جمعرات، 28 مارچ، 2013

Azeez Lakhnavi ki ghazal goyi


عزیز لکھنوی کی غزل گوئی

ادب زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ یہ خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے میں پیش کرتا ہے۔ ادب میں انسانی زندگی کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اس میں انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ مشاہدات،تجربات اور خیالات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ شاعر یا ادیب کا تعلق کسی نہ کسی ایک سماج اور کسی ایک ملک سے ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سماج کی رسموں اور تہذیب کا،جس میں کہ ادیب پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہے،کا اثرادیب پرہونا لازم ہے۔ چوں کہ شاعری بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے طلبہ میں اس کا ذوق و شعور پیدا کرنے، ا ن میں شعر فہمی کو ابھارنے کے لیے شاعری کا درس دیا جاتا ہے۔ اس کے مطالعے سے طلبہ میں نہ صرف شعری ذوق پیدا ہوتا ہے بلکہ ان میں اپنی تہذیب اور زبان سے ایک لگاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ زبان کی باریکیوں، لفظوں کے در و بسط اور شعری محاسن سے بھی واقف ہوتے جاتے ہیں۔

دبستانِ لکھنؤ کی خدمات اردو شاعری کے تعلق سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ چند کمیوں کو اگر نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو ہمیں اس میں بہت سی خوبیاں بھی نظر آئیں گی۔ ان کمیوں سے الگ اس کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جس کو اردو زبان کبھی فراموش نہیں کرسکتی اور وہ ہے اصلاحِ زبان۔ اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ میرؔ اور سوداؔ کے زمانے میں زبان کی اصلاح کا کافی کام ہوا تھا، اس کے باوجود بہت سے نامانوس الفاظ کا استعمال ہو رہا تھا۔ ان سب کی اصلاح کا سہرا ناسخؔ کے سر ہے۔ انہوں نے زبان کے قاعدے مقرر کیے اور ان پر خود بھی عمل کیا اور شاگردوں سے بھی اس پر کاربند رہنے کی ہدایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنوی دبستان کے شعرأ کی زبان نہایت صاف ستھری اور رواں ہوتی ہے۔ عزیزؔلکھنوی کا تعلق بھی اسی دبستان سے ہے، جن کا مطالعہ ہم یہاں کرنے جارہے ہیں۔ عزیزؔ لکھنوی کے کلام میں اس دبستان کے شعری معیار کی پاسداری مکمل طور پر نظر آتی ہے۔ ہر شاعر کی اپنی ایک طبعی و فطری جہت بھی ہوتی ہے، جس سے وہ کسی خاص صف میں شامل ہونے کے باوجود بھی اپنا ایک انفرادی رنگ و آہنگ رکھتا ہے۔

شاعری وفورِ جذبات کے بے اختیار بہہ نکلنے کا نام بھی ہے اور نغمۂ الہام بھی۔ یہ زندگی اور حالات کی روشن تفسیر بھی ہے اور تفریح طبع کا سامان بھی۔ یہ ہمارے کانوں میں رس ہی نہیں گھولتی بلکہ دلوں پر اثر انداز ہوکر فکر و احساس کو ایک خوشگوار کیفیت بھی عطا کرتی ہے۔ ادب حقیقتاً زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے، جس میں خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اس میں انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ مشاہدات، تجربات اور خیالات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔

اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن کا نام غزل ہے۔ غزل جسے کبھی اردو شاعری کی آبرو کہا گیا تو کبھی ناپاک دفتر مگر اس نے ہمیشہ وقت کا ساتھ دیا اور وقت ہی نے یہ ثابت کیا کہ جو خوبی غزل میں ہے، وہ کسی دوسری صنف ادب میں نہیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں جب غزل کو ترقی پسندوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تو حسرتٓ،  فانیٓ، اصغرؔ گونڈوی اور جگرؔ مرادآبادی نے اسے ایک نئی قوت عطا کی۔ عزیزؔ لکھنوی کا تعلق بھی اسی عہد سے ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انہوں نے غزل کی آبیاری کہاں تک کی۔

عزیزؔ لکھنوی کا پورا نام محمد ہادی اور عزیزؔ تخلص ہے۔ ان کی ولادت 1882 میں لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے اجداد کا وطن شیراز (ایران) تھا۔ علم و فضل خاندان میں موروثی تھا۔ عزیزؔ کی عمر ابھی سات سال کی تھی کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لیکن فطری شوق نے علم حاصل کرنے سے منہ نہ موڑنے دیا اور مطالعہ کا شوق ہمیشہ قائم رہا۔ اساتذہ کے دواوین اور کتب سے ان میں شاعری کا ذوق پروان چڑھا۔ غالباً طالب علمی ہی کے زمانے میں شاعری کا ذوق پیدا ہوگیا تھا۔ شاعری کی ابتدا فارسی سے ہوئی مگر بہت جلد اردو میں شعر کہنے لگے اور اصلاح سخن کے لیے صفیؔ لکھنوی سے مشورہ کرتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں انہوں نے صفیؔ کے شاگردوں میں اپنی ایک خاص جگہ بنا لی۔ عزیزؔ لکھنوی کا شمار اردو کے ان چند شعرأ میں ہوتا ہے، جنہوں نے جدید دور میں غزل کی نوک پلک سنوارنے کی کوششیں کیں۔

ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’’گل کدہ‘‘ کے عنوان سے 1919 میں پہلی بار اور 1931 میں تیسری بار شائع ہوا۔ 1919 کے بعد کی تخلیقات ان کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ ’’انجم کدہ‘‘ اور ’’قصائد عزیزؔ‘‘ ان کے دو مجموعے اور شائع ہوئے ہیں۔ عزیزؔ لکھنوی نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ قصیدہ گوئی میں بھی آپ کا پایہ کافی بلند ہے لیکن ان کی اصل قدر و منزلت غزلوں کی وجہ سے ہی ہے۔ محمد اقبالؔ ’’گل کدہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ 
’’
میں آپ کے کلام کو ہمیشہ بہ نظر استفادہ دیکھتا ہوں۔
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا 
سبحان اللہ یہ بات ہر کسی کو نصیب نہیں! موجودہ ادبیات ارد و کی نظر حقائق پر ہے اور یہ مجموعۂ غزلیات اس نئی تحریک کا بہترین ثبوت ہے۔‘‘  (گل کدہ ، ص: 12 ، 1931 (

عزیز لکھنوی کے مراسم مرزا محمد عباس علی خاں جگر سے بڑے خاص تھے۔ یہ ڈپٹی کمشنر اور رئیس اعظم لکھنؤ تھے۔ سات آٹھ سال تک ان کے خاص معتمد رہے اور جگر کو اصلاح سخن دیتے رہے۔ اس کے بعد امین آباد ہائی اسکول میں فارسی مدرس کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے۔ 1928 میں راجہ صاحب محمود آباد نے طلب کر لیا اور ولی عہد کا استاد مقرر کر دیا۔ اس طرح زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اردو ادب کا یہ ستارہ 1935 میں غروب ہوگیا۔

ویسے تو ان کے شاگردوں کی تعداد کافی ہے مگر ان کے مخصوص شاگردوں میں مرزا جعفر علی خاں اثر، شبیر حسن خاں جوش، جگت موہن لال رواں اور حکیم سید علی آشفتہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جس طرح ہر شخص کا ایک فطری میلان ہوتا ہے، اسی طرح شاعر کا بھی ہوتا ہے۔ کسی کو تخیل آفرینی سے لگاؤ ہوتا ہے تو کسی کو معنی آفرینی سے۔ اسی طرح کسی کو فلسفے سے شغف ہے تو کسی کو سادگی و پرکاری یا استفہام سے لیکن یہ کبھی ضروری نہیں ہے کہ شاعر اپنے آپ کو کسی ایک دائرے تک محدود رکھے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ طبیعت کا جھکاؤ جس طرف ہوتا ہے، رفتہ رفتہ وہ رنگ غالب ہونے لگتا ہے۔ یہی خاص رنگ آگے چل کر شاعر کی انفرادیت قائم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔

عزیز نے غزل، مرثیہ، قصیدہ، رباعی اور نظم میں اپنی شاعری کے جوہر دکھلائے ہیں۔ ان کے قصائد کا مجموعہ ’’صحیفۂ ولا‘‘ اور ادبی، اصلاحی، قومی، مذہبی نظموں کا مجموعہ ’’نالۂ جرس‘‘ کے نام سے شائع ہواہے۔ اس سے ان کی جولانی طبیعت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’گل کدہ‘‘ اور ’’انجم کدہ‘‘ کے مطالعے سے پہلی نظر میں جو بات ذہن میں آتی ہے، وہ ہے غالب کا اثر۔ اس لیے سب سے پہلے اسی رنگ کی بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 


عزیزؔ لکھنوی نے کلامِ غالبؔ کا مطالعہ خاص طور سے کیا تھا اور اسی رنگ کو اپنے لیے اختیار کیا۔ غالبؔ کی پیروی میں نہ صرف نئے مضامین، خیالات اور اسلوب بیان اختیار کیا بلکہ ان کی زمینوں میں کثرت سے غزلیں کہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ عزیزؔ کو بھی استفہام سے کافی دلچسپی تھی جو کہ غالبؔ کا ایک خاص رنگ ہے۔ مثلاً :


شرح جانکاہی عشق ایک غیر ممکن بات ہے
کاٹ کر لانا بہت آساں تھا جوئے شیر کا

بعد میرے میرا ساماں سب تبرک ہوگیا
حلقہ حلقہ بٹ رہا ہے اب مری زنجیر کا

وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہوگئیں
دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں
اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے 
ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں

اگر کچھ ہم کو امید اثر ہوتی تو کیا ہوتا؟
ہماری آہ کوئی کارگر ہوتی تو کیا ہوتا ؟
کیے ہیں ملکے حسن و عشق میں برپا یہ ہنگام
خدائی تیرے قبضے میں اگر ہوتی توکیا ہوتا ؟

حسن بے پردہ ہے یا رب کیا ہی غیرت آفریں
پانی پانی ہوگیا ہے آئینہ تصویر کا

کسی کے وعدے پر اتنا جو انتظار کیا
ارے یہ کون سا دل تھا کہ اعتبار کیا

اوپر درج کیے گئے اشعار سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ عزیز پر غالب کا اثر بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف غالب کا رنگ اپنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی زمینوں میں غزلیں بھی کہی ہیں۔ دیوان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض غزلیں غالب کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہیں۔ عزیز کایہ خاص رنگ ہے جو ان کی شاعری پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ مرزا جعفر حسین عزیز کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ :


’’عزیزؔ مرحوم تمام شعرائے سابقین میں سب سے زیادہ مرزا غالبؔ سے متاثر تھے اور دلی کے رنگ سخن کو قبول کرنے کی انہوں نے کامیاب کوشش کی تھی۔ ‘‘ 

تخیل آفرینی:

عزیزؔ کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں معنی آفرینی، تخیل آفرینی کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ شاعری میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ شاعر کوئی نیا مضمون، نیا خیال لے آئے۔ تخلیق کار انہیں خیالات کو جو نظم کیے جا چکے ہیں، ایک نئے طرز سے نظم کر کے اپنی تخیل آفرینی، فکر کی بلندی کی داد چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ کبھی دو مماثل چیزوں میں فرق تو کبھی دو متفرق چیزوں میں مماثلت دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طورپر عزیزؔ کے اشعار درج ہیں :

سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
 آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا
الحذر اب دور مجھ سے بیٹھتا ہے چارہ گر
زخم پر رکھنے نہ پایا تھا کہ پھاہا جل گیا


کسی نے نزع کی اس طرح گتھیاں سلجھائیں
سرہانے بیٹھ کے ہر سانس کا شمار کیا

آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا ؟
بس ان کے رخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا 

اڑے وہ طور کے پرزے گرے وہ حضرت موسیٰ
اثر تم نے بھی دیکھا کچھ تبسم ہائے پنہاں کا

ہر گل میں تو ہے تجھ میں ہزاروں تجلیاں
دیوانہ کردیا مجھے فصل بہار نے 
جو یہاں محو ماسوا نہ ہوا                      دور اس سے کبھی خدا نہ ہوا 

اک نگہ نے تیری طئے کی صورتِ امید و بیم
سارا جھگڑا مٹ گیا تدبیر اور تقدیر کا

وہی ہمارے لیے پھول ہیں تر و تازہ 
قفس میں خون کے آنسو اگر رلائے بہار

اشعار اور بھی نقل کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ اس طرح کے اشعار ہر صفحے پر ’’گل کدہ‘‘ میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ رنگ غالب ہو کہ تخیل آفرینی ان کی مثالیں کسی بھی غزل میں بہ آسانی مل سکتی ہیں۔ 


سہل ممتنع:

اس کے علاوہ ان کے کلام کی ایک اور خصوصیت ہے اور وہ ہے سہل ممتنع۔ شعر میں سہل ممتنع اس وقت قائم ہوتی ہے، جب شعر میں کوئی مشکل لفظ نہ آئے اور شعر کی نثر بنانا مشکل ہو جائے یعنی شعر کی عبارت نہایت آسان ہو۔ مثلاً:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟ (غالبٓ)
عزیزؔ کی شاعری میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ اتنی سیدھی سادی، عام فہم زبان میں ایسی مضمون آفرینی کم شعرأ کے یہاں دیکھنے میں آتی ہیں، جیسا کہ عزیزؔ لکھنوی کے کلام میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ملاحظہ ہو :

تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی                   بات پر بات یاد آتی ہے
ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی                 اب تو دن رات یاد آتی ہے 

عزیزؔ اس قدر ہم نے سجدے کیے                    خدا ان کو آخر بنا ہی دیا 

سبق آکے گورِ غریباں سے لے لو
خموشی مدرس ہے اس انجمن میں

جس کے مرنے کی ہو خوشی تم کو                     ایسی میت پہ کون روتا ہے
سانس بیمار کی اکھڑتی ہے                 آج قصہ تمام ہوتاہے

دل نے اک بات نہ مانی میری
مٹ گئی ہائے جوانی میری

ائے مرا حال پوچھنے والے                     تجھ کو اب تک مری خبر نہ ہوئی
ہم اسی زندگی پہ مرتے ہیں                  جو یہاں چین سے بسر نہ ہوئی
ہجر کی رات کاٹنے والے کیا                 کرے گا کیا اگر سحر نہ ہوئی

سہل ممتنع کے تعلق سے اب تک جتنے اشعارنقل کیے گئے، ان سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس قدر عام فہم زبان میں ایسے مضمون نظم کرنا آسان نہیں لیکن عزیز اس طرح کے مضامین یوں باندھتے چلے جاتے ہیں کہ احساس نہیں ہوتا کہ اس قدر سہل زبان میں اتنے بلند مضامین کیوں کر نظم ہوسکتے ہیں۔ یہی عزیز کی سب سے بڑی شاعرانہ خصوصیت ہے۔

معنی آفرینی:

شاعری کی خصوصیات کے سلسلے میں اب تک ہم نے تین خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور آخر میں اب معنی آفرینی پر گفتگو کر کے یہ سلسلہ ختم کیا جائے گا۔ معنی آفرینی کی مثالیں جو ایک نظر میں سامنے آئیں وہ درج کی جاتی ہیں:

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا              نور جل جائے ابھی چشمِ تماشائی کا 
اف ترے حسن جہاں سوز کی پر زور کشش           نور سب کھینچ لیا چشمِ تماشائی کا

زمانے کے حوادث خود مری فطرت میں داخل ہیں
مصیبت دل کی کیا کم ہے بلائے آسماں کیو ں ہو؟

سوزِ غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
 آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا!

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

کر دیا دل نے زندۂ جاوید                        قیدِ ہستی سے میں رہا نہ ہوا

بقدر جوشِ جوانی بڑھا غرور ان کا
کہ مے نے نشہ باندازۂ خمار کیا

اچھا ہوا کہ جلد یہ برباد ہوگیا             اتنے سے دل میں ساری خدائی کا درد تھا

درج بالا اشعارسے خود ہی معنی آفرینی کی تعریف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جب شاعر لفظوں کو ایک نئے معنی دیتا ہے یا معمولی لفظوں سے غیر معمولی کام لیتا ہے اور قاری اس کے فن کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا تو اسے معنی آفرینی کہتے ہیں۔

ادب زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ چوں کہ ادیب یا شاعر کسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے، لہٰذا اس معاشرے کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کی عکاسی اس کے فن پارے میں ہونا لازمی ہے۔ ادب و شعر کا مطالعہ قاری میں تہذیب و زبان سے لگاؤ پیدا کرتا ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ زبان کی باریکیوں سے بھی واقفیت پیدا ہوتی ہے۔ عزیز لکھنوی کا کلام بھی انہیں شعری خصوصیات کا آئینہ ہے، جو دبستان لکھنؤ کے حوالے سے ہمارے شعری سرمائے کا حصہ رہی ہیں۔


عزیزؔ لکھنوی کو اساتذہ کے دواوین کے مطالعے نے شعر گوئی کی طرف راغب کیا۔ صفیؔ لکھنوی سے اصلاح سخن لی اور جلد ہی صف اول کے شعرأ میں شمار ہونے لگے۔ پہلا مجموعہ’’گل کدہ‘‘ 1919 میں شائع ہوا اور باقی تخلیقات یعنی ’’انجم کدہ‘‘ اور’’ قصائد عزیز‘‘ ان کی وفات (1935) کے بعد شائع ہوئیں۔ عزیزؔ کی شاعرانہ خصوصیات میں مضمون آفرینی، تخیل اور تمثیل آفرینی کے ساتھ ہی ساتھ سہل ممتنع کا ذکربھی ضروری ہے۔ اس کے باوجود ان کے کلام میں غضب کی معنویت پائی جاتی ہے۔ غالبؔ کے استفہامیہ انداز بیان کی انہوں نے کامیاب تقلید کی ہے۔ کلاسیکی غزل کی روایات کا سچا شعور ان میں پایا جاتا ہے۔ وارداتِ حسن و عشق، کیفیاتِ دل و جگر اور احوالِ فکر و نظر کا اظہار سادہ، سلیس، رواں اورپر تاثیر زبان و بیان کے ساتھ، بڑی خوش اسلوبی سے ان کے یہاں نظم ہو جاتے ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون میری کتاب ‘‘ تنقید شعر‘‘ میں شامل ہے اور ‘‘نیا دور‘‘ لکھنؤ، مارچ ۲۰۱۱ کے شمارے میں بھی شائع ہو چکا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...