ہفتہ، 31 اگست، 2013

Eid Gah عید گاہ

عید گاہ

پریم چند

رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد عید آئی ہے۔ کتنا منوہر، کتنا سہانا اثر ہے. درختوں پر عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب لالی ہے۔ آج کا سورج دیکھو، کتنا پیارا ہے؟ یعنی دنیا کو عید کی مبارکباد دے رہا ہے۔ گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہے، پڑوس کے گھر میں سوئی دھاگے لینے دوڑا جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں، ان میں تیل ڈالنے کے لیے تیلی کے گھر پر بھاگا جاتا ہے۔ جلدی- جلدی بیلوں کو سانی- پانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے- لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں آدمیوں سے ملنا- بھےٹنا، دوپہر کے پہلے لوٹنا ناممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کے حصہ کی چیز ہے۔ روزے بڑے- بوڑھوں کے لیے ہوں گے۔ ان کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آگئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا مطلب؟ سیویوں کے لیے دودھ اور شکر گھر میں ہیں یا نہیں، ان کی بلا سے، یہ توسیویاں کھائیں گے۔ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدہواس چودھری قائم علي کے گھر دوڑے جا رہے ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ چودھری آنکھیں بدل لیں تو یہ ساری عید محرم ہو جائے۔ ان کی اپنی جیبوں میں تو کُبیر کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔ بار- بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں اور خوش ہوکر پھر رکھ لیتے ہیں۔ محمود گنتا ہے، ایک-دو، دس-بارہ، اس کے پاس بارہ پیسے ہیں۔ محسن کے پاس ایک، دو، تین، آٹھ، نو، پندرہ پیسے ہیں۔ انہی انگنتي پیسوں میں انگنتي چیزیں لائیں گے- کھلونے، مٹھائیاں، بِگل، گیند اور جانے کیا کیا؟ اور سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار- پانچ سال کا غریب- صورت، دبلا- پتلا لڑکا، جس کا باپ پچھلے سال ہیجے کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی- ہوتی ایک دن مر گئی۔ کس کو پتہ کیا بیماری ہے۔ کہتی تو کون سننے والا تھا؟ دل پر جو کچھ گزرتی تھی، وہ دل میں ہی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کے ابا جان روپے کمانے گئے ہیں۔ بہت سی تھیلياں لے کر آئیں گے۔ اماں جان اللہ میاں کے گھر سے اس کے لیے بڑی اچھی- اچھی چیزیں لانے گئی ہیں، اس لیے حامد خوش ہے۔ امید تو بڑی چیز ہے اور پھر بچوں کی امید! ان کی سوچ تو رائی کا پہاڑ بنا لیتی ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی- دھرانی ٹوپی ہے، جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے اباجان تھیلياں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گی تو وہ دل سے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا، محسن نوری اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے نکالیں گے۔ ابھاگن امینہ اپنی کوٹھری میں بیٹھی رو رہی ہے۔ آج عید کا دن، اس کے گھر میں دانا نہیں! آج عابد ہوتا تو کیا اسی طرح عید آتی اور چلی جاتی؟ اس تاریکی اور مایوسی میں وہ ڈوبی جا رہی ہے۔ کس نے بلایا تھا اس نگوڑي عید کو؟ اس گھر میں اس کا کام نہیں لیکن حامد! اسے کسی کے مرنے- جینے سے کیا مطلب؟ اس کے اندر روشنی ہے، باہر امید، مصیبت اپنا سارا دَل- بَل لے کر آئے، حامد کی لطف- بھری چتون اسے مسمار کر دے گی۔

حامد اندر جا کر دادی سے کہتا ہے- تم ڈرنا نہیں اماں، میں سب سے پہلے آؤں گا۔ بالکل نہ ڈرنا۔

امینہ کا دل كچوٹ رہا ہے۔ گاؤں کے بچے اپنے- اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کا باپ امینہ کے سوا اور کون ہے؟ اسے کس طرح اکیلے میلے جانے دے؟ اس بھیڑ- بھاڑ سے بچہ کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں، امینہ اسے یوں نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان! تین کوس چلے گا کیسے؟ پاؤں میں چھالے پڑ جائیں گے۔ جوتے بھی تو نہیں ہیں۔ وہ تھوڑی- تھوڑی دور پر اسے گود میں لے لیتی ہے، لیکن یہاں سیوياں کون پكائےگا؟ پیسے ہوتے تو لوٹتے- لوٹتے سب مواد جمع کر جھٹ پٹ بنا لیتی۔ یہاں تو گھنٹوں چیزیں جمع کرتے لگیں گے۔ مانگے کا ہی تو بھروسہ ٹھہرا۔ اس دن فہيمن کے کپڑے سلی تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنّی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آتی تھی، اسی عید کے لیے لیکن کل گوالن سر پر سوار ہو گئی تو کیا کرتی؟ حامد کے لیے کچھ نہیں ہے تو دو پیسے کا دودھ تو چاہیے ہی۔ اب تو کل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔ تین پیسے حامد کی جیب میں، پانچ امینہ کے بٹوے میں۔ یہی تو بساط ہے اور عید کا تہوار، اللہ ہی بیڑا پار لگاوے۔ دھوبن اور نائن ایک طرف، مہتراني اور چوڑیہارن تمام تو آئیں گی۔ تمام کو سیوياں چاہیے اور تھوڑا سا کسی کو آنکھوں نہیں لگتا۔ کس- کس سے منہ چرائے گی؟ اور منہ کیوں چرائے؟ سال بھر کا تہوار ہے۔ زندگی خیریت سے رہے، ان کی تقدیر بھی تو اسی کے ساتھ ہے۔ بچے کو خدا سلامت رکھے، يہ دن بھی کٹ جائیں گے۔

گاؤں سے میلہ چلا اور بچوں کے ساتھ حامد بھی جا رہا تھا۔ کبھی سب کے سب دوڑ کر آگے نکل جاتے۔ پھر کسی درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ساتھ والوں کا انتظار کرتے۔ یہ لوگ کیوں اتنا آہستہ- آہستہ چل رہے ہیں؟ حامد کے پیروں میں تو جیسے پر لگ گئے ہیں۔ وہ کبھی تھک سکتا ہے؟ شہر کا دامن آ گیا۔ سڑک کے دونوں طرف امیروں کے باغ ہیں۔ پکی چار دیواری بنی ہوئی ہے۔ پیڑوں میں آم اور ليچياں لگی ہوئی ہیں۔ کبھی- کبھی کوئی لڑکا پتھر اٹھا کر آم پر نشانہ لگاتا ہے۔ مالی اندر سے گالی دیتا ہوا نکلتا ہے۔ لڑکے وہاں سے ایک پھرلانگ پر ہیں۔ خوب ہنس رہے ہیں۔ مالی کو کیسا الو بنایا ہے۔

بڑی- بڑی عمارتیں آنے لگیں۔ یہ عدالت ہے، یہ کالج ہے، یہ کلب- گھر ہے۔ اتنے بڑے کالج میں کتنے لڑکے پڑھتے ہوں گے؟ سب لڑکے نہیں ہیں جی! بڑے- بڑے آدمی ہیں۔ سچ! ان کی بڑی- بڑی موچھیں ہیں۔ اتنے بڑے ہو گئے، ابھی تک پڑھنے جاتے ہیں۔ نہ جانے کب تک پڑھیں گے اور کیا کریں گے اتنا پڑھ کر؟ حامد کے مدرسے میں دو- تین بڑے- بڑے لڑکے ہیں، بالکل تین کوڑی کے۔ روز مار کھاتے ہیں، کام سے جی چرانے والے۔ یہ جگہ بھی اسی طرح کے لوگ ہوں گے اور کیا؟ کلب- گھر میں جادو ہوتا ہے۔ سنا ہے، یہاں مُردوں کی كھوپڑياں دوڑتی ہیں اور بڑے- بڑے تماشے ہوتے ہیں پر کسی کو اندر نہیں جانے دیتے۔ اور وہاں شام کو صاحب لوگ کھیلتے ہیں۔ بڑے- بڑے آدمی کھیلتے ہیں، موچھوں داڑھی والے اور میمیں بھی کھیلتی ہیں۔ سچ! ہماری اماں کو یہ دے دو، کیا نام ہے، بیٹ ، تو اسے پکڑ ہی نہ سکیں۔ گھماتے ہی لڑھک جائیں۔

محمود نے کہا- ہماری اماں جان کا تو ہاتھ کانپنے لگے، اللہ قسم!
محسن بولا- چلو، منوں آٹا پیس ڈالتی ہیں۔ ذرا- سا بیٹ پکڑ لیں گی تو ہاتھ کانپنے لگیں گے! سینکڑوں گھڑے پانی روز نکالتی ہیں۔ پانچ گھڑے تو تیری بھینس پی جاتی ہے۔ کسی میم کو ایک گھڑا پانی بھرنا پڑے تو آنکھوں تلے اندھیرا آ جائے۔
محمود- لیکن دوڑتی تو نہیں، اچھل- کود تو نہیں کرسکتیں۔

محسن- جی ہاں، اچھل- کود تو نہیں سکتیں؛ لیکن اس دن میری گائے کھل گئی تھی اور چودھری کے کھیت میں جا پڑی تھی، اماں اتنا تیز دوڑي کہ میں انہیں نہ پا سکا، سچ!

آگے چلے۔ حلوائيوں کی دکانیں شروع ہوئیں۔ آج خوب سجی ہوئی تھیں۔ اتنی مٹھائیاں کون کھاتا ہے؟ دیکھو نہ، ایک- ایک دکان پر منوں ہوں گی۔ سنا ہے رات کو جنات آکر خرید لے جاتے ہیں۔ ابا کہتے تھے کہ آدھی رات کو ایک شخص ہر دکان پر جاتا ہے اور جتنا مال بچا ہوتا ہے وہ تلوا لیتا ہے اور سچ مچ کے روپے دیتا ہے، بالکل ایسے ہی روپے۔

حامد کو یقین نہ آیا- ایسے روپے جنات کو کہاں سے مل جائیں گے؟
محسن نے کہا- جنات کو روپے کی کیا کمی؟ جس خزانے میں چاهے چلے جائیں۔ لوہے کے دروازے تک انہیں نہیں روک سکتے جناب، آپ ہیں کس پھیر میں! ہیرے- جواہرات تک ان کے پاس رہتے ہیں۔ جس سے خوش ہو گئے اسے ٹوكروں جواہرات دے دیے۔ ابھی یہیں بیٹھے ہیں، پانچ منٹ میں کلکتہ پہنچ جائیں۔
حامد نے پھر پوچھا- جنات بہت بڑے- بڑے ہوتے ہیں؟
محسن- ایک- ایک سر آسمان کے برابر ہوتا ہے جی! زمین پر کھڑا ہو جائے تو اس کا سر آسمان سے جا لگے مگر چاہے تو ایک لوٹے میں گھس جائے۔
حامد- لوگ ان کو کس طرح خوش کرتے ہوں گے؟ کوئی مجھے یہ منتر بتا دے تو ایک جِن کو خوش کر لوں۔
محسن- اب یہ تو میں نہیں جانتا لیکن چودھری صاحب کے قابو میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری جائے چودھری صاحب اس کا پتہ لگا دیں گے اور چور کا نام بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھوا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے فورا بتا دیا، مویشی كھانے میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آکر انہیں سارے جہان کی خبر دے جاتے ہیں۔

اب اس کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری کے پاس کیوں اتنا پیسہ ہے اور کیوں ان کا اتنا احترام ہے۔
آگے چلے۔ یہ پولیس لائن ہے۔ یہیں سب كانسٹبل قواعد کرتے ہیں۔ ریٹن ! پھائی پھو! رات کو بیچارے گھوم- گھوم کر پہرہ دیتے ہیں، نہیں چوريا ہو جائیں۔ محسن نے جرح کیا- یہ كانسٹبل پہرہ دیتے ہیں؟ تبھی تم بہت جانتے ہو اجی حضرت، یہ چوری کرتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور- ڈاکو ہیں، سب ان سے ملے رہتے ہیں، رات کو یہ لوگ چوروں سے تو کہتے ہیں، چوری کرو اور دوسرے محلے میں جا کر 'جاگتے رہو! جاگتے رہو!' پکارتے ہیں۔ تبھی ان لوگوں کے پاس اتنے روپے آتے ہیں۔ میرے ماموں ایک تھانے میں كانسٹبل ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن پچاس روپے گھر بھیجتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک بار پوچھا تھا کہ ماموں! آپ اتنے روپے کہاں سے پاتے ہیں؟ ہنس کر کہنے لگے- بیٹا! اللہ دیتا ہے۔ پھر آپ ہی بولے- ہم لوگ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں مار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں، جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری نہ چلی جائے۔
حامد نے پوچھا- یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو کوئی انہیں پالے نہیں؟

محسن اس کی نادانی پر رحم دکھا کر بولا- ارے پاگل! انہیں کون پكڑےگا! پکڑنے والے تو یہ لوگ خود ہیں لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ حرام کا مال حرام میں جاتا ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ ساری لےئی- پونجی جل گئی۔ ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن درخت کے نیچے سوئے۔ اللہ قسم، درخت کے نیچے! پھر نہ جانے کہاں سے ایک سو قرض لائے تو برتن- بھانڈے آئے۔
حامد- ایک سو تو پچاس سے زیادہ ہوتے ہیں؟
کہاں پچاس، کہاں ایک سو۔ پچاس ایک تھیلی بھر ہوتا ہے۔ سو تو دوتھیلی میں بھی نہ آئے۔

اب بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانےوالوں کی ٹولياں نظر آنے لگیں۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی اِکے- تانگے پر سوار کوئی موٹر پر۔ تمام عطرمیں بسے، سب کے دلوں میں امنگ۔ دیہاتیوں کی یہ چھوٹی سی جماعت، اپنی سادگی سے بے خبر، قناعت اور صبر میں مگن چلی جا رہی تھی۔ بچوں کے لیے شہر کی تمام چیزیں منفرد تھیں۔ جس چیز کی طرف تاکتے، تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار- بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ حامد تو موٹر کے نیچے جاتے- جاتے بچا۔

اتنے میں عید گاہ نظر آئی۔ اوپر املی کے گھنے درختوں کے سائے ہیں۔ نیچے پختہ فرش ہے، جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور روزہ دارو کی قطاریں ایک کے پیچھے ایک نہ جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ جگت کے نیچے تک، جہاں جاجم بھی نہیں ہے۔ نئے آنے والے آ کر پیچھے کی قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں ہے۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ ان دیہاتیوں نے بھی وضو کیا اور پچھلی صف میں کھڑے ہو گئے۔ کتنا خوبصورت نظم ہے، کتنا خوبصورت انتظام ہے! لاکھوں سَر ایک ساتھ سجدے میں جھک جاتے ہیں پھر سب کے سب ایک ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ساتھ جھکتے ہیں اور ایک ساتھ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں۔ کئی بار یہی عمل ہوتا ہے۔ جیسے بجلی کی لاکھوں بتياں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں اور یہی نظم چلتا رہے۔ کتنا غیر معمولی منظر تھا، جس کی اجتماعی کارروائیاں، توسیع اور بانکپن دل کو عقیدت، فخر اور روحانی کیف سے بھر دیتا تھا۔ جیسے بھائی چارے کا ایک فارمولا ان تمام روحوں کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔

نماز ختم ہو گئی ہے۔ لوگ آپس میں گلے مل رہے ہیں۔ تب مٹھائی اور کھلونوں کی دکان پر حملہ ہوتا ہے۔ دیہاتیوں کا یہ گروہ اس معاملے میں بچوں سے کم جوش والا نہیں ہے۔ یہ دیکھو ہنڈولا ہے۔ ایک پیسہ دے کر چڑھ جاؤ۔ کبھی آسمان پر جاتے ہوئے معلوم ہوں گے، کبھی زمین پر گرتے ہوئے۔ یہ چركھی ہے، لکڑی کے ہاتھی، گھوڑے، اونٹ، چھڑوں میں لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن اور نورے اورسمیع، ان گھوڑوں اور اونٹوں پر بیٹھتے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے۔ تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ اپنے فنڈ کا ایک تہائی ذرا سا چکر کھانے کے لئے نہیں دے سکتا۔

سب چركھيو سے اترتے ہیں۔ اب کھلونے لیں گے۔ ادھر دکانوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ طرح طرح کے کھلونے ہیں- سپاہی اور گجريا، بادشاہ اور وکیل، بہشتی اور دھوبن اور سادھو۔ واہ! کتنے خوبصورت کھلونے ہیں۔ اب بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی لیتا ہے، خاکی وردی اور لال پگڑی والا، کندھے پر بندوق رکھے ہوئے معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کیے ہوئے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسند آیا۔ کمرجھکی ہوئی ہے، اوپر مشك رکھے ہوئے ہے۔ مشك کا منہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ کتنا خوش ہے! شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ بس، مشك سے پانی انڈیلنا ہی چاہتا ہے۔ نورے کو وکیل سے محبت ہے۔ کیسی چمک ہے اس کے منہ پر! سیاہ چغہ نیچے سفید اچكن، اچكن کے سامنے کی جیب میں گھڑی، سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لیے ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کرکے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو- دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں، اتنے مہنگے کھلونے وہ کیسے لے؟ کھلونا کہیں ہاتھ سے چھوٹ پڑے تو چور- چور ہو جائے۔ ذرا پانی پڑے تو سارا رنگ گھل جائے۔ ایسے کھلونے لے کر وہ کیا کرے گا؛ کس کام کے؟
محسن کہتا ہے- میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا۔ سانجھ- سویرے۔
محمود- اور میرا سپاہی گھر کا پہرہ دے گا کوئی چور آئے گا تو فورا بندوق سے فائر کر دے گا۔
نورے- اور میرا وکیل خوب مقدمہ لڑے گا۔
سمیع- اور میری دھوبن روز کپڑے دھويےگي۔
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے- مٹی ہی کے تو ہیں، گرے تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن للچائی ہوئی آنکھوں سے کھلونوں کو دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لیے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ اس کے ہاتھ اچانک لپكتے ہیں لیکن لڑکے اتنے سخی نہیں ہوتے ہیں۔ خاص طور سے جب ابھی نیا شوق ہو۔ حامد للچاتا رہ جاتا ہے۔

کھلونے کے بعد مٹھائیاں آتی ہیں۔ کسی نے ریوڑياں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد برادری سے الگ تھلگ ہے۔ ابھاگے کے پاس تین پیسے ہیں۔ کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا؟ للچائی آنکھوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن کہتا ہے- حامد ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہے!
حامد کو شک ہوا، یہ صرف ظالمانہ مذاق ہے، محسن اتنا فیاض نہیں ہے لیکن یہ جان کر بھی وہ اس کے پاس جاتا ہے۔ محسن دونے سے ایک ریوڑی نکال کر حامد کی طرف بڑھاتا ہے۔ حامد ہاتھ پھیلاتا ہے۔ محسن ریوڑی اپنے منہ میں رکھ لیتا ہے۔ محمود، نورے اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنستے ہیں۔ حامد کھسیا جاتا ہے۔
محسن- اچھا، اب ضرور دیں گے حامد، اللہ قسم، لے جاو۔
حامد- رکھے رہو۔ کیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟
سمیع- تین ہی پیسے تو ہیں۔ تین پیسے میں کیا کیا لوگے؟
محمود- ہم سے گلاب جامن لے جاؤ۔ حامد، محسن بدمعاش ہے۔
حامد- مٹھائی کون بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی کتنی برائياں لکھی ہیں۔
محسن- لیکن دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ ملے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟
محمود- ہم سمجھتے ہیں، اس کی چالاکی۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے تو ہمیں للچا- للچا كر كھائے گا۔
مٹھائیوں کے بعد کچھ دكانیں لوہے کی چیزوں کی، کچھ گلٹ اور کچھ جعلی زیورات کی۔ لڑکوں کے لیے یہاں کوئی کشش نہ تھی. وہ سب آگے بڑھ جاتے ہیں، حامد لوہے کی دکان پر رک جاتا ہے۔ کئی چمٹے رکھے ہوئے تھے۔ اسے خیال آیا۔ دادی کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر دادی کو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی؟ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہ جلیں گی۔ گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونے سے کیا فائدہ؟ بیکار میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے۔ پھر تو کھلونے کو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ یہ تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو میلے میں نہیں آئے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ چمٹا کتنے کام کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اتار لو، چولہے میں سینک لو۔ کوئی آگ مانگنے آئے تو جھٹ پٹ چولہے سے آگ نکال کر اسے دے دو اماں بیچاری کو کہاں فرصت ہے کہ بازار آئیں اور اتنے پیسے ہی کہاں ملتے ہیں؟ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔

حامد کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب شربت پی رہے ہیں۔ دیکھو سب کتنے لالچی ہیں۔ اتنی مٹھائیاں لیں، مجھے کسی نے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میرا یہ کام کرو۔ اب اگر کسی نے کوئی کام کرنے کو کہا تو پوچھوں گا۔ کھائیں مٹھائیاں، آپ منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسياں نکلیں گے، آپ ہی کی زبان چٹوری ہو جائے گی۔ تب گھر سے پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ کتاب میں جھوٹی باتیں تھوڑے ہی لکھی ہیں۔ میری زبان کیوں خراب ہوگی؟ اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور كہیں گی: میرا بچہ اماں کے لیے دست پناہ لایا ہے۔ کتنا اچھا لڑکا ہے؟ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دعائیں دے گا؟ بڑوں کی دعائیں براہ راست اللہ کے دربار میں پہنچتی ہیں اور فوری طور پر سنی جاتی ہیں۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں تبھی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان سے مزاج دکھاؤں گا۔ کھیلیں کھلونے اور مٹھائیاں کھائیں۔ میں نہیں کھیلتا کھلونے، کسی کا مزاج کیوں سہوں؟ میں غریب سہی، کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا كبھي نہ کبھی آئیں گے۔ اماں بھی آئیں گی ہی۔ پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا۔ کتنے کھلونے لوگے؟ ایک- ایک کو ٹوكريوں کھلونے دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑياں لیں تو چڑھا چڑھا كر کھانے لگے۔ سب کے سب خوب ہنسیں گے کہ حامد نے دست پناہ لیا ہے۔ ہنسیں! میری بلا سے۔ اس نے دکاندار سے پوچھا- یہ دست پناہ کتنے کا ہے؟
دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور کوئی آدمی ساتھ نہ دیکھ کر کہا- تمہارے کام کا نہیں ہے جی!
'بكاؤ ہے کہ نہیں؟'
'بكاؤ کیوں نہیں ہے؟ اور یہاں کیوں لاد لائے ہیں؟‘
تو بتاتے کیوں نہیں، كئے پیسے کا ہے؟'
'چھ پیسے لگیں گے'
حامد کا دل بیٹھ گیا۔
'ٹھیک ٹھیک پانچ پیسے لگیں گے، لینا ہو لو، نہیں چلتے بنو'
حامد نے کلیجہ مضبوط کر کے کہا- تین پیسے لو گے؟
یہ کہتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا کہ دکاندار کی گھڑكياں نہ سنے لیکن دکاندار نے گھڑكياں نہیں دیں۔ بلا کر چمٹا دے دیا۔ حامد نے اسے اس طرح کندھے پر رکھا گویا بندوق ہے اور شان سے اكڑتا ہوا ساتھیوں کے پاس آیا۔ ذرا سنیں، سب کے سب کیا کیا تنقید کرتے ہیں؟
محسن نے ہنس کر کہا- یہ دست پناہ کیوں لایا پگلے، اسے کیا کرے گا؟
حامد نے چمٹے کو زمین پر پٹخ كر کہا- ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو۔ ساری پسلياں چور چور ہو جائیں بچو کی۔
محمود بولا- تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟
حامد- کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گئی۔ ہاتھ میں لے لیا، فقیروں کا چمٹا ہو گیا۔ چاہوں تو اس سے مجيرے کا کام لے سکتا ہوں۔ ایک چمٹا جمع دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، میرے چمٹے کا بال بھی باكا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے چمٹا۔
سمیع نے خنجری لی تھی۔ متاثر ہو کر بولا- میری خنجری سے بدلوگے؟ دو آنے کی ہے۔
حامد نے خنجری کی طرف غفلت سے دیکھا- میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگ جائے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا کھڑا رہے گا۔
چمٹے نے سبھی کو متوجہ کر لیا، اب پیسے کس کے پاس رکھے ہیں؟ پھر میلے سے دور نکل آئے ہیں، نو کب کے بج گئے، دھوپ تیز ہو رہی ہے۔ گھر پہنچنے کی جلدی ہو رہی ہے۔ باپ سے ضد بھی کریں تو دست پناہ نہیں مل سکتا۔ حامد ہے بڑا ہوشیار۔ اسی لیے بدمعاش نے اپنے پیسے بچا رکھے تھے۔

اب لڑکوں کے دو دَل ہو گئے ہیں۔ محسن، محمود، سمیع اور نورے ایک طرف ہیں، حامد اکیلا دوسری طرف۔ آئینی تکرار ہو رہی ہے۔ سمیع تو ودھرمی ہو گیا! دوسری طرف سے جا ملا لیکن محسن محمود اور نورے بھی حامد سے ایک ایک، دو دو سال بڑے ہونے پر بھی حامد کے حملوں سے دہشت زدہ ہو گئے ہیں۔ اس کے پاس انصاف کا زور ہے اور اصول کی قوت۔ ایک طرف مٹی ہے، دوسری طرف لوہا جو اس وقت اپنے کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ فاتح ہے، مہلک ہے۔ اگر کوئی شیر آ جائے تو میاں بہشتی کے چھکے چھوٹ جائیں، میاں سپاہی مٹی کی بندوق چھوڑ کر بھاگیں، وکیل صاحب کی نانی مر جائے، چغے میں منہ چھپا کر زمین پر لیٹ جائیں مگر یہ دست پناہ، یہ بہادر، یہ رستمِ ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہو جائے گا اور اس کی آنکھیں نکال لے گا۔

محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا- اچھا، پانی تو نہیں بھر سکتا؟
حامد نے چمٹے کو سیدھا کھڑا کر کے کہا- بہشتی کو ایک ڈانٹ بتائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔
محسن شکست کھا گیا پر محمود نے كمك پہنچائی- اگر بچہ پکڑ جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے تب تو وکیل صاحب کے پیروں پڑیں گے۔
حامد یہ مضبوط دلیل کا جواب نہ دے سکا۔ اس نے پوچھا- ہمیں پکڑنے کون آئے گا؟
نورے نے اکڑکر کہا- یہ سپاہی بندوق والا۔
حامد نے منہ چڑھاكر کہا- یہ بیچارے ہم بہادر روستمِ ہند کو پكڑیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا کشتی ہو جائے۔ اس کی صورت دیکھ کر دور سے بھاگیں گے۔ پكڑیں گے کیا بیچارے؟
محسن کو ایک نئی چوٹ سوجھ گئی- تمہارے چمٹے کا منہ روز آگ میں جلے گا۔
اس نے سمجھا تھا کہ حامد لاجواب ہو جائے گا لیکن یہ بات نہ ہوئی۔ حامد نے فوری طور پر جواب دیا- آگ میں بہادر ہی کودتے ہیں جناب! آپ کے یہ وکیل، سپاہی اور بہشتی لونڈيوں کی طرح گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو یہ روستمِ ہند ہی کر سکتا ہے۔
محمود نے ایک زور لگایا- وکیل صاحب کرسی میز پر بیٹھیں گے۔ تمہارا دست پناہ تو باورچي كھانے میں زمین پر پڑا رہے گا۔
اس دلیل نے سمیع اور نورے کو بھی زندہ کر دیا۔ کتنے ٹھکانے کی بات کہی ہے پٹھے نے؟ چمٹا باورچي كھانے میں پڑا رہنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے؟
حامد کو کوئی پھڑكتا ہوا جواب نہ سوجھا تو اس نے دھاندھلی شروع کی- میرا دست پناہ باورچي كھانے میں نہیں رہے گا۔ وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹخ دے گا اور ان کا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔

بات کچھ بنی نہیں۔ خاصی گالی- گلوج تھی لیکن قانون کو پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ ایسی چھا گئی کہ تینوں سورما منہ تاکتے رہ گئے گویا کوئی دھیلچا كنكوا کسی گنڈے والے كنكوے کو کاٹ گیا ہو۔ قانون منہ سے باہر نکلنے والی چیز ہے۔ اس کو پیٹ کے اندر ڈال دیا جانا بےتكی سی بات ہونے پر بھی کچھ نیا پن رکھتی ہے۔ حامد نے میدان مار لیا۔ اس کا چمٹا رستمِ ہند ہے۔ اب اس میں محسن، محمود ، نورے ، سمیع کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا۔

فاتح کو هارنےوالوں سے جو عزت ملنا فطری ہے، وہ حامد کو بھی ملی۔ اوروں نے تین تین، چارچار آنے پیسے خرچ کئے پر کوئی کام کی چیز نہ لے سکے۔ حامد نے تین پیسے میں رنگ جما لیا۔ سچ ہی تو ہے، کھلونوں کا کیا بھروسہ؟ ٹوٹ پھوٹ جائیں گے؟ حامد کا دست پناہ تو بنا رہے گا برسوں؟
معاہدے کی شرائط طے ہونے لگیں۔ محسن نے کہا- ذرا اپنا چمٹا دو، ہم بھی دیکھیں۔ تم ہمارا بہشتی لے کر دیکھو۔
محمود اور نورے نے بھی اپنے اپنے کھلونے پیش کیے۔
حامد کو ان شرائط کو ماننے میں کوئی اعتراض نہ تھا۔ چمٹا باری باری سے سب کے ہاتھ میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں۔
حامد نے ہارنے والوں کے آنسو پونچھے- میں تمہیں چڑھا رہا تھا، سچ! یہ دست پناہ، بھلا ان کھلونوں کی کیا برابری کرے گا؟ معلوم ہوتا ہے، اب بولے، اب بولے۔
لیکن محسن کی پارٹی کو اس دلاسے سے اطمینان نہیں ہوتا۔ چمٹے کا سکہ خوب بیٹھ گیا ہے۔ چپکا ہوا ٹکٹ اب پانی سے نہیں چھوٹ رہا ہے۔
محسن- لیکن ان کھلونوں کے لیے کوئی ہمیں دعا تو نہ دے گا؟
محمود- دعا کو لیے پھرتے ہو۔ الٹے مار نہ پڑے۔ اماں ضرور كہیں گی کہ میلے میں یہی مٹی کے کھلونے ملے؟

حامد کو تسلیم کرنا پڑا کہ کھلونوں کو دیکھ کر کسی کی ماں اتنی خوش نہ ہوں گی، جتنی دادی چمٹے کو دیکھ کر ہوں گی۔ تین پیسوں ہی میں تو اسے سب کچھ کرنا تھا اور ان پیسوں کے اس استعمال پر پچھتاوے کی بالکل ضرورت نہ تھی۔پھر اب تو چمٹا روستمِ ہند ہے اور تمام کھلونوں کا بادشاہ۔
راستے میں محمود کو بھوک لگی. اس کے باپ نے کیلے کھانے کو دیے۔ محمود نے صرف حامد کو شریک بنایا۔ اس کے دوسرے دوست منہ تاکتے رہ گئے۔ یہ اس چمٹے کا تبرک تھا۔


گیارہ بجے گاؤں میں ہلچل مچ گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی کے جا اچھلی تو میاں بہشتی نیچے آ رہے اور ملک عدم سدھارے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں یہ شور سن کر بگڑیں اور دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے اور لگائے۔

میاں نورے کے وکیل کا انجام ان کے مرتبے کے حساب سے مزید فخریہ ہوا۔ وکیل زمین پر یا طاق پر تو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی عزت کا خیال تو کرنا ہی ہوگا۔ دیوار میں كھوٹياں گاڑی گئیں۔ ان پر لکڑی کا ایک پٹرا رکھا گیا۔ پٹرے پر کاغذ کا قالین بچھايا گیا۔ وکیل صاحب راجہ بھوج کی طرح تخت نشین ہوئے۔ نورے نے انہیں پنکھا جھلنا شروع کیا۔ عدالتوں میں كھس کی ٹٹياں اور بجلی کے پنکھے رہتے ہیں. کیا یہاں معمولی پنکھا بھی نہ ہو؟ قانون کی گرمی دماغ پر چڑھ جائے گی کہ نہیں؟ بانس کا پنکھا آیا اور نوری ہوا کرنے لگے۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب سورگ لوك سے مرتيولوك میں آ رہے اور ان ماٹی کا چولا ماٹی میں مل گیا! پھر بڑے زور شور سے ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی باقیات گھورے پر ڈال دی گئی۔

اب رہا محمود کا سپاہی۔ اسے جھٹ پٹ گاؤں کا پہرہ دینے کا چارج مل گیا لیکن پولیس کا سپاہی کوئی عام انسان تو نہیں جو اپنے پیروں چلیں۔ وہ پالکی پر چلے گا۔ ایک ٹوکری آئی، اس میں کچھ لال رنگ کے پھٹے پرانے چیتھڑے بچھائے گئے، جس میں سپاہی صاحب آرام سے لیٹے۔ نورے نے یہ ٹوکری اٹھا لی اور اپنے دروازے کا چکر لگانے لگے۔ ان کے دونوں چھوٹے بھائی سپاہی کی طرح ' چھونےوالے، جاگتے لہو' پکارتے چلتے ہیں مگر رات تو اندھیری ہی ہونی چاہیے۔ محمود کو ٹھوکر لگ جاتی ہے. ٹوکری اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑتی ہے اور میاں سپاہی اپنی بندوق لیے زمین پر آ جاتے ہیں اور ان کی ایک ٹانگ میں خرابی کی شکایت آ جاتی ہے۔

محمود کو آج معلوم ہوا کہ وہ اچھا ڈاکٹر ہے۔ اس کو ایسا مرہم ملا ہے، جس سے وہ ٹوٹی ٹانگ کو آنا فانا جوڑ سکتا ہے۔ صرف گولر کا دودھ چاہیے۔ گولر کا دودھ آتا ہے۔ ٹانگ جواب دے دیتی ہے۔ جراحی کا عمل ناکام ہوا تو اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دی جاتی ہے۔ اب کم سے کم ایک جگہ آرام سے بیٹھ تو سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ سپاہی کی سنیاسی ہو گیا ہے۔ اپنی جگہ پر بیٹھا بیٹھا پہرہ دیتا ہے۔ کبھی کبھی دیوتا بھی بن جاتا ہے۔ اس کے سر کی جھالردار پگڑی كھرچ دی گئی ہے۔ اب اس کو جتنا بدلنا چاہو کر سکتے ہو۔ کبھی کبھی تو اس سے باٹ کا کام بھی لیا جاتا ہے۔

اب میاں حامد کا حال سنیے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتا اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر وہ چونکی۔
'یہ دست پناہ کہاں تھا؟'
'میں نے مول لیا ہے.
'كئے پیسے میں؟'
'تین پیسے دیے.'
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ یہ کیسا بےسمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہوا، کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا؟ چمٹا!' سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی جو یہ لوہے کا چمٹا اٹھا لایا۔
حامد نے ملزمانہ انداز سے کہا- تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں، اس لیے میں نے اسے لیا۔

بڑھیا کا غصہ فورا شفقت میں تبدیل ہوگیا اور شفقت بھی وہ نہیں جو ملمعہ ہوتی  ہے اور اپنی ساری کسک الفاظ میں بکھیر دیتی ہے۔ یہ خاموش پیار تھا، خوب ٹھوس، رس اور ذائقہ سے بھرا ہوا۔ بچے میں کتنا ایثار، کتنا سلیقہ اور کتنی عقل مندی ہے؟ دوسروں کو کھلونے لیتے اور مٹھائی کھاتے دیکھ کر اس کا دل کتنا للچايا ہوگا؟ اتنا ضبط اس سے ہوا کیسے؟ وہاں بھی اسے اپنی بڑھیا دادی کی یاد بنی رہی۔ امینہ کا دل گدگد ہو گیا اور اب ایک بڑی نرالی بات ہوئی۔ حامد کے اس چمٹے سے بھی نرالی۔ بچے حامد نے بوڑھے حامد کا پارٹ کھیلا تھا۔ بڑھیا امینہ لڑکی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی. دامن پھیلا کر حامد کو دعائیں دیتی جاتی تھی اور آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا؟

ہفتہ، 10 اگست، 2013

ईदगाह

ईदगाह - प्रेमचन्द

रमजान के पूरे तीस रोजों के बाद ईद आयी है। कितना मनोहर, कितना सुहावना प्रभाव है। वृक्षों पर अजीब हरियाली है, खेतों में कुछ अजीब रौनक है, आसमान पर कुछ अजीब लालिमा है। आज का सूर्य देखो, कितना प्यारा, कितना शीतल है, यानी संसार को ईद की बधाई दे रहा है। गाँव में कितनी हलचल है। ईदगाह जाने की तैयारियाँ हो रही हैं। किसी के कुरते में बटन नहीं है, पड़ोस के घर में सुई-धागा लेने दौड़ा जा रहा है। किसी के जूते कड़े हो गए हैं, उनमें तेल डालने के लिए तेली के घर पर भागा जाता है। जल्दी-जल्दी बैलों को सानी-पानी दे दें। ईदगाह से लौटते-लौटते दोपहर हो जायगी। तीन कोस का पैदल रास्ता, फिर सैकड़ों आदमियों से मिलना-भेंटना, दोपहर के पहले लौटना असम्भव है। लड़के सबसे ज्यादा प्रसन्न हैं। किसी ने एक रोजा रखा है, वह भी दोपहर तक, किसी ने वह भी नहीं, लेकिन ईदगाह जाने की खुशी उनके हिस्से की चीज है। रोजे बड़े-बूढ़ों के लिए होंगे। इनके लिए तो ईद है। रोज ईद का नाम रटते थे, आज वह आ गयी। अब जल्दी पड़ी है कि लोग ईदगाह क्यों नहीं चलते। इन्हें गृहस्थी की चिंताओं से क्या प्रयोजन! सेवैयों के लिए दूध ओर शक्कर घर में है या नहीं, इनकी बला से, ये तो सेवेयाँ खायेंगे। वह क्या जानें कि अब्बाजान क्यों बदहवास चौधरी कायमअली के घर दौड़े जा रहे हैं। उन्हें क्या खबर कि चौधरी आँखें बदल लें, तो यह सारी ईद मुहर्रम हो जाय। उनकी अपनी जेबों में तो कुबेर का धन भरा हुआ है। बार-बार जेब से अपना खजाना निकालकर गिनते हैं और खुश होकर फिर रख लेते हैं। महमूद गिनता है, एक-दो, दस,-बारह, उसके पास बारह पैसे हैं। मोहसिन के पास एक, दो, तीन, आठ, नौ, पंद्रह पैसे हैं। इन्हीं अनगिनती पैसों में अनगिनती चीजें लायेंगेंखिलौने, मिठाइयाँ, बिगुल, गेंद और जाने क्या-क्या। और सबसे ज्यादा प्रसन्न है हामिद। वह चार-पाँच साल का गरीब- सूरत, दुबला-पतला लड़का, जिसका बाप गत वर्ष हैजे की भेंट हो गया और माँ न जाने क्यों पीली होती-होती एक दिन मर गयी। किसी को पता क्या बीमारी है। कहती तो कौन सुनने वाला था? दिल पर जो कुछ बीतती थी, वह दिल में ही सहती थी ओर जब न सहा गया तो संसार से विदा हो गयी। अब हामिद अपनी बूढ़ी दादी अमीना की गोद में सोता है और उतना ही प्रसन्न है। उसके अब्बाजान रूपये कमाने गए हैं। बहुत-सी थैलियाँ लेकर आयेंगे। अम्मीजान अल्लाह मियाँ के घर से उसके लिए बड़ी अच्छी-अच्छी चीजें लाने गयी हैं, इसलिए हामिद प्रसन्न है। आशा तो बड़ी चीज है, और फिर बच्चों की आशा! उनकी कल्पना तो राई का पर्वत बना लेती है। हामिद के पाँव में जूते नहीं हैं, सिर पर एक पुरानी-धुरानी टोपी है, जिसका गोटा काला पड़ गया है, फिर भी वह प्रसन्न है। जब उसके अब्बाजान थैलियाँ और अम्मीजान नियामतें लेकर आयेंगी, तो वह दिल से अरमान निकाल लेगा। तब देखेगा, मोहसिन, नूरे और सम्मी कहाँ से उतने पैसे निकालेंगे। अभागिन अमीना अपनी कोठरी में बैठी रो रही है। आज ईद का दिन, उसके घर में दाना नहीं! आज आबिद होता, तो क्या इसी तरह ईद आती ओर चली जाती! इस अंधकार और निराशा में वह डूबी जा रही है। किसने बुलाया था इस निगोड़ी ईद को? इस घर में उसका काम नहीं, लेकिन हामिद! उसे किसी के मरने-जीने से क्या मतलब? उसके अन्दर प्रकाश है, बाहर आशा। विपत्ति अपना सारा दल-बल लेकर आये, हामिद की आनंद-भरी चितवन उसका विध्वंस कर देगी।
हामिद भीतर जाकर दादी से कहता हैतुम डरना नहीं अम्माँ, मैं सबसे पहले आऊँगा। बिल्कुल न डरना।
अमीना का दिल कचोट रहा है। गाँव के बच्चे अपने-अपने बाप के साथ जा रहे हैं। हामिद का बाप अमीना के सिवा और कौन है! उसे कैसे अकेले मेले जाने दे? उस भीड़-भाड़ से बच्चा कहीं खो जाय तो क्या हो? नहीं, अमीना उसे यों न जाने देगी। नन्ही-सी जान! तीन कोस चलेगा कैसे? पैर में छाले पड़ जायेंगे। जूते भी तो नहीं हैं। वह थोड़ी-थोड़ी दूर पर उसे गोद में ले लेती, लेकिन यहाँ सेवैयाँ कौन पकायेगा? पैसे होते तो लौटते-लौटते सब सामग्री जमा करके चटपट बना लेती। यहाँ तो घंटों चीजें जमा करते लगेंगे। माँगे का ही तो भरोसा ठहरा। उस दिन फहीमन के कपड़े सिले थे। आठ आने पैसे मिले थे। उस अठन्नी को ईमान की तरह बचाती चली आती थी इसी ईद के लिए लेकिन कल ग्वालन सिर पर सवार हो गयी तो क्या करती? हामिद के लिए कुछ नहीं है, तो दो पैसे का दूध तो चाहिए ही। अब तो कुल दो आने पैसे बच रहे हैं। तीन पैसे हामिद की जेब में, पाँच अमीना के बटवे में। यही तो बिसात है और ईद का त्यौहार, अल्लाह ही बेड़ा पार लगावे। धोबन और नाइन ओर मेहतरानी और चुड़िहारिन सभी तो आयेंगी। सभी को सेवैयाँ चाहिए और थोड़ा किसी को आँखों नहीं लगता। किस-किस सें मुँह चुरायेगी? और मुँह क्यों चुराये? साल भर का त्यौहार है। ज़िंदगी ख़ैरियत से रहे, उनकी तकदीर भी तो उसी के साथ है। बच्चे को खुदा सलामत रखे, यें दिन भी कट जायँगे।

गाँव से मेला चला। और बच्चों के साथ हामिद भी जा रहा था। कभी सबके सब दौड़कर आगे निकल जाते। फिर किसी पेड़ के नीचे खड़े होकर साथ वालों का इंतज़ार करते। यह लोग क्यों इतना धीरे-धीरे चल रहे हैं? हामिद के पैरो में तो जैसे पर लग गए हैं। वह कभी थक सकता है? शहर का दामन आ गया। सड़क के दोनों ओर अमीरों के बगीचे हैं। पक्की चारदीवारी बनी हुई है। पेड़ो में आम और लीचियाँ लगी हुई हैं। कभी-कभी कोई लड़का कंकड़ी उठाकर आम पर निशान लगाता है। माली अंदर से गाली देता हुआ निकलता है। लड़के वहाँ से एक फर्लांग पर हैं। खूब हँस रहे हैं। माली को कैसा उल्लू बनाया है।

बड़ी-बड़ी इमारतें आने लगीं। यह अदालत है, यह कालेज है, यह क्लब- घर है। इतने बड़े कालेज में कितने लड़के पढ़ते होंगे? सब लड़के नहीं हैं जी! बड़े-बड़े आदमी हैं, सच! उनकी बड़ी-बड़ी मूँछे हैं। इतने बड़े हो गए, अभी तक पढ़ने जाते हैं। न जाने कब तक पढ़ेंगे और क्या करेंगे इतना पढ़कर! हामिद के मदरसे में दो-तीन बड़े-बड़े लड़के हैं, बिल्कुल तीन कौड़ी के। रोज मार खाते हैं, काम से जी चुराने वाले। इस जगह भी उसी तरह के लोग होंगे ओर क्या। क्लब-घर में जादू होता है। सुना है, यहाँ मुर्दो की खोपड़ियाँ दौड़ती हैं। और बड़े-बड़े तमाशे होते हैं, पर किसी को अंदर नहीं जाने देते। और वहाँ शाम को साहब लोग खेलते हैं। बड़े-बड़े आदमी खेलते हैं, मूँछो दाढ़ी वाले। और मेमें भी खेलती हैं, सच! हमारी अम्माँ को यह दे दो, क्या नाम है, बैट, तो उसे पकड़ ही न सकें। घुमाते ही लुढ़क जायँ।

महमूद ने कहाहमारी अम्मीजान का तो हाथ काँपने लगे, अल्ला कसम।
मोहसिन बोलाचलो, मनों आटा पीस डालती हैं। ज़रा-सा बैट पकड़ लेंगी, तो हाथ काँपने लगेंगे! सैकड़ों घड़े पानी रोज निकालती हैं। पाँच घड़े तो तेरी भैंस पी जाती है। किसी मेम को एक घड़ा पानी भरना पड़े, तो आँखों तले अँधेरा आ जाय।
महमूदलेकिन दौड़ती तो नहीं, उछल-कूद तो नहीं सकतीं।
मोहसिनहाँ, उछल-कूद तो नहीं सकतीं; लेकिन उस दिन मेरी गाय खुल गयी थी और चौधरी के खेत में जा पड़ी थी, अम्माँ इतना तेज दौड़ीं कि मैं उन्हें न पा सका, सच।
आगे चले। हलवाइयों की दुकानें शुरू हुईं। आज खूब सजी हुई थीं। इतनी मिठाइयाँ कौन खाता है? देखो न, एक-एक दूकान पर मनों होंगी। सुना है, रात को जिन्नात आकर खरीद ले जाते हैं। अब्बा कहते थे कि आधी रात को एक आदमी हर दुकान पर जाता है और जितना माल बचा होता है, वह तुलवा लेता है और सचमुच के रूपये देता है, बिल्कुल ऐसे ही रूपये।


हामिद को यकीन न आयाऐसे रूपये जिन्नात को कहाँ से मिल जायेंगे?
मोहसिन ने कहाजिन्नात को रूपये की क्या कमी? जिस खजाने में चाहैं चले जायँ। लोहे के दरवाजे तक उन्हें नहीं रोक सकते जनाब, आप हैं किस फेर में! हीरे-जवाहरात तक उनके पास रहते हैं। जिससे खुश हो गये, उसे टोकरों जवाहरात दे दिये। अभी यहीं बैठे हैं, पाँच मिनट में कलकत्ता पहुँच जायँ।
हामिद ने फिर पूछाजिन्नात बहुत बड़े-बड़े होते हैं?
मोहसिनएक-एक सिर आसमान के बराबर होता है जी! जमीन पर खड़ा हो जाय तो उसका सिर आसमान से जा लगे, मगर चाहे तो एक लोटे में घुस जाय।
हामिदलोग उन्हें कैसे खुश करते होंगे? कोई मुझे यह मंतर बता दे तो एक जिन्न को खुश कर लूँ।
मोहसिनअब यह तो मै नहीं जानता, लेकिन चौधरी साहब के काबू में बहुत-से जिन्नात हैं। कोई चीज चोरी जाय चौधरी साहब उसका पता लगा देंगे ओर चोर का नाम बता देंगे। जुमराती का बछवा उस दिन खो गया था। तीन दिन हैरान हुए, कहीं न मिला तब झख मारकर चौधरी के पास गये। चौधरी ने तुरन्त बता दिया, मवेशीखाने में है और वहीं मिला। जिन्नात आकर उन्हें सारे जहान की खबर दे जाते हैं।

अब उसकी समझ में आ गया कि चौधरी के पास क्यों इतना धन है और क्यों उनका इतना सम्मान है।
आगे चले। यह पुलिस लाइन है। यहीं सब कानिसटिबिल कवायद करते हैं। रैटन! फाय फो! रात को बेचारे घूम-घूमकर पहरा देते हैं, नहीं चोरियाँ हो जायँ। मोहसिन ने प्रतिवाद कियायह कानिसटिबिल पहरा देते हैं? तभी तुम बहुत जानते हो अजी हजरत, यह चोरी करते हैं। शहर के जितने चोर-डाकू हैं, सब इनसे मिले रहते हैं।रात को ये लोग चोरों से तो कहते हैं, चोरी करो और आप दूसरे मुहल्ले में जाकर जागते रहो! जागते रहो!पुकारते हैं। तभी इन लोगों के पास इतने रूपये आते हैं। मेरे मामू एक थाने में कानिसटिबिल हैं। बीस रूपया महीना पाते हैं, लेकिन पचास रूपये घर भेजते हैं। अल्ला कसम! मैंने एक बार पूछा था कि मामू, आप इतने रूपये कहाँ से पाते हैं? हँसकर कहने लगेबेटा, अल्लाह देता है। फिर आप ही बोलेहम लोग चाहें तो एक दिन में लाखों मार लायें। हम तो इतना ही लेते हैं, जिसमें अपनी बदनामी न हो और नौकरी न चली जाय।
हामिद ने पूछायह लोग चोरी करवाते हैं, तो कोई इन्हें पकड़ता नहीं?

मोहसिन उसकी नादानी पर दया दिखाकर बोला- अरे, पागल! इन्हें कौन पकड़ेगा! पकड़ने वाले तो यह लोग खुद हैं, लेकिन अल्लाह, इन्हें सजा भी खूब देता है। हराम का माल हराम में जाता है। थोड़े ही दिन हुए, मामू के घर में आग लग गयी। सारी लेई-पूँजी जल गयी। एक बरतन तक न बचा। कई दिन पेड़ के नीचे सोये, अल्ला कसम, पेड़ के नीचे! फिर न जाने कहाँ से एक सौ कर्ज लाये तो बरतन-भांडे आये।
हामिदएक सौ तो पचास से ज्यादा होते हैं?
कहाँ पचास, कहाँ एक सौ। पचास एक थैली-भर होता है। सौ तो दो थैलियों में भी न आऍं?

अब बस्ती घनी होने लगी। ईदगाह जानेवालों की टोलियाँ नजर आने लगी। एक से एक भड़कीले वस्त्र पहने हुए। कोई इक्के-ताँगे पर सवार, कोई मोटर पर, सभी इत्र में बसे, सभी के दिलों में उमंग। ग्रामीणों का यह छोटा-सा दल अपनी विपन्नता से बेखबर, सन्तोष ओर धैर्य में मगन चला जा रहा था। बच्चों के लिए नगर की सभी चीजें अनोखी थीं। जिस चीज की ओर ताकते, ताकते ही रह जाते और पीछे से बार-बार हार्न की आवाज होने पर भी न चेतते। हामिद तो मोटर के नीचे जाते-जाते बचा।

सहसा ईदगाह नजर आयी। ऊपर इमली के घने वृक्षों की छाया है। नीचे पक्का फर्श है, जिस पर जाजम बिछा हुआ है। और रोजेदारों की पंक्तियाँ एक के पीछे एक न जाने कहाँ तक चली गयी हैं, पक्की जगत के नीचे तक, जहाँ जाजम भी नहीं है। नये आने वाले आकर पीछे की कतार में खड़े हो जाते हैं। आगे जगह नहीं है। यहाँ कोई धन और पद नहीं देखता। इस्लाम की निगाह में सब बराबर हैं। इन ग्रामीणों ने भी वजू किया ओर पिछली पंक्ति में खड़े हो गये। कितना सुन्दर संचालन है, कितनी सुन्दर व्यवस्था! लाखों सिर एक साथ सिजदे में झुक जाते हैं, फिर सबके सब एक साथ खड़े हो जाते हैं, एक साथ झुकते हैं, और एक साथ घुटनों के बल बैठ जाते हैं। कई बार यही क्रिया होती है, जैसे बिजली की लाखों बत्तियाँ एक साथ प्रदीप्त हों और एक साथ बुझ जायँ, और यही क्रम चलता रहा। कितना अपूर्व दृश्य था, जिसकी सामूहिक क्रियाएँ, विस्तार और अनंतता हृदय को श्रद्धा, गर्व और आत्मानंद से भर देती थीं, मानों भ्रातृत्व का एक सूत्र इन समस्त आत्माओं को एक लड़ी में पिरोये हुए है।
2
नमाज खत्म हो गयी है। लोग आपस में गले मिल रहे हैं। तब मिठाई और खिलौने की दूकान पर धावा होता है। ग्रामीणों का यह दल इस विषय में बालकों से कम उत्साही नहीं है। यह देखो, हिंडोला है एक पैसा देकर चढ़ जाओ। कभी आसमान पर जाते हुए मालूम होगें, कभी जमीन पर गिरते हुए। यह चर्खी है, लकड़ी के हाथी, घोड़े, ऊँट, छड़ों में लटके हुए हैं। एक पैसा देकर बैठ जाओ और पच्चीस चक्करों का मजा लो। महमूद और मोहसिन ओर नूरे ओर सम्मी इन घोड़ों ओर ऊँटों पर बैठते हैं। हामिद दूर खड़ा है। तीन ही पैसे तो उसके पास हैं। अपने कोष का एक तिहाई जरा-सा चक्कर खाने के लिए नहीं दे सकता।

सब चर्खियों से उतरते हैं। अब खिलौने लेंगे। इधर दूकानों की कतार लगी हुई है। तरह-तरह के खिलौने हैंसिपाही और गुजरिया, राजा और वकील, भिश्ती और धोबिन और साधु। वाह! कितने सुन्दर खिलौने हैं। अब बोला ही चाहते हैं। महमूद सिपाही लेता है, खाकी वर्दी और लाल पगड़ीवाला, कंधे पर बंदूक रखे हुए, मालूम होता है, अभी कवायद किये चला आ रहा है। मोहसिन को भिश्ती पसंद आया। कमर झुकी हुई है, ऊपर मशक रखे हुए है। मशक का मुँह एक हाथ से पकड़े हुए है। कितना प्रसन्न है! शायद कोई गीत गा रहा है। बस, मशक से पानी उड़ेलना ही चाहता है। नूरे को वकील से प्रेम है। कैसी विद्वमता है उसके मुख पर! काला चोगा, नीचे सफेद अचकन, अचकन के सामने की जेब में घड़ी, सुनहरी जंजीर, एक हाथ में कानून का पोथा लिये हुए। मालूम होता है, अभी किसी अदालत से जिरह या बहस किये चले आ रहे हैं। यह सब दो-दो पैसे के खिलौने हैं। हामिद के पास कुल तीन पैसे हैं, इतने महँगे खिलौने वह कैसे ले? खिलौना कहीं हाथ से छूट पड़े तो चूर-चूर हो जाय। जरा पानी पड़े तो सारा रंग घुल जाय। ऐसे खिलौने लेकर वह क्या करेगा; किस काम के!
मोहसिन कहता हैमेरा भिश्ती रोज पानी दे जायगा साँझ-सबेरे।
महमूदऔर मेरा सिपाही घर का पहरा देगा कोई चोर आयेगा, तो फौरन बंदूक से फैर कर देगा।
नूरेऔर मेरा वकील खूब मुकदमा लड़ेगा।
सम्मी- और मेरी धोबिन रोज कपड़े धोयेगी।
हामिद खिलौनों की निंदा करता हैमिट्टी ही के तो हैं, गिरें तो चकनाचूर हो जायँ, लेकिन ललचाई हुई आँखों से खिलौनों को देख रहा है और चाहता है कि जरा देर के लिए उन्हें हाथ में ले सकता। उसके हाथ अनायास ही लपकते हैं, लेकिन लड़के इतने त्यागी नहीं होते हैं, विशेषकर जब अभी नया शौक है। हामिद ललचाता रह जाता है।

खिलौने के बाद मिठाइयाँ आती हैं। किसी ने रेवड़ियाँ ली हैं, किसी ने गुलाबजामुन किसी ने सोहन हलवा। मजे से खा रहे हैं। हामिद बिरादरी से पृथक है। अभागे के पास तीन पैसे हैं। क्यों नहीं कुछ लेकर खाता? ललचायी आँखों से सबकी ओर देखता है।
मोहसिन कहता हैहामिद रेवड़ी ले जा, कितनी खुशबूदार है!
हामिद को संदेह हुआ, ये केवल क्रूर विनोद है, मोहसिन इतना उदार नहीं है, लेकिन यह जानकर भी वह उसके पास जाता है। मोहसिन दोने से एक रेवड़ी निकालकर हामिद की ओर बढ़ाता है। हामिद हाथ फैलाता है। मोहसिन रेवड़ी अपने मुँह में रख लेता है। महमूद, नूरे और सम्मी खूब तालियाँ बजा-बजाकर हँसते हैं। हामिद खिसिया जाता है।
मोहसिनअच्छा, अबकी जरूर देंगे हामिद, अल्लाह कसम, ले जाव।
हामिदरखे रहो। क्या मेरे पास पैसे नहीं हैं?
सम्मीतीन ही पैसे तो हैं। तीन पैसे में क्या-क्या लोगे?
महमूदहमसे गुलाबजामुन ले जाव हामिद। मोहमिन बदमाश है।
हामिदमिठाई कौन बड़ी नेमत है। किताब में इसकी कितनी बुराइयाँ लिखी हैं।
मोहसिनलेकिन दिल में कह रहे होंगे कि मिले तो खा लें। अपने पैसे क्यों नहीं निकालते?
महमूदहम समझते हैं, इसकी चालाकी। जब हमारे सारे पैसे खर्च हो जायेंगे, तो हमें ललचा-ललचाकर खायगा।
मिठाइयों के बाद कुछ दूकानें लोहे की चीजों की, कुछ गिलट और कुछ नकली गहनों की। लड़कों के लिए यहाँ कोई आकर्षण न था। वे सब आगे बढ़ जाते हैं, हामिद लोहे की दुकान पर रूक जाता है। कई चिमटे रखे हुए थे। उसे खयाल आया, दादी के पास चिमटा नहीं है। तवे से रोटियाँ उतारती हैं, तो हाथ जल जाता है। अगर वह चिमटा ले जाकर दादी को दे दे तो वह कितना प्रसन्न होंगी! फिर उनकी उंगलियाँ कभी न जलेंगी। घर में एक काम की चीज हो जायगी। खिलौने से क्या फायदा? व्यर्थ में पैसे खराब होते हैं। जरा देर ही तो खुशी होती है। फिर तो खिलौने को कोई आँख उठाकर नहीं देखता। यह तो घर पहुँचते-पहुँचते टूट-फूट बराबर हो जायेंगे या छोटे बच्चे जो मेले में नहीं आये हैं जिद कर के ले लेंगे और तोड़ डालेंगे। चिमटा कितने काम की चीज है। रोटियाँ तवे से उतार लो, चूल्हें में सेंक लो। कोई आग माँगने आये तो चटपट चूल्हे से आग निकालकर उसे दे दो। अम्माँ बेचारी को कहाँ फुरसत है कि बाजार आयें और इतने पैसे ही कहाँ मिलते हैं? रोज हाथ जला लेती हैं।

हामिद के साथी आगे बढ़ गये हैं। सबील पर सब-के-सब शर्बत पी रहे हैं। देखो, सब कितने लालची हैं। इतनी मिठाइयाँ लीं, मुझे किसी ने एक भी न दी। उस पर कहते है, मेरे साथ खेलो। मेरा यह काम करो। अब अगर किसी ने कोई काम करने को कहा, तो पूछूँगा। खायें मिठाइयाँ, आप मुँह सड़ेगा, फोड़े-फुन्सियाँ निकलेंगी, आप ही जबान चटोरी हो जायगी। तब घर से पैसे चुरायेंगे और मार खायेंगे। किताब में झूठी बातें थोड़े ही लिखी हैं। मेरी जबान क्यों खराब होगी? अम्माँ चिमटा देखते ही दौड़कर मेरे हाथ से ले लेंगी और कहेंगीमेरा बच्चा अम्माँ के लिए चिमटा लाया है। कितना अच्छा लड़का है। इन लोगों के खिलौने पर कौन इन्हें दुआयें देगा? बड़ों की दुआयें सीधे अल्लाह के दरबार में पहुँचती हैं, और तुरंत सुनी जाती हैं। मेरे पास पैसे नहीं हैं।तभी तो मोहसिन और महमूद यों मिजाज दिखाते हैं। मैं भी इनसे मिजाज दिखाऊँगा। खेलें खिलौने और खायें मिठाइयाँ। मै नहीं खेलता खिलौने, किसी का मिजाज क्यों सहूँ? मैं गरीब सही, किसी से कुछ माँगने तो नहीं जाता। आखिर अब्बाजान कभीं न कभी आयेंगे। अम्मा भी आयेंगी ही। फिर इन लोगों से पूछूँगा, कितने खिलौने लोगे? एक-एक को टोकरियों खिलौने दूँ और दिखा दूँ कि दोस्तों के साथ इस तरह का सलूक किया जाता है। यह नहीं कि एक पैसे की रेवड़ियाँ लीं, तो चिढ़ा-चिढ़ाकर खाने लगे। सबके सब खूब हँसेंगे कि हामिद ने चिमटा लिया है। हँसें! मेरी बला से। उसने दुकानदार से पूछायह चिमटा कितने का है?
दुकानदार ने उसकी ओर देखा और कोई आदमी साथ न देखकर कहातुम्हारे काम का नहीं है जी!
बिकाऊ है कि नहीं?’
बिकाऊ क्यों नहीं है? और यहाँ क्यों लाद लाये हैं?’
तो बताते क्यों नहीं, कै पैसे का है?’
छ: पैसे लगेंगे।
हामिद का दिल बैठ गया।
ठीक-ठीक पाँच पैसे लगेंगे, लेना हो लो, नहीं चलते बनो।
हामिद ने कलेजा मजबूत करके कहा- तीन पैसे लोगे?
यह कहता हुआ वह आगे बढ़ गया कि दुकानदार की घुड़कियाँ न सुने। लेकिन दुकानदार ने घुड़कियाँ नहीं दी। बुलाकर चिमटा दे दिया। हामिद ने उसे इस तरह कंधे पर रखा, मानो बंदूक है और शान से अकड़ता हुआ संगियों के पास आया। जरा सुनें, सबके सब क्या-क्या आलोचनाएँ करते हैं!
मोहसिन ने हँसकर कहायह चिमटा क्यों लाया पगले, इसे क्या करेगा?
हामिद ने चिमटे को जमीन पर पटककर कहाजरा अपना भिश्ती जमीन पर गिरा दो। सारी पसलियाँ चूर-चूर हो जायँ बच्चू की।
महमूद बोलातो यह चिमटा कोई खिलौना है?
हामिदखिलौना क्यों नही है! अभी कंधे पर रखा, बंदूक हो गयी। हाथ में ले लिया, फकीरों का चिमटा हो गया। चाहूँ तो इससे मजीरे का काम ले सकता हूँ। एक चिमटा जमा दूँ, तो तुम लोगों के सारे खिलौनों की जान निकल जाय। तुम्हारे खिलौने कितना ही जोर लगायें, मेरे चिमटे का बाल भी बाँका नही कर सकते। मेरा बहादुर शेर है चिमटा।
सम्मी ने खँजरी ली थी। प्रभावित होकर बोलामेरी खँजरी से बदलोगे? दो आने की है।
हामिद ने खँजरी की ओर उपेक्षा से देखा- मेरा चिमटा चाहे तो तुम्हारी खँजरी का पेट फाड़ डाले। बस, एक चमड़े की झिल्ली लगा दी, ढब-ढब बोलने लगी। जरा-सा पानी लग जाय तो खत्म हो जाय। मेरा बहादुर चिमटा आग में, पानी में, आँधी में, तूफान में बराबर डटा खड़ा रहेगा।
चिमटे ने सभी को मोहित कर लिया, अब पैसे किसके पास धरे हैं? फिर मेले से दूर निकल आये हैं, नौ कब के बज ग्ये, धूप तेज हो रही है। घर पहुँचने की जल्दी हो रही है। बाप से जिद भी करें, तो चिमटा नहीं मिल सकता। हामिद है बड़ा चालाक। इसीलिए बदमाश ने अपने पैसे बचा रखे थे।


अब बालकों के दो दल हो गये हैं। मोहसिन, मह्मूद, सम्मी और नूरे एक तरफ हैं, हामिद अकेला दूसरी तरफ। शास्त्रार्थ हो रहा है। सम्मी तो विधर्मी हो गया! दूसरे पक्ष से जा मिला, लेकिन मोहसिन, महमूद और नूरे भी हामिद से एक-एक, दो-दो साल बड़े होने पर भी हामिद के आघातों से आतंकित हो उठे हैं। उसके पास न्याय का बल है और नीति की शक्ति। एक ओर मिट्टी है, दूसरी ओर लोहा, जो इस वक्त अपने को फौलाद कह रहा है। वह अजेय है, घातक है। अगर कोई शेर आ जाय तो मियाँ भिश्ती के छक्के छूट जायँ, मियाँ सिपाही मिट्टी की बंदूक छोड़कर भागें, वकील साहब की नानी मर जाय, चोगे में मुँह छिपाकर जमीन पर लेट जायँ। मगर यह चिमटा, यह बहादुर, यह रूस्तमे-हिंद लपककर शेर की गरदन पर सवार हो जायगा और उसकी आँखें निकाल लेगा।

मोहसिन ने एड़ीचोटी का जोर लगाकर कहाअच्छा, पानी तो नहीं भर सकता?
हामिद ने चिमटे को सीधा खड़ा करके कहाभिश्ती को एक डाँट बतायेगा, तो दौड़ा हुआ पानी लाकर उसके द्वाडर पर छिड़कने लगेगा।
मोहसिन परास्त हो गया, पर महमूद ने कुमुक पहुँचाईअगर बच्चा पकड़ जायँ तो अदालत में बँधे-बँधे फिरेंगे। तब तो वकील साहब के पैरों पड़ेंगे।
हामिद इस प्रबल तर्क का जवाब न दे सका। उसने पूछाहमें पकड़ने कौन आयेगा?
नूरे ने अकड़कर कहायह सिपाही बंदूकवाला।
हामिद ने मुँह चिढ़ाकर कहायह बेचारे हम बहादुर रूस्तमेहिंद को पकड़ेंगे! अच्छा लाओ, अभी जरा कुश्ती हो जाय। इसकी सूरत देखकर दूर से भागेंगे। पकड़ेंगे क्या बेचारे!
मोहसिन को एक नयी चोट सूझ गयीतुम्हारे चिमटे का मुँह रोज आग में जलेगा।
उसने समझा था कि हामिद लाजवाब हो जायगा, लेकिन यह बात न हुई। हामिद ने तुरंत जवाब दियाआग में बहादुर ही कूदते हैं जनाब, तुम्हारे यह वकील, सिपाही और भिश्ती लौंडियों की तरह घर में घुस जायेंगे। आग में कूदना वह काम है, जो यह रूस्तमे-हिन्द ही कर सकता है।
महमूद ने एक जोर लगायावकील साहब कुरसी-मेज पर बैठेंगे, तुम्हारा चिमटा तो बावरचीखाने में जमीन पर पड़ा रहेगा।
इस तर्क ने सम्मी और नूरे को भी सजीव कर दिया! कितने ठिकाने की बात कही है पट्ठे ने! चिमटा बावरचीखाने में पड़ा रहने के सिवा और क्या कर सकता है?
हामिद को कोई फड़कता हुआ जवाब न सूझा, तो उसने धाँधली शुरू कीमेरा चिमटा बावरचीखाने में नही रहेगा। वकील साहब कुर्सी पर बैठेंगे, तो जाकर उन्हें जमीन पर पटक देगा और उनका कानून उनके पेट में डाल देगा।

बात कुछ बनी नहीं। खासी गाली-गलौज थी; लेकिन कानून को पेट में डालने वाली बात छा गयी। ऐसी छा गयी कि तीनों सूरमा मुँह ताकते रह गये मानो कोई धेलचा कनकौआ किसी गंडेवाले कनकौए को काट गया हो। कानून मुँह से बाहर निकलने वाली चीज है। उसको पेट के अंदर डाल दिया जाना बेतुकी-सी बात होने पर भी कुछ नयापन रखती है। हामिद ने मैदान मार लिया। उसका चिमटा रूस्तमे-हिन्द है। अब इसमें मोहसिन, महमूद नूरे, सम्मी किसी को भी आपत्ति नहीं हो सकती।

विजेता को हारनेवालों से जो सत्कार मिलना स्वाभविक है, वह हामिद को भी मिला। औरों ने तीन-तीन, चार-चार आने पैसे खर्च किए, पर कोई काम की चीज न ले सके। हामिद ने तीन पैसे में रंग जमा लिया। सच ही तो है, खिलौनों का क्या भरोसा? टूट-फूट जायँगे। हामिद का चिमटा तो बना रहेगा बरसों?
संधि की शर्तें तय होने लगीं। मोहसिन ने कहाजरा अपना चिमटा दो, हम भी देखें। तुम हमारा भिश्ती लेकर देखो।
महमूद और नूरे ने भी अपने-अपने खिलौने पेश किये।
हामिद को इन शर्तों को मानने में कोई आपत्ति न थी। चिमटा बारी-बारी से सबके हाथ में गया, और उनके खिलौने बारी-बारी से हामिद के हाथ में आये। कितने खूबसूरत खिलौने हैं।
हामिद ने हारने वालों के आँसू पोंछेमैं तुम्हे चिढ़ा रहा था, सच! यह चिमटा भला, इन खिलौनों की क्या बराबरी करेगा, मालूम होता है, अब बोले, अब बोले।
लेकिन मोहसिन की पार्टी को इस दिलासे से संतोष नहीं होता। चिमटे का सिक्का खूब बैठ गया है। चिपका हुआ टिकट अब पानी से नहीं छूट रहा है।
मोहसिनलेकिन इन खिलौनों के लिए कोई हमें दुआ तो न देगा?
महमूददुआ को लिये फिरते हो। उल्टे मार न पड़े। अम्माँ जरूर कहेंगी कि मेले में यही मिट्टी के खिलौने मिले?

हामिद को स्वीकार करना पड़ा कि खिलौनों को देखकर किसी की माँ इतनी खुश न होंगी, जितनी दादी चिमटे को देखकर होंगी। तीन पैसों ही में तो उसे सब कुछ करना था ओर उन पैसों के इस उपयोग पर पछतावे की बिल्कुल जरूरत न थी। फिर अब तो चिमटा रूस्तमें-हिन्द है ओर सभी खिलौनों का बादशाह।
रास्ते में महमूद को भूख लगी। उसके बाप ने केले खाने को दिये। महमूद ने केवल हामिद को साझी बनाया। उसके अन्य मित्र मुँह ताकते रह गये। यह उस चिमटे का प्रसाद था।
3

ग्यारह बजे गाँव में हलचल मच गयी। मेलेवाले आ गये। मोहसिन की छोटी बहन ने दौड़कर भिश्ती उसके हाथ से छीन लिया और मारे खुशी के जा उछली, तो मियाँ भिश्ती नीचे आ रहे और सुरलोक सिधारे। इस पर भाई-बहन में मार-पीट हुई। दानों खुब रोये। उनकी अम्माँ यह शोर सुनकर बिगड़ीं और दोनों को ऊपर से दो-दो चाँटे और लगाये।

मियाँ नूरे के वकील का अंत उनके प्रतिष्ठानुकूल इससे ज्यादा गौरवमय हुआ। वकील जमीन पर या ताक पर तो नहीं बैठ सकता। उसकी मर्यादा का विचार तो करना ही होगा। दीवार में खूँटियाँ गाड़ी गयी। उन पर लकड़ी का एक पटरा रखा गया। पटरे पर कागज का कालीन बिछाया गया। वकील साहब राजा भोज की भाँति सिंहासन पर विराजे। नूरे ने उन्हें पंखा झलना शुरू किया। अदालतों में खस की टट्टियाँ और बिजली के पंखे रहते हैं। क्या यहाँ मामूली पंखा भी न हो! कानून की गर्मी दिमाग पर चढ़ जायगी कि नहीं? बाँस का पंखा आया और नूरे हवा करने लगे। मालूम नहीं, पंखे की हवा से या पंखे की चोट से वकील साहब स्वर्गलोक से मृत्युलोक में आ रहे और उनका माटी का चोला माटी में मिल गया! फिर बड़े जोर-शोर से मातम हुआ और वकील साहब की अस्थि घूरे पर डाल दी गयी।

अब रहा महमूद का सिपाही। उसे चटपट गाँव का पहरा देने का चार्ज मिल गया, लेकिन पुलिस का सिपाही कोई साधारण व्यक्ति तो नहीं, जो अपने पैरों चलें। वह पालकी पर चलेगा। एक टोकरी आयी, उसमें कुछ लाल रंग के फटे-पुराने चिथड़े बिछाये गये, जिसमें सिपाही साहब आराम से लेटे। नूरे ने यह टोकरी उठायी और अपने द्वार का चक्कर लगाने लगे। उनके दोनों छोटे भाई सिपाही की तरह छोनेवाले, जागते लहोपुकारते चलते हैं। मगर रात तो अँधेरी ही होनी चाहिये। महमूद को ठोकर लग जाती है। टोकरी उसके हाथ से छूटकर गिर पड़ती है और मियाँ सिपाही अपनी बन्दूक लिये जमीन पर आ जाते हैं और उनकी एक टाँग में विकार आ जाता है।

महमूद को आज ज्ञात हुआ कि वह अच्छा डाक्टर है। उसको ऐसा मरहम मिला गया है जिससे वह टूटी टाँग को आनन-फानन जोड़ सकता है। केवल गूलर का दूध चाहिए। गूलर का दूध आता है। टाँग जवाब दे देती है। शल्य-क्रिया असफल हुई, तब उसकी दूसरी टाँग भी तोड़ दी जाती है। अब कम-से-कम एक जगह आराम से बैठ तो सकता है। एक टाँग से तो न चल सकता था, न बैठ सकता था। अब वह सिपाही संन्यासी हो गया है। अपनी जगह पर बैठा-बैठा पहरा देता है। कभी-कभी देवता भी बन जाता है। उसके सिर का झालरदार साफा खुरच दिया गया है। अब उसका जितना रूपांतर चाहो, कर सकते हो। कभी-कभी तो उससे बाट का काम भी लिया जाता है।

अब मियाँ हामिद का हाल सुनिए। अमीना उसकी आवाज सुनते ही दौड़ी और उसे गोद में उठाकर प्यार करने लगी। सहसा उसके हाथ में चिमटा देखकर वह चौंकी।
यह चिमटा कहाँ था?’
मैंने मोल लिया है।
कै पैसे में?’
तीन पैसे दिये।
अमीना ने छाती पीट ली। यह कैसा बेसमझ लड़का है कि दोपहर हुआ, कुछ खाया न पिया। लाया क्या, चिमटा! सारे मेले में तुझे और कोई चीज न मिली, जो यह लोहे का चिमटा उठा लाया।
हामिद ने अपराधी भाव से कहातुम्हारी उँगलियाँ तवे से जल जाती थीं, इसलिए मैने इसे लिया।

बुढ़िया का क्रोध तुरन्त स्नेह में बदल गया, और स्नेह भी वह नहीं, जो प्रगल्भ होता है और अपनी सारी कसक शब्दों में बिखेर देता है। यह मूक स्नेह था, खूब ठोस, रस और स्वाद से भरा हुआ। बच्चे में कितना त्याग, कितना ‍सद्‌भाव और कितना विवेक है! दूसरों को खिलौने लेते और मिठाई खाते देखकर इसका मन कितना ललचाया होगा? इतना जब्त इससे हुआ कैसे? वहाँ भी इसे अपनी बुढ़िया दादी की याद बनी रही। अमीना का मन गद्‌गद्‌ हो गया। और अब एक बड़ी विचित्र बात हुई। हामिद के इस चिमटे से भी विचित्र। बच्चे हामिद ने बूढ़े हामिद का पार्ट खेला था। बुढ़िया अमीना बालिका अमीना बन गयी। वह रोने लगी। दामन फैलाकर हामिद को दुआएं देती जाती थी और आँसू की बड़ी-बड़ी बूँदें गिराती जाती थी। हामिद इसका रहस्य क्या समझता!

How to use voice typing in Urdu