ہفتہ، 31 دسمبر، 2022

رومن اردو Roman Urdu

 *رومن اردو ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کی ایک بہت بڑی سازش:*

  رومن اُردو سے مراد اُردو الفاظ کو انگریزی حروف تہجی کی مدد سے لکھنا ہے۔

مثلاً کتاب کو Kitaab اور دوست کو Dost لکھنا۔ 

اس طرزِ تحریر کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔

اگر قارئین اس بات کو نہیں سمجھے کہ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے ترکوں کی مثال دی جاسکتی ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ١٩٢٨ء میں سیکولر ذہنیت کے حامل کمال اتاترک نے کئی طریقوں سے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ جیسے کہ اذان پر پابندی، حج و عمرہ کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا، آیا صوفیہ جیسی عظیم الشان مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیاگیا اور یہاں تک کہ ہجری کیلنڈر کی جگہ عیسوی کلینڈر کو نافذ کیاگیا۔ 

کمال اتاترک نے اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت دیا اور ترکی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی، اسے بدل کر رومن حروف میں لکھنے کا حکم دے دیا۔

جواز یہ پیش کیاگیا کہ اس سے شرح خواندگی اوپر آئے گی لیکن اس اقدام کا اصل مقصد آنے والی تُرک نسل کو اسلامی کتب جو عربی رسم الخط میں تھیں، ان سے دور کرنا تھا۔ اس بات کا واضح ثبوت ترکی کے پہلے وزیراعظم عصمت انونو کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ

*”حرف انقلاب کا مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہب اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔”*

 (یادداشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص، 223) 

یہ اسلام دشمن منصوبہ کامیاب رہا اور آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کررہی تھی کیوں کہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔ نتیجے کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے۔ 

کسی نے ان حالات کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ

*ترک قوم رات کو سوئی تو پڑھی لکھی لیکن صبح اٹھی تو ان پڑھ ہوچکی تھی کیوں کہ ان کا واسطہ ایک ایسے رسم الخط سے پڑا تھا، جس سے وہ نابلد تھے۔*

ترک اس حادثے کو اب تک نہیں بھولے اور اسی حوالے سے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا تھا،

*’’دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟“*

افسوس کہ ہماری قوم بھی ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کو فراموش کرتی جارہی ہے اور ہم بھی یہی غلطی دُہرا رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے رفاہِ عامہ کے لیے جاری ہونے والے پیغامات ہوں یا پھر موبائل کمپنیوں کی جانب سے موصول ہونے والے اشتہارات اب ہر جگہ رومن اردو نے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ رومن اردو کا آغاز کب ہوا لیکن اسے ”عروج“ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ نے بخشا۔ ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ (Keyboard) میسر نہیں تھا تو رومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی لیکن یہ مجبوری ہماری عادت اور سُستی بن گئی اور اب اردو کی بورڈ موجود ہونے کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہیں۔

(اگر آپ کے موبائل فون میں اردو کی بورڈ میسر نہیں تو پلے اسٹور سے باآسانی ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔) بندہ Go keyboard light استعمال کرتا ہے۔ اس میں ایک زبان سے دوسری زبان میں جانا نہایت آسان ہے۔

کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے اردو لکھنا مشکل اور وقت طلب کام ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ جاپانی اور چینی انٹرنیٹ بلکہ کسی بھی جگہ رومن رسم الخط کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے رسوم الخط کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

*کیا اردو اب جاپانی اور چینی زبان سے بھی مشکل ہو گئی ہے جو ہم اس سے دور ہو رہے ہیں؟*

اسی طرح کچھ احباب اردو رسم الخط سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ املا کی غلطی کے باعث کوئی ان کا مذاق نہ اڑائے جیسے کہ اگر لفظ ”کام“ کو رومن اردو میں لکھنا ہو تو یوں لکھا جا سکتا ہے Kaam یا kam بلکہ Km لکھنے سے بھی کام بن جائے گا کیوں کہ اس کے لکھنے کا کوئی اصول نہیں ہے لیکن اگر اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے کام کو ”قام“ لکھ دیا تو غلطی پکڑی جاسکتی ہے۔ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے اگر کوئی ہمارے املا کی تصحیح کر دے تو ہمیں اس کے لیے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے اور ایسا کرنے سے املا درست ہو جائے گا۔

رومن اردو کی جانب ہمارے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انگریزی زبان سے بےحد مرعوب ہیں۔

ہمیں اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے کہ کسی بھی زبان کو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ آنے والی نسلیں زبان کی صورت بناتی یا بگاڑتی ہیں۔

ہمارے یہاں ایک نسل تو رومن اردو لکھتے بڑی ہوگئی اور 

اگر اب بھی رومن اردو کا راستہ نہ روکا گیا تو حالات وہی ہوجائیں گے کہ اردو تحریر دیکھ کر لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئے گا کہ لکھا کیا ہے اور اس بات پر سارے متفق ہیں کہ 

*جس زبان کا رسم الخط نہ رہے تو اس کے دامن میں موجود ادب کا بیش بہا سرمایہ بھی ضائع ہوجاتا ہے۔* 

کیوں کہ زبان کی حیثیت روح جیسی ہے اور رسمِ خط اس کا لباس ہے۔ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اردو رسم الخط کا استعمال کریں شروع میں کچھ دن مشکل ہوگی پھر رفتہ رفتہ تیزی آ جاۓ گی۔

اگر آپ کو اپنی زبان سے محبت ہے تو براہ مہربانی اس تحریر کو آگے بڑھائیے۔ 

یہ تحریر واٹس ایپ سے ملی تھی، جسے تھوڑا ایڈٹ کرکے یہاں ساجھا کیا جا رہا ہے تاکہ مزید لوگوں تک پہنچ سکے۔ 

How to use voice typing in Urdu