پیر، 25 مارچ، 2013

Asghar gondwi ki ghazlon me falasafa-o-tasawwuf


اصغر گونڈوی کی غزلوں میں فلسفہ و تصوف

اصغرٓ گونڈوی کا شمار جدید غزل کے معماروں میں ہوتا ہے۔ اردو غزل پر بیسویں صدی کے اوائل میں جب بپتا پڑی اوراسے گردن زدنی قرار دیا گیا تو اس میں ایک نئی جان پھونکنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کی عظمت کو برقرار رکھنے میں، جن لوگوں نے نمایاں کردار ادا کیا، ان میں اصغر کا نام سرِفہرست ہے۔ اصغر کے علاوہ اس کام میں حسرت موہانی، فانی بدایونی، اقبال سہیل اور جگرمرادآبادی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان لوگوں نے جدید غزل کو وقت کے ساتھ چلنے کا ہنر بخشا۔ اصغر کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی اخلاق کی بلندی ہے۔ ان کی شاعری نے اور کوئی کام کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن ہم کو شریف انسان بنانے کی جو کوشش ان کے یہاں ملتی ہے، کسی دوسرے شاعر کے یہاں مشکل سے ہی ملے گی۔

اصغرگونڈوی یکم مارچ ۱۸۸۴ کوگورکھپور کے محلے الٰہی باغ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصلی نام اصغر حسین تھا۔ ان کے والد مولوی تفضل حسین قانون گو تھے۔ لہٰذا جب ان کا تبادلہ گورکھپور سے گونڈہ ہوا تو ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ گونڈہ چلے آئے۔ اصغر کی ابتدائی تعلیم گونڈہ ہی میں ہوئی۔ انہوں نے۱۸۹۸ میں گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور یہیں سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اصغر نے اپنی تعلیم کسی طرح انٹرنس تک جاری رکھی مگر اس کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے ذاتی مطالعے کی بنا پر اچھی خاصی قابلیت پیدا کرلی تھی۔

اصغر نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں منشی خلیل احمد وجد بلگرامی کو اپنا کلام دکھایا۔ بعد میں کچھ دنوں منشی امیر اللہ تسلیم سے بھی مشورۂ سخن کرتے رہے، اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی استادی و شاگردی بس ایک رسم کی ادائگی ہوتی ہے، کیوں کہ شاعرکا اصل رہبر اس کا ذوقِ صحیح، وجدان اور طبیعت کی موزونی ہوتا ہے، جو اسے دھیرے دھیرے صحیح راستے پر ڈال دیتا ہے۔
ریلوے کے محکمے میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوگیا تو بیس روپے ماہوارتنخواہ پانے لگے۔ اس کے بعد کے چند برس ان کی زندگی کا ایسا دور تھا، جو ان کی شخصیت سے کہیں سے بھی میل نہیں کھاتا یعنی یہ وقت ان کی مے نوشی کا تھا۔ ’’چھٹن‘‘ سے اصغر گونڈوی کو قربت ہوئی اور انہوں نے ان سے نکاح کر لیا۔ آہستہ آہستہ اصغر کا مذہبی رجحان بڑھتا گیا اور بہت جلد ہی انہوں نے اپنی پرانی روش ترک کردی۔ عبادت اور تصوف کی طرف ان کا ذہن اب مائل ہوچکا تھا۔ اس تبدیلی نے آخر ایک دن انہیں عبدالغنی منگلوری سے شرف بیعت حاصل کروا دیا۔ 
۱۹۱۳ میں جب سے انہوں نے بیعت کا شرف حاصل کیا تھا، اس کے بعد سے تصوف اور علم و عرفان، ان کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ اسی سال انہوں نے کتاب کی دکان کرلی اور مستقل طور سے اس پر بیٹھنے لگے۔ چوں کہ طبیعت کچھ ایسی تھی کہ تجارت راس نہیں آئی اور نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ۱۹۱۶ میں اصغرگونڈوی کی ملاقات جگرمرادآبادی سے ہوئی۔ یہی ملاقات رفتہ رفتہ دوستی میں تبدیل ہوگئی اور جگر و اصغر ایک دوسرے کے دلدادہ ہوگئے۔ اصغر کی زندگی میں وہ دوربھی آیا، جب وہ چشمے کے کاروبار کے سلسلے میں جگر کے معاون ہوگئے۔ اس سے قبل وہ ’’قصرِ ہند‘‘ ہفتہ وار(۱۹۱۳) کے مدیر کی حیثیت سے کام کرچکے تھے، جس کا نام بعد میں بدل کر ’’پیغام‘‘ کردیا گیا تھا۔ ۱۹۲۶ میں وہ عطر چند کپور کے ’’ادبی مرکز‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ جب ادارے کا کاروبار دم توڑنے لگا تو اصغر گونڈہ چلے گئے۔ ۱۹۳۰ میں سرتیج بہادر سپرو نے ایک اکادمی ’’ہندوستانی اکیڈمی‘‘ کے نام سے قائم کی تو اصغراس میں کام کرنے لگے۔
اصغرمشاعروں میں بہت کم شرکت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سامعین کے سامنے کلام پیش کرنے کے لیے ان کی آواز موزوں نہیں تھی۔ ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’’نشاطِ روح‘‘ دسمبر۱۹۲۵ میں اور دوسرا مجموعہ ’’سرودِ زندگی‘‘ ۱۹۳۵ میں شائع ہوا۔ اصغرقدرتی طور سے کم گو واقع ہوئے تھے، اتنا کم کہنے کے باوجود اہل نظر کو اپنی طرف متوجہ کرلینا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی شاعری میں ایسی قابل قدر خوبیاں موجود ہیں، جو ایک معیاری شاعری کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان کے پورے کلام میں انبساط اور سرمستی کی ایک وجدانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بغیرآہ و فریاد کیے اصغرعشق کی منزلیں بآسانی طئے کرتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً:
نشۂ عشق میں ہر چیز اڑی جاتی ہے
کون ذرہ ہے کہ سرشار محبت میں نہیں
وہیں سے عشق نے بھی شورشیں اڑائی ہیں
جہاں سے تو نے لیے خندہ ہائے زیر لبی

اصغرگونڈوی کے منفرد رنگ و آہنگ کی ابتدا ’’نشاطِ روح‘‘ سے ہوتی ہے۔ ’’نشاطِ روح‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرسودہ اور پامال مضامین باندھنے سے گریز کرتے ہیں۔ زبان و بیان اور خیالات دونوں اعتبار سے ان کا کلام کبھی بھی ابتذال کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوتا۔ ان کے لب و لہجے میں ایک متانت آمیز رنگینی اور خیالات و محسوسات میں پاکیزگی و لطافت پائی جاتی ہے۔ تصوف اور معرفت کے مضامین کو کیف و سرور کے ساتھ اس طرح نظم کرتے ہیں کہ قاری سرمست ہو اٹھتا ہے۔ ان کی غزلوں کی تخلیق کچھ یوں ہوتی ہے کہ دل پر اثر کرتی ہے۔ اردو ادب کا یہ مایہ نازشاعر۱۹۳۶ میں الہٰ آباد میں روپوش ہوا اور وہیں پر تدفین عمل میں آئی۔
شاعر ہو یا نثر نگار، سب کا اپنا ایک مزاج، حیثیت، اسلوب، طرزِادا اور امتیازی وصف ہوتا ہے، جس سے اس ادیب و شاعر کی ایک خاص شناخت قائم ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر مجاز کا اپنا رنگ ہے، فانی کی اپنی ایک الگ دنیا ہے اور فیض احمد فیض کا اپنا ایک خاص لہجہ ہے لیکن ان سب کی پہچان سب سے پہلے شاعر کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ سبھی اپنا اپنا منفرد لب و لہجہ رکھتے ہیں اور اسی سے ان کی شناخت اور شخصیت قائم ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اصغرکا بھی ایک مخصوص رنگ ہے، جس سے ان کی انفرادیت قائم ہوتی ہے۔ غزلیات اصغر کی سب سے بڑی خصوصیت اخلاقیات کی بلندی ہے۔ ان کے کلام میں تلاش کرنے کے بعد بھی ایسا ایک شعر نہیں مل سکتا، جو معیار سے فروتر ہو۔ حسن و عشق، وصل و ہجر، سوزو گداز، حسرت و یاس، جوش و وارفتگی اور مسرت و انبساط، غرض یہ کہ تمام طرح کے مضامین باندھے گئے ہیں لیکن کہیں بھی ابتذال یا عامیانہ پن کا نام نہیں ہے۔ اصغر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال سہیل لکھتے ہیں:
’’خدا کا شکرہے کہ جناب اصغر کی شاعری عام سطح سے بہت بلند ہے اور ان کے یہاں ڈوبی ہوئی نبضیں، پتھرائی ہوئی آنکھیں اور عالم نزع کی ہچکیاں غرض یہ کہ زندہ درگور شعرأ کی بدمذاقیاں کہیں بھی نہیں ہیں۔ ان کی شاعری رقصِ معانی کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔‘‘ (مقدمہ نشاطِروح، ص ۳۹ )
بیسویں صدی میں غزل کوایک نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کرانے میں اصغر سب سے پیش پیش تھے۔ سامنے کی باتیں ہوں یا عام وارداتِ قلبی، ان سب کو اصغر ایک نئے پیکر میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں، جس سے کلام میں ایک ندرت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کی پوری شاعری میں نشاط و سرمستی کی ایک وجدانی کیفیت پائی جاتی ہے، جس کے باعث وہ عشق کی منزلیں بغیرآہ و فغاں کے طئے کرتے چلے جاتے ہیں۔

غزل کیا اک شرارِ معنوی گردش میں ہے اصغر
یہاں افسوسِ گنجائش نہیں فریاد و ماتم کی
ہے خستگیِ دم سے رعنائیِ تخیل
میری بہار رنگیں پروردۂ خزاں ہے
اس جوئبارِ حسن سے سیراب ہے فضا
روکو نہ اپنی لغزشِ مستانہ وار کو
جوشِ شباب و نشۂ صہبا، ہجومِ شوق
تعبیر یوں بھی کرتے ہیں فصلِ بہار کو
یہ لب و لہجہ اور خزاں کا پروردہ، رنگین مزاج، اصغر ہی کے بس کی بات تھی۔ بیسویں صدی میں غزل کو نئی بلندیوں اور نئی منزلوں سے روشناس کرانے والوں میں فانی، حسرت، اقبال سہیل اور جگر بھی اصغر کے ہم قدم تھے لیکن اصل جوش و جذبہ اصغر ہی سے منسوب ہے۔ ہرایک کا اپنا رنگ ہے اور یہ سبھی اپنے اسی منفرد رنگ و آہنگ سے پہچانے جاتے ہیں۔
اصغر نے غالب اور اقبال دونوں سے ہی فیض حاصل کیا ہے لیکن یہ محض کورانہ تقلید نہیں ہے۔ الفاظ کے انتخاب اور تراکیب کے اختیار کرنے کو اگر دیکھیں تو یقینا غالب کا اثر خاص طور سے دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً دل شعلہ آرزو، درماندگی ذوق تماشا، ہجوم دردِ غریبی، کاوش بے مدعا، نور بہار ناز اور ہربن مو سے ٹپکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی تراکیبیں ہیں، جنہیں اصغر نے غالب سے لیا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات صبر و استغنا، عملِ پیہم، سخت کوشی، ناز و نیاز کا امتزاج اور فلسفۂ وحدت الوجود اور وحدت الشہود ہیں۔ ان موضوعات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال سے بھی وہ کافی متاثر تھے لیکن جدید اردو شاعری میں ان کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے کلام میں فکری، فنی اور ادبی محاسن کا ایک خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ 
اردو شاعری بالخصوص غزل میں حسن و عشق کے مضامین بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے بغیر غزل کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ حسن و عشق کے فلسفے کے متعلق لوگوں کی رائیں الگ الگ ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک حسن بذات خود کوئی چیز نہیں۔ اس میں ہمارے ذوق کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے یعنی عشق ہی حسن کا خالق ہے۔ دوسرے نظریے کے لوگوں کا ماننا اس سے مختلف ہے یعنی حسن ایک حقیقت ہے اور یہ عشق کا محرک اور خالق ہے۔ حسن و عشق کے فلسفے سے متعلق تیسرا نظریہ؛ یہ ہے کہ حسن اور عشق دونوں اپنی اپنی جگہ پر مستقل وجود کے حامل ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کی طرف لگاؤ ایک فطری عمل ہے جو کہ جنسی تضاد کے باعث نمو پاتا ہے۔ چوتھا نظریہ یہ ہے کہ تمام کائنات ایک حسنِ ازل کا پرتو ہے، لہٰذا حسن و عشق کی حقیقت ایک ہے۔ مذکورہ تمام طرح کے اشعار کی مثالیں اصغر کے کلام سے درج کی جاتی ہیں:
پہلا نظریہ :
میرے مذاق شوق کا اس میں بھرا ہے رنگ
میں خود کو دیکھتا ہوں کہ تصویر یار کو
اس میں وہی ہیں یا مرا حسنِ خیال ہے 
دیکھوں اٹھاکے پردۂ ایوانِ آرزو
تھیں نگاہِ شوق کی رنگنیاں چھائی ہوئی
پردۂ محمل اٹھا تو صاحبِ محمل نہ تھا
شعاعِ مہر خود بے تاب ہے جذبِ محبت سے
حقیقت ورنہ سب معلوم ہے پروازِ شبنم کی
وہ عشق کی عظمت سے شاید نہیں واقف ہیں
سو حسن کروں پیدا ایک ایک تمنا سے
دوسرا نظریہ :
اک غنچۂ افسردہ یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موجزنی خوں کی رنگینیِ پیکاں ہے 
پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرۂ شبنم میں ہنگامۂ طوفاں ہے
کیا فیض بخشیاں ہیں رخِ بے نقاب کی
ذروں میں روح دوڑ گئی آفتاب کی
تیسرا نظریہ :
ایسا بھی ایک جلوہ تھا اس میں چھپا ہوا
اس رخ پہ دیکھتا ہوں اپنی نظر کو میں
مجنوں کی نظر میں بھی شاید کوئی لیلیٰ ہے 
ایک ایک بگولے کو دیوانہ بنا آئی
مستی سے ترا جلوہ خود عرض تماشا ہے 
آشفتہ نگاہوں کا یہ کیف نظر دیکھا
چوتھا نظریہ : 

یہ وہ نظریہ ہے، جسے سلوک کی اصطلاح میں وحدت الوجود کہتے ہیں۔ وحدت الوجود کے فلسفے کو تمام باکمال شعرأ نے اپنے اپنے انداز میں نظم کیا ہے۔ اصغر نے اس مضمون کو اپنے طورپر بخوبی ادا کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے 
لو شمعِ حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے 
فانوس کی گردش میں کیا کیا نظر آتا ہے 

کچھ غنیمت ہوگئی یہ پردہ ہائے آب و رنگ
حسن کو یوں کون رہ سکتا تھا عریاں دیکھ کر

بند ہو آنکھ اٹھے منظر فطرت کا حجاب
لاؤ اک شاہد مستور کو عریاں کریں

کس طرح حسن دوست ہے بے پردہ و آشکار
صدہا حجاب صورت معنی لیے ہوئے
شاعر جب اپنے کلام میں عالی حوصلہ، بلند خیال اور اپنے تخیل کی بدولت ایسے مضامین باندھتا ہے، جو عمومی سطح سے بہت اوپر ہوں تو اسے بلند نظری سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اصغرنے اپنے کلام میں اس طرح کے مضامین کو بارہا باندھنے کی کوشش کی ہے اور بڑی کامیابی سے اس کو پیش کیا ہے۔ مثلاً:

یہ دین وہ دنیا ہے، یہ کعبہ وہ بت خانہ
ایک اور قدم بڑھ کر اے ہمتِ مردانہ

کیا درد ہجر اور یہ کیا لذت وصال
اس سے بھی کچھ بلند ملی ہے نظر مجھے 

بہت لطیف اشارے تھے چشمِ ساقی کے
نہ میں ہوا کبھی بے خود نہ ہوشیار ہوا

اک جہد و کشاکش ہے ہستی جسے کہتے ہیں
کفار کا مٹ جانا خود مرگِ مسلماں ہے

نہ ہوگا مستیِ بے مدعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

اسرار، سِرّ کی جمع ہے، جس کے معنی راز اور بھید کے ہیں۔ شاعری میں جب شاعرکائنات کے مضامین سے نکل کر الوہیت اور فلسفہ و حکمت کے مضامین باندھتا ہے تو اسے اسرار و معارف کے مضامین کہتے ہیں۔ یہ مرحلہ آسان نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہر شاعر کے لیے ممکن ہے۔ یہ ایک خاص طرح کے مزاج سے وابستہ لوگوں کے لیے ہی ممکن ہوسکتا ہے یعنی جس کی طبیعت میں خداشناسی کے راز کو جاننے، اس پر گفتگو کرنے کا شوق ہو اور جو ان مراتب سے بہ حسن و خوبی واقف ہو، وہی اس طرح کے مضامین نظم کرسکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شاعر کا تخیل ہی پہنچ سکتا ہے۔ دراصل یہ مقام اصغر جیسے شاعر کے لیے شاعری کی معراج ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال سہیل لکھتے ہیں:
’’اگر ایک شاعر عالمِ رنگ و بو سے گذر کر فلسفہ و حکمت کے نکتہ ہائے سربستہ، مذہب کے اسرار و رموز، اور مراحل سلوک و عرفاں کی کیفیات مجردہ اسی ترنم، اسی جدت بیان اور اسی حسن مصوری کے ساتھ ادا کرتا ہے تو اس کی شاعری سحر سے گزر کر اعجاز بن جاتی ہے۔ اس طرح کے شاعر کے لیے بصیرت، تاثر اور قوتِ بیان، تینوں کا اجتماع ضروری ہے یعنی ایک طرف تو قوت مشاہدہ اتنی تیز ہونی چاہیے کہ نہایت دقیق نکتوں تک پہنچ سکے، دوسری جانب احساس اتنا لطیف ہونا چاہیے کہ وہ غیر مادی حقائق سے بھی لطف اندوز ہوسکتا ہو اور ان دونوں مراحل کے بعد قوت بیان ایسی ہونی چاہیے کہ عرفان و ذوق کی اس مجموعی کیفیت کی تصویر ایک نئے انداز کے ساتھ شعر کے نغمۂ موزوں میں کھنچ کر دوسروں کو بھی لذت اندوز کرسکے تو وہ ایک باکمال شاعر ہے۔‘‘ 
( اقبال سہیل، نشاطِروح، ص ۵۹ )
درج بالا مضامین کو غزل کے سانچے میں ڈھالنا آسان نہیں۔ دوسرے ان مضامین کو اگرخشک طریقے سے باندھا جائے گا تب بھی وہ بات پیدا نہیں ہوگی۔ بقول غالب:
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
جیسی کہ بادۂ و ساغر اور گل و بلبل کی زبان میں پیش کرنے سے پیدا ہوگی۔ اسی بات کو اوپر کے شعر میں غالب نے اپنے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اصغر نے اسرار و معارف کے لطیف سے لطیف مضامین میں بھی ایک نئی کیفیت اور طرز سے اشعار کہنے کی کوشش کی ہے۔

پھر آج جوش سر حقیقت ہے موجزن
کچھ پردہ ہائے ساغر و مینا لیے ہوئے
اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے 
شکلِ صفات معنی اشیا کہیں جسے
تری نگاہ کے صدقے یہ حال کیا ہے مرا
کمالِ ہوش کہوں یا کمالِ بے خبری
نظارہ بھی اب گم ہے بے خود ہے تماشائی 
اب کون کہے اس کو جلوہ نظر آتا ہے 
اہلِ بصیرت علم و عرفان اسے کہتے ہیں کہ انسان کے تمام ادراکات و احساسات پر جمالِ دوست کا قبضہ ہوجائے۔ ذات و صفات کا فرق مٹ جائے تو اس مقام کو اصطلاحِ سلوک میں فنا کہتے ہیں۔
تھیں خود نمود حسن میں شانیں حجاب کی 
مجھ کو خبر رہی نہ رخِ بے نقاب کی
جس طرح کمالِ بے خبری ہی اصل علم و عرفان ہے، اسی طرح کمالِ ظہور بھی عین حجاب ہے۔ اس حقیقت کی نہایت دلکش مصوری اس شعر میں کی گئی ہے۔ اس فلسفے سے متعلق اصغر کی ایک نظم ’’سرّفنا‘‘ ہے۔ چند مثالیں اور پیش کی جارہی ہیں، جن کا تعلق اسی سے ہے۔

پردۂ حرماں میں آخر کون ہے اس کے سوا
اے خوشا در دے کہ نزدیکی بھی ہے دوری بھی ہے 
میں تو ان محجوبیوں پر بھی سراپا دید ہوں
اس کے جلوہ کی ادا اک شان مستوری بھی ہے
میری محرومی کے اندر سے یہ دی اس نے صدا
قرب کی راہوں میں میری راہ اک دوری بھی ہے 

ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کوئی شاعر بالکل نیا خیال پیش کرے۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر وہی خیالات جو پہلے ادا کیے جاچکے ہیں، انہیں میں کچھ اضافہ کرکے ایک نیا پن لانے کی کوشش کرتا ہے یا ایک خیال کے ایک پہلو کو بدل کر دوسرا پہلو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر دو متضاد چیزوں میں مماثلت اور دو مماثل چیزوں میں تضاد پیش کرتا ہے۔ یہ کیفیتیں خیال آفرینی کہی جاسکتی ہیں لیکن اگر کسی پرانے خیال کو اس کی جگہ قائم رکھ کر طرز ادا سے اس میں نئی روح شاعر نے پھونک دی ہے تو اس کو ندرتِ بیان کہتے ہیں۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ندرتِ بیان پرانی شراب کو نئے ساغر و مینا میں پیش کرنے کا نام ہے۔ بقول اصغر گونڈوی:
لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے 
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے 
حقیقت میں یہی ندرت بیان شاعری کی روح ہے ۔ نیا خیال ہر شعر میں پیش کرنا ناممکن سی بات ہے اور پرانے خیالات اور مضامین کو بغیر کسی نئے پن کے پیش کرنا بھی بے غیرتی ہے۔ لہٰذا یہ بات طئے ہے کہ طرز ادا سے ہی شاعر اپنے مضامین میں نیا پن پیدا کرتا ہے۔ اصغر گونڈوی کی شاعری کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ ان کے اس رنگ کو بعد کے شعرأ میں کوئی بھی اپنا نہ سکا۔ اصغر اپنے رنگ کے پہلے اور آخری شاعر ہیں۔ ندرت بیان کی مثالیں اصغر گونڈوی کے کلام سے درج کی جاتی ہیں:

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے 
کیا کیا ہوا ہنگامِ جنوں یہ نہیں معلوم
کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا
اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پر آشوب
فتنوں نے ترا گوشۂ داماں نہیں دیکھا
اک شعلہ اور شمع سے بڑھ کر ہے رقص میں
تم چیر کر تو سینۂ پروانہ دیکھتے
آہوں نے میری خرمنِ ہستی جلا دیا
کیا منھ دکھاؤں گا تری برق نظر کو میں
جوش شباب، نشۂ صہبا، ہجومِ شوق
تعبیر یوں بھی کرتے ہیں فصلِ بہار کو
تو برق حسن اور تجلی سے یہ گریز
میں خاک اور ذوقِ تماشا لیے ہوئے

اصغرگونڈوی کی شاعرانہ خصوصیات میں، اب تک جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ان کی شاعری کی اصل پہچان ہیں۔ اس کے علاوہ صفائی و برجستگی، لطافتِ خیال اور فلسفہ و حکمت پر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن اس کا محل یہاں نہیں ہے۔
اس مضمو ن میں ہم نے اب تک اصغر گونڈوی کی حیات، شاعری کی خصوصیات اور جدید غزل میں ان کے مرتبے کی بات کی ہے، جس سے قاری کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ اصغر کس طرح کے آدمی تھے اور شاعری کے کس معیا رکو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے دونوں شعری مجموعے ’’نشاطِ روح‘‘ اور’’سرودِ زندگی‘‘ ان کی زندگی ہی میں شائع ہوچکے تھے۔ یہ دونوں مجموعے بہت مختصر ہیں لیکن اردو دنیا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ان دونوں مجموعوں میں اصغرکی شاعری،اس کے معیاراور ان خاص نکات کی ہم نے نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے، جن کا ذکر اصغر کے یہاں بارہا ہوتا ہے۔ فلسفے سے ان کو خاصا لگاؤ تھا اور تصوف سے بھی۔ اس سے انہوں نے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور مختلف قسم کے نظریات پر حامل اشعار بھی کہے ہیں۔ ایسے اشعار بغیر فلسفیانہ خیالات کو سمجھے، سمجھ میں نہیں آسکتے۔ اس لیے اکثر کی تعریف پچھلے صفحات میں درج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 نوٹ: یہ مضمون بھارت کے کسی رسالے میں ۲۰۰۹ میں شائع ہوا تھا اور میری کتاب "تنقید شعر" میں بھی شامل ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...