اتوار، 11 اکتوبر، 2020

شان الحق حقی

 آج معروف شاعر‘ ادیب‘ محقق و نقاد‘مترجم اورماہر لسانیات شان الحق حقی کا یوم وفات ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شان الحق حقی دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 

ان کے والد مولوی احتشام الدین حقی اپنے زمانے کے مشہور ماہر لسانیات تھے اور انہوں نے مولوی عبدالحق کی لغت کبیر کی تدوین میں بہت فعال کردار ادا کیا تھا۔ اسی علمی ماحول میں شان الحق حقی کی پرورش ہوئی۔ 

انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی سے انگریزی میں ایم اے کیا جس کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو اورہندوستان کے شعبہ اطلاعات کے مشہور ماہنامہ آج کل سے وابستہ رہے۔


قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں انہوں نے 1950ء سے 1968ء تک حکومت پاکستان کے محکمہ مطبوعات و فلم سازی میں خدمات انجام دیں، بعدازاں وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بھی بطور ڈائریکٹر سیلز منسلک رہے۔


شان الحق حقی کی تصانیف میں تار پیراہن‘ دل کی زبان‘ حرف دل رس‘ نذر خسرو‘ انتخاب ظفر (مع مقدمہ) اور نکتہ راز‘ 

تراجم میں انجان راہی‘ تیسری دنیا‘ قلوپطرہ‘ گیتا نجلی اور ارتھ شاستر اور مرتبہ لغات میں فرہنگ تلفظ اور اوکسفرڈ انگریزی اردو لغت شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک ترقی اردو بورڈ میں بطور معتمد اعزازی خدمات انجام دیں اور اردو کی سب سے بڑی لغت کی تدوین میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا۔شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔

11 اکتوبر 2005ء کو شان الحق حقی ٹورنٹو (کینیڈا) میں وفات پاگئے اور وہ ٹورنٹو ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شان الحق حقی دوسروں کو ہنسانے کا ہی نہیں بلکہ خود پر ہنسنے کا فن بھی جانتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار شان الحق حق کے صاحبزادے کیپٹن شایان حقی نے علمی مجلس لندن کے زیر اہتمام لندن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن میں ”شان کی باتیں“ کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ والد کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے اس تقریب کے انعقاد پر وہ عالمی مجلس لندن اور بطور خاص ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک علمی انسان تھے دوسروں کو ہنسنے ہنسانے کے ساتھ وہ اپنی ذات پر ہنسنا بھی جانتے تھے۔ انہوں نے ”بھائی بھلکڑ“ کے نام سے خود پر ایک نظم بھی لکھی۔ دنیاوی اور ادبی کاموں میں انہوں نے ایک توازن قائم کر رکھا تھا۔ ان کے آخری ایام کا ذکر کرتے ہوئے کیپٹن شایان حقی نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انہیں اپنی موت کا علم ہو اور وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد کو کبھی خالی بیٹھے نہیں دیکھا۔ وہ کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ ضرور پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت ادبی اور علمی مصروفیات کی نذر ہوتا تھا جس کے باعث وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک خوش قسمت انسان تھے جنہیں ان کی والدہ کی شکل میں ایک اچھی خاتون خانہ ملیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی والدہ نے خود اٹھا رکھی تاکہ والد پوری یکسوئی سے علمی و فنی کام سر انجام دے سکیں۔ ڈاکٹر جاوید شیخ نے کہا کہ شان الحق حقی 1917ء سے 2005ء تک کوئی 88 برس اس دنیا میں رہے۔ انہوں نے قدیم وضع کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کی۔ شان الحق حقی نے شہر دہلی کی معروف شخصیت حضرت ابوالحق محدث دہلوی کے گھرانے میں جنم لیا انہوں نے اردو زبان کے کئی کارآمد اور نازک پہلوؤں کی حفاظت کی ہے۔ تلفظ کے لئے فرہنگ تلفظ کے علاوہ اردو املا، لسانی اور صوتی مسائل کا بھی احاطہ کیا اور کئی گرانقدر مضامین لکھے۔ انہوں نے کہا کہ شان الحق حقی ایک فطری شاعر تھے کبھی وہ دلکش غزل سنا رہے ہوتے تھے تو کبھی کوئی خوبصورت نظم، نظم اور غزل کے علاوہ مزاح اور ظرافت کو بھی شاعری کا موضوع بنایا۔ وہ ہر بات میں کوئی نئی بات پیدا کرنے کا فن جانتے تھے۔انہوں نے کہا کہ حقی صاحب نے بھگوت گیتا کا ایسا لاجواب ترجمہ کیا جو بعض بڑے پنڈتوں کے ترجموں سے کہیں بہتر ہے۔ بچوں کے لئے ”پھول کھلے ہیں رنگ برنگے“ سمیت کئی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ انگریزی ادب سے شیکسپیئر کے مشہور ناول انتھونی اور قلوپطرہ کو اردو کا لباس پہنایا۔ کونسائز آکسفورڈ ڈکشنری کے آٹھویں ایڈیشن کا اردو ترجمہ کیا۔ تقریب کی کنوینر ہما رائس نے کہا کہ شان الحق حقی کی تحریروں میں بہت تنوع تھا۔ وہ زبان کی چاشنی اور محاوروں سے پڑھنے والوں کے لئے سماع باندھ دیتے تھے۔ ارتھ شاسترا کا اردو ترجمہ کرنے سے قبل انہوں نے باقاعدہ سنسکرت سیکھی۔ شیکسپیئر کے ناول انتھونی اور قلوپطرہ کا اردو میں ترجمہ کر کے خود کو وقت کا بڑا مترجم ثابت کیا تاہم ترجمے کے دوران انہوں نے انگریزی الفاظ کے ہم پلہ اور ہم معنی اردو کے الفاظ اتنی مہارت سے استعمال کئے کہ پڑھنے والا داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 


بشکریہ جنگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منتخب کلام:


تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے

ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے


دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب

درد بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے


کاش اے ابرِ بہاری ترے بہکے سے قدم

میری امیّد کے صحرا میں بھی گاہے جاتے


ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال

ہم بھی ہر لغزشِ مستی کو سراہے جاتے


ہے ترے فتنۂ رفتار کا شہرہ کیا کیا

گرچہ دیکھا نہ کسی نے سرِ راہے جاتے


ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق

کم نگاہی کے لئے عذر نہ چاہے جاتے


لذّتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے

ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے


دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ

اور کچھ دن غمِ ہستی سے نباہے جاتے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ اٹھی ساز بغاوت کی لرزہ خیز ترنگ

وہ ابھری قلب کشیری کی بیقرار امنگ

وہ گونج اٹھا فضاوں میں دیکھ نعرہ جنگ

پکارتا ہے مجھے ضرب تیغ کا آہنگ

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

مرا یقین مرا پیماں پکارتا ہے مجھے

مری وفا مرا پیماں پکارتا ہے مجھے

نقیبِ داورِ دوراں پکارتا ہے مجھے

بطونِ غیب سے انساں پکارتا ہے مجھے

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

فغان جنگ سے گونجی ہے وادی کشمیر

اٹھی ہے عالم مستی میں موج ساحل گیر

مری ہی مٹھی میں ہے آج دہر کی تقدیر

مرے لہو ہی سے ہوگی یہ داستاں تحریر

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

وہ دیکھ لشکر دشمن قریب آپہنچا

وہ دیکھ برق سے خرمن قریب آپہنچا

وہ شورِ ضربت آہن قریب آپہنچا

وہ دیکھ فتح کا دامن قریب آپہنچا

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا

وطن کی تازہ بہاروں میں دیکھنا مجھ کو

جہانِ نو کے نظاروں میں دیکھنا مجھ کو

فلک کے ٹوٹتے ستاروں میں دیکھنا مجھ کو

سخن کے فلک شراروں میں دیکھنا مجھ کو

میرے رفیق میرا انتظار مت کرنا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اے دل اب اور کوئی قصہء دنیا نہ سنا

چھیڑ دے ذکر وفا ہاں کوئی افسانہ سنا


غیبت دہر بہت گوش گنہ گار میں ہے

کچھ غم عشق کے اوصاف کریمانہ سنا


کار دیروز ابھی آنکھوں سے کہاں سمٹا ہے

خوں رلانے کے لیے قصہء فردا نہ سنا

دامن باد کو ہے دولت شبنم کافی

روح کو ذکر تنک بخشیء دریا نہ سنا

سنتے ہیں اس میں وہ جادہ ہے کہ دل چیز ہے کیا

سنتے ہیں اس پہ وہ عالم ہے کہ دیکھا نہ سنا


گوئی بے ہوش وہ کیا جس نے کہ ہنگام نوا

کوئی نالہ ہی لب نے سے نکلتا نہ سنا


ہم نشیں پردگئی راز اسے کہتے ہیں

لب ساغر سے کسی رند کا چرچا نہ سنا


کچھ عجب چال سے جاتا ہے زمانہ اب کے

حشر دیکھے ہیں مگر حشر کا غوغا نہ سنا


بڑھ گیا روز قیامت سے شب غم کا سکوت

جسم آدم میں کہیں دل ہی دھڑکتا نہ سنا


نوحہء غم کوئی اس بزم میں چھیڑے کینوکر

جس نے گیتوں کو بھی با خاطر بیگانہ سنا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رو بھی عکس رو بھی بھی میں

میں بھی ہوں تو بھی میں


خود سے بچ کر جاؤں کہاں

ہوں گویا ہر سو بھی میں


لے کر رخ پر اتنے کلنک

لگتا ہوں خوش رو بھی میں


شامل مے پیمانہ بھر

پیتا ہوں آنسو بھی میں


صدقے میں ان آنکھوں کے

سیکھ گیا جادو بھی میں


اس کی بزم ناز سے دور

اس کے ہم پہلو بھی میں


دید سے بے پروا ہو کر

شوق سے بے قابو بھی میں


بیر ہی رکھتا مجھ سے صنم

ہوتا گر ہندو بھی میں


واۓ طلسم نقش فرنگ

بھول گیا اردو بھی میں


قائل خود بھی ہوں حقیؔ 

شاغل الا ہو بھی میں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی

چراغ جلتے ہیں اور روشنی نہیں آتی


کسی کے ناز پہ افسردہ خاطری دل کی

ہنسی کی بات ہے پھر بھی ہنسی نہیں آتی


نو پوچھ ہئیت طرف و چمن کہ ایسی بھی

بہار باغ میں بہکی ہوئی نہیں آتی


ہجوم عیش تو ان تیرہ بستیوں میں کہاں

کہیں سے آہ کی آواز بھی نہیں آتی


جدائیوں سے شکایت تو ہو بھی جاتی ہے

رفاقتوں سے وفا میں کمی نہیں آتی


کچھ ایسا محو ہے اسباب رنج و عیش میں دل

کہ عیش و رنج کی پہچان ہی نہیں آتی


سزا یہ ہے کہ رہیں چشم لطف سے محروم

خطا یہ ہے کہ ہوس پیشگی نہیں آتی


خدا رکھے تری محفل کی رونقیں آباد

نظارگی سے نظر میں کمی نہیں آتی


بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست

قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نظر چرا گۓ اظہار مدعا سے مرے

تمام لفظ جو لگتے تھے آشنا سے مرے


رفیقو راہ کے خم صبح کچھ ہیں شام کچھ اور

ملے گی تم کو نہ منزل نقوش پا سے مرے


لگی ہے چشم زمانہ اگرچہ وہ دامن

بہت ہے دور ابھی دست نارسا سے مرے


یہیں کہیں وہ حقیقت نہ کیوں تلاش کروں

جسے گریز ہے اوہام ماورا سے مرے


کسی پہ منت بے جا نہیں کہ سچ یہ ہے

سنور گۓ دل و جاں شیوہء وفا سے مرے


گراں ہیں کان پہ ان کے وہی سخن جو ابھی

ادا ہوۓ بھی نہیں نطق بے نوا سے مرے


کھلا چمن نہ ہوا میں پھر اے نقیب بہار

ابھی تو زخم ہرے ہیں تری دعا سے مرے


نشاط و رنگ کے خوگر مجھے معاف کریں

چھلک پڑے جو لہو ساز خوش نوا سے مرے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ﻣﺤﺒﺖ ﺧﺎﺭ ﺩﺍﻣﻦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ

ﯾﮧ ﺍﻗﻠﯿﻢ ﻋﺰﯾﺰﺍﮞ ﺑﮯ ﺯﻟﯿﺨﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﺑﺴﺎﻁ ﺁﺭﺯﻭ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺻﺤﺮﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ

ﻭﮦ ﮨﻨﮕﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﻮ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻧﺸﺎﻥ ﺻﺒﺢ ﯾﻮﮞ ﮔﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻧﮑﻠﮯ ﻧﮧ ﺟﺐ ﻧﮑﻠﮯ

ﺍﺩﮬﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺷﺐ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺣﺴﺮﺕ

ﭘﻨﮩﺎﮞ

ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻗﻠﻢ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﺪﮮ ﮐﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﯾﻌﻨﯽ

ﮐﮩﯿﮟ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺻﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻓﻘﻂ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﺷﮑﻦ ﻻﮐﮭﻮﮞ

ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﮦ ﻣﺘﺎﻉ ﮐﺎﻓﺮﯼ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﻧﻤﻮﺩ ﺻﺒﺢ ﻭﻋﺪﮦ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﯽ

ﻭﮦ ﻓﺮﻗﺖ ﮐﯽ ﺷﺐ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ ﺁﺭﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﻟﺮﺯﺷﯿﮟ ﺳﺎﺯ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ

ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮐﻠﯽ ﺁﺷﻮﺏ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﺎﮎ ﺩﺍﻣﻦ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺭﺳﻮﺍ ﺭﮨﮯ ﺣﻘﯽؔ

ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﻦ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﺷﻨﺎﺳﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ خالد محمود

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...