جمعرات، 19 جنوری، 2023

زبان اور اس کے تاثرات

 


جھوٹی دنیا کا سچا افسانہ نگار- سعادت حسن منٹو

 جھوٹی دنیا کا سچا افسانہ نگار

’’18؍جنوری کو منٹو کی وفات کے حوالے سے‘‘

’’میری زندگی اک دیوار ہے جس کا پلستر میں ناخنوں سے
کھرچتا رہتا ہوں۔ کبھی چاہتا ہوں کہ اس کی تمام اینٹیں پراگندہ
کر دوں، کبھی یہ جی میں آتا ہے کہ اس ملبہ کے ڈھیر پر
اک نئی عمارت کھڑی کر دوں۔‘‘ منٹو

منٹو کی زندگی ان کے افسانوں کی طرح نہ صرف یہ کہ دلچسپ بلکہ مختصر بھی تھی۔ محض 42؍ سال 8؍ ماہ اور چار دن کی چھوٹی سی زندگی کا بڑا حصہ منٹو نے اپنی شرائط پر، نہایت لاپراوئی اور لاابالی پن سے گزارا۔ انھوں نے زندگی کو اک بازی کی طرح کھیلا اور ہار کر بھی جیت گئے۔ غیر اردو داں طبقہ اردو شاعری کو اگر غالبؔ کے حوالہ سے جانتا ہے تو فکشن کے لیے اس کا حوالہ منٹو ہیں۔ 
اپنی تقریباً 20 سالہ ادبی زندگی میں منٹو نے 270؍ افسانے، 100؍ سے زیادہ ڈرامے، کتنی ہی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے، اور ڈھیروں نامور اور گمنام شخصیات کے خاکے لکھ ڈالے۔ 20؍ افسانے تو انھوں نے صرف 20؍ دنوں میں اخبارات کے دفاتر میں بیٹھ کر لکھے۔ ان کے افسانے ادبی دنیا میں اک تہلکا مچا دیتے تھے۔ ان پر کئی بار فحش نگاری کے مقدمات چلے اور پاکستان میں 3؍ مہینے کی قید اور 300؍ جرمانہ بھی ہوا۔ پھر اسی پاکستان نے ان کے مرنے کے بعد ان کو ملک کے سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ "نشان امتیاز" سے نوازا۔ جن افسانوں کو فحش قرار دے کر ان پر مقدمے چلے، ان میں سے بس کوئی ایک بھی منٹو کو زندہ جاوید بنانے کے لیے کافی تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ بقول وارث علوی "منٹو کی بے لاگ اور سفّاک حقیقت نگاری نے بے شمار عقائد، مسلمات اور تصورات کو توڑا اور ہمیشہ شعلۂ حیات کو برہنہ انگلیوں سے چھونے کی جرات کی۔ منٹو کے ذریعے پہلی بار ہم ان حقائق سے آشنا ہوتے ہیں، جن کا صحیح علم نہ ہو تو دل نرم و نازک اور آرام دہ عقائد کی تحویل میں چھوٹی موٹی شخصیتوں کی طرح جیتا ہے" منٹو نے خیالی کرداروں کے بجائے سماج کے ہر طبقے اور ہر طرح کے انسانوں کی رنگارنگ زندگیوں کو، ان کی نفسیاتی اور جذباتی تہہ داریوں کے ساتھ، اپنے افسانوں میں منتقل کرتے ہوئے معاشرہ کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا۔ منٹو کے پاس معاشرہ کو بدلنے کا نہ تو کوئی نعرہ ہے اور نہ خواب۔ اک ماہر حکیم کی طرح وہ مریض کی نبض دیکھ کر اس کا مرض بتا دیتے ہیں، اب اس کا علاج کرنا ہے یا نہیں اور اگر کرنا ہے تو کیسے کرنا ہے؟ یہ سوچنا مریض اور اس کے لواحقین کا کام ہے۔
 سعادت حسن منٹو 11؍مئی 1912ء کو لدھیانہ کے قصبہ سمبرالہ کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولوی غلام حسین تھا اور وہ پیشہ سے جج تھے۔ منٹو ان کی دوسری بیوی کے بطن سے تھے۔ اور جب زمانہ منٹو کی تعلیم و تربیت کا تھا وہ ریٹائر ہو چکے تھے۔ مزاج میں سخت گیری تھی، اس لیے منٹو کو باپ کا پیار نہیں ملا۔ منٹو بچپن میں شریر کھلنڈرے اور تعلیم کی طرف سے بے پروا تھے۔ میٹرک میں دو بار فیل ہونے کے بعد تھرڈ ڈویزن میں امتحان پاس کیا۔ وہ اردو میں فیل ہو جاتے تھے۔ باپ کی سخت گیری نے ان کے اندر بغاوت کا جذبہ پیدا کیا۔ یہ بغاوت صرف گھر والوں کے خلاف نہیں تھی بلکہ اس کے دائرہ میں زندگی کے تمام مسلمہ اصول آ گئے۔ جیسے انھوں نے فیصلہ کر لیا ہو کہ انھیں زندگی اپنی اور صرف اپنی شرائط پر جینی ہے۔ اسی نفسیاتی گتھی کا اک دوسرا پہلو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ اسکول کے دنوں میں ان کا محبوب مشغلہ افواہیں پھیلانا اور لوگوں کو بیوقوف بنانا تھا۔ مثلاً: میرا فونٹن پن گدھے کی سینگ سے بنا ہے، لاہور کی ٹریفک پولیس کو برف کے کوٹ پہنائے جا رہے ہیں یا تاج محل امریکہ والوں نے خرید لیا ہے اور مشینوں سے اکھاڑ کر اسے امریکہ لے جائیں گے۔ انھوں نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر "انجمن احمقاں" بھی قائم کی تھی۔ میٹرک کے بعد انہیں علی گڑھ بھیجا گیا لیکن وہاں سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ ان کو دق کی بیماری ہے۔ واپس آ کر انھوں نے امرتسر میں، جہاں ان کا اصل مکان تھا، ایف اے میں داخلہ لے لیا۔ پڑھتے کم اور آوارہ گردی زیادہ کرتے اک رئیس زادے نے شراب سے تعارف کرایا اور موصوف کو جوئے کا بھی چسکا لگ گیا۔ شراب کے سوا، جس نے ان کو جان لے کر ہی چھوڑا، منٹو زیادہ دن کوئی شوق نہیں پالتے تھے۔ طبیعت میں اضطراب تھا۔ منٹو کا امرتسر کے ہوٹل شیراز میں آنا جانا ہوتا تھا، وہیں ان کی ملاقات باری(علیگ) سے ہوئی۔ وہ اس وقت اخبار "مساوات" کے ایڈیٹر تھے۔ وہ منٹو کی ذہانت اور ان کے داخلی انتشار کو بھانپ گئے۔ انھوں نے نہایت مخلصانہ اور مشفقانہ انداز میں منٹو کو صحافت کی طرف مائل کیا اور ان کو تیرتھ رام فیروزپوری کے ناول چھوڑ کر آسکر وائلڈ اور وکٹر ہیوگو کی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دلائی۔ منٹو نے بعد میں خود اعتراف کیا کہ اگر ان کو باری صاحب نہ ملتے تو وہ چوری یا ڈاکہ کے جرم میں کسی جیل میں گمنامی کی موت مر جاتے۔ باری صاحب کی فرمائش پر منٹو نے وکٹر ہیوگو کی کتاب "دی لاسٹ ڈے آف اے کنڈیمنڈ مین" کا ترجمہ دس پندرہ دن کے اندر "سرگزشت اسیر" کے نام سے کر ڈالا۔ باری صاحب نے اسے بہت پسند کیا، اس کی اصلاح کی اور منٹو "صاحب کتاب" بن گئے۔ اس کے بعد منٹو نے آسکر وائلڈ کے اشتراکی ڈرامے "ویرا" کا ترجمہ کیا، جس کی اصلاح اختر شیرانی نے کی۔ اور مسودہ پر اپنے دستخط کیے، جس کی تاریخ 18؍ نومبر 1934ء ہے۔ باری صاحب انھیں دنوں "مساوات" سے الگ ہو کر "خلق" سے وابستہ ہو گئے۔ خلق کے پہلے شمارے میں منٹو کا پہلا طبع زاد افسانہ "تماشہ" شائع ہوا۔ 
1935ء میں منٹو بمبئی چلے گئے، ادبی حلقوں میں بطور افسانہ نگار ان کا تعارف ہو چکا تھا۔ ان کو پہلی ملازمت ہفتہ وار "پارس" میں ملی، تنخواہ 40؍ روپے ماہوار تھی لیکن مہینہ میں مشکل سے دس پندرہ روپے ہی ملتے تھے۔ اس کے بعد منٹو نذیر لدھیانوی کے ہفتہ وار "مصور" کے ایڈیٹر بن گئے۔انھیں دنوں انھوں نے"ہمایوں" اور "عالمگیر" کے روسی ادب نمبر مرتب کیے۔ کچھ دنوں بعد منٹو فلم کمپنیوں، امپیریل اور سروج میں تھوڑے تھوڑے دن کام کرنے کے بعد "سنے ٹون میں 100 روپے ماہوار پر ملازم ہوئے اور اسی ملازمت کے بل بوتے پر ان کا نکاح اک کشمیری لڑکی صفیہ سے ہو گیا، جس کو انھوں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ یہ شادی ماں کے اصرار پر ہوئی۔ منٹو کی مفروضہ بد اطواریوں کی وجہ سے اقربا نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ حقیقی بہن بمبئی میں موجود ہونے کے باوجود نکاح میں شریک نہیں ہوئیں۔ 
بمبئی میں قیام کے دوران منٹو نے ریڈیو کے لیے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کو 1940ء میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازمت مل گئی۔ یہاں ن۔ م۔ راشد کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک بھی تھے۔ منٹو نے ریڈیو کے لیے 100؍ سے زائد ڈرامے لکھے۔ منٹو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اشک سے برابر ان کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ ایک بار منٹو کے ڈرامے میں اشک اور راشد کی سازش سے ردوبدل کر دیا گیا اور بھری میٹنگ میں اس کی نکتہ چینی کی گئی۔ منٹو اپنی تحریر میں ایک لفظ کی بھی اصلاح گوارہ نہیں کرتے تھے۔ گرما گرمی ہوئی لیکن فیصلہ یہی ہوا کہ اصلاح شدہ ڈرامہ ہی نشر ہو گا۔ منٹو نے ڈرامے کا مسودہ واپس لیا، نوکری کو لات ماری اور بمبئی واپس آ گئے۔ 
بمبئی آ کر منٹو نے فلم "خاندان "کے شہرت یافتہ ڈائرکٹر شوکت رضوی کی فلم "نوکر" کے لیے مکالمے لکھنے شروع کر دیے۔ انھیں پتہ چلا کہ شوکت کچھ اور لوگوں سے بھی مکالمے لکھوا رہے ہیں۔ یہ بات منٹو کو بری لگی اور وہ شوکت کی فلم چھوڑکر 100؍ روپے ماہوار پر بطور مکالمہ نویس فلمستان چلے گئے۔ یہاں ان کی دوستی اشوک کمار سے ہو گئی۔ اشوک کمار نے بمبئی ٹاکیز خرید لی تو منٹو بھی ان کے ساتھ بمبئی ٹاکیز چلے گئے۔ اس عرصہ میں ملک تقسیم ہو گیا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے تھے اور بمبئی کی فضا بھی کشیدہ تھی۔ صفیہ اپنے عزیزوں سے ملنے لاہور گئی تھیں اور فسادات کی وجہ سے وہیں پھنس گئی تھیں۔ ادھر اشوک کمار نے منٹو کی کہانی کو نظر انداز کر کے فلم محل کے لیے کمال امروہی کی کہانی پسند کر لی تھی، منٹو اتنے بد دل ہوئے کہ ایک دن کسی کو بتائے بغیر پانی کے جہاز سے پاکستان سدھار گئے۔ 
پاکستان میں تھوڑے دن ان کی آؤ بھگت ہوئی پھر ایک ایک کر کے سب آنکھیں پھیرتے چلے گئے۔ پاکستان پہنچنے کے کچھ ہی دنوں بعد ان کی کہانی "ٹھنڈا گوشت" پر فحاشی کا الزام لگا اور منٹو کو 3؍ ماہ کی قید اور 300؍ جرمانہ کی سزا ہوئی۔ اس پر کتّا بھی نہیں بھونکا۔ سزا کے خلاف پاکستان کے ادبی حلقوں سے کوئی احتجاج نہیں ہوا، الٹے کچھ لوگ خوش ہوئے کہ اب دماغ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سے پہلے بھی ان پر اسی الزام میں کئی مقدمے چل چکے تھے لیکن منٹو سب میں بچ جاتے تھے۔ سزا کے بعد منٹو کا دماغ ٹھیک تو نہیں ہوا، سچ مچ خراب ہو گیا۔ یار لوگ انھیں پاگل خانے چھوڑ آئے۔ اس بیکسی، ذلت و خواری کے بعڈ منٹو نے ایک طرح سے زندگی سے ہار مان لی شراب نوشی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ کہانیاں بیچنے کے سوا نہیں تھا۔ اخبار والے 20؍ روپے دے کراور سامنے بٹھا کر کہانیاں لکھواتے۔ خبریں ملتیں کہ ہر شناسا اور غیر شناسا سے شراب کے لیے پیسے مانگتےہیں۔ بچی کو ٹائفائڈ ہو گیا بخار میں تپ رہی تھی۔ گھر میں دوا کے لیے پیسے نہیں تھے۔  بیوی پڑوسی سے ادھار مانگ کر پیسے لائیں اور ان کو دیے کہ دوا لے آئیں وہ دوا کی بجائے اپنی بوتل لے کر آگئے۔ صحت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی لیکن شراب چھوڑنا تو دور، کم بھی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ شاید مر ہی جانا چاہتے تھے۔ 18؍ اگست 1954 کو انھوں نے ظفر زبیری کی آٹوگراف بک پر لکھا تھا:

                                       ’’ 786
                                       کتبہ
   یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے۔ اس کے سینہ میں افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں۔ 
     وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔ 
                                                    سعادت حسن منٹو
                                                                    18 اگست 1954 ‘‘

 اسی طرح ایک جگہ لکھا، "اگر میری موت کے بعد میری تحریروں پر ریڈیو، لائبریریوں کے دروازے کھول دیے جائیں اور میرے افسانوں کو وہی رتبہ دیا جائے جو اقبال مرحوم کے شعروں کو دیا جا رہا ہے تومیری روح سخت بے چین ہو گی اور میں اس بے چینی کے پیش نظر اس سلوک سے بے حد مطمئن ہوں جو مجھ سے روا رکھا گیا ہے" دوسرے الفاظ میں منٹو کہہ رہے تھے، ’’ذلیلو! مجھے معلوم ہے کہ میرے مرنے کے بعد تم میری تحریروں کو اسی طرح بوسے دو گے اور آنکھوں سے لگاؤ گے جیسے مقدس صحیفوں کو لگاتے ہو لیکن میں لعنت بھیجتا ہوں تمھاری اس قدردانی پر۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ 17؍ جنوری کی شام کو منٹو دیر سے گھر لوٹے۔ تھوڑی دیر کے بعد خون کی قے کی۔ رات میں طبیعت زیادہ خراب ہوئی، ڈاکٹر کو بلایا گیا، اس نے اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔ اسپتال کا نام سن کر بولے "اب بہت دیر ہو چکی ہے، مجھے اسپتال نہ لے جاؤ" تھوڑی دیر بعد بھانجے سے چپکے سے کہا، "میرے کوٹ کی جیب میں ساڑھے تین روپے ہیں، ان میں کچھ پیسے لگا کر مجھے وہسکی منگا دو۔" وہسکی منگائی گئی۔ کہا دو پیگ بنا دو۔ وہسکی پی تو درد سے تڑپ اٹھے اور غشی طاری ہو گئی۔ اتنے میں ایمبولنس آئی۔ پھر وہسکی کی فرمائش کی۔ ایک چمچہ وہسکی منہ میں ڈالی گئی لیکن ایک قطرہ بھی حلق سے نہیں اتری، سب منہ سے بہہ گئی۔ ایمبولنس میں ڈال کر اسپتال لے جایا گیا۔ راستے  ہی میں دم توڑ گئے۔ 
’’دیکھا آپ نے ! منٹو نے خود کوبھی اپنی زندگی کے افسانے کا جیتا جاگتا کردار بنا کر دکھا دیا تاکہ قول و عمل میں کوئی تضاد نہ رہے۔ کیا منٹو نے نہیں کہا تھا، "جب تک انسانوں میں اور سعادت حسن منٹو میں کمزوریاں موجود ہیں، وہ خوردبین سے دیکھ کر انسان کی کمزوریوں کو باہر نکالتا اور دوسروں کو دکھاتا رہے گا۔ لوگ کہتے ہیں یہ سراسر بیہودگی ہے۔ میں کہتا ہوں بالکل درست ہے۔ اس لئے کہ میں بیہودگیوں اور خرافات ہی کے متعلق لکھتا ہوں۔" 
لوگ کہتے ہیں کہ منٹو کو فحش نگار کہنا ان کی توہین ہے۔ دراصل ان کو محض افسانہ نگار کہنا بھی ان کی توہین ہے۔ اس لیے کہ وہ افسانہ نگار سے زیادہ حقیقت نگار ہیں اور ان کی نگارش کسی عظیم مصور سے کم درجہ کی نہیں۔ یہ کردار نگاری اتنی طاقتور ہے کہ لوگ کرداروں میں ہی گم ہو کر رہ جاتے ہیں اور کردار نگار کے آرٹ کی باریکیاں پس پشت چلی جاتی ہیں۔ منٹو افسانہ نگار نہ ہوتے تو بہت بڑے شاعر یا مصور ہوتے۔ 
 منٹو کی فنّی خصوصیات سب سے جدا ہیں۔ انھوں نے افسانے کو حقیقت اور زندگی سے بالکل قریب کر دیا اور اسے خاص پہلوؤں اور زاویوں سے قاری تک پہنچایا۔ عوام کو ہی کردار بنایا اور عوام ہی کے انداز میں عوام کی باتیں کیں۔ اس میں شک نہیں کہ فکشن میں پریم چند اور منٹو کی وہی حیثیت ہے جو شاعری میں میر اور غالب کی۔

منٹو کی وفات پر  بہ شکریہ ریختہ 

جمعہ، 6 جنوری، 2023

کیا واقعی لفظ ’اردو‘ کا مطلب لشکر ہی ہے؟

یہ اردو ہے کیا؟

اگر آپ ہزار لوگوں سے پوچھیں گے تو 999 یہی بتائیں گے کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس زبان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ یہ مغل بادشاہوں کے لشکروں اور چھاؤنیوں میں بولی جاتی تھی، جہاں یہ ہندی، فارسی، عربی، ترکی اور دوسری زبانوں کے آپس میں میل ملاپ سے وجود میں آئی۔ گویا زبان کیا ہے؟ چوں چوں کا مربہ ہے۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا زبانیں اس طرح سے آپس میں مل کر نئی زبانیں بنا سکتی ہیں، جس طرح مختلف رنگوں کو ملا کر نیا رنگ بن جاتا ہے؟

اس سوال کا جواب تھوڑی دیر میں لیکن پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی لفظ ’اردو‘ کا مطلب لشکر ہی ہے؟

گلزار کو اردو شاعری نہیں آتی بھائی!

بحیرۂ اسود کے کنارے آباد ترکی کا یہ حسین و جمیل شہر، جس کا نام ہے اوردو۔ یہ وہی لفظ ہے، یعنی ہماری زبان اردو۔ نہ صرف اس شہر بلکہ اس کے صوبے کا نام بھی اوردو ہے۔ اگر اردو کا مطلب لشکر ہی ہے تو کیا اوردو میں قدیم زمانے میں چھاؤنیاں قائم تھیں؟

لفظ اوردو کا اصل مطلب جاننے کے لیے ہمیں 13 صدیاں لمبی چھلانگ لگا کر منگولیا پہنچنا پڑے گا۔ یہ ایک لاٹھ ہے جسے 732عیسوی میں یہاں کے ایک بادشاہ بلگے خاقان نے اپنے بھائی کل تگین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ ا س لاٹھ کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر گوک ترک رسم الخط میں یہ تحریر کندہ ہے۔ 66 سطروں پر مشتمل اس بیان میں لفظ اردو مختلف شکلوں میں کوئی 20 بار آیا ہے۔ یہ لفظ اردو کے استعمال کی سب سے قدیم تحریری شہادت ہے۔

گوک ترک رسم الخط میں لکھی گئی کل تگین لاٹ جس میں لفظ ’اردو‘ کئی بار آیا ہے.

یہاں اردو کا کیا مطلب ہے؟

 اس لاٹھ پر لفظ اردو کا مطلب لشکر یا چھاؤنی نہیں بلکہ ریاست، شاہی محل اور مرکز ہے۔

اس لاٹھ کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد ترک شاعر یوسف خاص حاجب نے ایک کتاب ’شاہی دانش‘ لکھی، جس میں لفظ اردو جا بجا نظر آتا ہے، البتہ یہاں اس کا مطلب تھوڑا بدل کر ’شہر‘ ہو گیا ہے۔

ہر شہر، ملک اور ’اردو‘ میں اس کتاب کا نام مختلف تھاوہ ایک الگ ’اردو‘ کے رہنے والے تھے۔

دنیا قید خانہ ہے، اس کی محبت میں گرفتار مت ہونا بلکہ ایک بڑے ’اردو‘ اور ملک کی جستجو کرنا تاکہ چین سے رہ سکو۔

 موت نے بڑے بڑے اردو‘ اور ملک اجاڑ دیے۔

اردو کا یہی مطلب ہمیں ترکی کے صوبے اور شہر کے نام میں نظر آتا ہے۔ اسی مطلب کی کچھ اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ جیسے چینی شہر کاشغر کا قدیم نام ’اردو قند‘ تھا۔

1235ء میں منگولیا ہی سے اٹھ کر چنگیز خان کے پوتے باتو خان نے یورپ پر دھاوا بول دیا اور چند سالوں کے اندر اندر روس، پولینڈ اور ہنگری کو روند کے رکھ دیا۔ اس تمام مہم کے دوران ایک منقش طلائی خیمہ باتو خان کے زیرِ استعمال رہا، جس کی وجہ سے تمام لشکری خیمہ گاہ کو ’التون اوردو‘ یا سنہرا کیمپ کہا جانے لگا۔

شاہی خیمے کو اردو کیوں کہاں جاتا تھا؟ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ اردو کا ایک مطلب شاہی محل بھی ہے اور اسی مناسبت سے باتو خان کا خیمہ التون اوردو کہلایا۔ یہ دو منزلہ خیمہ جہاں سفر کرتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ وہ اردو جا رہا ہے، رفتہ رفتہ لفظ اردو کا ایک مطلب لشکر بن گیا۔

باتو خاءن کا خیمہ جس کی وجہ سے اس کے لشکر کو اردو کہا جانے لگا۔

باتوخان نے 1242ء میں مشرقی یورپ میں منگول سلطنت کی داغ بیل ڈالی جو پندرھویں صدی تک قائم رہی۔ اسی اثنا میں لفظ اردو بھی یورپ کی زبانوں میں داخل ہونے لگا۔

اطالوی:              اُردا

پولش، ہسپانوی:    ہوردا

سوئس:               ہورد

فرانسیسی:           ہورد

1555ء میں شائع ہونے والی رچرڈ ایڈن کی کتاب ’نئی دنیا کے عشرے‘ انگریزی زبان کی وہ کتاب ہے، جس میں یہ لفظ پہلی بار استعمال ہوا ہے۔

ہندوستان میں یہ لفظ پہلی بار ایک اور منگول حکمران بابر نے برتا۔ اس کے بعد دوسرے منگول یعنی مغل بادشاہوں کے دور میں یہ لفظ تراکیب میں بھی لکھا جانے لگا۔ جیسے: ’اردوئے معلیٰ، ’اردوئے علیا،‘ ’اردوئے بزرگ،‘ حتیٰ کہ ’اردوئے لشکر۔

ان تمام تراکیب میں اردو کا مطلب شاہی کیمپ ہے۔ یہ ایک موبائل محل ہوتا تھا، جس کی کئی منزلیں ہوا کرتی تھیں، زنانہ اور مردانہ حصے الگ ہوتے تھے اور اس کے اندر سیکڑوں لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوا کرتی تھی۔

1648ء  کو شاہجہان نے دلی کے قریب ایک نئے دارالسلطنت کی بنیاد ڈالی، جسے ویسے تو شاہجہان آباد کہا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کا نام بدل کر شاہی کیمپ کی مناسبت سے اردوئے معلیٰ ہوگیا۔

زبانیں ایسے نہیں بنتیں کہ دو تین زبانوں کو ملا کر اچھی طرح ہلائیں تو نئی زبان تیار۔

مشہور ماہرِ لسانیات اور میر تقی میر کے ماموں خانِ آرزو اپنی ایک لغت میں لفظ ’چھنیل‘ کے تحت لکھتے ہیں:

ہم لوگ جو ’اردوئے معلیٰ‘ میں رہتے ہیں، اس لفظ سے آشنا نہیں ہیں۔

اس اردوئے معلیٰ میں کون سی زبان بولی جاتی تھی؟

ایک نہیں بلکہ دو زبانیں: ایک تو فارسی اور دوسری وہ زبان جسے ہم آج اردو کے نام سے جانتے ہیں۔

اس زمانے میں اردو زبان کا نام متعین نہیں تھا، اسے کبھی ہندوی، کبھی ہندی، کبھی دکنی اور کبھی ریختہ کہا جاتا تھا۔ ان ناموں کے ساتھ ساتھ لوگ اسے ’زبانِ اردوئے معلیٰ‘ بھی کہنے لگے یعنی شاہ جہان آباد کی زبان۔

ظاہر ہے کہ اتنا بھاری بھرکم لفظ بولنا مشکل تھا، اس لیے یہ سکڑتے سکڑتے پہلے اردوئے معلیٰ اور بعد میں صرف اردو بن گیا۔

نوٹ: یہ مضمون کسی زمانے میں ہمارے رفیقِ کار رہے اقبال صاحب نے واٹس ایپ پر ساجھا کیا تھا۔ یہاں مشترک کرنے کا مقصد لوگوں تک اسے پہنچانا ہے۔ 

How to use voice typing in Urdu