ہفتہ، 2 فروری، 2013

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا کی تشریح

ولی کی غزل

 

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا

جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

تشریح و وضاحت:

اس شعر کو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں میر کا یہ شعر فوراً رقص کرنے لگتا ہے: 

ہستی اپنی حباب کی سی ہے            یہ نمائش سراب کی سی ہے

اس کی وجہ یہ ہے کہ ولی اور میر دونوں ہی شعرأ کی غزلوں کے مطلعے کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہے۔ ایسا کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں تشبیہ کا استعمال ہوا ہو۔ شاید میر نے ولی  کے مذکورہ شعر سے متاثر ہو کر اپنی غزل کے مطلعے میں ولی ہی کی طرح تشبیہ کا استعمال کیا ہو، جس کا مقصد کچھ اور نہیں بل کہ اپنی استادی اور فنی مہارت پیش کرنے کا جذبہ رہا ہو۔ زیرِ بحث شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو بدخشاں کے لعل سے تشبیہ دی ہے۔ اس کے دو پہلو ممکن ہیں۔ اول: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں کی مانند سرخ ہیں۔ دوم: محبوب کے ہونٹ لعل بدخشاں ہی کی مانند قیمتی ہیں۔ لعل بدخشاں سے مراد وہ ہیرا ہے جو کہ بدخشاں میں پیدا ہوتا ہے۔ شہر بدخشاں آج کی تاریخ میں شمال مشرقی افغانستان اور تاجکستان کے سرحدی علاقے میں قائم ہے۔ بدخشانی ہیروں میں سب سے قیمتی وہ ہوتا ہے، جس کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور اس کی سرخی ہی ، اس کی خوبی قرار دی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ شاعر نے محبوب کے ہونٹوں کو لعل بدخشاں کے مماثل قرار دیا ہے۔ اس پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی شاعر نے اپنے محبوب کے ہونٹوں کی سرخی کی خوبی کولعل بدخشاں کہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں لفظ ’’غزالاں‘‘ کلیدی لفظ ہے ، جس کے معنیٰ ہرن کا بچہ ہوتا ہے لیکن جب غزال چشم کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بڑی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں۔ شاعر محبوب کی آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میرے محبوب کی بڑی بڑی آنکھوں میں غزالاں جیسا جادو ہے یعنی اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک سحر ہے۔ اس شعر کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ شاعر اپنے محبوب کے حسن کی تعریف بیان کر رہا اور اس کے ہونٹوں  کی رنگت کو اور بدخشانی ہیرے کی مانند قیمتی بیان کر رہا ہے اور محبوب کی بڑی بڑی آنکھوں کی کشش کی تعریف کر رہا ہے۔

دی بادشہی حق نے تجھے حسن نگر کی

یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

اس غزل کو پڑھنے کے بعد سب سے پہلے ذہن میں یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ یہ غزل پوری طرح غزل کی تعریف کے دائرے ہی میں مکمل ہوتی ہے۔ شاعر نے محبوب کا سراپا بڑی خوش سلیقگی سے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ مذکورہ شعر کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ عرض کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس شعر میں تلمیح ہے۔ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے عاشق کہتا ہے کہ ’’ائے میرے محبوب!‘‘ اللہ نے تجھے حسن نگر کی بادشاہت عطا کی ہے یعنی تو تمام ترحسینوں سے حسین ہے اور میں ترے حسن کی تعریف سلیمانؑ کے حضور میں حاضر ہو کر انھیں سناؤں گا۔ یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ سلیمانؑ  کی حکومت تمام مخلوق پر تھی۔ بین السطور یا اس شعر کا معنی بعید یہ ہے کہ میں جا کر سلیمانؑ  سے کہوں گا کہ آپ کی بادشاہت میں اگر کوئی میرے محبوب سے بڑھ کر حسین ہے تو مرے محبوب کا جواب پیش کیجیے یعنی میرا محبوب پوری کائنات میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین ترہے۔ اس سے بڑھ کر حسین کوئی نہیں، سب اس سے کم تر ہیں۔

تعریف ترے قد کی الف وار سری جن 

جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

اس غزل کے بارے میں جیسا میں نے عرض کیا کہ اس میں شاعر نے اپنے محبوب کی طرح طرح سے خوبصورتی اور بڑائی بیان کی ہے، ویسا ہی اس شعر کا معاملہ بھی ہے۔ اس شعر میں دو لفظ قابلِ غور ہیں: اول: ’’سری جن‘‘ اور دوم ’’سرو‘‘۔ یہاں ’’سری جن‘‘ سے مراد عام نہیں بلکہ خاص، سب کا نورِ نظر، انسانِ کامل، چہیتا، لیا جا سکتا ہے یا پھرتمام انسانوں سے اس کا مرتبہ ذرا بہتر ہے کیوں کہ وہ ’’جَن‘‘ نہیں ’’سری جَن‘‘ ہے۔ اردو غزل میں یہ روایت عام ہے کہ جب شاعر اپنے محبوب کے قد کی تعریف کرتا ہے تو اس کو ’’سرو قد‘‘ کہتا ہے لیکن شعر زیرِ بحث میں شاعر نے محبوب کے قد کو الف کی مانند کہا ہے۔ چوں کہ الف کا قد بھی بالکل سیدھا ہوتا ہے، اس لیے اس کو الف کے مماثل کہا ہے اور پھر اس پر یہ دعویٰ بھی ہے کہ گلستاں میں جا کر اپنے محبوب کے قد کی بڑائی ’’سرو‘‘ سے کروں گا۔ اس سے یہ خیال غالب آتا ہے کہ ’’سرو‘‘ کا قد لاکھ سیدھا اور خوب ہوتا ہو لیکن میرے محبوب کے قد کے سامنے ہیچ ہے اور میں اسے چیلنج کروں گا۔

مجھ پر نہ کرو ظلم، تم ائے لیلئ خوباں

مجنوں ہوں، ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا

محبوب کے جور و ستم اور ظلم سے خود کو بچانے کے لیے شاعر نے نہایت حسین پیرایہ استعمال کیا ہے۔ عشق میں طرح طرح کی جو بے اعتنائی محبوب کی طرف سے عاشق کے لیے روا رکھی جاتی ہے، اس سے بچنے کے لیے عاشق التجا کر رہا ہے کہ ’’ائے میرے پیارے محبوب! تم مجھ پر ظلم نہ کروکیوں کہ میں مجنوں یعنی تمہارا سچا عاشق ہوں اور اگر تم مجھ پر ظلم کروگے تو میں یہ راز تمام بیابان پر ظاہر کردوں گا۔ یہاں بیابان سے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ راز، راز نہیں رہے گا بلکہ سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ شعر میں تلمیح اور استعارہ ہے اور پہلے مصرع میں چوں کہ شاعر نے محبوب کے لیے ’’لیلیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، اس لیے دوسرے مصرع میں لیلیٰ کی مناسبت سے عاشق کے لیے مجنوں کا لفظ استعمال کرنا لازم ہو گیا۔ 

دیکھا ہوں تجھے خواب میں ائے مایۂ خوبی

اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا

اس شعر میں محبوب کے حسن کی تعریف جس خوبی سے کی گئی ہے، وہ لائق تحسین ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ ائے خوبیوں والے میں نے تجھے خواب میں دیکھا ہے۔ خواب میں محبوب کا دیدار ہونا، ایک خوش آئند بات ہے اور یہ اپنے آپ میں بہت سی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے۔ عاشق یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ میرا محبوب اس قدر حسین و جمیل ہے کہ میں اس کی صفات اور حسن و جمال کی تعریف یوسف  سے جا کر کہوں گا یعنی عاشق نے اپنے خواب میں محبوب کو جس قدر حسین دیکھا ہے، اس کے حسن کی جلوہ سامانی کو وہ یوسف  سے جا کر بیان کرے گا۔ یوسف  کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس روئے زمین پر آج تک ان سے خوبصورت کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوا لیکن اس شعر میں یوسف  سے جا کر کہنے سے یہ مراد ہے کہ عاشق کے لیے اس کا محبوب دنیا کا سب سے حسین فرد ہے اور ایک طرح سے وہ ان کی خوبصورتی کے سامنے ایک اور خوبصورتی کی مثال پیش کرنا چاہ رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عاشق کے لیے اس کا محبوب ہی دنیا کا سب سے حسین ترین فرد ہوتا ہے۔ اس شعر میں صنعت تلمیح ہے۔ 

جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں ائے ساجن

یہ سوز ترا مشعلِ سوزاں سوں کہوں گا

عاشق کہتا ہے کہ ائے میرے محبوب! میں رات دن ترے غم میں جلتا رہتا ہوں۔ یہ میرا جلنا ٹھیک ویسا ہی ہے جیسے کہ کوئی آگ سے جل جائے یعنی جس طرح آگ سے جلے ہوئے حصے میں سوزش و جلن ہوتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس میں بار بار اور جگہ جگہ سوئی چبھو رہا ہے، جس کے باعث شخص کی حالت بے چین و اضطراب کی سی رہتی ہے، میرا حال بالکل ویسا ہی ہے۔ عاشق کا محبوب کے دیدار یا اس کی نظر عنایت حاصل کرنے کے غم میں بے چین ہونا، تڑپنا، مضطرب ہونا اور اسی بے چینی کے عالم میں بار بار اس کے در پہ جانا ایک حقیقی کیفیت کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔ اسی مضمون کو میر نے اس طرح باندھا ہے:

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں         حالت اب اضطرا ب کی سی ہے

حقیقت حال بھی یہی ہے کہ جب کسی کی نگاہ میں کوئی بس جاتا ہے تو اس کا دل اس کے دیدار کے لیے بے قرار رہتا ہے اور اسی غم میں اس کے صبح و شام ہوتے ہیں۔ اسی کیفیت کا ولی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ اس شعر میں ’’شب و روز ‘‘سے صنعتِ تضاد قائم ہوتی ہے۔

یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا

اس مکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا

اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں محبوب کے چہرے کی خوبصورتی کو شاعر نے صفحۂ قرآں سے تشبیہ دے کر جس طرح اس کے چہرے کو بے داغ اور بے عیب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس کا لطف اہلِ نظر ہی جانتے ہیں۔ عاشق محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ: تیرے چہرے میں کسی طرح کا کوئی نقص، کمی یا خامی ہے ہی نہیں۔ اس لیے میں ترے رخ کو، ترے چہرے کو قرآن کے صفحے جیسا کہوں گا۔ قرآن کے صفحے سے تشبیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح، قرآن کے صفحے میں کسی طرح کی کوئی کمی یا کوئی نقص نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح تیرے رخ میں بھی کوئی کمی یا نقص نہیں ہے۔ اس طرح محبوب کے چہرے کے حسن و جمال کوقرآن کے صفحے سے تشبیہ دے کر شاعر نے محبوب کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے کی کوشش کی ہے۔

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی اَنی نے 

یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا

’’انی‘‘ کا مطلب برچھی یا تیر کی نوک ہوتا ہے۔ یہاں شاعر کہہ رہا ہے کہ ائے میرے محبوب! مجھ کو تری پلکوں کی اَنی نے گھائل کیا ہے یعنی میں تیری نگہ کے تیر کا گھائل ہوں۔ کیوں کہ شاد عظیم آبادی  نے کہا ہے: 

نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینہ اسی کا ہے

 ہمارا آپ کا جینا نہیں، جینا اسی کا ہے 

لیکن مذکورہ شعر میں جس طرح ولیؔ نے نظروں کے تیر سے گھائل ہونے کی بات کی ہے اور اسے خنجر و بھالا کے زخم کے برابر کہا ہے، وہ بہت ہی خوب ہے کیوں کہ خیالی شئے کو حقیقی شئے سے تشبیہ دے کر اپنے جذبے کی حقیقی کیفیت کا اظہار کرنا اپنے آپ میں بہت ہی خوب ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ عاشق نظر کے وار سے گھائل ہے لیکن نظر کے وار سے اس کے دل پر جو کاری ضرب لگی ہے وہ اسے خنجر و بھالا کے زخم کی مانند نظر آ رہی ہے اور یہی بات وہ کہہ بھی رہا ہے کہ میں اس نظر کے تیر کے زخم کو خنجر و بھالا جیسا زخم کہوں گا یعنی جس طرح کا درد بھالا یا خنجر لگنے سے ہوتا ہے اور زخمی جس طرح تڑپتا رہتا ہے، ٹھیک ویسی ہی کیفیت میری تری نگاہ کے تیر کی اَنی یعنی نوک  لگنے کے بعد سے ہے اور میں ہر گھڑی بے چین اور مضطرب رہنے لگا ہوں۔

قربان پری مکھ پہ ہوئی چوب سی جل کر

یہ بات عجائب مہ تاباں سوں کہوں گا

 اس شعر میں شاعر نے اس چیز  کا ذکر نہیں کیا ہے کہ وہ کون سی شے ہے جو  محبوب کے ’’پری مکھ‘‘  یعنی پری چہرہ کو دیکھ کر چوب یعنی سوکھی لکڑی کی مانند جل کے رہ گئی ہے۔  اس کا عقدہ دوسرے مصرعے میں ’’مہ تاباں‘‘  پر جا کر  کھلتا ہے۔  اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرے محبوب  کے  پری  جیسے چہرے کو دیکھ کر چاندنی   جل کر سوکھی لکڑی  کی طرح   ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی کوئی کشش باقی نہیں رہی ہے۔  چاندنی کون سی ؟  مہ ِتاباں یعنی چودہویں کا چاند، جس کی  چاندنی  سب سے زیادہ حسین ہوتی ہے۔ اس کی حالت میرے محبوب کے حسن کو دیکھ کر کر سوکھی لکڑی جیسی ہو گئی ہے۔ مطلب یہ کہ چاندنی میں کوئی حسن، خوب صورتی یا دل کشی باقی نہیں رہی ہے۔ یہ انوکھی بات میں چاند سے جا کر کہوں گا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ ائے چاند تجھے اپنی چاندنی پر کتنا ہی فخر کیوں نہ ہو مگر وہ میرے محبوب کے چہرے کی دل کشی، جاذبیت اور خوب صورتی کے سامنے  کچھ نہیں ہے۔  

بے صبر نہ ہو ائے ولیؔ اس درد سے ہر گاہ

جلدی سوں ترے درد کی درماں سوں کہوں گا

اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو یا اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ: ائے ولی تو اس درد سے ہر پل، ہر گھڑی بے صبر و بے چین مت ہو کیوں کہ میں بہت جلد ترے اس درد کی کیفیت کو ترے درماں یعنی ترے محبوب سے جا سناؤں گا اور وہ ترے اس درد کا علاج کر دے گا۔

 

پرویز احمد اعظمی

4 تبصرے:

  1. قربان پری مکھ پہ ہوئی چوب سی جل کر

    یہ بات عجائب مہ تاباں سوں کہوں گا

    یہ شعر غزل میں کس نمبر پر ہے سر؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ نے جو شعر درج کیا ہے، وہ اس متن میں نہیں تھا، جسے میں نے تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔

      حذف کریں
    2. مقطعے سے پہلے ہے۔ اصل میں میرے سامنے جو غزل تھی، اس میں یہ شعر نہیں تھا۔ آپ کی نشاندہی کے بعد اب شامل کر دیا ہے۔ دیکھ لیجیے۔

      حذف کریں

How to use voice typing in Urdu