ہفتہ، 20 اپریل، 2013

مشفق بھائی


مشفق بھائی

پرویز احمد اعظمی

ناچیز ابھی رضائی میں پڑے پڑے یہ سوچ رہا تھا کہ اب اٹھوں کہ تب اٹھوں کیوں کہ سورج کی ننھی کرنوں کو ابھی اندھیرے پہ غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ کہیں دور سے مور کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں کہ اتنے میں میرے کمرے کے بازو والے کمرے کا دروازہ دھڑاک سے کھلا۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ لگتا ہے مشفق بھائی باہر نکلے ہیں۔  اکہرا بدن، نکلتا ہوا قد، جسم کمان کی شکل اختیار کرتا ہوا، جس کے سبب ہاتھ گھٹنوں تک پہنچتے ہوئے، پیشانی پر لاتعداد شکنیں، آنکھیں ایسی کہ لوگ آنکھیں چار کرنے سے گھبرائیں۔ ناک طوطے کی مانند، بالوں میں مہندی، داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی، کان گاندھی جی کی طرح لمبے، مزاج اس قدر شائستہ و سنجیدہ کہ شاید ہی کسی نے کبھی ہنستا ہوا دیکھا ہو۔ طبیعت میں خلوص و انکسار کوٹ کوٹ کر بھر ہوا ہے۔ بہ ظاہر تپاک سے ہر کسی سے ملتے ہیں لیکن دل سے چند لوگوں ہی سے ملتے ہیں۔ ذہن میں ہر وقت ایک طرح کا خمار، طبیعت سے سرشار، مذہب سے بیزار، سونے میں ایسے طاق ہیں کہ سنا ہے کہ کمبھ کرن ایک رات خواب میں آکر دست بستہ گزارش کر رہا تھا کہ حضور میری لاج رکھیے ورنہ زمانہ مجھے بھلا کر آپ کی مثالیں دینے لگے گا۔ اردو کے عاشق، انگریزی کے شیدائی، بہ ظاہر صوفی منش مگر بہ باطن تجدد پرست۔ عموماً نماز روزے کی پابندی بھی کرتے ہیں لیکن اکثر لوگ ان کے اس جملے ’’عورتوں نے دپٹہ کب کا پھینک دیا مگرمولانا ہیں کہ ٹوپی سے چپکے ہوئے ہیں اور I hate Lungi, I hate Pyjama and I hate the tendencies of Maulana‘‘سے ان کی مذہبیت کو مشکوک نظر سے دیکھتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں ان کے خیال کچھ عجیب و غریب قسم کے واقع ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ہندستان کی آبادی بڑھانے میں سب سے زیادہ قصور لنگی کا ہے۔ اسی لیے نیکر اور جینس ہی پسند خاطر ہیں۔ شرافت، نفاست میں اپنی مثال آپ ہیں، جس کی مثال کم از کم اس صدی میں تو ملنی مشکل ہے ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

حالاں کہ بزرگوار مجھ سے ایک سال سینیر  ہیں لیکن ان کی اردو دانی و زبان دانی کے باعث خاکسار نے انھیں اپنا استاد مان لیا ہے لیکن موصوف نے اپنی سادگی و شریف النفسی ( ظاہری ) کی وجہ سے خود کو کبھی استاد نہیں گردانا، جس طرح ’’ایک لویہ‘‘ نے درونا چاریہ کو اپنا استاد مانا تھا، اسی طرح راقم بھی انھیں اپنا استاد تسلیم کرتا ہے۔ چوں کہ میں ان کا اکلوتا شاگرد رشید ہوں، اس لیے ان کی شرافت کی قسم کھانے سے کبھی نہیں جھجکتا۔ ان کا ذوق نفاست اس قدر بلند ہے کہ اگر واجد علی شاہ آج زندہ ہوتے اور استادکی نفاست کی خبر سنتے تو اپنی ریاست انھیں سونپ کر خود کسی خانقاہ میں جا کر کسی پیر کے مرید بن جاتے۔ اس سلسلے میں ان کی نفاست کی صرف ایک مثال عرض کرنا چاہتا ہوں: اور پھلوں کی کیا بات ہے، ان کی طبیعت انگور کھانے پر بھی تب تک مائل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کے چھلکے نہ اتار دیے جائیں۔ اب آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ معدہ جو انگور کے چھلکوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، دیگر اشیائے خورد و نوش کا متحمل کیوں کر ہو سکے گا؟ یہی وجہ ہے کہ اطبا سے ان کا ناگزیر قسم کا رشتہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے کمرے (بقول استاد: غرفۂ اطہر) پر جو شخص بھی حاضر ہوتا ہے، اس کی نگاہ سب سے پہلے سامنے رکھے ہوئے گٹار، اس کے دائیں طرف تان پورا اور بالآخر میز پر آراستہ شیشیوں، بوتلوں اور معجون کے ڈبوں پر مرتکز ہو جاتی ہے اور غرفۂ اطہر پر حاضری دینے والا انھیں حکیم پہلے، طالب علم بعد میں تسلیم کرتا ہے اور متعجب ہو کر دریافت کرتا ہے کہ آپ حکمت کرتے ہیں؟ جواب بڑی متانت سے ( کافی غور و خوض کے بعد۔ اس بیچ چہرے پر کئی رنگ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں) نہیں حضور! یہ سب خاکسار کی ادویہ ہیں، یہ نہ ہوں تو زندگی اجیرن ہو جائے۔

استاد کی طبیعت میں سرعت پسندی کچھ اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ اچھے اچھوں کے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ اذان ہو رہی ہے اور محترم نے وضو کرنا شروع کر دیا ہے تو یقین جانیے کہ نماز ہو جائے گی اور آپ کی نگاہ جب ان پر پڑے گی تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ ابھی مسح کر رہے ہیں۔ اسی سرعت پسندی کی وجہ سے بارہا ٹرین چھوٹ گئی، بس نکل گئی، امتحان میں لیٹ ہوئے لیکن ’’وفاداری بہ شرطِ استواری اصل ایماں ہے‘‘ کا لحاظ کرتے ہوئے آج بھی اسی طرز کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ 

ہاسٹل میں پانی صبح و شام سات بجے سے نو بجے تک ہی آتا ہے، جس کے باعث انھوں نے اپنے لیے ہاسٹل میں ایک غسل خانہ محفوظ کر رکھا ہے۔ اس غسل کھانے میں کسی کی کیا مجال کہ قدم رکھ دے۔ اس کے باوجود کبھی کبھی انھیں یہ شکایت رہتی ہے کہ پانی اتنی جلدی کیوں چلا جاتا ہے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب غسل کے لیے تشریف لائے تو دیکھا کہ اندر کے دونوں غسل خانوں کے لیے پانچ پانچ بالٹیاں قطار میں ہیں، جب کہ باہر کے غسل خانے کے لیے کوئی قطار نہیں ہے۔ موصوف نے جھٹ سے اپنی بالٹی وہیں رکھ دی۔ اتنے میں انھیں نہ جانے کیا خیال آیا کہ وہاں پہلے سے موجود لوگوں سے انھوں نے دریا فت کیا کہ اس باتھ روم میں کون ہے؟ اور جیسے ہی لوگوں نے بتایا کہ مشفق صاحب ہیں تو موصوف نے جتنی پھرتی سے بالٹی رکھی تھی، اس سے دو گنی پھرتی سے وہاں سے بھاگتے ہوئے اندر چھٹے نمبر پر اپنی بالٹی لگا دی اور کہا کہ ’’یہاں تو نمبر آ بھی سکتا ہے لیکن وہاں تو ہرگز نہیں آ سکتا‘‘۔

محترم کو آج تک کسی نے بغیر اخبار کے اجابت کے لیے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ان کی یہ حرکت دیکھ کر ایک ہم جماعت نے اس شخص کے لیے ایک کلو قلاقندکا انعام رکھ دیا کہ جو شخص مشفق کو بغیر اخبار کے toilet جاتے ہوئے دیکھ لے، ان سے آکر ایک کلو قلاقند انعام لے جائے لیکن ان کی شریف النفسی دیکھیے کہ شعوری طور پر بھی کبھی ایسا نہیں کیا کہ ان صاحب کے ایک کلو قلاقند کے پیسے ان کی وجہ سے خرچ ہو جائیں گے۔ اگر ہمیں اپنے کسی کام سے حضور کو ساتھ لے جانا ہو اور وہ یہ فرما دیں کہ کل صبح ۹ بجے ہر حال میں بس پکڑ لینا ہے تو یقین جانیے کہ آپ انتظار کر کے تھک ہار کر جب ان کے غرفۂ اطہر پر گیارہ بجے دستک دیں گے تو دیکھیں گے کہ جناب استراحت فرما رہے ہیں اور عذر ہوگا کہ ’’کیا بتاؤں آنکھ تو صبح سات بجے ہی کھل گئی تھی لیکن کم خوابی کے طبی پہلوؤں کوملحوظ رکھتے ہوئے پھر سو گیا‘‘۔ ہمارے نزدیک ان کے یہ تمام کام تساہلی کے ہو سکتے ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ اس سے کم وقت میں کوئی اتنے کام کیسے کر سکتا ہے؟ بالخصوص سحر خیز لوگوں سے انھیں ذہنی بُعد ہے اور ایسے لوگوں کو دل ہی دل میں لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا قول ہے کہ شرفاکے نزدیک یہ عمل کبھی بھی پسند خاطر نہیں رہا اور ویسے بھی سحر خیزی کوؤں کا کام ہے شرفا کا نہیں۔ 
اردو کے اس قدر عاشق و شیدائی ہیں کہ عام فہم الفاظ یا بزبان موصوف، بازاری الفاظ کا استعمال کبھی نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی بازارو الفاظ سے بچنے کی ہدایت گاہے گاہے دیا کرتے ہیں۔ آپ اس ایک واقعے سے ان کی زبان دانی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک بار ان کے ایک عزیز آبائی وطن سے آئے ہوئے تھے۔ اگلے دن جب وہ کسی کام سے یونی ورسٹی سے باہر جا نے لگے تو ان سے عرض کیا کہ مشفق بھائی میں باہر جا رہا ہوں، ہو سکتا ہے میرے آنے میں دیر ہو جا ئے، اس لیے براہ کرم آپ میرا کھانا رکھوا دیجیے گا۔ جب وہ صاحب لوٹ کر آئے تو دیکھا کہ کمرہ بند ہے اور دروازے کی کنڈی میں ایک رقعہ لگا ہوا ہے، جس میں تحریر ہے کہ: ’’آپ کا طعامِ نصف النہار یعنی ظہرانہ میرے غرفۂ اطہر میں آپ کا منتظر ہے، آپ تناول فرما لیں، کلید باب کے اوپر ہے‘‘۔ یہ صاحب ’’کلید باب کے اوپر ہے‘‘ کا مفہوم نہ سمجھ سکے اور۔۔۔ ان کی زبان دانی کا ایک اور واقعہ یاد آگیا ہے وہ بھی سن لیجیے۔ ایک بار استاد موصوف کو ایک درخواست دینے کے لیے Income Certificate کی ضرورت تھی، جس کے لیے اپنے والد محترم کو لکھا کہ ’’سندِ آمدنیہ کا عکس ارسال کر د یجیے‘‘۔ نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات۔ وہ جملہ سمجھنے سے قاصر رہے اور یہ درخواست دینے سے۔ 

اتفاق سے استاد اور شاگرد  ایک پروجکٹ پر دہلی میں کام کر رہے تھے۔  اتفاق سے ایک دن بار بار وہ تشنگی بجھانے جا رہے تھے تو  ناچیز نے عرض کیا کہ آپ اس طرح کب تک تشنگی بجھاتے رہیں گے؟ آپ کو تشفی کے لیے آب خورہ ساتھ رکھنا چاہیے۔ ارشاد ہوا کہ ’’اس سے بھی سیری نہیں ہو پاتی ایسی تشنگی بجھانے کے لیے مضروب کی ضرورت ہے‘‘ ۔ 

موصوف کو قدیم دہلی سے خاص انسیت ہے۔ جب بھی فرصت کا وقت ہوتا ہے اور طالب علمی کی زندگی میں کب نہیں ہوتا؟ موقعے کو غنیمت جان کر قدیم دہلی روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایک بار انھوں نے جامع مسجد کے علاقے کے ایک دکاندار سے ’’زیرِجامہ‘‘ طلب کیا، دکان دار سمجھنے سے قاصر رہا۔ یہ بھڑک اٹھے اور فرمایا: "میرؔ و غالبؔ کے شہر میں رہتے ہیں اور زیر جامہ نہیں سمجھتے"۔ بہرحال دکان دار ان کی برہمی سے جو کچھ سمجھ سکا، وہ اس نے ان کے سامنے پیش کر دیا۔ ان کی شرافت نے وہیں دیکھنا گوارہ نہ کیا اور جب کمرے پر لائے تو۔۔۔ افسوس کہ پہن نہ سکے۔ محترم کی قدیم دہلی  کی انسیت نے ہاسٹل میں بہت سارے حاسد پیدا کر لیے ہیں۔ ان کی اس خصلت سے جل کر کسی دل جلے نے رمضان کے مہینے میں ہاسٹل کے مِس میں ایک سہ غزلہ چسپاں کر دیا، جس کا مطلع تھا

ہے دہلیِ قدیم میں اک حسن بے نظیر 

جس نے کیا ہے حضرتِ مشفق کا دل اسیر

سحری کے وقت لوگوں نے دیکھا اور مشفق صاحب کی شریف النفسی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ نہ جانے کس نامعقول، بداندیش، بدذات، بدتمیز، بدتہذیب، بدکردار، ناعاقبت اندیش ۔۔۔کا کام ہے۔ ظاہر ہے سہ غزلہ کا خالق بھی وہیں تھا۔ لہٰذا اگلی سحری میں ایک دو غزلہ پھر چسپاں پایا گیا، جس کا مطلع تھا:

میاں مشفق کی وکالت جو کر رہے ہیں نسیم

کوئی ان سے پوچھے، آتا ہے الف بے جیم

لا چار ہو کر مشفق صاحب نے جواب چسپاں کیا، جس کا مطلع تھا:

مشفق کی ذات عشق و محبت سے دور ہے

تہذیب سے لگاؤ ہے، کیا یہ قصور ہے ؟ 

اس جواب کا چسپاں ہونا تھا کہ ایک معرکۂ غزل کھڑا ہو گیا اور روزانہ جواب در جواب چسپاں ہونے لگے لیکن شاعر کا پتہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی مشفق کے بہی خواہ نہ کر سکے۔ یہ سلسلہ جب طول پکڑنے لگا تو اس قلمی معرکے سے تنگ آکر ایک سرپھرے نے چسپاں کیا

باؤلے کرنے لگے ہیں آج کل کچھ شاعری

اور اسی کو وہ سمجھتے ہیں طلسمِ سامری

لفظ کے زیر و زبر سے کچھ نہیں آگاہ یہ

شعر کے اوزان سے خالی ہے ان کی ڈائری 

کام کچھ ایسا کروکہ سرخر وئی جگ میں ہو

آپ بھی مشہورہو اورقوم ہووے فاخری

تب کہیں جاکر معرکہ سرد پڑا۔ 

مشفق صاحب کی زبان دانی کا ایک اور واقعہ سنیے۔ ایک بار حضور کا کسی سلسلے میں مراد آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ نفاست پسند طبیعت ہندستانی سفر کی سہولتوں سے محظوظ نہ ہو سکی۔ مجبوراً ان کو ایک آشنا کے یہاں قیام کرنا پڑا، جن صاحب کے یہاں انہوں نے قیام کیا تھا، حسنِ اتفاق سے باپ بیٹے دونوں شاعر تھے۔ موصوف کی علالت کو دیکھتے ہوئے صاحب زادے نے عرض کیا! آپ کھانے میں کیا پسند فرمائیں گے؟ مشفق صاحب نے کہا کہ طبیعت کھانے پر بالکل آمادہ نہیں ہے، لہٰذا فقط ’’شُلّہ‘‘ پکوا دیجیے۔ صاحبزادے کی سمجھ میں ’’شُلّہ‘‘ نہ آسکا تو جا کر والد محترم سے پوچھا ’’شُلّہ‘‘ کیا بلاہے؟ وہ بھی سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے آکر خود دریافت کیا۔ جناب نے پھر وہی دہرایا ’’شلّہ‘‘۔ اب دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے اور ایک ساتھ پوچھا: ’’یہ شلہ کیا بلا ہے؟‘‘ مشفق صاحب! چیں بہ جبیں ہوتے ہوئے بولے: ’’کھچڑی‘‘۔ ایک بار ہاسٹل میس ( mess) میں کھانا کھاتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ’’ آج کا جغراد کافی اچھا ہے‘‘۔ ان کے دوست جو ان کے ’ہم اتاق‘ و ہم جماعت تھے، حیرت سے پلیٹ کی طرف دیکھنے لگے کہ یہ کون سی نئی چیز کھانے میں آگئی ہے اور جب قوت آگہی نے کام نہیں کیا تو پوچھا ’’یہ کس چڑیا کا نام ہے ؟‘‘، ’’چڑیا کا نہیں جناب کھانے کی اشیاء کا نام ہے۔ آپ لوگ نہ جانے کیا پڑھتے ہیں؟ اتنا بھی نہیں جانتے‘‘ اور پھر آہستہ سے کہا ’دَہی‘۔

آج تک غیروں کا کیا ذکر، شاگرد نے بھی استاد محترم کو کبھی نصابی یا ادبی کتاب پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ ان کے زیر مطالعہ رہنے والی کتابیں ہیں: نور اللغات، فرہنگ آصفیہ، لغات کشوری، علمی اردو لغت، فرہنگ عامرہ اور جدید فارسی اردو لغت وغیرہ وغیرہ۔ یہی سبب ہے کہ محترمی دوسروں کے ذہن کو تختۂ مشق سمجھ کر ان پر زبان کے نئے نئے نقش ثبت کرتے رہتے ہیں۔ ان کی اس تجربہ کاری کی وجہ سے کچھ لوگ ان کی زباندانی کے دشمن ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اس طرح کے لوگوں کو جب بھی موقع ہاتھ آتا ہے، وہ مشفق بھائی کو کریدتے رہتے ہیں۔ اسی گروہ کے ایک صاحب ہاسٹل سے نکل رہے تھے اور حضور داخل ہو رہے تھے، آمنا سامنا ہوتے ہی حضور نے خیریت دریافت کی اور پوچھا تشریف کہاں جا رہی ہے؟ نکلنے والے نے کہا ’مَنقَل‘ خریدنے ۔ اتفاق سے حضور کے ذہن میں اس لفظ کے معنیٰ نہیں تھے۔ لہٰذا سازشی کامیاب رہا۔ مشفق صاحب ایک ہفتے تک لغات سے اپنی دشمنی نبھاتے رہے لیکن فتح یاب نہ ہو سکے۔ آخر ایک دن چار و ناچار ان صاحب سے مخاطب ہوئے کہ آپ نے جان بوجھ کر مجھے پریشان کرنے کے لیے اس لفظ کا استعمال کیا تھا؟ میں تبھی سے تلاش کر رہا ہوں کسی لغت میں ملتا ہی نہیں۔ آپ مجھے سب سے پہلے یہ بتائیں کہ وہ لفظ کس زبان کا ہے؟ جناب عربی زبان کا لفظ ہے۔ مشفق صاحب نے کہا کہ وہ تو القاموس الجدید میں بھی نہیں ملا۔ خیر چھوڑیے! اب اس کے معنیٰ بتا دیجیے۔ اس کے معنیٰ انگیٹھی کے ہیں۔ معاف کیجیے گامیرامقصد آپ کو پریشان کرنا ہرگز نہیں تھا۔ آپ نے پوچھا تو منھ سے بے ساختہ ’’منقل‘‘ نکل گیا۔ مشفق صاحب نے انکساری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں معافی کی کیا بات ہے؟ اس سے میرے لفظی ذخیرے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لیے تو مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

میرا دعویٰ ہے کہ مہمان نوازی میں اس دور میں کوئی ان کا ہمسر نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ جس طرح وہ اپنے مہمان کی خاطر و مدارات اور دل جمعی کا خیال رکھتے ہیں، بڑے سے بڑا مہمان نواز نہیں کر سکتا۔ اپنی مہمان نوازی کی مثال قائم رکھنے کے لیے ہر سال ہاسٹل کی سالانہ تقریب میں کسی نہ کسی کو ضرور مدعو کرتے ہیں اور اس کے لیے نگاہ انتخاب کسی اثر و رسوخ والے پر ہی مرتکز ہوتی ہے۔ مہمان پر اپنی خوش اطواری ظاہر کرنے اور اس کی دل بستگی کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں مہمان کی طبیعت کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ اپنی کہی ہوئی اب تک کی تمام غیر شائع شدہ غزلیں و نظمیں عشائیہ کرانے سے پہلے سنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ اب آپ خود تصور کریں کہ اس مہمان پر کیا گزرتی ہوگی، جو ان کی دعوت کے دام میں آجاتا ہوگا اور اس کی کیفیت کا اندازہ کریں کہ سنتا ہے تو سنا نہیں جاتا اور اگر سننے سے انکار کرتا ہے تو عشائیہ سے محروم ہونے کا خدشہ لاحق ہو سکتاہے۔ ہائے! بے چارہ مہمان! کنواں میرے پیچھے ہے تو کھائی میرے آگے۔ 

یہ بات پورے کیمپس میں مشہور ہے کہ جس شخص نے بھی ان کی صحبت میں کسی طرح سے دو گھنٹے گزار لیے، بہ روز حشر اسے بغیر حساب کتاب کے جنت میں جانے کا شرف حاصل ہوگا۔ اس کامعاملہ کچھ یوں ہے کہ جب وہ محو گفتگو ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ رفتار شکن پر گامزن ہیں اور جیسے ہی موصوف کچھ فرمانا چاہتے ہیں الفاظ نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ اپنا عصا اٹھاتے ہیں اور ان کے تعاقب میں نکل پڑتے ہیں۔ اب ایک ایک کو مارتے جاتے ہیں اور آپ کے سامنے حاضر کرتے جاتے ہیں۔ ایک بار ان کے شاگرد رشید نے ان سے عرض کیا کہ حضور آپ اس قدر ٹھہر ٹھہر کر کیوں بولتے ہیں کہ سامنے والا اوب جاتا ہے؟

محترمی استاذ نے فرمایا (جواب سے پہلے چہرے پر کئی طرح کے تاثرات آئے اور گئے پھر پیشانی پر بل پڑ گئے) کیا کروں ؟ کمبخت الفاظ ساتھ ہی نہیں دیتے۔ 

بزرگوار! آپ کی زبان دانی کا ڈنکا بج رہا ہے پھر بھی آپ کا جے۔ آر۔ ایف۔ نہیں ہوا؟ یہ ہمارے لیے کتنی حیرت کی بات ہے؟ شاگرد نے پھر پوچھا۔

 

استادنے دوبار سرپر ہاتھ مارا اور توانائی ظاہر کرتے ہوئے بولے’’کیا بتاؤں، کچھ کہہ نہیں سکتا، سوائے اس کے کہ: ’’انقباض ذہن کا شکار ہو گیا‘‘۔

بزرگوار نے کچھ الفاظ کے اردو متبادل بھی بنائے ہیں، جن کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں، خواہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔ مثلاً ریزرویشن کے لیے ’’تحفظ نشست‘‘، ’Tape Recorder‘ کے لیے ’’آواز کش‘‘ Two in One کے لیے ’’دو در یک‘‘ اور Roommate کے لیے ''ہم اتاق"۔ اس قبیل کے اور بھی بہت سے متبادل حضور نے بنائے ہیں اور بندے کو استعمال کا حکم ہے لیکن ان کے شمار کا یہ محل نہیں۔

استاد کو موسیقی سے خاص رغبت ہے، جس کے لیے بھوپال گھرانے سے باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے۔ ان کے نزدیک آ لاپ کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ اس لیے وقتاً فوقتاً جب طبیعت آمادہ ہوتی ہے، آلاپ لیتے رہتے ہیں اور پڑوسی سونے کے بجائے آلاپ سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ محترم مشاعروں میں جب اپنی غزلیں ترنم سے سناتے ہیں تو صرف کہنہ مشق سامع ہی اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھ پاتے ہیں، بقیہ مدہوش ہو جاتے ہیں یا اونگھنے لگتے ہیں، خدا جانے!

خاکسار اس بات کا ذکر کر چکا ہے کہ موصوف کی طبیعت تجددپرست واقع ہوئی ہے مگر تجدد پرستی وہیں تک محدود ہے جہاں تک ان پر بار نہ آئے ورنہ ان سے بڑھ کر قدامت پرست شہر دہلی میں نہیں۔ اہلیہ کے لیے بے حد محتاط رہتے ہیں۔ دفتر جاتے ہوئے باہر سے سِڈوئی تالا (بوسیدہ و زنگ آلود) لگا کر جاتے ہیں اور واپس آنے پر بیگم سے دریافت کرتے ہیں، کوئی آیا تو نہیں تھا؟ 

ان کی شخصیت کا تعارف تب تک ادھورا سمجھا جائے گا، جب تک کہ ان کے ساتھ ان کی سائیکل، چھتری اور آہنی بیگ کا ذکر نہ کر دیا جائے ورنہ تعارف کروانے والے کی معلومات ادھوری سمجھی جائے گی۔ بزرگوار کو دہلی کے موسم پر قطعی اعتماد نہیں ہے، جس کی وجہ سے چھتری ہر موسم میں ساتھ رکھتے ہیں۔ دھوپ میں اس کا استعمال گناہ کبیرہ سے کم نہیں البتہ سائے میں اس کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ان کی سائیکل کوئی ایسی ویسی یا ’’پطرس‘‘ کی سائیکل کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ ایک مخصوص قسم کی سائیکل ہے، جسے آپ ایک بار دیکھ لیں گے تو بیس سال بعد بھی دیکھتے ہی فوراً کہہ اٹھیں گے: مشفق کی ہے۔ اس سائیکل میں آگے پیچھے کچھ فاضل اعضا :جیسے بستر بند کے ساتھ ایک مخصوص قسم کا دائیں طرف لٹکتا ہوا جالی دار صندوقچہ لگا ہوا ہے، جس میں کم از کم ایک انگریزی اردو لغت اور نور اللغات کی جلدیں ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ ہینڈل کے آگے لگے باسکٹ میں مراۃالشعر، لغات کشوری اور ذاتی بیاض کا ہونا لازمی ہے۔ اس لیے کہ کب اور کس سے، کس لفظ کے در و بست پر معرکہ چھڑ جا ئے کیا معلوم؟ اس لیے سند پیش کرنے کے لیے کچھ اثاثہ ساتھ ہونا ہی چاہیے۔

موصوف کے آہنی بیگ سے مراد ایسے بیگ سے ہے جو دہلی کی بسوں میں سفر کرتے وقت مسافروں کی ریل پیل میں، اگر مسافر آگے اور بیگ پیچھے یا مسافر یہاں بیگ وہاں ہوجائے اور جیسا کہ اکثر ہوتا رہتا ہے تو بیگ کو بے لوث ہو کر پوری قوت سے کھینچ لیا جائے۔ خواہ لوگوں کو کھروچیں آئیں یا بھاڑ میں جائیں پر بیگ پر خراش نہ آئے۔ ’’میں خوش مورا اللہ خوش‘‘۔

ان تمام گو ناگوں اور مختلف النوع خصوصیات کی وجہ سے مشفق بھائی کے بارے میں کیمپس میں دو باتیں مشہور ہیں۔ اول یہ کہ وہ پندرہویں صدی کی مخلوق تھے مگر قدرتی رجسٹر میں ہیر پھیر کی وجہ سے ان کا ورود چار صدی بعد ہوا، دوم یہ کہ ان سے جس کسی نے بھی، بھول چوک سے بھی کبھی ایک چائے پی ہے، اس کا دوزخ میں جانا یقینی ہے۔ اس لیے کہ اس طرح کی نادر شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے ورنہ ہم پر عذابِ الٰہی نازل ہوگا۔

 

 

نوٹ: یہ انشائیہ مارچ ۲۰۰۲، شگوفہ، حیدرآباد  میں شائع ہو چکا ہے۔

 

Urdu shaeri me mahboob ka badalta tasawwur

اردو شاعری میں محبوب کا بدلتا تصور

اردو ادب کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس نے ہر دور میں سماج کے غالب رویوں، رجحانوں اور تحریکوں کی بھر پور نمائندگی کی ہے۔ خواہ وہ رویّے سماجی رہے ہوں، سیاسی ہوں یا پھر تہذیبی۔ سماج نے ادیبوں کو اور ادیبوں نے سماج کو ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے۔ اس طرح ہم سماج اور ادب کے تعلق کو ناگزیر یا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کہہ سکتے ہیں۔ شاید سماج اور ادب کے اسی تعلق کو دیکھتے ہوئے ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں
اگر ہم اس بات کی مثال لینا چاہیں تو کسی بھی عہد سے لے سکتے ہیں۔ نذیرؔ اکبرآبادی سے لے کر سوداؔ کے عہد تک یا غالبؔ کے عہد سے اقبال کے عہد تک یا پھر فیض و سردارؔ جعفری تک کے عہد سے اس طرح کی مثالیں بڑی آسانی سے لی جا سکتی ہیں کہ:
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیاکیجے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ


اردو شاعری میں محبوب کے تصورکو ذہن میں رکھ کر اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ جس طرح کا عہد ہوتا ہے، اسی طرح کا ادب پروان چڑھتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ہم میر کے زمانے کو لیں اور اس کا مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس عہد میں جس طرح کا دور تھا، اسی طرح کی شاعری بھی کی جاتی تھی یعنی میرؔ کے عہد میں پردے کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا اور گھر سے نکلنے پر پالکی کے ساتھ ساتھ کسی مرد کا ہونا بھی ضروری خیال کیاجاتا تھا لیکن بیسویں صدی تک آتے آتے وہ بندھن ٹوٹ گئے اور شاعر نے بے باک ہو کر کہا: ’’خدا بھی مسکرا دیتا ہے جب ہم پیار کرتے ہیں‘‘۔ یہ شعربیسویں صدی کا ہے اور یقیناً اس طرح کا شعر بیسویں صدی ہی میں ہو سکتا تھا۔ اس سے پہلے کے کسی بھی دور میں شاید ایسا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ دور ایسا تھا کہ محبوب کا دیدار ہی کسی طرح سے ہو جائے تو کافی ہوتا تھا یا پھر یہ کہ عاشق کومعشوق کی ایک جھلک مل جائے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا تھا۔ میرؔ کے عہد میں اور اس کے بعد غالبؔ اور مومنؔ کے عہد تک محبوب کا تصور لبِ بام کے دیدار تک ہی تھا۔ وصال کی باتیں بہت کم ہوتی تھیں۔ زیادہ تر عاشق ہجر کا رونا ہی روتے نظر آتے تھے۔ مثال کے طور پر میرؔ کے چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں، جن سے عاشق کی کیفیت کا اندازہ ہو سکے گا:

ہم تو عشق میں نا کس ٹھہرے کوئی نہ ایدھر دیکھے گا
آنکھ اٹھا کر وہ دیکھے تو یہ بھی اس کی مروت ہے

عشق کیا ہے اس گل کا یا آفت لائے سر پر ہم
جھانکتے اس کو ساتھ صبا کے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم

سو بار ہم تو تم بن گھرچھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے
سو نامہ بر کبوتر،کر ذبح ان نے کھائے

خط چاک اڑے پھرے ہیں اس کی گلی میں پر سے
آخر گرسنہ چشمِ نظارہ ہو گئے ہم
 ٹک دیکھنے کو اس کے برسوں مہینے ترسے

آنکھیں تو پتھرا گئیں تکتے ہوئے اس کی راہ

 شام و سحر انتظار دیکھیے کب تک رہے

آنکھ ملاتا نہیں ان دنوں وہ شوخ ٹک

 بے مزہ ہے ہم سے یار دیکھیے کب تک رہے

میرؔ کے یہ اشعار اس دور کی نمائندگی کرنے کے لیے کافی ہیں اور یہ ثابت کرنے کے لیے بھی کہ اس عہد میں ایک جھلک یا ایک دیدار ہی عاشق کے لیے باعث اطمینان ہوا کرتا تھا۔ غالبؔ کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ان کا روزانہ ایک گلی سے گزر ہوا کرتا تھا اور لب بام پر کھڑے اپنے محبوب کا دیدار کرتے ہوئے گزر جایا کرتے تھے لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ ایک دن، دو دن، تین دن گزر گئے پر وہ ماہ رو نظر نہیں آیا تو ان کی بے تابی کا ٹھکانہ نہیں رہا اور وہ اس کے گھر میں داخل ہو گئے۔ در اصل اس زمانے میں عورت کو ایک خاص عظمت حاصل تھی۔ جسے گھر کی زینت اور رونق کہا جاتا تھا۔ باہر نکلنا قطعی نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ کہیں کوئی ضروری کام پڑ جائے۔ ایسے میں اس کے ساتھ اس کی رہبری، رہنمائی اور حفاظت کے لیے مرد کا ساتھ ہونا ناگزیر ہوتا تھا۔غالبؔ جیسا شاعر بھی اپنے دور میں صرف اتنا کہہ سکا کہ:

ادھر وہ بد گمانی ہے،ادھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے

وہ اگر جھانکیں جھروکے سے تو اتنا پوچھوں
بستر اپنا پسِ دیوار کروں یانہ کروں 

غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں

منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا 

ان کے دیکھے سے آجاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں کیا وہ لکھیں گے جواب میں

یہ اشعار بھی اس رشتے کی وضاحت کر رہے ہیں، جس کا کہ ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ عاشق محبوب کی چشمِ کرم کی حسرت ہی لیے رہ جاتا تھا اور امید ہی اس کی تمام آرزوؤں کا حاصل ہوا کرتی تھی۔ غالب اور مومنؔ کے زمانے کی شاعری میں زیادہ تر موضوعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عاشق محبوب کے دیدار ہی پر صبر کر لیا کرتا تھا۔ ایک اور بات جو یہاں قابلِ ذکر ہے، وہ یہ کہ شاعری میں عاشق کو وصال کی امید ہمیشہ رہا کرتی تھی اور اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ معاشرے کا رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ اس سے آگے بڑھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ ایسے میں محبوب کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مکرِ شاعرانہ کا سہارا لینا پڑتا تھا، جس کے لیے مومنؔ خاص طورسے مشہور ہیں:
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا

میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
ایسے دور میں عاشق جب اپنے معشوق کے قدموں کے نشان دیکھ لیتا تھا تو بے ساختہ کہہ اٹھتاتھا:
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں                 خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
ایسے معاشرے میں عاشق کے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا، سوائے اس کے کہ:
جب گھر بنا لیا ترے گھر پر کہے بغیر                جانے گا تو نہ اب بھی مرا گھر کہے بغیر
اب تک جتنی مثالیں ہم نے پیش کی ہیں، اس سے انیسویں صدی کے معاشرے، اس کے رکھ رکھاؤ، اقدار اور اس معاشرے میں عورت کی حیثیت، مقام اور عظمت کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔
بیسویں صدی میں عورت کی شناخت، اس کی عظمت، معاشرے کی تعمیر میں اس کے رول اور اہمیت کو کسی حد تک تسلیم کیا گیا۔ بعض ادیبوں نے سماج کو بنانے میں اس کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس عہد میں تعلیم کا پھیلاؤ ہوا اور کچھ روشن خیال ادیبوں نے اسے اس کی آزادی اور مرد کے ہم پلہ قرار دینے کی مہم چلائی۔ اس سے قبل عورت کی شناخت یہ تھی کہ عورت محبت کی چیز ہے اور صرف اسی لیے دنیا میں لائی گئی ہے۔ یہاں آگے بڑھنے سے پہلے حسرتؔ موہانی کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ معاشرہ ان کے زمانے میں کس حد تک عورتوں کو آزادی فراہم کرتا تھا۔ ان کے عہد میں معاملہ لبِ بام سے آگے نکل چکا تھا۔ جبھی تو انہوں نے کہا:
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً


اور دپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
مذکورہ اشعار سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری کس طرح وقت کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ اس سے آگے بڑھنے پر ترقی پسند تحریک کا عہد آتا ہے، جس نے اردو ادب میں بہت سی مثبت اور اہم تبدیلیاں پیدا کیں اور اس کو بہت سی نئی فکری بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ ترقی پسند تحریک میں فیض احمد فیضؔ کا اپنا ایک مقام ہے جو نظریاتی اعتبار سے بھی مقبول ہے اوراپنی شاعری کے خاص لب و لہجے کی وجہ سے بھی۔ انہوں نے اگر کہیں جرأت مندی دکھائی ہے تو کسی حد تک روایت کی پاسداری بھی کی ہے۔ چوں کہ وہ دور ہی کچھ ایسا تھا کہ انھیں دونوں سے ہم آہنگی بنائے رکھنی پڑی۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر انہوں نے کہا:
اَن گِنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کِم خواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لِتھڑے ہوئے،خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیاکیجے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
اس نظم میں شاعر نے سب سے پہلے اپنے محبوب کے حسن کی تعریف کی ہے، اس کے بعد اسے سماج کی مشکلوں، مصیبتوں اور دکھوں سے واقف کرانے کی کوشش کی ہے۔ پھر یہ کہنے کی سعی کی ہے کہ جب سماج میں اتنے دکھ، مصیبتیں اور تکلیفیں ہیں تو پھر انسانیت کے ناتے ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے کچھ ایسے کام کریں، جس سے معاشرے کیمصیبتوں کا کچھ ازالہ ہو سکے۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ کیوں کہ تم سے زیادہ میری ضرورت اس ملک کو ہے، اس سماج کو ہے، اس لیے اب مجھ سے پہلی سی محبت کی توقع نہ رکھیں تو بہتر ہو گا۔ یہ فیضؔ تھے، جنہوں نے روایت سے بہت کم انحراف کیا ہے لیکن اس کے بعد ایک ایسے شاعر کا نام آتا ہے، جس کا خمیر انقلاب اور رومان سے اٹھا تھا، جسے اردو شاعری کی تاریخ میں اسرارالحق مجازؔ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجازؔ نے حقیقت میں اپنی ترقی پسندی کا ثبوت دیا اور ’’نوجوان خاتون سے‘‘ خطاب کیا تو اسے نوجوانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا:

اگر خلوت میں تو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل
بھری محفل میں آکر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا

ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے

اگر تو سازِ بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے

تو سامانِ جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل کا اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

در اصل ترقی پسند نظریے کی یہ صحیح ترجمانی تھی۔ اب تک ہم نے جتنی مثالیں دی ہیں، ان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اردو شاعری میں محبوب کا تصور حسنِ بازاری سا کبھی نہیں تھا۔ اسے چراغِ خانہ ہی کا درجہ دیا جاتا تھا اور گھر کی چہار دیواری ہی اس کی زندگی کا محور تھی۔ مجازؔ نے اسے یہ ہمت عطا کی اور کہا کہ اگر جوانوں نے سنانیں کھینچ لی ہیں تو اسے سامانِ جراحت اٹھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے عورت مرد کے ہم قدم جنگ نہیں کر سکتی لیکن سامانِ جراحت لے کر مرد کے ساتھ ضرور چل سکتی ہے۔ یہ وہ خیال تھا، جس نے عورت کو ایک نیا مقام ہی نہیں بلکہ ایک بلندی بھی عطا کی۔ اس سے آگے بڑھ کر عورت کے وجود کی عظمت، عفت اور وقار کو مزید بلندی سلامؔ مچھلی شہری نے عطا کی۔ وہ مجازؔ سے بھی دو قدم آگے نکل گئے اور کہا:
مجھے تو ہمدمو ہم راز چاہیے ایسی

جو دستِ ناز میں خنجر بھی ہو چھپائے ہوئے
نکل پڑے سرِ میداں اڑا کے آنچل کو
بغاوتوں کا مقدس نشاں بنائے ہوئے
اٹھا کے ہاتھ کہے انقلاب، زندہ آباد
لہو سے مثلِ دلہن مہندیاں رچائے ہوئے
اب یہ بات بڑے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے عورت کو ترقی پسندوں نے مرد کے ہم پلہ لا کھڑا کیا۔ اسے زندگی میں مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا۔ عورت کا یہی تصور دیگر ترقی پسند شعرأ کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔
عورت کی عظمت، اس کی شناخت، اہمیت اور سماج میں اس کے وجود کی مسلمہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کیفیؔ اعظمی نے ’’عورت‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم کہی ہے۔ یہ نظم انسانی تاریخ میں عورت کی اہمیت، اس کی تاریخ اور عظمت کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کی گئی ہے۔ نظم طویل ہے لہٰذا اس سے مثال کے طور پر چند بند نقل کیے جاتے ہیں:
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے
فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لیے
قہر ہے تیری ہر اک نرم اداتیرے لیے
زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لیے
رت بدل ڈال اگر پھولنا پھلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے ایک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
تو فلاطون و ارسطو ہے تو زہرا پرویں
تیرے قبضے میں ہے گردوں تری ٹھوکر میں ز میں
ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں وقت بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
کیفی کی یہ نظم ایک طویل نظم ہے، جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار نہایت تسلسل کے ساتھ، انسانی تاریخ میں عورت کی حیثیت کوپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’عورت‘‘ کے علاوہ کیفیؔ نے عورت کے تئیں اپنے خیالات و نظریات کا اظہار ’’بیوہ کی خود کشی‘‘ ، ’’سپردگی‘‘ اور ’’انتساب‘‘ میں کیا ہے۔ ان نظموں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کا مرتبہ کتنا بلند ہے؟ وہ عورت کو کسی بھی صورت میں مرد سے کم تر نہیں سمجھتے۔
اس مضمون کی ابتدا وہاں سے ہوئی تھی، جہاں عورت ہر طرح سے مختلف قسم کی سماجی زنجیروں میں جکڑی نظر آ رہی تھی۔ اس کا گھر سے نکلنا سماج کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو قطعی گوارہ نہیں تھا مگر مضمون کے اختتام تک آتے آتے سماجی بندھنوں کی وہ زنجیریں ٹوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ اب اس کے گھر سے نکلنے، مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ پھر بھی کبھی کبھی کچھ ایسے واقعات سننے میں آجاتے ہیں، جن سے انسانیت شرم سار ہو جاتی ہے مگر امید ہے کہ قدرت کی اس بے مثال تخلیق کو اس کا اصل مرتبہ ایک دن مل کر رہے گا، خواہ اس میں ذرا سی دیر ہی کیوں نہ ہو جائے۔



نوٹ: یہ مضمون پہلی بار 2006ء میں شائع ہوا تھا، جسے میں نے اپنی کتاب ’’تنقیدِ شعر‘‘ میں بھی شامل کیا ہے جو کہ 2009 میں منظرِ عام پر آئی ہے۔  

How to use voice typing in Urdu