پیر، 31 مئی، 2021

اردو لکھنے میں کی جانے والی 12 غلطیاں

 اردو لکھنے میں کی جانے والی 12 غلطیاں

انتخاب و تحریر: ڈاکٹر معین الدین عقیل


 *# پہلی* 


اردو کے مرکب الفاظ الگ الگ کر کے لکھنا چاہئیں، کیوں کہ عام طور پر کوئی بھی لفظ لکھتے ہوئے ہر لفظ کے بعد ایک وقفہ ( اسپیس ) چھوڑا جاتا ہے، اس لیے یہ خود بخود الگ الگ ہوجاتے ہیں۔


دراصل تحریری اردو طویل عرصے تک ’کاتبوں‘ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر اور کچھ اپنی بے علمی کے سبب بہت سے لفظ ملا ملا کر لکھتے رہے۔ جس کی انتہائی شکل ہم ’آجشبکو‘ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کر کے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑ کر لکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب یہ اردو کے الگ الگ الفاظ ہیں، تو مرکب الفاظ کی صورت میں جب انہیں ملا کر لکھا جاتا ہے، تو نہ صرف پڑھنا دشوار ہوتا ہے، بلکہ ان کی ’شکل‘ بھی بگڑ جاتی ہے۔


مندرجہ ذیل میں ان الفاظ کی 12 اقسام یا ’ طرز ‘ الگ الگ کر کے بتائی جا رہی ہیں، جو دو الگ الگ الفاظ ہیں یا ان کی صوتیات/ آواز کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں الگ الگ کرکے لکھنا ضروری ہے۔


* جب کہ، چوں کہ، چناں چہ، کیوں کہ، حالاں کہ


* کے لیے، اس لیے، اس کو، آپ کو، آپ کی، ان کو، ان کی


* طاقت وَر، دانش وَر، نام وَر


* کام یاب، کم یاب، فتح یاب، صحت یاب


* گم نام، گم شدہ


* خوش گوار، خوش شکل


* الم ناک، وحشت ناک، خوف ناک، دہشت ناک، کرب ناک


* صحت مند، عقل مند، دانش مند،


* شان دار، جان دار، کاٹ دار،


* اَن مول، اَن جانا، اَن مٹ، اَن دیکھا، اَن چُھوا


* بے وقوف، بے جان، بے کار، بے خیال، بے فکر، بے ہودہ، بے دل، بے شرم، بے نام،


* امرت سر، کتاب چہ


* خوب صورت، خوب سیرت وغیرہ


 *# دوسری* 


اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے، جیسے کہ ’کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں وغیرہ


 *# تیسری* 


اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے، جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’ی‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیراعلیٰ، رحمٰن اور اسحٰق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں ’ل‘ ساکت ہوتا ہے جیسے ’السلام علیکم‘ اسے ’ل‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہے۔


 *# چوتھی* 


زیر والے مرکب الفاظ جیسے جانِ من (نہ کہ جانے من) جانِ جاں (نہ کہ جانے جاں) شانِ کراچی (نہ کہ شانے کراچی) فخرِ پنجاب (نہ کہ فخرے پنجاب) اہلِ محلہ ( نہ کہ اہلے محلہ) وغیرہ کی غلطی بھی درست کرنا ضروری ہے۔


 *# پانچویں* 


اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’کر دینا ہے‘ نہیں بلکہ ’کردیں گے‘ لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کر دو گے (نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کر دو گے (نہ کہ کردینی ہے) لکھنا چاہیے۔


 *# چھٹی* 


اردو کے ’مہمل الفاظ‘ میں’ش‘ کا نہیں بلکہ ’و‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کتاب وتاب، کلاس ولاس، اسکول وسکول، پڑھائی وڑھائی، عادت وادت وغیرہ۔ انہیں کتاب شتاب، کلاس شلاس لکھنا غلط کہلاتا ہے۔


 *# ساتویں* 


اردو میں دو زبر یعنی‘ تنوین‘ والے لفظوں کو درست لکھنا چاہیے، اس میں دو زبر مل کر ’ن‘ کی آواز دیتے ہیں جیسے تقریباً، اندازاً، عادتاً، اصلاً، نسلاً، ظاہراً، مزاجاً وغیرہ۔


 *# آٹھویں* 


کسی بھی لفظ کے املا میں ’ن‘ اور ’ب‘ جہاں ملتے ہیں وہاں ’م‘ کی آواز آتی ہے، اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہے ’ن‘ اور ’ب‘ ہی لکھا جائے ’م‘ نہ لکھا جائے، جیسے انبار، منبر، انبوہ، انبالہ، استنبول، انبیا، سنبھل، سنبھال، اچنبھا، عنبرین، سنبل وغیرہ


 *# نویں* 


اردو کے ان الفاظ کی درستی ملحوظ رکھنا چاہیے جو "الف" کی آواز دیتے ہیں، لیکن کسی کے آخر میں ’ہ‘ ہے اور کسی کے آخر میں الف۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے، تو اس کے معانی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پِیسا، زن اور ظن، دانہْ اور دانا وغیرہ وغیرہ۔


 *# دسویں* 


الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ چاہے وہ گول ’ہ‘ پر ختم ہوں یا ’الف‘ پر، انہیں جملے میں استعمال کرتے ہوئے بعض اوقات جملے کی ضرورت کے تحت ’جمع‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے، حالاں کہ وہ واحد ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں جملے کا پچھلا حصہ یا اس سے پہلے والا جملہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ دراصل ’ایک‘ ہی چیز کا ذکر ہے۔ جیسے:_


_میرے پاس ایک ’بکرا‘ تھا، اس ’بکرے‘ کا رنگ کالا تھا۔


_میرے پاس ایک ’چوزا‘ تھا، ’چوزے‘ کے پر بہت خوب صورت تھے۔


_ہمارا ’نظریہ‘ امن ہے اور اس ’نظریے‘ کے تحت ہم محبتوں کو پھیلانا چاہتے ہیں۔


_جلسے میں ایک پرجوش ’نعرہ‘ لگایا گیا اور اس ’نعرے‘ کے بعد لوگوں میں جوش و خروش بڑھ گیا۔


_ایک ’کوا‘ پیاسا تھا، اس ’کوے‘ نے پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کیا۔


 *# گیارہویں* 


انگریزی الفاظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ جو الفاظ یا اصطلاحات (ٹرمز) رائج ہو چکی ہیں، یا جن کا کوئی ترجمہ نہیں ہے یا ترجمہ ہے تو وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا، اس لیے انہیں ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ انگریزی میں ہی لکھ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن انگریزی الفاظ کو اردو میں لکھا جائے گا، ان کی جمع اردو کی طرز پر بنائی جائے گی، نہ کہ انگریزی کی طرز پر، جیسے اسکول کی اسکولوں، کلاس کی کلاسوں، یونیورسٹی کی یونیورسٹیوں، اسٹاپ کی اسٹاپوں وغیرہ۔ تیسری بات یہ ہے کہ انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ جو ’ایس‘ سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ان کے شروع میں ’الف‘ کی آواز ہوتی ہے، انہیں اردو میں لازمی طورپر الف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے اسکول، اسٹاپ، اسٹاف، اسٹیشن، اسمال، اسٹائل، اسٹوری، اسٹار وغیرہ۔ لیکن ایسے الفاظ جو شروع تو ’ایس‘ سے ہوتے ہیں لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز نہیں ہے انہیں الف سے نہیں لکھا جائے گا، جیسے سچیویشن، سورس، سینڈیکیٹ، سیمسٹر، سائن اوپسس وغیرہ۔


 *# بارہویں* 


ہندوستانی فلموں نے اردو پر جو برا اثر ڈالا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں لفظ ’اپنا‘ کی جگہ میرا بولا جاتا ہے۔ ہمیں اردو لکھتے ہوئے اسے ٹھیک کرنا چاہیے، اس لیے ’میں میرے نہیں‘ بلکہ ’میں اپنے لکھا جائے‘ جیسا کہ میں میرے گھر میں میرے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بالکل غلط ہوگا، درست جملہ یوں ہوگا کہ میں اپنے گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

ہفتہ، 1 مئی، 2021

کسان از جوش ملیح آبادی

 کسان

جھٹپٹے کا نرم رو دریا شفق کا اضطراب
کھیتیاں میدان خاموشی غروب آفتاب
دشت کے کام و دہن کو دن کی تلخی سے فراغ
دور دریا کے کنارے دھندلے دھندلے سے چراغ
زیر لب ارض و سما میں باہمی گفت و شنود
مشعل گردوں کے بجھ جانے سے اک ہلکا سا دود
وسعتیں میدان کی سورج کے چھپ جانے سے تنگ
سبزۂ افسردہ پر خواب آفریں ہلکا سا رنگ
خامشی اور خامشی میں سنسناہٹ کی صدا
شام کی خنکی سے گویا دن کی گرمی کا گلا
اپنے دامن کو برابر قطع سا کرتا ہوا
تیرگی میں کھیتیوں کے درمیاں کا فاصلا
خار و خس پر ایک دردانگیز افسانے کی شان
بام گردوں پر کسی کے روٹھ کر جانے کی شان
دوب کی خوشبو میں شبنم کی نمی سے اک سرور
چرخ پر بادل زمیں پر تتلیاں سر پر طیور
پارہ پارہ ابر سرخی سرخیوں میں کچھ دھواں
بھولی بھٹکی سی زمیں کھویا ہوا سا آسماں
پتیاں مخمور کلیاں آنکھ جھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سی آتی ہوئی
یہ سماں اور اک قوی انسان یعنی کاشت کار
ارتقا کا پیشوا تہذیب کا پروردگار
جس کے ماتھے کے پسینے سے پئے عز و وقار
کرتی ہے دریوزۂ تابش کلاہ تاجدار
سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی
جس کی محنت سے پھبکتا ہے تن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتھیلی پر تمدن کا چراغ
جس کے بازو کی صلابت پر نزاکت کا مدار
جس کے کس بل پر اکڑتا ہے غرور شہریار
دھوپ کے جھلسے ہوئے رخ پر مشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے منہ گھر کی جانب ہے رواں
ٹوکرا سر پر بغل میں پھاوڑا تیوری پہ بل
سامنے بیلوں کی جوڑی دوش پر مضبوط ہل
کون ہل ظلمت شکن قندیل بزم آب و گل
قصر گلشن کا دریچہ سینۂ گیتی کا دل
خوش نما شہروں کا بانی راز فطرت کا سراغ
خاندان تیغ جوہر دار کا چشم و چراغ
دھار پر جس کی چمن پرور شگوفوں کا نظام
شام زیر ارض کو صبح درخشاں کا پیام
ڈوبتا ہے خاک میں جو روح دوڑاتا ہوا
مضمحل ذروں کی موسیقی کو چونکاتا ہوا
جس کے چھو جاتے ہی مثل نازنین مہ جبیں
کروٹوں پر کروٹیں لیتی ہے لیلائے زمیں
پردہ ہائے خواب ہو جاتے ہیں جس سے چاک چاک
مسکرا کر اپنی چادر کو ہٹا دیتی ہے خاک
جس کی تابش میں درخشانی ہلال عید کی
خاک کے مایوس مطلع پر کرن امید کی
طفل باراں تاجدار خاک امیر بوستاں
ماہر آئین قدرت ناظم بزم جہاں
ناظر گل پاسبان رنگ و بو گلشن پناہ
ناز پرور لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ
وارث اسرار فطرت فاتح امید و بیم
محرم آثار باراں واقف طبع نسیم
صبح کا فرزند خورشید زر افشاں کا علم
محنت پیہم کا پیماں سخت کوشی کی قسم
جلوۂ‌ قدرت کا شاہد حسن فطرت کا گواہ
ماہ کا دل مہر عالم تاب کا نور نگاہ
قلب پر جس کے نمایاں نور و ظلمت کا نظام
منکشف جس کی فراست پر مزاج صبح و شام
خون ہے جس کی جوانی کا بہار روزگار
جس کے اشکوں پر فراغت کے تبسم کا مدار
جس کی محنت کا عرق تیار کرتا ہے شراب
اڑ کے جس کا رنگ بن جاتا ہے جاں پرور گلاب
قلب آہن جس کے نقش پا سے ہوتا ہے رقیق
شعلہ خو جھونکوں کا ہمدم تیز کرنوں کا رفیق
خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب
جس کے سر پر جگمگاتی ہے کلاہ آفتاب
لہر کھاتا ہے رگ خاشاک میں جس کا لہو
جس کے دل کی آنچ بن جاتی ہے سیل رنگ و بو
دوڑتی ہے رات کو جس کی نظر افلاک پر
دن کو جس کی انگلیاں رہتی ہیں نبض خاک پر
جس کی جانکاہی سے ٹپکاتی ہے امرت نبض تاک
جس کے دم سے لالہ و گل بن کے اتراتی ہے خاک
ساز دولت کو عطا کرتی ہے نغمے جس کی آہ
مانگتا ہے بھیک تابانی کی جس سے روئے شاہ
خون جس کا دوڑتا ہے نبض استقلال میں
لوچ بھر دیتا ہے جو شہزادیوں کی چال میں
جس کا مس خاشاک میں بنتا ہے اک چادر مہین
جس کا لوہا مان کر سونا اگلتی ہے زمین
ہل پہ دہقاں کے چمکتی ہیں شفق کی سرخیاں
اور دہقاں سر جھکائے گھر کی جانب ہے رواں
اس سیاسی رتھ کے پہیوں پر جمائے ہے نظر
جس میں آ جاتی ہے تیزی کھیتیوں کو روند کر
اپنی دولت کو جگر پر تیر غم کھاتے ہوئے
دیکھتا ہے ملک دشمن کی طرف جاتے ہوئے
قطع ہوتی ہی نہیں تاریکیٔ حرماں سے راہ
فاقہ کش بچوں کے دھندلے آنسوؤں پر ہے نگاہ
سوچتا جاتا ہے کن آنکھوں سے دیکھا جائے گا
بے ردا بیوی کا سر بچوں کا منہ اترا ہوا
سیم و زر نان و نمک آب و غذا کچھ بھی نہیں
گھر میں اک خاموش ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک دل اور یہ ہجوم سوگواری ہائے ہائے
یہ ستم اے سنگ دل سرمایہ داری ہائے ہائے
تیری آنکھوں میں ہیں غلطاں وہ شقاوت کے شرار
جن کے آگے خنجر چنگیز کی مڑتی ہے دھار
بیکسوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تیرے ہات
کیا چبا ڈالے گی او کمبخت ساری کائنات
ظلم اور اتنا کوئی حد بھی ہے اس طوفان کی
بوٹیاں ہیں تیرے جبڑوں میں غریب انسان کی
دیکھ کر تیرے ستم اے حامئ امن و اماں
گرگ رہ جاتے ہیں دانتوں میں دبا کر انگلیاں
ادعائے پیروی دین و ایماں اور تو
دیکھ اپنی کہنیاں جن سے ٹپکتا ہے لہو
ہاں سنبھل جا اب کہ زہرے اہل دل کے آب ہیں
کتنے طوفان تیری کشتی کے لیے بے تاب

وبائی مرض اور غالب کا "جدید خط"

وبائی مرض اور غالب کا "جدید خط"
 میاں۔۔۔ خط تمہارا مع غزل پہنچا۔ غزل کیا دیکھوں، فی الوقت عذابِ الٰہی دیکھ رہا ہوں۔ نہ کاغذ ہے نہ ٹکٹ نہ لفافہ۔ اگلے لفافوں میں سے ایک بیرنگ لفافہ میں لپیٹ کر اس تحریر کو سپرد ڈاک کردوں گا۔ تم نے دلی کا حال پوچھا ہے! 
میاں۔۔ اس کے مقدر میں تو اجڑنا ہی لکھا ہے۔۔۔ کبھی انسانوں سے کبھی آسمانوں سے!
کیفیت کیا لکھوں۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔ ہاتھ لرزاں قلم جنبش نکند ۔۔۔۔ لو صاحب تمہاری تواضع خاطر کے لیے جی ہلکا کیے لیتا ہوں۔ جی اپنا کڑا کر لو اور سنو۔۔۔ ہر جانب ہو کا عالم ہے۔ محلے ویران، مکان بے چراغ، نہ آدم نہ آدم زاد۔ بس ایک سناٹا کہ ہر سو چھایا ہوا ہے۔ شہر، اب شہر خموشاں ہے۔ ویرانی، وحشت، خاموشی، خوف، چشم تصور نے بھی کبھی دلی کو اس طرح دیکھا ہوگا؟ بحکم سرکار منادی والا آتا ہے، مرنے والوں کی تعداد بتا جاتا ہے۔ یہ عمل دن میں تین بار ہوتا ہے۔ خوف و دہشت کو ذرا جی سے دور کرنا چاہا کہ یہ کم بخت آ کر منادی موت کی سنا جاتا ہے۔ بتاؤ، ایسے حالات میں انسان زندگی کیوں کر اور کیسے کرے؟ صاحبانِ عالیشان کا فرمان ہے کہ ہر انسان چھوٹا بڑا، مرد و زن، اپنے مکانوں میں محصور رہے تادم فرمانِ ثانی۔ خلاف ورزی باعث سرزنشِ شدید ہوگی۔ حکم حاکم مرگ مفاجات۔ ناچار بیٹھا اپنے اشعار کی تسبیح کیے جاتا ہوں۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے 
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
مسموع ہوا ہے کہ تمام شہر اور اطراف کا علاقہ ایک وبائے ناگہانی کی زد میں ہے۔ یہ وبا آپسی اختلاط، میل ملاپ سے آگ کی طرح پھیلتی ہے، لہٰذا حفظ ما تقدم انسان، انسان سے دور رہے۔ اطباء و اہل حکمت وبا کا نام "کورونا وائرس" بتاتے ہیں۔ میں گنہ گار بندہ علی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس بیماری یا وبا کا نام میں نے قبل ازیں نہ پڑھا نہ سنا۔ بظاہر اسم مرکب ہے نصف اس کا ریختہ اور نصف انگریزی۔ ریختہ میں کرنا مصدر ہے، کر اس کا امر ہے: کرو حالتِ حکم۔ 'نا' اصرار کے لیے، جیسے چلو نا، آؤ نا، پیو نا وغیرہ وغیرہ۔ وائرس لفظ انگریزی کا ہے۔ میری فرنگی زبان میں ایسی استعداد نہیں کہ مفہوم تک رسائی ہو۔ فرہنگ سروری میں بھی یہ لفظ موجود نہیں۔ قرین قیاس "احتیاط" مفہوم ہو سکتا ہے۔ یوں جان لو۔۔۔۔ "کرو نا احتیاط"۔۔۔ روبہ کعبہ کہتا ہوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتا مگر وبا میں مرنا مجھے پسند نہیں؎ 
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
ان حالات میں مخلوق کو خالق سے رجوع ہونا چاہیے۔ توبہ، استغفار ہی نجات کا راستہ ہے۔ انسان معذور و مجبور۔۔۔! گزشتہ دنوں میرے کرم فرما، محسن و مہرباں راجہ نریندر سنگھ بہادر والئ پٹیالہ کا فرستادہ کارندہ غریب خانہ پہنچا۔ تین بوتلیں "لیکویور" کی راجہ صاحب نے تحفتاً بھجوائی تھیں، دے گیا۔ گویا اسے رسد سمجھو۔ میاں تم نہ سمجھو گے۔ یہ بہت قیمتی اعلیٰ درجہ کی انگریزی شراب ہے۔ مانند قوام، رنگت قرمزی، ذائقہ نہایت لطیف اور نشہ دیر پا۔ اللہ بڑا کارساز ہے ورنہ آج اس نفسا نفسی کے عالم میں یہ ناتواں بے سر و ساماں کہاں سے یہ عرق تسکین دل و جاں جٹا پاتا تھا۔ حقہ کے لوازمات اور عرق گلاب وافر مقدار میں موجود ہیں۔ چلو، بارے کچھ دنوں کا سہی، سامانِ عیش تو ہے۔ کوتوال شہر نے فصیل کے چاروں دروازے مقفل کر دیے ہیں۔ نہ کوئی آ سکتا ہے نہ جا سکتا ہے سوائے سرکاری منصب داروں اور جرنیلی کارندوں کے۔ دیکھو یہ صورت حال کب تک رہے۔ مرزا سرفراز خاں صاحب کو خط میرا پڑھوا دینا۔
نجات کا طالب۔۔۔ غالب

How to use voice typing in Urdu