پیر، 24 دسمبر، 2012

Jahd-e Azadi me Urdu Shaeri ka Hissa


جہدِ آزادی میں اردو شاعری کا حصہ


ادب خواہ کسی زبان کا ہو، وہ اپنے عہد کے غالب کے رویوں کا ترجمان اور عکاس ہوتا ہے۔ خواہ وہ رویے سماجی ہوں، تہذیبی ہوں یا سیاسی۔ اردو ادب کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قدیم زمانے میں بھی شاعروں نے اپنے عہد کے حالات و واقعات پر بلا خوف و خطر اظہار خیال کیا ہے۔ حالاں کہ ان میں سے کچھ کو اس کی سزا بھی بھگتنی پڑی یا جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اردو شاعری میں یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ  تیز سے تیزتر ہوتا چلا گیا اور جہدِ آزادی کے دوران یہ رجحان اپنے عروج کو پہنچ گیا۔

کلاسیکی اردو شاعری میں شہر آشوب، ہجو اور دوسری شعری اصناف میں ایسے موضوعات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جنھیں آج کی جدید اصطلاح میں احتجاجی ادب کا نام دیا گیا ہے مگر ہر دور میں اس طرح کے احتجاجی ادب کا مزاج بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے لیے انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے ادب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلے میں انیسویں صدی کے ا دب سے بیسویں صدی کا ادب یکسر مختلف ہے۔

ادب ہمیشہ ہی سماج کے موثر رجحانات کا علم بردار رہا ہے۔ سیاست سماج کو پہلے متاثر کرتی ہے اس کے بعد سماج ادب کو متاثر کرتا ہے۔ عوام الناس ہی کی طرح ادیب بھی سماج کی ایک اکائی ہوتا ہے، اس لیے جس طرح ہر شخص پر سماج کا کچھ نہ کچھ فرض ہوتا ہے، اسی طرح ادیب پر بھی سماج کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا نباہ کرنے کے لیے ادیب ایسے مسائل پر بھی قلم اٹھاتا ہے، جن کا تعلق سماج، ملک، قوم اور کبھی کبھی دنیا سے بھی ہوتاہے۔ شاید اسی لیے ساحر لدھیانوی نے کہا ہے کہ:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں

روسی انقلاب کے بعد اردوادب میں ایک لہر بڑی تیزی سے آئی، جس کے قاعد’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کے خالق محمد اقبال تھے ۔ انہوں نے اپنے جذبات کو اس طرح پیش کیا کہ:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرأ کے درو دیوار ہلا دو 
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی 
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
یا پھر یہ کہ:
گیا دور سرمایہ داری گیا 
تماشہ دکھا کر مداری گیا
ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا ہی ہو مگر جب وہ فن کی بات کر تا ہے تو سچائی اور حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اورجس ملک میں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہوں، وہاں ادیب ان سے متاثر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ انسانیت کی ناقدری، نا انصافی، رنگ اور نسل کا امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں، وہاں ادیب چپ کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں آل احمد سرورلکھتے ہیں: 

’’ادب چوں کہ زندگی کی سچائیوں سے منہ موڑ ہی نہیں سکتا، اس لیے سماجی نا انصافیوں، حکمرانوں کے ذریعہ کیے جا رہے استحصال، ایک عام انسان دوستی اور دنیا کی عظمت اور رنگا رنگی کو بھی اپنے سینے میں محفوظ کر لیتا ہے۔‘‘ 

حبِ وطن، سماجی مسائل اورترقی، جنگ اور امن، رنگ اور نسل، یہ ایسے موضوعات ہیں، جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے۔ انسانیت کے خلاف جب جب ظلم ہوگا، انسان بے موت مارا جائے گا تو ادیب اپنی آواز ضرور بلند کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا دوسری عالمی جنگ سے نبرد آزما تھی تب ساحر لدھیانوی نے کہا تھا: 

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر          روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے          زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوںپہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے       جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی
آگ اور خون آج بخشے گی          بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانوں
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں 
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ادب ایک سماجی تاریخ کی بھی حیثیت رکھتاہے، جس میں کسی سماج یا ملک کی بدلتی ہوئی تہذیب کی تصویریں صاف نظر آتی ہیں۔ اس میں کسی نہ کسی سطح پر سماج کی اعلیٰ و ادنیٰ تہذیب کو بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اس اعلیٰ و ادنیٰ تہذیب کی سیاست میں وقت کا اہم رول ہوتا ہے، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ ادیب چوں کہ عام آدمی سے زیادہ حساس ہوتا ہے، اس لیے وہ زیادہ متاثر ہوتا ہے اور جو کچھ اسے محسوس ہوتا ہے، اسے اپنی تخلیقات میں پرو کر معاشرے کے سپرد کر دیتا ہے۔ جیسے:
چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز              ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم 
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں              اپنے اجداد کی میراث ہے مجبور ہیں ہم
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں          اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
فیض
ادب اور سماج کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے بالخصوص بیسویں صدی کے نصف اول میں، یہ رشتہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوگیا تھا، جب کہ انگریزوں کے ذریعے کیے جا رہے ظلم و ستم اپنی انتہا پر تھے۔ تقسیمِ بنگال پر پہلی بار یہاں کی عوام نے اپنے غم وغصے کا اظہار کھل کر کیا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حالی اور شبلی دو ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے ملک کی یکجہتی اور حب وطن کا اظہار سب سے پہلے کیا۔
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو            اٹھو اہلِ وطن کے دوست بنو
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر           نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر
ملک ہیں اتفاق سے آزاد                   شہر ہیں اتفاق سے آباد
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی                  اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی
شبلی مسلم لیگ کے سخت مخالف اور کانگریس کے زبر دست حمایتی تھے۔ مسلم لیگ کے بننے پر انہوں نے کہا تھا:

لیگ کی عظمت و جبروت سے انکار نہیں                    ملک میں غلغلہ ہے شور ہے، کہرام بھی ہے
مختصر اس کے فضائل کوئی پوچھے تو یہ ہیں             محسنِ قوم بھی ہے اور خادمِ حکام بھی ہے


پنڈت برج نرائن چکبست کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں کافی اہم ہے۔ ان کی شاعری میں حب وطن اورقومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ جہدِ آزادی میں ان کی شاعری وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔ ان کی شاعری کے بارے میں کالی داس گپتا رضا اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’اگر چکبست نہ ہوتے تو اردو شاعری بیسوی صدی کے آغاز کی سیاسی بیداری کے تذکرہ سے محروم رہ جاتی‘‘

چکبست کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر سیاسی واقعات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ جوانوں کے جینے کے ڈھنگ پر افسوس ظاہر کر تے ہوئے وہ کہتے ہیں:
موجود ہے جن بازؤں میں زور جوانی                   طوفاں سے انہیں کشتیِ قومی ہے بچانی
پر ہے مئے غفلت سے سروں میں یہ گرانی            آرام پسندی میں یہ رکھتے نہیں سانی
پہلو میں کسی کے دلِ دیوانہ نہیں ہے
ہیں مرد مگر ہمت مردانہ نہیں ہے


اس سلسلے کی چکبست کی نظمیں ’لارڈ کرزن سے جھپٹ ‘،’ فریادِ قوم‘ ،’ وطن کا راگ‘ اور’ ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا‘، خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی نظمیں ہیں، جن میں آزادی کے متوالوں کی ہمت کو بڑھانے کی کوشش نظر آتی ہے۔

آئے ہیں آپ تو کچھ حضرتِ کرزن ! سنیے                آپ اگر منھ کے کڑے ہیں تو ہوں میں بھی منہ پھٹ
آگیا طیش مجھے، دل کا نکالوں گا بخار                     صاف کہتا ہوں، نہیں بات میں اپنی بنوٹ
جس سے ناشاد رعایا ہے وہ ہے دور ترا
کردیا ملک کو اس پانچ برس میں چوپٹ
تو ہوجانے پہ جو راضی تو قسم سر کی ترے           کرکے چندہ تجھے ہم لے دیں ولایت کا ٹکٹ
اور جو تجھ کو نہیں منظور یہ احساں لینا                 بھیج دیں ہم تجھے بیرنگ بناکرپیکٹ
کونسل کے جو ترے ممبرِ سرکاری ہیں
وہ بھی کم بخت ہیں سب چور کے ساتھی گٹھ کٹ
یا الٰہی! یہ چلی بادِ مخالف کیسی              آگیا اُڑکے جو لندن سے یہ کوڑا کرکٹ

اسی طرح اپنی نظموں میں چکبست ہندو اور مسلمان دونوں قوم کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں :
بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤ ہشیار                       اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار                   تو زیرِ موجِ فنا ہوگا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھیشم و ارجن کا نام ڈوبے گا
اسی طرح مسلم نوجوانوں کے خون کو گرماتے ہوئے کہتے ہیں :
دکھا دو جوہرِ اسلام ائے مسلمانو!                    وقارِ قوم گیا قوم کے نگہبانو!
ستون ملک کے ہو قدرِ قومیت جانو!                 جفا وطن پہ ہے، فرضِ وفا کو پہچانو!
نبیِ خُلق و مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شانِ حمیت کی یادگار ہو تم
یہ ایک طویل نظم ہے جو پوری طرح سے جوش و خروش میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک میں ہوم رول کی مانگ بہت زوروں پر تھی۔ ایسے میں چکبست نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:
یہ جوشِ پاک زمانہ دبا نہیں سکتا                            رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا                       دلوں میں آکے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
ایک اور نظم جس کا عنوان ہے،’ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا‘ سے بھی ایک بند ملاحظہ ہو :
ہو ہوم رول حاصل ارمان ہے تو یہ ہے                         اب دین ہے تو یہ ہے ایمان ہے تو یہ ہے
برطانیہ کا سایہ سر پر قبول ہوگا                                 ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا
محمد اقبال نے اپنی شاعری کا آغازحب وطن سے سرشار نظموں سے کیا تھا۔ اردو شاعری میں ان کا نام اس وقت سب سے پہلے لیا جاتا ہے، جب ہم روسی انقلاب سے متاثر ہونے والے شاعروں کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے مارکسیت سے اقبال ہی متاثر ہوئے اور کہا:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!                                   کاخِ امرأکے درودیوار ہلا دو!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے                                      کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
جاگیر دارانہ نظام سے تنگ آ کر یہاں تک کہا دیا کہ:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے                       مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے


۱۹۲۹ء میں کانگریس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا، جس میں کانگریس نے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اسے حاصل کرنے کے لیے گاندھی جی کی قیادت میں سِوِل نافرمانی کی تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بھی طئے کیا کہ 26 جنوری ۱۹۳۰ء کو پورے ملک میں یومِ آزادی منایا جائے اور ایسا ہی ہوا۔ پورے ملک میں یوم آزادی منایا گیا اور کانگریس کا ترنگا جھنڈا لہرا یا گیا۔ اس موقع پر لوگوں نے ایک حلف بھی لیا تھا، جس کے الفاظ اس طرح تھے:


’’ہندوستان میں برطانوی حکومت نے ہندوستانی عوام کو نہ صرف آزادی سے محروم کیا ہے بلکہ اس کی بنیاد ہی عوام کی لوٹ کھسوٹ ہے اور اس نے ہندوستان کو معاشی، سیاسی اور تہذیبی طور سے برباد کیا ہے۔ اس لیے اب ہم اسی میں یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کو برطانیہ سے تعلق توڑ کر مکمل آزادی حاصل کرنا چاہیے۔‘‘


اس حلف نامے کے الفاظ سے عوامی بیداری، سیاست دانوں کے خیالات اور مکمل آزادی کی مانگ میں شدت کا آنا سبھی کچھ ظاہر ہے۔ سِوِل نافرمانی کی تحریک جیسے ہی شروع ہوئی، گاندھی جی اورجواہر لال نہرو جیسے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے کہا کہ :

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں             اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں         تقدیرکے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
کیا ان کو خبر تھی، سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے       اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے        اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں


انگریزوں کے خلاف جوش کے جذبات کا طوفان آتش فشاں کی طرح پھٹا پڑتا ہے۔ اس سے، ان کے سینے کے اندر کے طوفان، جلن اور تپش کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔انگریزوں کے خلاف جوش کے تیور ان کی نظم’’ نعرۂ شباب‘‘ میں دیکھنے کے لائق ہے:
دیکھ کر میرے جنوں کو ناز فرماتے ہوئے                           موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے
تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں                       ہڈیاں اس کفرو ایماں کی چبا ڈالوں گا میں!
پھر اٹھوں گا ابر کے مانند بل کھاتا ہوا                                گھومتا، گھرتا، گرجتا، گونجتا، گاتا ہوا
ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا                                   موت کے سائے میں رہ کر، موت پر چھایا ہوا
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
اب تک ہم نے جتنے شاعروں کی تخلیقات سے جہدِ آزادی کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ان سبھی نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو جہدِ آزادی میں حصہ لینے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اکسایا بلکہ وہ خود بھی اس میں بہ نفسِ نفیس شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ وہ کبھی بھی آنے والے کل سے مایوس نہیں ہوئے۔ انہیں یہ بھروسہ تھا کہ آنے والا کل آج جیسا نہیں ہوگا بلکہ وہ آج سے بہتر ہوگا، جس سے ایک نئے عہد کی شروعات ہوگی۔ اس نئی امید کی کرن کے بارے میں جوش نے کہا کہ:
اٹھو وہ صبح کا غُرفہ کھلا زنجیر شب ٹوٹی                   وہ دیکھو پَو پھٹی غنچے کھلے، پہلی کرن پھوٹی
اٹھو، چونکو، بڑھو، منھ ہاتھ دھو، آنکھوں کو مل ڈالو
ہوائے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو
مجاز نے عمر کے اعتبار سے بہت ہی کم عمر میں رومان سے انقلاب کی طرف رخ کیا۔ اپنی والہانہ شاعری کی بدولت پورے ملک میں نو عمری ہی میں ان کی ایک پہچان قائم ہو گئی تھی۔ جدو جہد آزادی جیسے جیسے تیز ہوتی گئی ویسے ویسے اردو شاعری کے تیور بھی نکھر تے گئے۔ اس مرحلے پربھلا وہ پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ مجازکی نظم ’انقلاب،سے ان کے تیور کی مثال ملاحظہ ہو:
آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے
کوہ و صحرا میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی                    رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی
سر کشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی                    ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی
خون کی بو لے کے جنگل سے ہوائیں آئیں گی
خوں ہی خوں ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی


یہاں ایک بات کا ذکر خاص طور سے کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب تک ہم نے جتنی باتیں کیں، ان میں عورتوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں آیاہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے یہ محسو س کیا کہ بغیر عورتوں کے شامل ہوئے جد وجہد آزادی میں شدت نہیں پیدا ہوگی، اس لیے اس تحریک میں عورتوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔ یہ سوچ کر ترقی پسند ادیبوں نے عورتوں کو بھی جہد آزادی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اس سلسلے میں مجاز نے عورتوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ:
ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے 
اگر تو سازِ بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا
سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے                        تو سامانِ جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل کا اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
(نوجوان خاتون سے)
اردو شاعری کی یہ پہلی آواز ہے، جب عو رت کو مرد کے ہم قدم چلنے کی دعوت دی جا رہی ہے، اس کے بعد اس آوازکو مزید تقویت سلام مچھلی شہری نے عطا کی۔ انہوں نے مجاز سے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ:
مجھے تو ہمدمو ہمراز چاہیے ایسی                جو دستِ ناز میں خنجر بھی چھپائے ہوئے
نکل پڑے سَرِ میداں اڑا کے آنچل کو              بغاوتوں کا مقدس نشاں بنائے ہوئے
اٹھا کے ہاتھ کہے! ’’انقلاب زندہ آباد‘‘               لہو سے مثلِ دلہن مہندیاں رچائے ہوئے( شرائط )


یہ نئی لہر جو اٹھی تو آگے اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تقسیمِ بنگال سے لے کر آزادی حاصل کرنے تک کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی تحریک نہیں، جس میں شامل ہونے اور انگریزمخالف آوازکو تیز سے تیزتر کرنے کے لیے اردو شاعروں نے اپنی تخلیقات نہ پیش کی ہوں۔ یہاں اس مضمون میں کچھ چنندہ شاعروں کی تخلیقات سے ہی مثالیں پیش کی جا سکیں مگر کوشش یہ رہی کہ نمائندہ شاعروں کی نظموں سے ہی مثالیں پیش کی جائیں تاکہ اس وقت کی عوام کی آواز، چل رہی تحریکوں اور عوام کی آرزوؤں و امنگوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ 

اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے مخدوم کا نام لینا ضروری ہے۔ کیوں کہ مخدوم کی آوازپچاس کی دہائی کی نمائندہ آوازوں میں سے ایک تھی۔ مخدوم کا لہجہ اپنے وقت کا انوکھا لہجہ تھا۔ کیوں کہ’’خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے‘‘۔ یہ بڑی امنگوں اور ولولوں کے شاعر تھے۔ شاید اسی لیے’’نئی دنیا نیا آدم‘‘ بنانے کی سوچ رہے تھے:


وقت ہے آؤ دو عالم کو دگرگوں کردیں                         قلبِ گیتی میں تباہی کے شرارے بھر دیں
پھونک دو قصر کو گر کن کا تماشہ ہے یہی                 زندگی چھین لو دنیا سے جو دنیا ہے یہی
زلزلو آؤ دہکتے ہوئے لاؤ آؤ          بجلیو آؤ گرجدار گھٹاؤ آؤ
آندھیو آؤ جہنم کی ہواؤ آؤ                  آؤ یہ کرۂ ناپاک بھسم کرڈالیں
کاسۂ دہر کو معمورِ کرم کر ڈالیں

یہ گرجدار آواز اردو شاعری کی اس وقت کی سب سے مضبوط آواز ہے۔ انگریزوں کی حکومت کے خلاف جوشعلے اردو شاعروں کے دلوں میں دہک رہے تھے، تب تک ٹھنڈے نہیں پڑے، جب تک کہ مادرِ ہند کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ بیسویں صدی کے نصف اول کی شاعری کا ذکر اردو زبان کی تاریخ میں جب بھی کیا جائے گا تو جہدِ آزادی میں اردو شاعری کے رول کو خاص طور سے جگہ دینے کے لیے مورخ اپنے آپ کو مجبور پائے گا۔


کتابیات

ارجن دیو، اندرا ارجن دیو، ۱۹۹۵، تہذیب کی کہانی (حصہ اول و دوم)، این.سی. ای. آر.ٹی.، نئی دہلی
پرویز، اطہر، ۱۹۸۶، ادب کا مطالعہ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
جوش ملیح آبادی، ۱۹۷۷، شعلہ و شبنم، بھارتی پبلیکشنز، دہلی
چکبست، کا لی داس گپتارضا(مرتب)، ۱۹۸۱، کلیاتِ چکبست (نظم)، ساکار پبلشرز پرائیوٹ لمٹیڈ، بمبئی
ساحر لدھیانوی، ۱۹۷۹، آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، اسٹار پبلیکشنز (پرائیوٹ) لمٹیڈ، نئی دہلی
ساحر لدھیانوی، ۱۹۷۹، تلخیاں، انجم بک ڈپو، اردو بازار، دہلی
فیض احمدفیض، ۱۹۹۰، کلامِ فیض، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
مجاز، اسرار الحق، ۱۹۹۵، آہنگ، مکتبہ دین وادب، امین الدولہ پارک، لکھنؤ
مخدوم محی الدین، ۱۹۶۶، بساطِ رقص، استقبالیہ کمیٹی، جشنِ مخدوم، حیدر آباد (دکن)
عتیق احمد ، ۱۹۸۷، اردو ادب میں احتجاج ، مکتبہ عالیہ، لاہور
افضال احمد، ۱۹۷۵، چکبست: حیات اورادبی خدمات، چاندی خانہ، ڈیوڑھی آغا میر، لکھنؤ
خلیل الرحمن اعظمی، ۱۹۹۶، اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
درخشاں تاجور، ۱۹۹۱، ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اردو شاعری کا حصّہ،B/34، تیواری پور آواس وکاس کالونی، گورکھپور
یوسف تقی، ۱۹۸۰، ترقی پسند تحریک اور اردو نظم، دیارِ فکر و فن ، کلکتہ

نوٹ: یہ مضمون ۸ اگست ۲۰۱۰ کو روزنامہ منصف میں شائع ہو چکا ہے۔ 

اتوار، 23 دسمبر، 2012

Mere pasandeeda Sher

 میرے پسندیدہ شعر


خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

چھوڑ بھی دیجے تکلف شیخ جی
جب بھی آئیں، پی کے جایا کیجیے


شیخ کو تھوڑا نہ سمجھو یہ بہت ہوشیار ہیں
ساری دنیا چھوڑ بیٹھے حور و غلماں کے لیے



مئے تمہں ایسی پلا دیں گے تم آؤ تو سہی               ہوش کا نام بھلا دیں  گے تم آؤ تو سہی
آج کل روز ہے میخانے میں آنا جانا                  تم کو ساقی سے ملا دیں  گے تم آؤ تو سہی
Mai tumhen aisi pila denge tum aao to sahi!
Hosh ka naam bhula denge tum aao to sahi !!
Aajkal roz hai maikhaane mein aana jaana
!
Tum ko saaqi se milaa denge tum aao to sahi
!!

وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں
اسی لئے تو وہ رخ پہ نقاب رکھتے ہیں

حسرت جےپوری

تری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے

ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے۔

teri masjid me wa-iz khas hain auqaat rahmat ke
hamare maikade me rat din rahmat barasti hai

wa-iz:sermon, preacher

میں ان فقیروں سے کرتا ہوں تجارت اکثر
جو ایک پیسے میں لاکھوں کی دعا دیتے ہیں

मैं उन फ़क़ीरों से करता हूँ तिजारत अक्सर
जो एक पैसे में लाखों की दुआ देते हैं

main un faqiron se karta hun tijarat aksar
jo ek paise me lakhon ki dua dete hain

تو کبھی دیکھ تو روتے ہوئے آکر مجھ کو
روکنا پڑتا ہے آنکھوں سے سمندر مجھ کو

اس میں آوارہ مزاجي کا کوئی دخل نہیں
دشت و صحرا میں پھراتا ہے مقدر مجھ کو

ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کا مسافر ہوں میں
ہاں نگل جائے گا ایک روز سمندر مجھ کو

اس سے بڑھ کر میری توہین انا کیا ہوگی
اب گداگر بھی سمجھتے ہیں گداگر مجھ کو

زخم چہرے پہ، لہو آنکھوں میں، سینہ چھلنی،
زندگی اب تو اوڑھا دے کوئی چادر مجھ کو

میری آنکھوں کو وہ بینائی عطا کر مولا
ایک آنسو بھی نظر آئے سمندر مجھ کو

کوئی اس بات کو مانے کہ نہ مانے لیکن
چاند لگتا ہے تیرے ماتھے کا جھومر مجھ کو

دکھ تو یہ ہے میرا دشمن ہی نہیں ہے کوئی
یہ میرے بھائی ہیں کہتے ہیں جو بابر مجھ کو

مجھ سے آنگن کا اندھیرا بھی نہیں مٹ پایا
اور دنیا ہے کہ کہتی ہے 'منور' مجھ کو

شاعر: منور رانا
ملا کر ہاتھ ڈاکٹر سے یہ کیا کرتے ہو مولانا؟
بھلے لوگوں کے حق میں کیوں برا کرتے ہو مولانا؟
دوا خانے کی اوپننگ پر صحیح ہے فاتحہ لیکن؟
دوا خانے میں برکت کی دعا کرتے ہو مولانا؟
 मिला कर हाथ डाक्टर से यह करते हो मौलाना
मौलानाभले लोगों के हक़ में क्यों बुरा करते हो 
दवा ख़ाने की ओपनिंग पर सह़ी है फ़ातेहा लेकिन
 दवा ख़ाने में बरकत की दुआकरते हो मौलाना

واہ رے قسمت میری چور کے دھوکے میں کل
اپنے ہی سالےکو مارا رات کے بارہ بجے
سب پیکڑ کود کر بھاگے مگر پکڑا گیا
ایک مولانا بیچارا رات کے بارہ بجے


شرم ' دہشت ' ججھک ' پریشانی             ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں !!!

آپ ' وہ ' جی ' مگر ' یہ سب کیا ہے؟        تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں!!!

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے
کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے
مجھ پہ کُھلنے نہیں دیتا وہ حقیقت میری
حجلہء ذات میں رکھتا ہے وہ رُو پوش مجھے
کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے
میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے
ایک دو جام سے نیت مری بھر جاتی تھی
تری آنکھوں نے بنایا ہے بلانوش مجھے
تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی
مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے


جہاں سے وہ ہمیں ہلکی سی اک آواز دیتے ہیں
وہاں ہم جا پہنچتے ہیں محبت میں ہَوا ہو کر
معاذ اللہ! یہ عالم بُتوں کی خود نُمائی کا
کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خُدائی پر، خدا ہو کر
نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے  تارو!
نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں، مرے غم آشنا ہو کر
اِنہیں پھر کون جانچے، کون تولے گا نگاہوں میں
اگر کانٹے رہیں گلشن میں پھولوں سے جُدا ہو کر


میری غزل کے چند شعر
Pas se mere jab wo jane lagta hai
aanchal uska mujhko bulane lagta hai

Tanhai me mere khat ko padhte hi
jane khuda kya usko hone lagta hai

 Sundar mukhde aise bhi dikh jate hain
 phika tasawwur-e-shaeri lagne lagta hai


Adhuri Nazm

us ne kiya tha message mujh ko
aao na janaN milna hai mujh ko

dil me izteraab bahot hai
milne ki tumse chaah bahot hai
Shaam huyi ke ghor andhera
har su jaise bhut ka dera
aise me yaad aate ho mujhko
aao na janaN milna hai mujh ko


اس نے رخ سے ہٹا کے زلفوں کوہائے! شرما دیا اجالوں کوجب نظر سے نظر دو چار ہوئیایک برچھی جگر کے پار ہوئیاِس طرف سے اُدھر کو رخ جو کیاجانے کتنوں کے دل کو موہ لیاجاتے جاتے جو مڑ کے دیکھ لیاہائے میرے بھی دل کو لوٹ لیا


منگل، 4 دسمبر، 2012

کتے از پطرس بخاری

کتے

علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجیے دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجیے دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی، یہ کتے کیا کرتے ہیں؟
کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے، کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آ کر طرح کا ایک مصرع دیدیا۔
ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ دیا۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔
اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیے، کم بخت بعض تو دو غزلے سے غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ ” آرڈر آرڈر” پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پردھان کی کبھی کوئی سنتا ہے؟ اب ان میں سے کسی سے پوچھیے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے اور پھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔
اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوت کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابل تعریف بھی ہے۔ اسکا ذکر ہی جانے دیجیے اسکے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بار ہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا، خدا کی قسم انکے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتنے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی ” بخ ” کر دی اور پھر منہ بند کر کے کھڑا ہو گیا۔
ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر ” بخ ” کر دی۔ چوکیداری کی چوکیداری اور موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتنے ہیں کہ نہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر، تان پہ تان لگائے جاتے ہیں۔ بیتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی لیے جاتے ہیں۔
bully gultair dog
bully gultair dog
گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں۔ لیکن ہم سے قسم لے لیجیے جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی سیتا گرہ سے منہ موڑا ہو۔
شاید آپ اسکو تعلی سمجھیں لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پر ہاتھ اٹھا ہی نہ سکا۔ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہیے کہ دافع بلیات ہے لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غالب پا جاتی ہے کہ آپ اگر ہمیں اسوقت دیکھیں تو یقینا یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔
شاید آپ اسوقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبعیت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی آپ کے ذہن سے اتر جائیگی اسکی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔
بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجے چھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آ رہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نو مشقی کا عالم بھی ہے اسلیے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بے سرے بھی ہو گئے تو کوئی یہی سمجھے گا کہ انگریزی موسیقی ہے، اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا، ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔
گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے چھڑی کی گردش دھیمی دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول، زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہو گئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔
طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔ چونکہ ہم طبعا ذرا محتاط ہیں۔ اس لیے آج ک کتے کے کاٹنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا ہے۔ یعنی کسی کتنے نے آج تک ہم کو کبھی نہیں کاٹا اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سرگزشت کی بجائے آج ہمارا مرثیہ چھپ رہا ہوتا۔ تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتا کہ ” اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو”
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجیے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ایک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں اور بوڑھوں سب ہی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم اسنفد یار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کیلئے بھونک لے تو ہم بھی چاروناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔ ( اگرچہ ایسے وقت میں اسکو زنجیر سے بندھا ہونا چاہیے۔ )
لیکن یہ کم بخت دو روزہ، سہہ روزہ، دو دو تین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذرا سا پھیپھڑا اس پر بھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں۔ چلتی موٹر کے سامنے آ کر گویا اسے روک ہی تو لیں گے۔ اب اگر یہ خاکسار موٹر چلا رہا ہو تو قطعا ہاتھ کام کرنے سے انکار کر دیں لیکن ہر کوئی یوں انکی جان بخشی تھوڑا ہی کر دیگا؟ کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انکی آواز سوچنے کے تمام قوی معطل کر دیتی ہے۔
dogs in night
dogs in night
خصوصا جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے انکا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کر دے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کیطرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ انکا شور، کچھ ہمارے صدائے احتجاج ( زیرلب) بے دھنگی حرکات و سکنات ( حرکات انکی، سکنات ہماری) اس ہنگامے میں دماغ بھلا خاک کام کر سکتا ہے؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مار لے گا؟
بہر صورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر انکا ایک نمائندہ شرافت کیساتھ ہم سے آ کے کہہ دے کہ عالی جناب، سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون و چرا کیے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔
ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑک ناپنے میں گزار دی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔ ( قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر انکا کوئی عزیز و محترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں)
خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتے اسکے کلیے سے مستنثنیٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا۔ اسکے جسم میں تپسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بار گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کیساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کیلئے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانسی کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سر کو وہیں زمیں پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتحال کو ایک نظر دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔
کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کیساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کیخلاف سمجھتے ہیں۔
dog sleeping
dog sleeping
رات کے وقت یہی کتا اپنی خشک، پتلی سی دم کو تا بحد مکان سڑک پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا۔ انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کر دی۔” بچہ فقیری کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں”۔ بس اسی فقیر کی بددعا سے اسی وقت رعشہ شروع ہو جاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بیشمار کتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چار پائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔
اگر خدا مجھے کچھ عرصے کیلئے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے، رفتہ رفتہ سب کتے علاج کیلئے کسولی پہنچ جائیں۔
ایک شعر ہے۔
عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
یہی وہ خلاف فطرت شاعری ہے جو ایشیا کیلئے باعث ننگ ہے، انگریزی میں ایک مثل ہے کہ ” بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے ” یہ بجا سہی، لیکن کون جانتا ہے کہ ” ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کر دے، اور کاٹنا شروع کر دے۔
تحریر: احمد شاہ پطرس بخاری

How to use voice typing in Urdu