اتوار، 19 دسمبر، 2021

تو دیکھ لینا از سرفراز بزمی

 

تو دیکھ لینا

_سرفراز بزمیؔ______

سنہری کرنوں سے جگمگاتی ہوئی منڈیروں پہ بیٹھ کر جب

کوئی پری وش نہ گنگناۓ ،

کوئی پرندہ نہ چہچہاۓ ،

کوئی پپیہا نہ گیت گاۓ

تو دیکھ لینا

 

یہ دیکھ لینا ---

کہ بند کمروں کے

سونے سونے سے طاقچوں میں

سجی ہوئی ہیں جو کچھ کتابیں

لرز رہی ہیں

وہ امن نامے ، وہ عہد نامے ،

اصول و دستور کے صحیفے ،

وہ ضابطے امن وآشتی کے ،

ضمانتوں کے سبھی نوشتے ،

حسین سپنے برابری کے

غرور کثرت کے زعم بیجا کی ٹھوکروں میں پڑے ہوۓ ہیں

افق سے اٹھتے ہوۓ بگولوں سے سرخ آندھی پنپ رہی ہے

یہ تاج والے خراج والے ،

یہ کل کے طوفاں سے آنکھ موندے سے آج والے

انا کی ضد پر اڑے ہوۓ ہیں

تو روزن ابر سے ستارہ کوئی افق پر جو جگمگاۓ

تو دیکھ لینا


بھرے نشیمن اجڑ رہے ہوں

ستم کے طوفان اٹھ رہے ہوں

گلے عدالت کے گھٹ رہے ہوں

سزا سے بےخوف چیل کوے کسی کبوتر کو نوچتے ہوں

لہو میں انصاف کے سنے ہوں

وہ ہاتھ

تھی جن کی ذمہ داری نظام گلشن کی پاسداری

وہ دامن عدل پھاڑتے ہوں

رخ عدالت کو نوچتے ہوں

ہری زمینوں پہ سرخ شبنم پڑی ہوئی ہو

دیا کی دیوی ، ستم کی چوکھٹ پہ سرجھکائے کھڑی ہوئی ہو

پھر ایسی صورت میں کوئی آکر اگر وفا کا سبق پڑھاۓ

تو دیکھ لینا



سرفراز بزمی

سوائی مادھوپور راجستھان

بھارت09772296970

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...