بدھ، 29 اکتوبر، 2014

میں اور میرا بی۔ ایڈ۔ از پرویز احمد اعظمی

میں اور میرا بی ایڈ

پرویز احمد اعظمی

 میرا بی ایڈ میں آنا ٹھیک ویسے ہی ہوا جیسے کہ آدم کا دنیا میں آنا۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر گرے تھے اور میں زمین سے گڑھے میں۔ زن مریدی سے جس طرح وہ لاچار تھے، اسی طرح میں بے بس لیکن افسوس صرف اس بات کا ہے کہ جب دنیا میں ان کی تشریف آوری ہوئی، اس وقت دنیا میں یونی ورسٹیاں اوربی۔ ایڈ۔ ڈیپارٹمنٹس نہیں تھے، جب کہ یہ دونوں چیزیں سوئے اتفاق سے میرے زمانے میں موجود ہیں۔ اب آپ چاہے جو سمجھیں مگر ناچیز بقول رشید احمد صدیقی یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہندستان میں جوانی کھونے کے دو مقام ہیں: اول ارہر کے کھیت، دوم پارک اور اب ان میں کالج اور یونی ورسٹیوں کو بھی جوڑ لیا گیا ہے۔ 

  بی۔ ایڈ۔ میں داخلہ لیا تو دیکھا کہ ایک سے ایک اصحاب کمال یہاں موجود ہیں، جنھیں دیکھ کر طلبہ کی ایک بڑی تعداد انگشت بہ دنداں اور متحیر ہے۔ ایسے ایسے نادر عجائبات کہ اگر اس جگہ کو وزارت سیاحت کے سپرد کر دیا جائے تو راتوں رات اس کی آمدنی میں دس گنا اضافہ ہو جائے۔  حالاں کہ بعض امور میں طلبہ میں ابھی اختلاف پایا جاتا ہے مگر آمدنی میں اضافے کو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایک صاحب کے بارے میں سب کی متفقہ رائے ہے کہ یہ بھارتی نوادر میں سے ہیں۔ انھیں چلتا ہوا دیکھ کر لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ یہ ہڑپا کی کھدائی میں پائے گئے ہیں کیا؟ انھیں یہاں نہیں عجائب گھر میں ہوناچاہیے۔ ایک استاد ایسے ہیں، جن کی چال دیکھ کر کوئی بھی اجنبی شخص انھیں چودھری کا سانڈ سمجھ لیتا ہےاور ان کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف قدرت کے بنائے ہوئے حسین ترین شاہ کاروں کو دیکھ کرپڑھاتے ہیں۔

   میں توابھی کورس کے ابتدائی مراحل سے آنکھ مچولیاں کھیل رہا تھا کہ کبھی   elective کا جھمیلاتو کبھی  selective کا کھیلا، کبھی art and craft کا لفڑا تو کبھی دست کاری  کا رگڑا۔ آدمی جائے تو جائے کہاں؟

کوئی سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں۔ جس کو دیکھو وہ مشورہ اور blame theory لیے کھڑا ہے۔ ناچار ہو کرعاجز کو  کہنا پڑاکہ:

                                     خالی کوئی بشر نہیں ہر اک کو کام ہے

                                     سائل کرے سوال تو بے جا کلام ہے 

                                     بی ایڈ نے مجھ غریب کو الجھا کے رکھ دیا

                                     ہر  روز  elective کا یہاں تام جھام ہے

  مذکورہ قطعہ کے دیوار پرچسپاں کرنے کے باوجود دال دلیا تو نہ ہو سکی مگر ادہن ضرور رکھا گیا ۔

  میں نے اب تک جہاں جہاں بھی تعلیم حاصل کی تھی تمام اداروں میں جمہوریت اور مساوات کی روایت دیکھی تھی۔ یہاں کا ماحول دیکھ کر تو ہوش ہی اڑ گئے۔ استاد سے لے کر چپراسی تک سب کے سر جاگیرداری کا خمار چڑھا ہوا پایا۔ یہاں دو ہی طرح کے لوگ نمبر پاتے ہیں- اول: جس کے پاس اَمول (مکھن) زیادہ ہو یا  وہ جو فولادی باہوں میں یقین رکھتا ہو۔ امول (Amul) کا معاملہ یہ ہے کہ اسے چمچ سے نہیں، طعامی سے لگایا جائے اور بقول "سردار جی" یہاں چمچ ومّچ نہیں کڑچھے چلتے ہیں کڑچھے۔ ایک صاحب جو اپنی عمر کی چوتھی دہائی سے پانچویں دہائی میں پیر لٹکائے ہوئے تھے، اس فن میں طاق نظر آئے لہٰذا کچھ دل جلوں نے کہنا شروع کیا کہ: 

بٹرنگ کا جادو ہے، سرچڑھ کر بولے گا

 یہ ٹونکی مکھن ہے، سر چڑھ کر بولے گا

   بندہ بی ایڈ کورس کےelective، selective اور work experience   میں دھوبی کے گدھے کی مانند الجھا ہوا تھا اور بارہا اکبر الہ آبادی کے ایک شعرکومعمولی تحریف کے ساتھ دہرایا کرتا تھا: 

             ہائے بی ایڈ کی پری تو نے تو اس مجنون کو

اتنا   دوڑایا  لنگوٹی کر دیا پتلون کو

      ذہن میں lesson plan انگلی میں ٹُرّا رہا

            اس طرح پورا کیا ہے میں نے اس مضمون کو

 ابھی یہ بھی طے نہیں ہوپایا تھا کہ یہ تعلیم کا حصول ہے یا کچّے دھاگوں کا سلجھانا یا محبوب کی زلفوں کو رام کرنا کہ cultural activity کا  وقت آگیا اور کچھ دوست نما دشمنوں نے میرے نام کا بھی اعلان کروا دیا۔ ذہن قطعی آمادہ نہیں تھا کہ کچھ سنایا جائے مگر وہ پٹھان ہی کیا جو میدان چھوڑدے لہٰذا جو کچھ بیت رہی تھی، وہی سنانا شروع کیا ۔

کچھ مری خبط الحواسی مجھ کو راس آئی بہت 

 کچھ دوست نما دشمنوں نے کی پذیرائی بہت

       مصلحت لے آئی ہے بی ایڈ میں مجھ کو کھینچ کر

 خودکشی کرنے کو تھی ورنہ شناسائی  بہت

ابھی بندے نے صرف یہ چار مصر عے ہی حاضر کیےتھے کہ ایک میڈم (استانی) یکایک پکار اٹھیں کہ ’’ابھی میں زندہ ہوں! بھلا میرے جیتے جی تم خودکشی کیوں کرو گے؟''

بس اللہ کا کرم یہ ہوا کہ انھوں نے کہا ’’ابھی تو میں زندہ ہوں‘‘  ورنہ کہیں ان کے منہ سے "زندہ" کی جگہ  کوئی دوسرا لفظ نکل جاتا تو اللہ کی پناہ۔ خدا جانے کیا ہوتا؟ بہر حال مجمع نے عمر کے تفاوت کو دیکھتے  ہوئے میڈم کے جملے کو نظر اندازکر دیا اور بندے نے آپ بیتی پھر شروع کی۔

      ختم جب  اپنا قسم سے tension period ہوگیا

   یوں لگا مجھ کو کہ میں پھر سے کنوارا ہوگیا

  پھر وہی سیر گلستا ں پھر وہی سرخوش دماغ

  جیسے الّو کے لیے راتوں کا موسم ہو گیا

پھر اٹھیں دل میں امنگیں پھر چڑھا سر میں خمار

جیسے جیبوں میں میری رشوت کا پیسہ ہوگیا

پرویز احمد اعظمی۔ 2003 کی تحریر

How to use voice typing in Urdu