔ اس شعر کے اور بھی پہلو ہیں مگر ان کی تفصیل کا محل یہ نہیں ۔ اب ایک بار پھر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تصویر مصور سے یا ’’نقش‘‘ اپنے خالق سے جدا ہونے اوراپنے وجود کے عارضی ہونے کی شکا یت کر رہا ہے۔ 
کاو کاوِ سخت جانی ہا ئے تنہائی نہ پوچھ 
صبح کرنا شام کا، لا نا ہے جوئے شیر کا
اس شعر کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ انتظار محبوب میں رات گزارنا، جوئے شیر لانے کے مترادف یعنی اتنہا ئی دشوار گزار امر ہے۔ ائے سخت جان محبوب، میری تنہا ئی کے بارے میں مت پوچھ کیوں کہ جو کاوشیں، جو تدبیریں اور جو کوششیں میں اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے کرتا ہوں وہ جوئے شیر لانے سے کسی صورت بھی کم نہیں۔
اس شعر کا ایک مفہو م یہ بھی ممکن ہے کہ جوئے شیر لانے یا کوہ کنی کی تمام مدت میں جو مشکلیں، صعوبتیں اورجو سختیاں فرہاد پر گذریں، وہ مجھ پر ہر رات گذرجاتی ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر انتظار محبوب میں شام کو صبح کر نے کے اپنے عمل کو، کوہکن کی صعوبتوں سے بڑھ کر ثابت کرنا چاہ رہا ہو یا یہ کہ فرہاد پر جو گذری ہو سوگذری ہو لیکن میری مشکل، مجھے تو اس سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے۔ اگر شبِ تنہا ئی سے دنیاوی زندگی مراد لی جائے تو اس کی صبح کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ کوہ کنی کرنا۔
اگر صبح کو سفید اور شام کو سیاہی کی تمثیل تسلیم کر لیا جائے تو سیا ہی کے  بطن سے سفیدی پیدا کرنے کے عمل کو جوئے شیر لانے کے مترادف کہا جاسکتا ہے۔
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چا ہیے
سینۂ شمشیر سے باہرہے دم شمشیر کا 
اس شعر کی بنیاد ’’حسنِ تعلیل‘‘ پر ہے۔ اس لیے سب سے پہلے حسنِ تعلیل کی تعریف جان لینا مناسب ہوگا ۔’’تعلیل کے معنی ہیں وجہ بیان کرنا، وجہ متعین کرنا۔ یہ اس عمل کی خو بی و ندرت کی مثال ہے جب کہ کسی عمل یا واقعے کے لیے کو ئی ایسی وجہ بیان کی جائے جو چا ہے واقعی نہ ہو مگر اس میں کو ئی شاعرانہ جدت و نزاکت ہو اوربات فطرت اور واقعے سے مناسبت بھی رکھتی ہو تو اسے حسنِ تعلیل کہتے ہیں‘‘۔ چو نکہ ’دَم‘ لفظ اس شعر میں کلیدی حیثیت کاحامل ہے، اس لیے یہاں لفظ ’دَم‘ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ’دَم‘ کے معنی ہیں سانس، روح، جان، تلوار کی دھار، باڑ وغیرہ۔ تلوار کی دھار اندر کی طرف نہیں بلکہ باہر کی طرف ہو تی ہے، جو ایک فطری چیز ہے لیکن غالب نے جس خوبصورتی سے حسنِ تعلیل کی بنیاد پر اس شعر کی بند ش کی ہے، اس کالطف اہلِ نظر ہی جانتے ہیں۔ تلوار کے ’دَم‘ کو یا تلوار کی دھار کے باہر ہو نے کو اس کے قتل کر نے کی آرزو، عاشق کے جذبۂ بے اختیا ر شوق پر محمول کرنا، شا عرانہ جدت اور فکرکی با لید گی کا کمال ہے۔ 
عاشق کہتا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی آرزو میں تلوار اس قدر بے اختیار، بے قا بو ہوئی جا رہی ہے کہ دمِ شمشیر، سینۂ شمشیر سے با ہر نکل آیا ہے۔
محا ورہ ’’آپے سے باہر ہونا‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ عاشق کو قتل کر نے کے لیے تلوار اس قدر بے اختیار ہوئی جا رہی ہے کہ اس کا دم اس کے سینے سے باہرنکل آیا ہے ۔
عاشق کے شوقِ شہا دت کو دیکھ کر شمشیر کے بے اختیار ہو نے میں ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمشیر، شمشیرِحقیقی نہ ہو کر محبوب کے ناز و ادا کی شمشیر ہو، جس سے قتل ہو نے کے لیے عاشق بے قرار ہے کہ کاش میرا محبوب مجھے اپنے عشوہ و غمزے سے قتل کر دیتا تو میرے دل کی مراد پوری ہو جاتی ۔
آگہی، دامِ شنیدن جس قدر چا ہے بچھا ئے 
مدَّعا عنقاہے اپنے عالم تقریر کا 
زبان اظہار کا محض ایک ذریعہ ہے۔ شاعر جو کچھ کہنا چا ہتا ہے، اس کا اصل مقصد ان لفظوں اوربین السطور میں پنہاں ہوتا ہے، جن کا کہ وہ استعمال کر تا ہے یعنی اس کا منشا یہ ہو تا ہے کہ فکر و تخیل کی جس سطح سے اس نے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں تک سا مع و قاری کی رسا ئی ان لفظوں کے وسیلے سے ہو جائے، جن کا کہ شاعر نے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر قاری و سامع کی رسائی فکر کی اس سطح تک ہو ہی جائے، جہاں سے کہ شعر کہا گیا ہے کیوں کہ اس میں قاری وسامع کی بصیرت، سخن فہمی اورلیاقت کا دخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعر زیرِبحث میں غا لب چیلنج کر تے نظر آتے ہیں کہ :
آپ کی قوت فہم، سخن شناسی اور سخن فہمی کی صلا حیت، خواہ کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لے، اپنی لیاقت اور عقل مندی کے گھوڑے خواہ کتنے ہی کیوں نہ دوڑا لے مگر میں جس بلندی سے جو بات کہنا چاہتا ہوں، وہاں تک آپ کی رسائی ممکن نہیں ہے اور قطعی نہیں ہے۔ اس مو قع پراس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ غا لب کے ہم عصرانہیں مہمل گو کہا کر تے تھے۔ ممکن ہے اس شعرمیں ان حضرات کی طرف غالب کا تخاطب ہو۔ ساتھ ہی اس شعر میں یہ بات بھی پنہاں ہے کہ شاعر کو اپنی شاعری کے معیار اوراس کی دائمیت کا کسی قدر اندازہ ہوگیا تھا، جبھی تو انہیں بارگاہ ایزدی میں اپنے ہم عصروں کے لیے یہ دعا مانگنی پڑی تھی کہ :
یا رب! نہ وہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات 
دے او ردل ان کو ، جو نہ دے مجھ کو زباں اور 
ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری شاعری تمہا ری سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہی ہے کہ میں آج کا نہیں بلکہ آئندہ آنے والے زمانے کا شاعر ہوں۔ شاید اسی لیے انہیں یہ کہنا پڑا:
ہوں گر میِ نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشنِ ناآفریدہ ہوں 
زیر بحث غزل کا آخری شعر ہے :
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتش زیرِپا یعنی اضطرا بی کیفیت، بے چینی اور بے قراری۔ شاعر کہتا ہے کہ قید ہونے کے باوجود میری کیفیت سیمابی ہے اورمیرے جو شِ جنوں کے سامنے زنجیرکی کو ئی حیثیت نہیں ہے۔
گرفتارِ عشق، گرمیِ عشق سے بے قرار ہے اورعاشق کی آتشِ عشق سے زنجیرموئے آتش دیدہ یعنی بے وقعت ہو کے رہ گئی ہے۔ مذکورہ شعر کے مفہوم سے ملتا جلتا غالب کا ایک اور شعر ہے:
گر کیا نا صح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی 
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟
اب شعر کا مفہوم یہ ٹھہرا کہ عاشق کو گرفتار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ عاشق کی گرفتاری سے اس کا جنونِ عشق، نہ ہی کم ہوتا ہے اورنہ ہی فنا ہوتا ہے بلکہ اور فروغ پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عاشق کی سیمابی کیفیت نے یعنی اس کی آتش زیرپا ئی نے، زنجیر کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔
اب ہم ایک بار پھر جب غزل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس غزل کی ابتدا فطرت کے جبر سے ہو ئی تھی، جس کا انسان کے پاس کوئی چا رہ نہیں۔ فطرت کے سامنے انسان مجبور و بےبس ہے لیکن مقطعے تک آتے آتے بات اختیار کی منزل تک آگئی، جہاں انسان کی آتش زیرپائی نے فطرت کی زنجیروں کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی مجبوریوں کو موئے آتش دیدہ بنا دیا ہے اوراس طرح فطرت کے جبر کی گرفت ڈھیلی ہوتی نظر آتی ہے، اتنا ہی اس کا اختیار ہے اور بس۔

Munfarid Usloob ka Shaer: Akhtarul Iimaan

 منفرد اسلوب کاشاعر: اخترالایمان

بیسویں صدی کے نصف اول میں اردو شاعری کے دو اہم دھارے تھی۔ اول کا نام ’’ترقی پسند تحریک ‘‘تھا، جو اس وقت سب سے زیادہ مقبول اورمتحرک تھی۔ یہ جماعت زیادہ تر مارکسی خیالات کے حامی لوگوں کی تھی اور یہاں انہیں خیالات کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ دوم جماعت میں وہ شعرأ تھے، جو ترقی پسند تحریک کی جکڑ بندیوں و پابندیوں کے خلاف تھے۔ اس جماعت کو ’’ حلقۂ ارباب ذوق ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جماعت ماہرِ نفسیات فرائڈ کے علاوہ دیگر یورپی ناقدین کے خیالات سے متاثر تھی۔ یہ لوگ شعر و شاعری کے لیے کسی بھی طرح کی پابندی کے سخت خلاف تھے۔ اول جماعت نے جہاں خارجی مضامین باندھنے اور ادب برائے زندگی کو پروان چڑھانے کی کوششیں کیں تووہیں دوسری جماعت نے داخلی شاعری کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ اس طرح یہ دونوں جماعتیں دو الگ الگ سمتوں کی طرف رخ کر گئیں، جو ایک دوسرے کی ضد ہی نہیں بلکہ انتہا پر بھی تھیں۔ اسی عہد میں ایک شاعر ایسا بھی تھا،جس پران دونوں جماعتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے اپنا نصب العین خود طئے کیا۔ اس نے ان دونوں گروہوں سے دور رہ کراردو شاعری کو ایک نئی جہت  سے ہم کنار کیا، جسے آگے چل کر تیسری جہت کا نام دیا گیا۔

اردو شاعری کی تاریخ میں اخترالایمان ایک ایسا نام ہے جو اپنی طرز کا موجد بھی ہے اور خاتم بھی۔ اردومیں اس اعتبار سے اخترالایمان یگانہ و یکتا ہیں کہ انہوں نے پابند ہیئتوں کی کبھی پابندی نہیں کی۔ ان کی نظموں میں بند یا شعر کے بجائے تسلسل پایا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں بارہا یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مصرعوں کی تعداد طاق ہے جو کہ اردو شاعری کے مزاج اورروایت سے بالکل الگ ہے۔ وہ اپنے تخیل کو لفظوں کے پیرائے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں اور جہاں بات ختم ہو جاتی ہے، وہیں قلم رک جاتا ہے۔ ہیئت کے معاملے میں بھی انہوں نے اپنی راہ خود متعین کی، جس سے آگے چل کر اردو نظم گوئی کی تاریخ میں ایک نئی راہ کی داغ بیل پڑی۔ ان کے تمام ترشعری مجموعوں اور کلیات کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہے کہ انہوں نے مروجہ ہیئتوں کی کہیں بھی پابندی نہیں کی ہے۔ وہ اپنی بات کہتے چلے گئے ہیں اور جہاں بات ختم ہو گئی وہیں نظم کا اختتام ہو گیا۔ انہوں نے زیادہ ترنظم معرّیٰ اور آزاد نظم کے پیرائے ہی میں اپنے مافی الضمیرکی ادائیگی کی ہے۔

۱۹۵۰ء کے بعد کی اُردو شاعری کو میراجی نے سب سے زیادہ متا ثر کیا ہے۔ ان کے فن کے طریقۂ کار اورہیئتی تجربوں کے باعث متاخرین شعرأنے ان سے بھر پورفائدہ اٹھایا۔ اس عہد میں مقبول ہونے والے شاعروں میں اخترالا یمان، مجید امجد، منیب الرحمن او رعزیز حامد وغیرہ ہیں ،جن میں اخترالا یمان اورمجید امجد ملک کے ذبیحے سے پہلے ہی اپنا ایک مقا م قائم کر چکے تھے لیکن انہیں ان کے غیر نظر یاتی رویوں کے سبب آزادی کے بعد مقبو لیت نصیب ہو ئی۔

اخترالایمان کا اپنا ایک مخصوص لہجہ ہے اور نظم نگاری کا ایک خاص انداز بھی جو تمام اردو شعرأ سے انہیں ممتاز بناتا ہے۔ ان کی نظموں میں بیانیہ کی کیفیت اور ابتدائی مصرعوں کو بیچ بیچ میں دوہرا کر ان سے ڈرامائی تاثر پیدا کرنے کی کوشش پائی جاتی ہے جو ان کا اپنا ایک خاص انداز ہے۔ ان کی نظم نگاری کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ماضی اور حال کے درمیان ہی رہ کر اپنے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔  وہ اپنے مافی الضمیر کو بڑی خوبصورتی سے لفظوں کا جامہ پہناتے ہیں۔ آگے ہم ان کی نظموں کی خصوصیات کے اعتبار سے مختلف عنوانات قائم کرتے ہوئے ان کی نظم نگاری کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
  
خود کلامی

شاعری کی تین جہتیں ہو سکتی ہیں ۔ اول جہت وہ ہے، جسے خو د کلامی کی کیفیت کہا جاتا ہے اورجس میں شاعر کا تخاطب خود سے ہو تا ہے یعنی شاعر اس جہت میں اپنے آپ سے باتیں کرتا ہوا معلوم ہو تا ہے یا کبھی کبھی وہ اپنے آپ کو اور اپنے ذہن کو الگ الگ تسلیم کرتے ہوئے خود سے گفتگو کرتے  ہوئے نظر آتا ہے۔ مثلاً:  
ضعف بہت ہے میر تمہیں کچھ اس کی گلی میں مت جاؤ
صبر کر و کچھ اور بھی صاحب! طا قت جی میں آنے دو 
( میر)
خود کلامی یعنی اپنے آپ سے باتیں کرنے کی کیفیت اس شعر میں ملاحظہ کیجیی:
مو ت کا ایک دن معین ہے نیند کیوںرات بھر نہیں آتی
  ( غا لب)
اوپر درج کیے گئے اشعار میں شاعر کا تخاطب کسی اورسے نہیں بلکہ خود اپنی ذات سے ہے، اس طرح کی شاعری کو عموماً خود کلامی کی کیفیت کہا جاتا ہے۔ اخترالایمان کی بیشتر نظموں میں اسی طرح کی خود کلامی کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہی۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو اسی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً:

اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پو جوں گا
تا کہ گھبر اؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
 ایسے انسانوں سے پتھر کے صنم اچھے ہیں
 جن کے قدموں پہ مچلتا ہو دمکتا ہوا خوں
 اور وہ میری محبت پہ کبھی ہنس نہ سکیں
میں بھی بے رنگ نگا ہوں کی شکا یت نہ کروں
یاکہیں گوشۂ اہرام کے سناٹے میں
جا کے خوابیدہ فراعین سے اتنا پوچھوں
ہرزمانے میں کئی تھے کہ خدا ایک ہی تھا
اب تو اتنے ہیں کہ حیران ہوں، کس کو پوجوں
(تنہائی میں)
شاعری کی دوم جہت وہ ہے، جس میں شاعر براہِ راست دوسروں سے مخاطب معلوم ہوتا ہے۔ جیسے: 
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو 
کا خِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
(اقبال)
تیسری جہت وہ ہے، جس میں شاعر کا تخاطب نہ ہی اپنے آپ سے ہو تا ہے اورنہ ہی کسی اور سے۔ یہاں تخلیق کار کی یہ کوشش ہو تی ہے کہ اس نے دنیا کو جیسے اورجس طرح دیکھا ہے، اسے، اسی طرح پیش کر دے اور بس۔ اس تیسری جہت کی شاعری کی بہترین مثال اخترالا یمان کی تخلیقات ہیں۔ یہاں ہمیں ایک بات کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ اخترالایمان نے اپنا لب و لہجہ اوراپنی خاص پہچان اس وقت برقرار رکھی، جب کہ ایک طرف ترقی پسند تحریک کے زیراثر خطیبا نہ شاعری اوردوسری طرف حلقۂ اربابِ ذوق کے زیراثر ایسی شاعری فروغ پا رہی تھی، جسے ذات کی طرف واپسی کا نام دیا جا رہا تھا ۔ ان دونوں انتہا ؤں کے بیچ سے اخترالایمان نے اپنی راہ نکالی اوراس خو بی سے نکالی کہ ذات کے عرفان سے کائنات کو پہچا ننے کا سفر شروع کیا۔ مثال کے طور پراخترالا یمان کی مشہور زمانہ نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’عمر گریزاں کے نام‘‘، ’’دعا‘‘ اور’’ میر ناصر حسین ‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔

عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں
 اس کے دامن سے لپٹتا ہوں منا تا ہوں اسے
واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا 
داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے
خواب ادھورے ہیں جو دہراتا ہوں ان خوابوں کو 
زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے
صبح اٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں 
اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں 
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی 
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

یہ ایک معرّیٰ نظم ہے، جس میں شاعرکا تخاطب بظا ہر تو اپنی ذات سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا اشارہ دورِ حاضر کے ہماہمی کے مارے ہوئے انسان سے ہے، جس کے پاس حسرت ویاس تو ہے پروقت نہیں۔ یہ نظم آج کے مصروف ترین انسان کی زندگی کی عکاس ہے، جس کا لطف مکمل نظم کے مطا لعے سے ہی ممکن ہے۔ 

فلیش بیک کی تکنیک

اخترالا یمان کی ابتدائی نظمیں غنا ئی اورنیم غنائی کیفیت کی حامل ہیں ۔ انہوںنے زیادہ تر آزاد، معرّا اور بیانیہ نظمیں ہی کہی ہیں۔ نظم کی ہیئت ان کے یہاں دیگر شعرا ٔ کے مقابلے اپنا الگ رنگ اختیار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے نظم  اور نثر کی وسعتوں میں نئے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی اوراس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں نثری نظم کے امکانات بھی دیکھنے کوملتے ہیں۔ اخترالایمان کی نظموں کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خیال کے اعتبار سے لفظوں کا انتخاب کیا اور انہیں ایک شکل عطا کر دی ۔  اپنی اکثر نظموں میں وہ اپنے آپ کو ایک کر دار کی حیثیت سے بھی پیش کرتے ہیں، جو کہ اردو میں پہلا تجربہ ہے۔  ان کے کلیات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے زیادہ تر معرّیٰ نظمیں ہی کہی ہیں ۔ اپنی نظموں میں اخترالایمان نے ماضی کے دھندلکے کو چیر کر دیکھنے کی کوشش کی ہے، جسے پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے حال کو ملانے کے لیے فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کیا ہی۔ 

فلیش بیک کی تکنیک کااستعمال اخترالایمان کی طویل نظموں میں اکثردیکھنے کوملتا ہے۔ فلیش بیک کی مثال پیش کرنے سے پہلے اگر اس کی تعریف سمجھ لی جائے تو بہتر ہوگا۔ فلیش بیک کی تعریف پیش کرتے ہوئے پروفیسر کلیم الدین احمد ’’فرہنگ ادبی اصطلاحات‘‘ میںتحریر کرتے ہیں:
’’کسی فلم، ناول، افسانہ یا ڈرامے میں ایسے سین(مناظر) کو پیش کرنا جس میں ماضی کے واقعات ہوں۔ یہ ترکیب فلموں میں استعمال ہوتی ہی۔۔۔ لیکن ادب میں بھی یہ موثر ہوتی ہے۔۔۔‘‘
(فرہنگ ادبی اصطلاحات، ص۔7)

یہاں یہ عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صرف ماضی کے واقعات کو بیان کردینا ہی فلیش بیک کی تکنیک نہیں ہے بلکہ جب شاعر کسی واقعے یا قصے کا ذکر اپنی تخلیقات میں کرتا ہے، جس کا تعلق حال یا ماضی کے کسی خاص واقعے سے ہو اور ذکر کرتے کرتے وہ ماضی کے کسی واقعے کو من و عن دہراتا چلا جائے اور پھر اچانک چونک کر یا کسی کے یاد دلانے سے وہ پھر حال میں واپس آئے تواسے فلیش بیک کی تکنیک کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب تخلیق کار اپنے تخیل کا سہارا لے کرحال سے ماضی یا ماضی قریب کے کسی اہم واقعے کو یاد کرتے ہوئے،  اس واقعے میں گم ہو جائے، جیسے کہ کوئی محوخواب ہو اور اچانک کسی کے پکارنے یاخواب کے ٹوٹنے سے وہ پھر واپس اپنی پہلی کیفیت میں آ جائے تو ہم اسے فلیش بیک کی تکنیک کے استعمال کا نام دیتے ہیں۔ اخترالایمان کی طویل نظموں مثلاً: ’’ایک لڑکا‘‘، ’’عمر گریزاں کے نام‘‘، ’’بازآمد: ایک منتاج‘‘، ’’پگڈنڈی‘‘، ’’قبر‘‘، ’’پرانی فصیل‘‘ اور’’سبزۂ بیگانہ‘‘ وغیرہ میں ہمیں فلیش بیک کی تکنیک کے استعمال کا احساس ہوتا ہے لیکن ان نظموں میں صرف یادیں ہی یادیں ہیں، ان میں فلیش بیک کی اصل تکنیک نظرنہیں آتی ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک کو واضح کرنے کے لیے ہم یہاں ’’پسِ دیوارِ چمن‘‘ سے ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ اس تکنیک کے خد و خال پوری طرح اجاگر ہوجائیں۔

پھر چلی سوئے چمن زلفوں کو شانہ کرتی
اس تغافل سے کہ جیسے پئے گلگشت کوئی
یوں ہی جاتا ہو کوئی ملنے کا ارمان نہ ہو
اپنے سائے کے سوا اور سے پہچان نہ ہو
بدرقہ بوئے گلِ تر تھی کہیں بادِ نسیم
وہ ہی وہ فرش پہ تھی عرش پہ تھا ربِّ کریم
لہلہاتا ہوا سبزہ تھا ندی سہج خرام
چال ایسی کہ نہیں جس کا کہیں کوئی بھی نام
عنبرومشک کا اک قافلہ تھا زلف کا بار
یا کوئی ابرِ رواں دوشِ ہوا پر تھا سوار
پھول بوٹے ہمہ تن گوش تھے کچھ منہ سے کہی
خاک لپٹی چلی جاتی تھی قدم تھامے ہوئی
راہ میں کتنی جگہ شاخوں نے دامن پکڑا
بارہا شانہ سے بے دھیانی میں آنچل ڈھلکا
شاخ سی لچکی، تخیل سی رکی،اٹھلائی
ہر قدم پر نئے انداز سے ٹھوکر کھائی!
میں وہاں گوش برآواز جو بیٹھا تھا، اٹھا
اور اسے لینے کو آغوش میں جیسے ہی بڑھا
پاؤں الجھا، گرا، یوں آنکھ کھلی پچھلے پہر
اور دیکھا کہ ابھی باقی ہے کچھ شب کا سفر
یوں ہی بیٹھا رہا، دیکھا کیا ہوتے تحلیل
پل کو گھڑیوں میں، دنوں سالوں میں، لمحاتِ جمیل
زخم بنتے گئے، ناسور بنے، اشک بنے
ہم جو اک گردشِ پرکار تھی، ویسے ہی رہے!
ناچتا رہتا ہے آگے سحر و شام یوں ہی
لوحِ تدبیر پہ لکھا ہوا اک حرف ’’نہیں‘‘

مذکورہ مثال سے فلیش بیک کی تکنیک کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ بالخصوص ’’پاؤں الجھا، گرا، یوں آنکھ کھلی پچھلے پہر،اور دیکھا کہ ابھی باقی ہے کچھ شب کا سفر‘‘ سے فلیش بیک کی تکنیک مکمل طور سے ظاہر ہوجاتی ہی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ اخترالایمان کے یہاں ماضی اور حال کے واقعات کا ذکر بار بار آتا ہے، اس لیے انہوں نے اس تکنیک کا استعمال  کرتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کو کارگر طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔

آئیڈیولوجی

اخترالایمان کا تعلق کسی خاص جماعت یا تنظیم سے نہیں تھا۔ ہر چند کہ ان کا تعلق اس عہد سے ہے، جسے ترقی پسند تحریک کا اصل عہد کہا جا تا ہے۔ ساتھ ہی حلقۂ ارباب ذوق کے عروج کا زمانہ بھی وہی ہے۔ اس کے باوجودانہوں نے اپنے لیے ایک نئے راستے کا انتخاب کیا اور اسی پر چلتے رہے اور آخر کار زمانے نے ان کی اس نئی راہ کو تسلیم کر لیا۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا، جن چیزوں کا مشاہدہ کیا یا جن سے ان کا سابقہ پڑا، اس کے بارے میں اپنے مافی الضمیرکی ادائگی، محسوسات اور نظریات کی تفصیل اپنی مختلف تخلیقات میں پیش کردیں۔ اپنے ذہنی رویوں، طبقاتی کشمکش، سماجی سروکار اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی وہ سوچتے تھے، ان کے بابت، اپنی شاعری اور شاعری سے متعلق اپنے نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’جب سے شاعری پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا ہے مجھے یہ احساس ہوا کہ ہماری شاعری چند چیزوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ان میں سے ایک رومانیت ہے دوسری غزل یاغالباً رومانیت پوری شاعری پر حاوی ہے۔ اس لیے ہے کہ ہم غزل سے نکل کر نہیں جا سکتے۔ غزل کا میدان بہت محدود ہے کسی بھی موضوع کو  واضح طور پر بیان کرنے کے لیے دو مصرعے کافی نہیں ہوتے۔ اس حد بندی سے نقصان یہ ہوا  نئے نئے موضوعات اور ہیئت کے تجربے نہیں کیے جا سکے اور شاعری میں وہ پھیلاؤنہیں آسکا جو زندگی میں ہے۔ غزل کسی موضوع پر کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتی۔ صرف اس کی طرف اشارے کر سکتی ہے اور کسی موضوع کی طرف اشارہ کافی نہیں ہوتا۔‘‘
(ص0-11 ، پیش لفظ، یادیں)
اس اقتباس سے اخترالایمان کے نظریات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نظموں کی شاعری کو ہی اپنے لیے کیوں منتخب کیا۔ حالاں کہ اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن جیسا کہ اقتباس سے ظاہر ہے کہ دو مصرعے کسی خیال کو قلم بند کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ غالباً جب سے انہوں نے اس بات کو محسوس کیا، اس کے بعد پھر کبھی غزلوں کی طرف توجہ نہیں کی۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، اخترالایمان کاتعلق اس عہد سے ہے، جب ایک طرف’’ ترقی پسند تحریک‘‘ کا ڈنکا بج رہا تھا تو دوسری طرف ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ کا بول بالا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے جڑے لوگ ایک خاص طرح کے نظریاتی ادب کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے توحلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ تخلیق کار، تخلیق پر کسی بھی طرح کی نظریاتی پابندی کو شاعر کے جذبات کے مغائر تسلیم کرتے تھے۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ سے اخترالایمان نے اپنا راستہ خود نکالا اوراس خوبی سے نکالا کہ اپنی راہ کے خود ہی موجد بھی بنے اور خاتم بھی۔حالاں کہ اس راہ پر چلنے میں انہیں دقتیں بھی پیش آئیں لیکن ان کے قدم اس راہ پرآگے بڑھتے ہی رہے۔ شروع میں توان کی کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی لیکن آج کا ناقد ان کی شاعری کومنفرد اسلوب یا تیسری جہت کی شاعری کا نام دیتے ہوئے یہ تسلیم کرتا ہے کہ انہوں نے اردو نظم نگاری کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ اپنی راہ کے ایسے مسافر ہیں کہ ان کے بعد کوئی دوسرا مسافر آج تک اس راہ پر چلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ 

نظم  معرّیٰ  اور آزاد نظم (ہیئت اور فنی خصوصیات)

پچھلے صفحات  میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ اخترالایمان نے اپنی اکثر و بیشتر نظمیں نظم معرّیٰ کی ہیئت میں تخلیق کی ہیں۔ اس لیے یہاں نظم معرّی کی ہیئت اور فنی خصوصیات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 
نظم معرّیٰ کو انگریزی میں  Blank Verse کہتے ہیں اور یہ صنف اردو میں انگریزی کے توسط ہی سے متعارف ہوئی ہی۔ ہیئت کے اعتبار سے اگر اس نظم کو دیکھا جائے تو اس کے تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ اس میں ردیف اور قافیہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح آزاد نظم کو انگریزی میں Free Verse کہتے ہیں اور یہ صنف بھی اردو میں انگریزی ہی کے توسط سے آئی ہی۔ نظم معرّیٰ اور آزاد نظم کے فرق کو تمیز کرنے میں اکثر طلبا دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آزاد نظم میں مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں لیکن نظم معرّیٰ میں تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں۔ وزن کا اہتمام دونوں ہی میں کیا جاتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نظم معرّیٰ میں جو بحر استعمال میں لائی جاتی ہے وہ پوری نظم میں یکساں طور سے استعمال کی جاتی ہے جب کہ اس کے مقابلے آزاد نظم میں جو بحر استعمال میں لائی جاتی ہے، اس کے  لیے یہ اہتمام  ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بحرِ رجز: مسدس سالم الارکان کو اگر لیا جائے تو اس کا وزن ہے: مستفعلن مستفعلن مستفعلن۔ اب اگر شاعر معرّیٰ نظم لکھ رہا ہے تو ہر مصرعے میں تینوں ارکان کی پابندی لازم ہوگی۔ اس کے مقابلے شاعر اگر آزاد نظم تخلیق کر رہا ہے تو اسے یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کبھی تینوں ارکان، کبھی دو اور کبھی ایک کا استعمال کر سکتا ہے اور اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ وہ سالم رکن کی بجائے مزاحف ارکان کا استعمال اس طرح کرے کہ روانی متاثر نہ ہو۔ نظم معرّیٰ کی مثال کے لیے اس مضمون میں شامل نظم ’’ایک لڑکا‘‘ یا ’’ تنہائی میں‘‘ اور آزاد نظم کی مثال کے لیے ’’ باز آمد: ایک منتاج‘‘ کو ملاحظہ فرمائیں۔

علامتی نظم نگاری
اخترالایمان کے یہاں سماجی اورمعاشرتی مسا ئل سے گہری دلچسپی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مافی الضمیرکو علامتوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے لفظوں کا جامہ پہنا تے ہیں۔ اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے وہ جس طرح علامتوں کا استعمال کر تے ہیں، وہ بھی خاصے کی چیز ہوتی ہے۔ ان کی اس طرح کی علامتی نظموں کو سمجھنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے لیکن ذراسی ہی دیر لگتی ہے۔  مثال کے طور پر ان کی ایک نظم ’’تنہا ئی میں‘‘  ملاحظہ ہو:
دور تالاب کے نزدیک وہ سوکھی سی ببول
چند ٹوٹے ہوئے ویران مکانوں سے پرے
ہاتھ پھیلائے برہنہ سی کھڑی ہے خاموش
جیسے غربت میں مسافر کو سہارانہ ملے 
اس کے پیچھے سے جھجھکتا ہوا اک گول ساچاند
اُبھرا بے نور شعاعوں کے سفینے کو لیے
اور پرسوز دھندلکے سے وہی گول سا چاند
اپنی بے نور شعاعوں کا سفینہ کھیتا
ابھرا نمناک نگاہوں سے مجھے تکتا ہوا 
جیسے گھل کر مرے آنسو میں بدل جائے گا
ہاتھ پھیلائے ادھر دیکھ رہی ہے وہ ببول
سوچتی ہوگی کوئی مجھ سا ہے یہ بھی تنہا 
آئینہ بن کے شب و روز تکا کرتا ہے 
کیسا تالاب ہے جو اس کو ہرا کر نہ سکا؟
یوں گزارے سے گزر جائیں گے دن اپنے بھی 
پر یہ حسرت ہی رہے گی کہ گزارے نہ گئے

  زیربحث نظم میں ’’تالاب ‘‘ اور’’ببول‘‘ کو علامت کے طو رپر استعمال کیا گیا ہے اور بار بار انہیں دہرا کر شاعر ان سے ڈرامائی تاثر پیدا کر نے کی کو شش بھی کر رہا ہے۔ ’’ببول‘‘ اجڑی ہوئی، بے برگ و بار اور افسر دہ زندگی کی علامت ہے تو ’’تالاب‘‘ امیری اور سرمائے کی علامت۔ اس تالاب میں باہر سے پانی آ تو سکتا ہے مگر جانہیں سکتا ۔خواہ سڑے یا گلے یا پھر اس میں کیڑے پیدا ہو جائیں، جو ہماری زندگی کے لیے مہلک ثابت ہوں۔ یہ ایک طویل نظم ہے، جس کا لطف پڑھ  کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 
اخترالا یمان کی نظموں کا بیشتر حصہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے اورعلامتی شاعری سیدھی سادھی شاعری سے ذراسی مختلف ہو تی ہے۔ ایسے شاعر کے یہاں جو کہ علامتی شاعری کرتا ہو، اس کے پاس مستقبل کا کو ئی خواب نہیں ہوتا۔ اس کاتمامترسرمایہ ماضی اورحال کے واقعات و تجربات کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخترالا یمان کو ’’اقدارکا شاعر‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اقدار کا تعلق مستقبل سے نہیں ماضی اورحال سے ہوتا ہے اور اسی اقدار سے وابستگی کے سبب وہ روایت پسند بھی ہیں اورجدت پسند بھی۔ اس موقع پران کی نظم ’’ایک لڑ کا‘‘ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، جس سے ہمیں ان کے ماضی اورحال کے رشتے کے تانے بانے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
مجھے اک لڑکا، آوارہ منش، آزاد سیلانی
مجھے اک لڑکا ، جیسے تند چشموں کا رواں پانی 
نظر آتا ہے، یوں لگتا ہے، جیسے یہ بلا ئے جاں 
مرا ہمزاد ہے، ہرگام پر، ہرموڑ پر جولاں 
اسے ہمراہ پاتا ہوں، یہ سائے کی طرح میرا 
تعاقب کر رہا ہے، جیسے میں مفرور ملزم ہوں 
یہ مجھ سے پو چھتا ہے اخترالا یمان تم ہی ہو؟
یہ لڑ کا پو چھتا ہے جب تو میں جھلا کے کہتا ہوں 
وہ آشفتہ مزاج، اندوہ پرور، اضطراب آسا 
جسے تم پوچھتے رہتے ہو  کب کا مرچکا ظالم
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کرفریبوں کا
اسی کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں!
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے 
کبھی چا ہا تھا اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا 
یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے کہتا ہے 
یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے، دیکھو میں زندہ ہوں!

اس نظم سے یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ شاعر اپنے دل اور دماغ کو الگ الگ کر کے ماضی میں جھا نکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اپنا محاسبہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ نوجوان جو اس کے اندر موجود تھا اور جس میں امنگیں ہی اُمنگیں، جوش اور ولولے بھرے ہوئے تھے کہ ’’اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا‘‘ اس نوجوان کو کیا ہوا؟ آج وہ کہاں ہے؟ کہنے کو تو زندہ ہے مگروہ خواب، جواس نے اپنی جوانی یا عالمِ عنفوانِ شباب میں دیکھے تھے۔ کیا وہ شرمندۂ تعبیرہوئے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہی عالم اخترالا یمان کی زیا دہ تر نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’ریت کے محل‘‘، ’’قلوبطرہ‘‘، ’’خاک و خون‘‘ اور ’’ایک سوال‘‘ وغیرہ کو خاص طورسے یاد کیا جاسکتا ہے۔

اس مختصر سے مطا لعے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اخترالایمان نے جس طرح ماضی اورحال کو اپنی نظموں میں برتا ہے اور جس طرح سے’’فلیش بیک‘‘،  ’’بیانیہ‘‘ اور’’علامتی‘‘ شاعری کے ذریعے اپنے ما فی الضمیرکو ادا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ انہیں کا خا صہ ہے۔ ان کی طویل نظموں میں ابتدائی مصرعوں کو نظم کے بیچ بیچ میں دوہرا کر ڈرامائی تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی ایک خصوصی چیز ہے۔ ان کی نظموں میں بیانیہ کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ افسانوی تکنیک کا بھی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے، جس سے اردو نظم کے مستقبل کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اردو نظم کو یہی اخترالایمان کی دین ہے اور بس۔ ان کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے اردو میں نثری نظم کے امکانات روشن نظر آنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم  نے انہیں اردوشاعری کے منفرد اسلوب کا شاعر کہنے کی جرأت کی ہے ۔
کتابیات
۱۔ سروساماں، اخترالایمان، رخشندہ کتاب گھر، بمبئی، 1983ء
۲۔ کُلّیاتِ اخترالایمان،بیدار بخت(مرتَّب)،  ایجوکیشنل پبلِشنگ ہاؤس، دہلی، 2000
۳۔ یادیں، اخترالایمان، پنجابی پستک بھنڈار، دریباں کلاں، دہلی، 1963ء
۴۔ آبِ جو، اخترالایمان، نیا ادارہ، لاہور،959ء
۵۔ تاریخِ ادب اردو(عہدِ میر سے ترقی پسند تحریک تک) جلد چہارم، سیدہ جعفر،       لنگر حوض، حیدرآباد، 2002ء
۶۔ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سید احتشام حسین، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،988ء
۷۔ ایوانِ اردو (اخترالایمان نمبر)، اردو اکادمی، دہلی،اپریل 1996ء
۸۔  فرہنگ ادبی اصطلاحات، پروفیسر کلیم الدین احمد، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،986ء
۹۔ اخترالایمان: ایک مطالعہ، ڈاکٹر رضی احمد،  (مقالہ )، جے این یو،دہلی، 2003

ہفتہ، 17 نومبر، 2012

Machini Tarjume ki taknik aur Urdu me Machini Tarjuma











Yagana Changezi-Hum zaban-e-Aatash


یگانہ چنگیزی :ہم زبانِ آتَش

کلام یاس سے دنیا میں پھراک آگ لگی
یہ کون  حضرت آتَش کا  ہم زباں نکلا
     بیسویں صدی کے نصف اول میں جن شعرأ کے حصے میں بہت زیادہ شہرت و مقبولیت آئی، ان میں یاس یگانہ چنگیزی کا نام بھی خاص طور سے قابلِ ذکر ہے البتہ یہ بات الگ ہے کہ ان کو جتنی مقبولیت اپنی شاعری سے حاصل ہوئی، اس سے زیادہ تشہیر’’ غالب شکن‘‘ ہونے کے باعث نصیب ہوئی۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا ایک مخصوص رنگ ہے۔ ان کا تعلق کسی دبستان سے نہیں تھا۔ روزمرہ، محاورے، زبان اور لفظوں کے در و بست پر انہیں بڑی قدرت حاصل تھی۔ اسی سے اردو شاعری میں انہوں نے اپنی طبیعت کی جولانیاں خوب دکھائیں۔ 

     ان کا نام مرزا واجد حسین تھا۔ پہلے یاس تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں یگانہ ہوگئے۔ آپ کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے تھے اور سلطنت مغلیہ کے دامن سے وابستہ ہو گئے تھے۔ پرگنہ حویلی عظیم آباد میں جاگیریں ملیں اور وہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ یگانہ چنگیزی۲۷! ذی الحجہ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۷ /اکتوبر۱۸۸۴ کو پٹنہ کے محلے مغل پورہ میں پیدا ہوئے ۔  پانچ چھ سال کی عمر سے مکتب میں داخل ہوئے ۔ فارسی کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد عظیم آباد (پٹنہ) کے محمڈن اینگلو عربک اسکول میںنام لکھوایا گیا۔اسکول میں ہمیشہ اول رہے ۔ پڑھنے میں اچھے تھے ،اس لیے ہر سال وظیفہ اور انعام پاتے رہے ۔۱۹۰۳ میں انٹرنس پاس کیا ۔  ۱۹۰۴ میں مٹیا برج ،کلکتہ تشریف لے گئے ،جہاں شہزادہ مرزا مقیم بہادر کے صاحب زادوں شہزادہ محمود یعقوب علی مرزا اور شہزادہ محمد یوسف علی مرزا کی انگریزی تعلیم کے استاد مقرر ہوئے ۔ لیکن کلکتہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی اور کچھ دنوں بعد وطن واپس چلے آئے ۔ علاج کے سلسلے میں لکھنؤ آئے اور لکھنؤ کی فضا ایسی راس آئی کہ اچھے ہوکر بھی واپس جانا گوارا نہیں کیا ۔ لکھنؤ ہی میں ۱۹۱۳ میں شادی کرکے اسی کو اپنا وطن بنالیا۔
     یگانہ کا لکھنؤ کا قیام بڑا ہنگامہ خیز اور معرکہ آرا رہا ، جس کا اثر ان کے فن پر بھی پڑا ۔ معرکہ آرائیوں نے بھی ان کے فن کو جلا بخشی۔ شروع میں لکھنؤ کے شعرأ سے ان کے تعلقات خوشگوار تھے ۔ اتناہی نہیں وہ عزیز، صفی، ثاقب و محشر وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے تھے ۔ جب عزیز کی سرپرستی میں رسالہ ’’ معیار‘‘ جاری ہوا اور معیار پارٹی وجود میں آئی تو یگانہ بھی اس پارٹی کے مشاعروں میں غالب کی زمینوں میں غزلیں پڑھتے تھے ۔ ان طرحی مشاعروں کی جو غزلیں’’ معیار‘‘ میں چھپی ہیں، ان میں بھی یگانہ کی غزلیںشامل ہیں ۔ لیکن یہ تعلق بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا اور لکھنؤکے اکثر شعرأ سے یگانہ کی چشمک ہوگئی ۔  اس سلسلے میں مالک رام بہ زبان یگانہ تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ اب اس میں میرا کیا قصور ! یہ خدا کی دین ہے،میرا کلام پسند کیاجانے لگا ۔ باہر کے مشاعروں میں بھی اکثر جانا پڑتا ۔ میری یہ ہر دل عزیزی اور مقبولیت ان تھڑدلوں سے دیکھی نہ گئی ۔ ‘‘
(مرزا یگانہ چنگیزی، مضمون مشمولہ، میرزایگانہ :شخصیت اور فن, ص:۲۰)
     یگانہ سے اہلِ لکھنؤ کی چشمک کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ ’’ معیار‘‘ پارٹی کے مشاعروں میں ان کے کلام پر خندہ زنی کی جاتی تھی اور بے سروپا اعتراض کیے جاتے تھے مگر یہ سب کچھ زبانی ہوتا تھا ۔ اصلی اور تحریری جنگ کا آغاز خود یگانہ نے کیا ۔ اس کے بعد ایک دوسرے کے خلاف لکھنے کا سلسلہ چل پڑا، جس کی انتہا ’’ شہرتِ کاذبہ‘‘ نامی یگانہ کی کتاب ہے ۔ لکھنؤ کے شعرأ غالب کے بڑے قائل تھے، لہٰذا یگانہ کے لیے اب یہ بات بھی ناگزیر ہوگئی کہ وہ غالب کی بھی مخالفت کریں ۔ غالب کی مخالفت کے سلسلے میں انہیں اندھا مخالف نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ انہوںنے خود کہا ہے کہ :
"یہ کس نے آپ کو بہکا دیا کہ میں غالب کا مخالف ہوں، وہ یقینا بہت بڑا شاعر ہے۔  صاحب ! غالب کی صحیح قدر و منزلت مجھ سے زیادہ کون سمجھے گا ۔ مجھے غصہ اس بات پر آتا ہے کہ لوگ اس کے جائز مقام سے زیادہ اسے دینا چاہتے ہیں ۔  اور پھر قسم یہ ہے کہ یہ بھی وہ لوگ نہیں، جو اس کا صحیح مقام سمجھتے ہوں، بلکہ وہ جو تقلیداً اسے بڑا سمجھتے ہیں ۔۔۔ تو صاحب ! میں غالب کے خلاف نہیں تھا، اور نہ ہو ںلیکن میں اس کی جائز جگہ سے زیادہ اس کے حوالے کردینے پر تیار نہیں ۔"
 (مضمون از مالک رام مشمولہ ،میرزا یگانہ :شخصیت اور فن ،ص: ۱۹ )
     یگانہ نے اس مخالفت کے چلتے اپنے آپ کو ’’آتش کا مقلد‘‘ کہنا شروع کردیا اور اپنے مجموعۂ کلام ’’نشترِیاس‘‘ کے سرورق پر اپنے نام سے پہلے ’’ خاک پائے آتش ‘‘ لکھا اورجب اس کے ایک سال بعد ’’چراغِ سخن‘‘ شائع ہوا تو انہوں نے اپنے آپ کو ’’آتش پرست ‘‘ کے درجے تک پہنچا دیا ۔ اسی بنیاد پر انہوںنے آتش اور غالب کا تقابلی مطالعہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آتش، غالب سے بڑا شاعر ہے ۔ یہ مضمون رسالہ ’’ خیال ‘‘ میں نومبر۱۹۱۵ میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ ایک لمبی مدت تک جاری رہا ۔ اس غالب شکنی کی انتہا وہ رسالہ ہے، جو انہوں نے ۱۹۳۴ میں ’’ غالب شکن‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ اس رسالے کو دوبارہ مزید اضافوں کے ساتھ ۱۹۳۵ میں چھاپا ۔ اس مخالفت کی وجہ سے یگانہ کا اچھا خاصا وقت ضائع ہوگیا کیوں کہ اس مخالفت سے نہ تو شعرائے لکھنؤکا کچھ ہوا اور نہ ہی غالب کو کچھ نقصان پہنچا بلکہ یگانہ ہی خسارے میں رہے کہ اپنی شاعری پر پوری طرح توجہ نہ دے سکے ۔
    ان سب مخالفتوں اور معرکہ آرائیوں کے باوجود یگانہ کا ایک گروپ تھا، جن سے ان کے اچھے مراسم تھے ۔ ۱۹۱۹ میںانہوں نے ’’ انجمن خاصانِ ادب ‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی ۔ اس انجمن کے صدر: بیخود موہانی، سکریٹری: یگانہ اور جوائنٹ سکریٹری: عبدالباری آسی تھے۔ اس انجمن کے اعزازی رکن اور سرپرستوں میں فصاحت لکھنوی اور سید مسعود حسن رضوی ادیب جیسے لکھنوی اہل قلم بھی شامل تھے ۔
    زندگی کے دوسرے مشاغل کے ساتھ ساتھ یگانہ کی ملازمت کا سلسلہ بھی ناہمواری کا شکار رہا ۔ ایک عرصے تک وہ ’’ اودھ اخبار ‘‘ سے وابستہ رہے ۔ لیکن حتمی طور سے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ کب سے کب تک ،البتہ ’’ اودھ اخبار ‘‘ کے اڈیٹروں میں یگانہ کا نام شامل ہے ۔۱۹۲۴ میں یگانہ اٹاوہ چلے گئے ، جہاں انہیں اسلامیہ ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی ۔ مارچ۱۹۲۵ کے آس پاس وہ اٹاوہ کو چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے، وہاں ایک پریس میں انہیں ملازمت مل گئی۔ ۱۹۲۶ میں انہوں نے لاہور کا رخ کیا اور ’’ اردو مرکز ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں کا ماحول انہیں راس آیا۔ یہاں کے ادیبوں سے ان کے بہتر مراسم رہے ۔ کئی کتابوں اوررسالوں کے چھپنے کی سبیل پیدا ہوئی ۔ اقبال کے یہاں بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا ۔ اقبال بھی یگانہ کے بڑے قائل تھے ۔ ۱۹۲۷ میں یگانہ ’’ اردو مرکز‘‘ سے علاحدہ ہوگئے لیکن قیام لاہور ہی میں رہا ۔ لاہور کے بعد انہوں نے حیدرآباد دکن کا رخ غالباً۱۹۲۸ میں کیا ۔ حیدرآباد میں ان کا قیام ان کے لیے کافی آسودگی لے کر آیا ۔ جہاں ان کا تقرر نثار احمد مزاج کے توسط سے محکمہ رجسٹریشن میں ’’نقل نویس‘‘ کی حیثیت ہو گیا۔ یہا ںان کی آمدنی پچیس تیس روپے ماہوار تھی اور کبھی کبھی زیادہ بھی ہوجاتی تھی ۔۱۹۳۱ میں یگانہ محکمۂ رجسٹریشن میں باقاعدہ ملازم ہوگئے ۔ یہ جگہ سب رجسٹرار کی تھی ۔ اس طور سے وہ ’’ عثمان آباد‘‘ ، ’’لاتور‘‘ اور ’’یادگیر‘‘ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور ۱۹۴۲ میں ۵۵ برس کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا ۔ ۱۹۴۶ میں وہ بمبئی گئے اور وہاں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو ملازمت دلوائی ۔ حیدرآبادمیں نواب معظم جاہ نے انہیں اپنے دربار سے وابستہ کرناچاہا لیکن یگانہ راضی نہ ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یگانہ بار بار حیدرآباد روزگار کی امید سے آتے رہے لیکن انہیں مایوسی ہی نصیب ہوئی ۔ ان کے حالات دن بہ دن ابتر ہوتے گئے اور اسی عالم میں انہوںنے تین یاچار فروری۱۹۵۶ کو داعی اجل کولبیک کہا ۔
    یگانہ کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ نشترِ یاس‘‘۱۹۱۴ میں شائع ہوا ۔ اس کا بڑا حصہ ان کے ابتدائی اور روایتی کلام پر مشتمل ہے ۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’ آیاتِ وجدانی‘‘ کے نام سے ۱۹۲۷ میں منظر عام پر آیا ۔ یگانہ کی قدر و منزلت کا دارو مدار بڑی حد تک اسی مجموعے پر ہے ۔ ’’ آیاتِ وجدانی ‘‘ کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ ’’ ترانہ ‘‘ کے نام سے سات سال بعد ۱۹۳۳ میں شائع ہوا ۔ ۱۹۳۴ میں ’’آیاتِ وجدانی ‘‘ کا دوسرا اڈیشن منظر عام پر آیا ۔-۱۹۴۵۴۶ میں اس مجموعے کا تیسرا اڈیشن بھی آگیا ۔ اس اشاعت کا کام پہلی اشاعتوں سے بہتر تھا ۔ ۱۹۴۶میں جب یگانہؔ بمبئی گئے تھے، اس وقت ان کی ملاقات سید سجاد ظہیر سے ہوئی تھی ۔ ان کے لیے یگانہ نے اپنے تمام مجموعوں میں شامل کلام کو ’’گنجینہ‘‘ کے نام سے مرتب کردیا ۔ یہ مجموعہ کمیونسٹ پارٹی کے اشاعتی ادارے سے ۱۹۴۷ میں شائع کیا گیا ۔ اس کے علاوہ انہوںنے چند کتابچے بھی لکھے تھے ۔ مثلاً ’’ شہرتِ کاذبہ ‘‘ جسے خرافاتِ عزیز کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے ’’ غالب شکن ‘‘ بھی شائع کیا ، جس سے لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں بڑی اٹھا پٹک ہوئی ۔
یگانہ کی شاعرانہ خصوصیات:
    یگانہ ایک کلاسیکی غزل گو شاعر تھے ۔ حالانکہ انہوں نے قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں لیکن ان کی اصل پہچان ان کی غزلیں ہی ہیں ۔ انہوںنے غزل کے موضوعات کے دائرے کو ایک نئی جہت اور اونچائی عطا کی اور ایسے مضامین نظم کیے جو پہلی بار حقیقت پسندانہ کیفیت کے ساتھ غزل کے افق پر نمودار ہوئے ۔ وہ خود اپنی ذاتی زندگی میں، جس طرح کے شیریں و تلخ تجربات سے گزرے تھے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کا جس طرح تجربہ کیا تھا ، اس سے ان کے دل و دماغ نے جو تاثرات قبول کیے تھے ، انہیں واقعات نے ان کی غزلوں کو اصلیت پسندی اور تابناکی بخشی ۔ان کی غزل گوئی ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے ۔ وہ ایک خود دار اور صاف گو انسان تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی اس کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے ۔
    یگانہ کی شاعری میں جو چیز سب سے پہلے دل پر اثر کرتی ہے، وہ ہے ان کا زورِکلام ۔ بندش کی چستی کے علاوہ بلند بانگ مضامین کے لیے ایسے الفاظ لے آتے ہیں، جو پوری طرح مفہوم کو ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ خیالات کو بھی جلا دیتے ہیں ۔ دوسری چیز جو ان کی شاعری میں دلکشی پیدا کرتی ہے وہ ہے ’’طنز‘‘ ،ان کی شاعری کا یہ عنصر کہیں کہیں اتنا تیز اور تیکھا ہوتا ہے کہ زور بیان کا لطف دوبالا کردیتا ہے ۔
انسان کا انسان فرشتے کا فرشتہ          انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا         خدا تھے کتنے مگر کوئی آڑے آنہ گیا
کیسے کیسے خدا بنا ڈالے           کھیل بندے کا ہے خدا کیا ہے
حال دونوں کا ہے غیر،اب سامنا مشکل کا ہے
دل کو میرا درد ہے اور مجھ کو رونا دل کا ہے
جو  خاک کا  پتلا،  وہی صحرا کا بگولہ
مٹنے پہ بھی اک ہستی برباد رہے گی
’’دردِدل  کے  واسطے  پیدا  کیا  انسان  کو ‘‘
زندگی پھر کیوں ہوئی ہے دردِ سر میرے لیے
    یگانہ کے کلام میں تخیل کی بلند پروازی اور فکر کی بالیدگی دیکھتے ہی بنتی ہے ۔ وہ حقائق کو عالمِ بالا سے چن کر لاتے ہیں اور نہایت صفائی و سادگی کے ساتھ اشعار میں سمو دیتے ہیں ۔ بندش ایسی ہوتی ہے کہ الفاظ و تراکیب میں مطلب ومفہوم الجھنے نہیں پاتا ۔ ان کے کلام میں زیادہ تر حوصلہ اور ہمت افزائی کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں ۔ مصیبتوں میں گِھرجانے کے باوجودبھی انسان کو ہمت کسی بھی صورت میں ہارنا نہیں چاہیے ۔
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
ہمیں سر مار کر تیشے سے مرجانا نہیں آتا
بزم دنیا میں یگانہ ایسی بیگانہ روی     میں نے مانا عیب ہے لیکن ہنر میرے لیے
رات دن شوقِ رہائی میں کوئی سر پٹکے  کوئی زنجیر کی جھنکار سے دیوانہ بنے
واہ کس ناز سے آتا ہے ترا دور شباب      جس طرح دور چلے بزم میں پیمانے کا
باز آ ساحل پہ غوطے کھانے والے باز آ  
ڈوب مرنے کا مزہ دریائے بے ساحل میں ہے
بلند ہوتو کھلے تجھ پہ راز پستی کا         بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
    یگانہ ایک خود دار،حق گو اور بے باک انسان تھے اور یہی خصوصیات ان کے کلام میں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کی خودداری کہیں کہیں ’’ اناپرستی ‘‘ سے جاملتی ہے ، جسے بعض ناقدین نے ان کی ’’کجروی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ اپنے دور میں انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی ،جس کے وہ مستحق تھے ۔ ان کی زندگی کشمکش، آزمائش اور اتار چڑھاؤ سے عبارت تھی، اس کے باوجود ان کی شاعری میں زندگی سے فرار، مایوسی اور پست ہمتی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے کو طئے کرنے کی ان میں بڑی جرأت تھی ۔ میرا خیال ہے شاید اسی وجہ سے ان کے کلام میں مایوسی، قنوطیت اور حرماں نصیبی نہیں پائی جاتی ۔
ہنوز زندگی تلخ کا مزا نہ ملا
کمال صبر ملا صبر آزمانہ ملا
بہار آئے گی پھر یاس ناامید نہ ہو            ابھی تو گلشن ناپائدار باقی ہے
دل ہے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پیے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں، کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا   ہوں  مگر  دنیا  کو  سمجھانا  نہیں  آتا
رہائی کا خیالِ خام ہے یا کان بجتے ہیں؟
  اسیرو، بیٹھے کیا ہو گوش بر آوازِ در ہوکر
پاؤں ٹوٹے ہیں مگر آنکھ ہے منزل کی طرف
کان اب تک ہوس بانگ درا کرتے ہیں
     یگانہ کے کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں فارسی ترکیبوں کے استعمال سے کافی لگاؤ تھا ۔ تشبیہات کی جدت سے وہ طرزِبیان میں تازگی پیدا کرتے ہیں ۔ ان کے مصرعے نہایت چست ہوتے ہیں ۔  ان کے یہاں الفاظ کی بندش سے اشعار میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مثلاً:
وحشت آباد عدم ہے وہ دیارِ خاموش
کہ قدم رکھتے ہی ایک ایک سے بیگانہ بنے
حسن وہ حسن کبھی جس کی حقیقت نہ کھلے
رنگ وہ رنگ جو ہر رنگ میں شامل ہوجائے
چشمِ نامحرم سے، غافل، روئے لیلیٰ ہے نہاں
ورنہ اک دھوکا ہی دھوکا پردۂ محمل کا ہے
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
     یگانہ نے صرف اپنا تخلص ہی یاس سے یگانہ (-۱۹۲۰۲۱ میں ) نہیں کیا بلکہ ۱۹۳۲ تک پہنچتے پہنچتے، اس میں چنگیزی کا اضافہ بھی کرلیا ۔ اس کے بارے میں خودلکھتے ہیں کہ:
’’ جس طرح چنگیز نے اپنی تلوار سے دنیا کا صفایا کردیا تھا، اسی طرح جب سے میں نے غالب پرستوں کا صفایا کرنے کا تہیہ کیا ہے، یہ لقب اختیار کیا ہے۔ ‘‘
(بحوالہ : یگانہ سوانحی خاکہ، مشمولہ، کلیاتِ یگانہ چنگیزی، ص  ۶۸)
     یہ تبدیلی صرف تخلص تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نظریات و افکار میں بھی تبدیلی کی دلالت ہے۔اہلِلکھنؤ سے ان کے معرکے نے انہیں اور خود سر اورپر اعتماد بنا دیا ۔ انہیں معرکوں کے باعث ان کے لہجے میں تیزی آئی۔یہاں یگانہ کے کلام سے کچھ ایسے شعر دیکھتے چلیں، جن سے ان کے لہجے کا انوکھا پن ہی نہیں بلکہ تیکھا پن بھی سامنے آجائے توشاید کوئی مضائقہ نہ ہو۔
کون دیتا ہے ساتھ مردوں کا          حوصلہ ہے تو باندھ ٹانگ سے ٹانگ
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کرچکے اب ترک دعا کرتے ہیں
کلامِ یاس سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
یہ کون حضرتِ آتَش کا ہم زباں نکلا
دن چڑھے سامنا کرے کوئی        شمع کیا شمع کا اجالا کیا
صبر کرنا سخت مشکل ہے، تڑپنا سہل ہے
اپنے بس کا کام کرلیتا ہوں آساں دیکھ کر
          مندرجہ بالا اشعار یگانہ کی یگانہ روی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے ان کا کلام ان کے کسی ہم عصر سے کم تر نہیں ہے۔ روزمرہ، محاوروں کا استعمال، طرزِ ادا، کلام میںروانی اور بے ساختگی یگانہ کی خاص پہچان بن گئے تھے ۔ ان کی شاعری کی خصوصیات پرگفتگو ہو اور بات رباعیوں کی نہ کی جائے تو ناانصافی ہوگی ۔ انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی ایک طرح کی جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ دیگر شعرأ سے ان کا رنگ الگ رہے ۔ اس فراق میں انہوں نے ایسی بندشیں اور محاورے استعمال کیے جو منجھے ہوئے نہیں تھے یا جن پر زبان کی صفائی نے ابھی تک جلا نہیں بخشی تھی ۔ لیکن یہ بات طئے ہے کہ یگانہ کو رباعی کے فن پر کامل عبور تھا ۔وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ رباعی کے چوتھے مصرعے میں خیال کی تان ٹوٹتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیاں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں ۔ انہوں نے غالب کے کلام پر بھی رباعی میں اظہار خیال کیا تھا ۔ یگانہ کی رباعیوں کے مجموعے کا نام ’’ ترانہ ‘‘ ہے، جسے کافی سراہا گیا ہے ۔ ان کی رباعیوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے تمام تر رباعیوں کو عنوان دے کر رقم کیا ہے ۔ مثلاً : ’’ تحفۂ  درد‘‘ ملاحظہ ہو:
دل کو پہلے ٹٹول لیتا ہوں
پھر تحفۂ درد مول لیتا ہوں
آثارِ زلال و درد و مستی و خمار
آنکھوں آنکھوں میں تول لیتا ہوں
’’ حسن دو روزہ ‘‘
سورج کو گہن میں نہیں دیکھا شاید
 کیوں، چاند کو گہن میں نہیں دیکھا شاید
اے حسن دو روزہ پہ اکڑنے والو
یوسف کو کفن میں نہیں دیکھا شاید
’’ٹیڑھے مرزا‘‘
شاہوں سے مری کلاہ ٹیڑھی ہی رہی
بد مغزوں سے رسم و راہ ٹیڑھی ہی رہی
ٹیڑھے مرزا کو کون سیدھا کرتا
سیدھی نہ ہوئی نگاہ ٹیڑھی ہی رہی
     یگانہ نے غالب شکنی کے باعث بڑی بدنامی مول لی لیکن یہ بدنامی ایسے ہی نہیں تھی بلکہ انہوں نے بہت سی رباعیاں اس سلسلے میں کہی تھیں ۔ ان کی اس رنگ کی بھی چند رباعیاں پیش ہیں تاکہ حقیقت کا اندازہ کیا جاسکے ۔
غالب کے سوا کوئی بشر ہے کہ نہیں
اوروں کے بھی حصے میں ہنر ہے کہ نہیں
مردہ بھیڑوں کو پوجتا ہے ناداں
زندہ شیروں کی کچھ خبر ہے کہ نہیں

اللہ ری ہوا وہو میں خلعت و زر
مرزا کا سر ہے اور انگریز کا در
ہاں کیوں نہ ہوں مورکھوں کے دیوتا غالب
ہے باؤلے گاؤں اونٹ بھی پرمیشر
          یگانہ چنگیزی کی شاعرانہ خصوصیات پر ہم نے اب تک جتنی باتیں کیں اور ان کے حوالے سے جتنی مثالیں پیش کیں، ان سے یگانہ  کی شاعری اور ان کے زبان و بیان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یگانہ کی شاعری  اور ان کے خاص رنگ کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے خاص خاص رنگ اس مضمون سے واضح ہوجائیں ۔

پرویز احمد اعظمی،
نیا دور لکھنو، مارچ ۲۰۱۱

How to use voice typing in Urdu