منگل، 14 دسمبر، 2021

جانی کیا آج میری برسی ہے. Jaun Elia جون ایلیا

جانی کیا آج میری برسی ہے؟

یعنی کیا آج مر گیا تھا میں؟

 

اصلی نام: سید جون اصغر، قلمی نام: جون ایلیا

 ولادت: 14/ دسمبر 1931ء(امروہہ)  بھارت 

وفات: 08/نومبر ،2002ء (کراچی) پاکستان 

 

نام سیّدجون اصغر اور تخلص جونؔ تھا۔ آپ 14؍دسمبر 1931ء کو ایک علمی وادبی خاندان میں   امروہہ ، یونائٹڈ پروونس ،بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ رئیسؔ امروہوی اور سیّد محمد تقی ان کے بڑے بھائی تھے۔ جون ایلیا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور بھارت کے ممتاز فلم ساز کمال امروہی کے سگے  بھائی تھے۔

ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا ۔اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انھیں خطوط پر کی۔ انھوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 /سال کی عمر میں کہا تھا۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد شفیق حسن ایلیا کی سرپرستی میں حاصل کی۔ ادیب کامل (اردو)، کامل (فارسی) ، فاضل (عربی) کے امتحانات پاس کیے۔ اردو، فارسی اور عربی زبانوں پر جونؔ ایلیا کو یکساں عبور حاصل تھا۔ 1957ء میں بھارت سے ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی۔ 1963ء سے 1968ء تک اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان کے شعبۂ تالیف کے نگراں رہے۔ 1968ء میں اردو ڈکشنری بورڈ سے وابستہ ہوئے۔ 1970ء میں انھوں نے زاہدہ حنا سے شادی کی، دونوں مل کر ایک عرصہ تک ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ نکالتے رہے۔ بعد میں دونوں میں علاحدگی ہوگئی۔ تاریخ ، فلسفہ اور مذہب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔

ان کی تصانیف کے نام   ہیں: ’شاید‘ (شعری مجموعہ)، ان کی زندگی میں چھپ گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے تین مجموعے: ’یعنی‘، ’گمان‘، اور ’لیکن‘ شائع ہوئے ۔ وفات سے قبل زاہدہ حنا کے نام لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ ’’تمہارے نام‘‘ کمپوز ہوا رکھا تھا۔ انھوں نے جوہر صقلی کتابُ الطواسین (ازمنصورحلاج) کے ترجمے کیے ہیں مگر ان کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ پاکستان گورنمنٹ نے انھیں حسن کارکردگی کے تمغے سے نوازا ۔جون ایلیا برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے ۔وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔ اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں:

"میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوایعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:

💟چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں💟

💟 دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی💟

جون اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے۔ ان دنوں ان کی کل توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی۔ ان کے غصے کا نشانہ متحدہ ہندوستان کے انگریز قابض تھے ۔وہ ابتدائی مسلم دور کی تاریخ ڈرامائی صورت میں دکھاتے تھے، جس وجہ سے ان کے اسلامی تاريخ کے علم کے بہت سے مداح تھے۔جون کے مطابق ان کی ابتدائی شاعری اسٹیج ڈرامے کی مکالماتی فطرت کا تاثر تھی۔ جون ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہلِ تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چوں کہ جون ایلیا خود شیعہ تھے، اس لیے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا ۔جون کو زبانوں سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتے تھے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ جو انھوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، انھوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں  بھی کچھ مہارت حاصل کر لی تھی۔ اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پزیرائی نصیب ہوئی۔

                  جون ایک انتھک مصنف تھےلیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے، جس میں رہ کر انھیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ 'یعنی' ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان 'گمان' 2004ء میں شائع ہوا۔

جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے تھے۔

جون ایلیا تراجم، تدوین  اور اسی طرح کی دوسری مصروفیات میں  مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اور نثری تحریریں آسانی سے دستیاب نہيں۔ فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انھوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکيں۔

جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے، جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی، جن سے بعد میں انھوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا اپنے انداز کی ایک ترقی پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے۔ ان کے فرزند کا نام علی زریون ہے جو وہ خود بھی آج کے معروف شاعر ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کا طلاق ہو گیا۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور انھوں نے شراب نوشی شروع کر دی۔ جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8/ نومبر  2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔

💟ترتیب و پیشکش 👈 سید نوید جعفری، حیدرآباد دکن 💟

 

💟ہند و پاک کی مشترکہ ادبی تہذیب کے عظیم و نمائندہ شاعر  جون ایلیا صاحب کی آج 90ویں سالگرہ کے موقع پر انکا منتخب  کلام بطور خراج عقیدت پیش کررہا ہوں ملاحظہ فرمائیں 💟

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو 

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو 

 

تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں 

بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو 

 

تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں 

کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو 

 

جنوں وہی ہے وہی میں مگر ہے شہر نیا 

یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو 

 

کسے ہے خواہش مرہم گری مگر پھر بھی 

میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو 

 

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی 

کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

        

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی 

رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

 

جانی کیا آج میری برسی ہے

یعنی کیا آج مر گیا تھا میں

 

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

 

اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر 

کب پرندے اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

 

اب  مری  کوئی  زندگی ہی نہیں 

اب بھی تم میری زندگی ہو  کیا

 

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

اور  ہم  ہیں  کہ  نام  کر رہے ہیں

 

اس سے ہر دم معاملہ ہے مگر 

درمیاں   کوئی   سلسلہ   ہی  نہیں

 

ان لبوں کا لہو  نہ  پی جاؤں 

اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

 

خموشی سے ادا  ہو  رسمِ دوری

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

 

اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے 

بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں 

 

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

 

اور کیا چاہتی ہے گردشِ ایام کہ ہم 

اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے 

 

اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال

جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں

 

اے شخص میں تیری جستجو سے 

بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں

 

بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے

صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

 

 

تری   قیمت  گھٹائی  جا   رہی   ہے 

مجھے فرقت سکھائی جا رہی ہے

 

تیغ   بازی   کا    شوق    اپنی   جگہ 

آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں

 

جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ 

وصل  سے   انتظار  اچھا  تھا

 

بے قراری سی بے قراری ہے

وصل ہے اور فراق طاری ہے

 

جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں 

تم  سزا  بھی  تو  کم  نہیں  کرتے

 

ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر

سوچتا ہوں تری حمایت میں

 

آج جون ایلیا کی یومِ پیدائش ہے۔ یہ مضمون اچھا لگا تو کاپی کر کے یہاں چسپاں کر دیا تاکہ محفوظ ہو جائے۔ واٹس ایپ پر دستیاب مضمون شکریہ کے ساتھ۔

2 تبصرے:

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...