جمعرات، 18 فروری، 2021

مادری زبان کی اہمیت و افادیت

 مادری زبان کی اہمیت و افادیت

 روخان یوسفزئی


کسی قوم کے لیے اظہار کا سب سے بہترین ذریعہ اْس کی مادری زبان ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں دانشور اپنی دھرتی کے ساتھ جْڑے رہتے ہیں اور ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو اْن ممالک کی عوام اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں۔ لیکن محکوم دانشور، اْدھار سوچ کے حامل نام نہاد حکمران و لکھاری اپنی قوم کی اتنی بْرائیاں کرتے ہیں کہ عوام کو اپنی دھرتی، اپنی ماں بولی زبان اور اپنی تاریخ سے دور کر دیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی آمد نے یہاں کی عوام کو انتہائی ذلت آمیز رسوائی میں مبتلا کردیا۔ انگریز تو یہاں کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے آیا تھا لیکن جب اْس نے دیکھا کہ برصغیر کے حکمران تو بس تخت و تاج کی خاطر اپنے ہی پیارے بہن بھایؤں کے گلے کاٹ رہے ہیں تو انگریز نے تجارت کے ساتھ ساتھ اِس چھوٹے بر اعظم پر حکومت کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ اِس طرح دھرتی میں رہنے والے اپنی ہی زبان اور ثقافت پر نازاں ہونے کی بجائے شرمندگی محسوس کرنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز برصغیر کا حکمران کیا بنا اْس نے یہاں کے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا۔ اپنی زبان کو اتنا اونچا درجہ دے دیا کہ عوام دیسی زبانیں بولنے میں شرمندگی محسوس کرتے۔ یوں پھر تعلیمی نظام جو برصغیر میں صدیوں کی محنت کے بعد ترتیب پایا تھا اْس نظام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ ہندو شاطر تھے۔ اْنہوں نے انگریز کا ہمنوا بننے میں ہی عافیت سمجھی اور مسلمان جو علم کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھے ہوئے تھے انگریزی زبان کی ترویج کی وجہ سے یک دم ان پڑھ قرار دے دیئے گئے۔ انگریز نے غلامی کا وار اِس انداز میں کیا کہ مسلمانوں کا صدیوں سے رائج نصاب بے وقعت کر دیا گیا۔ ایک طرف مسلمان معاشی طور پر دلد ل میں پھنستے چلے گئے تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں انگریزی زبان کے فروغ کا زور و شور اْن کو لے ڈوبا۔ علم و عمل کی بنیاد پر برصغیر پر ہزار سال حکومت کرنے والی مسلم قوم کو ایک دم جاہل گنوار بنا کر رکھ دیا گیا۔ انگریز کی اِس کاری ضرب کی وجہ سے مسلمان اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔ متذکرہ بالا تمہید باندھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جن اقوام کا اپنی ہی مٹی سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے شکست اور ذلت و پستی اْن کا مقدر بن جاتی ہے۔ پاکستان، ہندوستان، امریکہ، افریقہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، ایران، اٹلی و دیگر ممالک کی اقوام کی اپنی علیحدہ زبانیں ہیں جو کہ اقوام کے افراد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کی ایک قومی زبان ہوتی ہے جس سے ہر ملک کے افراد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 21 فروری کو زبانوں کی پہچان اور ان کی اہمیت سے آگاہی کے لئے مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ نومبر 1999ء کو یونیسکو کی انسانی ثقافتی ورثے کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ رواں سال بھی اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کے ممالک میں محفلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے متعدد شہروں کی یونیورسٹیز، کالجز اور سکولز و دیگر سیاسی و سماجی اداروں میں زبانوں سے متعلق آگاہی کے لئے سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ انسان کی یاداشت بدل جاتی ہے لیکن زبان نہیں بدلتی، وہ یاداشت کھو سکتا ہے لیکن اپنی زبان نہیں بھول سکتا۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لئے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ قومیت کی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگارنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہیں۔ یاد رہے مقامی یا مادری زبانوں کو انسان کی دوسری جلد بھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہر لفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب و تمدن اور ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقاء اور اس کے فروغ کا سب سے موثر آلہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ اور اس کی قومیت غرض سب کچھ مٹ جائے گا۔ یہا ں پر ذکر کرنا مقصود ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہو چکی ہیں۔ زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 860 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیاء دوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11 اور اردو بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہے۔ آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زود اثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں، انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھرا کر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔ معلم کے لیے بھی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دینا بہت آسان ہوتا ہے اور اس کے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنا پڑتی اور مہینوں کا کام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج و اشاعت میں مدد ملتی ہے، زبان کی آبیاری ہوتی ہے، نیا خون داخل ہوتا ہے اور پرانا خون جلتا رہتا ہے جس سے صحت مند اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پذیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے، نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں، نیا ادب تخلیق ہوتا ہے اور استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام، عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب انگریزی زبان میں ہے۔ ہم کب تک انگریزی کا پیچھا کریں گے۔ قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقد کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء و محققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے، ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور ان کے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منوا سکے۔ عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ صرف 75 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور صرف 8 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو کل عالمی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار اور بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اربا ب اختیار کو چاہیے کہ قوم کو درست سمت میں لے کر جایا جائے اور ابتدائی کلاس میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔


پروین شاکر:شخصیت، شاعری، ساحری از نایاب حسن

 

پروین شاکر:شخصیت، شاعری، ساحری

نایاب حسن

 

حیران آنکھوں،شبنمی رخساروں،کشادہ پیشانی اوراداس مسکراہٹ والی ایک لڑکی نے محض25سال کی عمرمیں اردوشاعری کی دنیامیں اِس شکوہ کے ساتھ قدم رکھاکہ معاصراہلِ ادب و شعرکی نگاہیں خیرہ ہوگئی ہیں۔اردوادب میں شعراکی فہرست توطویل ترہے مگرشاعرات اور وہ بھی ایسی شاعرات،جن کے لب و لہجے نے،اندازواسلوب نے،مضامینِ شعرنے،خیالات کی ندرت و جودت و جدت نے اورالبیلے طرزِاظہاروادانے ایک دنیا کو مسحور کر دیا ہو،کم ازکم اردوادب وشاعری میں نایاب نہیں توکم یاب ضرورہیں۔پروین شاکر (24/نومبر1952-26/دسمبر 1994)نے اردوشاعری کوجولہجہ دیا،وہ سب سے اچھوتا،انوکھااوردل چسپ تھا۔انھوں نے صنفِ نازک کے مسائل، مشکلات، خانگی الجھنوں،انفرادی مشکلوں،معاشرتی جکڑبندیوں،حسن و عشق کی خاردارراہوں کی آبلہ پائیوں کاذکراپنی شاعری میں بڑے منفرداندازمیں کیا ہے۔پروین شاکربلاکی ذہین ہونے کے ساتھ اعلیٰ علمی لیاقتوں سے بھی آراستہ تھیں،انگریزی زبان و ادب میں جامعہ کراچی ،ہارورڈیونیورسٹی اورٹرینیٹی کالج (امریکہ) سے انھوں نے اعلیٰ علمی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔شعوروآگہی ان کا نمایاں ترین وصف تھا،وہ آگہی،جس نے ان پر شہرِذات کے دروازے کھولے اورجس کے بعدان کی خلاقانہ قوت و صلاحیت نے اردوشاعری کومالامال کردیا۔پروین شاکرنے پہلی بارصنفِ نازک کے متذکرہ بالامسائل کوآشکارکرنے کے لیے 'ضمیرِمتکلم'کااستعمال کیا۔جن مسائل کا انھوں نے اپنی شاعری میں ذکرکیاہے،ہوسکتاہے،وہ سارے مسائل خودانھیں درپیش نہ ہوئے ہوںمگران کی شاعری کوپڑھنے ،مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طورپرلگایاجاسکتاہے کہ اجتماعی طورپرصنفِ نازک کاہرزمانے میں اُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکرمختلف پیرایوں میں پروین شاکرنے اپنی شاعری میں کیاہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جوں ہی اردوشاعری میں اُن کا ظہورہوا،انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ان کے کلام کا پہلا مجموعہ "خوشبو" 1976ءمیں منظرِعام پرآیااور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیاپھریکے بعد دیگرے "صدبرگ" (1980) "خودکلامی" (1980)  "انکار"  (1990)  ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور سب کوبے پناہ مقبولیت،پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا،ان کا پانچواں شعری مجموعہ ان کی جواں مرگی کے سانحے کے دوسرے سال"کفِ آئینہ " کے نام سے ان کی بڑی بہن نسرین شاکرکی نگرانی میں زیورِطبع سے آراستہ ہوا،اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور"کفِ آئینہ"خودانہیں کا تجویزکردہ نام ہے۔پروین شاکرکی شاعرانہ عظمت و بلندقامتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ انھیں پہلی ہی کتاب "خوشبو"پر"آدم جی ایوارڈ"سے سرفرازکیاگیا جب کہ 1990ءمیں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز'تمغئہ حسنِ کارکردگی 'بھی انھیں تفویض کیاگیا۔ 1982ءمیں جب وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں تواردوکے پرچے میں ایک سوال خودان کی شاعری کے تعلق سے تھا،ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش،جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے۔ پروین شاکرکومتعددناقدین نے بیسویں صدی کی مشہورایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد(5/جنوری 1935ء-13/فروری 1967ء)سے تشبیہ دی ہے اورواقعتاً دونوں کی خانگی و معاشرتی زندگی سے لے کرشاعری کی تھیم اور جواں مرگی تک میں عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے،پروین شاکرکوفروغ سے ذہنی وابستگی بھی تھی،انھوں نے فروغ کے لیے ایک نظم بھی کہی تھی جوان کے شعری مجموعہ "خودکلامی" میں شامل ہے:

مصاحبِ شاہ سے کہوکہ

فقیہِ اعظم بھی تصدیق کرگئے ہیں

کہ فصل پھرسے گناہ گاروں کی پک گئی ہے

حضورکی جنبشِ نظرکے

تمام جلادمنتظرہیں

کہ کون سی حد جناب جاری کریں....

پروین شاکرکی ممتازشاعرانہ خصوصیت جذبے کی صداقت ہے،وہ اپنے خیال و فکرکوپوری وضاحت ،دیانت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ، چاہے معاملاتِ عشق ہوں یاکاروبارِ معاشرت و سیاست،کسی بھی پہلوپرجب وہ گویاہوتی ہیں توکسی قسم کا ابہام،اِغلاق اوراُلجھاؤنہیں چھوڑتیں۔ لطافت، شوخی،خیال کا جمال اوراحساس کی نازُکی بھی نسوانیت کے تمام ترحسن و دل کشی کے ساتھ پروین شاکرکے یہاں جلوہ گرہیں۔ بارش، شبنم،نور، روشنی، رنگ، دھوپ،  جنگل، آندھی، ہوا،  گلاب ،تتلی، سانپ وغیرہ مظاہرِ فطرت وہ استعارے ہیں جوپروین کی شاعری کوکردارفراہم کرتے اورجن میں تفکروتدبرسے ان کی شاعری کا تانا بانا تیار ہوتا ہے،خواب اور نیندبھی پروین کی شاعری میں استعمال ہونے والے اہم استعارے ہیں۔ تشبیہ،استعارہ و کنایہ شاعری اور خاص طورسے غزلیہ شاعری کی جان ہوتی ہے اور یہ وصف پروین شاکرکی شاعری میں کمال کی حد تک پایاجاتاہے۔ذیل کے کچھ اشعارسے پروین شاکرکی مذکورہ شعری خصوصیات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے:

تری ہنسی میں نئے موسموںکی  خوشبوتھی

نویدہوکہ بدن سے پرانے خواب اترے

سپردگی کا مجسم سوال بن کے کھلوں

مثالِ قطرۂ شبنم تراجواب اترے

چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو

ہواکے ساتھ سفرکا مقابلہ ٹھہرا

جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی

ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے

میں نے پھرتیرے تصورکے کسی لمحے میں

تیری تصویرپہ لب رکھ دیے آہستہ سے

چہرہ میراتھا،نگاہیں اس کی

خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی

شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں

تیزہوتی ہوئی سانسیں اس کی

ایسے موسم بھی گزارے ہم نے

صبحیں جب اپنی تھیں،شامیں اس کی

دوررہ کر بھی سدارہتی ہیں

مجھ کوتھامے ہوئے بانہیں اس کی

کھلی آنکھوں میں سپناجاگتاہے

وہ سویاہے کہ کچھ کچھ جاگتاہے

تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں

مراتن موربن کر ناچتاہے

میں اس کی دست رس میں ہوں مگروہ

مجھے میری رضاسے مانگتاہے

تجھ کو کھوکربھی رہوں خلوتِ جاں میں تیری

جیت پائی ہے محبت نے عجب مات کے ساتھ

پروین شاکرنے محبوب کی بے رخی،بے توجہی، عدمِ التفات یا بے وفائی کوبھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بیان کیاہےمگر یہاں بھی وہ طرزِادامیں دیگرشعراسے ممتازہیں۔اس کیفیت کوبیان کرتے ہوئے ان کا لہجہ شاکیانہ توہے ہی مگر ملتجیانہ اورپرامید بھی ہے۔ وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں مگردرپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی صورت ان کی طرف متوجہ ہو:

اب تواس راہ سے وہ شخص گزرتابھی نہیں

اب کس امیدپہ دروازے سے جھانکے کوئی

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسابھی توہیں

وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے

اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ

وہ اگر آئے،توکچھ بھی نہ بتانے آئے

کوئی توہو،جومرے تن کوروشنی بھیجے

کسی کا پیارہوامیرے نام لائی ہو

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

کون ہوگاجومجھے اس کی طرح یاد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روزاِک موت نئے طرز کی ایجادکرے

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجرکافیصلہ بھی تھا

ہم نے توایک بات کی،اس نے کمال کردیا!

ہمیں خبرہے ہواکامزاج رکھتے ہو

مگریہ کیاکہ ذرادیرکورکے بھی نہیں!

توبدلتاہے توبے ساختہ میری آنکھیں

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اُلجھ جاتی ہیں

پروین شاکرکی شاعری میں رومانوی خیالات کی بھی فراوانی ہے،جوخاص طورسے نوجوان نسل کے لیے باعثِ کشش ہے۔حسن و عشق کے لمحۂ وصال کی تعبیروترجمانی میں انھوں نے کمالِ ہنرمندی کا مظاہرہ کیاہے اورسرشاری،وابستگی و سپردگی کی کیفیات کوبڑے لطیف و حسین پیرایے میں بیان کیاہے۔خاص طورسے"خوشبو"کی غزلوں کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کے خیالات کا اظہارہے۔ایک غزل:

سبزمدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک

سردکمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک

بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن

سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کچھ ڈھلکاہوا

گرمیِ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا

نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ

سرخ ہونٹوں پرشرارت کے کسی لمحے کا عکس

ریشمی بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم دھنک

شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات

دودلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اِک صدا

کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا

کاش یہ لمحے ٹھہرجائیں،ٹھہرجائیں ذرا!

معاملاتِ حسن وعشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانے والی ناانصافی و نابرابری،استحصالی سسٹم،چہارسمت بکھرے ہوئے خوف، زیردستوں کے تئیں زبردستوں کے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلااحتجاج بھی پروین شاکرکی شاعری میں متعددمقامات پردیکھنے کوملتاہے:

میراسرحاضرہے،لیکن میرامنصف دیکھ لے

کررہاہے میری فردِ جرم کو تحریرکون

میری چادرتوچھنی تھی شام کی تنہائی میں

بے ردائی کومری پھر دے گیاتشہیر کون

وہ خوف ہے کہ سرِ شام گھرسے چلتے وقت

گلی کا دورتلک جائزہ ضروری ہے

لہوجمنے سے پہلے خوں بہادے

یہاں انصاف سے قاتل بڑاہے

کسی بستی میں ہوگی سچ کی حرمت

ہمارے شہرمیں باطل بڑاہے

انھوں نے معاشرے کے دبے کچلے،مزدوروکامگارطبقے کے مختلف کرداروں پربھی شاعری کی ہے اوران لوگوں کی طرف حمایت کا ہاتھ بڑھایاہے،جن کی شب و روزکی جفاکشی سے دوسرے لوگ توخوب فیض یاب ہوتے ہیں مگروہ بے چارے ساری زندگی تہی مایہ و بے سروساماں ہی رہتے ہیں۔"انکار"کی نثری نظموں کابیشترحصہ ایسے ہی کرداروں کومنسوب ہے۔

پروین شاکرکاایک اوراہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مخصوص شعری صنف"نثری نظم"کونئی بلندیوں اور مقبولیت کی نئی منزلوں تک پہنچایا،ان کے دورمیں اور ان سے پہلے بھی کئی بڑے شاعروں نے اس صنف کواختیار کیاتھامگرپروین شاکرکی بدولت اس صنفِ شاعری کا جغرافیہ مزیدوسیع و عریض ہوگیا۔

پروین شاکرکی دلکش و سحرطراز شاعری نے اردوکے لفظیاتی ذخیرے اورتعبیراتی و اسلوبی نظام کوبھی نئی اورخوش رنگ شکلوں سے آشناکیا۔انھوں نے اپنے خیال کوالفاظ و اظہار کا جامہ پہنانے کے لیے لفظوں کی ایسی تراکیبِ نوترتیب دیں،جس سے اردوادب کوایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت پیرایہ ہاے اظہارملے،انھوں نے اپنی پوری شاعری میں جونئی اورانوکھی تعبیریں استعمال کیں،ان کی صحیح تعدادکئی سو ہوسکتی ہےمگراپنی رسائی کے بقدرراقم ان کی شاعری کامطالعہ کرکے جنھیں اکٹھاکرسکاہے،وہ یہ ہیں:شیشہ رُو،بنفشی ہاتھ،دریچۂ گل،موجۂ گل،سایۂ گل،پابہ گِل،چشمِ گل،قامتِ شعر، سروبدن،قریۂ جاں،خانہ بجاں،شجرِ جاں،حجلۂ جاں،نقدِ جاں،جاں گزارنا،رخشِ جاں،پیشِ جاں،عرصۂ جاں،آتشِ جاں،کلبۂ جاں،طائرِ جاں،شیشۂ جاں،خیمۂ جاں، تہہ خانۂ جاں،عکسِ خوشبو،حرفِ سادہ،موجِ ہوا،ذہین نگاہ،دستِ صبا،پہاڑ دن،اُجاڑ رات،زبانِ رنگ،لمسِ مرگ،گلابی دھوپ،سانپ راتیں، اُلوہی لمحے،قباے خاک،دل زدہ،پھول بدن،شہرِ ناسپاس،اُجلی خواہش،سحاب لہجہ،خزاں زاد،نایافت شہریت،خواب آسا سکوت،بے چہرہ وجود،قرطاسِ بدن، ہوابردہوجانا،شبنم بدست،شب گزیدہ،خوش بدن،درِکم باز،زَردائی ہوئی رُت،شہرِ سخن فروشگاں،مادرزاد منافق،شہرِ صدآئینہ،شبنم رنگ پیشانی،گلابی لذت،لمسِ گریزاں،نرم فامی،لالہ فامی،سبک نام،چھاؤں اُگانا،موسمِ بے اختیاری،چہرہ اُگانا،دست بستہ شہر،بے فیض بدن،بھوکی آنکھ،جلتا فقرہ،شب زاد،موجۂ خواب،سہم ناکی،عنکبوتی ہنر،کوفۂ عشق،سورج خور،شاخِ گریہ،خوابِ یکتائی،لمحۂ جمال،حرفِ اندمال،ناخنِ وصال،گونگے سناٹے،خوش چشم،دلِ شب زاد،تہی زاد،جمشید کُلاہی،خنجرِ گل فام،شہرِ رسن بستہ، کلاہِ زخم زدہ،سفاک لمحے،نشاطِ حسن بازی،کنارۂ روح، شہادت گہہِ وفا،حرفِ سبز،صاعقہ مزاج، بدن گیرغراہٹ،ستارہ ساز ہاتھ،زمزمہ آثار،ہوانژاد،کفِ گلاب،آئینہ نژاد،فصیلِ شوق،آئینے کی آنکھ،دیدۂ بے خواب،اصل شناس،افراطِ خواہش،تفریطِ وقت،درہمِ خودداری،دینارِ عزتِ نفس،منسوخ شدہ قدریں،آدابِ مسافرداری،صلیبِ خوں آشام،صیغۂ عقد، ہوامزاج،ستارہ سوار،قیمتِ شگفت،نیم بیدار منظر،بیضوی موڑ،شاخِ بدن، خوش لمس ہوا،زندگی کمانا،تیرِ شناسائی،سنسان زندگی،ہجومِ ہم خوابگاں،بنجر ذہنوں میں پھول اگانا،ناخنِ ملال،تہہ خانۂ غم،دیوارِ خواہش،بدن کے موسم، ذہن افگن مسئلہ،فصیلِ جسم،آوارگانِ شب،طائرِ امید،آسماں جناب،سوچ سے خوشبوبنانا،یرقانی سوچ،گرگ زاد غم خواری،دل کی آبروریزی،ہمہ تن چشم،بساطِ زیست،زمیں زاد،نشتر بدست شہر،فرشِ فلک،عہدِ مہرباں،دہلیزِ سماعت،فضاے حرف و صوت،توازن گر طبیعت،خانۂ آئینہ ساماں،گلابی خوشبو، حدِّبصارت، جنتِ خاشاک نہاد،عظمتِ یک لحظہ،وقت کی ہم گامی،نصابِ تملُّق،کوے جفا،عذابِ دربدی، سفیدپوشیِ دیوارودر،خرقۂ غم،پوششِ رسوائی،چادرِ دل داری، حصارِ دعا،جگنوسی زمیں،کفِ آسماں،قباے شجر،دیارِ عزال چشماں،شب پیمائی،موسمِ بے چہرگی،آئینہ بردوش،عکسِ بے منظر،پرندِ خوش خبر،مداراتِ الم،سبزۂ بیگانہ،ریشمیں فرصت،شعلہ رُو،فرش خوابی،ہواے شہرِ ستم،قباے سخن،مجاورینِ ادب، طائرِ خوں بستہ،بوسیدہ بیوی،جہنمی درجۂ حرارت، محبت کی کلینکل موت،نوخیز خوشبو،منصبِ دلبری، نرم روشنی،وعدہ گہہِ ہستی،صبح چہر،آوازکاچہرہ چھونا، جنوں خیز خوشبو، موسمِ عنبرفشاں۔

پروین شاکرکاآبائی وطن ہندوستان کے گیاضلع سے تھا،1947ءمیں ان کے والد کراچی ہجرت کرگئے تھے اورپروین شاکرکی پیدایش ونشوونماوہیں ہوئی مگراس کے باوجودانھیں ہندوستانیت سے گہری وابستگی تھی اوراسی نسبت سے یہاں کی ہندی زبان اور ہندوتہذیب سے بھی وہ آگاہ تھیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بعض خالص ہندی الفاظ کوجس چابک دستی و ہنرمندی سے برتااور استعمال کیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ہندی زبان و ادب پر بھی دستگاہ رکھتی تھیں۔ان کے یہاں دیوتا، مدُھر، سنگیت، سمے، سنسار،پریم،روپ،من موہن، سَکھی، سُر، اَنگ، رُت، سنگم، دیس، بَن، جنم، سندیس، ساگر، آدرش، گمبھیر، راج کماری،بھور، سنگ، ساجن، گوری، مُکھ، نین، مُسکانا، سہاگن، سندرتا،  جَگ، پرویَّا،  پجاری،  سادھو،  منتر، بن باس لینا،  ریکھا،  وِیر،  مہکار،  سیندور،  کجرا،  ہِردے، چتا، داسی، درشن، امرِت،شریر،کومل سر،  پوتر،  چرن،  بھوَن،  بھیتر ، سنجوگ، پتی، آکاش، چندرما، آتما، چھایا، راجا، بدھائی، جل، بِنتی،سینتنا،سانجھ سویرے،سمبندھ،سمان،راج رتھ،آرتی اتارنا، آڑھت، آشا، پُرش، بھاگ، اپمان، بلیدان، سمپورن، شبد، ادھیکار، دان کرناجیسے الفاظ جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح انھوں نے کئی غزلوں میں ہندوؤں کی مذہبی علامتوں مثلاً دیوالی،مندر،گنگا،کرشن،گھنشیام جیسے کرداروں کوبھی مضامینِ غزل کے طورپراستعمال کیاہے۔

الغرض پروین شاکراردوکی ایک مکمل،ہمہ جہت اورکامیاب ترین شاعرہ ہیں،جن کی شاعری دلوں کے تارچھیڑتی اوراحساساتِ دروں کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کوایک عرصہ گزرگیامگرہنوزان کانام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے اور آیندہ بھی رہے گا(ان شاءاللہ)۔ خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا،سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:

مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلاہی دیں گے

لفظ میرے،مرے ہونے کی گواہی دیں گے

بہ صد شکریہ جالبین اور http://ncpulblog.blogspot.com/2019/03/blog-post_13.html

How to use voice typing in Urdu