اتوار، 31 مارچ، 2013

Sar Mundate hi...Pade

Azmi's: सर मुंडाते ही ...पड़े: सर मुंडाते ही ...पड़े शाम का वक्त है और मैं अपने आंगन में लेटा, अपने आप में गुम,  सुर और ताल के साथ गुनगुना रहा हूँ: मेरी ख़ब्तुलहवास...

جمعرات، 28 مارچ، 2013

Azeez Lakhnavi ki ghazal goyi


عزیز لکھنوی کی غزل گوئی

ادب زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ یہ خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے میں پیش کرتا ہے۔ ادب میں انسانی زندگی کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اس میں انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ مشاہدات،تجربات اور خیالات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ شاعر یا ادیب کا تعلق کسی نہ کسی ایک سماج اور کسی ایک ملک سے ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سماج کی رسموں اور تہذیب کا،جس میں کہ ادیب پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہے،کا اثرادیب پرہونا لازم ہے۔ چوں کہ شاعری بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے طلبہ میں اس کا ذوق و شعور پیدا کرنے، ا ن میں شعر فہمی کو ابھارنے کے لیے شاعری کا درس دیا جاتا ہے۔ اس کے مطالعے سے طلبہ میں نہ صرف شعری ذوق پیدا ہوتا ہے بلکہ ان میں اپنی تہذیب اور زبان سے ایک لگاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ زبان کی باریکیوں، لفظوں کے در و بسط اور شعری محاسن سے بھی واقف ہوتے جاتے ہیں۔

دبستانِ لکھنؤ کی خدمات اردو شاعری کے تعلق سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ چند کمیوں کو اگر نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو ہمیں اس میں بہت سی خوبیاں بھی نظر آئیں گی۔ ان کمیوں سے الگ اس کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جس کو اردو زبان کبھی فراموش نہیں کرسکتی اور وہ ہے اصلاحِ زبان۔ اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ میرؔ اور سوداؔ کے زمانے میں زبان کی اصلاح کا کافی کام ہوا تھا، اس کے باوجود بہت سے نامانوس الفاظ کا استعمال ہو رہا تھا۔ ان سب کی اصلاح کا سہرا ناسخؔ کے سر ہے۔ انہوں نے زبان کے قاعدے مقرر کیے اور ان پر خود بھی عمل کیا اور شاگردوں سے بھی اس پر کاربند رہنے کی ہدایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنوی دبستان کے شعرأ کی زبان نہایت صاف ستھری اور رواں ہوتی ہے۔ عزیزؔلکھنوی کا تعلق بھی اسی دبستان سے ہے، جن کا مطالعہ ہم یہاں کرنے جارہے ہیں۔ عزیزؔ لکھنوی کے کلام میں اس دبستان کے شعری معیار کی پاسداری مکمل طور پر نظر آتی ہے۔ ہر شاعر کی اپنی ایک طبعی و فطری جہت بھی ہوتی ہے، جس سے وہ کسی خاص صف میں شامل ہونے کے باوجود بھی اپنا ایک انفرادی رنگ و آہنگ رکھتا ہے۔

شاعری وفورِ جذبات کے بے اختیار بہہ نکلنے کا نام بھی ہے اور نغمۂ الہام بھی۔ یہ زندگی اور حالات کی روشن تفسیر بھی ہے اور تفریح طبع کا سامان بھی۔ یہ ہمارے کانوں میں رس ہی نہیں گھولتی بلکہ دلوں پر اثر انداز ہوکر فکر و احساس کو ایک خوشگوار کیفیت بھی عطا کرتی ہے۔ ادب حقیقتاً زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے، جس میں خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اس میں انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ مشاہدات، تجربات اور خیالات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔

اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن کا نام غزل ہے۔ غزل جسے کبھی اردو شاعری کی آبرو کہا گیا تو کبھی ناپاک دفتر مگر اس نے ہمیشہ وقت کا ساتھ دیا اور وقت ہی نے یہ ثابت کیا کہ جو خوبی غزل میں ہے، وہ کسی دوسری صنف ادب میں نہیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں جب غزل کو ترقی پسندوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تو حسرتٓ،  فانیٓ، اصغرؔ گونڈوی اور جگرؔ مرادآبادی نے اسے ایک نئی قوت عطا کی۔ عزیزؔ لکھنوی کا تعلق بھی اسی عہد سے ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انہوں نے غزل کی آبیاری کہاں تک کی۔

عزیزؔ لکھنوی کا پورا نام محمد ہادی اور عزیزؔ تخلص ہے۔ ان کی ولادت 1882 میں لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے اجداد کا وطن شیراز (ایران) تھا۔ علم و فضل خاندان میں موروثی تھا۔ عزیزؔ کی عمر ابھی سات سال کی تھی کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لیکن فطری شوق نے علم حاصل کرنے سے منہ نہ موڑنے دیا اور مطالعہ کا شوق ہمیشہ قائم رہا۔ اساتذہ کے دواوین اور کتب سے ان میں شاعری کا ذوق پروان چڑھا۔ غالباً طالب علمی ہی کے زمانے میں شاعری کا ذوق پیدا ہوگیا تھا۔ شاعری کی ابتدا فارسی سے ہوئی مگر بہت جلد اردو میں شعر کہنے لگے اور اصلاح سخن کے لیے صفیؔ لکھنوی سے مشورہ کرتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں انہوں نے صفیؔ کے شاگردوں میں اپنی ایک خاص جگہ بنا لی۔ عزیزؔ لکھنوی کا شمار اردو کے ان چند شعرأ میں ہوتا ہے، جنہوں نے جدید دور میں غزل کی نوک پلک سنوارنے کی کوششیں کیں۔

ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’’گل کدہ‘‘ کے عنوان سے 1919 میں پہلی بار اور 1931 میں تیسری بار شائع ہوا۔ 1919 کے بعد کی تخلیقات ان کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ ’’انجم کدہ‘‘ اور ’’قصائد عزیزؔ‘‘ ان کے دو مجموعے اور شائع ہوئے ہیں۔ عزیزؔ لکھنوی نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ قصیدہ گوئی میں بھی آپ کا پایہ کافی بلند ہے لیکن ان کی اصل قدر و منزلت غزلوں کی وجہ سے ہی ہے۔ محمد اقبالؔ ’’گل کدہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ 
’’
میں آپ کے کلام کو ہمیشہ بہ نظر استفادہ دیکھتا ہوں۔
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا 
سبحان اللہ یہ بات ہر کسی کو نصیب نہیں! موجودہ ادبیات ارد و کی نظر حقائق پر ہے اور یہ مجموعۂ غزلیات اس نئی تحریک کا بہترین ثبوت ہے۔‘‘  (گل کدہ ، ص: 12 ، 1931 (

عزیز لکھنوی کے مراسم مرزا محمد عباس علی خاں جگر سے بڑے خاص تھے۔ یہ ڈپٹی کمشنر اور رئیس اعظم لکھنؤ تھے۔ سات آٹھ سال تک ان کے خاص معتمد رہے اور جگر کو اصلاح سخن دیتے رہے۔ اس کے بعد امین آباد ہائی اسکول میں فارسی مدرس کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے۔ 1928 میں راجہ صاحب محمود آباد نے طلب کر لیا اور ولی عہد کا استاد مقرر کر دیا۔ اس طرح زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اردو ادب کا یہ ستارہ 1935 میں غروب ہوگیا۔

ویسے تو ان کے شاگردوں کی تعداد کافی ہے مگر ان کے مخصوص شاگردوں میں مرزا جعفر علی خاں اثر، شبیر حسن خاں جوش، جگت موہن لال رواں اور حکیم سید علی آشفتہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جس طرح ہر شخص کا ایک فطری میلان ہوتا ہے، اسی طرح شاعر کا بھی ہوتا ہے۔ کسی کو تخیل آفرینی سے لگاؤ ہوتا ہے تو کسی کو معنی آفرینی سے۔ اسی طرح کسی کو فلسفے سے شغف ہے تو کسی کو سادگی و پرکاری یا استفہام سے لیکن یہ کبھی ضروری نہیں ہے کہ شاعر اپنے آپ کو کسی ایک دائرے تک محدود رکھے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ طبیعت کا جھکاؤ جس طرف ہوتا ہے، رفتہ رفتہ وہ رنگ غالب ہونے لگتا ہے۔ یہی خاص رنگ آگے چل کر شاعر کی انفرادیت قائم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔

عزیز نے غزل، مرثیہ، قصیدہ، رباعی اور نظم میں اپنی شاعری کے جوہر دکھلائے ہیں۔ ان کے قصائد کا مجموعہ ’’صحیفۂ ولا‘‘ اور ادبی، اصلاحی، قومی، مذہبی نظموں کا مجموعہ ’’نالۂ جرس‘‘ کے نام سے شائع ہواہے۔ اس سے ان کی جولانی طبیعت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’گل کدہ‘‘ اور ’’انجم کدہ‘‘ کے مطالعے سے پہلی نظر میں جو بات ذہن میں آتی ہے، وہ ہے غالب کا اثر۔ اس لیے سب سے پہلے اسی رنگ کی بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 


عزیزؔ لکھنوی نے کلامِ غالبؔ کا مطالعہ خاص طور سے کیا تھا اور اسی رنگ کو اپنے لیے اختیار کیا۔ غالبؔ کی پیروی میں نہ صرف نئے مضامین، خیالات اور اسلوب بیان اختیار کیا بلکہ ان کی زمینوں میں کثرت سے غزلیں کہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ عزیزؔ کو بھی استفہام سے کافی دلچسپی تھی جو کہ غالبؔ کا ایک خاص رنگ ہے۔ مثلاً :


شرح جانکاہی عشق ایک غیر ممکن بات ہے
کاٹ کر لانا بہت آساں تھا جوئے شیر کا

بعد میرے میرا ساماں سب تبرک ہوگیا
حلقہ حلقہ بٹ رہا ہے اب مری زنجیر کا

وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہوگئیں
دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں
اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے 
ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں

اگر کچھ ہم کو امید اثر ہوتی تو کیا ہوتا؟
ہماری آہ کوئی کارگر ہوتی تو کیا ہوتا ؟
کیے ہیں ملکے حسن و عشق میں برپا یہ ہنگام
خدائی تیرے قبضے میں اگر ہوتی توکیا ہوتا ؟

حسن بے پردہ ہے یا رب کیا ہی غیرت آفریں
پانی پانی ہوگیا ہے آئینہ تصویر کا

کسی کے وعدے پر اتنا جو انتظار کیا
ارے یہ کون سا دل تھا کہ اعتبار کیا

اوپر درج کیے گئے اشعار سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ عزیز پر غالب کا اثر بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف غالب کا رنگ اپنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی زمینوں میں غزلیں بھی کہی ہیں۔ دیوان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض غزلیں غالب کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہیں۔ عزیز کایہ خاص رنگ ہے جو ان کی شاعری پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ مرزا جعفر حسین عزیز کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ :


’’عزیزؔ مرحوم تمام شعرائے سابقین میں سب سے زیادہ مرزا غالبؔ سے متاثر تھے اور دلی کے رنگ سخن کو قبول کرنے کی انہوں نے کامیاب کوشش کی تھی۔ ‘‘ 

تخیل آفرینی:

عزیزؔ کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں معنی آفرینی، تخیل آفرینی کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ شاعری میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ شاعر کوئی نیا مضمون، نیا خیال لے آئے۔ تخلیق کار انہیں خیالات کو جو نظم کیے جا چکے ہیں، ایک نئے طرز سے نظم کر کے اپنی تخیل آفرینی، فکر کی بلندی کی داد چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ کبھی دو مماثل چیزوں میں فرق تو کبھی دو متفرق چیزوں میں مماثلت دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طورپر عزیزؔ کے اشعار درج ہیں :

سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
 آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا
الحذر اب دور مجھ سے بیٹھتا ہے چارہ گر
زخم پر رکھنے نہ پایا تھا کہ پھاہا جل گیا


کسی نے نزع کی اس طرح گتھیاں سلجھائیں
سرہانے بیٹھ کے ہر سانس کا شمار کیا

آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا ؟
بس ان کے رخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا 

اڑے وہ طور کے پرزے گرے وہ حضرت موسیٰ
اثر تم نے بھی دیکھا کچھ تبسم ہائے پنہاں کا

ہر گل میں تو ہے تجھ میں ہزاروں تجلیاں
دیوانہ کردیا مجھے فصل بہار نے 
جو یہاں محو ماسوا نہ ہوا                      دور اس سے کبھی خدا نہ ہوا 

اک نگہ نے تیری طئے کی صورتِ امید و بیم
سارا جھگڑا مٹ گیا تدبیر اور تقدیر کا

وہی ہمارے لیے پھول ہیں تر و تازہ 
قفس میں خون کے آنسو اگر رلائے بہار

اشعار اور بھی نقل کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ اس طرح کے اشعار ہر صفحے پر ’’گل کدہ‘‘ میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ رنگ غالب ہو کہ تخیل آفرینی ان کی مثالیں کسی بھی غزل میں بہ آسانی مل سکتی ہیں۔ 


سہل ممتنع:

اس کے علاوہ ان کے کلام کی ایک اور خصوصیت ہے اور وہ ہے سہل ممتنع۔ شعر میں سہل ممتنع اس وقت قائم ہوتی ہے، جب شعر میں کوئی مشکل لفظ نہ آئے اور شعر کی نثر بنانا مشکل ہو جائے یعنی شعر کی عبارت نہایت آسان ہو۔ مثلاً:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟ (غالبٓ)
عزیزؔ کی شاعری میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ اتنی سیدھی سادی، عام فہم زبان میں ایسی مضمون آفرینی کم شعرأ کے یہاں دیکھنے میں آتی ہیں، جیسا کہ عزیزؔ لکھنوی کے کلام میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ملاحظہ ہو :

تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی                   بات پر بات یاد آتی ہے
ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی                 اب تو دن رات یاد آتی ہے 

عزیزؔ اس قدر ہم نے سجدے کیے                    خدا ان کو آخر بنا ہی دیا 

سبق آکے گورِ غریباں سے لے لو
خموشی مدرس ہے اس انجمن میں

جس کے مرنے کی ہو خوشی تم کو                     ایسی میت پہ کون روتا ہے
سانس بیمار کی اکھڑتی ہے                 آج قصہ تمام ہوتاہے

دل نے اک بات نہ مانی میری
مٹ گئی ہائے جوانی میری

ائے مرا حال پوچھنے والے                     تجھ کو اب تک مری خبر نہ ہوئی
ہم اسی زندگی پہ مرتے ہیں                  جو یہاں چین سے بسر نہ ہوئی
ہجر کی رات کاٹنے والے کیا                 کرے گا کیا اگر سحر نہ ہوئی

سہل ممتنع کے تعلق سے اب تک جتنے اشعارنقل کیے گئے، ان سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس قدر عام فہم زبان میں ایسے مضمون نظم کرنا آسان نہیں لیکن عزیز اس طرح کے مضامین یوں باندھتے چلے جاتے ہیں کہ احساس نہیں ہوتا کہ اس قدر سہل زبان میں اتنے بلند مضامین کیوں کر نظم ہوسکتے ہیں۔ یہی عزیز کی سب سے بڑی شاعرانہ خصوصیت ہے۔

معنی آفرینی:

شاعری کی خصوصیات کے سلسلے میں اب تک ہم نے تین خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور آخر میں اب معنی آفرینی پر گفتگو کر کے یہ سلسلہ ختم کیا جائے گا۔ معنی آفرینی کی مثالیں جو ایک نظر میں سامنے آئیں وہ درج کی جاتی ہیں:

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا              نور جل جائے ابھی چشمِ تماشائی کا 
اف ترے حسن جہاں سوز کی پر زور کشش           نور سب کھینچ لیا چشمِ تماشائی کا

زمانے کے حوادث خود مری فطرت میں داخل ہیں
مصیبت دل کی کیا کم ہے بلائے آسماں کیو ں ہو؟

سوزِ غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
 آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا!

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

کر دیا دل نے زندۂ جاوید                        قیدِ ہستی سے میں رہا نہ ہوا

بقدر جوشِ جوانی بڑھا غرور ان کا
کہ مے نے نشہ باندازۂ خمار کیا

اچھا ہوا کہ جلد یہ برباد ہوگیا             اتنے سے دل میں ساری خدائی کا درد تھا

درج بالا اشعارسے خود ہی معنی آفرینی کی تعریف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جب شاعر لفظوں کو ایک نئے معنی دیتا ہے یا معمولی لفظوں سے غیر معمولی کام لیتا ہے اور قاری اس کے فن کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا تو اسے معنی آفرینی کہتے ہیں۔

ادب زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ چوں کہ ادیب یا شاعر کسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے، لہٰذا اس معاشرے کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کی عکاسی اس کے فن پارے میں ہونا لازمی ہے۔ ادب و شعر کا مطالعہ قاری میں تہذیب و زبان سے لگاؤ پیدا کرتا ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ زبان کی باریکیوں سے بھی واقفیت پیدا ہوتی ہے۔ عزیز لکھنوی کا کلام بھی انہیں شعری خصوصیات کا آئینہ ہے، جو دبستان لکھنؤ کے حوالے سے ہمارے شعری سرمائے کا حصہ رہی ہیں۔


عزیزؔ لکھنوی کو اساتذہ کے دواوین کے مطالعے نے شعر گوئی کی طرف راغب کیا۔ صفیؔ لکھنوی سے اصلاح سخن لی اور جلد ہی صف اول کے شعرأ میں شمار ہونے لگے۔ پہلا مجموعہ’’گل کدہ‘‘ 1919 میں شائع ہوا اور باقی تخلیقات یعنی ’’انجم کدہ‘‘ اور’’ قصائد عزیز‘‘ ان کی وفات (1935) کے بعد شائع ہوئیں۔ عزیزؔ کی شاعرانہ خصوصیات میں مضمون آفرینی، تخیل اور تمثیل آفرینی کے ساتھ ہی ساتھ سہل ممتنع کا ذکربھی ضروری ہے۔ اس کے باوجود ان کے کلام میں غضب کی معنویت پائی جاتی ہے۔ غالبؔ کے استفہامیہ انداز بیان کی انہوں نے کامیاب تقلید کی ہے۔ کلاسیکی غزل کی روایات کا سچا شعور ان میں پایا جاتا ہے۔ وارداتِ حسن و عشق، کیفیاتِ دل و جگر اور احوالِ فکر و نظر کا اظہار سادہ، سلیس، رواں اورپر تاثیر زبان و بیان کے ساتھ، بڑی خوش اسلوبی سے ان کے یہاں نظم ہو جاتے ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون میری کتاب ‘‘ تنقید شعر‘‘ میں شامل ہے اور ‘‘نیا دور‘‘ لکھنؤ، مارچ ۲۰۱۱ کے شمارے میں بھی شائع ہو چکا ہے۔


Aarzu Lakhnavi ki Ghazal Goyi

آرزوؔ لکھنوی کی غزل گوئی



اردو شاعری کی تاریخ میں دبستان لکھنؤ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ شاعری کی تمام اصناف سخن میں ریختی اور معاملہ بندی کو چھوڑ کر اس دبستان نے اردو زبان کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اس کا اعتراف تمام اہل اردو کو ہے۔ اردو شاعری کی ابتدا سے دورِ حاضر تک غزل ہمیشہ ہی شاعروں کی پسندیدہ صنف سخن رہی ہے۔ترقی پسند تحریک کے دور میں کئی ادبیوں نے غزل کی گردن زدنی کا اعلا ن کیا لیکن اس دور میں بھی اصغرؔ گونڈوی، فانی بدایونی، اقبال سہیل، حسرتؔ موہانی اور جگرؔ مرادآبادی نے یہ ثابت کر دیا کہ غزل ہمیشہ وقت کے ساتھ رہی ہے اور رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ غزل ہمیشہ سے اردو کی تمام اصناف سخن میں سب سے زیادہ مقبول صنف رہی ہے اور شاید آئندہ بھی رہے گی۔ غالبا غزل کے اسی کس بل کو دیکھتے ہوئے اسے اردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے۔ اردو شاعری کی اسی مقبول ترین صنف کو آرزوؔ لکھنوی نے اپنی طبع آزمائی کے لیے منتخب کیا اور اپنی جولانیٔ طبع کے جوہر دکھائے۔ ویسے تو انہو ں نے اپنی طبعِ رساکا جوہر دکھانے کے لیے قصیدہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، مرثیہ اور سلام بھی بہ کثرت کہے ہیں، جن کے دیکھنے سے ان کی پُرگوئی اور زبان پر بے پناہ قدرت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن جو چیز ان کی ناموری کا اصل سبب بنی ،وہ غزل ہی ہے۔

آرزو لکھنویؔ کا اصل نام سید انور حسین اور عرفیت منجھو صاحب تھی۔ ان کی ولادت 1872ء میں لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ ان کے والد میر ذاکر حسین، یاسؔ لکھنوی بھی شاعر تھے۔ انہوں نے بیٹے کی ولادت پر مادۂ تاریخ یوں رقم کیا تھا:
بار دیگر شکر کردم از زبان

پانچ سال کی عمر سے آرزوؔ کا سلسلۂ تعلیم شروع ہوا۔ فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں حکیم میر قاسم علی صاحب سے پڑھیں۔ اس کے بعد جو کچھ تعلیم حاصل کی وہ مولانا سید آغاحسن صاحب سے حاصل کی۔ علمِ عروض حکیم میر ضامن علی جلالؔ لکھنوی سے سیکھا اور ان ہی سے اصلاحِ سخن بھی لیا۔ چوں کہ گھر میں شعر و شاعری کا ماحول تھا یعنی والدِ بزرگوار اور بڑے بھائی میر یوسف حسن، قیاسؔ لکھنوی شاعر تھے۔ لہٰذا سید انور حسین، آرزوؔ لکھنوی نے بھی بارہ سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ استاد کی توجہ اور محنت سے لکھنؤ کے باکمال شاعروں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہو ں نے شاعری پر اتنی مہارت حاصل کر لی کہ استاد نے اپنے دوسرے شاگردوں کو انہیں کے پاس بھیج دیا۔ جلالؔ لکھنوی کی وفات کے بعد آرزوؔ کو ان کی گدی مل گئی۔ آرزوؔ نے تقریباً 15 برس کی عمر میں اپنی پہلی غزل نواب منجھلے آغا صاحب معینؔ کے مشاعرے میں پڑھی تھی۔ یہ مشاعرہ طرحی مشاعرہ تھا اور طرح تھی ’’انجمن میں نہیں، چمن میںنہیں،‘‘ آرزو لکھنوی کی غزل کا مطلع تھا:
ہمارا ذکر جو ظالم کی انجمن میں نہیں
جبھی تو درد کا پہلو کسی سخن میں نہیں
ایک اور شعر یوں تھا کہ :
شہیدِناز کی محشر میں دے گواہی کون
کوئی لہو کا بھی دھبہ مرے کفن میں نہیں
ان دونوں اشعار سے اس شاعرکی طبعِ رسا کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے، جو پندرہ برس کے سن میں اس بلند پایہ تخیل کے شعر کہہ رہا ہو۔ کم سنی میں اس طرح کا زبان و بیان، لطافت اور نکھرا ہوا شعری ذوق دیکھ کر لکھنؤ کے اہلِ زبان واہ واہ کہہ اٹھے۔ پھر کیا تھا آرزو کا چرچا ہونے لگا اور ان کی مشق نے آگے آنے والے دنوں میں یہ ثابت کر دیا کہ یہ بچہ ایک ہونہار طالب علم ہے اور آئندہ خاندان کا نام روشن کرے گا۔
آرزوؔ کے زمانے کا لکھنؤ آج کا لکھنؤ نہیں تھا۔ اس زمانے کے لوگ جب کسی ہونہار بچے کو جان لیتے تھے تو اس کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے تاکہ بچہ اپنی مشق جاری رکھے اور آگے چل کر نام پیدا کرے۔ ایسے ہی ایک بزرگ میرن صاحب تھے، جنہوں نے آرزو کو ایک دن یہ مصرع دیا:
’’ اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں‘‘
مصرع دے کر بزرگوار نے کہا کہ ’’صاحب زادے تم اس پر ایک سال میں مصرع لگا دو تو میں تمہیں شاعر مان لوں۔‘‘ انہوں نے کہا میں ابھی کوشش کر کے دیکھتا ہوں، کیوں کہ ایک سال زندہ رہنے کا کیا اعتبار ہے۔ یہاں تو ایک سانس کے بعد دوسری کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ تھوڑی دیر کے غور و فکر کے بعدہی اس پر یہ مصرع لگا دیا کہ:
’’دامن اس یوسف کا آیا پرزے ہو کر ہاتھ میں 
اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں‘‘
ان اشعار کو دیکھ کر آرزوؔ کی موزونیِ طبع کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے شروع شروع میں اپنے استاد کی شاعری کا رنگ اختیار کیا تھا، جسے ہم ان کی شاعری کا دور اول کہہ سکتے ہیں۔ ان کی اس دور کی شاعری میں جذبات کا دریا بے اختیار ہو کر بہتا چلا جاتا ہے۔ آرزو کا شمار ان شعرأمیں ہوتا ہے، جنہوں نے لکھنوی زبان کو بھی سنوارنے کا کام کیا۔ انہوں نے زبان و قواعد اور عروض پر کافی کام کیا اور اس سلسلے میں ان کا رسالہ ’’نظامِ اردو‘‘ ایک اہم تصنیف سمجھا جاتا ہے۔


آرزو لکھنوی اردو کے ان چند باکمال شعرأمیں سے ہیں، جن کا قلم نثر کے میدان میں بھی بڑی روانی سے چلتا ہے۔ چنانچہ کئی قابل قدر ڈرامے مثلاً ’’متوالی جوگن‘‘، ’’دل جلی بیراگن‘‘ اور ’’شرارۂ حسن‘‘ وغیرہ ان کے قلم سے وجود میں آئے۔ انہو ں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی پہچان، ان کی غزلوں سے ہی ہے۔ ان کے کلام کے چار مجموعے ’’فغانِ آرزوؔ‘‘، ’’جہانِ آرزوؔ‘‘ ، ’’بیانِ آرزوؔ‘‘ اور ’’سریلی بانسری‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ زبان و بیان پر ایسی مہارت حاصل تھی کہ ان کا کچھ کلام ایسا بھی ہے، جس میں فارسی و عربی کا ایک لفظ بھی شامل نہیں ہے۔ گاندھی جی اسی زمانے میں ہندوستانی زبان کے فروغ کی کوششیں کر رہے تھے۔ لہٰذا آرزوؔ نے ہندوستانی میں بھی اپنی دھاک جمائی۔ بمبئی اور کلکتہ کے تھیٹروں کے لیے ڈرامے اور فلموں کے لیے نغمہ نگاری بھی کی کیوں کہ ڈراموں اور فلموں میں ہندوستانی کو خاص طور سے پسند کیا جاتا تھا۔ ان کی اس رنگ کی شاعری کو ’’سریلی بانسری‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آسان زبان میں لکھنے کے باجود وہ اپنے خیالات وجذبات کا اظہار بڑے سلیقے سے کر لیتے تھے۔ لکھنوی زبان کے اس استاد شاعر کا انتقال ۱۹۵۱ میں کراچی میں ہوا۔


آرزو کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا دور، ان کی شاعری کا ابتدائی زمانہ ہے، جس میں حضرت جلالؔ لکھنوی کا اثر خاص طور سے نمایاں ہے۔ آرزو کی شاعری کا یہ وہ دور ہے، جس میں انہوں نے بڑی محنت اور زبردست طریقے سے شاعری کی مشق بہم پہنچائی۔ اس پہلے دور کا رنگ ذیل کے اشعار سے دیکھا جاسکتا ہے:
اس دل سے خدا سمجھے جس نے ہمیں مارا ہے

 جو دشمنِ جانی ہے وہ جان سے پیارا ہے 

راحت ہو کہ بے چینی دونوں میں ہے اک لذت
جو تم کو گوارا ہے وہ ہم کو گوارا ہے


خودکشی کا آپ پر الزام دھرتے جائیں گے 
ہم تو مرتے ہیں مگر بدنام کرتے جائیں گے 
مجھ کو میری روش مٹاتی ہے                    پاؤں کی خاک سر پہ آتی ہے 

اپنے کیے کا رونا کیا ہے

رونے سے آخر ہونا کیا ہے؟

سنگِ در اس کا خاک گلی کی
تکیہ کیا ہے بچھونا کیا ہے ؟

پھل نہیں اچھا عشق کا اے دل
ایسے شجر کا بونا کیا ہے ؟
ان اشعار سے ان کے ابتدائی رنگ شاعری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آرزو کی لگن، مشق اور فن عروض پران کی گرفت کو دیکھتے ہوئے استاد جلال لکھنوی نے اپنے کچھ شاگردوں کو ان کے سپرد کر دیا تھا کہ ان سے کلام کی اصلاح لیا کریں۔ یہیں سے آرزو کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں ان کی شاعری میں پہلے کے مقابلے تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے اور شاعری پر میرؔ اور مومنؔ کا رنگ غالب آنے لگتا ہے۔ اس دور میں ان کی شاعری میں سوزو گداز، رنج و الم، درد انگیزی اور تخیل آفرینی کی فضا شروع ہوتی ہے۔ ان کی غزلوں میں متانت و سنجیدگی کے باوجود شوخی، ادا اور چھیڑ کی ادا بھی پائی جاتی ہے۔ شگفتہ بحر، لفظوں کا موزوں انتخاب اور دلکش ترکیبوں کے ساتھ سوز و گداز کا عنصر کافی موثر ہو جاتا ہے۔ اس دور کی کیفیت کا اندازہ درج ذیل اشعار سے کیا جا سکتاہے:
پھر مرے زہد کے ساماں پہ تباہی آئی
قصد توبہ کا کیا تھا کہ جمائی آئی 

یوں آگ لگاتے پھرتے ہو کیوں جب گرم ہو اسے ڈرتے ہو
دل پہلے جلاکر خاک کیا اب ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہو

جاتے کہاں ہیں آپ نظر دل سے موڑ کے

تصویر نکلی پڑتی ہے آئینہ توڑ کے 

کیا جانے ٹپکے آنکھ سے کس وقت خونِ دل
آنسو گرا رہا ہوں جگہ چھوڑ چھوڑ کے 


ہم آنکھیں کھولے بیٹھے تھے جب سارا عالم سوتا تھا 
مانند چراغ اک سوختہ تن گہہ ہنستا تھا گہہ روتا تھا

پردہ اٹھ کر گر گیا ہم پھر بھی ہیں محروم دید
آنکھ میں آنسو تھے کیوں کر آنکھ بھر کر دیکھتے
آرزوؔ ہشیار تھے جو ہوش کھو بیٹھے کلیم
خیر آنکھوں کی نہ تھی گر آنکھ بھر کر دیکھتے

آرزوؔ کی شاعری کا تیسرا دور وہ ہے جب کہ ان کی شاعری میں ادا بندی، تصوف اور فلسفیانہ مضامین شامل ہوئے۔ یہ وہ دور ہے، جب انہیں ہر صنف کی طبع آزمائی پر پوری قدرت حاصل ہوچکی تھی۔ ان کی قادرالکلامی کا اندازہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ غزل کے علاوہ قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، رباعی وغیرہ میں بھی انہوں نے اچھا خاصا ذخیرہ چھوڑ ا ہے۔ ان کے دیکھنے سے نہ صرف ان کی پرگوئی کا بلکہ ان کے شاعرانہ انداز، تخیل، لب و لہجے اور زبان پر بھی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود زبان اورمحاورے میں بھی انہوں  نے ایک خاص روش اختیار کی تھی، جسے پڑھ کر میرؔ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ اس دور میں فلسفے نے ان کی شاعری پر غالبؔ کا رنگ بھی پیدا کر دیا تھا۔ مشکل سے مشکل صوفیانہ اور فلسفیانہ مضامین کو ایسی صفائی اور روانی سے ادا کر جاتے ہیں کہ قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ شاعر کیسا مضمون اتنی خوبی کے ساتھ ادا کر گیا۔ غالبؔ کی اکثر زمینوں میں آرزو ؔنے غزلیں کہی ہیں لیکن زبان و بیان اور طرز ادا کو دیکھنے سے میرؔ ہی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس دور کی شاعری کی مثالیں ملاحظہ ہوں:
دوست نے دل کو توڑ کر نقشِ وفا مٹا دیا
سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا
بیٹھا ہوں اپنے قتل کا ساماں کیے ہوئے 
یعنی خیالِ ناوکِ مژگاں کیے ہوئے 
یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں
آلودہ میرے خون میں داماں کیے ہوئے 

نہ تھا جس میں کوئی اس آنکھ میں اب اک تمہیں تم ہو
یہ گھر سنسان ہوکر بچ گیا سنسان ہونے سے 
بے کل ہے ادھر جی، تو ادھر آنکھ ہے چنچل 
دونوں میں پہل دیکھیے ہوتی ہے کدھر سے 

گھر یہ تیرا سدا نہ میرا ہے           رات دو رات کا بسیرا ہے 

کھینچ کر لوگ ترے در سے لیے جاتے ہیں
کیا محبت کے صلے یوں ہی دیے جاتے ہیں
یہی جینا ہے تو مرنے کو برا کیوں کہیے 
کوئی امید نہیں پھر بھی جیے جاتے ہیں 

شاعرانہ خصوصیات کا ذکر تب تک مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ آرزو کی خالص اردو کا ذکر نہ کیا جائے۔ ایسی غزلیں بہت سی ہیں اور خاص طور سے ان کامجموعۂ کلام ’’سریلی بانسری‘‘ اس سلسلے میں قابلِ ذکر ہے، جس میں انہوں نے عربی فارسی کے الفاظ سے گریز کیا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی آسان زبان میں وہ اپنے تاثرات و محسوسات نہایت خوبی اور روانی کے ساتھ کیسے نظم کر جاتے ہیں؟ ان کی خوبیِ زبان ایسی ہے کہ زمین کیسی ہی مشکل کیوں نہ ہو، ردیف کیسی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو؟ مگر ان کی آب دار طبیعت اپنی زبان دانی کے جوہر دکھا کے رہتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سہل ممتنع پر جو قدرت آرزو کو حاصل تھی، اردو شاعری میں بہت کم لوگوں کو ایسی قدرت نصیب ہوئی ہے۔ فارسی عربی الفاظ سے مبرا اشعار کی مثالیں دیکھیے:
اندھیرے گھر میں کبھی چاندنی نہیں آتی
ہنسی کی بات پہ بھی اب ہنسی نہیں آتی
کر ہی کیا سکتا تھا آنکھوں کا ذرا سا پانی
جب لگی بجھ نہ سکی کھول کے ابلا پانی
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی بہالے گیا برسات کا پہلا پانی 

نہیں کچھ اس کا پچھتاوا کہ جی کی رہ گئی جی میں
یہ جانے کون گھبراہٹ میں کیامنھ سے نکل جاتا 

جہاں لے کے پہنچی ہے جی کی اداسی
وہ کیسی جگہ ہے نہ گھر ہے نہ بن ہے 

ملی آنکھ ماتھے سے ٹپکا پسینا 
یہ چاہت کے ساون کی پہلی جھڑی ہے 

ہے ایک ہی ہو ناتو یہ ان بن نہیں اچھی
میرا نہ بن تو مجھے اپنا سا بنادے 

درج بالا اشعارکے مطالعے سے ہمیں آرزو کی زبان اور ان کے مشاہدات و تجربات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں اور یہ بھی کہ ان کا ذوق کتنا نتھرا ہوا تھا۔ شاعر جہاں عاشق و معشوق کی باتیں کرتا ہے، وہاں معاملات کیسے ہی نازک مرحلے کے کیوں نہ ہوں، اپنی انانیت کے جذبے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ انہیں تصوف اور فلسفے سے خاصا لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی کچھ کچھ جھلک درج بالا اشعار میں بھی نظر آتی ہے۔ ایک بات اور خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ تمام شعر سہل ممتنع کی مثال کے طور پر بھی پیش کیے جا سکتے ہیں۔


اب تک ہم نے آرزوؔ لکھنوی کی حیات ان کی شاعری کی خصوصیات کا جو مطالعہ کیا ہے، اس سے آرزو ؔکی زندگی، ان کی حیات،ان کے کارنامے اور شاعری کی جملہ خوبیوں کااندازہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ آرزوؔ لکھنوی کا شمار اردو زبان کے ان ماہرین میں ہوتا ہے، جنہوں نے زبان کی نوک پلک سنوارنے میں بڑی کاوشیں کی ہیں۔ شاعری میں خالص ہندوستانی زبان استعمال کرنے کا سہرا ان کے سر ہے، حالانکہ انشاء اللہ خاں کا نام بھی اس سلسلے میں لیا جاسکتا ہے، جنہوں نے ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ دیسی زبان میں لکھی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایک نے شاعری میں کمال دکھایا ہے تو دوسرے نے نثر میں۔

نوٹ: یہ مضمون ’’ نیا دور‘‘ لکھنؤ کے جنوری 2011  کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔

Wali ki ek Ghazal ki Tashreeh

ولی کی غزل


تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

تشریح و وضاحت: اس شعر کو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں میر کا یہ شعر فوراً رقص کرنے لگتا ہے:

ہستی اپنی حباب کی سی ہے               یہ نمائش سراب کی سی ہے

 س کی وجہ یہ ہے کہ ولی اور میر دونوں ہی شعرأ کی غزلوں کے مطلعے کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہے۔ ایسا کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہو۔ شاید میر نے ولی  کے مذکورہ شعر سے متاثر ہو کر اپنی غزل کے مطلعے میں ولی ہی کی طرح تشبیہ کا استعمال کیا ہو۔ شعر زیرِ بحث میں شاعر نے اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو بدخشاں کے لعل سے تشبیہ دی ہے ۔ اس کے دو پہلو ممکن ہیں۔ اول: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں کی مانند سرخ ہیں۔ دوم: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں ہی کی مانند قیمتی ہیں۔ لعل بدخشاں سے مراد وہ ہیرا ہے جو کہ بدخشاں میں پیدا ہوتا ہے۔ شہر بدخشاں آج کی تاریخ میں ایران میں ہے۔ بدخشانی ہیروں میں سب سے قیمتی وہ ہوتا ہے، جس کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور اس کی سرخی ہی، اس کی خوبی قرار دی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ شاعر نے محبوب کے ہونٹوں کو لعل بدخشاں کے مماثل قرار دیا ہے۔ اس پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی شاعر نے اپنے محبوب کے ہونٹوں کی سرخی کی خوبی کولعل بدخشاں کہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں لفظ ’’غزالاں‘‘ کلیدی لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہرن کا بچہ ہوتا ہے لیکن جب غزال چشم کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بڑی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں۔ شاعر محبوب کی آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میرے محبوب کی بڑی بڑی آنکھوں میں غزالاں جیسا جادو ہے یعنی اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک سحر ہے۔ اس شعر کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ شاعر اپنے محبوب کے حسن کی تعریف بیان کر رہا اور اس کے ہونٹ کی سرخی اور بڑی بڑی آنکھوں کی کشش کی تعریف کر رہا ہے۔

دی بادشہی حق نے تجھے حسن نگر کی
یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

 اس غزل کو پڑھنے کے بعد سب سے پہلے ذہن میں یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ یہ غزل پوری طرح غزل کی تعریف کے دائرے ہی میں مکمل ہوتی ہے۔ شاعر نے محبوب کا سراپا بڑی خوش سلیقگی سے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ مذکورہ شعر کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ عرض کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس شعر میں تلمیح ہے۔ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے عاشق کہتا ہے کہ ’’ائے میرے محبوب!‘‘ اللہ نے تجھے حسن نگر کی بادشاہت عطا کی ہے یعنی تو تمام ترحسینوں سے حسین ہے اور میں ترے حسن کی تعریف سلیمان کے حضور میں حاضر ہو کر کروں گا۔ یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ سلیمان کی حکومت تمام مخلوق پر تھی۔ بین السطور میں اس شعر کا یہ مطلب ہے کہ میں جا کر سلیمان سے کہوں گا کہ آپ کی بادشاہت میں اگر کوئی میرے محبوب سے بڑھ کر حسین ہے تو فرمائیے یعنی میرا محبوب تمام تر عالم میں سب سے خوبصورت اور حسین ترہے۔ اس سے بڑھ کر حسین کوئی نہیں سب اس سے کم تر ہیں۔

تعریف ترے قد کی الف وار سری جن
جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

 اس غزل کے بارے میں جیسا میں نے عرض کیا کہ اس میں شاعر نے اپنے محبوب کی طرح طرح سے خوبصورتی اور بڑائی بیان کی ہے، ویسا ہی اس شعر کا معاملہ بھی ہے۔ اس شعر میں دو لفظ قابلِ غور ہیں: اول: ’’سری جن‘‘ اور دوم ’’سرو‘‘۔ یہاں ’’سری جن‘‘ سے مراد عام نہیں بلکہ خاص، سب کا نورِ نظر، انسانِ کامل، چہیتا، لیا جا سکتاہے یا پھرتمام انسانوں سے اس کا مرتبہ ذرا بہتر ہے کیوں کہ وہ ’’جَن‘‘ نہیں ’’سری جَن‘‘ ہے۔ اردو غزل میں یہ روایت عام ہے کہ جب شاعر اپنے محبوب کے قد کی تعریف کرتا ہے تو اس کو ’’سرو قد‘‘ کہتا ہے لیکن شعر زیرِ بحث میں شاعر نے محبوب کے قد کو الف کی مانند کہا ہے۔ چوں کہ الف کا قد بھی بالکل سیدھا ہوتا ہے، اس لیے اس کو الف کے مماثل کہا ہے اور پھر اس پر یہ دعویٰ بھی ہے کہ گلستاں میں جا کر اپنے محبوب کے قد کی بڑائی ’’سرو‘‘ سے کروں گا۔ اس سے یہ خیال غالب آتا ہے کہ ’’سرو‘‘ کا قد لاکھ سیدھا اور خوب ہوتا ہو لیکن میرے محبوب کے قد کے سامنے ہیچ ہے۔

مجھ پر نہ کرو ظلم، تم ائے لیلئ خوباں
مجنوں ہوں، ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا

محبوب کے جور و ستم اور ظلم سے خود کو بچانے کے لیے شاعر نے نہایت حسین پیرایہ استعمال کیا ہے۔ عشق میں طرح طرح کی جو بے اعتنائی محبوب کی طرف سے عاشق کے لیے روا رکھی جاتی ہے، اس سے بچنے کے لیے عاشق التجا کر رہا ہے کہ ’’ائے میرے پیارے محبوب! تم مجھ پر ظلم نہ کروکیوں کہ میں مجنوںیعنی تمہارا سچا عاشق ہوں اور اگر تم مجھ پر ظلم کروگے تو میں یہ راز تمام بیابان پر ظاہر کردوں گا۔ یہاں بیابان سے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ راز، راز نہیں رہے گا بلکہ سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ شعر میں تلمیح اور استعارہ ہے اور پہلے مصرع میں چوں کہ شاعر نے محبوب کے لیے ’’لیلیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، اس لیے دوسرے مصرع میں لیلیٰ کی مناسبت سے عاشق کے لیے مجنوں کا لفظ استعمال کرنا لازم ہو گیا۔

دیکھا ہوں تجھے خواب میں ائے مایۂ خوبی
اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا

 اس شعر میں محبوب کے حسن کی تعریف جس خوبی سے کی گئی ہے، وہ لائق تحسین ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ ائے خوبیوں والے میں نے تجھے خواب میں دیکھا ہے۔ خواب میں محبوب کا دیدار ہونا، ایک خوش آئند بات ہے اور یہ اپنے آپ میں بہت سی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے۔ عاشق یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ میرا محبوب اس قدر حسین و جمیل ہے کہ میں اس کی صفات اور حسن و جمال کی تعریف یوسف سے جا کر کہوں گا یعنی عاشق نے اپنے خواب میں محبوب کو جس قدر حسین دیکھا ہے، اس کے حسن کی جلوہ سامانی کو وہ یوسف سے جا کر بیان کرے گا۔ یوسف کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس روئے زمین پر آج تک ان سے خوبصورت کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوا لیکن اس شعر میں یوسف سے جا کر کہنے سے یہ مراد ہے کہ عاشق کے لیے اس کا محبوب دنیا کا سب سے حسین فرد ہے اور ایک طرح سے وہ ان کی خوبصورتی کے سامنے ایک اور خوبصورتی کی مثال پیش کرنا چاہ رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عاشق کے لیے اس کا محبوب ہی دنیا کا سب سے حسین ترین فرد ہوتا ہے۔ اس شعر میں صنعت تلمیح ہے۔

جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں ائے ساجن
یہ سوز ترا مشعلِ سوزاں سوں کہوں گا

 عاشق کہتا ہے کہ ائے میرے محبوب! میں رات دن ترے غم میں جلتا رہتا ہوں۔ یہ میرا جلنا ٹھیک ویسا ہی ہے جیسے کہ کوئی آگ سے جل جائے یعنی جس طرح آگ سے جلے ہوئے حصے میں سوزش و جلن ہوتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس میں بار بار اور جگہ جگہ سوئی چبھو رہا ہے، جس کے باعث شخص کی حالت بے چین و اضطراب کی سی رہتی ہے، میرا حال بالکل ویسا ہی ہے۔ عاشق کا محبوب کے دیدار یا اس کی نظر عنایت حاصل کرنے کے غم میں بے چین ہونا، تڑپنا، مضطرب ہونا اور اسی بے چینی کے عالم میں بار بار اس کے در پہ جانا ایک حقیقی کیفیت کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔ اسی مضمون کو میرنے اس طرح باندھا ہے:

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں        حالت اب اضطرا ب کی سی ہے

 حقیقت حال بھی یہی ہے کہ جب کسی کی نگاہ میں کوئی بس جاتا ہے تو اس کا دل اس کے دیدار کے لیے بے قرار رہتا ہے اور اسی غم میں اس کے صبح و شام ہوتے ہیں۔ اسی کیفیت کا ولی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اظہار کیا ہے۔

یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا
اس مکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا

 اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں محبوب کے چہرے کی خوبصورتی کو شاعر نے صفحۂ قرآں سے تشبیہ دے کر جس طرح اس کے چہرے کو بے داغ اور بے عیب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس کا لطف اہلِ نظر ہی جانتے ہیں۔ عاشق محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ :تیرے چہرے میں کسی طرح کا کوئی نقص، کمی یا خامی ہے ہی نہیں۔ اس لیے میں ترے رخ کو، ترے چہرے کو قرآن کے صفحے جیسا کہوں گا۔ قرآن کے صفحے سے تشبیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح، قرآن کے صفحے میں کسی طرح کی کوئی کمی یا کوئی نقص نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح تیرے رخ میں بھی کوئی کمی یا نقص نہیں ہے۔ اس طرح محبوب کے چہرے کے حسن و جمال کوقرآن کے صفحے سے تشبیہ دے کر شاعر نے محبوب کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے کی کوشش کی ہے۔ ایک اور بات بھی اس سلسلے میں عرض کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ جس طرح قرآن ایک مقدس کتاب ہے اسی کی مانند عاشق کے لیے مئبوب کے رخ زیبا کا بھی تقدس ہے۔ واللہ عالم۔

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی اَنی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا

’’انی‘‘ کا مطلب برچھی یا تیر کی نوک ہوتا ہے۔ یہاں شاعر کہہ رہا ہے کہ ائے میرے محبوب! مجھ کو تری پلکوں کی انی نے گھائل کیا ہے یعنی میں تیری نگاہ کے تیر کا گھائل ہوں۔ کیوں کہ کسی نے کہا ہے:

نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینہ اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں، جینا اسی کا ہے

 لیکن مذکورہ شعر میں جس طرح ولی نے نظروں کے تیر سے گھائل ہونے کی بات کی ہے اور اسے خنجر و بھالا کے زخم کے متشابہ ظاہر کیا ہے، وہ بہت ہی خوب ہے کیوں کہ خیالی شئے کو حقیقی شئے سے تشبیہ دے کر اپنے جذبے کی حقیقی کیفیت کا اظہار کرنا اپنے آپ میں بہت ہی خوب ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ عاشق نظر کے وار سے گھائل ہے لیکن نظر کے وار سے اس کے دل پر جو کاری ضرب لگی ہے وہ اسے خنجر و بھالا کے زخم کی مانند نظر آ رہی ہے اور یہی بات وہ کہہ بھی رہا ہے کہ میں اس نظر کے تیر کے زخم کو خنجر و بھالا جیسا زخم کہوں گا یعنی جس طرح کا درد بھالا یا خنجر لگنے سے ہوتا ہے اور زخمی تڑپتا رہتا ہے، ٹھیک وہی کیفیت میری تری نگاہ کے تیر کی انی لگنے کے بعد سے ہے اور میں ہر گھڑی بے چین اور مضطرب رہنے لگا ہوں۔

بے صبر نہ ہو ائے ولی اس درد سے ہر گاہ
جلدی سوں ترے درد کی درماں سوں کہوں گا

 اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو یا اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ: ائے ولی تو اس درد سے ہر پل ، ہر گھڑی بے صبر و بے چین مت ہو کیوں کہ میں بہت جلد ترے اس درد کی کیفیت کو ترے درماں یعنی ترے محبوب سے جا سناؤں گا اور وہ ترے اس درد کا علاج کر دے گا۔


پیر، 25 مارچ، 2013

Asghar gondwi ki ghazlon me falasafa-o-tasawwuf


اصغر گونڈوی کی غزلوں میں فلسفہ و تصوف

اصغرٓ گونڈوی کا شمار جدید غزل کے معماروں میں ہوتا ہے۔ اردو غزل پر بیسویں صدی کے اوائل میں جب بپتا پڑی اوراسے گردن زدنی قرار دیا گیا تو اس میں ایک نئی جان پھونکنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کی عظمت کو برقرار رکھنے میں، جن لوگوں نے نمایاں کردار ادا کیا، ان میں اصغر کا نام سرِفہرست ہے۔ اصغر کے علاوہ اس کام میں حسرت موہانی، فانی بدایونی، اقبال سہیل اور جگرمرادآبادی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان لوگوں نے جدید غزل کو وقت کے ساتھ چلنے کا ہنر بخشا۔ اصغر کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی اخلاق کی بلندی ہے۔ ان کی شاعری نے اور کوئی کام کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن ہم کو شریف انسان بنانے کی جو کوشش ان کے یہاں ملتی ہے، کسی دوسرے شاعر کے یہاں مشکل سے ہی ملے گی۔

اصغرگونڈوی یکم مارچ ۱۸۸۴ کوگورکھپور کے محلے الٰہی باغ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصلی نام اصغر حسین تھا۔ ان کے والد مولوی تفضل حسین قانون گو تھے۔ لہٰذا جب ان کا تبادلہ گورکھپور سے گونڈہ ہوا تو ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ گونڈہ چلے آئے۔ اصغر کی ابتدائی تعلیم گونڈہ ہی میں ہوئی۔ انہوں نے۱۸۹۸ میں گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور یہیں سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اصغر نے اپنی تعلیم کسی طرح انٹرنس تک جاری رکھی مگر اس کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے ذاتی مطالعے کی بنا پر اچھی خاصی قابلیت پیدا کرلی تھی۔

اصغر نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں منشی خلیل احمد وجد بلگرامی کو اپنا کلام دکھایا۔ بعد میں کچھ دنوں منشی امیر اللہ تسلیم سے بھی مشورۂ سخن کرتے رہے، اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی استادی و شاگردی بس ایک رسم کی ادائگی ہوتی ہے، کیوں کہ شاعرکا اصل رہبر اس کا ذوقِ صحیح، وجدان اور طبیعت کی موزونی ہوتا ہے، جو اسے دھیرے دھیرے صحیح راستے پر ڈال دیتا ہے۔
ریلوے کے محکمے میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوگیا تو بیس روپے ماہوارتنخواہ پانے لگے۔ اس کے بعد کے چند برس ان کی زندگی کا ایسا دور تھا، جو ان کی شخصیت سے کہیں سے بھی میل نہیں کھاتا یعنی یہ وقت ان کی مے نوشی کا تھا۔ ’’چھٹن‘‘ سے اصغر گونڈوی کو قربت ہوئی اور انہوں نے ان سے نکاح کر لیا۔ آہستہ آہستہ اصغر کا مذہبی رجحان بڑھتا گیا اور بہت جلد ہی انہوں نے اپنی پرانی روش ترک کردی۔ عبادت اور تصوف کی طرف ان کا ذہن اب مائل ہوچکا تھا۔ اس تبدیلی نے آخر ایک دن انہیں عبدالغنی منگلوری سے شرف بیعت حاصل کروا دیا۔ 
۱۹۱۳ میں جب سے انہوں نے بیعت کا شرف حاصل کیا تھا، اس کے بعد سے تصوف اور علم و عرفان، ان کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ اسی سال انہوں نے کتاب کی دکان کرلی اور مستقل طور سے اس پر بیٹھنے لگے۔ چوں کہ طبیعت کچھ ایسی تھی کہ تجارت راس نہیں آئی اور نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ۱۹۱۶ میں اصغرگونڈوی کی ملاقات جگرمرادآبادی سے ہوئی۔ یہی ملاقات رفتہ رفتہ دوستی میں تبدیل ہوگئی اور جگر و اصغر ایک دوسرے کے دلدادہ ہوگئے۔ اصغر کی زندگی میں وہ دوربھی آیا، جب وہ چشمے کے کاروبار کے سلسلے میں جگر کے معاون ہوگئے۔ اس سے قبل وہ ’’قصرِ ہند‘‘ ہفتہ وار(۱۹۱۳) کے مدیر کی حیثیت سے کام کرچکے تھے، جس کا نام بعد میں بدل کر ’’پیغام‘‘ کردیا گیا تھا۔ ۱۹۲۶ میں وہ عطر چند کپور کے ’’ادبی مرکز‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ جب ادارے کا کاروبار دم توڑنے لگا تو اصغر گونڈہ چلے گئے۔ ۱۹۳۰ میں سرتیج بہادر سپرو نے ایک اکادمی ’’ہندوستانی اکیڈمی‘‘ کے نام سے قائم کی تو اصغراس میں کام کرنے لگے۔
اصغرمشاعروں میں بہت کم شرکت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سامعین کے سامنے کلام پیش کرنے کے لیے ان کی آواز موزوں نہیں تھی۔ ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’’نشاطِ روح‘‘ دسمبر۱۹۲۵ میں اور دوسرا مجموعہ ’’سرودِ زندگی‘‘ ۱۹۳۵ میں شائع ہوا۔ اصغرقدرتی طور سے کم گو واقع ہوئے تھے، اتنا کم کہنے کے باوجود اہل نظر کو اپنی طرف متوجہ کرلینا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی شاعری میں ایسی قابل قدر خوبیاں موجود ہیں، جو ایک معیاری شاعری کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان کے پورے کلام میں انبساط اور سرمستی کی ایک وجدانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بغیرآہ و فریاد کیے اصغرعشق کی منزلیں بآسانی طئے کرتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً:
نشۂ عشق میں ہر چیز اڑی جاتی ہے
کون ذرہ ہے کہ سرشار محبت میں نہیں
وہیں سے عشق نے بھی شورشیں اڑائی ہیں
جہاں سے تو نے لیے خندہ ہائے زیر لبی

اصغرگونڈوی کے منفرد رنگ و آہنگ کی ابتدا ’’نشاطِ روح‘‘ سے ہوتی ہے۔ ’’نشاطِ روح‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرسودہ اور پامال مضامین باندھنے سے گریز کرتے ہیں۔ زبان و بیان اور خیالات دونوں اعتبار سے ان کا کلام کبھی بھی ابتذال کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوتا۔ ان کے لب و لہجے میں ایک متانت آمیز رنگینی اور خیالات و محسوسات میں پاکیزگی و لطافت پائی جاتی ہے۔ تصوف اور معرفت کے مضامین کو کیف و سرور کے ساتھ اس طرح نظم کرتے ہیں کہ قاری سرمست ہو اٹھتا ہے۔ ان کی غزلوں کی تخلیق کچھ یوں ہوتی ہے کہ دل پر اثر کرتی ہے۔ اردو ادب کا یہ مایہ نازشاعر۱۹۳۶ میں الہٰ آباد میں روپوش ہوا اور وہیں پر تدفین عمل میں آئی۔
شاعر ہو یا نثر نگار، سب کا اپنا ایک مزاج، حیثیت، اسلوب، طرزِادا اور امتیازی وصف ہوتا ہے، جس سے اس ادیب و شاعر کی ایک خاص شناخت قائم ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر مجاز کا اپنا رنگ ہے، فانی کی اپنی ایک الگ دنیا ہے اور فیض احمد فیض کا اپنا ایک خاص لہجہ ہے لیکن ان سب کی پہچان سب سے پہلے شاعر کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ سبھی اپنا اپنا منفرد لب و لہجہ رکھتے ہیں اور اسی سے ان کی شناخت اور شخصیت قائم ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اصغرکا بھی ایک مخصوص رنگ ہے، جس سے ان کی انفرادیت قائم ہوتی ہے۔ غزلیات اصغر کی سب سے بڑی خصوصیت اخلاقیات کی بلندی ہے۔ ان کے کلام میں تلاش کرنے کے بعد بھی ایسا ایک شعر نہیں مل سکتا، جو معیار سے فروتر ہو۔ حسن و عشق، وصل و ہجر، سوزو گداز، حسرت و یاس، جوش و وارفتگی اور مسرت و انبساط، غرض یہ کہ تمام طرح کے مضامین باندھے گئے ہیں لیکن کہیں بھی ابتذال یا عامیانہ پن کا نام نہیں ہے۔ اصغر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال سہیل لکھتے ہیں:
’’خدا کا شکرہے کہ جناب اصغر کی شاعری عام سطح سے بہت بلند ہے اور ان کے یہاں ڈوبی ہوئی نبضیں، پتھرائی ہوئی آنکھیں اور عالم نزع کی ہچکیاں غرض یہ کہ زندہ درگور شعرأ کی بدمذاقیاں کہیں بھی نہیں ہیں۔ ان کی شاعری رقصِ معانی کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔‘‘ (مقدمہ نشاطِروح، ص ۳۹ )
بیسویں صدی میں غزل کوایک نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کرانے میں اصغر سب سے پیش پیش تھے۔ سامنے کی باتیں ہوں یا عام وارداتِ قلبی، ان سب کو اصغر ایک نئے پیکر میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں، جس سے کلام میں ایک ندرت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کی پوری شاعری میں نشاط و سرمستی کی ایک وجدانی کیفیت پائی جاتی ہے، جس کے باعث وہ عشق کی منزلیں بغیرآہ و فغاں کے طئے کرتے چلے جاتے ہیں۔

غزل کیا اک شرارِ معنوی گردش میں ہے اصغر
یہاں افسوسِ گنجائش نہیں فریاد و ماتم کی
ہے خستگیِ دم سے رعنائیِ تخیل
میری بہار رنگیں پروردۂ خزاں ہے
اس جوئبارِ حسن سے سیراب ہے فضا
روکو نہ اپنی لغزشِ مستانہ وار کو
جوشِ شباب و نشۂ صہبا، ہجومِ شوق
تعبیر یوں بھی کرتے ہیں فصلِ بہار کو
یہ لب و لہجہ اور خزاں کا پروردہ، رنگین مزاج، اصغر ہی کے بس کی بات تھی۔ بیسویں صدی میں غزل کو نئی بلندیوں اور نئی منزلوں سے روشناس کرانے والوں میں فانی، حسرت، اقبال سہیل اور جگر بھی اصغر کے ہم قدم تھے لیکن اصل جوش و جذبہ اصغر ہی سے منسوب ہے۔ ہرایک کا اپنا رنگ ہے اور یہ سبھی اپنے اسی منفرد رنگ و آہنگ سے پہچانے جاتے ہیں۔
اصغر نے غالب اور اقبال دونوں سے ہی فیض حاصل کیا ہے لیکن یہ محض کورانہ تقلید نہیں ہے۔ الفاظ کے انتخاب اور تراکیب کے اختیار کرنے کو اگر دیکھیں تو یقینا غالب کا اثر خاص طور سے دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً دل شعلہ آرزو، درماندگی ذوق تماشا، ہجوم دردِ غریبی، کاوش بے مدعا، نور بہار ناز اور ہربن مو سے ٹپکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی تراکیبیں ہیں، جنہیں اصغر نے غالب سے لیا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات صبر و استغنا، عملِ پیہم، سخت کوشی، ناز و نیاز کا امتزاج اور فلسفۂ وحدت الوجود اور وحدت الشہود ہیں۔ ان موضوعات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال سے بھی وہ کافی متاثر تھے لیکن جدید اردو شاعری میں ان کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے کلام میں فکری، فنی اور ادبی محاسن کا ایک خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ 
اردو شاعری بالخصوص غزل میں حسن و عشق کے مضامین بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے بغیر غزل کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ حسن و عشق کے فلسفے کے متعلق لوگوں کی رائیں الگ الگ ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک حسن بذات خود کوئی چیز نہیں۔ اس میں ہمارے ذوق کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے یعنی عشق ہی حسن کا خالق ہے۔ دوسرے نظریے کے لوگوں کا ماننا اس سے مختلف ہے یعنی حسن ایک حقیقت ہے اور یہ عشق کا محرک اور خالق ہے۔ حسن و عشق کے فلسفے سے متعلق تیسرا نظریہ؛ یہ ہے کہ حسن اور عشق دونوں اپنی اپنی جگہ پر مستقل وجود کے حامل ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کی طرف لگاؤ ایک فطری عمل ہے جو کہ جنسی تضاد کے باعث نمو پاتا ہے۔ چوتھا نظریہ یہ ہے کہ تمام کائنات ایک حسنِ ازل کا پرتو ہے، لہٰذا حسن و عشق کی حقیقت ایک ہے۔ مذکورہ تمام طرح کے اشعار کی مثالیں اصغر کے کلام سے درج کی جاتی ہیں:
پہلا نظریہ :
میرے مذاق شوق کا اس میں بھرا ہے رنگ
میں خود کو دیکھتا ہوں کہ تصویر یار کو
اس میں وہی ہیں یا مرا حسنِ خیال ہے 
دیکھوں اٹھاکے پردۂ ایوانِ آرزو
تھیں نگاہِ شوق کی رنگنیاں چھائی ہوئی
پردۂ محمل اٹھا تو صاحبِ محمل نہ تھا
شعاعِ مہر خود بے تاب ہے جذبِ محبت سے
حقیقت ورنہ سب معلوم ہے پروازِ شبنم کی
وہ عشق کی عظمت سے شاید نہیں واقف ہیں
سو حسن کروں پیدا ایک ایک تمنا سے
دوسرا نظریہ :
اک غنچۂ افسردہ یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موجزنی خوں کی رنگینیِ پیکاں ہے 
پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرۂ شبنم میں ہنگامۂ طوفاں ہے
کیا فیض بخشیاں ہیں رخِ بے نقاب کی
ذروں میں روح دوڑ گئی آفتاب کی
تیسرا نظریہ :
ایسا بھی ایک جلوہ تھا اس میں چھپا ہوا
اس رخ پہ دیکھتا ہوں اپنی نظر کو میں
مجنوں کی نظر میں بھی شاید کوئی لیلیٰ ہے 
ایک ایک بگولے کو دیوانہ بنا آئی
مستی سے ترا جلوہ خود عرض تماشا ہے 
آشفتہ نگاہوں کا یہ کیف نظر دیکھا
چوتھا نظریہ : 

یہ وہ نظریہ ہے، جسے سلوک کی اصطلاح میں وحدت الوجود کہتے ہیں۔ وحدت الوجود کے فلسفے کو تمام باکمال شعرأ نے اپنے اپنے انداز میں نظم کیا ہے۔ اصغر نے اس مضمون کو اپنے طورپر بخوبی ادا کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے 
لو شمعِ حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے 
فانوس کی گردش میں کیا کیا نظر آتا ہے 

کچھ غنیمت ہوگئی یہ پردہ ہائے آب و رنگ
حسن کو یوں کون رہ سکتا تھا عریاں دیکھ کر

بند ہو آنکھ اٹھے منظر فطرت کا حجاب
لاؤ اک شاہد مستور کو عریاں کریں

کس طرح حسن دوست ہے بے پردہ و آشکار
صدہا حجاب صورت معنی لیے ہوئے
شاعر جب اپنے کلام میں عالی حوصلہ، بلند خیال اور اپنے تخیل کی بدولت ایسے مضامین باندھتا ہے، جو عمومی سطح سے بہت اوپر ہوں تو اسے بلند نظری سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اصغرنے اپنے کلام میں اس طرح کے مضامین کو بارہا باندھنے کی کوشش کی ہے اور بڑی کامیابی سے اس کو پیش کیا ہے۔ مثلاً:

یہ دین وہ دنیا ہے، یہ کعبہ وہ بت خانہ
ایک اور قدم بڑھ کر اے ہمتِ مردانہ

کیا درد ہجر اور یہ کیا لذت وصال
اس سے بھی کچھ بلند ملی ہے نظر مجھے 

بہت لطیف اشارے تھے چشمِ ساقی کے
نہ میں ہوا کبھی بے خود نہ ہوشیار ہوا

اک جہد و کشاکش ہے ہستی جسے کہتے ہیں
کفار کا مٹ جانا خود مرگِ مسلماں ہے

نہ ہوگا مستیِ بے مدعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

اسرار، سِرّ کی جمع ہے، جس کے معنی راز اور بھید کے ہیں۔ شاعری میں جب شاعرکائنات کے مضامین سے نکل کر الوہیت اور فلسفہ و حکمت کے مضامین باندھتا ہے تو اسے اسرار و معارف کے مضامین کہتے ہیں۔ یہ مرحلہ آسان نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہر شاعر کے لیے ممکن ہے۔ یہ ایک خاص طرح کے مزاج سے وابستہ لوگوں کے لیے ہی ممکن ہوسکتا ہے یعنی جس کی طبیعت میں خداشناسی کے راز کو جاننے، اس پر گفتگو کرنے کا شوق ہو اور جو ان مراتب سے بہ حسن و خوبی واقف ہو، وہی اس طرح کے مضامین نظم کرسکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شاعر کا تخیل ہی پہنچ سکتا ہے۔ دراصل یہ مقام اصغر جیسے شاعر کے لیے شاعری کی معراج ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال سہیل لکھتے ہیں:
’’اگر ایک شاعر عالمِ رنگ و بو سے گذر کر فلسفہ و حکمت کے نکتہ ہائے سربستہ، مذہب کے اسرار و رموز، اور مراحل سلوک و عرفاں کی کیفیات مجردہ اسی ترنم، اسی جدت بیان اور اسی حسن مصوری کے ساتھ ادا کرتا ہے تو اس کی شاعری سحر سے گزر کر اعجاز بن جاتی ہے۔ اس طرح کے شاعر کے لیے بصیرت، تاثر اور قوتِ بیان، تینوں کا اجتماع ضروری ہے یعنی ایک طرف تو قوت مشاہدہ اتنی تیز ہونی چاہیے کہ نہایت دقیق نکتوں تک پہنچ سکے، دوسری جانب احساس اتنا لطیف ہونا چاہیے کہ وہ غیر مادی حقائق سے بھی لطف اندوز ہوسکتا ہو اور ان دونوں مراحل کے بعد قوت بیان ایسی ہونی چاہیے کہ عرفان و ذوق کی اس مجموعی کیفیت کی تصویر ایک نئے انداز کے ساتھ شعر کے نغمۂ موزوں میں کھنچ کر دوسروں کو بھی لذت اندوز کرسکے تو وہ ایک باکمال شاعر ہے۔‘‘ 
( اقبال سہیل، نشاطِروح، ص ۵۹ )
درج بالا مضامین کو غزل کے سانچے میں ڈھالنا آسان نہیں۔ دوسرے ان مضامین کو اگرخشک طریقے سے باندھا جائے گا تب بھی وہ بات پیدا نہیں ہوگی۔ بقول غالب:
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
جیسی کہ بادۂ و ساغر اور گل و بلبل کی زبان میں پیش کرنے سے پیدا ہوگی۔ اسی بات کو اوپر کے شعر میں غالب نے اپنے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اصغر نے اسرار و معارف کے لطیف سے لطیف مضامین میں بھی ایک نئی کیفیت اور طرز سے اشعار کہنے کی کوشش کی ہے۔

پھر آج جوش سر حقیقت ہے موجزن
کچھ پردہ ہائے ساغر و مینا لیے ہوئے
اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے 
شکلِ صفات معنی اشیا کہیں جسے
تری نگاہ کے صدقے یہ حال کیا ہے مرا
کمالِ ہوش کہوں یا کمالِ بے خبری
نظارہ بھی اب گم ہے بے خود ہے تماشائی 
اب کون کہے اس کو جلوہ نظر آتا ہے 
اہلِ بصیرت علم و عرفان اسے کہتے ہیں کہ انسان کے تمام ادراکات و احساسات پر جمالِ دوست کا قبضہ ہوجائے۔ ذات و صفات کا فرق مٹ جائے تو اس مقام کو اصطلاحِ سلوک میں فنا کہتے ہیں۔
تھیں خود نمود حسن میں شانیں حجاب کی 
مجھ کو خبر رہی نہ رخِ بے نقاب کی
جس طرح کمالِ بے خبری ہی اصل علم و عرفان ہے، اسی طرح کمالِ ظہور بھی عین حجاب ہے۔ اس حقیقت کی نہایت دلکش مصوری اس شعر میں کی گئی ہے۔ اس فلسفے سے متعلق اصغر کی ایک نظم ’’سرّفنا‘‘ ہے۔ چند مثالیں اور پیش کی جارہی ہیں، جن کا تعلق اسی سے ہے۔

پردۂ حرماں میں آخر کون ہے اس کے سوا
اے خوشا در دے کہ نزدیکی بھی ہے دوری بھی ہے 
میں تو ان محجوبیوں پر بھی سراپا دید ہوں
اس کے جلوہ کی ادا اک شان مستوری بھی ہے
میری محرومی کے اندر سے یہ دی اس نے صدا
قرب کی راہوں میں میری راہ اک دوری بھی ہے 

ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کوئی شاعر بالکل نیا خیال پیش کرے۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر وہی خیالات جو پہلے ادا کیے جاچکے ہیں، انہیں میں کچھ اضافہ کرکے ایک نیا پن لانے کی کوشش کرتا ہے یا ایک خیال کے ایک پہلو کو بدل کر دوسرا پہلو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر دو متضاد چیزوں میں مماثلت اور دو مماثل چیزوں میں تضاد پیش کرتا ہے۔ یہ کیفیتیں خیال آفرینی کہی جاسکتی ہیں لیکن اگر کسی پرانے خیال کو اس کی جگہ قائم رکھ کر طرز ادا سے اس میں نئی روح شاعر نے پھونک دی ہے تو اس کو ندرتِ بیان کہتے ہیں۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ندرتِ بیان پرانی شراب کو نئے ساغر و مینا میں پیش کرنے کا نام ہے۔ بقول اصغر گونڈوی:
لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے 
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے 
حقیقت میں یہی ندرت بیان شاعری کی روح ہے ۔ نیا خیال ہر شعر میں پیش کرنا ناممکن سی بات ہے اور پرانے خیالات اور مضامین کو بغیر کسی نئے پن کے پیش کرنا بھی بے غیرتی ہے۔ لہٰذا یہ بات طئے ہے کہ طرز ادا سے ہی شاعر اپنے مضامین میں نیا پن پیدا کرتا ہے۔ اصغر گونڈوی کی شاعری کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ ان کے اس رنگ کو بعد کے شعرأ میں کوئی بھی اپنا نہ سکا۔ اصغر اپنے رنگ کے پہلے اور آخری شاعر ہیں۔ ندرت بیان کی مثالیں اصغر گونڈوی کے کلام سے درج کی جاتی ہیں:

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے 
کیا کیا ہوا ہنگامِ جنوں یہ نہیں معلوم
کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا
اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پر آشوب
فتنوں نے ترا گوشۂ داماں نہیں دیکھا
اک شعلہ اور شمع سے بڑھ کر ہے رقص میں
تم چیر کر تو سینۂ پروانہ دیکھتے
آہوں نے میری خرمنِ ہستی جلا دیا
کیا منھ دکھاؤں گا تری برق نظر کو میں
جوش شباب، نشۂ صہبا، ہجومِ شوق
تعبیر یوں بھی کرتے ہیں فصلِ بہار کو
تو برق حسن اور تجلی سے یہ گریز
میں خاک اور ذوقِ تماشا لیے ہوئے

اصغرگونڈوی کی شاعرانہ خصوصیات میں، اب تک جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ان کی شاعری کی اصل پہچان ہیں۔ اس کے علاوہ صفائی و برجستگی، لطافتِ خیال اور فلسفہ و حکمت پر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن اس کا محل یہاں نہیں ہے۔
اس مضمو ن میں ہم نے اب تک اصغر گونڈوی کی حیات، شاعری کی خصوصیات اور جدید غزل میں ان کے مرتبے کی بات کی ہے، جس سے قاری کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ اصغر کس طرح کے آدمی تھے اور شاعری کے کس معیا رکو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے دونوں شعری مجموعے ’’نشاطِ روح‘‘ اور’’سرودِ زندگی‘‘ ان کی زندگی ہی میں شائع ہوچکے تھے۔ یہ دونوں مجموعے بہت مختصر ہیں لیکن اردو دنیا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ان دونوں مجموعوں میں اصغرکی شاعری،اس کے معیاراور ان خاص نکات کی ہم نے نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے، جن کا ذکر اصغر کے یہاں بارہا ہوتا ہے۔ فلسفے سے ان کو خاصا لگاؤ تھا اور تصوف سے بھی۔ اس سے انہوں نے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور مختلف قسم کے نظریات پر حامل اشعار بھی کہے ہیں۔ ایسے اشعار بغیر فلسفیانہ خیالات کو سمجھے، سمجھ میں نہیں آسکتے۔ اس لیے اکثر کی تعریف پچھلے صفحات میں درج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 نوٹ: یہ مضمون بھارت کے کسی رسالے میں ۲۰۰۹ میں شائع ہوا تھا اور میری کتاب "تنقید شعر" میں بھی شامل ہے۔

How to use voice typing in Urdu