ہفتہ، 5 دسمبر، 2020

مجازؔ لکھنوی (اسرارالحق)

 آج - 5؍دسمبر 1955*

*معروف ترقی پسند شاعر،رومانی اور انقلابی نظموں کے لیے مشہور، اپنے دورِ حاضر کے محبوب شاعر” اسرار الحق مجازؔ صاحب “ کا یومِ وفات ہے*
*اسرار الحق* نام اور *مجازؔ* تخلص تھا۔ *۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۱ء کو ردولی، ضلع بارہ بنکی (بھارت)* میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جج کے عہدے پر فائز تھے ، اس لیے ان کا قیام زیادہ تر لکھنؤ میں رہا۔ ۱۹۳۶ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد کچھ دنوں آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں اور کچھ عرصے بمبئی کے محکمۂ اطلاعات میں ملازم رہے۔ ہارڈنگ لائبریری، دہلی سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے۔ ابتدا میں *فانی بدایونی* نے ان کی چند غزلوں پر اصلاح دی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے ذوق کو خود رہبر بنایا۔ وہ اپنے دور کے محبوب شاعر تھے۔ *مجازؔ* شراب کے بے حد عادی تھے۔ کثرتِ شراب نوشی سے *۵؍دسمبر ۱۹۵۵ء* کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے۔ کسی نے *مجاز کو شیلے کہا اور کسی نے ان کو کیٹس، کسی نے ان کو بلبل رنگیں نوا* کہا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام *’’آہنگ‘‘* کے نام سے ۱۹۳۸ء میں طبع ہوا۔ اس میں کچھ نظموں کا اضافہ کرکے ۱۹۴۵ء میں ’’ شبِ تاب‘‘ اور پھر مزید اضافے کے بعد۱۹۴۹ء میں ’’ سازِ نو ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:24*
🌹✨
*پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
💐
*رومانی شاعر اسرار الحق مجازؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت...*
💐
بس اس تقصیر پر اپنے مقدر میں ہے مر جانا
تبسّم کو تبسّم کیوں نظر کو کیوں نظر جانا
---
رخصت اے ہم سفرو شہرِ نگار آ ہی گیا
خلد بھی جس پہ ہو قرباں وہ دیار آ ہی گیا
---
*سازگار ہے ہم دم ان دنوں جہاں اپنا*
*عشقِ شادماں اپنا شوقِ کامراں اپنا*
---
شوق کے ہاتھوں اے دلِ مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
عشق تو رسوا ہو ہی چکا ہے حسن بھی کیا رسوا ہوگا
---
پھر کسی کے سامنے چشمِ تمنا جھک گئی
شوق کی شوخی میں رنگِ احترام آ ہی گیا
---
جلوے تھے حلقۂ سرِ دامِ نظر سے باہر
میں نے ہر جلوے کو پابندِ نظر جانا تھا
---
*یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے*
*یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا*
---
یہ کس کے حسن کے رنگینئ جلوے چھائے جاتے ہیں
شفق کی سرخیاں بن کر تجلی کی سحر ہو کر
---
*ہر نرگسِ جمیل نے مخمور کر دیا*
*پی کر اٹھے شراب ہر اک بوستاں سے ہم*
---
*ماہ و انجم بھی ہوں شرمندۂ تنویرِ مجازؔ*
*دشتِ ظلمات میں اک ایسا چراغاں کر دیں*
---
یوں تجھ کو اختیار ہے تاثیر دے نہ دے
دست دعا ہم آج اٹھائے ہوئے تو ہیں
---
*بتانے والے وہیں پر بتاتے ہیں منزل*
*ہزار بار جہاں سے گزر چکا ہوں میں*
---
لاکھ چھپتے ہو مگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہو نزدیک نہیں دور نہیں
---
*ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے*
*یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے*
---
*بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ*
*ڈرتے نہیں سیاست اہلِ جہاں سے ہم*
---
یہ اپنی وفا کا عالم ہے اب ان کی جفا کو کیا کہئے
اک نشتر زہر آگیں رکھ کر نزدیک رگِ جاں بھول گئے
---
*غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں*
*اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں*
---
*اس محفلِ کیف و مستی میں اس انجمنِ عرفانی میں*
*سب جامِ بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے*
---
خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
جنس الفت کا طلب گار ہوں میں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
🌹
*اسرار الحق مجازؔ*
🌹
*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*
شکریے کے ساتھ
سلمی صنم
تحریک بقائے اردو کی وال سے شکریے کے ساتھ

جمعہ، 27 نومبر، 2020

امداد امام اثر: اردو تنقید اورتحقیق

 امداد امام اثر: اردو تنقید اورتحقیق کے گوہر نایاب اور اردو کی " ماحولیاتی تنقید" (Ecological Criticism) کے بنیاد گذار"

*** تحریر: احمد سہیل ***
سید امداد امام نام اور اثر تخلص کرتے تھے۔ 17/اگست 1849 کو بہار کے ضلع آرہ کے سالار پور گاؤں میں پیدا ہوئے۔امداد اثر کے والد کا نام سید وحید الدین خان تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی سید محمد محسن بنارسی سے حاصل کی۔ امداد اثر اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کے جید عالم تھے۔ وہ شیعہ مسلک اور عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔ دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی خاندانی پسند سے عنفوان جوانی میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ جستس شرف الدیں کی بڑی ہمشیرہ سے ہوئی تھی۔ان سے ان کے دو صاحب دارد ہیں جن کا نام علی امام اور حسن امام تھا۔ علی امام کو انگریز حکومت نے " سر" کے اعزاز اور خطاب بھی دیا۔ 1909 میں ساٹھ {60} سال کی عمر نے دوسرا نکاح کیا۔ اپنی شادی کی وجہ وہ اپنی کتاب " کاشف الحقاق" میں یون بیان کرتے ہیں" ۔۔" میرا سن شادی بیاہ کا نہ تھا مگر کیا کرتا یہ کرارسپرا کے امام باڑے اور نیورا کی مسجدیں ویران ہوگئیں۔ علی امام، حسن امام کرستان ہوگئے ۔ کلمہ توحید پڑھنے والا میری نسل میں نہ رہا۔ مجوارا شادی کرکے دوبارہ نسل جاری کرنی پڑی "۔۔ ان کے دو لڑکے اس شادی سے ان کے چار لڑکے سید حسین امام ، سید کاظم امام، سید عابد امام، سید صادق امام تھا۔ حسین اور کاظم اثر صاحب کی حیات میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ان کی دو صاحب زادیون کو انتقال ان کی ذندگی میں ہوگیا تھا۔ 17 اکتوبر 1934ء میں انتقال ہوا۔
امداد امام اثر کم و پیش حالیؔ اور شبلیؔ کے زمانے کے ایک نقاد ہیں جو براہ راست تو سر سید کی تحریک کے زیراثر تشکیل پائے ہوئے تنقیدی نظریات سے متاثر نہیں ہوئے لیکن بعض خیالات کے اظہار میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان ہی خیالات کو دہرا رہے ہیں جن کو حالیؔ اس سے قبل پیش کر چکے ہیں۔ امداد امام اثر تکنیکی اعتبار سے اردو کی تحقیق و انتقادات میں جدید پن، اور ایک نئی تنوریت { روشن خیالی} کو متعارف کروایا۔ انھوں نے حالی اور شبلی کی کچی تبصراتی تنقیدی رویوں کو خیر باد کہ کر معروضی اور ایک نیا تجزیاتی مزاج سے آگاہ کیا۔ اور مروجہ ادبی نظریات کو بڑے مہذب انداز میں مسترد کیا۔
شبلی اور حالی کے بعد اردو تنقید میں نئے معنوی مفاہیم اور رویوں کی مباحث نے ان کی تنقید کو منفرد انداز اور اسلوب بخشا۔ ان کے ادبی اور تنقیدی مزاج پر سر سید احمد خان، شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی کے عکس نظر آتے ہیں۔ ان کو سر سید کے فکریات سے تھوڑا سا اختلاف بھی تھا۔ امداد امام اثرکو اردو تنقید کی زبوں حالی کا احساس تھا کیونکہ اردو کا قریبی حوالہ عربی یا فارسی ہے اور ان دونوں زبانوں میں ادبی تنقید کی صنف کی کوئی مستحکم روایت موجود نہیں تھی۔ ان کی تنقیدی تحریریں اردو میں انقلابی نوعیت کی ہیں۔ انہوں نے روایتی ادب سے اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ اثر اخلاقیات کو شاعری میں بہتر تصور کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاعری کو اخلاق آموزی کا ایک بہتریں ذریعہ ہونا چاہے لیکن وہ شاعری میں الفاظ کی تہ داری کے قائل تھے۔
امداد امام اثر اردو، فارسی اور عربی کے علاوہ انگریزی سے بھی واقف تھے۔ انہوں نے انگریزی کا مطالعہ براہ راست کیا تھا لہذا ان کی تحریروں میں ٹھہراؤ اور توازن نظر آتا ہے۔ لیکن انہیں شبلی اور حالی سے معنی پر لفظ کی فوقیت پر اختلاف ہے۔
امداد امام اثر کی نقدیات میں کچھ کزوریان بھی تھی۔ ان پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے ان کی تنقیدی کا فکری ڈھانچہ تاثراتی نوعیت کا ہے مجھے اس سے غیر کامل طور پر اختلاف ہے۔ وہ سرسید احمد کان کر فکری آزادی اور روشن خیالی سے متاثر تھے۔ جو اردو تنقید میں سرسید کے زیر اثر آئے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری پر تنقیدی زاویہ نظر سے اس وقت ایک کتاب لکھی جب تنقید کا رجحان عام نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے اردو شاعری کی تمام اصناف سخن کے لئے چند اصول وضع کیے اور پھر ان کی روشنی میں اردو شاعری کے کلام کو دیکھا اس لئے اردو تنقید میں ایک نیا مناجیاتی اور ساختیاتی خاکہ دریافت ہوتا ہے۔ اور اردو تنقید کو ایک نیا
اعتماد عطا کیا۔ امداد امام اثر کا ادبی تنقیدی نظریات اردو انتقادات کا اجیتہاد نطر آتا ہے کی اردو فارسی ادب کے اس یر تنقیدی ماحول کے باوجود انحون جے اردو کو :' کاشف الحقائق" جیسی معرکتہ تنقیدی کتاب لکھی جو عملی تنقید کا ایک نمونہ ہے۔جس پر مجھے رچردسن کے انتقادی نظریات کا گہرا اثر محسوس ہوتا ہے۔
شعر میں وہ اخلاقیات کے ساتھ ' معنی' کو بھی کلیدی اہمیت دیتے ہیں۔ اثر کے نزدیک "خوش خیالی" کی ترکیب میں "خوش کی صفت" جمالیاتی کم اور اخلاقی زیادہ ہے۔ انہوں نے شاعری پر بحث کرتے ہوئے شاعری کی دو/2 اقسام خارجی (Objective) اور لجالم ذہن/ موضوعی (Subjective) کو اردو نقد سے روشناس کروایا اور ان تصورات کی واضح تشریح اور تعریفات پیش کیں۔ انہوں نے احساس دلوایا کہ شاعری پرسیاسی اور معاشرتی بحرانوں سے لے کر ماحولیات، موسم، چرند پرند اور زراعت کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کو بھی امداد امام اثر نے اپنی انتقادی تحریروں میں جگہ دی۔ "
امداد امام اثرنے اردو تنقید و تحقیق میں " ماحولیاتی تنقید" (Ecological Criticism) کا عندیہ دیا۔ " جس میں صرف شاعری کا متنی تجزیہ نہیں ہوتا اور نہ ہی تاثراتی رسائی کے تحت شاعری کا تجزیہ اورمطالعہ کیا جاتا ہے بلکہ معروض کے مظہرات کواور اس کے علت و معمول کے رشتوں سے شاعری کی معنویت میں معنیات تلاش کی جاتی ہے۔ "لہذا ان کو اردو تنقید کا پہلا '"ماحولیاتی نقاد" کہا جاسکتا ہے۔
امداد امام اثر کے تنقیدی شعور کے پس منظر میں ابن قتیہ،ابن رشیق، عبد القاہر جرجانی، ابو ہلال عسکری،جاحظ، کولرج اور رچرڈسن وغیرہ کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی تنقید کوعملی تنقید کا نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ جن میں تنقیدی اصولوں کا تناسب کم ہے لیکن یہ ان معنوں میں علمی نقد نہیں ہے۔ جن معنوں میں عہد حاضر میں عملی تنقید لکھی جاتی ہیں۔ یہ ایک انتقادی مکتب فکر ہے۔ لہذا ان کو اس دبستان سے منسلک کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ان کی کتاب " کاشف الحقائق " کو ' تنقیدی اجتہاد' کا نمونہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں اردو شاعری کا مطالعہ اور تجزیہ ہندوستانی اور فارس کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔
امداد امام اثر فن تنقید اور اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ انہوں نے "کاشف الحقائق” ہی میں ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ "وہ فن جسے انگریزی میں ‘کریٹی سیزم’ کہتے ہیں فارسی اور اردو میں مروج نہیں ہے، یہ وہ فن ہے جو سخن سنجوں کی کیفیت کلام سے بحث کرتا ہے۔”
عملی تنقید میں اثر صاحب ان اصولوں کو ضرور پیش نظر رکھتے ہوئے خلاقانہ رسائی کے تحت نئی فکری دریافتیں کی ہیں۔اور کچھ اصول واضح کئے ہیں اور ترتیب دئیے ہیں ۔ چنانچہ بعض جگہ وہ اس کا اظہار بھی کرتے چلتے ہیں۔ دردؔ کے بارے میں لکھتے ہیں "خواجہ صاحب کی غزل سرائی تمام تر اس صنفِ شاعری کے تقاضوں کے مطابق پائی جاتی ہے”یا ذوقؔ کے بارے میں لکھتے ہوئے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں "کوئی شک نہیں کہ ذوقؔ ایک ممتاز شاعر گزرے ہیں لیکن ان کی غزل سرائی غزل کے تقاضوں کے مطابق پورے طور پر نہ تھی
اردو میں امداد امام اثر کے ناقدیں میں وہاب اشرفی،ابولکلام قاسمی، شمس الرحمان فاروقی، احمد سہیل،اختر قادری، عبادت بریلوی، اورسید تنویر حسین وغیرہ کے نام اہم ہیں جن میں امداد امام اثر کے تنقیدی مزاج اور اس کی متنی ماہیت پرکئی سوالات ہی نہیں اٹھائے گئے ہیں بلکہ ان تحریروں کی مختلف فکری جہات سے بحث کی گئی ہے۔ امداد امام اثر کی کتابوں کی فہرست یہ ہے :
1۔ کاشف الحقائق 2۔ مرأۃالحکما ۔ { 62 فلسفیوں کے افکار و نظریات کے کارناموں کا تذکرہ، اور راضہ الحکما اور احوال زندگی}3۔ فسانۂ ہمت{ فلکیات ونجوم، فلسفی، تاریخ اور جغرافیہ پر بحثیں}
4۔ کتاب الاثمار 5۔ کیمیاے زراعت 6۔ فوائد دارین{ یہ مذھبی کتاب ہے جس میں رد عیسائیت کوموضوع بنایا گیا ہے}7۔ مصباح الظلم { شیعہ عقیدے کے پس منطر میں مذہب امامیہ اور آل محمد { ص} سے متعلق کئی امور پر لکھا گیا تھا}8۔ کتاب الجواب{ معروف بہ مناظر المصائب، مذہب امامیہ کے پس منظر میں بعص سوالات کے جواب نیا خاندان پیغبر کو کم مصائب کا سامناکرنا پڑا ،ان واقعات کا بیانیہ ہے} 9۔ معیار الحق
10۔ ہدیۂ قیصریہ 11۔ رسالہ طاعون 12۔ نذر آل محمد (احمد سہیل) ***
📷📷📷📷📷📷
{احمد سہیل}*

اتوار، 25 اکتوبر، 2020

پابلو پکاسو Pablo Picasso

تجریدی مصوری کے موجد، نامور مصور، مجسمہ ساز اور لینن امن انعام یافتہ ہسپانوی مصورپابلو پکاسو کی پیدائش 25/ اکتوبر1881ء کو اور وفات 8/ اپریل 1973ء (92 سال) کو ہوئی تھی-

ابتدائی حالات:

دور جدید کا سب سے بڑا مصور اور تجریدی مصوری کا موجد۔ شہر ملاگا ’’سپین‘‘ میں پیدا ہوا۔ جوانی بارسلونا میں بسر ہوئی۔ جہاں باپ اکیڈیمی آف آرٹس میں پروفیسر تھا۔

پابلو پکاسو مالاگا ( اسپین ) میں پیدا ہوا۔ اس کے والد آرٹ کے ٹیچر تھے۔ اس کے والدین بعد میں لاکارونا نامی شہر منتقل ہو گئے تھے جو بحر اطلانتک کے علاقے میں واقع ہے ۔ پکاسو نے ابتدا ہی سے روایتی تعلیم سے بغاوت کی۔ اس کے والد نے جب بیٹے کی ڈرائنگز دیکھیں تو اپنے پینٹ اور برش پکاسو کے حوالے کر دیے اور پھر کبھی خود پینٹ نہيں کیا۔ آگے چل کر وہ میڈرڈ چھوڑ کر ہورٹاڈي نامی ایبرو نامی پہاڑي گاؤں میں بس گیا تھا۔ 1900ء میں اسے پہلی سولو نمائش کی اجازت ملی۔

پکاسو پیش رو، ایک ماسٹراور ایک دیو مالائی عفریت کا حامی تھا۔ بیسویں صدی کی ہر تحریک میں اس کا ہاتھ تھا۔ 1904ء میں پیرس جیسے آرٹ کے مرکز میں رہنے لگا۔ اس کے اسٹوڈیو کا نام Bateau Laboir تھا ۔

کا رہائے نمایاں: 

پکاسو اس اکیڈیمی میں 1896ء میں داخل ہوا اور اپنے والد سے مصوری کے ابتدائی اصول سیکھے۔ اگلے سال میڈرڈ چلاگیا۔ 1903ء میں پیرس گیا جہاں اس کے ’’نیلے دور‘‘ کی تصویروں کا آغاز ہوا۔ اس دور کو ’’نیلا‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اس نے مایوس، اداس اور بیمار کرداروں اور سرکس میں ناچنے والوں کی تصویریں خالص نیلے رنگوں میں بنائیں۔ اس کے بعد اس کا گلابی یا کلاسیکی دور آتا ہے۔ بعد ازاں اس نے مصوری کی تمام پرانی روایات سے قطع تعلق کر لیا۔ دو سال افریقی حبشیوں کی قدیم مصوری اور سنگ تراشی کا گہرا مطالعہ کیا۔ پھر دو سال عظیم مصور سی زانے کے شاہکاروں کا عمیق مطالعہ کیا۔ 

ان دو سرچشموں سے فیض یاب ہونے کے بعد 1909ء میں اس کا کیوبزم کا دور شروع ہوا۔ 1920ء میں اس کے فن میں ایک اور تبدیلی آئی اور وہ کلاسیکی اسلوب میں حقیقت نگاری کے ساتھ تصویریں بنانے لگا۔ پھر اسے تجریدی مصوری سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ جنگ کے بعد پکاسو کو کوزہ گری سے دلچسپی ہو گئی اور اس نے ویلارس میں کوزہ گری کا بہت بڑا سٹوڈیو بنایا۔ وہ امن کا زبردست حامی تھا۔ اس کی بنائی ہوئی فاختہ عرصے تک امن پسندی کی علامت رہی۔

ٹائم میگزین نے 1998ء میں موجودہ صدی کی سو بڑی شخصیات کا انتخاب کیا تو پابلو کو پہلے نمبر پر قرار دیتے ہوئے لکھا: 

" اس سے قبل کوئی آرٹسٹ اس قدر مشہور و معروف نہ ہو سکا جتنا پکاسو ہوا " ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و انتخاب و پیشکش : نیرہ نور خالد- بشکریہ اقبال احمد

ساحر لدھیانوی Sahir Ludhiyanvi

 ساحر لدھیانوی

ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا، وہ 8/مارچ1921ء کو لدھیانہ کے ایک جاگیردار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ طالبِ علمی کے زمانے ہی میں ان کا شعری مجموعہ تلخیاں شائع ہوچکا تھا، جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔

سن 1949 عیسوی میں وہ لاہور سے بمبئی  آ گئے اور اسی سال ان کی پہلی فلم 'آزادی کی راہ' ریلیز ہوئی لیکن اصل شہرت موسیقار ایس ڈی برمن کے ساتھ 1950 ء میں فلم نوجوان میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو نصیب ہوئی۔ ان میں سے ایک گانے 'ٹھنڈی ہوائیں' کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔ ایس ڈی برمن اور ساحر کی جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جو آج بھی یادگار ہیں- ان فلموں میں بازی، جال، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، منیم جی اور پیاسا وغیرہ شامل ہیں۔

ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی، خصوصاً فلم 'برسات کی رات' کے گانوں نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس فلم کا گانا 'زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات' اس سال کا مقبول ترین نغمہ قرار پایا۔ اس کے علاوہ اسی فلم کی قوالی 'نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ تو ہمسفرکی تلاش ہے'، آج بھی فلمی دنیا کی سب سے مقبول قوالی سمجھی جاتی ہے۔ 

ساحر نے کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا: 

ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی، نیلے گگن کے تلے، چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو، میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی، میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں، دامن میں داغ لگا بیٹھے، ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں، میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا اور رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی جیسے مقبول گیت شامل ہیں۔گرودت کی 'پیاسا' اور یش راج کی 'کبھی کبھی' کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ کبھی کبھی کے گیت کون بھول سکتا ہے؟ جیسے: کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے یا میں پل دو پل کا شاعر ہوں۔ انھوں نے اپنی فلمی زندگی میں دوبار فلم فیئر ایوارڈ جیتے، جس میں پہلا 1964ء میں فلم 'تاج محل' کے گیت جو وعدہ کیا وہ بنھانا پڑے گا اور دوسرا کبھی کبھی کی شاعری پر 1977ء میں اپنے نام کیا۔

(حسن پرست اور عاشق مزاج ساحر لدھیانوی نے شادی نہ کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”کچھ لڑکیاں مجھ تک دیر سے پہنچیں اور کچھ لڑکیوں تک میں دیر سے پہنچا“ اس کا اظہار ان کے گیتوں”جسے توقبول کرلے، وہ ادا کہاں سے لاوٴں“، ”تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے“ سے ہوتا ہے۔ امرتا پریتم نے ساحر کو ٹوٹ کرچاہا۔ جی جان سے چاہا۔ ساحر امرتا کے دل کی آواز نہ سن سکا۔ امروز سے شادی کے بعد بھی امرتا پریتم اسے نہ بھول سکی۔ ایک بار امرتا کے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔ ”ماں کیا میں ساحر کا بیٹا ہوں“ امرتا نے جواب دیا ”کاش یہ سچ ہوتا“ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ساحر پل دو پل کے شاعر نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ کارِ زیاں نہیں تھا۔)

اس لیے  برسوں گزر جانے کے باوجود ان کے نغمے آج بھی عوام کے درمیان مقبول ہیں، 25/اکتوبر 1980ء کو اس البیلے شاعر کا ممبئی میں انتقال ہوا۔ ساحر نے دنیا کو اور کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو خواب ضرور دئیے ہیں، وہ خواب جو بڑی تبدیلی کا باعث ہوتے ہیں۔

خواب اگر مرجائیں تو دنیا ایک بے کیف اور بنجر ویرانے میں تبدیل ہوجائے- ساحر لدھیانوی ہمیں جس صبح کی امید دلاتا رہا وہ صبح ابھی آئی تو نہیں لیکن آئے گی ضرور۔

منتخب اشعار

ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﮐﯿﺠﮯ ﻣﺮﯼ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﻧﮕﺎﮨﯽ ﮐﺎ ﮔِﻠﮧ

ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ، ﺁﭖ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں

کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار

بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو

بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجھ کو خبر نہیں مگر اک سادہ لوح کو

برباد کر دیا ترے دو دن کے پیار نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے

زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے

ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺣﯿﺎﺕ ﺍﮎ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ

ﺧﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوۓ آنسو توبہ

میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہء امید

لو اب کبھی گلا نہ کریں گے کسی سے ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے

کچھ خار کم تو کر گۓ گزرے جدھر سے ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مایوسئی مآل محبت نہ پوچھیۓ

اپنوں سے پیش آۓ ہیں بیگانگی سے ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتخب کلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بَشرطِ استواری 

خُونِ جمہور میں بھیگے ہُوئے پرچم لے کر 

مجھ سے افراد کی شاہی نے دُعا مانگی ہے

صُبح کے نُور پہ تعزِیز لگانے کے لیے 

شب کی سنگِین سیاہی نے وَفا مانگی ہے 


اور یہ چاہا ہے کہ میں قافلۂ آدم کو 

ٹوکنے والی نِگاہوں کا مددگار بنُوں 

جس تصوّر سے چراغاں ہے سرِ جادۂ زِیست

اُس تصوِیر کی ہزِیمت کا گنہگار بنُوں 


ظلم درپردہ قوانین کے ایوانوں سے

بیڑیاں تکتی ہیں، زنجیر صدا دیتی ہے 

طاقِ تادِیب سے اِنصاف کے بُت گھُورتے ہیں 

مسندِ عدل سے شمشیر صدا دیتی ہے 


لیکن اے عظمتِ اِنساں کے سُنہرے خوابو 

میں کسی تاج کی سطوت کا پرِستار نہیں 

میرے افکار کا عنوانِ اِرادت تم ہو 

میں تمھارا ہُوں، لُٹیروں کا وَفادار نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یادِ رفتگاں

پھر وہ عزیز و اقربأ

جو توڑ کر عہد وفا

احباب سے منہ موڑ کر

دنیا سے رشتہ توڑ کر

حدِّافق سے اس طرف

رنگِ شفق کے اس طرف

اِک وادئ خاموش کی

اِک عالمِ مدہوش کی

گہرائیوں میں سو گئے

تاریکیوں میں کھو گئے

ان کا تصور ناگہاں

لیتا ہے دل میں چٹکیاں

اور خوں رلاتا ہے مجھے

بے کل بناتا ہے مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

رُوح بھی ہوتی ہے اُس میں یہ کہاں سوچتے ہیں


رُوح کیا ہوتی ہے اِس سے اُنہیں مطلب ہی نہیں

وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں


رُوح مرجائے، تو ہر جسم ہے چلتی ہوئی لاش

اِس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں


کئی صدیو ں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے

کئی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج


لوگ عورت کی ہر اِک چیخ کو نغمہ سمجھیں

وہ قبیلوں کا زمانہ ہو، کہ شہروں کا سماج


جبر سے نسل بڑھے، ظلم سے تن میل کرے

یہ عمل ہم میں ہے، بے علم پرندوں میں نہیں


ہم جو اِنسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں

ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا


خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے

فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے

تیغ بیداد پہ، یا لاشۂ بسمل پہ جمے

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا


لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں

خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ

سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب

لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ


ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسواسے کہو

جبر کی حکمتِ پرکارکے ایماسے کہو

محملِ مجلسِ اقوام کی لیلیٰ سے کہو

خون دیوانہ ہے ‘ دامن پہ لپک سکتا ہے

شعلہء تند ہے ‘خرمن پہ لپک سکتا ہے 


تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا

آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے

کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر

خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے

سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے


ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا

ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک

خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے

ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے

ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے

ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مادام

آپ بے وجہ پریشان سی کیوں‌ ہیں مادام؟

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے

میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی

میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے


نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدّن کی جِلا

ہم جہاں ‌ہیں وہاں‌ تہذیب نہیں پل سکتی

مفلسی حسِّ لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں‌ میں نہیں ڈھل سکتی


لوگ کہتے ہیں تو لوگوں ‌پہ تعجب کیسا؟

سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی

لوگ کہتے ہیں۔۔۔ مگر آپ ابھی تک چپ ہیں

آپ بھی کہیے، غریبوں میں شرافت کیسی


نیک مادام! بہت جلد وہ دَور آئے گا

جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے

اپنی ذلت کی قسم! آپ کی عظمت کی قسم!

ہم کو تعظیم کے میعار پرکھنے ہوں گے


ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے، لیکن

ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے

ہم نے ہر دور میں ‌محنت کے ستم جھیلے ہیں

ہم نے ہر دور کے ہاتھوں ‌کو حنا بخشی ہے


لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل؟

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں‌ گے

میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی

میں جہاں ‌ہوں، وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے


کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں

گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے

تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر

ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا

ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں

انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی

ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا

حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں

گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے

کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں

گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے

اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے

گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے

مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں

حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں

نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ

بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری

انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر

میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ

ﺗﺎﺝ، ﺗﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺍﮎ ﻣﻈﮩﺮِ ﺍُﻟﻔﺖ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ

ﺗُﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻭﺍﺩﺉ ﺭﻧﮕﯿﮟﺳﮯ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ

ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ! ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ

ﺑﺰﻡِ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺰﺭ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻨﯽ؟

ﺛﺒﺖ ﺟﺲ ﺭﺍﮦ ﭘﮧ ﮨﻮﮞ ﺳﻄﻮﺕِ ﺷﺎﮨﯽ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﮞ

ﺍﺱ ﭘﮧ ﺍﻟﻔﺖ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻨﯽ؟


ﻣﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﭘﺲِ ﭘﺮﺩﮦِ ﺗﺸﮩﯿﺮ ﻭﻓﺎ

ﺗﻮ ﻧﮯ ﺳﻄﻮﺕ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ

ﻣُﺮﺩﮦ ﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ

ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ


ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ

ﮐﻮﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﺎﺩﻕ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺟﺬﺑﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺸﮩﯿﺮ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ

ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﻔﻠﺲ ﺗﮭﮯ


ﯾﮧ ﻋﻤﺎﺭﺍﺕ ﻭ ﻣﻘﺎﺑﺮ، ﯾﮧ ﻓﺼﯿﻠﯿﮟ، ﯾﮧ ﺣﺼﺎﺭ

ﻣﻄﻠﻖ ﺍﻟﺤﮑﻢ ﺷﮩﻨﺸﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﮯ ﺳﺘﻮﮞ

ﺳﯿﻨﮧ ﺩﮨﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﺳﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﮐﮩﻨﮧ ﻧﺎﺳﻮﺭ

ﺟﺬﺏ ﮨﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﮮ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﺧﻮﮞ


ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ! ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮﮔﯽ

ﺟﻦ ﮐﯽ ﺻﻨﺎﺋﯽ ﻧﮯ ﺑﺨﺸﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺷﮑﻞِ ﺟﻤﯿﻞ

ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﺮ ﺭﮨﮯ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﻭ ﻧﻤﻮﺩ

ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﻥ ﭘﮧ ﭼﻼﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻗﻨﺪﯾﻞ


ﯾﮧ ﭼﻤﻦ ﺯﺍﺭ، ﯾﮧ ﺟﻤﻨﺎ ﮐﺎ ﮐﻨﺎﺭﮦ ﯾﮧ ﻣﺤﻞ

ﯾﮧ ﻣﻨﻘﺶ ﺩﺭﻭﺩﯾﻮﺍﺭ، ﯾﮧ ﻣﺤﺮﺍﺏ، ﯾﮧ ﻃﺎﻕ

ﺍﮎ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﻧﮯ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ

ﮨﻢ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﮌﺍﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﺬﺍﻕ

ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﻮﺏ ! ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻣﻮﮌ

ﭼﻠﻮ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ


ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﺩﻟﻨﻮﺍﺯﯼ ﮐﯽ

ﻧﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻏﻠﻂ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ

ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﮍﮐﻦ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ

ﻧﮧ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﺸﻤﮑﺶ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﺭﻭﮐﺘﯽ ﮨﮯ ﭘﯿﺶ ﻗﺪﻣﯽ ﺳﮯ

ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﻠﻮﺋﮯ ﭘﺮﺍﺋﮯ ﮨﯿﮟ


ﻣﺮﮮ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﺑﮭﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﯽ

ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺭﺍﺗﻮﮞﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ

ﺗﻌﺎﺭﻑ ﺭﻭﮒ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻟﻨﺎ ﺑﮩﺘﺮ

ﺗﻌﻠﻖ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﺍﭼﮭﺎ

ﻭﮦ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﺟﺴﮯ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﺗﮏ ﻻﻧﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﻤﮑﻦ

ﺍﺳﮯ ﺍﮎ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻣﻮﮌﺩﮮ ﮐﺮ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﺍﭼﮭﺎ


ﭼﻠﻮ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ خالد محمود

جمعرات، 22 اکتوبر، 2020

مرزا ہادی رسوا Mirza Hadi Ruswa

 آج نامور شاعر اور ناول نگار مرزا محمد ہادی رسواؔ کا یوم وفات ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نام محمد ہادی، تخلص مرزا، فرضی نام رسوا تھا۔ لکھنو کے محلہ ’’بگٹولہ‘‘میں 1857ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے مورث اعلیٰ ماڑ ندران سے دلی آئے اور وہاں سے لکھنو آ کر مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 


آپ کے والد کا نام آغا محمد تقی تھا۔ والدین کا سایہ سولہ سال کی عمر میں ہی سر سے اٹھ گیا۔ رشتے کے ایک ماموں نے پرورش کی لیکن تمام خاندانی ترکے پر قابض ہوگئے۔ 


فارسی کی درسیات اور ریاضی و نجوم کی تحصیل اپنے والد سے کی۔ اس کے بعد عربی اور مذہبی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انگریزی پڑھنی شروع کی۔ انٹر کا امتحان پرائیوٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔ اس کے بعد رڑکی چلے گئے۔ وہاں سے اوورسیئری کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی سے منشی کامل کا امتحان بھی پاس کیا۔ 

بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے پرائیوٹ طور پر بی۔اے کیااور امریکہ کی اورینٹل یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 

ایک دن اتفاقاً کیمسٹری کا ایک عربی رسالہ ہاتھ آگیا۔ اس کے مطالعہ کے بعد علم کیمیا کا شوق اس حد تک دامن گیر ہوا کہ ملازمت سے مستعفی ہو کر لکھنوچلے آئے۔ یہاں نحاس مشن اسکول میں فارسی کے استاد مقررہوگئے۔ فاضل اوقات میں کیمیا سازی کے تجربے کرتے رہے۔ اسی زمانے میں ایک لوہار کے لڑکے کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ معاوضے میں اس کی بھٹی استعمال کرتے اور کیمیا سازی کے آلات تیار کرتے۔ 

’’اشراق‘‘نام کا ایک پرچہ بھی اسی زمانے میں نکالا۔ بعد میں لکھنوکے ’’ریڈ کرسچین کالج‘‘میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ یہاں کے پرنسپل بریڈے صاحب ان کے بڑے معتقد تھے۔ اس کالج میں وہ عربی، فارسی، تاریخ، فلسفہ سبھی کچھ پڑھاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی شام کے وقت ’’ازابیلا تھوبر من گرلز کالج‘‘میں تدریس کی خدمت انجام دیتے۔ 

کچھ دنوں بعد علم نجوم کا شوق اس طرح مسلط ہوگیا کہ دونوں کالجوں کی ملازمت چھوڑ کر اس علم کے پیچھے پڑ گئے اور ’’زیح مرزائی’’کے نام سے ستاروں کا ایک چارٹ تیار کر ڈالا۔ تین چار سال بعد بریڈے صاحب انھیں دوبارہ ریڈ کرسچین کالج میں لے آئے۔ 

1919 ء کے آس پاس عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ ہوئے اور وہاں پر بہت سی کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ آپ کو مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ عربی، عبرانی، یونانی، انگریزی، فارسی، ہندی، سنسکرت زبانوں پر اچھا خاصا عبور حاصل تھا۔ منطق و فلسفہ اور ریاضی میں مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مشرقی و دنیوی علوم پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔ 

آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن بحیثیت ناول نگار آپ کی شہرت نے آپ کے فضل و کمال کے دوسرے پہلوؤں کو دبا لیا۔ شاعری میں مرزا اوج سے اصلاح لیتے تھے ،جو مرزا دبیر کے شاگرد تھے۔ 

غالب کے خاص مداح تھے۔ بعد میں مومن کو پسند کرنے لگے تھے۔ حالی، نذیر، محمد حسین آزاد اور شبلی وغیرہ ان کے معاصرین میں تھے۔ مذہبی مناظروں کا بھی شوق رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک کتاب بھی لکھی ۔ 


یوں تو آپ نے کئی ایک ناول لکھے ہیں لیکن ’’امراؤ جان ادا’’آپ کا شاہکار ناول ہے۔ ﯾﮧ ﻧﺎﻭﻝ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮﮦ ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ ﮨﮯ۔

 ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻓﻠﻢ ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ﺍﺩﺍ ‏( 1972 ﺀ ‏) ، ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻠﻤﻮﮞ، ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ‏( 1981 ﺀ ‏) ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ‏( 2006 ﺀ ‏) ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺑﻨﺎ۔ 2003 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻧﺸﺮ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺳﯿﺮﯾﻞ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﯾﮩﯽ ﻧﺎﻭﻝ ﺗﮭﺎ۔


چہار شنبہ 21 اکتوبر 1931ء کو حیدرآباد میں انتقال فرمایا اور قبرستان باغ راجہ مرلی دھر تڑپ بازار، حیدرآباد میں دفن ہوئے۔


آپ کے مزاج میں استغنا، لاابالی پن اور لاپرواہی حد سے زیادہ تھی۔ اس لیے آپ کا شعری سرمایہ پوری طرح یکجا نہ ہوسکا اور جو یکجا ہوا ، محفوظ نہ رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی تصانیف بھی دستبرد زمانہ کا شکار ہوگئیں۔ 

۔……

مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے مگر جب کبھی اصرار ہوتا تھا تو ضرور جاتے تھے۔غزل گوئی میں اپنا زیادہ وقت صرف نہیں کرتے تھے۔مشاعرہ کے دو ایک گھنٹے پیشتر غزل کہنا شروع کرتے تھے۔مقررہ وقت تک کافی تعداد اشعار کی ہو جاتی تھی۔


ایک مشاعرہ  میر تقی میرؔکی فاتحہ صد سالہ کے نام سے ہوا تھا جس میں مرزاؔ صاحب نے میرؔ کی شاعری پر ایک پر مغز تقریر کی تھی اور ذیل کی غزل طرح میں پڑھی تھی جس کے اکثر شعر لکھنؤ میں زبان زد عام ہو گےٗ۔ اس طرح میں میرؔ و غالبؔ کی معرکہ آرا غزلیں ہیں۔


حسن شاہد ہے مری رنگینیٗ تحریر کا

ایک اداےٗ شوخ ہے جو رنگ ہے تصویر کا


فطرت انسان کی کمزوری دکھاتے ہیں ؎


ضعف میں شکوہ عبث ہے گردشِ تقدیر کا

بن پڑا وہ ہم سے کب جو کام تھا تقدیر کا


شعر کا انداز دیکھیےٗ؎


دیکھ میرا حال،اگر تو جھوٹ سمجھے عشق کو

سن میری فریاد،اگر قائل نہ ہو تاثیر کا


شعر نہیں عبرت کا دفتر ہے؎


یاد کر لینا کہ اکثر بستیاں ویراں ہوئیں

اس خرابے میں خیال آےٗ اگر تعمیر کا


شعر کی گہرائی دیکھیےٗ؎


تھم گےٗ آنسو نمائش جب ہوئی مدنظر

رک گیا نالہ جو اندیشہ کیا تاثیر کا


زبان اور انداز بیان دیکھیےٗ۔اس رنگ کے شعر مرزاؔ کی خاص پسند کے تھے۔مشاعروں میں انھوں نے ایک خاص انداز سے اس کو پڑھا ہے۔


الحذر کام دنیا میں تمھیں سے ہو سکا

چاہنے والے پہ اپنے کھینچنا شمشیر کا


عاشقانہ شعر ہے مگر وہی ندرت بیان اور خوبی زبان کا پہلو لیے ہوےٗ۔


طبع نازک پر گراں ہے کیوں مرا سر پھوڑنا

ہم نہ کہتے تھے نہ چھیڑو تذکرہ تقدیر کا


یہ شعر بیت الغزل ہے اس کا زور دیکھیے۔


وضع کے پابند ہم دیوانگی جدت پسند

پھر گلایا جاےٗ لوہا قیس کی زنجیر کا


غرض مشاعرہ ملحوظ رکھتے ہوےٗ مقطع کہا ہے۔


اس غزل گوئی میں وہ تاثیر ہے مرزاؔ آج

سو برس کے بعد عالم نوحہ خواں ہے میرؔ کا


مرزا کی شاعری کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے جذبات و خیالات نظم کرتے تھے جو ایک فطری شاعر میں ہونا چاہیےٗ۔غالبؔ کی زمینوں میں انھوں نے خوب خوب گل کھلاےٗ ہیں،افسوس کہ وہ سب کلام دستیاب نہیں ہو سکا مگر جس قدر ملا ہے وہ ملاحظہ ہو۔


جسے ہو حسن ظن تم سے کسی سے بدگماں کیوں ہو

تمھارے عہد میں بدنام دورِ آسماں کیوں ہو


کسی پر جان جاتی ہے تو ضبط شوق مشکل ہے

نہ ہو قابو اگر دل پر تو کہنے میں زباں کیوں ہو


اس شعر میں جو ٹکڑے ہیں یہ مرزاؔ صاحب کی خاص پسند کے تھے۔


جو دل مطلوب ہے اچھا۔یہ تمھید وفا کیسی

ستم مقصود ہے بہتر،فریب امتحاں کیوں ہو


مری بیتابیوں کا حال غیروں سے نہ کہنا تھا

تم ایسے ہو تو پھر کوئی کسی کا رازداں کیوں ہو


دل آزاری کو جس کی دلربائی ہم سمجھتے ہوں

توقع اس سے کیسی،پھر وہ ہم پر مہرباں کیوں ہو


یہ دونوں شعر دیکھیے۔


حقیقت میں مخاطب ہو تمھیں شکوہ شکایت کے

تمھیں جس کے ہو وہ شکوہ سنج آسماں کیوں ہو


فرشتو! جب کسی سے ہو وقوع سعئ لاحاصل

مرے اعمال میں لکھدو وہ محنت رائیگاں کیوں ہو


کہیں گے حالِ دل مرزاؔ کبھی رمز و کنایت میں

ملالِ خاطرِ احباب اندازِ بیاں کیوں ہو


مرزاؔ غالبؔ کی مشہور غزل پر مرزاؔ کی طبع آزمائی دیکھیے۔

۔

راحتیں طول مرض کی صرف درماں ہو گئیں

زندگی جن مشکلوں سے تھی وہ آساں ہو گئیں


صورتیں امید کی خوابِ پریشاں ہو گئیں

سامنے آنکھوں کے آئیں اور پنہاں ہو گئیں


اُن سے کیا لطف تعلق اُن سے کیا دل بستگی

غیر کے ماتم میں جو زلفیں پریشاں ہو گئیں


ناخن وحشت نے سینے پر جو کیں گلکاریاں

فصل گل میں زینتِ چاکِ گریباں ہو گئیں


سیکڑوں رخنے کیے پیدا در و دیوار میں

شوق کی نظریں رقیب چشم درباں ہو گئیں


بے مرمت سی جو قبریں کوچہٗ وحشت میں تھیں

وہ بھی آخر صرف استحکام زنداں ہو گئیں


کُھل گےٗ چینِ جبیں سے ان کی بدخوابی کے بھید

جن اداؤں کو چھپاتے تھے نمایاں ہو گئیں


دل میں اب کیا رہ گیا ہے، ناامیدی کے سوا

آرزوئیں خون ہو کر نذرِ مژگاں ہو گئیں


مقطع ملاحظہ ہو؎


چند باتیں وہ جو ہم رندوں میں تھیں ضرب المثل

اب سُنا مرزاؔ کہ وردِ اہلِ عرفاں ہو گئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نگاہِ مہر ہے عالم کے اجزاےٗ پریشاں پر

ہر اک ذرے کا حق ثابت ہے خورشید درخشاں پر


فنا کے بعد بھی چھوٹا نہ میں قید تعلق سے

مری تصویر کھنچوائی گئی دیوارِ زنداں پر


بہل ہی جاےٗ گا دل شہر کی گلیوں میں اے ناصح

نہیں آوارگی موقوف کچھ سیرِ بیاباں پر


کبھی تو اس طرف بھی کوئی بھولے سے نکل آےٗ

کہاں تک بیکسی رویا کرے گورِ غریباں پر


دکھاتے جوشِ وحشت کے مزے تجھ کو بھی اے ناصح

مگر کیا کیجیےٗ قابو نہیں بندِ گریباں پر


مجھے ذوقِ جنوں نے دے کے رخصت ذوقِ خواری کی

کیے ہیں بار ہا احسان اطفالِ دبستاں پر


سمجھتے کافرانِ عشق کی دشواریاں یہ بھی

اگر طاعت بتوں کی فرض ہوتی اہلِ ایماں پر


کہیں ہم اب کچھ ایسے شعر مرزاؔ جس میں جدت ہو

کہاں تک حاشیے لکھا کریں غالبؔ کے دیواں پر


۔۔۔


چھوٹی بحروں میں مرزاؔ کی روانی طبیعت کا اندازہ کیجیے۔


ابر جب جھوم جھوم کر آےٗ

دل جو اُمڈے ہوےٗ تھے بھر آےٗ


دل میں طوفاں اٹھاتے تھے نالے

لب تک آےٗ تو بے اثر آےٗ


ذیل کے شعر میں کوٹھے کا استعمال اور مصرع کی بلندی دیکھیے۔


کہیےٗ کیا آسمان سے ٹھری

آپ کوٹھے سے کیوں اُتر آےٗ


چند شعر ایک طرح میں اور سنےٗ؎


مرتے مرتے نہ قضا یاد آئی 

اسی کافر کی ادا یاد آئی


تم جدائی میں بہت یاد آےٗ

موت تم سے بھی سوا یاد آئی


لذت معصیتِ عشق نہ پوچھ

خلد میں بھی یہ بلا یاد آئی


چارہ گر زہر منگا دے تھوڑا

لے مجھے اپنی دوا یاد آئی


ردیف وہی، قافیہ و بحر مختلف؎


روشِ وحش و طیر یاد آئی

دشت وحشت کی سیر یاد آئی


ذاہدو آج ہم کو پھر وہ شے

جس سے ہے تم کو بیر یاد آئی


دیکھ کر مشہدِ ادا اُن کو

لالہ و گل کی سیر یاد آئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب چند منتخب غزلیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لڑ کے جاتے ہو تو ایک تیغ لگاتے جاؤ

ہاتھ اٹھاتے ہو تو یوں ہاتھ اُٹھاتے جاؤ


حالِ دل سچ بھی کہوں میں تو مجھے جھٹلا دو

بھید کھلتے ہوں تو کچھ بات بناتے جاؤ


وعدہٗ شام کرو، صبح کو جاتے ہو اگر

کوئی بے وقت جو سوےٗ تو جگاتے جاؤ


کہیں بدنام نہ ہو جاؤ پشیماں کیوں ہو

ہاتھ ملتے ہو تو مہندی بھی لگاتے جاؤ


یوں چلو راہ وفا میں کہ نہ پاےٗ کوئی

جو نشاں راہ میں ہیں ان کو مٹاتے جاؤ


میرؔ کا نام تو روشن ہے مگر اے مرزاؔ

ایک چراغ اور سرِ راہ جلاتے جاؤ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چارہ گر مشورہٗ ترکِ وفا دیتے ہیں

زہر دیتے ہیں یہ ظالم کہ دوا دیتے ہیں


مجھ کو یہ خوف کہ تم بھی کہیں اُن میں سے نہ ہو

چاہنے والے کو جو لوگ دغا دیتے ہیں


کان تک اُس کے نہ پہنچے تو نہ پہنچے فریاد

سننے والوں کا کلیجا تو پکا دیتے ہیں


الحذر شیخ بُرے ہوتے ہیں پینے والے

اچھے اچھوں کو یہ دھوکے سے پلا دیتے ہیں


تنگئی عیش میں ممکن نہیں ترکِ لذت

سوکھے ٹکڑے بھی تو فاقوں میں مزا دیتے ہیں


یادِ ایام جوانی ہے بہت درد انگیز

وہی اچھے جو افسانے بُھلا دیتے ہیں


جب غزل کوئی نئی کہتے ہیں مرزاؔ صاحب

کسی حیلے سے انھیں جا کے سنا دیتے ہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بُرے یا بھلے لہو رونے والے

یہی لوگ ہیں سرخرو ہونے والے


تہِ چرخ برپا ہوےٗ حشر کیا کیا

مزاروں میں سویا کیے سونے والے


زہے خوش نصیبی شہیدانِ غم کی

مزاروں سے ہنستے اٹھے رونے والے


شب وعدہ چیخیں گے ہم بھی سحر تک

ذرا سُن رکھ او شام سے سونے والے


کہاں تک تو برسے گا اے ابر کُھل جا

ابھی دیر تک روئیں گے رونے والے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ﻧﺎﻟﮧ ﺭﮐﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﺮ ﮔﺮﻡ ﺟﻔﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ

ﺩﺭﺩ ﺗﮭﻤﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﭘﮭﺮ ﻧﻈﺮ ﺟﮭﯿﻨﭙﺘﯽ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﺟﮭﮑﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﺮ ﺧﻄﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺮﺕ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ

ﺩﻡ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﺑﺨﺖ ﻣﺰﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﺣﺎﻝ ﺩﻝ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﭼﻮﮎ ﮔﺌﮯ

ﺍﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﺁﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺍﺛﺮ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺷﺮﺭ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﻮﮞ

ﻭﺭﻧﮧ ﺷﻌﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻟﮧ ﻭ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺁ ﺭﺳﻮﺍؔ

ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


بشکریہ خالد محمود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 11 اکتوبر، 2020

شان الحق حقی

 آج معروف شاعر‘ ادیب‘ محقق و نقاد‘مترجم اورماہر لسانیات شان الحق حقی کا یوم وفات ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شان الحق حقی دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 

ان کے والد مولوی احتشام الدین حقی اپنے زمانے کے مشہور ماہر لسانیات تھے اور انہوں نے مولوی عبدالحق کی لغت کبیر کی تدوین میں بہت فعال کردار ادا کیا تھا۔ اسی علمی ماحول میں شان الحق حقی کی پرورش ہوئی۔ 

انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی سے انگریزی میں ایم اے کیا جس کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو اورہندوستان کے شعبہ اطلاعات کے مشہور ماہنامہ آج کل سے وابستہ رہے۔


قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں انہوں نے 1950ء سے 1968ء تک حکومت پاکستان کے محکمہ مطبوعات و فلم سازی میں خدمات انجام دیں، بعدازاں وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بھی بطور ڈائریکٹر سیلز منسلک رہے۔


شان الحق حقی کی تصانیف میں تار پیراہن‘ دل کی زبان‘ حرف دل رس‘ نذر خسرو‘ انتخاب ظفر (مع مقدمہ) اور نکتہ راز‘ 

تراجم میں انجان راہی‘ تیسری دنیا‘ قلوپطرہ‘ گیتا نجلی اور ارتھ شاستر اور مرتبہ لغات میں فرہنگ تلفظ اور اوکسفرڈ انگریزی اردو لغت شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک ترقی اردو بورڈ میں بطور معتمد اعزازی خدمات انجام دیں اور اردو کی سب سے بڑی لغت کی تدوین میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا۔شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔

11 اکتوبر 2005ء کو شان الحق حقی ٹورنٹو (کینیڈا) میں وفات پاگئے اور وہ ٹورنٹو ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شان الحق حقی دوسروں کو ہنسانے کا ہی نہیں بلکہ خود پر ہنسنے کا فن بھی جانتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار شان الحق حق کے صاحبزادے کیپٹن شایان حقی نے علمی مجلس لندن کے زیر اہتمام لندن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن میں ”شان کی باتیں“ کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ والد کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے اس تقریب کے انعقاد پر وہ عالمی مجلس لندن اور بطور خاص ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک علمی انسان تھے دوسروں کو ہنسنے ہنسانے کے ساتھ وہ اپنی ذات پر ہنسنا بھی جانتے تھے۔ انہوں نے ”بھائی بھلکڑ“ کے نام سے خود پر ایک نظم بھی لکھی۔ دنیاوی اور ادبی کاموں میں انہوں نے ایک توازن قائم کر رکھا تھا۔ ان کے آخری ایام کا ذکر کرتے ہوئے کیپٹن شایان حقی نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انہیں اپنی موت کا علم ہو اور وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد کو کبھی خالی بیٹھے نہیں دیکھا۔ وہ کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ ضرور پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت ادبی اور علمی مصروفیات کی نذر ہوتا تھا جس کے باعث وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک خوش قسمت انسان تھے جنہیں ان کی والدہ کی شکل میں ایک اچھی خاتون خانہ ملیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی والدہ نے خود اٹھا رکھی تاکہ والد پوری یکسوئی سے علمی و فنی کام سر انجام دے سکیں۔ ڈاکٹر جاوید شیخ نے کہا کہ شان الحق حقی 1917ء سے 2005ء تک کوئی 88 برس اس دنیا میں رہے۔ انہوں نے قدیم وضع کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کی۔ شان الحق حقی نے شہر دہلی کی معروف شخصیت حضرت ابوالحق محدث دہلوی کے گھرانے میں جنم لیا انہوں نے اردو زبان کے کئی کارآمد اور نازک پہلوؤں کی حفاظت کی ہے۔ تلفظ کے لئے فرہنگ تلفظ کے علاوہ اردو املا، لسانی اور صوتی مسائل کا بھی احاطہ کیا اور کئی گرانقدر مضامین لکھے۔ انہوں نے کہا کہ شان الحق حقی ایک فطری شاعر تھے کبھی وہ دلکش غزل سنا رہے ہوتے تھے تو کبھی کوئی خوبصورت نظم، نظم اور غزل کے علاوہ مزاح اور ظرافت کو بھی شاعری کا موضوع بنایا۔ وہ ہر بات میں کوئی نئی بات پیدا کرنے کا فن جانتے تھے۔انہوں نے کہا کہ حقی صاحب نے بھگوت گیتا کا ایسا لاجواب ترجمہ کیا جو بعض بڑے پنڈتوں کے ترجموں سے کہیں بہتر ہے۔ بچوں کے لئے ”پھول کھلے ہیں رنگ برنگے“ سمیت کئی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ انگریزی ادب سے شیکسپیئر کے مشہور ناول انتھونی اور قلوپطرہ کو اردو کا لباس پہنایا۔ کونسائز آکسفورڈ ڈکشنری کے آٹھویں ایڈیشن کا اردو ترجمہ کیا۔ تقریب کی کنوینر ہما رائس نے کہا کہ شان الحق حقی کی تحریروں میں بہت تنوع تھا۔ وہ زبان کی چاشنی اور محاوروں سے پڑھنے والوں کے لئے سماع باندھ دیتے تھے۔ ارتھ شاسترا کا اردو ترجمہ کرنے سے قبل انہوں نے باقاعدہ سنسکرت سیکھی۔ شیکسپیئر کے ناول انتھونی اور قلوپطرہ کا اردو میں ترجمہ کر کے خود کو وقت کا بڑا مترجم ثابت کیا تاہم ترجمے کے دوران انہوں نے انگریزی الفاظ کے ہم پلہ اور ہم معنی اردو کے الفاظ اتنی مہارت سے استعمال کئے کہ پڑھنے والا داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 


بشکریہ جنگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منتخب کلام:


تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے

ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے


دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب

درد بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے


کاش اے ابرِ بہاری ترے بہکے سے قدم

میری امیّد کے صحرا میں بھی گاہے جاتے


ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال

ہم بھی ہر لغزشِ مستی کو سراہے جاتے


ہے ترے فتنۂ رفتار کا شہرہ کیا کیا

گرچہ دیکھا نہ کسی نے سرِ راہے جاتے


ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق

کم نگاہی کے لئے عذر نہ چاہے جاتے


لذّتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے

ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے


دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ

اور کچھ دن غمِ ہستی سے نباہے جاتے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ اٹھی ساز بغاوت کی لرزہ خیز ترنگ

وہ ابھری قلب کشیری کی بیقرار امنگ

وہ گونج اٹھا فضاوں میں دیکھ نعرہ جنگ

پکارتا ہے مجھے ضرب تیغ کا آہنگ

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

مرا یقین مرا پیماں پکارتا ہے مجھے

مری وفا مرا پیماں پکارتا ہے مجھے

نقیبِ داورِ دوراں پکارتا ہے مجھے

بطونِ غیب سے انساں پکارتا ہے مجھے

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

فغان جنگ سے گونجی ہے وادی کشمیر

اٹھی ہے عالم مستی میں موج ساحل گیر

مری ہی مٹھی میں ہے آج دہر کی تقدیر

مرے لہو ہی سے ہوگی یہ داستاں تحریر

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

وہ دیکھ لشکر دشمن قریب آپہنچا

وہ دیکھ برق سے خرمن قریب آپہنچا

وہ شورِ ضربت آہن قریب آپہنچا

وہ دیکھ فتح کا دامن قریب آپہنچا

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

وطن کی تازہ بہاروں میں دیکھنا مجھ کو

جہانِ نو کے نظاروں میں دیکھنا مجھ کو

فلک کے ٹوٹتے ستاروں میں دیکھنا مجھ کو

سخن کے فلک شراروں میں دیکھنا مجھ کو

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اے دل اب اور کوئی قصہء دنیا نہ سنا

چھیڑ دے ذکر وفا ہاں کوئی افسانہ سنا


غیبت دہر بہت گوش گنہ گار میں ہے

کچھ غم عشق کے اوصاف کریمانہ سنا


کار دیروز ابھی آنکھوں سے کہاں سمٹا ہے

خوں رلانے کے لیے قصہء فردا نہ سنا

دامن باد کو ہے دولت شبنم کافی

روح کو ذکر تنک بخشیء دریا نہ سنا

سنتے ہیں اس میں وہ جادہ ہے کہ دل چیز ہے کیا

سنتے ہیں اس پہ وہ عالم ہے کہ دیکھا نہ سنا


گوئی بے ہوش وہ کیا جس نے کہ ہنگام نوا

کوئی نالہ ہی لب نے سے نکلتا نہ سنا


ہم نشیں پردگئی راز اسے کہتے ہیں

لب ساغر سے کسی رند کا چرچا نہ سنا


کچھ عجب چال سے جاتا ہے زمانہ اب کے

حشر دیکھے ہیں مگر حشر کا غوغا نہ سنا


بڑھ گیا روز قیامت سے شب غم کا سکوت

جسم آدم میں کہیں دل ہی دھڑکتا نہ سنا


نوحہء غم کوئی اس بزم میں چھیڑے کینوکر

جس نے گیتوں کو بھی با خاطر بیگانہ سنا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رو بھی عکس رو بھی بھی میں

میں بھی ہوں تو بھی میں


خود سے بچ کر جاؤں کہاں

ہوں گویا ہر سو بھی میں


لے کر رخ پر اتنے کلنک

لگتا ہوں خوش رو بھی میں


شامل مے پیمانہ بھر

پیتا ہوں آنسو بھی میں


صدقے میں ان آنکھوں کے

سیکھ گیا جادو بھی میں


اس کی بزم ناز سے دور

اس کے ہم پہلو بھی میں


دید سے بے پروا ہو کر

شوق سے بے قابو بھی میں


بیر ہی رکھتا مجھ سے صنم

ہوتا گر ہندو بھی میں


واۓ طلسم نقش فرنگ

بھول گیا اردو بھی میں


قائل خود بھی ہوں حقیؔ 

شاغل الا ہو بھی میں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی

چراغ جلتے ہیں اور روشنی نہیں آتی


کسی کے ناز پہ افسردہ خاطری دل کی

ہنسی کی بات ہے پھر بھی ہنسی نہیں آتی


نو پوچھ ہئیت طرف و چمن کہ ایسی بھی

بہار باغ میں بہکی ہوئی نہیں آتی


ہجوم عیش تو ان تیرہ بستیوں میں کہاں

کہیں سے آہ کی آواز بھی نہیں آتی


جدائیوں سے شکایت تو ہو بھی جاتی ہے

رفاقتوں سے وفا میں کمی نہیں آتی


کچھ ایسا محو ہے اسباب رنج و عیش میں دل

کہ عیش و رنج کی پہچان ہی نہیں آتی


سزا یہ ہے کہ رہیں چشم لطف سے محروم

خطا یہ ہے کہ ہوس پیشگی نہیں آتی


خدا رکھے تری محفل کی رونقیں آباد

نظارگی سے نظر میں کمی نہیں آتی


بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست

قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نظر چرا گۓ اظہار مدعا سے مرے

تمام لفظ جو لگتے تھے آشنا سے مرے


رفیقو راہ کے خم صبح کچھ ہیں شام کچھ اور

ملے گی تم کو نہ منزل نقوش پا سے مرے


لگی ہے چشم زمانہ اگرچہ وہ دامن

بہت ہے دور ابھی دست نارسا سے مرے


یہیں کہیں وہ حقیقت نہ کیوں تلاش کروں

جسے گریز ہے اوہام ماورا سے مرے


کسی پہ منت بے جا نہیں کہ سچ یہ ہے

سنور گۓ دل و جاں شیوہء وفا سے مرے


گراں ہیں کان پہ ان کے وہی سخن جو ابھی

ادا ہوۓ بھی نہیں نطق بے نوا سے مرے


کھلا چمن نہ ہوا میں پھر اے نقیب بہار

ابھی تو زخم ہرے ہیں تری دعا سے مرے


نشاط و رنگ کے خوگر مجھے معاف کریں

چھلک پڑے جو لہو ساز خوش نوا سے مرے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ﻣﺤﺒﺖ ﺧﺎﺭ ﺩﺍﻣﻦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ

ﯾﮧ ﺍﻗﻠﯿﻢ ﻋﺰﯾﺰﺍﮞ ﺑﮯ ﺯﻟﯿﺨﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﺑﺴﺎﻁ ﺁﺭﺯﻭ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺻﺤﺮﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ

ﻭﮦ ﮨﻨﮕﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﻮ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻧﺸﺎﻥ ﺻﺒﺢ ﯾﻮﮞ ﮔﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻧﮑﻠﮯ ﻧﮧ ﺟﺐ ﻧﮑﻠﮯ

ﺍﺩﮬﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺷﺐ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺣﺴﺮﺕ

ﭘﻨﮩﺎﮞ

ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻗﻠﻢ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﺪﮮ ﮐﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﯾﻌﻨﯽ

ﮐﮩﯿﮟ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺻﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻓﻘﻂ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﺷﮑﻦ ﻻﮐﮭﻮﮞ

ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﮦ ﻣﺘﺎﻉ ﮐﺎﻓﺮﯼ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻧﻤﻮﺩ ﺻﺒﺢ ﻭﻋﺪﮦ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﯽ

ﻭﮦ ﻓﺮﻗﺖ ﮐﯽ ﺷﺐ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ ﺁﺭﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﻟﺮﺯﺷﯿﮟ ﺳﺎﺯ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ

ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮐﻠﯽ ﺁﺷﻮﺏ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﺎﮎ ﺩﺍﻣﻦ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺭﺳﻮﺍ ﺭﮨﮯ ﺣﻘﯽؔ

ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﻦ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﺷﻨﺎﺳﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ خالد محمود

اتوار، 13 ستمبر، 2020

فانی بدایونی (شوکت علی خاں)

 ﺷﻮﮐﺖ ﻋﻠﯽ خاں, ﻓﺎﻧﯽ بدایونی 13/ ستمبر 1879ﺀ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺍﯾﻮں ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﺠﺎﻋﺖ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﻥ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﭙﮑﭩﺮ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﻭﺵ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺮﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ 1901ﺀ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﻠﯽ ﺳﮯ ﺑﯽ ﺍﮮ ﮐﯿﺎ۔

ﮐﺎﻟﺞ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﭽھ ﻋﺮﺻﮧ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍرﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﺷﻌﺮ ﻭ ﺳﺨﻦ ﮐﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯿﺎﮞ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺴﻠﯽ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺑﻨﯽ ﺭﮨﯿﮟ۔ 1908ﺀ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﯽ ﮔﮍﮪ ﺳﮯ ﺍﯾﻞ ﺍﯾﻞ ﺑﯽ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﭘﺎﺱ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮐﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﭘﯿﺸﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺻﺮﻑ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻭﮐﺎﻟﺖ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭽھ ﻋﺮﺻﮧ ﺑﺮﯾﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮑﮭﻨﻮ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﯾﮑﭩﺲ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺅ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺤﯿﺜﯿﺖ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻭﮐﯿﻞ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ۔

ﻣﺠﻤﻮﻋﯽ ﻃﻮﺭ ﺳﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﯼ مگرﺟﺲ ﻭﻗﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺍﺥ ﺩﻟﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗھ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺼﺎﺋﺐ ﮐﻮ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻧﮩیں ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺱ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺣﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﮩﺎﺭﺍﺟﮧ ﺣﯿﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﭩﯿﭧ ﺳﮯ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮ ﺩﯼ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻣﺤﮑﻤۂ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﺯﻡ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮉ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺭﻓﯿﻘۂ ﺣﯿﺎﺕ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ۔ 1933 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﮞ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯﺩﻝ ﮐﻮ ﭨﮭﯿﺲ ﻟﮕﯽ۔ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﺎﮐﺎﻣﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﯾﻮﺳﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﮐﮯ 26/ اگست  1941ﺀ کو حیدرآباد ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فانی بدایونی کی شاعری:

ﻓﺎﻧﯽ ﻭﮦ ﺑﻼ ﮐﺶ ﮨﻮﮞ ﻏﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺍﺣﺖ ﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻏﻢ ِ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﮩﭽﺎﻧﯽ

ﻓﺎﻧﯽ ﯾﺎﺳﯿﺖ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﺰﻥ ﻭ ﯾﺎﺱ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﺰﻭ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﮯ۔ ﺳﻮﺯ ﻭ ﮔﺪﺍﺯ ﺟﻮ ﻏﺰﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﻠﻮﮦ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ۔ ﻓﺮﻕ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮐﮯ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﭩﻦ ﺳﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻏﻢ ﻟﺬﺕ ﺑﺨﺶ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﺸﺎﻁ ِ ﻏﻢ ﮐﺎ ﻋﻨﺼﺮ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮨﮯ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﺮﮔﮭﭧ ﮐﺎ ﺷﺎﻋﺮ ﯾﺎ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﺠﺎﻭﺭ ﮐﮩﻨﺎ ﺣﺪ ﺩﺭﺟﮧ ﻧﺎﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮨﮯ۔ ﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺷﺎﻋﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺳﺮﭼﺸﻤۂ ﺣﯿﺎﺕ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻏﻢ ﻧﮯ ﻧﺸﺎﻁ ﮐﺎ ﺭﻭﭖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﺬﺕِ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺳینہ ﻣﻌﻤﻮﺭ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻓﻦ ﮐﺎ ﮐﻤﺎ ﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻏﻢ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﺑﺪﯼ ﺳﮑﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻭﺭ ﭘﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺩﺭﺩ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﮨﻤﻨﻮﺍ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﯿﺮ: ﮨﻢ ﻧﮯ ﻣﺮ ﻣﺮ ﮐﮯ ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ﮐﯽ

ﺩﺭﺩ: ﮨﻢ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﺮ ﭼﻠﮯ

ﻓﺎﻧﯽ: ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﺮﻣﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ

ﺑﻘﻮﻝ ﻣﺠﻨﻮﮞ ﮔﻮﺭﮐﮭﭙﻮﺭﯼ:

” ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ” ﻣﻮﺕ “ ﮐﯽ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺟﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ۔ “ ﺑﻘﻮﻝ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ،

” ﻏﻢ ﻋﺸﻖ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﻧﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺁﺗﺶ ﮐﺪﮦ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮩﯽ ﺁﮒ ﮐﮯ ﺷﻌﻠﮯ ﺯﺑﺎﻥِ ﺷﻌﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﯼ ﮐﺎ ﻋﻨﺼﺮ ﻏﺎﻟﺐ ﻏﻢ ﻭ ﺍﻧﺪﻭﮦ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻏﻢ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺻﺪﺍﻗﺖ ﮨﮯ۔ “

ﻓﺎﻧﯽ ﺑﺪﺍﯾﻮﻧﯽ ﻧﮯ 26/ ﺍﮔﺴﺖ 1941ﺀ ﮐﻮ ﺣﯿﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ۔ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ 62 ﺑﺮﺱ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﮔﺮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﯼ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺳﭩﮫ ﺳﺎﻝ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﮒ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﺮ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺗﮭﺎ۔

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﺭﺏ

ﻣﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻓﺮﻕ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻧﺎﻡ ﺷﻮﮐﺖ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﺷﻮﮐﺖ ﺗﺨﻠﺺ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﺗﺨﻠﺺ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺩﺍﻣﻦ ﺑﮩﺎﺭ ﺳﮯ ﻋﺎﻟﻢ ِﯾﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﺋﮯ ﮐﻔﻦ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﻮ ” ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﮐﻮ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔ﺑﻘﻮﻝ ﺁﻣﺪﯼ،

ﻓﺎﻧﯽ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﯾﺎﺱ ﻭ ﺍﻟﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﺗﻤﯽ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺍُﭨﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ “

ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﻼ ﻡ ﺳﻨﺪﯾﻠﻮﯼ ” ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ” ﻣﺰﺍﺝ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺣﻮﻝ ‘ ‘ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻏﻢ ﻭ ﯾﺎﺳﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ،

” ﻓﺎﻧﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮔﻠﺸﻦ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ ﻣﻐﻤﻮﻡ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﻭ ﺭﻧﺴﺘﺮﻥ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﻮﺭ ﻭ ﮐﻔﻦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﺍﺷﮏ ﺷﺒﻨﻢ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ِﺣﻨﺎ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﺁﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﻟﯿﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺾ ﻏﻢ ﻭ ﯾﺎﺱ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﺭﻓﻌﺖ ﻭ ﻋﻈﻤﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﯾﺎﺳﯿﺖ ﮐﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮩﺎﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ “

ﭼﻤﻦ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﻓﺎﻧﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﺷﺎﺋﺪ

ﮐﭽﮫ ﺁﺝ ﺑﻮﺋﮯ ﮐﻔﻦ ﺩﺍﻣﻦ ِ ﺑﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ

ﻓﺎﻧﯽ ﻏﻢ ﮨﯽ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮ ﺭﺗﮭﮯ۔ ﺟﻮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎﺋﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺁﮨﻨﮓ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺩﻣﺎﻍ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻝ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﭼﭩﺨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﮈﮬﯿﻠﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﻮﻥ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻻﺕ ﻧﮯ ﺟﺒﺮ ﮐﺎ ﻗﺎﺋﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﺰﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﻧﺠﺎﺕ ﺩﻻ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔

ﮨﺮ ﻧﻔﺲ ﻋﻤﺮ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﮐﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺖ ﻓﺎﻧﯽ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﺮﻣﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ

ﺁﺝ ﺭﻭﺯ ﻭﺻﺎﻝ ِ ﻓﺎﻧﯽ ﮨﮯ

ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺭﺍﺯ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ

ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﺟﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻓﺎﻧﯽ

ﺍﻟﻠﮧ ﺭﮮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺟﺎﻧﯽ

ﺍﻭﺭ ﺍﺱ کے سینکڑوں ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ، ﻣﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﻧﺎ ۔ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍُﺱ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻣﺮﮒ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻏﻢ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻔﯿﺎﻧﮧ ﮨﮯ۔

ﻣﻮﺕ ، ﮐﻔﻦ ، ﻗﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ : ۔

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﯼ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﻭ ﮦ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ، ﮐﻔﻦ ، ﻗﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﺎﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﮯ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﺍﻥ ﮈﺭﺍﺋﻮﻧﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﺟﮕﺮﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ، ﮐﻔﻦ ، ﻗﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭼﯿﺰ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎ ﻥ ﺳﮑﻮﻥ ﻭ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﻘﻮﻝ ﺩﺭﺩ ﮔﻮﺭﮐﮭﭙﻮﺭﯼ : ” ﻓﺎﻧﯽ ﻣﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﯾﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﻣﻮﺕ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺣﯿﺎ ﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻠﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺣﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ۔ “

ﭼﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﺅ ﻭﮦ ﮨﮯ ﻗﺒﺮ ِ ﻓﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺟﺎﺅ

ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺟﺎﺅ

ﺳﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺮﮮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺷﮑﻮﮮ

ﮐﻔﻦ ﺳﺮﮐﺎﺋﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺟﺎﺅ

ﺩﯾﮑﮫ ﻓﺎﻧﯽ ﻭﮦ ﺗﺮﯼ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﺍﮎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺩﻭﺵ ﭘﺮ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﮯ

ﺷﺐ ﻓﺮﻗﺖ ﮐﭩﯽ ﯾﺎ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﻧﯽ

ﺍﺟﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻣﺪ ﮨﮯ ﺳﺤﺮ ﮐﯽ

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻏﻢ : ۔

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺍﺱ ﺍﻣﺮ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﯼ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺟﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﺰﯾﺰ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺮﺗﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩ ﻭ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ، ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺸﻦ ﭘﺮﺷﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﺛﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﻮ۔ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺗﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﻨﺎﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﺍ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ،

” ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﺍُﭨﮭﺎﺋﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺟﺎﺋﻮﮞ ﺗﻮ ﺍُﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ۔ “

ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺟﺲ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﻭﮦ ﻓﺴﺎﺩﺍﺕ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﻨﮕﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺰﺍﺝ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻏﻢ ﺑﺮﺗﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺗﻮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺣﺴﯿﺎﺕ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺰﺍﺝ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍ ﻥ ﮐﮯ ﻏﻢ ﺑﺮﺗﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﺩﮮﺍ۔ ﺍﻧﮩﯽ ﺣﺎﻻﺕ ﻭ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﻧﮯ ﻏﻢ ﮐﺎ ﺑﺮﺗﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﺍﻧﮩﯽ ﺣﺎﻻﺕ ﻭ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﻧﮯ ﻏﻢ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ۔

ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻏﻢ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻻﺯﻡ ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻏﻢ ﮨﯽ ﻏﻢ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻏﻢ ﮐﮯ ﻋﻨﺎﺻﺮ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺎﻧﯽ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﻧﺼﯿﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﺒﻮﺭ ِ ﺷﻮﻕ ﮨﻮﮞ ﻓﺎﻧﯽ

ﺟﻮ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩ ﺟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﮯﺩﻭﺍﺭ ﺭﮨﮯ

ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻗﺼﮧ ﻏﻢ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ

ﺭﺍﺯ ﮐﻮﻧﯿﻦ ﺧﻼﺻﮧ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺍﻓﺴﺎﻧﮯ ﮐﺎ

ﺯﯾﺴﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺩﻝ ﺟﻮ ﮔﻮﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ

ﻏﻢ ﻧﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺑﻨﺎ ﯾﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﮐﯿﺎﺗﮭﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ

ﻏﻢ ﺟﺎﻧﺎﮞ : ۔

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻋﻨﺎﺻﺮ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﮯ ﺣﺎﻟﺖ ﺯﺍﺭ ﭘﺮ ﺗﺮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﮯ ﺩﺭﭘﮯ ﻋﺸﻖ ﺑﺎﺯﯾﺎﮞ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﮨﺮ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﺍﻭ ﺭ ﻧﻮﺭ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ۔ﺷﺎﺋﺪ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻏﻢ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﮐﻮ ﺗﺎﺑﺎﻧﯽ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﻃﻮﺍﺋﻔﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻢ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﮔﮭﮍﯾﺎﮞ ﺳﺮﻭﺭ ﻭ ﺭﺍﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﻏﻢ ﺑﺮﺗﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﯽ ﻭﮦ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﻮ ﻇﺎﻟﻢ ﺩﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺳﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺷﮑﻮﮮ

ﮐﻔﻦ ﺳﺮﮐﺎﺋﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺟﺎﺅ

ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻧﮓ

ﺁﺅ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻧﺎ ﮞ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﻣﯿﺮ ﮮ ﻏﻢ ﺧﺎﻧﮯ ﮐﺎ

ﻏﻢ ﺩﻭﺭﺍﮞ : ۔

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻏﻢ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻏﻢ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻏﻢ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﻻﻡ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﮧ ﭘﮭﯿﻼ ﺳﮑﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﻏﻢ ﻧﻘﻄﮧ ﻧﻈﺮ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﺮﻗﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﻮ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻏﻢ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﺍُﺱ ﭘﺮﺍﺛﺮ ﭘﮍﺍ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﯿﺎ۔

ﮨﺮ ﺷﺎﻡ ﺷﺎ ﻡ ﮔﻮﺭ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺻﺒﺢ ﺻﺒﺢ ﺣﺸﺮ

ﮐﯿﺎ ﺩﻥ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺮﺩﺵ ﻟﯿﻞ ﻭ ﻧﮩﺎﺭ ﻧﮯ

ﮨﺮ ﮔﮭﮍﯼ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﯼ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺲ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﯼ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺲ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﯼ، ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺲ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﺗﺮﻗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﺭﻓﺘﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺑﺤﯿﺜﯿﺖ ﺷﺎﻋﺮ ﻓﺎﻧﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺩﯼ ﺗﺮﻗﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﮬﮑﮯﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮍﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻓﺮﺩ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻗﺪﺍ ﺭ ﮐﺎ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻓﻘﺪﺍﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺩﺍﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮯ ﻭﻓﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ ﺁﺝ ﮐﻞ ﻣﺎﺩﯼ ﺗﺮﻗﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻭﻓﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻣﺎﺩﯼ ﺗﺮﻗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﺪﻝ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﻮ ﺩﮐﮫ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺤﺒﺘﯿﮟ ﻣﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﺩﯾﺎﺭ ﻣﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮩﺘﮯ ﻣﮩﺮ ﮨﮯ ﻓﺎﻧﯽ

ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺟﻞ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﻣﮩﺮﺑﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ

ﻭﻃﻦ ﮐﺎ ﻏﻢ : ۔

ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻏﻢ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺷﺪﯾﺪ ﮨﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻭﻃﻦ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺨﺖ ﻏﻢ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﯾﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺍﯾﻮﻥ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺪﺭ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻣﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ، ” ﻣﺎﮨﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺪﺍﯾﻮﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﻮﮞ۔ “

ﻓﺎﻧﯽ ﮨﻢ ﺗﻮ ﺟﯿﺘﮯ ﺟﯽ ﻭ ﮦ ﻣﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺑﮯ ﮔﻮﺭ ﻭ ﮐﻔﻦ

ﻏﺮﺑﺖ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺭﺍﺱ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﻃﻦ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﭦ ﮔﯿﺎ

ﻭﮦ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ” ﻏﺮﺑﺖ “ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔

ﻏﺮﺑﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮓ ﺭﺍﮦ ﮐﭽﮫ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ

ﮐﮭﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﭨﮭﻮﮐﺮﯾﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ

ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ : ۔

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻏﻢ ﮐﯽ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ” ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ “ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻏﻢ ﺁﻓﺎﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺋﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻏﻢ ﮐﻮﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮦ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ

ﻓﺎﻧﯽ ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ

ﺟﺐ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﻧﻈﺮﺁﺋﯽ

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﻤﻮﺩ

ﺷﯿﺮﺍﺯﮦ ﺁﺝ ﺩﻓﺘﺮ ِ ﻏﻢ ﮐﺎ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ

ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﻣﻨﺪﺭﺟﮧ ﺫﯾﻞ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺍﺻﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﯿﺎﮨﮯ۔

ﻏﻢ ﺍﺻﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮨﮯ ﺩﻝ ﺟﻮﮨﺮ ﺣﯿﺎﺕ

ﺩﻝ ﻏﻢ ﺳﮯ ﻏﻢ ﮨﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ

ﻓﺎﻧﯽ ﻏﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ،

ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺩﯾﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻇﺮﻑ ﺧﻠﻖ ﭘﺮ ﻣﻮﻗﻮﻑ

ﯾﮧ ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﻣﻼ

ﻏﺮﺽ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻓﺎﻧﯿﻐﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻭ ﮦ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﯽ ﺳﺮﺣﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍﺟﻌﺖ ﮐﺎ ﺭﺟﺤﺎﻥ : ۔

ﻣﺎﮨﺮ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﻣﺮﺍﺟﻌﺖ ﺍﺱ ﺫﮨﻨﯿﺖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻃﻔﻠﯽ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﮩﺪ ﻃﻔﻠﯽ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺮﺍﺟﻌﺖ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮑﻮﻥ ِ ﺩﻝ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺮﺍﺟﻌﺖ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻋﮩﺪ ﻃﻔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﻣﺼﺎﺋﺐ ﮐﮯ ﻣﻮ ﻗﻊ ﭘﺮ ﮔﺮﯾﮧ ﺯﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍﺟﻌﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔

ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﯾﮧ ﻭ ﺯﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﮑﺒﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﻈﺮﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﻣﻨﺪﺭﺟﮧ ﺫﯾﻞ ﻏﺰﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﯾﮧ ﻭ ﺯﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ۔

ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﮍﭖ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺭﻭﯾﺎ

ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﭼﯿﺦ ﺍُﭨﮭﺎ ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺭﻭﯾﺎ

ﮐﯿﺎ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ

ﻣﻞ ﻣﻞ ﮐﮯ ﺑﺠﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺑﺮ ﺑﮩﺎﺭ ، ﺭﻭﯾﺎ

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺟﻨﻮﮞ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﺭﺯﻭ ﮨﮯ

ﮐﻞ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺭﻭﯾﺎ

ﺁﺫﺍﺭ ﭘﺴﻨﺪﯼ : ۔

ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻓﺎﻧﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻏﻢ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺁﺫﺍﺭﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﺫﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﻄﻒ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍﺱ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﮐﻮ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﺫﺍﺭ ﭘﺴﻨﺪ ﯼ ﮐﺎ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺁﺫﺍﺭ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺜﻼً ﻓﺎﻧﯽ ﻏﻢ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ،

ﺟﺘﻨﮯ ﻏﻢ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺩﮮ ﺟﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎ ﺭﺏ ﻟﯿﮑﻦ

ﮨﺮ ﻧﺌﮯ ﻏﻢ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺎﺯﮦ ﺟﮕﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ

ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﻮﮦ ﺣﯿﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ،

ﻣﺬﺍﻕ ﺗﻠﺦ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮫ ﺍﺱ ﺩﻝ ﮐﺎ

ﺑﻐﯿﺮ ﻣﺮﮒ ﺟﺴﮯ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﻧﮧ ﻣﻼ

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﻤﺮ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﮐﮯ ﮨﺮﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﻣﯿﺖ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﮨﺮ ﻧﻔﺲ ﻋﻤﺮﮔﺰﺷﺘﮧ ﮐﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺖ ﻓﺎﻧﯽ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﺮ ﻣﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ

ﻏﺮﺽ ﮐﮧ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻏﻢ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺌﮯ ﺍﺱ ﻏﻢ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺳﻦ ﻟﯿﺠﺌﮯ

ﻣﺎﻝ ﺳﻮﺯ ﻏﻢ ﮨﺎﺋﮯ ﻧﮩﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺟﺎﺅ

ﺑﮭﮍﮎ ﺍُﭨﮭﯽ ﮨﮯ ﺷﻤﻊ ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺟﺎﺅ

ﺷﺪﺕ ﺍﺣﺴﺎﺱ : ۔

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻏﻢ ﻭ ﺍﻟﻢ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﺕ ِﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺍﮐﺘﺎ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﺍﮮ ﺍﺟﻞ ﺍﮮ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ

ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺍﮦ ﺗﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎﮐﺌﮯ

ﻣﮕﺮ ﻣﻮﺕ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔

ﻇﮩﻮﺭ ﺟﻠﻮﮦ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﺭﮐﺎﺭ

ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺟﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﯾﺮ ﺁﺷﻨﺎ ﻧﮧ ﻣﻼ

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﺣﺴﺮﺕ ﮨﮯ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮯ،

ﭼﻤﻦ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖِ ﻓﺎﻧﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﺷﺎﺋﺪ

ﮐﭽﮫ ﺍﺏ ﮐﮯ ﺑﻮﺋﮯ ﮐﻔﻦ ﺩﺍﻣﻦ ﺑﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ

ﻓﺎﻧﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺯﮨﺮ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ،

ﺩﺑﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﭼﺎﺭﮦ ﺳﺎﺯ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮫ

ﺑﺲ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺯﮨﺮ ﮨﯽ ﺩﮮ ﺯﮨﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺍ ﻧﮧ ﻣﻼ

ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯾﺖ : ۔

ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯾﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﺎﺩ ﻗﺎﺿﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﻐﻔﺎﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، 

” ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﯾﮑﺴﺮ ﻓﺎﻧﯽ ﮨﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﮐﺮ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﯾﺎ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺝ ﮐﺮ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ ‏( ﮔﻮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ‏) ﺗﻮ ﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﻭﺣﺸﺖ ﺫﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺧﻼ ﮐﮯ۔ “

ﻗﻨﻮﻃﯿﺖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺧﺼﻮ ﺻﯿﺖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯾﺖ ﮨﮯ۔ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺎ ﻭﮦ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﺭﺩﺍﺕ ﮨﮯ ﺁﭖ ﺑﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔

ﺧﺎﮎ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮨﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﮮ ﺩﺷﺖ ﺟﻨﻮﮞ

ﮐﺲ ﺳﮯ ﺳﯿﮑﮭﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﺫﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺎﺑﺎﮞ ﮨﻮﻧﺎ

ﺑﮯ ﺍﺟﻞ ﮐﺎﻡ ﻧﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﻋﻨﻮﺍﮞ ﻧﮑﻼ

ﺩﻡ ﺗﻮ ﻧﮑﻼ ﻣﮕﺮﺁﺯﺭﺩﮦ ﺍﺣﺴﺎﮞ ﻧﮑﻼ

ﺑﻘﻮﻝ ﻗﺎﺿﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﻐﻔﺎﺭ ،

” ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﻏﻢ ﺳﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﺍﺱ ﻗﺪ ﺭ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺷﺎﺋﺪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯾﺖ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔۔۔۔۔ﻭﮦ ﻣﺮﺩﺍﻧﮧ ﻭﺍﺭ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ۔ “

ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﺎﻡ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺟﺎ

ﻣﺮﺩﺍﻧﮧ ﻭﺍﺭ ﺟﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩﺍﻧﮧ ﻭﺍﺭ ﻣﺮﺟﺎ

ﺍﮨﻞ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ

ﺩﻝ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﺫﺭﺍ ﻟﮩﻮ ﺗﻮ ﮐﺮﯾﮟ

ﺩﻭ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﺰﺍﻥ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﭨﮭﮩﺮﮮ

ﮐﭽﮫ ﻣﺠﮭﮯ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ

ﻣﺠﻤﻮﻋﯽ ﺟﺎﺋﺰﮦ : ۔

ﺑﻘﻮﻝ ﻓﺮﺍﻕ ﮔﻮﺭﮐﮭﭙﻮﺭﯼ،

” ﻓﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﻏﻢ ، ﺍﻭﺭ ﻗﻨﻮﻃﯿﺖ ﮐﻮ ﻧﯿﺎ ﻣﺰﺍﺝ ﺩﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﮐﻠﭽﺮ ﺩﯾﺎ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﭼﻤﮑﺎﺭ ﺩﯼ ﺍُﺳﮯ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﻟﭽﮏ ﺩﺍﺭ ﺍُﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﭼﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﮭﺎﺭﺍ ﺍﺳﮯ ﻧﺌﯽ ﻟﻮﺭﯾﺎﮞ ﺳﻨﺎﺋﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻟﻮﭺ ﺳﮯ ﺳﻼﯾﺎ، ﺍﻭﺭ ﺟﮕﺎﯾﺎ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻧﺌﯽ ﺭﻭﮎ ﺗﮭﺎﻡ ﻧﺌﯽ ﺗﮭﺮ ﺗﮭﺮﯼ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯽ۔ ﻧﺌﯽ ﭼﭩﮑﯿﺎﮞ ، ﻧﺌﯽ ﮔﺪﮔﺪﯼ ، ﻧﺌﯽ ﻟﺮﺯﺷﯿﮟ ، ﻧﺌﯽ ﺳﺮﻥ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﻢ ﮐﯽ ﺩﮐﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺭﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻠﯿﮟ۔ 

“ ﺑﻘﻮﻝ ﻋﻄﺎ :

” ﻣﯿﺮ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﻧﮯ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﻗﺎﻟﺐ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﻨﻢ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻓﺎﻧﯽ ﻧﺎﻡ ﭘﺎﯾﺎ۔ “

ﺑﻘﻮﻝ ﺟﻮﺵ :

” ﺟﺐ ﮨﻢ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﻧﺴﻮﺋﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺪﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺳﻨﮓ ﻣﻮﺳﯽٰ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﻣﻨﺪﺭ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻭﺳﻂ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﯼ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﺖ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﮦ ﭘﻮﺵ ﺑﺮﮨﻤﻦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﺑﺠﺎ ﺑﺠﺎ ﮐﺮ ﭘﻮﺟﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ “

ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﯾﺎ ﺩ ﮨﯿﮟ ﻓﺎﻧﯽ

ﺗﯿﺮﺍ ﻧﺸﺎﮞ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻧﺸﺎﮞ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ

بشکریہ وکی پیڈیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتخب کلام:

ﺳﻮﺍﻝ ﺩﯾﺪ ﭘﮧ ﺗﯿﻮﺭﯼ ﭼﮍﮬﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﻣﺠﺎﻝ ﺩﯾﺪ ﭘﮧ ﺑﺠﻠﯽ ﮔﺮﺍﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﺧﺪﺍ ﺑﺨﯿﺮ ﮐﺮﮮ ﺿﺒﻂ ﺷﻮﻕ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ

ﻧﻘﺎﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﺟﻠﻮۂ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻋﺸﻖ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﮨﺠﻮﻡ ﯾﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺁﺱ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﺍﺏ ﺁ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﮎ ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺅ

ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺮﯼ ﻣﯿﺖ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﻣﺮﮮ ﻗﯿﺎﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﮐﺮ

ﻣﺮﮮ ﺣﻮﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﻣﺮ ﮐﺮ ﻣﺮﯾﺾ ﻏﻢ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺣﺎﻟﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﯾﻌﻨﯽ ﻭﮦ ﺍﺿﻄﺮﺍﺏ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﮨﺮ ﻟﻤﺤۂ ﺣﯿﺎﺕ ﺭﮨﺎ ﻭﻗﻒ ﮐﺎﺭ ﺷﻮﻕ

ﻣﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺮﺻﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﺍﯾﮏ ﻧﺎﻟۂ ﺧﻤﻮﺵ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ

ﯾﺎﺩﺵ ﺑﺨﯿﺮ ﺿﺒﻂ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﻭﮦ ﻋﮩﺪ ﺩﻝ ﻓﺮﯾﺒﺊ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺍﺏ ﮐﮩﺎﮞ

ﻣﺪﺕ ﺳﮯ ﺁﮦ ﺁﮦ ﮐﯽ ﺣﺴﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺍﺋﮯ ﺳﻠﺴﻠۂ ﺟﻨﺒﺎﻧﺊ ﻧﺸﺎﻁ

ﮐﯿﻮﮞ ﭘﺎﺱ ﻭﺿﻊ ﻏﻢ ﺗﺠﮭﮯ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﮨﺮ ﺑﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﺳﮯ ﻭﻋﺪۂ ﺑﺨﺸﺶ ﮨﮯ ﺭﻭﺯ ﺣﺸﺮ

ﮔﻮﯾﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﺍﮮ ﻋﺮﺽ ﺷﻮﻕ ﻣﮋﺩﮦ ﮐﮧ ﺩﻝ ﭼﺎﮎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ

ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﺮﺩﮦ ﺩﺍﺭﺉ ﺣﺴﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﭘﺘﮭﺮﺍ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﮕﺮ ﺑﻨﺪ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ

ﺍﺏ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﻋﺒﺮﺕ ﻧﮯ ﺑﯿﮑﺴﯽ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﭩﺎ ﺩﯾﺎ

ﺍﮌﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﭘﮧ ﺧﺎﮎ ﻭﮦ ﺗﺮﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﻣﺤﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻋﮩﺪ ﻭﻓﺎ ﺳﮯ ﻣﮑﺮ ﮔﺌﮯ

ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﻭﮦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﮐﺲ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻏﻢ ﮐﮯ ﺿﺒﻂ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮﮮ ﮐﻮﺋﯽ

ﻃﺎﻗﺖ ﺑﻘﺪﺭ ﺣﺴﺮﺕ ﺭﺍﺣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﻓﺎﻧﯽؔ ﺍﻣﯿﺪ ﻣﺮﮒ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺟﻮﺍﺏ

ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺟﺐ ﭘﺮﺳﺶ ﺣﺎﻝ ﻭﮦ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺎﻧﯿﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﺭﺩ ﺳﻮﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﺍﺏ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺰﻡ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻧﮓ ﺗﻮ ﺑﺪﻻ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ

ﺟﺐ ﻧﺎﻡ ﻣﺮﺍ ﺁ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﺫﮐﺮ ﻭﻓﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﯾﮑﺘﺎﺋﮯ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﯾﮧ ﻏﺮﻭﺭ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ

ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﻮ ﻣﮕﺮ ﺧﺎﮐﻢ ﺑﺪﮨﻦ ﮐﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺪﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﻗﻄﺮﮦ ﻗﻄﺮﮦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﺭﮦ ﺳﮑﻨﮯ ﺗﮏ

ﺟﻮ ﺗﺎﺏ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻻ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ ﻭﮦ ﻗﻄﺮﮦ ﻓﻨﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

ﭘﮭﺮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻓﺎﻧﯽؔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﻘﺶ ﺟﻔﺎ ﻣﭧ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﻇﺎﻟﻢ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮐﺮ ﺟﺎﻥ ﺣﯿﺎ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺍﮮ ﺍﺟﻞ ﺍﮮ ﺟﺎﻥ ﻓﺎﻧﯽؔ ﺗﻮ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻻ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﮐﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﺟﺐ ﺗﺮﺍ ﺫﮐﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﻢ ﺩﻓﻌﺘﺎً ﭼﭗ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ

ﻭﮦ ﭼﮭﭙﺎﯾﺎ ﺭﺍﺯ ﺩﻝ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮧ ﺍﻓﺸﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﮯ ﺯﺍﺭ ﺗﮭﺎ ﺩﻝ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺿﺒﻂ ﺷﻮﻕ ﭘﺮ

ﺟﺐ ﮐﮩﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﯾﻮﮞ ﭼﺮﺍﺋﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ

ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﯾﺎ ﻣﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﺷﺎﺭﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﺩﺭﺩﻣﻨﺪﺍﻥ ﺍﺯﻝ ﭘﺮ ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ

ﺩﺭﺩ ﯾﺎﮞ ﺩﻝ ﺳﮯ ﮔﯿﺎ ﮐﺐ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﮭﺮ ﺭﭦ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ

ﭘﮭﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﺭﻧﺞ ﭘﺎﯾﺎ ﺩﻝ ﺩﯾﺎ ﺳﭻ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮐﮩﻮ

ﮐﯿﺎ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺩﮮ ﮐﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﭘﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﺑﭻ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﺴﻮﺩﺍﺭ ﻭ ﮔﯿﺮ ﺿﺒﻂ ﺳﮯ

ﺟﻮﺷﺶ ﻏﻢ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻗﻄﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

ﻓﺎﻧﯽؔ ﻣﮩﺠﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺁﺝ ﺁﺭﺯﻭ ﻣﻨﺪ ﺍﺟﻞ

ﺁﭖ ﻧﮯ ﺁ ﮐﺮ ﭘﺸﯿﻤﺎﻥ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﻋﺸﻖ ﻋﺸﻖ ﮨﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﺣﺴﻦ ﻣﯿﮟ ﻓﻨﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮨﻮﺋﯽ ﻏﻢ ﮐﯽ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﺩﻝ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺣﺎﺻﻞ ﺩﺭﺩ ﻣﯿﮟ ﻓﻨﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﻏﺎﺯ ﻏﻢ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﻧﺎﻣﺮﺍﺩ ﺭﮨﻨﮯ ﺗﮏ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩ ﺟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﺳﺎﻧﺲ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﮎ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﻟﮧ ﻧﺎﺭﺳﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﺍﺏ ﮨﻮﺋﯽ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻮۂ ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ

ﻋﺎﻟﻢ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺩﺷﻤﻦ ﻭﻓﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﯼ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﮨﮯ

ﺗﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﺧﺪﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﻋﻤﺮ ﺧﻀﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﺮ ﻧﻔﺲ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﺌﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮔﮭﭩﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﺭﺩ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﮐﺎﺭﮔﺎﮦ ﺣﺴﺮﺕ ﮐﺎ ﺣﺸﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﯾﺎ ﺭﺏ

ﺩﺍﻍ ﺩﻝ ﭘﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﯼ ﻧﻘﺶ ﻣﺪﻋﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﻋﺸﻖ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﺻﺒﺮ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﺪ ﺩﯾﮑﮭﯽ

ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﺩﻭﮔﮯ ﺩﯾﺮ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﮐﯽ ﻗﻀﺎﺋﮯ ﻣﺒﺮﻡ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻏﻢ ﺧﻮﺍﺭﯼ

ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺩﻭﺍ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮯ ﺩﻭﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺑﮯ ﺯﺍﺭ ﻓﺎﻧﯽؔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﺻﻞ

ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﻣﻨﺎ ﻟﻮﮔﮯ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺍﺏ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺩﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺣﺠﺎﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﭼﺸﻢ ﺑﺪ ﺩﻭﺭ ﺩﻟﮩﻦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺷﺒﺎﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺍﺟﻞ ﮨﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ

ﻣﯿﺮﯼ ﺗﺮﺑﺖ ﭘﮧ ﻧﮧ ﺁ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺣﺠﺎﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﺩﯾﺪ ﺁﺧﺮ ﮨﮯ ﺍﻟﭧ ﺩﯾﺠﯿﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻘﺎﺏ

ﺁﺝ ﻣﺸﺘﺎﻕ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﻧﻘﺎﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﮐﺲ ﻃﺮﻑ ﺟﻮﺵ ﮐﺮﻡ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺍﭨﮭﯿﮟ

ﮐﻮﻥ ﻣﺤﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍﻭﺍﺭ ﻋﺘﺎﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﭼﯿﻦ ﺳﮯ ﺳﻮﻧﺎ ﻣﻌﻠﻮﻡ

ﮐﮧ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﮧ ﻭﮦ ﻏﺎﺭﺕ ﮔﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ

ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺟﻞ ﮐﯿﺎ ﻣﺮﮮ ﻧﺎﻣﮯ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﺟﻠﻮۂ ﺭﻧﮓ ﮨﮯ ﻧﯿﺮﻧﮓ ﺗﻘﺎﺿﺎﺋﮯ ﻧﮕﺎﮦ

ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﻤﺎﺷﺎﺋﮯ ﺳﺮﺍﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺧﻮﻥ ﺗﺮﮮ ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺷﺎﯾﺪ

ﺍﺏ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﺗﺮﺍ ﻧﻘﺶ ﺑﺮ ﺁﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﻣﻠﺘﯽ ﺟﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﺩﻭ ﺭﻭﺯﮦ ﻓﺎﻧﯽؔ

ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺫﮐﺮ ﺣﺒﺎﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺁﮦ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺍﺛﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

ﮐﭽﮫ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﻮ ﻣﺮﯼ ﺧﺒﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﻓﮑﺮ ﺻﺒﺢ ﮐﯿﺎ ﺷﺐ ﮨﺠﺮ

ﻣﺮ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮔﺮ ﺳﺤﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

ﮐﺲ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﻍ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﻢ

ﺗﻮ ﮨﯽ ﺍﮮ ﺁﺭﺯﻭ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

ﺧﻠﻖ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﻣﺠﮭﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ

ﭼﺎﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

ﮐﭽﮫ ﻧﻈﺮ ﮐﮩﮧ ﮔﺌﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﻧﮧ ﮐﮭﻠﯽ

ﺑﺎﺕ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﮕﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

ﺷﮑﻮﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﻧﺎﺣﻖ ﮐﺎ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺴﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

ﺣﺸﺮ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻞ ﮔﯿﺎ ﻓﺎﻧﯽؔ

ﺩﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺩﺍﺩ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﻼ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺳﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﻣﻮﺕ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﻣﻔﺖ ﻧﮧ ﻟﻮﮞ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﺁﺑﺎﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﮨﮯ ﻭﯾﺮﺍﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ

ﺟﻮ ﺍﺟﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺑﺴﮯ ﺩﻝ ﻭﮦ ﻧﺮﺍﻟﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﺧﻮﺩ ﺟﻮ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﮨﻮ ﻋﺪﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﻧﯿﺴﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﺴﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﻋﺠﺰ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﮨﯿﮟ ﻋﺼﻤﺖ ﮐﺎﻣﻞ ﮐﮯ ﺟﻠﻮﮮ

ﭘﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﮨﮯ ﺭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﭘﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﺟﺎﻥ ﺳﯽ ﺷﮯ ﺑﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ

ﺁﮔﮯ ﻣﺮﺿﯽ ﮔﺎﮨﮏ ﮐﯽ ﺍﻥ ﺩﺍﻣﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﻭﺣﺸﺖ ﺩﻝ ﺳﮯ ﭘﮭﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺟﺎﻧﺎ

ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﯾﮧ ﮨﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮨﻮﺵ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ

ﺟﮓ ﺳﻮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻐﯿﺮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺍ

ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﺴﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﺁﻧﺴﻮ ﺗﮭﮯ ﺳﻮ ﺧﺸﮏ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻣﮉﺍ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﺩﻝ ﭘﮧ ﮔﮭﭩﺎ ﺳﯽ ﭼﮭﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺑﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ

ﺩﻝ ﮐﺎ ﺍﺟﮍﻧﺎ ﺳﮩﻞ ﺳﮩﯽ ﺑﺴﻨﺎ ﺳﮩﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﻇﺎﻟﻢ

ﺑﺴﺘﯽ ﺑﺴﻨﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺴﺘﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ

ﻓﺎﻧﯽؔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻟﮩﻮ ﮐﺎ ﮐﺎﻝ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ

ﮨﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮫ ﺍﺏ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺑﻮﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﺮﺳﺘﯽ ہے

How to use voice typing in Urdu