منگل، 20 جون، 2023

علمِ عروض کا ارتقا: فارسی سے اردو تک

علمِ عروض کا ارتقا: فارسی سے اردو تک

     ایران میں عروض اور شاعری سے متعلق عام خیال یہ تھا کہ یہاں شاعری کا وجود نہ تھا۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اردو کے ایک اہم عروض داں سلیم جعفر اپنے ایک مضمون ’گاتھا کا عروض ‘ میں لکھتے ہیں :

          ’’ایران پر پرچمِ اسلام لہرانے کے بعد ایک ادیب نے لکھا کہ ایران میں مسلمانوں کے آنے سے پہلے شعر نہ تھا ۔صدیوں تک یہ خیال دنیا میں قائم رہا۔خود ایرانی اور غیر ایرانی اس قابل نہ تھے کہ اس کی تردید کرتے۔مصالحہ موجود تھا غلطی فوراً رفع کی جاسکتی تھی لیکن تحقیقات کے تنگ وسعت دائرے نے لبوں پر مہرِ خاموشی لگادی۔کوئی مخالفت کی بنا پر قلم اٹھاتا تو کس بنا پر؟رفتہ رفتہ زمانے  نے ترقی کی۔۔۔پہلے یوروپ نے اس طرف قدم اٹھایا، اس نے پارسیوں کی کتاب پڑھ کر فیصلہ کیا کہ ایران میں اسلام سے پہلے شعر تھا۔ خود ایرانیون کا ادب اتنا تباہ و برباد ہو چکا تھا کہ اس سے مدد لینا ممکن نہ تھا ۔اس لیے دعوے کو سنسکرت کی مدد سے مستحکم کرنے کی کو شش کی۔‘‘ ؎۱

      اپنے اسی مضمون کے آخر میں گاتھا کے عروض ست متعلق نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’در حقیقت گاتھا کا منظوم ہونا تو اس بنا پر مسلم ہے کہ اس میں مصراع ہیں ،توازن ہے، اور ہر مصرع میں اصول کی تعداد مقرر ہے۔ ‘‘۲؎

                 اسی طرح الیاس عشقی لکھتے ہیں :

      ’’اوستا ژند پاژند اور گاتھا میں ایران کی قدیم ترین شاعری کے نمو نے ملتے ہیں ۔ایک مدت تک تو مو ضوع زیرِ بحث رہا یہی رہا کہ آیا ان مذہبی صحیفوں میں کوئی وزن بھی موجود ہے یا نہیں لیکن ایران میں پور داؤد کی اکتشافی کو ششوں سے اور ہندوستان میں سلیم جعفر صاحب کی مساعی سے یہ ثابت ہو گیا کہ ان صحیفوں کے بعض حصوں میں کچھ مخصوص قسم کے اوزان پائے جاتے ہیں، جن سے ایرانِ قدیم کے عروض کے متعلق کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایران کے قدیم عروض کے متعلق جے ایچ مولٹن کی ’ایران کی ابتدائی شاعری‘ اے وی ولیم جیکسن کی’ ابتدائی ایرانی شاعری‘اور پور داؤد کی ’ زرتشت گاتھا‘ اور پروفیسر اے کرسٹنسن اور براؤن کی بعض تحریروں سے مفیدمعلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ پور داؤد نے سب سے پہلے بتا یاکہ اوستا کی (۱۰۱۶)سطروں میں سے ۲۷۸ میں وزن مو جود ہےاور ان میں ۲۳۸ بند یعنی ۸۹۶ سطریں گا تھا کی ہیں ۔ساسانیوں کے عہد میں جس شاعری کا وجود سرکش اور بارید وغیرہ کی تحریروں میں ہوگا، اس کے اوزان کسی نہ کسی صورت میں انھیں مذہبی صحیفوں کے اوزان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ان صحیفوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانِ قدیم کے عروض میں اوزان عربی عروض سے مختلف ہی نہ ہوں گے بلکہ اس کے اصول بھی صرفی زبان کے اصول سے مختلف ہوں گے۔’پندارِ رازی‘ میں فہلویات کے تحت جو مثالیں دی گئی ہیں، ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔فہلویات کے علاوہ بعض قدیم لوک گیتوں کے اوزان کے مطالعے سے بھی ذہن یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں ایران میں جو عروض رائج ہو گا اس کی بنیاد اجزائے الفاظ کے اشباع و ادغام اور ان کے مختلف اجزا کی توکید پر ہوگی۔جیسا کہ ان لوک گیتوں سے ظاہر ہوتا ہے؎

 بہی کن بہی بہ دل ازکینہ تہی بہ

ہماکس کہ بدی کرد       ہم او گفت بہی بہ

بیا بریم تا مے خوریم شراب ملک دے خوریم

      حال نہ خوریم پس کے خوریم

دی شب کہ بارون اومد  یادم لب بون اومد

رفتم لبش ببوسم          نازک بو خون اومد

خونش چکید تو بغچہ         یہ دسہ گل دراومد

      یہاں باران‘ کے بجاے بارون‘ اور بام کے بجاے بون،یک کے بجاے یہ اور دستہ کے دسّہ استعمال ہوا ہے ۔چوں کہ ان گیتوں  کا وزن توکیدی اجزائے الفاظ پر ہے اور فارسی زبان میں چھوٹے اجزا کے الفاظ کی کمی قدرتی طور پر واقع ہوئی ہے۔ اس وجہ سے عربی عروض کو بھی خاصی ترمیم کے بعد ہی ایران میں رائج کیا جا سکا۔خلیل بن احمد اور ابوالحسن اخفش کی کوششوں  اور تجربوں نے اس مشکل کو حل کیا اور اسی وجہ سے اس زمانے سے آج تک عربی عروض میں عرب و عجم کی تقسیم چلی آتی ہے۔‘‘۳؎

      پرویز خان لری بھی کہتے ہیں لفظ گاتھا خود سرود اور شعر کے معنی میں ہے۔اور یہ اوستا کی ایک قسم ہے ۔مستشرقینِ مغرب نے نہ صرف اس میں مستعمل اوزان کا پتہ لگایا بلکہ ان کے قواعد و ضوابط کا تعین بھی کیا ہے۔گاتھا کے علاوہ اوستا کی ایک اور قسم یشتہا ہے اور منظوم ہے مگر گاتھا اور یشتہا کے اوزان میں فرق پایا جاتا ہے۔ گاتھا کے اشعار ۱۱ ، ۱۲، ۱۴، ۱۶ اور ۱۹ ہجائی ہیں جب کہ یشتہا کے اکثرا اشعار ۸ ہجائی ہیں ۔اس کے کچھ اشعار ۱۰؍ اور ۱۲؍, ہجائی بھی دیکھنے میں آئے ہیں ۔خان لری کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزنِ اوستا موجود عروض سے مشابہت نہیں رکھتا۔پہلوی زبان میں وزنِ شعر کے حوالے سے خان لری لکھتے ہیں کہ ایک مدت تک یہی خیال کیا جاتا رہا کہ ایرانی شاعری نہیں جانتے تھے اور انھوں نے یہ فن عربوں سے سیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ اشکانیان اور ساسنیان عہد کی زبان میں شعر کے نمونے ندارد تھے لیکن ایف سی اندریس نے اس زبان میں لکھے گئے کتبے ( شاہپور در حاجی آباد) میں بتا یا کہ یہ ہفت یا ہشت ہجا پر مبنی مصرع ہیں جن میں زور Accent کی جگہ متعین ہے۔۴؎

      اس کے بعد تورفان میں مانی مذہب سے متعلق کتابیں بھی دستیاب ہوئیں اور ان میں بھی اشعا ر موجود ہیں ۔بہت سے محققین نے اس سلسلے میں مزید تحقیقات کیں، جن میں کریستن سن ، بنو نیست فرانسوی ، ایچ ایس نے برگ Nyberg اور M W Hennig وغیرہ کے نام اہم ہیں۔  جنھوں نے مختلف اوستائی اور پہلو ی زبان میں مستعمل وزن پر گراں قدر تحقیقات پیش کیں ۔ان میں سے اکثر کا یہ خیال ہے کہ یہ اوستا اور پہلوی زبان میں مستعمل وزن ہجائی وزن تھا کمی نہیں ۔ کریستن سن کا خیال ہے کہ:

           ’’ از اصولِ کمّی کہ از عروجِ عرب ماخوذ است ؛بحر متقارب حتی شکلِ مثنوی در شعر فارسی پیش از اسلام وجود داشتہ و قافیہ نیز بکار بردہ اند‘‘ ۱۹

      وہ آگے لکھتے ہیں کہ

 ’ بعضے ازنظم ِ قواعدِ فارسی کہ از عربی مقتبس است در حقیقت میراث سانیان شمردہ می شود و آنانگاہ سوالی مطرح می شود و آن اینست کہ آیا ممکن نیست کہ درزمان ہائے پیش از اسلام عرب در صنعتِ شاعری بعض نکات را از ایرانیان اقتباس کردہ باشد‘‘۵؎

       ڈاکٹر پرویز خان لری نے اپنی کتاب ’ وزنِ شعر فارسی ‘ اور’ تحقیقِ انتقادی در عروضِ فارسی و چگونگی تحول اوزانِ غزل‘( انتشاراتِ دانشگاہِ تہران ، ۱۳۲۷ھ)میں ’ کتاب المسالک والممالک ( تالیف ۲۳۰ ھ کے آس پاس)بہرام ،ابو ینبغی( اواخرِ قرون دوم یا اوائلِ قرونِ سوم) کے اشعار نقل کیے ہیں ۔اسی طرح انھوں نے’مجمل التواریخ،تاریخِ سیستان اور دیگر تاریخی کتابوں میں قبل از آمدِ اسلام دور کے اشعار در ج کیے ہے ۔جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ایران میں بھی شعر کہے جاتے تھے اور ان کا پنا عروضی نظام بھی رہا ہو گا ۔ جسے ایران کی تباہی اور عرب اثرات کے سبب فراموش کردیا گیا اور اس کی جگہ عربی عروض کو اپنا لیا گیا۔۶؎

       مغربی مستشرقین کے علاوہ ہندوستانی اورایرانی محققین نے بھی اس سلسلے میں کوششیں کی ہیں ،جن میں دولت شاہ سمرقندی،محمد صالح کنبوہ( بہارِ سخن)،رضا علی خان،خان آرزو، محمد حسین آزاد ،میرزا عباس خاں آستیانی معرف بہ اقبال وغیرہ پیش پیش ہیں ۔ لیکن پرو فیسر محمود شیرانی کو ان کے نظریات سے اختلاف ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’ فارسی شاعری اور اس کی قدامت‘ میں مذکورہ مصنفین کی آرا کا جائزہ لیا ہے ۔۷؎

      فارسی میں ابتدائی دور کے عربی عروض کے نقوش بھی کچھ باقی رہے اور کچھ مٹ گئے۔ابتداً عروض سے متعلق کون سی کتابیں لکھی گئیں ،اس کی تفصیلات دستیا ب نہیں ۔ پروفیسر محمود شیرانی فارسی عروض کی تاریخ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

          ’’بد قسمتی سے عروض کی تاریخ کی غیر حاضری نے ہمارے کام کو بے حد دشوار بنا دیا ہے۔ہم کو یہ معلوم ہے کہ فارسی عروض بہ تتبعِ عرب ایجا د ہوئی۔لیکن وہ ہستیاں جنھوں نے اس کی ترویج میں محنت کی،اور وہ ہاتھ جنھوں نے اس کی تعمیر کی بنیاد ڈالی ،افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ آج ہم ان کی حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ابتدائی حالات کی جو کڑیاں دوسری ،تیسری اور چوتھی صدی ہجری سے تعلق رکھتی ہیں ،سب برباد ہو گئیں ۔پانچویں قرن میں اس پر مستقل تصنیفات معتد بہ مقدار میں لکھی جا چکی ہیں ،لیکن عنصر المعالی کیکائوس کے بیان کے سوا سب کچھ مفقود ہے۔‘‘ ۸؎

       حافظ محمود شیرانی نے مولانا یوسف عروضی نیشا پوری کو فارسی عروض کا ابو البشر قرادیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا فارسی عروض سے وہی رشتہ قائم کیا ہے جو عربی عروض کو خلیل کے ساتھ ہے۔یوسف قرن چہارم میں گزرے ہیں عروض میں وہ صاحبِ تصنیف تھے ۔بحرِ قریب ان ہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔پروفیسر محمود شیرانی کا خیال ہے کہ فارسی عروض عربی عروض سے یوسف نیشاپوری کے ز مانے سے قبل ہی اپنی جداگانہ شناخت کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا ۔وہ لکھتے ہیں :

          ’’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ عروض کی تدوین مالانا یوسف عروضی کے ہاتھوں سے ہوئی ہے،عروضِ فارسی یقیناً ان کے عہد سے پیش تر عربی عروض سے علیٰحد ہو چکی تھی۔چنانچہ حنظلہ باد غیسی ۲۱۹ھ اور محمد بن وصیف سجزی کے اشعار میں ،جو یعقوب بن لیث صفار کے عہد کا ادیب ہے،اور رودکی نظموں میں ،جو ۳۲۹ھ میں وفات پاتا ہے ،ایسے اوزان ملتے ہیں جو فارسی طرزِ عروض کے رنگ میں ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسرے قرن میں فارسی عروض اپنے مدارجِ ارتقا میں کافی ترقی کر چکا تھا۔‘‘۹؎

      رودکی کے ایک معاصر فرالاوی نے بحرِ مقلوب طویل ایجاد کی ۔ عبداللہ فوشی نے دائرۂ منعکسہ ایجاد کیا ۔ابوالحسن علی البہرامی نے غایۃ العروضین ، کنز القافیہ اور خجستہ نامہ تالیف کیں ۔غایۃ العروضین اس کی بہت اہم کتاب ہے۔بہت دنوں تک یہ کتاب فارسی اور عربی عروضیوں کے لیے ایک اہم اور معتبر ماخذ بنی رہی۔اس کتاب کے حوالے محقق طوسی، شمس الدین محمد بن قیس جاراللہ زمخشری کے یہاں  بکثرت ملتے ہیں ۔ ۱۰؎۔نظامی عروضی ’ چہار مقالہ ‘ میں اسے ان کتابوں میں شامل کرتے ہیں جن کا مطالعہ شاعر کے لیے لازم ہے۔’کنز القافیہ در معرفتِ قوافی‘ کو نظامی انھیں کی تصنیف قرار دیتا ہے۔ اسی طرح’ خجستہ نامہ در علمِ عروض ‘ کولباب الاباب میں انھیں سے نسبت دی گئی ہے۔اسی زمانے میں بزرچمہر نے بحرِ جدید دریافت کی ۔بقول حافظ محمود شیرانی اسی بزرچمہر اور بہرامی نے اکیس نئی بحریں ایجاد کیں ۔وہ اکیس بحریں یہ ہیں :

      ۱۔صریم  ۲۔کبیر    ۳۔مذیل۴۔ قلیب۵۔حمید۶۔صغیر۷۔ اصیم۸۔سلیم۹۔حمیم۱۰۔مصنوع۱۱۔مستعمل۱۲۔اخرس ۱۳۔مبہم            ۱۴۔ معکوس۱۵۔مہمل۱۶۔وطع۱۷۔مشترک۱۸۔معمم۱۹۔مستر۲۰۔معین اور۲۱۔ باعث۔

                پہلی نو بحریں دائرۂ منعکسہ سے تعلق رکتی ہیں ، جس کے موجد عبد اللہ فوشی ہیں ۔بعد کی دائرہ منعلقہ سے اور آخری چھ دائرۂ منغلطہ سے۔اسی قرن میں وزن رمل مثمن مشکول دریافت ہوتا ہے ۔جس کی سب سے پہلی مثال خواجہ مسعود بن سلمان کے ہاں ملتی ہے۔۱۲؎

                رشید االدین وطواط کے معاصر فطّان نے شجرۂ اخرم و اخرب ایجاد کیا ۔ محمود شیرانی کے مطابق اس قرن میں مندرجہ ذیل اوزان وجود میں آئے:

                 رجز مطوی :متاخرین نے خبن اور طی کی تکرار سے ( مفاعلن مفتعلن یا اس کے عکس مفتعلن مفاعلن ) خوشگوار اوزان نکالے۔۱۳؎

                مخبون مطوی :         زنیکواں لطف و کرم سزا تر از جو رو ستم   مدار ازین بیش بہ غم دلِ مرا ماہ رخا

                                 ( مفاعلن مفتعلن مفاعلن مفتعلن)

      مطوی مخبون:          چشمۂ خضر ساز آب از لب جام کو ثری     کز ظلمات بحر جست آئینۂ سکندری

                 ( مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن)

      حافظ محمود شیرانی کے کے بقول یہ وزن انوری کے یہاں نہیں ملتا پہلی بار اس اس وزن کو خاقانی نے اپنے قصائد میں برتا ہے۔محقق طوسی نے وزن ثمانی کا ذکر بھی کیا ہے جو دو وتد اور ایک سبب سے بنتا ہے ۔جسے مفاعلاتن سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔اس کی مربع اور مثمن دونوں شکلیں ملتی ہیں ۔ مثمن کی مثال امیر خسرو سے منسوب یہ شعر ہے۔

     زحالِ مسکیں مکن تغافل دراآی نیناں بنائے بتیاں

     چوں تابِ ہجراں ندارم ای جاں نہ لیو کاہے لگائے چھتیاں        ( مفاعلاتن ×۴)

      عصمت بکاری کے یہاں بھی اس وزن میں اشعار پائے جاتے ہیں ۔شیرانی کے مطابق مندرجہ ذیل اوزان متا خرین کی ایجاد ہیں ۔

     گر تیغ بارد در کوی آن ماہ        گردن نہادیم الحمد للہ               (حافظ شیرازی)

                  فعلن فعولن فعولن فعولن، متقارب مثمن اثلم

     چست کن قبا بر تن تند کن فرس بر من    گہ بسینہ جولاں زن گہ بدیدہ میداں کن                 (امیر خسرو دہلوی)

                 فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن، بحر ہزج مثمن اشتر

     رای پتھورا پوری داشت       پور نگویم حوری داشت             ( امیر خسرو دہلوی)

                 فعل فعولن فعل فعل بحر متقارب مثمن اثرم محذوف

     سرو گلعذار منی ، فصلِ نو بہار منی           من اگرچہ ننگِ تو ام عز و افتخار منی            (مولانا جامی)

                 فاعلاتُ مفتعلن فاعلاتُ مفتعلن ،بحر مقتضب مثمن مطوی

     زلفِ معنبر بر مۂ رویت تیرہ شب ست و آتشِ موسیٰ

     جامۂ صبرم در کفِ عشقت دامنِ یو سف دستِ زلیخا                (مولانا جامی)

      فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن،بحر متقارب مثمن مضاعف اثرم سالم

      چہ بود سروکار غلط سبقان در علم و عمل بفسانہ زدن

      بہ قبول دلائل بی خبری ہمہ تیر خطا بہ نشانہ زدن                        (بیدلؔ)

      فعِلن ×۸)بحر متدارک مثمن مخبون / مسکن مضاعف،فعِلن × ۸)

  صنما خیالت را چہ شد کہ بما ندارد الفتی

     خجلم ز داغت کز وفا بسرم گذارد منتی      (بیدل ؔ)

                 متفاعلن مستفعلن متفاعلن مستفعلن ،بحرِ کامل مثمن سالم مضمر۔۱۴؎

      حافظ محمود شیرانی کا خیال ہے کہ فارسی عروض غزنوی دور سے پہلے ہی تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔اور عنصر المعالی کے زمانے تک عربی و فارسی عروض میں تفریق قائم ہو چکی تھی۔انھوں نے المعالی کا قول نقل کیا ہے:

       ’’ و دوائر ہا کہ اندر عروض پارسیان ست بشناس و نام ہر یک نیکوں بدان و نام بحر ہا کہ از ددائرہ ہا بر خیزد چون ہزج و رمل و ہزج منسوب و رجز اخرب و رجز مطوی و رمل مخبون و منسوخ و خفیف و مضارع اخرب و مقتضب و مجتث و متقارب و سریع و قریب اخرب و منسرح کبیر۔وزن ہا ے تازیان چون بسیط و مدید و کامل و وافر و طویل و مانند آن وآن پنجاہ و سہ عروض و ہشتاد دو ضرب کہ دریں  ہفدہ دائرہ بیاید ،جملہ معلومِ خویش گردان۔‘‘ ۱۵؎

 اس کے بعد شیرینی صاحب لکھتے ہیں کہ:

      ’’ اس کے ہاں ( عنصرلمعالی کے یہاں ) صرف سترہ بحور کا ذکر ہے بحر متشاکل و بحر جدید ( غریب) ان میں شامل نہیں ہیں ،حالانکہ موخر الذکر غزنوی دور کی یادگار ہے اور کوئی تعجب نہیں اگر بحر متشاکل بھی اسی دور میں دریافت ہوئی ہو۔ ‘‘ ۱۶؎

       وہ آگے لکھتے ہیں :

          ’’طویل و بسیط و مدیدو کامل و وافر خالص عربی بحور ہیں ،قریبوجدید ومتشاکل خالص فارسی الاصل ہیں ۔ باقی گیارہ بحریں یعنی ہزج، ، رجز، رمل ،منسرح، مضارع، مقتضب، مجتث، سریع، خفیف ،متدارک، اور متقارب فارسی و عربی میں عام ہیں ۔‘ ۱۷؎

     اہلِ ایران نے اپنی زبان کے مزاج کے مطابق عربی عروض میں تبدیلیاں کی۔ بہت سی عربی بحور یہاں رائج نہ ہو سکیں ۔ اور بہت سے نئی بحور اورزان تشکیل دیے گئے۔ اس کے پیچھے کارفرما اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے حافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں کہ :

          ’’ ان زبانوں کے اوزان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی اپنے لیے اوزان تلاش کرنے میں ایک خاص اصول پرکاربند ہوتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ عرب ماہرین بوجہِ ثقالتِ الفاظ و کثرتِ حرکات اپنے اوزان کو جب کہ مسلمات کے دائرے میں محدود رکھتے ہیں ، ایرانیوں  نے عام طور پر اپنے اوزان کو مثمنات کا پابند کردیا ہے اور یہی وہ امتیازی اصول ہے جس نے آخر کار عربی و فارسی عروض میں اساسی تفریق پید اکردی۔‘‘ ۔۔ لیکن یہ انقلاب فارسی شاعری میں کس وقت کارفرما ہوا ؟ آیا وہ اتفاقی اور شخصی دریافت کا نتیجہ تھا یا تدریجی اور ارتقائی ؛ ہماری موجودہ معلومات اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالتیں ۔ مگر یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ اس اصول کی ابتدائی دریافت کرنے والے عرب ہیں ۔چنانچہ دائرہ مختلفہ اور دائرہ ٔ متفقہ عربی میں بھی مثمن الاصل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایک اور نمایاں فرق جو فارسی شاعری کو عربی شاعری سے ممتاز کرتا ہے ، اس کے اصولِ عروض کی پابندی ہے، جس نے اس کے اشعار میں موزونیت و موسیقیت پیدا کردی ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فارسی زبان کی نوعیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے اشعار میں مو زونیتِ تامّہ موجود ہو۔اس میں خفیف سا خفیف تغیر بھی نا گوار گزرتا ہے اور طبیعت کو مکدر کرتا ہے۔خلیل کے عروض کے تتبع نے اس بارے میں انھیں بے حد کامییاب کردیا ۔اس کے مقابلے میں عربی شاعری اپنے زحافات کے بے موقع استعمال،قواعد سے عدم اعتنا اور قلتِ اوزان کے لیے رسوا ہے۔‘‘ ۱۸؎

      ایرانیوں نے عربی عروض میں جو ایک اہم تبدیلی کی وہ یہ تھی کہ انھوں نے مربعات کو مضاعف کرکے مثمنات میں داخل کر لیا۔ایک خاص صنف رباعی بھی ایجاد کی۔ترانہ یا رباعی تیسری یا چوتھی صدی میں وجود میں آئی۔ا س کے علاوہ جو بحریں یا اوزان فارسی میں وجود میں آئے اس کے پس پشت فارسی زبان کا لسانی مزاج کام کرتا نظر آتا ہے ۔

      عروض سے متعلق فارسی میں سب سے اہم دو کتابیں مانی گئی ہی،جو قرنِ ہفتم میں لکھی گئیں ۔پہلی المعجم فی معیارِ اشعار العجم،تالیف محمد بن قیس الرازی۔یہ کتاب قرنِ ہفتم کے ربع اول میں تالف ہوئی۔دوسری کتاب معیارالاشعار مصنفہ خواجہ نصیرا لدین طوسی ہے جو اسی قرن میں ۶۴۹ھ میں لکھی گئی۔ان دونوں کتابوں کے بارے میں محمدبن عبد الوہاب قزوینی لکھتے ہیں :

          ’اما مولفاتی کہ بعد ازین کتاب الیٰ حال ،درین فنون ِ ثلثۃ نوشتہ شدہ ،بخصوص آنچہ در علمِ عروض تالیف کردہ اند ہیچ کدام قابلِ ذکرو محلِ اعتنا نیست۔ وغالباً موجزات و مختصراتی است لایسمن ولایغنی من جوع،خشک و کسالت انگیز،خالی از تحقیق و عاری از تدقیق،فقط کتابِ معتنی بہ مہمی کہ مقارن عصر مصنف تالیف شدہ و بواسطۂ اہمیت و قدمت،آن نمی توانیم آنرا تحت السکوت بگزاریم؛کتابِ مرغوب ’معیار لاشعار است۔در علم ِعروض و قوافی کہ در سنہ ۶۴۹ تالیف شدہ و مصنف آن معلوم نیست۔و مفتی محمد سعد اللہ مرادآبادی این کتاب را شرح نفیس ممتازی نمودہ موسوم بمیزان الافکار فی شرح معیار الاشعا وآن را ،۱۲۸۲ھ درلکھنئو از بلادِ ہندوستان طبع نمود والحق اداد فضل و تحقیق در این شرح دادہ است۔وی تالیفِ این کتاب را بخواجہ نصیرالدین طوسی معرو ف ،متوفی ۶۷۲ نسبت دادہ است ولی معلوم نیست از روی چہ ماخذ۔‘‘۱۹؎

      المعجم فی معایر اشعار العجم مصنف نے پہلے عربی زبان میں لکھی تھی جس کی ابتدا ۶۱۴ھ میں ہو ئی۔اور ۶۳۰ھ تک مکمل ہو سکی۔اگرچہ یہ کتاب فارسی شاعری سے متعلق تھی لیکن اس میں فارسی اور عربی دونوں زبانوں کے اشعار مثال کے طور پر درج کیے گئے تھے۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو اس نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔فارسی سے متعلق مواد ایک جا جمع کرکے اسے فارسی میں لکھا اس کا نام المعجم فی معایرِ اشعار العجم رکھا۔ عربی سے متعلق مواد جس حصے ے میں تھا اسے المعرب فی معایر اشعار العرب نام دیا۔عبد الوہاب قزوینی حدائق العجم کو بھی شمس قیس رازی کی تصنیف قرا دیتے ہیں جس سے مفتی محمد سعد اللہ مراد آبادی نے’ میزان لافکار‘ اور صاحبِ غیاث الغات نے اپنی لغت میں استفادہ کیا ہے۔۲۰؎

      پروفیسر خانلری نے اپنی کتاب ’ وزنِ شعر فارسی ‘ لکھا ہے کہ ایرانی عروضی ابتدا ہی سے اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ دوایر بحورِ فارسی کی تنظیم و ترسیم میں عربی عروض کی تمام تر پیروی نہیں کی جا سکتی۔اسی لیے فارسی کی خاص بحور کو نئے دوایر میں جگہ دی اور کچھ ایسے دوائر ِ عربی جن کی بحریں فارسی میں لائقِ استعامل نہ تھیں انھیں ترک کردیا۔انھوں نے قابوس نامہ سے ایک اقتباس نقل کرکے لکھا ہے کہ :

          ’ اما از متنی کہ در بالا آوردیم و صورتِ صحیح عبارتِ کتاب است می تواں دریافت کہ از دوایرِ خاص فارسی دایرہ ای بودہ است کہ در آن بحر ہاے ہزج مکفوف، و ہزج اخرب و رجز مطوی،و رمل مخبون قرار داشتہ و دایرۂ دیگر شاید شامل مزاحفات بحور منسرح و خفیف و مضارع و مجتث و سریع بودہ است۔۲۱؎

      خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب میں فارسی زبان کی ضرورریات کے مطابق مندرجہ تین دایرے ترتیب دیے جو خاص فارسی اوزان سے تعلق رکھتے ہیں اور عربی عروض میں جن کا وجود نہ تھا۔

      دایرۂ مجتلبہ:

      ۱۔ ہزج مکفوف       ( مفاعیل چار بار)

      ۲۔رجز مطوی       (مفتعلن چار بار)

      ۳۔رمل مخبون       (فعلاتن چار بار)

      دوم دایرۂ مشتبۂ مزاحفہ ۔

      ۱۔سریع مطوی      ( مفتعلن مفتعلن فاعلات)

      ۲۔منسرح مطوی   (مفتعلن فاعلات مفتعلن)

      ۳۔مقتضب مطوی  ( فاعلات مفتعلن مفتعلن)

      ۴۔قریب مکفوف    ( مفاعیل مفاعیل فاعلات)

      ۵۔مضارعِ مکفوف  ( مفاعیل فاعلات مفاعیل)

      ۶ خفیف مخبون      (فعلاتن مفاعلن فعلاتن)

      ۷۔مجتث مخبون      ( مفاعلن فعلاتن مفاعلن)

سوم ۔دایرۂ مشتبہ زائدہ ۔اس میں  مندرجہ ذیل مثمن اوزان شامل ہیں ۔

      ۱۔منسرح مطوی    ( مفتعلن فاعلات ۲ بار)

      ۲۔مضارع مکفوف   ( مفاعیل فاعلات ۲ بار)

      ۳۔مقتضب مطوی  (فاعلات مفتعلن ۲ بار)

      ۴۔مجتث مخبون      (مفاعلن فعلاتن۲ بار)

      ۵۔وزنِ مہمل       (فاعلات مفاعیل ۲ بار)

       شمس قیس رازی کے بارے میں خانلری کہتے ہیں کہ انھوں نے ایرانی عروضیوں کے ایجاد کردہ ان دائروں کو رد کردیا ہے ،جنھیں خواجہ نصیرالدین نے مجتلبۂ زائدہ ٔ مزاحفہ کہا ہے ۔مگر وہ دو دیگر دائروں کو قبول کرتے ہیں ۔خانلری نے شمس قیس رازی کا قول نقل کیا ہے ۔شمس قیس رازی لکھتے ہیں ۔

          ’’جملہ بحورِ اشعار عجم در چہار دایرہ نہم و ہزج و رجز و رمل در یک دایرہ و جملگی مفترعات و منشعبات ہر یک بہ اصول آن ملحق گردا نیم و چون بہ علت بی انتظامی ارکان بحور دایرۂ مشتبہ چناں کہ پیش ازین تقریر رفتہ است ،در ہیچ یک از آن بحور بر اجزائِ سالمہ شعری مستعذب نیست۔از ہر یک وزنے خوش کہ اوزان ِ دیگر بحور بی اختلال ارکان از آن مفکوک شود ،اصل دایرہ سازیم و منسرح مطوی و مضارع مکفوف و مقتضب مطوی و مجتث مخبون را سبب تثمین اجزاء در دایرہ ای نہیم و مسدسات و مزاحفات ہر یک بہ اصولِ آن ملحق داریم و سریع مطوی و غریب مخبون و قریب مکفوف و خفیف مخبون و مشاکل مکفوف را علت تسدیس اجزاء در دایرہ ٔ دیگر داریم۔‘‘۲۲؎

       شمس قیس رازی کے قبول کردہ یہ دو دایرے اس طرح ہیں :

      دایرۂ مختلفہ شامل چہار وزن:

      ۱۔منسرح مطوی – مفتعلن فاعلا ت مفتعلن فاعلات

      ۲۔مضارع مکفوف- مفاعیل فاعلات مفاعیل فاعلات

      ۳۔مقتضب مطوی-            فاعلات مفتعلن فاعلات مفتعلن

      ۴۔مجتث مخبون-    مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلاتن

       شمس قیس رازی کے اس دایرے پر تبصرہ کرتے ہوئے خانلری کہتے ہیں کہ یہ ان زحافا ت کے علاوہ ہے جو ان کے اجزا میں راہ پا گئے ہیں ۔یا اصل دایرۂ مشتبہ، اجزا کی تعداد کے لحاظ سے بھی متفاوت ہے۔یعنی دایرۂ مشتبہ کی بحریں تین جزء اور دایرہ مختلفہ کی بحور چار جزء پر مبنی ہوں گی۔ اور یہ تمام دایرۂ مشتبہ زائدہ ہیں جو معیار الاشعار میں مذکور ہیں ۔۲۳؎

      شمس قیس رازی نے ان مزاحف اجزاء سے ایگ دوسرا دایرہ بنایا ہے جو تین اجزا پر مبنی ہے۔ اور اس نے اس دایرے کا نام دایرہ ٔ منتزعہ رکھا جس سے مندرجہ ذیل پانچ وزن برآمد ہوتے ہیں ۔۔

      دایرۂ منتزعہ:

      ۱۔ خفیف مخبون-فعلاتن مفاعلن فعلاتن

      ۲۔سریع مطوی-مفتعلن مفتعلن فاعلات

      ۳۔غریب مخبون- فعلاتن فعلاتن مفاعلن

      ۴۔قریب مکفوف-مفاعیل مفاعیل فاعلات

      ۵۔مشاکل ممکفوف-فاعلات مفاعیل مفاعیل

       یہ دایرہ بھی وہی ہے جو معیار الاشعار میں مشتبۂ مزاحفہ کے نام سے آیا ہے۔

       محقق طوسی اور شمس بن قیس رازی کے ان اختراعات کا جائزہ لتے ہوئے ڈاکٹر خان لری فارسی عروض کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔

          ’’بہ ایں طریق دو دائرہ و سہ بحر ( غریب و قریب و مشاکل) بہ موضوعاتِ خلیل و اخفش افزود شدہ است ۔ و در عروضِ فارسی ہفت دایرہ و نوزدہ بحر یا وزن اصلی کہ دوایر استخراج می شود ذکر و ہمہ اوزانِ دیگر از متفرعاتِ آنہا شمردہ است ۔اما شمارۂ بحور و دوایری کہ عروضیانِ ایرانی یافتہ بودند بسیا ربیش ازیں ہا است۔ازں جملہ شمس قیس نام سہ دایرہ و بیست و یک بحر مستحدث را کہ می گوید عروضیانِ عجم چون بہرامی سرخسی و بزر جمہر قسیمی و امثال ایشان احداث کردہ اند ذکر و رد کردہ است۔۲۴؎

       اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ فارسی میں عروض کی وہ شکل نہیں رہی جو عربی میں تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی زبان کامزاج عربی زبان سے مختلف ہے۔وہ سامی خاندان السنہ سے تعلق رکھتی اور فارسی ہند آریائی سے ۔اسی طرح تہذیبی اور جغرافیائی اختلافات بھی اس تبدیلی کی بنیاد بنے۔ان کے بعد جو اہم کتابیں لکھی گئیں ان میں عروضِ سیفی ‘ ۸۹۶/ ۱۴۹۱ء  مرتبہ سیفی (بخارا) اور رسا لۂ عروض از عبد الرحمٰن جامی تقریباً ۸۸۵/ ۱۴۸۰،تکمیل الصناعۃ (علمِ قافیہ) میر عطا اللہ الحسینی مشہدی، تنقید الدور -ازپایندہ محمد بن محمد بن شیخ محمد متخلص بہ قصائی ( ۹۹۹ھ) شامل ہیں ۔

      مستشرقین نے بھی بھی عروض کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ۔ عربی عروض سے متعلق جن مستشرقین کے نام سامنے آتے ہیں ان میں سیمو ئل کلارک(۱۶۶۱ء)،ایولڈ(۱۸۲۵ء) اور فریٹیج(۱۸۳۰ء) شامل ہیں ۔فارسی عروض پر جن مستشرقین نے توجہ دی ان میں جان گلکرسٹ،ولیم پرائز ،گلیڈون(۱۸۰۱ء)،روکرٹ(۱۸۲۷ء)،گارساں دیتاسی،(۱۸۴۸ء)بلاکمان(۱۸۷۲ء) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ان میں گارساں دی تاسی نے شمس الدین فقیر کی تصنیف ’ حدائق البلاغہ کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ۔ بلاکمان نے عروضِ سیفی اور مولوی عبد الرحمان جا می کے رسالۂ عروض کوکو مرتب کیا جو ۱۸۶۷ء میں کلکتہ سے ایک ہی جلد میں شائع ہوئیں ۔

      ہندوستان میں بھی عروض پر کتابیں لکھی گئیں ان میں صنائع الحسن از فخری دسویں صدی ہجری (سندھ)رضی الدین حسن الصغانی الہندی کی مختصر العروض ۔محمد اشرف کے مطابق یہ پہلے اہلِ قلم ہیں جنھوں نے عروض پر کتاب لکھی۔اس کا مخطوطہ برلن لائبریری میں موجود ہے ۔جس کا اندراج نمبر ۲۷۷۱ نمبر ہے۔۲۵؎۔ اندرجیت حقیر کی طراز الانشا (۱۱۳۰ھ/۱۷۱۸ء جس میں ایک باب عروض سے متعلق ہے۔)،حدائق عروض الہندی ‘ شیخ محمد عبد دل عظیم آبادی(۱۷۶۲ء)دریاے لطافت انشا اور قتیل(۱۸۰۸ء) ، چہار شربت ۱۷۹۹/ ۱۲۱۴ھ ( مرزا قتیل)میزان الافکار شرح معیار الاشعار از مولانا سعد اللہ مرادابادی، شجرۃ العروض ، روضۃ القوافی از مظفر علی اسیرلکھنوی وغیرہ شامل ہیں ۔مولانا حکیم سید عبد الحی نے اپنی کتاب میں عروض پر ہندوستان میں لکھی گئی کتابوں کی تفصیل پیش کی ہے ۔جس میں مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر آیا ہے۔

      ۱۔ حاجب کی عروض- مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۲۔خطیب تبریزی کی عروض- مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۳۔ابن القطاع کی عروض – مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۴۔ابو الجیس اندلسی کی عروض خزرجی کی عروض شرح قصیدہ خزرجیہ- مصنفہ شیخ غلام نقشبند بن عطاء  اللہ لکھنوی( ۱۱۲۶ھ)

      ۵۔رسالہ مختصر در فنِ عروض ۔مصنفہ شاہ رفیع الدین بن شاہ ولی اللہ دہلوی

      ۶۔محقق طوسی کی معیار لاشعار کی شرح میزان الافکار مصنفہ مفتی سعد اللہ بن نظام الدین مراد آبادی

      ۷۔محصل العروض شرح محصل العروض : مفتی سعد اللہ مراد آبادی

      ۸۔التوجیہ الوافی فی مصطلحات العروض والقوافی: شیخ یوسف علی لکھنوی

      ۹۔الدراسۃ الوافیہ فی علم العروض وا لقافیہ: شیخ محمد بن احمد ٹونکی

      ۱۰۔المورد الصافی فی العروض و القوافی : شیخ محد بن حسین یمانی مالوی

      ۱۱۔میزان الوافی فی علم العروض و القوافی : شیخ محمد سلیم بن محمد عطا جونپوری

      ۱۲۔رسالہ در فنِ عروض و قافیہ : شیخ عبد القادر بن محمد اکرم رامپوری

      ۱۳۔رسالہ مختصر در عروض و قافیہ: حکیم غیاث الدین رامپوری

      ۱۴۔رسالہ مختصر در عروض و قافیہ: سید کرامت علی کجگانوی جونپوری

      ۱۵۔رسالہ مختصر در عروض و قافیہ: سید نعمت حسین جونپوری

      ۱۶۔الوافی فی العروض و القا فیہ : شیخ شمس الدین فقیر

      ۱۷۔رسالہ مرأۃ العروض : شیخ نوازش علی حیدر آ بادی

      ۱۸۔مجمع البحرین:مفتی تاج الدین بن غیاث الدین مدراسی

      ۱۹۔رسالہ منظوم در علمِ عروض : شیخ عبد القادر بن خیرا لدین جونپوری

      ۲۰۔مفتاح العروض : مولوی عباس علی خاں

      ۲۱۔زبدۃ العروض : سید محمد مومن ۔۲۶؎

       مذکور تمام کتابوں میں میر شمس الدین فقیر کی کتاب حدائق البلاغت اس لیے اہم ہو جاتی ہے کہ مولاناامام بخش صہبائی اور دیگر لوگوں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا جس سے اردوں داں طبقے نے اس کتاب سے بیش ازبیش استفادہ کرسکا۔ ابتداً اردو میں عروض پر جو کتابیں لکھی گئیں ان میں فارسی کتابوں کی تقلید کی گئی۔ اس لیے اردو عروض کی تفہیم میں فارسی عروض بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بغیر اردو عروض کی تفہیم ممکن نہیں ۔

حواشی:

۱؎۔ زمانہ ،جنوری ۱۹۴۲،ص ،۱

۲؎۔ زمانہ ،جنوری ۱۹۴۲،ص۲ ۱

۳؎۔ساقی کراچی،جوبلی نمبر ۱۹۵۵،ص، ۳۱۵ تا ۳۱۶

۴؎۔’ تحقیقِ انتقادی در عروضِ فارسی و چگونگی تحول اوزانِ غزل‘ ،انتشاراتِ دانشگاہِ تہران ، ۱۳۲۷ھ ص۱۵

۵؎۔’ تحقیقِ انتقادی در عروضِ فارسی و چگونگی تحول اوزانِ غزل‘ ،انتشاراتِ دانشگاہِ تہران ، ۱۳۲۷ھ ص ۲۰

۶؎۔ وزنِ شعر فارسی، پرویز ناتل خانلری ، انتشاراتِ توس، اول خیابان ، دانشگاہ تہران ۱۳۶۷، ۵۶ تا ۷۷

۷؎۔دیکھیے -مقالاتِ حافظ محمود شیرانی،جلد پنجم،مجلسِ ترقیِ ادب لاہور ،ص۶۶۹

۸؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۶۹۷ تا ۶۹۸

۹؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۶۹۹

۱۰؎؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور ص ۷۰۰

۱۱؎۔ المعجم فی معایرِ اشعار العجم ، شمس الدین ابنِ قیس رازی بیروت، ۱۹۰۹،ص ج

۱۲؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۷۰۰

 ۱۳؎۔ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور ص ۷۰۱

 ۱۴؎۔ دیکھیے ۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبی مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۷۰۱ تا ۷۰۲

 ۱۵؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہورص ۷۰۳

۱۶؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلد ہنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہور۷۰۳

۱۷؎ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہورص ۷۰۳

۱۸؎۔مقالاتِ حافظ محمود شیرانی ،جلدپنجم،تنقیدِ شعرالعجم،مرتبہ مظہر محمود شیرانی ،مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ لاہورص ۷۰۶ تا ۷۰۷

۱۹؎۔ مقدمہ المعجم فی معایرِ اشعار العجم ص،ھ، و، بیروت ۱۹۰۹

۲۰؎۔ مقدمہ المعجم فی معایرِ اشعار العجم ص، یب بیروت ۱۹۰۹

۲۱؎۔وزن ِ شعرِ فارسی ، اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ،ص ۱۶۸

۲۲؎۔وزن شعرِ فارسی ،اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ص ۱۷۱ تا ۱۷۲

۲۳؎۔ وزنِ شعرِ فارسی ، اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ،ص، ۱۷۲

 ۲۴؎۔وزنِ شعرِ فارسی ، اشاعتِ ثانی ۱۳۴۷ ،انتشاراتِ توس ، دانگاہِ تہران ،ص ۱۷۳

۲۵؎۔Contribution of India to arabic Literature page No.208,1965,Lahore

۲۶؎۔اسلامی علوم و فنون :ہندوستان میں -ازمولانا حکیم سید عبد الحی،ترجمہ مولانا ابولعرفان ندوی،درامصنفین اعظم گڑھ،۱۹۷۰ء میں ص ۶۲ تا ۶۴

۔۔۔۔

ڈاکٹر محمد حسین،

صدر شعبۂ اردو ، گورنمنٹ ڈونگر کالج، بیکانیر،راجستھان،انڈیا

Mob.09413481379
Email:husainbkn@gmail.com
بہ شکریہ https://www.urdulinks.com/urj/?p=2341 
یہ مضمون یہاں طلبہ کے لیے ساجھا کیا گیا ہے۔

منگل، 13 جون، 2023

تین گولے۔ سعادت حسن منٹو


حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے، میں غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور میرا جی کی باتیں سن رہا تھا۔ اس شخص کو پہلی بار میں نے یہیں دیکھا۔ غالباً سن چالیس تھا۔ بمبے چھوڑ کرمجھے دہلی آئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ فلیٹ نمبر ایک والوں کا دوست تھا یا ایسے ہی چلا آیا تھا لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ اس نے یہ کہا تھا کہ اس کو ریڈیوا سٹیشن سے پتہ چلا تھا کہ میں نکلسن روڈ پر سعادت حسن بلڈنگز میں رہتا ہوں۔

اس ملاقات سے قبل میرے اور اس کے درمیان معمولی سی خط و کتابت ہو چکی تھی۔ میں بمبئی میں تھا، جب اس نے ادبی دنیا کے لیے مجھ سے ایک افسانہ طلب کیا تھا۔ میں نے اس کی خواہش کے مطابق افسانہ بھیج دیالیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیاکہ اس کا معاوضہ مجھے ضرور ملنا چاہیے۔ اس کے جواب میں اس نے ایک خط لکھاکہ میں افسانہ واپس بھیج رہا ہوں، اس لیے کہ’’ادبی دنیا‘‘ کے مالک مفت خور قسم کے آدمی ہیں۔ افسانے کا نام، ’’موسم کی شرارت‘‘ تھا۔ اس پر اس نے اعتراض کیا تھا کہ اس شرارت کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے اسے تبدیل کردیا جائے۔ میں نے اس کے جواب میں اس کو لکھا کہ موسم کی شرارت ہی افسانے کا موضوع ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ تمہیں کیوں نظر نہ آئی۔ میرا جی کا دوسرا خط آیا، جس میں اس نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ موسم کی شرارت وہ، ’’موسم کی شرارت‘‘ میں کیوں دیکھ نہ سکا۔

میراجی کی لکھائی بہت صاف اور واضح تھی۔ موٹے خط کے نب سے نکلے ہوئے بڑے صحیح نشست کے حروف، تکون کی سی آسانی سے بنے ہوئے، ہر جوڑ نمایاں، میں اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ مجھے اس میں مولانا حامد علی خاں مدیر ہمایوں کی خطاطی کی جھلک نظر آئی۔ یہ ہلکی سی مگر کافی مرئی مماثلت و مشابہت اپنے اندر کیا گہرائی رکھتی ہے، اس کے متعلق میں اب بھی غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا کوئی شوشہ یا نکتہ سمجھائی نہیں دیتا جس پر میں کسی مفروضے کی بنیادیں کھڑی کرسکوں۔

حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے۔ اور میرا جی لم تڑنگے اور گول مٹول شعر کہنے والا شاعر مجھ سے بڑے صحیح قدوقامت اور بڑی صحیح نوک پلک کی باتیں کررہا تھا، جو میرے افسانوں کے متعلق تھیں۔ وہ تعریف کررہا تھا نہ تنقیص، ایک مختصر سا تبصرہ تھا، ایک سرسری سی تنقید تھی مگر اس سے پتہ چلتا تھا کہ میرا جی کے دماغ میں مکڑی کے جالے نہیں، اس کی باتوں میں الجھاؤ نہیں تھا اور یہ چیز میرے لیے باعث حیرت تھی اس لیے کہ اس کی اکثر نظمیں ابہام اور الجھاؤ کی وجہ سے ہمیشہ میری فہم سے بالاتر رہی تھیں۔ لیکن شکل و صورت اور وضع قطع کے اعتبار سے وہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ اس کا بے قافیہ مبہم کلام۔ اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لیے اور بھی پیچیدہ ہوگئی۔

ن، م، راشد بے قافیہ شاعری کا امام مانا جاتا ہے۔ اس کو دیکھنے کا اتفاق بھی دہلی میں ہوا تھا۔ اس کا کلام میری سمجھ میں آجاتا تھا اور اس کو ایک نظر دیکھنے سے اس کی شکل و صورت بھی میری سمجھ میں آگئی۔ چنانچہ ایک بارمیں نے ریڈیو اسٹیشن کے برآمدے میں پڑی ہوئی بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل دیکھ کر اس سے ازراہِ مذاق کہا تھا، ’’لو۔ یہ تم ہو اور تمہاری شاعری۔‘‘ لیکن میرا جی کودیکھ کر میرے ذہن میں سوائے اس کی مبہم نظموں کے اور کوئی شکل نہیں بنتی تھی۔

میرے سامنے میز پر تین گولے پڑے تھے۔۔۔ تین آہنی گولے۔ سگریٹ کی پنیوں میں لپٹے ہوئے۔ دو بڑے ایک چھوٹا۔ میں نے میرا جی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، اور ان کے اوپر اس کا بڑا بھورے بالوں سے اٹا ہوا سر۔۔۔ یہ بھی تین گولے تھے۔ دو چھوٹے چھوٹے۔ ایک بڑا۔ میں نے یہ مماثلت محسوس کی تو اس کا رد عمل میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ میں نمودار ہوا۔ میرا جی دوسروں کا رد عمل تاڑنے میں بڑا ہوشیار تھا۔ اس نے فوراً اپنی شروع کی ہوئی بات ادھوری چھوڑ کر مجھ سے پوچھا، ’’کیوں بھیا، کس بات پر مسکرائے؟‘‘میں نے میز پر پڑے ہوئے ان تین گولوں کی طرف اشارہ کیا۔ اب میرا جی کی باری تھی۔ اس کے پتلے پتلے ہونٹ مہین مہین بھوری مونچھوں کے نیچے گول گول انداز میں مسکرائے۔

اس کے گلے میں موٹے موٹے گول منکوں کی مالا تھی۔ جس کا صرف بالائی حصہ قمیص کے کھلے ہوئے کالر سے نظر آتا تھا۔ میں نے سوچا، ’’اس انسان نے اپنی کیا ہیئت کذائی بنا رکھی ہے۔ لمبے لمبے غلیظ بال جو گردن سے نیچے لٹکتے تھے، فرنچ کٹ سی داڑھی، میل سے بھرے ہوئے ناخن۔ سردیوں کے دن تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہینوں سے اس کے بدن نے پانی کی شکل نہیں دیکھی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب شاعر، ادیب اور ایڈیٹر عام طور پر لانڈری میں ننگے بیٹھ کر ڈبل ریٹ پر اپنے کپڑے دھلوایا کرتے تھے اور بڑی میلی کچیلی زندگی بسر کرتے تھے۔ میں نے سوچا، شاید میرا جی بھی اسی قسم کا شاعر اور ایڈیٹر ہے۔ لیکن اس کی غلاظت، اس کے لمبے بال، اس کی فرنچ کٹ داڑھی، گلے کی مالا اور وہ تین آہنی گولے۔۔۔ معاشی حالات کے مظہر معلوم نہیں ہوتے تھے۔ ان میں ایک درویشانہ پن تھا۔ ایک قسم کی راہبیت۔۔۔ جب میں نے راہبیت کے متعلق سوچا تو میرا دماغ روس کے دیوانے راہب راسپوٹین کی طرف چلا گیا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ بہت غلاظت پسند تھا، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ غلاظت کا اس کو کوئی احساس ہی نہیں تھا۔ اس کے ناخنوں میں بھی ہر وقت میل بھرا رہتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد اس کی انگلیاں لتھڑی ہوتی تھیں۔ جب اسے ان کی صفائی مطلوب ہوتی تو وہ اپنی ہتھیلی شہزادیوں اور رئیس زادیوں کی طرف بڑھا دیتا جو ان کی تمام آلودگی اپنی زبان سے چاٹ لیتی تھیں۔

کیا میرا جی اسی قسم کا درویش اور راہب تھا۔۔۔؟ یہ سوال اس وقت اور بعد میں کئی بار میرے دماغ میں پیدا ہوا۔ میں امرتسر میں سائیں گھوڑے شاہ کو دیکھ چکا تھا جو الف ننگا رہتا تھا اور کبھی نہاتا نہیں تھا۔ اسی طرح کے اور بھی کئی سائیں اور درویش میری نظر سے گزر چکے تھے جو غلاظت کے پتلے تھے۔ مگر ان سے مجھے گھن آتی تھی۔ میرا جی کی غلاظت سے مجھے نفرت کبھی نہیں ہوئی۔ الجھن البتہ بہت ہوتی تھی۔

گھوڑے شاہ کی قبیل کے سائیں عام طور پر بقدر توفیق مغلظات بکتے ہیں مگر میرا جی کے منہ سے میں نے کبھی کوئی غلیظ کلمہ نہ سنا۔ اس قسم کے سائیں بظاہر مجرد مگر درپردہ ہر قسم کے جنسی فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ میرا جی بھی مجرد تھا مگر اس نے اپنی جنسی تسکین کے لیے صرف اپنے دل و دماغ کو اپنا شریکِ کار بنا لیا تھا۔ اس لحاظ سے گو اس میں اور گھوڑے شاہ کی قبیل کے سائیوں میں ایک گونہ مماثلت تھی مگر وہ ان سے بہت مختلف تھا۔ وہ تین گولے تھا۔۔۔ جن کو لڑھکانے کے لیے اس کو کسی خارجی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہاتھ کی ذرا سی حرکت اور تخیل کی ہلکی سی جنبش سے وہ ان تین اجسام کو اونچی سے اونچی بلندی اور نیچی سے نیچی گہرائی کی سیر کراسکتا تھا اور یہ گُر کی انہی تین گولوں نے بتایا تھا جو غالباًاس کو کہیں پڑے ہوئے ملے تھے۔ ان خارجی اشاروں ہی نے اس پر ایک ازلی و ابدی حقیقت کو منکشف کیا تھا۔ حسن عشق اور موت۔۔۔ اس تثلیث کے تمام اقلیدسی زاویے صرف ان تین گولوں کی بدولت اس کی سمجھ میں آئے تھے۔ لیکن حسن اور عشق کے انجام کو چونکہ اس نے شکست خوردہ عینک سے دیکھا تھا، جس کے شیشوں میں بال پڑے تھے، اس لیے اس کو جس شکل میں اس نے دیکھا تھا، صحیح نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے سارے وجود میں ایک ناقابل بیان ابہام کا زہر پھیل گیا تھا، جو ایک نقطے سے شروع ہو کر ایک دائرے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس طور پر کہ اس کا ہر نقطہ اس کا نقطۂ آغاز ہے اور وہی نقطہ انجام۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ابہام نوکیلا نہیں تھا۔ اس کا رخ موت کی طرف تھا نہ زندگی کی طرف۔ رجائیت کی سمت، نہ قنوطیت کی جانب۔ اس نے آغاز اور انجام کو اپنی مٹھی میں اس زور سے بھینچ رکھا تھا کہ ان دونوں کا لہو نچڑ نچڑ کر اس میں سے ٹپکتا رہتا تھا۔ لیکن سادیت پسندوں کی طرح وہ اس سے مسرور نظر نہیں آتا تھا۔ یہاں پھر اس کے جذبات گول ہو جاتے تھے۔ تین ان آہنی گولوں کی طرح، جن کو میں نے پہلی مرتبہ حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں دیکھا تھا۔

اس کے شعر کا ایک مصرع ہے،

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

مسافر کو رستہ بھولنا ہی تھا۔ اس لیے کہ اس نے چلتے وقت نقطۂ آغاز پر کوئی نشان نہیں بنایا تھا۔ اپنے بنائے ہوئے دائرے کے خط کے ساتھ ساتھ گھومتا وہ یقیناً کئی بار ادھر سے گزرا، مگر اسے یاد نہ رہا کہ اس نے اپنا یہ طویل سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور میں تو سمجھتا ہوں کہ میرا جی یہ بھول گیا تھا کہ وہ مسافر ہے سفر ہے یا راستہ۔ یہ تثلیث بھی اس کے دل و دماغ کے خلیوں میں دائرے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔

اس نے ایک لڑکی’ میرا‘ سے محبت کی اور وہ ثناء اللہ سے میرا جی بن گیا۔ اسی میرا کے نام کی رعایت سے اس نے میرا بائی کے کلام کو پسند کرنا شروع کردیا۔ جب اپنی اس محبوبہ کا جسم میسر نہ آیا تو کوزہ گر کی طرح چاک گھما کر اپنے تخیل کی مٹی سے شروع شروع میں اسی شکل و صورت کے جسم تیار کرنے شروع کردیے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اس جسم کی ساخت کے تمام ممزیات، اس کی تمام نمایاں خصوصیتیں تیز رفتار چاک پر گھوم گھوم کر نت نئی ہیئت اختیار کرتی گئیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ میرا جی کے ہاتھ، اس کے تخیل کی نرم نرم مٹی اور چاک، متواتر گردش سے بالکل گول ہوگئے۔ کوئی بھی ٹانگ میرا کی ٹانگ ہو سکتی تھی، کوئی بھی چیتھڑا میرا کا پیراہن بن سکتا تھا، کوئی بھی رہگزرمیرا کی رہگزر میں تبدیل ہو سکتی تھی، اور انتہا یہ ہوئی کہ تخیل کی نرم نرم مٹی کی سوندھی سوندھی باس سڑاند بن گئی اور وہ شکل دینے سے پہلے ہی اس کو چاک سے اتارنے لگا۔

پہلے میرا بلند نام محلوں میں رہتی تھی۔ میرا جی ایسا بھٹکا کہ راستہ بھول کر اس نے نیچے اترنا شروع کردیا۔ اس کو اس گراوٹ کا مطلقاً احساس نہ تھا۔ اس لیے کہ اترائی میں ہر قدم پر میرا کا تخیل اس کے ساتھ تھا جو اس کے جوتے کے تلووں کی طرح گھستا گیا۔ پہلے میرا عام محبوباؤں کی طرح بڑی خوبصورت تھی لیکن یہ خوبصورتی ہر نسوانی پوشاک میں ملبوس دیکھ دیکھ کر کچھ اس طور پر اس دل کے دل و دماغ میں مسخ ہو گئی تھی کہ اس کے صحیح تصور کی المناک جدائی کا بھی میرا کو احساس نہ تھا۔ اگر احساس ہوتا تو اتنے بڑے المیے کے جلوس کے چند غیر مبہم نشانات اس کے کلام میں یقیناً موجود ہوتے جو میرا سے محبت کرتے ہی اس کے دل و دماغ میں سے نکلنا شروع ہوگیا تھا۔

حسن، عشق اور موت، یہ تکون پچک کر میرا جی کے وجود میں گول ہوگئی تھی۔ صرف یہی نہیں دنیا کی ہر مثلث اس کے دل و دماغ میں مدور ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ارکانِ ثلاثہ کچھ اس طرح آپ میں گڈ مڈ ہوگئے تھے کہ ان کی ترتیب درہم برہم ہوگئی تھی۔ کبھی موت پہلے حسن آخر اور عشق درمیان میں، کبھی عشق پہلے موت اس کے بعد اور حسن آخر میں اوریہ چکر نامحسوس طور پر چلتا رہتا تھا۔

کسی بھی عورت سے عشق کیا جائے تگڑا ایک ہی قسم کا بنتا ہے۔ حسن، عشق اور موت۔ عاشق، معشوق اور وصل۔ میرا سے ثناء اللہ کا وصال جیسا کہ جاننے والوں کو معلوم ہے، نہ ہوا یا نہ ہوسکا۔ اس نہ ہونے یا نہ ہوسکنے کا رد عمل میرا جی تھا۔ اس نے اس معاشقے میں شکست کھا کر اس تثلیث کے ٹکڑوں کو اس طرح جوڑا تھا کہ ان میں ایک سا لمیت تو آگئی تھی مگر اصلیت مسخ ہوگئی تھی۔ وہ تین نوکیں جن کا رخ خط مستقیم میں ایک دوسرے کی طرف ہوتا ہے، دب گئی تھیں۔ وصالِ محبوب کے لیے اب یہ لازم نہیں تھا کہ محبوب موجود ہو۔ وہ خود ہی عاشق تھا خود ہی معشوق اور خود ہی وصال۔

مجھے معلوم نہیں اس نے لوہے کے یہ گولے کہاں سے لیے تھے۔ خود حاصل کیے تھے یا کہیں پڑے ہوئے مل گئے تھے۔ مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ ان کے متعلق میں نے بمبئی میں اس سے استفسار کیا تھا تو اس نے سرسری طورپر اتنا کہا تھا، ’’میں نے یہ خود پیدا نہیں کیے اپنے آپ پیدا ہوگیے ہیں۔‘‘ پھر اس نے اس گولے کی طرف اشارہ کیا تھا جو سب سے بڑا تھا، ’’پہلے یہ وجود میں آیا، اس کے بعد یہ دوسرا جو اس سے چھوٹا ہے اس کے پیچھے یہ کوچک!‘‘

میں نے مسکرا کر اس سے کہا تھا، ’’بڑے تو باوا آدم علیہ السلام ہوئے۔ خدا ان کو وہ جنت نصیب کرے جس سے وہ نکالے گئے تھے۔ دوسرے کو ہم اماں حوا کہہ لیتے ہیں اور تیسرے کو ان کی اولاد!‘‘ میری اس بات پر میرا جی خوب کھل کر ہنسا تھا۔ میں اب سوچتا ہوں تومجھے تو ان تین گولوں پر ساری دنیا گھومتی نظر آتی ہے۔ تثلیث کیا تخلیق کا دوسرا نام نہیں؟ وہ تمام مثلثیں جو ہماری زندگی کی اقلیدس میں موجود ہیں، کیا ان میں انسان کی تخلیقی قوتوں کا نشان نہیں ہے۔

خدا، بیٹا اور روح القدس، عیسائیت کے اقانیم۔۔۔ ترسول مہادیو کاسہ شاخہ بھالا۔۔۔ تین دیوتا برہما، وشنو، ترلوک۔۔۔ آسمان زمین اور پاتال۔ خشکی، تری اور ہوا۔۔۔ تین بنیادی رنگ سرخ، نیلا اور زرد۔ پھرہمارے رسوم اورمذہبی احکام، یہ تیجے سوئم اور تلینڈیاں۔ وضو میں تین مرتبہ ہاتھ منہ دھونے کی شرط، تین طلاقیں اور سہ گو نہ معانقے۔ اورجوئے میں نرد بازی کے تین پانسوں کے تین نقطے یعنی تین کانے، موسیقی کے تیے۔۔۔ حیاتِ انسانی کے ملبے کو اگر کھود کر دیکھا جائے تو میرا خیال ہے، ایسی کئی تثلیثیں مل جائیں گی اس لیے کہ اس کے توالدو تناسل کے افعال کا محور بھی اعضائے ثلاثہ ہے۔

اقلیدس میں مثلث بہت اہم حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری اشکال کے مقابلے میں یہ ایسی کٹر اور بے لوچ شکل ہے جسے آپ کسی اور شکل میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ لیکن میرا جی نے اپنے دل و دماغ اور جسم میں اس سکون کو جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، کچھ اس طرح دبایا کہ اس کے رکن اپنی جگہوں سے ہٹ گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آس پاس کی دوسری چیزیں بھی اس تکون کے ساتھ مسخ ہوگئیں اور میرا جی کی شاعری ظہور میں آئی۔

پہلی ملاقات ہی میں میری اس کی بے تکلفی ہوگئی تھی۔ اس نے مجھے دہلی میں بتایا کہ اس کی جنسی اجابت عام طور پر ریڈیو اسٹیشن کے اسٹڈیوز میں ہوتی ہے۔ جب یہ کمرے خالی ہوتے تھے تووہ بڑے اطمینان سے اپنی حاجت رفع کرلیا کرتا تھا۔ اس کی یہ جنسی ضلالت ہی، جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کی مبہم منظومات کا باعث ہے ورنہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، عام گفتگو میں وہ بڑا واضح دماغ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ اس پر بیتی ہے اشعار میں بیان ہو جائے۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ جو مصیبت اس پر ٹوٹی تھی، اس کو اس نے بڑے بے ڈھنگے طریقے سے جوڑ کر اپنی نگاہوں کے سامنے رکھا تھا۔ اس کو اس کا علم تھا۔ اس ضمن میں وہ اپنی بے چارگی اچھی طرح محسوس کرتا تھا لیکن عام آدمیوں کی طرح اس نے اپنی اس کمزوری کو اپنا خاص رنگ بنانے کی کوشش کی اور آہستہ آہستہ اس میرا کو بھی اپنی گمراہی کی سولی پر چڑھا دیا۔

بحیثیت شاعر اس کی حیثیت وہی ہے جو گلے سڑے پتوں کی ہوتی ہے جسے کھاد کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کا کلام بڑی عمدہ کھاد ہے جس کی افادیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہو کے رہے گی۔ اس کی شاعری ایک گمراہ انسان کا کلام ہے جو انسانیت کی عمیق ترین پستیوں سے متعلق ہونے کے باوجود دوسرے انسانوں کے لیے اونچی فضاؤں میں مرغِ باد نما کا کام دے سکتا ہے۔ اس کا کلام ایک’’جِگ ساپزل‘‘ ہے جس کے ٹکڑے بڑے اطمینان اور سکون سے جوڑ کر دیکھنے چاہئیں۔

بحیثیت انسان وہ بڑا دلچسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ اشخاص جو اپنی خواہشات جسمانی کا فیصلہ اپنے ہاتھوں کو سونپ دیتے ہیں، عام طور پر اسی قسم کے مخلص ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو صریحاً دھوکا دیتے ہیں مگر اس فریب دہی میں جو خلوص ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے۔

میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ۔ شراب پی، بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ۔ لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔ اپنی زندگی کی ایک عظیم ترین خواہش کو جل دینے کے بعد وہ کسی اور سے دھوکا فریب کرنے کا اہل ہی نہیں رہا تھا۔ اس ا ہلیت کے اخراج کے بعد وہ اس قدر بے ضرر ہوگیا تھا کہ بے مصرف سا معلوم ہوتا تھا۔ ایک بھٹکا ہوا مسافر جو نگری نگری پھر رہا ہے، منزلیں قدم قدم پر اپنی آغوش اس کے لے وا کرتی ہیں، مگر وہ ان کی طرف دیکھے بغیر آگے نکلتا جارہا ہے۔ کسی ایسی جگہ، جس کی کوئی سمت ہے نہ رقبہ۔۔۔ ایک ایسی تکون کی جانب جس کے ارکان اپنی جگہ سے ہٹ کرتین دائروں کی شکل میں اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔

میں نے میرا جی سے اس کے کلام کے متعلق دو تین جملوں سے زیادہ کبھی گفتگو نہیں کی، میں اسے بکواس کہا کرتا تھا اور وہ اسے تسلیم کرتا تھا۔ ان تین گولوں اور موٹے موٹے دانوں کی مالاکو میں اس کا فراڈ کہتا تھا اسے بھی وہ تسلیم کرتا تھا۔ حالانکہ ہم دونوں جانتے تھے کہ یہ چیزیں فراڈ نہیں ہیں۔

ایک دفعہ اس کے ہاتھ میں تین کے بجائے دو گولے دیکھ کرمجھے بہت تعجب ہوا، میں نے جب اس کا اظہار کیا تو میرا جی نے کہا، ’’برخوردار کا انتقال ہوگیاہے۔ مگر اپنے وقت پر ایک اور پیدا ہو جائے گا!‘‘ میں جب تک بمبئی میں رہا، یہ دوسرا برخوردار پیدا نہ ہوا۔ یا تو اماں حوّا عقیم ہوگئی تھی یا باوا آدم مردم خیز نہیں رہے تھے۔ یہ رہی سہی خارجی تثلیث بھی ٹوٹ گئی تھی اور یہ بری فال تھی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میرا جی کو اس کا احساس تھا، چنانچہ جیسا کہ سننے میں آیا ہے، اس نے اس کے باقی کے اقنوم بھی اپنے ہاتھ سے علیحدہ کردیے تھے۔

مجھے معلوم نہیں میرا جی گھومتا گھامتا کب بمبئی پہنچا، میں ان دنوں فلمستان میں تھا۔ جب وہ مجھ سے ملنے کے لیے آیا، بہت خستہ حالت میں تھا، ہاتھ میں تین گولے بدستور موجود تھے۔ بوسیدہ سی کاپی بھی تھی، جس میں غالباً میرا بائی کا کلام اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔ ساتھ ہی ایک عجیب شکل کی بوتل تھی جس کی گردن مڑی ہوئی تھی، اس میں میرا جی نے شراب ڈال رکھی تھی، بوقتِ طلب وہ اس کا کاگ کھولتا اور ایک گھونٹ چڑھا لیتا تھا۔

داڑھی غائب تھی، سر کے بال بہت ہلکے تھے، مگر بدن کی غلاظت بدستور موجود۔ چپل کا ایک پیر درست حالت میں تھا، دوسرا مرمت طلب تھا۔ یہ کمی اس نے پاؤں پر رسی باندھ کردور کررکھی تھی۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ ان دنوں غالباً، ’’آٹھ دن‘‘ کی شوٹنگ ہورہی تھی۔ اس کی کہانی میری تھی، جس کے لیے دو ایک گانوں کی ضرورت تھی۔ میں نے اس خیال سے کہ میرا جی کو کچھ روپے مل جائیں، اس سے یہ گانے لکھنے کے لیے کہا جو اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے لکھ دیے۔ مگر کھڑے کھڑے قسم کے نہایت واہیات جو یکسر غیر فلمی تھے۔ میں نے جب اس کو اپنا فیصلہ سنایا تو وہ خاموش رہا۔ واپس جاتے ہوئے اس نے مجھ سے سات روپے طلب کیے کہ اسے ایک ادھا لینا تھا۔

اس کے بعد بہت دیر تک اس کو ہرروز ساڑھے سات روپے دینا میرا فرض ہوگیا۔ میں خود بوتل کا رسیا تھا۔ یہ منہ نہ لگے تو جی پر کیا گزرتی ہے اس کا مجھے بخوبی علم تھا۔ اس لئے میں اس رقم کا انتظام کر رکھتا۔ سات روپے میں رم کا ادھا آتا تھا، باقی آٹھ آنے اس کے آنے جانے کے لیے ہوتے تھے۔

بارشوں کا موسم آیا تو اسے بڑی دقت محسوس ہوئی۔ بمبئی میں اتنی شدید بارش ہوتی ہے کہ آدمی کی ہڈیاں تک بھیگ جاتی ہیں۔ اس کے پاس فالتو کپڑے نہیں تھے۔ اس لیے یہ موسم اس کے لیے اور بھی زیادہ تکلیف دہ تھا۔ اتفاق سے میرے پاس ایک برساتی تھی جو میرا ایک ہٹا کٹا فوجی دوست صرف اس لیے میرے گھر بھول گیا تھا کہ وہ بہت وزنی تھی اور اس کے کندھے شل کردیتی تھی۔ میں نے اس کا ذکر میرا جی سے کیا اور اس کے وزن سے بھی اس کو آگاہ کردیا۔ میرا جی نے کہا، ’’کوئی پروا نہیں، میرے کندھے اس کا بوجھ برداشت کرلیں گے!‘‘ چنانچہ میں نے وہ برساتی اس کے حوالے کردی جو ساری برسات اس کے کندھوں پر رہی۔

مرحوم کو سمندر سے بہت دلچسپی تھی۔ میرا ایک دور کا رشتہ دار اشرف ہے وہ ان دنوں پائلٹ تھا۔ جوہو میں سمندرکے کنارے رہتا تھا۔ یہ میرا جی کا دوست تھا، معلوم نہیں ان کی دوستی کی بنا کیا تھی، کیونکہ اشرف کو شعر و شاعری سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ بہر حال میرا جی اس کے ہاں رہتا تھا اور دن کو اس کے حساب میں پیتا تھا۔ اشرف جب اپنے جھونپڑے میں نہیں ہوتا تھا تو میرا جی ساحل کی نرم نرم اور گیلی گیلی ریت پر وہ برساتی بچھاکر لیٹ جاتا اور مبہم شعرفکر کیا کرتا تھا۔

ان دنوں ہر اتوار کو جوہو جانا اور دن بھر پینا میرا معمول سا ہوگیا تھا۔ دو تین دوست اکٹھے ہوکر صبح نکل جاتے اور سارا دن ساحل پر گزارتے۔ میرا جی وہیں مل جاتا۔ اوٹ پٹانگ قسم کے مشاغل رہتے۔ ہم نے اس دوران میں شاید ہی کبھی ادب کے بارے میں گفتگو کی ہو۔ مردوں اور عورتوں کے تین چوتھائی ننگے جسم دیکھتے تھے۔ دہی، بڑے اور چاٹ کھاتے تھے۔ ناریل کے پانی کے ساتھ شراب ملا کر پیتے تھے اور میرا جی کووہیں چھوڑ کر واپس گھر چلے آتے تھے۔

اشرف کچھ عرصے کے بعد میرا جی کو بوجھ محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ خود پیتا تھا مگر اپنی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھتا تھا، لیکن میرا جی کے متعلق اسے شکایت تھی کہ وہ اپنی حد سے گزر کر ایک اور حد قائم کرلیتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ بے ہوش پڑا ہے، مگر اور مانگے جارہا ہے۔ اپنی اس طلب کا دائرہ بنا لیتاہے اور بھول جاتا ہے کہ یہ کہاں سے شروع ہوئی تھی اور اسے کہاں ختم ہونا تھا۔

مجھے اس کی شراب نوشی کے اس پہلو کا علم نہیں تھا لیکن ایک دن اس کا تجربہ بھی ہوگیا، جس کو یاد کرکے میرا دل آج بھی افسردہ ہو جاتاہے۔

سخت بارش ہورہی تھی جس کے باعث برقی گاڑیوں کی نقل و حر کت کا سلسلہ درہم برہم ہوگیا تھا، ’’ خشک دن‘‘ ہونے کی وجہ سے شہر میں شراب کی دکانیں بند تھیں۔ مضافات میں صرف باندرہ ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے مقررہ داموں پر یہ چیز مل سکتی تھی۔ میرا جی میرے ساتھ تھا۔ اس کے علاوہ میرا پرانا لنگوٹیا حسن عباس جو دہلی سے میرے ساتھ چند دن گزارنے کے لیے آیا تھا۔ ہم تینوں باندرہ اتر گئے اور ڈیڑھ بوتل رم خرید لی۔ واپس اسٹیشن پر آئے تو راجہ مہدی علی خاں مل گیا، میری بیوی لاہور گئی ہوئی تھی۔ اس لیے پروگرام یہ بنا کہ میرا جی اور راجہ رات میرے ہی ہاں رہیں گے۔

ایک بجے تک رم کے دور چلتے رہے، بڑی بوتل ختم ہوگئی۔ راجہ کے لیے دو پیگ کافی تھے، ان کو ختم کرکے وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا اور فلمی گیت لکھنے کی پریکٹس کرتا رہا۔ میں، حسن عباس اور میرا جی پیتے اور فضول فضول باتیں کرتے رہے جن کا سر تھا نہ پَیر۔ کرفیو کے باعث بازار سنسان تھا۔ میں نے کہا اب سونا چاہئے، عباس اور راجہ نے میرے اس فیصلے پر صاد کیا۔ میرا جی نہ مانا۔ ادھے کی موجودگی اس کے علم میں تھی، اس لیے وہ اور پینا چاہتا تھا، معلوم نہیں کیوں، میں اور عباس ضد میں آگیے اور وہ ادھا کھولنے سے انکار کردیا۔ میرا جی نے پہلے منتیں کیں، پھر حکم دینے لگا۔ میں اور عباس دونوں انتہا درجے کے سفلے ہوگئے۔ ہم نے اس سے ایسی باتیں کیں کہ ان کی یاد سے مجھے ندامت محسوس ہوتی ہے۔ لڑ جھگڑ کر ہم دوسرے کمرے میں چلے گئے۔

میں صبح خیز ہوں۔ سب سے پہلے اٹھا اور ساتھ والے کمرے میں گیا۔ میں نے رات کو راجہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ میرا جی کے لیے اسٹریچر بچھا دے اور خود صوفے پر سو جائے۔ راجہ اسٹریچر میں لبالب بھرا تھا مگر صوفے پر میرا جی موجود نہیں تھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، غسل خانے اور باورچی خانے میں دیکھا۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ میں نے سوچا شاید وہ ناراضی کی حالت میں چلا گیا ہے۔ چنانچہ واقعات معلوم کرنے کے لیے میں نے راجہ کو جگایا۔ اس نے بتایا کہ میرا جی موجود تھا۔ اس نے خود اسے صوفے پر لٹایا تھا، ہم یہ گفتگو کرہی رہے تھے کہ میرا جی کی آواز آئی، ’’میں یہاں موجود ہوں۔‘‘

وہ فرش پر راجہ مہدی علی خان کے اسٹریچر کے نیچے لیٹا ہوا تھا۔ اسٹریچر اٹھا کر اس کو باہر نکالا گیا۔ رات کی بات ہم سب کے دل و دماغ میں عود کر آئی لیکن کسی نے اس پرتبصرہ نہ کیا۔ میرا جی نے مجھ سے آٹھ آنے لیے اور بھاری بھر کم برساتی اٹھا کر چلا گیا۔ مجھے اس پر بہت ترس آیا اور اپنے پر بہت غصہ۔ چنانچہ میں نے دل ہی دل میں خود کوبہت لعنت ملامت کی کہ میں رات کو ایک نکمی سی بات پر اس کو دکھ پہنچانے کا باعث بنا۔ اس کے بعد بھی میرا جی مجھ سے ملتا رہا۔ فلم انڈسٹری کے حالات منقلب ہو جانے کے باعث میرا ہاتھ تنگ ہوگیا تھا۔ اب میں ہر روز میراجی کی شراب کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے اس سے کبھی اس کا ذکر نہیں کیالیکن اس کو علم ہوگیا تھا، چنانچہ ایک دن مجھے اس سے معلوم ہوا کہ اس نے شراب چھوڑنے کے قصد سے بھنگ کھانی شروع کردی ہے۔

بھنگ سے مجھے سخت نفرت ہے۔ ایک دو بار استعمال کرنے سے میں اس کے ذلت آفرین نشے اور اس کے رد عمل کا تجربہ کر چکا ہوں۔ میں نے میرا جی سے جب اس کے بارے میں گفتگو کی تو اس نے کہا، ’’نہیں۔۔۔ میرا خیال ہے یہ نشہ بھی کوئی برا نہیں، اس کا اپنا رنگ ہے، اپنی کیفیت ہے، اپنا مزاج ہے۔‘‘ اس نے بھنگ کے نشے کی خصوصیات پر ایک لیکچر سا شروع کردیا۔ افسوس ہے کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ اس نے کیا کہا تھا۔ اس وقت میں اپنے دفتر میں تھا اور’’ آٹھ دن‘‘ کے ایک مشکل باب کی منظر نویسی میں مشغول تھا اور میرا دماغ ایک وقت میں صرف ایک کام کرنے کا عادی ہے وہ باتیں کرتا رہا اور میں مناظر سوچنے میں مشغول رہا۔

بھنگ پینے کے بعد دماغ پرکیا گزرتی ہے، مجھے اس کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ گردوپیش کی چیزیں یا تو بہت چھوٹی ہو جاتی ہیں یا بہت بڑی۔ آدمی حد سے زیادہ ذکی الحس ہو جاتاہے، کانوں میں ایسا شور مچتاہے جیسے ان میں لوہے کے کارخانے کھل گئے ہیں۔ دریا پانی کی ہلکی سی لکیر بن جاتے ہیں اور پانی کی ہلکی سی لکیریں بہت بڑے دریا۔ آدمی ہنسنا شروع کرے تو ہنستا ہی جاتا ہے۔ روئے تو روتے نہیں تھکتا۔

میرا جی نے اس نشے کی جوکیفیت بیان کی وہ میرا خیال ہے اس سے بہت مختلف تھی۔ اس نے مجھے اس کے مختلف مدارج بتائے تھے، اس وقت جب کہ وہ بھنگ کھائے ہوئے تھا۔ غالباً لہروں کی بات کررہا تھا، ’’لو وہ کچھ گڑ بڑ سی ہوئی۔۔۔ کوئی چیز ادھر ادھر کی چیزوں سے مل ملا کر اوپر کو اٹھی، نیچے آگئی۔۔۔ پھر گڑبڑ سی ہوئی، اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ دماغ کی نالیوں میں رینگنے لگی، سرسراہٹ محسوس ہورہی ہے۔۔۔ پر بڑی نرم نرم۔۔۔ پورے اعلان کے ساتھ۔۔۔ اب یہ غصہ میں تبدیل ہورہا ہے۔۔۔ دھیرے دھیرے۔۔۔ ہولے ہولے۔۔۔ جیسے بلی گدگدے پنجوں پر چل رہی ہے۔۔۔ اوہ۔۔۔ زور سے میاؤں ہوئی۔۔۔ لہر ٹوٹ گئی۔۔۔ غائب ہوگئی۔‘‘ اور وہ چونک پڑتا۔

تھوڑے وقفے کے بعد وہ پھر یہی کیفیت نئے سرے سے محسوس کر تا، ’’لو، اب پھر نون کے اعلان کی تیاریاں ہونے لگیں، گڑبڑ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ آس پاس کی چیزیں یہ اعلان سننے کے لیے جمع ہو رہی ہیں۔ کانا پھوسیاں بھی ہورہی ہیں۔ ہوگیا۔۔۔ اعلان ہو گیا۔۔۔ نون اوپر کو اٹھا۔۔۔ آہستہ آہستہ نیچے آیا۔۔۔ پھروہی گڑبڑ۔۔۔ وہی کانا پھوسیاں۔۔۔ آس پاس کی چیزوں کے ہجوم میں نون نے انگڑائی لی اور رینگنے لگا۔۔۔ غنہ کھنچ کر لمبا ہوتا جارہا ہے۔۔۔ کوئی اسے کوٹ رہا ہے، روئی کے ہتھوڑوں سے۔۔۔ ضربیں سنائی نہیں دیتیں، لیکن ان کا ننھا منا، پرسے بھی ہلکا لمس محسوس ہورہا ہے۔ غوں، غوں، غوں۔۔۔ جیسے بچہ ماں کا دودھ پیتے پیتے سو رہا ہو۔۔۔ ٹھہرو، دودھ کا بلبلہ بن گیا ہے۔۔۔ لووہ پھٹ بھی گیا۔۔۔‘‘ اور وہ پھر چونک پڑتا۔

مجھے یاد ہے، میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ اپنے اس تجربے، اپنی اس کیفیت کو اشعار میں من و عن بیان کرے۔ اس نے وعدہ کیا تھا، معلوم نہیں اس نے ادھر توجہ دی یا بھول گیا۔ کرید کرید کر میں کسی سے کچھ پوچھا نہیں کرتا۔ سرسری گفتگوؤں کے دوران میں میرا جی سے مختلف موضوعوں پرتبادلہ خیالات ہوتا تھا، لیکن اس کی ذاتیات کبھی معرض گفتگو میں نہیں آئی تھیں۔ ایک مرتبہ معلوم نہیں کس سلسلے میں اس کی اجابتِ جنسی کے خاص ذریعے کا ذکر آگیا۔ اس نے مجھے بتایا، اس کے لیے اب مجھے خارجی چیزوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسی ٹانگیں جن پر سے میل اتارا جارہا ہے۔۔۔ خون میں لتھڑی ہوئی خاموشیاں۔۔۔‘‘

یہ سن کر میں نے محسوس کیا تھا کہ میرا جی کی دلالت، اب اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ اسے خارجی ذرائع کی امداد طلب کرنی پڑ گئی ہے۔ اچھا ہوا وہ جلدی مر گیا، کیونکہ اس کی زندگی کے خرابے میں اور زیادہ خراب ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اگر کچھ دیر سے مرتا تو یقیناً اس کی موت بھی ایک دردناک ابہام بن جاتی۔


How to use voice typing in Urdu