ہفتہ، 31 دسمبر، 2022

رومن اردو Roman Urdu

 *رومن اردو ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کی ایک بہت بڑی سازش:*

  رومن اُردو سے مراد اُردو الفاظ کو انگریزی حروف تہجی کی مدد سے لکھنا ہے۔

مثلاً کتاب کو Kitaab اور دوست کو Dost لکھنا۔ 

اس طرزِ تحریر کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔

اگر قارئین اس بات کو نہیں سمجھے کہ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے ترکوں کی مثال دی جاسکتی ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ١٩٢٨ء میں سیکولر ذہنیت کے حامل کمال اتاترک نے کئی طریقوں سے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ جیسے کہ اذان پر پابندی، حج و عمرہ کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا، آیا صوفیہ جیسی عظیم الشان مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیاگیا اور یہاں تک کہ ہجری کیلنڈر کی جگہ عیسوی کلینڈر کو نافذ کیاگیا۔ 

کمال اتاترک نے اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت دیا اور ترکی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی، اسے بدل کر رومن حروف میں لکھنے کا حکم دے دیا۔

جواز یہ پیش کیاگیا کہ اس سے شرح خواندگی اوپر آئے گی لیکن اس اقدام کا اصل مقصد آنے والی تُرک نسل کو اسلامی کتب جو عربی رسم الخط میں تھیں، ان سے دور کرنا تھا۔ اس بات کا واضح ثبوت ترکی کے پہلے وزیراعظم عصمت انونو کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ

*”حرف انقلاب کا مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہب اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔”*

 (یادداشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص، 223) 

یہ اسلام دشمن منصوبہ کامیاب رہا اور آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کررہی تھی کیوں کہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔ نتیجے کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے۔ 

کسی نے ان حالات کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ

*ترک قوم رات کو سوئی تو پڑھی لکھی لیکن صبح اٹھی تو ان پڑھ ہوچکی تھی کیوں کہ ان کا واسطہ ایک ایسے رسم الخط سے پڑا تھا، جس سے وہ نابلد تھے۔*

ترک اس حادثے کو اب تک نہیں بھولے اور اسی حوالے سے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا تھا،

*’’دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟“*

افسوس کہ ہماری قوم بھی ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کو فراموش کرتی جارہی ہے اور ہم بھی یہی غلطی دُہرا رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے رفاہِ عامہ کے لیے جاری ہونے والے پیغامات ہوں یا پھر موبائل کمپنیوں کی جانب سے موصول ہونے والے اشتہارات اب ہر جگہ رومن اردو نے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ رومن اردو کا آغاز کب ہوا لیکن اسے ”عروج“ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ نے بخشا۔ ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ (Keyboard) میسر نہیں تھا تو رومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی لیکن یہ مجبوری ہماری عادت اور سُستی بن گئی اور اب اردو کی بورڈ موجود ہونے کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہیں۔

(اگر آپ کے موبائل فون میں اردو کی بورڈ میسر نہیں تو پلے اسٹور سے باآسانی ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔) بندہ Go keyboard light استعمال کرتا ہے۔ اس میں ایک زبان سے دوسری زبان میں جانا نہایت آسان ہے۔

کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے اردو لکھنا مشکل اور وقت طلب کام ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ جاپانی اور چینی انٹرنیٹ بلکہ کسی بھی جگہ رومن رسم الخط کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے رسوم الخط کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

*کیا اردو اب جاپانی اور چینی زبان سے بھی مشکل ہو گئی ہے جو ہم اس سے دور ہو رہے ہیں؟*

اسی طرح کچھ احباب اردو رسم الخط سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ املا کی غلطی کے باعث کوئی ان کا مذاق نہ اڑائے جیسے کہ اگر لفظ ”کام“ کو رومن اردو میں لکھنا ہو تو یوں لکھا جا سکتا ہے Kaam یا kam بلکہ Km لکھنے سے بھی کام بن جائے گا کیوں کہ اس کے لکھنے کا کوئی اصول نہیں ہے لیکن اگر اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے کام کو ”قام“ لکھ دیا تو غلطی پکڑی جاسکتی ہے۔ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے اگر کوئی ہمارے املا کی تصحیح کر دے تو ہمیں اس کے لیے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے اور ایسا کرنے سے املا درست ہو جائے گا۔

رومن اردو کی جانب ہمارے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انگریزی زبان سے بےحد مرعوب ہیں۔

ہمیں اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے کہ کسی بھی زبان کو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ آنے والی نسلیں زبان کی صورت بناتی یا بگاڑتی ہیں۔

ہمارے یہاں ایک نسل تو رومن اردو لکھتے بڑی ہوگئی اور 

اگر اب بھی رومن اردو کا راستہ نہ روکا گیا تو حالات وہی ہوجائیں گے کہ اردو تحریر دیکھ کر لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئے گا کہ لکھا کیا ہے اور اس بات پر سارے متفق ہیں کہ 

*جس زبان کا رسم الخط نہ رہے تو اس کے دامن میں موجود ادب کا بیش بہا سرمایہ بھی ضائع ہوجاتا ہے۔* 

کیوں کہ زبان کی حیثیت روح جیسی ہے اور رسمِ خط اس کا لباس ہے۔ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اردو رسم الخط کا استعمال کریں شروع میں کچھ دن مشکل ہوگی پھر رفتہ رفتہ تیزی آ جاۓ گی۔

اگر آپ کو اپنی زبان سے محبت ہے تو براہ مہربانی اس تحریر کو آگے بڑھائیے۔ 

یہ تحریر واٹس ایپ سے ملی تھی، جسے تھوڑا ایڈٹ کرکے یہاں ساجھا کیا جا رہا ہے تاکہ مزید لوگوں تک پہنچ سکے۔ 

بدھ، 27 جولائی، 2022

ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے


 یہ غزل یہاں اس لیے پوسٹ کی ہے کہ اکثر اس کے شعروں کو غلط چھپا ہوا دیکھا ہے اور بارہا لوگوں کو غلط پڑھتے ہوئے بھی سنا ہے۔ کئی مرتبہ خط لکھ کر صحیح شعر اور غزل کی نشان دہی کی اور بر سرِ موقع تصحیح بھی کی ہے۔ اس لیے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ لوگوں تک صحیح کلام پہنچ سکے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے، یہ غزل کان پور کے مناظرے میں اقبال سہیلؔ نے پیش کی تھی۔ اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے سے مراد لوگوں تک درست کلام پہنچانا ہے، نہ کہ کسی مسلک کی پاسداری کرنا۔ بندہ کسی خاص مسلک کو تسلیم نہیں کرتا اور انسانیت میں یقین رکھتا ہے، مسلک میں نہیں۔ 

بدھ، 20 جولائی، 2022

دعا میں _ التجا نہیں از مبارک صدیقی

دعا میں _ التجا  نہیں

تو "عرض حال" مسترد 

"سرشت" میں وفا نہیں

تو سو "جمال" _مسترد 


ادب نہیں، تو سنگ و خشت

ہیں  تمام  _ " ڈگریاں" 

جو "حُسن خلق" ہی نہیں

تو سب کمال _ مسترد 


عبث ہیں وہ _ "ریاضتیں" 

جو "یار" _ نہ منا سکیں 

وہ  ڈھول,  تھاپ,  بانسری

وہ ہر "دھمال" _مسترد


کتاب عشق میں یہی

لکھا  ہوا  تھا _" جا بجا " 

" بجز " _ خیال  یار  _کے

ہر   اک خیال _مسترد 


کہو، سنو، ملو، _ مگر

بڑی ہی" احتیا ط" سے 

مٹھاس بھی تو" زہر" ہے

جو  " اعتدال" _مسترد


وہ شخص  آفتاب  ہے

میں اک چراغ _" کج ادا" 

سو اس حسین کی بزم میں

میری" مجال"_  مسترد


تو کیا کوئی" گلاب" ہے؟ 

حَسین  میرے  یار _سا ؟

وہ" لا جواب" شخص ہے

سو یہ سوال _ مسترد


میں معترف تو ہوں _تیرا

مگر _" اے چاند " _معذرت 

کہ ذکر" حُسن یار"_ میں

تیری  " مثال "  _مسترد


حساب _عمر  دیکھ  لو 

کہ پھر _" پل صراط"  پر 

یہ" نفس" کے  اگر _ مگر

" فریب چال" _مسترد


دعا  میں _" التجا  نہیں

تو عرض  حال _ مسترد 

سرشت میں وفا _نہیں،

تو "سو جمال" _مسترد

مبارک صدیقی

پیر، 16 مئی، 2022

سقراط اور زہر کا پیالہ

 سقراط اور زہر کا پیالہ

سقراط ایک سنگتراش سوفرونس کس اور ایک دائی، فائی ناریت کا بیٹا تھا، وہ جیومیٹری اور فلکیات کا ماھر مانا جاتا تھا، اس نے ادب موسیقی اور جمناسٹکس میں باقاعدہ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سقراط ایک منصف مزاج تھا وہ زبانی بحث کو تحریر پر فوقیت دیتا تھا اسی لیئے اس نے اپنی بالغ  زندگی کا زیادہ عرصہ ایتھنز کی گلیوں اور بازاروں میں بحث کے متمنی کسی بھی شخص کے ساتھ بحث بازی کرتے ہوئے گزارا، وہ نہایت جفاکش اور خود منضبط تھا، وہ اپنی حاضر جوابی اور دلچسپ حس مزاح کے باعث مقبول تھا وہ ایک فلسفی تھا لیکن اس نے نہ کوئی کتاب لکھی تھی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ فلسفیانہ مکتب قائم کیا تھا، لیکن فلسفے میں اس کی حصیداری بنیادی طور پر اخلاقی نوعیت کی تھی، انصاف، محبت اور نیکی جیسے تصورات کی معروضی تفہیم پر یقین اور حاصل کردہ خود آگہی اس کی تعلیمات کی اساس تھی۔

وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ تمام بدی، لاعلمیت اور جہالت کا نتیجہ ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے برا نہیں بنتا- سقراط  ہمیشہ حق اور سچ کی جستجو میں لگا رہتا تھا، اس کی نظر میں حقیقی علم ہی ایک ایسی چیز تھی جس کے ذریعے سچ کو حاصل کیا جا سکتا تھا۔ سقراط اکثر اپنے دوست و احباب سے ان مسئلوں پر گفتگو کرتا رہتا تھا اور بحث کرتا رہتا تھا کہ ہو سکتا ہے کہیں سے حق کی جھلک نظر آجائے، اس کی محنت ہر وقت جاری و ساری تھی، اس کے بہت سارے شاگرد بھی تھے جن میں سب سے بڑا افلاطون تھا، افلاطون نے بہت ساری کتابیں لکھیں تھیں جو آج بھی موجود ہیں، ان کی کتابوں میں سے سقراط کے بارے میں معلومات موجود ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ وقت کی حکومت ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتی جو حق اور سچ کی تلاش میں ہر وقت مصروف عمل رہتے ہیں، تو ایتھنز کی  حکومت کو بھی سقراط کا یہ انداز بلکل پسند نہیں تھا کہ وہ ہروقت حق کی تلاش میں رہے اور لوگوں سے بحث مباحثے کرے، اس لیئے سقراط پر مقدمہ چلایا گیا اور موت کی  سزا سنائی گئی۔

حکومت نے سقراط کو کہا کہ اگر تم واعدہ کرو کہ آئیندہ لوگوں سے بحث کرنا چھوڑ دو گے اور اپنا رویہ تبدیل کرو گے تو تم کو معاف کیا جاسکتا ہے تو سقراط نے صاف انکار کردیا کہ میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا.جو بات حق ہوگی، صحیح ہوگی اس کو ترک نہیں کرسکتا، وہ بڑی بے باکی اور جرآت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نظریات پر ڈٹے رہے جس کے بدلے اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا (جیسا کہ اس دور میں سزائے موت دینے کا دستور تھا) جس کو پی کر وہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہوگیا، " مرتے وقت اس نے اپنے اوپرالزام لگانے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مجھے اس شرط پر آزاد کرنا چاہتے ہو کہ میں حق کی تلاش اور جسجتجو چھوڑ دوں تو اس کے لیئے آپ کی مہربانی کیونکہ میں آپ کا ایسا کوئی حکم ماننے والا نہیں ہوں، میرا ایمان ہے کہ یہ کام مجھ پر رکھا گیا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں میں اپنی حق پرست گفتگو اور بحث بند نہیں کرونگا جو بھی مجھے ملے گا اس سے پوچھوں گا کہ تمہیں اس بات پر افسوس نہیں ہے کہ تم دولت اورعزت کے پیچھے بھٹک رہے ہو حق پرستی یعنی اپنی زندگی کو روحانی بلندیوں سے مالا مال کرنے کی تمہیں کوئی فکر نہیں؟" سقراط نے یہ بھی کہا کہ مجھے پتا نہیں کہ موت کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ اچھی ہو، میں اس سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے یقین ہے کہ اپنے فرض سے غافل ہونا ضرور خراب ہے، اس لیئے جس چیز میں اچھائی ہے اس کو برائی پر ترجیح دے رہا ہوں۔

سقراط نے اپنی زندگی میں علم اورادب کی بہت خدمت کی اور حق پرستی کو ہمیشہ اوپر رکھا اور اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ کہ اس نے حق کی پاسداری کے لیئے اپنے آپ کو موت کے حوالے کرتے ہوئے زہر)پائزن آف ہام لاک( کا پیالہ پی لیا۔


درج بالا مضمون درج ذیل ویب گاہ  سے منقول ہے۔ 


Great Philosopher-Socrates and the cup of poison (allrung.com)

 

اتوار، 8 مئی، 2022

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

 

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا                                                                                                                                                                    لوہو آتا ہے جب نہیں آتا

ہوش جاتا نہیں رہا لیکن                                                                                                                                                                                                                                                            جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا

صبر تھا ایک مونس ہجراں                                                                                                                                                                                                                                                                    سو وہ مدت سے اب نہیں آتا

دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش                                                                                                                                                                                                          گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا

عشق کو حوصلہ ہے شرط ورنہ                                                                                                                                                                                                                                                                                                                      بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا

جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم                                                                                                                                                                                                                                         پر سخن تا بلب نہیں آتا

دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  عشق بن یہ ادب نہیں آتا

مَنحُوس غَزل۔ ابن انشا

مَنحُوس غَزل

اِبنِ اِنشاء کی وَجہِ شُہرت اُن کی نظمیں اور غَزلیں ہیں جو کِتابی صُورت اِختیار کرنے سے قَبل باقاعدگی سے اَدبی جریدوں میں شائِع ہُوتی تھیں۔ سَتّر کی دَہائی کے شُروع میں اُنہوں نے ایک غَزل لِکھی جِس نے اُنہیں بامِ عُروج پر پَہُنچا دیا۔ یہ غَزل اُن کے دُوسرے مَجمُوعہِ کلام "اِس بَستی کے اِک کُوچے میں" میں شامِل ہے اور یہ غَزل ہے: "اِنشا جی اُٹھو اَب کُوچ کرو"

یہ غَزل ایک اَفسُردہ شَخص کے بارے میں تھی جِس نے ایک رات کِسی مَحفِل (مُمکِنہ طَور پر قَحبَہ خانے) میں گُزاری اور پِھر اَچانک اُٹھنے اور جانے کا فیصلہ کیا۔ نہ صِرف اُس جَگہ سے بَلکہ شَہر سے بھی۔ وہ اپنے گھر واپس جاتا ہے اور وہاں عَلیَ الصُبح پَہُنچتا ہے۔ وہ اِس تَعَجُّب کا شِکار ہُوتا ہے کہ اَپنے مَحبُوب کو کیا جَواز پیش کرے گا۔ وہ ایسا شَخص ہے جِسے غَلط سَمجھا گیا ہے اور اَب وہ جو اُس کے مُطابِق لایعنی وُجُود ہے۔ اِس میں مَطلب ڈُھونڈنے نِکلا ہے۔

اِس غَزل نے جَلد ہی مَعرُوف کلاسیکل اور غَزل گُلوکار امانت علی خان کی دل چَسپی حاصِل کر لی۔ امانت ایسے الفاظ کی تلاش میں تھے جو شَہری زندگی (لاہور اور کراچی) کے درد کو بیان کر سکے۔ کِسی نے اُنہیں اِبنِ اِنشاء کی "اِنشا جی اُٹھو" تَھمائی۔ امانت علی خان نے اِسے گانے کی خُواہِش ظاہِر کی۔ اُنہوں نے اِبنِ اِنشاء سے مُلاقات کی اور مُظاہرہ کرکے بَتایا کہ اُنہوں نے کیسے اِس غَزل کو گانے کی مَنصُوبہ بَندی کی ہے۔ اِنشاء جی، امانت سے بہُت مُتَاثِر ہوئے جِنہوں نے خُود کو اِس غَزل کے ٹُھکرائے ہوئے مرکزی کِردار میں ڈھال لیا تھا۔

جب امانت علی خان نے پِہلی بار یہ غَزل پاکستان ٹیلی ویژن پر جنوری 1974ء میں گائی تو چینل سے لاتعداد خُطُوط میں اِس غَزل کو دُوبارہ چَلانے کی فرمائِش کی جانے لگی۔ یہ امانت علی خان کی سَب سے ہِٹ غَزل ثابِت ہوئی مَگر اِس کامیابی سے لُطف اَندوز ہونے کے چند ماہ بعد ہی امانت علی خان کا اَچانک اِنتِقال ہو گیا۔ اُن کی عُمر صِرف 52 سال تھی۔

امانت علی خان کی وفات کے چار سال بعد اِس غَزل کے شاعِر اِبنِ اِنشاء بھی چَل بَسے۔ وہ 1977ء سے کینسر کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی وجہ سے لندن میں زیرِ عِلاج تھے۔ اِنشاء جی نے ہِسپتال کے بِستر سے اپنے قریبی دُوستوں کو بہُت سے خَط ارسال کیے۔ ایسے ہی ایک خَط میں اُنہوں نے لِکھا کہ وہ "اِنشا جی اُٹھو" کی کامیابی اور امانت علی خان کی مَوت پر حیران ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی گِرتی ہوئی حالت کی جانِب اِشارہ کرتے ہوئے لِکھا: "یہ مَنحُوس غَزل کِتنوں کی جان لے گی؟" اِس کے اَگلے روز 11 جنوری 1978ء کو اِبنِ اِنشاء کا اِنتِقال ہو گیا۔ وفات کے وقت اُن کی عُمر صِرف 51 سال تھی۔

امانت علی کے بیٹے اسد امانت علی بھی مَشرقی کلاسیکل اور غَزل گانے کی خُداداد صَلاحِیت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے 1974ء میں اپنے والِد کی مَوت کے بعد باقاعدگی سے پی ٹی وی پر پَرفارم کرنا شُروع کر دیا تھا مَگر اَپنے والِد کے بَرعکس اسد نے اُردو فِلموں کے لیے بھی (بَطَورِ پلے بیک سِنگر) گانا شُروع کیا۔ اُنہیں عِزّت وشُہرت 1980ء کی دہائی میں مِلی۔ وہ غَزل کنسرٹس کے لیے مَقبُول تھے اور اپنی مَشہُور غَزلیں، فِلمی گانے اور وہ جو اُن کے والِد کی تھیں، گاتے تھے۔ 2006ء میں پی ٹی وی میں ایک کَنسرٹ کے دوران اُنہوں نے اِختتامیے کے طَور پر "اِنشا جی اُٹھو" گائی۔ اِتِّفاقاً یہ اُن کا آخری کَنسرٹ ثابِت ہُوا اور "اِنشا جی اُٹھو" وہ آخری گانا تھا جو اُنہوں نے عَوام کے سَامنے گایا۔ چند ماہ بعد ہی اسد کا اِنتِقال ہو گیا۔ بِالکُل ویسے ہی جیسے اُن کے والِد کا 33 سال قَبل اِنتِقال ہُوا تھا۔ اسد کی عُمر بھی مَوت کے وقت اپنے والِد کی طرح 52 سال تھی۔

اسد کے بھائی شَفقت امانت علی 2000ء کی دہائی کے اِبتِدا سے اُبھر کر سیمی کَلاسِیکل اور پاپ گُلوکار کے طَور پر سَامنے آئے ہیں۔ وہ پاپ بینڈ فیوژن میں شامِل ہو کر مرکزی دھارے کا حِصّہ بَننے میں کامیاب ہوئے۔ اُنہوں نے اِس بینڈ کو صِرف ایک (مَگر اِنتِہائی کامیاب) اِلبَم ریکارڈ کَروانے کے بعد چُھوڑ دیا تھا اور اپنا سولو کریئر شُروع کر دیا تھا جو کہ اِنتِہائی کامیاب ثابِت ہوا۔

کَنسرٹس (اور ٹی وی میں بھی) شَفقت سے اَکثر پرستاروں کی جانِب سے "اِنشا جی اُٹھو" گانے کی درخواست کی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ اِنکار کرتے۔ صِرف اِس وجہ سے نہیں کہ وہ اِسے گانے سے ڈرتے ہیں بلکہ اِس لیے کہ 1974ء میں اُن کے والِد اور 2007ء میں اُن کے بھائی کی مَوت کے بعد شَفقت کے خاندان نے اُن سے درخواست کی تھی کہ وہ کَبھی بھی "اِنشا جی اُٹھو" نہ گائیں۔ یہ غَزل بَظاہِر تین اَفراد (امانت علی خان، اِبنِ اِنشاء اور اسد امانت علی) کی جانیں لے چُکا ہے۔

غَزل کے لِکھاری اِبنِ اِنشاء کے وہ الفاظ جو اُنہوں نے 1978ء میں ہِسپتال کے بِستر سے تحریر کیے تھے، کو دُہراتے ہوئے شَفقت کے خاندان نے بھی اِصرار کیا کہ یہ غَزل نَحُوسَت کا شِکار ہے۔ مَزید بَرآں غزلوں کے پرستاروں میں اِس کی مَقبُولِیت کے بَرعکس بہُت کَم گُلوکاروں نے اِسے گانے کی کوشِش کی ہے۔ بعض کا کِہنا ہے کہ وہ (درجہ بالا تین اَفراد کے) اِحتِرام کے باعِث اِسے نہیں گاتے۔ دیگر کا اِعتِراف ہے کہ ایک خَوف اُنہیں اِسے گانے سے دُور رکھتا ہے۔ اَب آخِر میں پِیشِ خِدمت ہے اِنشاء جی کی "مَنحُوس غَزل" آپ کی بَصارتوں کے نام۔

اِنشا جی اُٹھو اَب کُوچ کرو، اِس شَہر میں جی کو لَگانا کیا

وَحشی کو سُکوں سے کیا مَطلب، جُوگی کا نَگر میں ٹِھکانا کیا؟

اِس دل کے دریدہ دَامن کو، دیکھو تو سَہی، سُوچُو تو سہی

جِس جُھولی میں سو چھید ہوئے، اُس جُھولی کا پھیلانا کیا؟

شَب بِیتی، چاند بھی ڈُوب چَلا، زنجیر پڑی دروازے میں

کیوں دیر گئے گھر آئے ہو، سَجنی سے کروگے بَہانا کیا؟

پِھر ہِجر کی لَمبی رات مِیّاں، سَنجوگ کی تو یہی ایک گَھڑی

جو دل میں ہے لَب پر آنے دو، شَرمانا کیا، گَھبرانا کیا؟

اُس رُوز جو اُن کو دیکھا ہے، اَب خواب کا عَالَم لَگتا ہے

اُس روز جو اُن سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی اَفسانا کیا؟

اُس حُسن کے سَچّے مُوتی کو، ہم دیکھ سکیں پر چُھو نہ سکیں

جِسے دیکھ سکیں پر چُھو نہ سکیں، وہ دولت کیا، وہ خزانا کیا؟

اُس کو بھی جَلا دُکھتے ہوئے مَن! اِک شُعلہ لال بَھبُھوکا بَن

یُوں آنسو بَن بِہہ جانا کیا؟ یُوں ماٹی میں مِل جانا کیا؟

جَب شَہر کے لُوگ نہ رَستا دیں، کیوں بَن میں نہ جا بَسرام کرے

دیوانوں کی سِی نہ بات کرے تُو اور کرے دیوانا کیا؟

 

یہ مضمون اے رحمان صاحب کے فیس بک پیج سے شکریے کے ساتھ یہاں پیش ہے۔

جمعرات، 5 مئی، 2022

اتوار، 1 مئی، 2022

کچھ خیالات ساسوں کے، کچھ سسروں کے

کچھ خیالات ساسوں کے، کچھ سسروں کے

  احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

داماد والا کالم شاید ہر ’ساس‘ کو خوش آیا۔ اب معلوم ہوا کہ ہر داماد اپنی ساس کو ’خوش دامن‘ کہہ کہہ کر کیوں یاد کرتا ہے۔ خبر نہیں ’خوش دامن‘ کی ترکیب کس خوش فہم نے ایجاد کی؟کون جانے خوشی کس کے حصے میں آتی ہے اور دامن کس کا تار تار ہوتا ہے؟

مگر اپنے اطہر شاہ خان جیدیؔ مرحوم تو لوگوں کو نیکی کی تلقین یوں فرمایا کرتے تھے::

نیکی ہی کام آتی ہے                    دنیا ہے دو دن کا مال

ساس کسی کی ہو جیدیؔ                 نیکی کر دریا میں ڈال

البتہ ہمارے ایک سادہ لوح دوست اُردو کی ایک معروف کہاوت میں محض ایک حرف کا تصرف کرکے یہ کہتے ہیں کہ ’’جب تک ساس ہے، تب تک آس ہے‘‘۔ غالباً یہی عقیدہ حضرتِ بیدلؔ جونپوری مرحوم کا بھی رہا ہوگا۔ بیدلؔ صاحب بڑے ’دلدار‘  شاعر تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ذرا اُن کے اِن اشعار کی بے ساختگی اور بالخصوص دوسرے شعر میں زبان و بیان کے کمالات ملاحظہ فرمائیے:

دوستو! دنیا ہے فانی، اطلاعاً عرض ہے                        

چار دن ہے نوجوانی، اطلاعاً عرض ہے

اِس جہاں میں جن بتوں کو ہم نے اپنا دل دیا

         ہو گئے سب آں جہانی، اطلاعاً عرض ہے

اسی غزل میں وہ اپنی ساس کو ایک ’سانحۂ ارتحال‘ کی اطلاع پہنچاتے پہنچاتے یہ آس بھی لگا بیٹھے کہ:

دوسری لڑکی مجھے دے، پہلے والی چل بسی

اے مرے بچوں کی نانی، اطلاعاً عرض ہے

ہاں تو داماد والا کالم پڑھ کر ’ساسیں‘ خوش ہوئیں مگر سسرے ہتھے سے اُکھڑ گئے۔ اُردو کی ایک اور کہاوت ہے کہ ’’داماد تو ڈائن کو بھی پیارا ہوتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ساس خواہ بہو کے لیے کتنی ہی ڈائن کیوں نہ ثابت ہو مگر داماد کو خوش رکھنے کے لیے تن، من، دھن اور دامن ہمیشہ کشادہ رکھتی ہے۔

بنگلور (بھارت) سے محترمہ حلیمہ فردوس رقم طراز ہیں: ’’مزہ آگیا دام کی گلیوں کی سیر کرتے ہوئے۔ تان ٹوٹی بے چارے داماد پر، جسے اُلٹا بھی تو داماد ہی رہا۔ آخر… عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے‘‘۔

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے پروفیسر ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ (اللہ انھیں جلد از جلد ساس بنائے، آمین) فرماتی ہیں:

’’عنوان دیکھ کر پڑھے بغیر نہ رہا گیا۔ نیپال سے یہ تبصرہ موصول ہوا ہے کہ ''آدمی مرد کا بچہ ہے سسر ہونے تک" پڑھ کر لطف آگیا۔ جیسے سر چڑھی کا بدلہ لکھا گیا انجانے میں‘‘۔ (ہم نے ایک کالم میں بیگم کو ’سرچڑھی‘ کہہ دیا تھا) لو صاحبو بات چوپال سے نیپال تک جا پہنچی۔

داماد کے بھرپور تذکرے کے باوجود لاہور کی ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کو کالم میں ’پھر بھی‘ تشنگی محسوس ہوئی۔ آپ فرماتی ہیں:

’’آخری شعر میں داماد کے ذکر پر کالم یک دم ’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ کے مصداق ہوگیا‘‘۔

جی ہاں ہوا تو ایسا ہی ہے۔ بس ہم یہ لکھنا بھول گئے تھے کہ… ’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

پچھلے کالم (بعنوان ’’دائم آباد رہے گا داماد‘‘) میں ہم نے مولوی نورالحسن نیر مرحوم کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ ’داماد‘ دراصل دائم  باد یا دائم آباد کا مخفف ہے۔ ہندوستان آکر داماد بن گیا (مراد ’پسر نسبتی‘ سے تھی) اس پر رابغ سعودی عرب سے محترم ڈاکٹر محمد سلیم لکھتے ہیں:

’’یہ درست نہیں ہے کہ دائم آباد ہندوستان میں آکر داماد بنا۔ شاباش (شادباش) کی طرح یہ داماد بھی فارسی میں کثیرالاستعمال ہے  لیکن ایران میں اس کا اطلاق صرف بیٹی کے شوہر پر ہی نہیں بلکہ بہن کے شوہر پر بھی ہوتا ہے۔ اکثر کسی کی بھی نئی شادی ہوئی ہو تو بھی داماد کہنا کوئی عجیب بات نہیں۔ حتیٰ کہ کوئی بچہ یا نوجوان بن ٹھن کر تیار ہوجائے تو اسے بھی کہتے ہیں داماد لگ رہے ہو۔ میری اہلیہ ایران سے ہیں اور فارسی ان کی مادری زبان ہے۔ اپنے بہنوئیوں کو داماد ہی کہتی ہیں۔ اب مجھے تو نہیں لیکن ہمارا بیٹا نہا دھوکر تیار ہوجاتا ہے تو اس کو ضرور داماد کہتی ہیں۔ صوتی مماثلت کی بنا پر بعض لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ داماد دائم آباد کی تخفیف ہے جو ممکن ہے درست ہو۔ بہرحال داماد کا استعمال فارسی میں پہلے سے ہے، ہندوستان کی ایجاد نہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے حافظؔ و سعدیؔ کے دو اشعار سے سند بھی دی ہے:

شکایت کند نوعروسی جوان

                         بہ پیری ز دامادِ نا مہربان

(سعدیؔ)

مجو درستیِ عہد از جہانِ سُست نہاد

                   کہ این عجوزہ عروسِ ہزار دامادست

(حافظؔ)

اگر ہماری فارسی بھابی ہمارا اُردو کالم پڑھ رہی ہوں تو اُن سے دست بستہ درخواست ہے کہ ہمارے بھائی پر ’نظر ثانی‘ فرمائیں۔

حیدرآباد دکن سے مولانا عبید اختر رحمانی صاحب نے حسبِ سابق ایک مفصل مضمون ازرہِ علم پروری ارسال فرمایا ہے۔ آپ کے مضمون کا آخری حصہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں: ’’صاحبِ نوراللغات نے جو کچھ لکھا ہے وہ غیاث اللغات کی پیروی میں لکھا ہے کہ داماد اصل میں دائم آباد تھا۔ فارسی کی مشہور لغت ’’لغت نامہ دہخدا‘‘ میں صاحبِ غیاث اللغات کی اس بات کی پُرزور تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایسی بات ہے، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیگر فارسی لغات میں صاحبِ غیاث اللغات کی اس قیاس آرائی کی تائید نہیں ملتی۔ امید ہے کہ احمد حاطب صدیقی صاحب اگلے جمعہ کو اس کی تصحیح کردیں گے‘‘۔

ہم کیسے ’تصحیح‘ کریں گے ہم کو ’گھر‘ میں رہنا ہے                صاحب! ایسی بات نہ کیجیے ’ساس عدو ہو جاتی ہے

یہاں ’ساس‘ سے مراد ہمارے ذاتی داماد کی ساس ہے۔ سو، داماد کو دائم آباد رہنے دیجے کہ خانہ آباد رہے۔ورنہ ذرا مغرب کی خانہ بربادی کی طرف دیکھ لیجے کہ بے چارا کسی داماد کو دختر دختر ترس رہا ہے۔

محترم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کی خانم سے ثابت ہوا کہ اہلِ ایران ’داماد‘ کا لفظ ہراُس جگہ استعمال کرنے کو تُلے رہتے ہیں جہاں ہمارے لوگ ’دولھا‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ زمانہ قبل از بے روزگاری میں اگر کسی روز ہم اپنے دفتر بہت بن سنور کر جاتے تھے تو اُس روز ہمارے ایک ایرانی افسرہم سے یہی فرماتے تھے کہ ’’آج تو دولھا لگ رہے ہو‘‘۔ اب لوگ دولھا کی جگہ ’ہیرو‘ کہنے لگے ہیں (ہمیں)۔

ایران میں داماد کی بڑی قدر ہے۔ وہاں دولھا بننے کو آج بھی ’داماد شدن‘ کہا جاتا ہے۔ بیٹی کے لیے کسی کا رشتہ منظور کرلیا تو یہ ’داماد کردن‘ ہوا۔ جس سجے سجائے کمرے کو ہم حجلۂ عروسی کہتے ہیں، ایرانی اُسے ’حجلۂ دامادی‘ قرار دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ولیمہ جو مسنون ہے اور ہمارے ہاں بیوی کو مفتوح کرلینے کا جشن سمجھا جاتا ہے، اہلِ ایران کے ہاں وہ بھی ’جشنِ دامادی‘ کہلاتا ہے۔

 یہ مزاحیہ تحریر واٹس ایپ پر دستیاب ہوئی تھی ۔  اہلِ ذوق کے لیے یہاں محفوظ کر دی گئی ہے ۔


بدھ، 9 مارچ، 2022

عورت از کیفی اعظمی

 عورت

اٹھ مری جان! مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قلب ماحول میں لرزاں شرر جنگ ہیں آج

حوصلے وقت کے اور زیست کے یک رنگ ہیں آج

آبگینوں میں تپاں ولولۂ سنگ ہیں آج

حسن اور عشق ہم آواز و ہم آہنگ ہیں آج

جس میں جلتا ہوں اسی آگ میں جلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان! مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تیرے قدموں میں ہے فردوس تمدن کی بہار

تیری نظروں پہ ہے تہذیب و ترقی کا مدار

تیری آغوش ہے گہوارۂ نفس و کردار

تا بہ کے گرد ترے وہم و تعین کا حصار

کوند کر مجلس خلوت سے نکلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان! مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو کہ بے جان کھلونوں سے بہل جاتی ہے

تپتی سانسوں کی حرارت سے پگھل جاتی ہے

پاؤں جس راہ میں رکھتی ہے پھسل جاتی ہے

بن کے سیماب ہر اک ظرف میں ڈھل جاتی ہے

زیست کے آہنی سانچے میں بھی ڈھلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان !مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں

نبض ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں

اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خم گیسو میں نہیں

جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں

اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان !مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے

فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لیے

قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لیے

زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لیے

رت بدل ڈال اگر پھولنا پھلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان !مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں

تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں

تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں

تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں

اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان! مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ کر رسم کا بت بند قدامت سے نکل

ضعف عشرت سے نکل وہم نزاکت سے نکل

نفس کے کھینچے ہوئے حلقۂ عظمت سے نکل

قید بن جائے محبت تو محبت سے نکل

راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان !مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ یہ عزم شکن دغدغۂ پند بھی توڑ

تیری خاطر ہے جو زنجیر وہ سوگند بھی توڑ

طوق یہ بھی ہے زمرد کا گلوبند بھی توڑ

توڑ پیمانۂ مردان خرد مند بھی توڑ

بن کے طوفان چھلکنا ہے ابلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان !مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو فلاطون و ارسطو ہے تو زہرا پرویں

تیرے قبضہ میں ہے گردوں تری ٹھوکر میں زمیں

ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں

میں بھی رکنے کا نہیں وقت بھی رکنے کا نہیں

لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان !مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے 

کیفی ؔاعظمی

How to use voice typing in Urdu