ہفتہ، 25 دسمبر، 2021

شمس الرحمن فاروقی کی یاد میں

 شمس الرحمن فاروقی کی یادمیں

معصوم مرادآبادی کے قلم سے
آج عہدساز نقاد اور ادیب شمس الرحمن فاروقی کی پہلی برسی ہے۔انھوں نے گزشتہ 25/ دسمبر2020 کو اپنے وطن الہ آباد میں آخری سانس لی۔ بلاشبہ وہ اردو زبان وادب کے ایک ایسے سرخیل تھے، جس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے جو علمی اور ادبی ورثہ یادگارچھوڑا ہے ،اس پر اردو دنیا ہمیشہ ناز کرے گی اور اس بات کی مثالیں دے گی کہ اس دور ابتلا میں بھی ہمارے درمیان ایسے ادیب اورمحقق پیدا ہوئے، جنھوں نے اردو ادب کو عالمی ادب سے آنکھیں چار کرنے کے لائق بنایا۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ فاروقی صاحب اگر انگریزی میں ایسا ادب تخلیق کرتے تو انھیں نوبل پرائز ضرور ملتا۔وہ ایک ہمہ جہت قلم کار تھے۔ انھوں نے اپنے لیے ایسے دقیق موضوعات کا انتخاب کیا، جنھیں چھوتے ہوئے ہمارے تن آسان ادیب خوف محسوس کرتے ہیں۔ان کی مثال ایک ایسے جوہری سے دی جاسکتی ہے جو جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ کندن بن جایا کرتی ہے۔انھوں نے اپنا سفر ایک نقاد کے طور پر شروع کیا اور میرفہمی پر ایسی معرکۃ الآراء کتاب تخلیق کی، جس پر اردو والے آج تک سردھنتے ہیں۔چارجلدوں پر مشتمل میرتقی میر کی شاعری پر، ان کا تنقیدی شاہکار”شعر شور انگیز“ ہی اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگروہ کچھ اور نہ بھی کرتے تو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ اور تا بندہ رہتے۔
وہ بیک وقت کئی اصناف ادب پر دسترس رکھتے تھے۔انھوں نے اردو زبان وادب اور خاص طور پر کلاسیکی ادب کو انگریزی سے متعارف کروایااوردونسلوں کی ذہنی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اردو شعر وادب کو پڑھنے اور سمجھنے کے نئے زاویے ایجاد کیے اور تحریر کو سب سے بڑی طاقت ثابت کردیا۔وہ ایک نہایت مربوط اور منظم ذہن کے مالک تھے اور موضوعات پر ان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔معاملہ غالب کی تفہیم کا ہو یا میرشناسی کا یا پھر داستان گوئی کا۔ ان میدانوں میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ داستان گوئی کو تو انھوں نے ایک ایسے دور میں زندگی بخشی جب وہ ایک متروک صنف سمجھی جانے لگی تھی۔ انھوں نے طویل ترین داستان ”داستان امیرحمزہ“ پر جس جفاکشی اور محنت سے کام کیا، وہ شاید ہی کوئی کرسکتا۔ کلاسیکی شعر وادب، غزل کی شعریات، میرشناسی، داستانی ادب،لغت نویسی، فکشن، ادبی صحافت اور شاعری وہ کون سا میدان ہے جو ان سے اچھوتا رہا ہو اور جس سے وہ سرخرو ہوکر نہ گزرے ہوں۔انھوں نے کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھا بلکہ ان کی بعض تحریریں ایسی ہیں، جن پر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی مگر وہ اپنے کام میں مگن رہے۔کسی نے درست ہی کہا ہے کہ فاروقی صاحب کی رحلت سے ادبی بساط الٹ گئی ہے۔
یادش بخیر!
یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کا قصہ ہے۔راقم الحروف غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں فن خطاطی کا طالب علم تھا۔کلاس بعد دوپہر ہوتی تھی اور شام چھ بجے فراغت کے بعد ہم اکثرغالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ یہاں تقریباً روزانہ ہی کوئی ادبی محفل آراستہ ہوتی جس میں دہلی وبیرون دہلی کے مشاہیراہل قلم جمع ہوتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور غالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔جو لوگ ان محفلوں کی شان بڑھاتے تھے، ان میں مالک رام پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمررئیس، پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر محمدحسن،پروفیسر نثار احمدفاروقی، مجتبیٰ حسین، خواجہ حسن ثانی نظامی اورجوگیندرپال کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔فاروقی صاحب ان دنوں دہلی کے ڈاک بھون میں تعینات تھے اوراکثر ان محفلوں میں تشریف لاتے تھے۔ انھیں بڑے ادب واحترام کے ساتھ اسٹیج کی زینت بنایا جاتا۔ان کی جو ادا دوسروں سے انھیں ممتاز کرتی تھی، وہ ان کے پائپ پینے کانرالا انداز تھا۔ ہم نے پہلی بار کسی کو پائپ پیتے ہوئے دیکھاتھا۔آنکھوں پر موٹا چشمہ اور نہایت دیدہ زیب لباس۔ جب وہ مہمان خصوصی یا صدر کے طور پر تقریر کرنے کھڑے ہوتے تو ان کی باتیں سن کر جی چاہتا کہ بس وہ بولتے ہی رہیں۔ ان کی زبان سے علم وفضل کے دریا بہتے تھے۔ وہ تقریر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی غیر ضروری ہاؤ بھاؤ سے سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ بے تکلف انداز میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر باتیں کرتے تھے۔حالانکہ بہت سی باتیں ہمارے سر سے گزر جاتیں کہ اس وقت ہماری عمر ہی کیا تھی۔علمی مباحث اور تحقیق وتنقید کی بیشتر جہتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، لیکن فاروقی صاحب کی گفتگو میں ایسا جادو تھاکہ ہم انھیں بہت ذوق وشوق سے سنتے تھے۔ اکثر ادبی محفلوں میں فاروقی صاحب کے دیدار ہوتے اور ہم انھیں حسرت بھری نظروں سے یہ سوچ کر دیکھتے اور سنتے تھے کہ آگے چل کر اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو بتائیں گے کہ :
ہم نے بھی فراق کو دیکھا تھا
میں نے 1991 میں جب اپنا پندرہ روزہ اخبار”خبردار جدید“ جاری کیا تو ا س کی اعزازی کاپی جن سرکردہ ار دو ادیبوں کو روانہ کی جاتی تھی، ان میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام بھی شامل تھا۔عام طور پر اتنے مصروف لوگوں کے پاس اس قسم کے اخبارات ورسائل کی اعزازی کاپیاں آتی ہیں تو وہ اکثرردی کی ٹوکری کی نذرہوجاتی ہیں، لیکن مجھے یہ جا ن کر حیرت ہوئی کہ فاروقی صاحب میرے اخبار کے مستقل قاری تھے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے پروفیسر محمدحسن کی تجہیز وتدفین کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔ یہ اتنا عبرت ناک تھا کہ ملک کے تمام ہی اخباروں نے اسے نقل کیا۔ اس سلسلہ میں 8 مئی2010کو فاروقی صاحب نے ای میل کے ذریعہ جو خط مجھے ارسال کیا، وہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
”برادرم معصوم مرادآبادی، السلام علیکم!
ادھر کچھ دنوں سے آپ کا اخبار نہیں ملا۔میں امید کرتا ہوں کہ میرا نام ابھی فہرست میں ہوگا۔ اگر کٹ گیا ہے تو براہ کرم دوبارہ درج کرادیں۔ آپ چاہیں تو میں مناسب رقم کا ڈرافٹ بھیج دوں۔ مجھے آپ کا اخبار بہت پسند ہے۔
محمدحسن کے جنازے اور تدفین کے بارے میں آپ کا مضمون دیکھا۔آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ میں اسے اپنے ’خبرنامہ‘ میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔ اجازت مرحمت فرمائیے اور یہ بھی لکھئے کہ یہ آپ کے اخبار کی کس اشاعت میں شائع ہوا ہے۔
امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔
آپ کا
شمس الرحمن فاروقی
فاروقی صاحب نے ”شب خون“ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ’خبرنامہ شب خون‘ کے عنوان سے ایک مختصر پرچہ جاری کیا تھا جو مخصوص لوگوں کو بھیجا کرتے تھے۔ اس خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری محنت رائیگاں نہیں جارہی تھی اور میں اپنا جو اخبار انہیں روانہ کررہا تھا‘ وہ باضابطہ ان کے مطالعہ میں تھا، درمیان میں ڈاک کی خرابی کے سبب جب اخبار ان تک نہیں پہنچا تو انھوں نے اس کی یاددہانی کرائی۔ظاہر ہے یہ بھی چھوٹوں کو بڑابنانے کا ایک طریقہ ہے۔فاروقی صاحب ان لوگوں میں ہرگز نہیں تھے جو محض علم وادب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے بڑا ہونے کاڈھونگ رچاتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں علم وادب کے رسیا تھے اور انھیں جہاں سے بھی حاصل ہوتا اسے بے تکلف حاصل کرتے۔ اس خط کے بعد جب وہ دہلی تشریف لائے تو انھوں نے مجھے یاد کیا اور میں نے جامعہ کے مجیب باغ میں ان کی بیٹی کے گھر پران سے تفصیلی ملاقات کی۔ کبھی کبھی ان سے فون پر بات ہوتی تھی۔
شمس الرحمن فاروقی نے اپنی غیرمعمولی ادبی خدمات کے لئے ادب کے تمام ہی بڑے اعزازات حاصل کئے۔1982 میں تنقیدات میر پر چار جلدوں پر مشتمل ان کی غیرمعمولی تصنیف ”شعرشورانگیز“ کوادب کا سب سے باوقار انعام ’سرسوتی سمان‘ ملا۔ 1986 میں شاعری پران کی کتاب ”تنقیدی افکار“ کو ساہتیہ اکادمی نے انعام سے نوازا۔2009میں حکومت ہند نے ان کی ادبی خدمات کے عوض انھیں ’پدم شری‘ کے اعزاز سے نوازا۔2010 میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی اور دہلی اردو اکادمی نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے سرفراز کیا۔یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے کبھی ان اعزازات کو اپنے سینے پر نہیں سجایا۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’پدم شری‘ نہیں لکھا۔ظاہرہے ان کی شناخت انعام واکرام نہیں تھے بلکہ وہ کام تھا جس کی بنیاد پر انھیں موجودہ عہد میں اردو کا سب سے بڑا ادیب تسلیم کیا گیا۔وہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئرمین بھی رہے اور اس کے بنیادی خدوخال طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
2006 میں شائع ہونے والاان کا شہرہ آفاق ناول ”کئی چاند تھے سرآسماں“ منظر عام پر آیا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ہمارے عہد کے ایک بڑے فکشن نگار انتظار حسین نے ان لفظوں میں اس ناول کا استقبال کیا”مدتوں بعد اردو میں ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچادی ہے۔“ یہ حقیقت ہے کہ اس ناول نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے اور یہ اردو فکشن کی بہترین کتاب قرار پائی۔فاروقی صاحب نے اس ناول میں تاریخ اورفکشن کا بہترین تانا بانا بن کراپنے قارئین کو ماضی کا پیرہن اوڑھا دیا۔اس کی بے پناہ مقبولیت کے سبب خود فاروقی صاحب نے اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کرایا۔ بعد کو یہ ناول ہندی میں بھی شائع ہوا۔
فاروقی صاحب نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں جدیدیت کا علم اٹھایا۔1966 میں انھوں نے ایک منفرد جریدے ”شب خون“ کی داغ بیل ڈالی، جس کی اشاعت تقریباً چالیس برس تک جاری رہی۔یہ دراصل ان ادیبوں کی پناہ گا ہ تھا جو ترقی پسند تحریک سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ اس دوران فاروقی صاحب کے نظریات پررنگ برنگے الزامات بھی لگے۔ انھیں سی آئی اے کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ”شب خون“ میں علی سردار جعفری، عصمت چغتائی اور راجندرسنگھ بیدی جیسے ترقی پسند ادیبوں کوبھی جگہ ملی۔جب اس کی اشاعت بند ہوئی تو انھوں نے ”خبرنامہ شب خون“ کے نام سے کچھ عرصہ کے لئے ایک مختصر خبرنامہ بھی جاری کیا۔ان کی پیدائش30ستمبر1935کو اعظم گڑھ کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی۔وہ اپنے والدمولوی خلیل الرحمن فاروقی کی سب سے چہیتی اولاد تھے۔بچپن ہی میں انھیں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگیا تھااوراپنی بہن کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک ماہنامہ قلمی رسالہ”گلستاں“ شائع کیا تھا۔پندرہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا ناول ”دلدل سے باہر“لکھا۔ انھیں کمسنی میں ہی سینکڑوں اشعار یاد ہوگئے تھے۔اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھپور کے مہا رانا پرتاپ کالج سے فرسٹ بیچ کے ساتھ بی اے کیا۔1955میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور وہ بھی اس شان سے کہ پوری یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔اس کے بعد وہ درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے مگر ساتھ ساتھ سول سروس کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔1957 میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعدپوسٹل سروس سے وابستہ ہوگئے۔اس دوران ملک کے مختلف صوبوں میں انھیں تعیناتی ملی۔1994 تک وہ نئی دہلی میں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور پوسٹل سروسز بورڈ کے ممبر رہے۔ سبکدوشی کے بعد وہ الہ آباد منتقل ہوگئے جہاں ان کی ذاتی لائبریری میں دس ہزاروں کتابیں ان کی منتظر تھیں۔ فاروقی صاحب نے باقی ماندہ عمر لکھنے، پڑھنے اور سوچ بچار میں گزاری۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جس نے انھیں اپنے دور کا سب سے بڑا ادیب، محقق، نقاد، ناول نگار اور شاعر بنایا وہ دراصل ان کی ثابت قدمی اور پتہ ماری تھی۔ وہ جس کام کے بھی پیچھے پڑجاتے اسے اس کے انجام تک ضرور پہنچاتے تھے اور وہ بھی اتنے وقار اور معیار کے ساتھ کہ پڑھنے والے سردھنتے رہ جائیں۔فاروقی صاحب کے انتقال پر اردو حلقوں میں غم والم کی لہر دیکھ کر مجھے افتخارعارف کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
معصوم مرادآبادی کے صفحے سے ، ان کے شکریے کے ساتھ۔

اتوار، 19 دسمبر، 2021

تو دیکھ لینا از سرفراز بزمی

 

تو دیکھ لینا

_سرفراز بزمیؔ______

سنہری کرنوں سے جگمگاتی ہوئی منڈیروں پہ بیٹھ کر جب

کوئی پری وش نہ گنگناۓ ،

کوئی پرندہ نہ چہچہاۓ ،

کوئی پپیہا نہ گیت گاۓ

تو دیکھ لینا

 

یہ دیکھ لینا ---

کہ بند کمروں کے

سونے سونے سے طاقچوں میں

سجی ہوئی ہیں جو کچھ کتابیں

لرز رہی ہیں

وہ امن نامے ، وہ عہد نامے ،

اصول و دستور کے صحیفے ،

وہ ضابطے امن وآشتی کے ،

ضمانتوں کے سبھی نوشتے ،

حسین سپنے برابری کے

غرور کثرت کے زعم بیجا کی ٹھوکروں میں پڑے ہوۓ ہیں

افق سے اٹھتے ہوۓ بگولوں سے سرخ آندھی پنپ رہی ہے

یہ تاج والے خراج والے ،

یہ کل کے طوفاں سے آنکھ موندے سے آج والے

انا کی ضد پر اڑے ہوۓ ہیں

تو روزن ابر سے ستارہ کوئی افق پر جو جگمگاۓ

تو دیکھ لینا


بھرے نشیمن اجڑ رہے ہوں

ستم کے طوفان اٹھ رہے ہوں

گلے عدالت کے گھٹ رہے ہوں

سزا سے بےخوف چیل کوے کسی کبوتر کو نوچتے ہوں

لہو میں انصاف کے سنے ہوں

وہ ہاتھ

تھی جن کی ذمہ داری نظام گلشن کی پاسداری

وہ دامن عدل پھاڑتے ہوں

رخ عدالت کو نوچتے ہوں

ہری زمینوں پہ سرخ شبنم پڑی ہوئی ہو

دیا کی دیوی ، ستم کی چوکھٹ پہ سرجھکائے کھڑی ہوئی ہو

پھر ایسی صورت میں کوئی آکر اگر وفا کا سبق پڑھاۓ

تو دیکھ لینا



سرفراز بزمی

سوائی مادھوپور راجستھان

بھارت09772296970

 

منگل، 14 دسمبر، 2021

جانی کیا آج میری برسی ہے. Jaun Elia جون ایلیا

جانی کیا آج میری برسی ہے؟

یعنی کیا آج مر گیا تھا میں؟

 

اصلی نام: سید جون اصغر، قلمی نام: جون ایلیا

 ولادت: 14/ دسمبر 1931ء(امروہہ)  بھارت 

وفات: 08/نومبر ،2002ء (کراچی) پاکستان 

 

نام سیّدجون اصغر اور تخلص جونؔ تھا۔ آپ 14؍دسمبر 1931ء کو ایک علمی وادبی خاندان میں   امروہہ ، یونائٹڈ پروونس ،بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ رئیسؔ امروہوی اور سیّد محمد تقی ان کے بڑے بھائی تھے۔ جون ایلیا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور بھارت کے ممتاز فلم ساز کمال امروہی کے سگے  بھائی تھے۔

ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا ۔اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انھیں خطوط پر کی۔ انھوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 /سال کی عمر میں کہا تھا۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد شفیق حسن ایلیا کی سرپرستی میں حاصل کی۔ ادیب کامل (اردو)، کامل (فارسی) ، فاضل (عربی) کے امتحانات پاس کیے۔ اردو، فارسی اور عربی زبانوں پر جونؔ ایلیا کو یکساں عبور حاصل تھا۔ 1957ء میں بھارت سے ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی۔ 1963ء سے 1968ء تک اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان کے شعبۂ تالیف کے نگراں رہے۔ 1968ء میں اردو ڈکشنری بورڈ سے وابستہ ہوئے۔ 1970ء میں انھوں نے زاہدہ حنا سے شادی کی، دونوں مل کر ایک عرصہ تک ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ نکالتے رہے۔ بعد میں دونوں میں علاحدگی ہوگئی۔ تاریخ ، فلسفہ اور مذہب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔

ان کی تصانیف کے نام   ہیں: ’شاید‘ (شعری مجموعہ)، ان کی زندگی میں چھپ گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے تین مجموعے: ’یعنی‘، ’گمان‘، اور ’لیکن‘ شائع ہوئے ۔ وفات سے قبل زاہدہ حنا کے نام لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ ’’تمہارے نام‘‘ کمپوز ہوا رکھا تھا۔ انھوں نے جوہر صقلی کتابُ الطواسین (ازمنصورحلاج) کے ترجمے کیے ہیں مگر ان کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ پاکستان گورنمنٹ نے انھیں حسن کارکردگی کے تمغے سے نوازا ۔جون ایلیا برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے ۔وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔ اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں:

"میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوایعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:

💟چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں💟

💟 دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی💟

جون اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے۔ ان دنوں ان کی کل توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی۔ ان کے غصے کا نشانہ متحدہ ہندوستان کے انگریز قابض تھے ۔وہ ابتدائی مسلم دور کی تاریخ ڈرامائی صورت میں دکھاتے تھے، جس وجہ سے ان کے اسلامی تاريخ کے علم کے بہت سے مداح تھے۔جون کے مطابق ان کی ابتدائی شاعری اسٹیج ڈرامے کی مکالماتی فطرت کا تاثر تھی۔ جون ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہلِ تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چوں کہ جون ایلیا خود شیعہ تھے، اس لیے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا ۔جون کو زبانوں سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتے تھے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ جو انھوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، انھوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں  بھی کچھ مہارت حاصل کر لی تھی۔ اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پزیرائی نصیب ہوئی۔

                  جون ایک انتھک مصنف تھےلیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے، جس میں رہ کر انھیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ 'یعنی' ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان 'گمان' 2004ء میں شائع ہوا۔

جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے تھے۔

جون ایلیا تراجم، تدوین  اور اسی طرح کی دوسری مصروفیات میں  مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اور نثری تحریریں آسانی سے دستیاب نہيں۔ فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انھوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکيں۔

جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے، جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی، جن سے بعد میں انھوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا اپنے انداز کی ایک ترقی پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے۔ ان کے فرزند کا نام علی زریون ہے جو وہ خود بھی آج کے معروف شاعر ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کا طلاق ہو گیا۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور انھوں نے شراب نوشی شروع کر دی۔ جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8/ نومبر  2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔

💟ترتیب و پیشکش 👈 سید نوید جعفری، حیدرآباد دکن 💟

 

💟ہند و پاک کی مشترکہ ادبی تہذیب کے عظیم و نمائندہ شاعر  جون ایلیا صاحب کی آج 90ویں سالگرہ کے موقع پر انکا منتخب  کلام بطور خراج عقیدت پیش کررہا ہوں ملاحظہ فرمائیں 💟

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو 

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو 

 

تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں 

بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو 

 

تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں 

کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو 

 

جنوں وہی ہے وہی میں مگر ہے شہر نیا 

یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو 

 

کسے ہے خواہش مرہم گری مگر پھر بھی 

میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو 

 

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی 

کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

        

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی 

رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

 

جانی کیا آج میری برسی ہے

یعنی کیا آج مر گیا تھا میں

 

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

 

اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر 

کب پرندے اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

 

اب  مری  کوئی  زندگی ہی نہیں 

اب بھی تم میری زندگی ہو  کیا

 

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

اور  ہم  ہیں  کہ  نام  کر رہے ہیں

 

اس سے ہر دم معاملہ ہے مگر 

درمیاں   کوئی   سلسلہ   ہی  نہیں

 

ان لبوں کا لہو  نہ  پی جاؤں 

اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

 

خموشی سے ادا  ہو  رسمِ دوری

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

 

اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے 

بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں 

 

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

 

اور کیا چاہتی ہے گردشِ ایام کہ ہم 

اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے 

 

اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال

جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں

 

اے شخص میں تیری جستجو سے 

بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں

 

بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے

صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

 

 

تری   قیمت  گھٹائی  جا   رہی   ہے 

مجھے فرقت سکھائی جا رہی ہے

 

تیغ   بازی   کا    شوق    اپنی   جگہ 

آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں

 

جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ 

وصل  سے   انتظار  اچھا  تھا

 

بے قراری سی بے قراری ہے

وصل ہے اور فراق طاری ہے

 

جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں 

تم  سزا  بھی  تو  کم  نہیں  کرتے

 

ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر

سوچتا ہوں تری حمایت میں

 

آج جون ایلیا کی یومِ پیدائش ہے۔ یہ مضمون اچھا لگا تو کاپی کر کے یہاں چسپاں کر دیا تاکہ محفوظ ہو جائے۔ واٹس ایپ پر دستیاب مضمون شکریہ کے ساتھ۔

How to use voice typing in Urdu