جمعرات، 22 اکتوبر، 2020

مرزا ہادی رسوا Mirza Hadi Ruswa

 آج نامور شاعر اور ناول نگار مرزا محمد ہادی رسواؔ کا یوم وفات ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نام محمد ہادی، تخلص مرزا، فرضی نام رسوا تھا۔ لکھنو کے محلہ ’’بگٹولہ‘‘میں 1857ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے مورث اعلیٰ ماڑ ندران سے دلی آئے اور وہاں سے لکھنو آ کر مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 


آپ کے والد کا نام آغا محمد تقی تھا۔ والدین کا سایہ سولہ سال کی عمر میں ہی سر سے اٹھ گیا۔ رشتے کے ایک ماموں نے پرورش کی لیکن تمام خاندانی ترکے پر قابض ہوگئے۔ 


فارسی کی درسیات اور ریاضی و نجوم کی تحصیل اپنے والد سے کی۔ اس کے بعد عربی اور مذہبی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انگریزی پڑھنی شروع کی۔ انٹر کا امتحان پرائیوٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔ اس کے بعد رڑکی چلے گئے۔ وہاں سے اوورسیئری کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی سے منشی کامل کا امتحان بھی پاس کیا۔ 

بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے پرائیوٹ طور پر بی۔اے کیااور امریکہ کی اورینٹل یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 

ایک دن اتفاقاً کیمسٹری کا ایک عربی رسالہ ہاتھ آگیا۔ اس کے مطالعہ کے بعد علم کیمیا کا شوق اس حد تک دامن گیر ہوا کہ ملازمت سے مستعفی ہو کر لکھنوچلے آئے۔ یہاں نحاس مشن اسکول میں فارسی کے استاد مقررہوگئے۔ فاضل اوقات میں کیمیا سازی کے تجربے کرتے رہے۔ اسی زمانے میں ایک لوہار کے لڑکے کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ معاوضے میں اس کی بھٹی استعمال کرتے اور کیمیا سازی کے آلات تیار کرتے۔ 

’’اشراق‘‘نام کا ایک پرچہ بھی اسی زمانے میں نکالا۔ بعد میں لکھنوکے ’’ریڈ کرسچین کالج‘‘میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ یہاں کے پرنسپل بریڈے صاحب ان کے بڑے معتقد تھے۔ اس کالج میں وہ عربی، فارسی، تاریخ، فلسفہ سبھی کچھ پڑھاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی شام کے وقت ’’ازابیلا تھوبر من گرلز کالج‘‘میں تدریس کی خدمت انجام دیتے۔ 

کچھ دنوں بعد علم نجوم کا شوق اس طرح مسلط ہوگیا کہ دونوں کالجوں کی ملازمت چھوڑ کر اس علم کے پیچھے پڑ گئے اور ’’زیح مرزائی’’کے نام سے ستاروں کا ایک چارٹ تیار کر ڈالا۔ تین چار سال بعد بریڈے صاحب انھیں دوبارہ ریڈ کرسچین کالج میں لے آئے۔ 

1919 ء کے آس پاس عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ ہوئے اور وہاں پر بہت سی کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ آپ کو مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ عربی، عبرانی، یونانی، انگریزی، فارسی، ہندی، سنسکرت زبانوں پر اچھا خاصا عبور حاصل تھا۔ منطق و فلسفہ اور ریاضی میں مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مشرقی و دنیوی علوم پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔ 

آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن بحیثیت ناول نگار آپ کی شہرت نے آپ کے فضل و کمال کے دوسرے پہلوؤں کو دبا لیا۔ شاعری میں مرزا اوج سے اصلاح لیتے تھے ،جو مرزا دبیر کے شاگرد تھے۔ 

غالب کے خاص مداح تھے۔ بعد میں مومن کو پسند کرنے لگے تھے۔ حالی، نذیر، محمد حسین آزاد اور شبلی وغیرہ ان کے معاصرین میں تھے۔ مذہبی مناظروں کا بھی شوق رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک کتاب بھی لکھی ۔ 


یوں تو آپ نے کئی ایک ناول لکھے ہیں لیکن ’’امراؤ جان ادا’’آپ کا شاہکار ناول ہے۔ ﯾﮧ ﻧﺎﻭﻝ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮﮦ ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ ﮨﮯ۔

 ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻓﻠﻢ ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ﺍﺩﺍ ‏( 1972 ﺀ ‏) ، ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻠﻤﻮﮞ، ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ‏( 1981 ﺀ ‏) ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﺍﺅ ﺟﺎﻥ ‏( 2006 ﺀ ‏) ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺑﻨﺎ۔ 2003 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻧﺸﺮ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺳﯿﺮﯾﻞ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﯾﮩﯽ ﻧﺎﻭﻝ ﺗﮭﺎ۔


چہار شنبہ 21 اکتوبر 1931ء کو حیدرآباد میں انتقال فرمایا اور قبرستان باغ راجہ مرلی دھر تڑپ بازار، حیدرآباد میں دفن ہوئے۔


آپ کے مزاج میں استغنا، لاابالی پن اور لاپرواہی حد سے زیادہ تھی۔ اس لیے آپ کا شعری سرمایہ پوری طرح یکجا نہ ہوسکا اور جو یکجا ہوا ، محفوظ نہ رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی تصانیف بھی دستبرد زمانہ کا شکار ہوگئیں۔ 

۔……

مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے مگر جب کبھی اصرار ہوتا تھا تو ضرور جاتے تھے۔غزل گوئی میں اپنا زیادہ وقت صرف نہیں کرتے تھے۔مشاعرہ کے دو ایک گھنٹے پیشتر غزل کہنا شروع کرتے تھے۔مقررہ وقت تک کافی تعداد اشعار کی ہو جاتی تھی۔


ایک مشاعرہ  میر تقی میرؔکی فاتحہ صد سالہ کے نام سے ہوا تھا جس میں مرزاؔ صاحب نے میرؔ کی شاعری پر ایک پر مغز تقریر کی تھی اور ذیل کی غزل طرح میں پڑھی تھی جس کے اکثر شعر لکھنؤ میں زبان زد عام ہو گےٗ۔ اس طرح میں میرؔ و غالبؔ کی معرکہ آرا غزلیں ہیں۔


حسن شاہد ہے مری رنگینیٗ تحریر کا

ایک اداےٗ شوخ ہے جو رنگ ہے تصویر کا


فطرت انسان کی کمزوری دکھاتے ہیں ؎


ضعف میں شکوہ عبث ہے گردشِ تقدیر کا

بن پڑا وہ ہم سے کب جو کام تھا تقدیر کا


شعر کا انداز دیکھیےٗ؎


دیکھ میرا حال،اگر تو جھوٹ سمجھے عشق کو

سن میری فریاد،اگر قائل نہ ہو تاثیر کا


شعر نہیں عبرت کا دفتر ہے؎


یاد کر لینا کہ اکثر بستیاں ویراں ہوئیں

اس خرابے میں خیال آےٗ اگر تعمیر کا


شعر کی گہرائی دیکھیےٗ؎


تھم گےٗ آنسو نمائش جب ہوئی مدنظر

رک گیا نالہ جو اندیشہ کیا تاثیر کا


زبان اور انداز بیان دیکھیےٗ۔اس رنگ کے شعر مرزاؔ کی خاص پسند کے تھے۔مشاعروں میں انھوں نے ایک خاص انداز سے اس کو پڑھا ہے۔


الحذر کام دنیا میں تمھیں سے ہو سکا

چاہنے والے پہ اپنے کھینچنا شمشیر کا


عاشقانہ شعر ہے مگر وہی ندرت بیان اور خوبی زبان کا پہلو لیے ہوےٗ۔


طبع نازک پر گراں ہے کیوں مرا سر پھوڑنا

ہم نہ کہتے تھے نہ چھیڑو تذکرہ تقدیر کا


یہ شعر بیت الغزل ہے اس کا زور دیکھیے۔


وضع کے پابند ہم دیوانگی جدت پسند

پھر گلایا جاےٗ لوہا قیس کی زنجیر کا


غرض مشاعرہ ملحوظ رکھتے ہوےٗ مقطع کہا ہے۔


اس غزل گوئی میں وہ تاثیر ہے مرزاؔ آج

سو برس کے بعد عالم نوحہ خواں ہے میرؔ کا


مرزا کی شاعری کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے جذبات و خیالات نظم کرتے تھے جو ایک فطری شاعر میں ہونا چاہیےٗ۔غالبؔ کی زمینوں میں انھوں نے خوب خوب گل کھلاےٗ ہیں،افسوس کہ وہ سب کلام دستیاب نہیں ہو سکا مگر جس قدر ملا ہے وہ ملاحظہ ہو۔


جسے ہو حسن ظن تم سے کسی سے بدگماں کیوں ہو

تمھارے عہد میں بدنام دورِ آسماں کیوں ہو


کسی پر جان جاتی ہے تو ضبط شوق مشکل ہے

نہ ہو قابو اگر دل پر تو کہنے میں زباں کیوں ہو


اس شعر میں جو ٹکڑے ہیں یہ مرزاؔ صاحب کی خاص پسند کے تھے۔


جو دل مطلوب ہے اچھا۔یہ تمھید وفا کیسی

ستم مقصود ہے بہتر،فریب امتحاں کیوں ہو


مری بیتابیوں کا حال غیروں سے نہ کہنا تھا

تم ایسے ہو تو پھر کوئی کسی کا رازداں کیوں ہو


دل آزاری کو جس کی دلربائی ہم سمجھتے ہوں

توقع اس سے کیسی،پھر وہ ہم پر مہرباں کیوں ہو


یہ دونوں شعر دیکھیے۔


حقیقت میں مخاطب ہو تمھیں شکوہ شکایت کے

تمھیں جس کے ہو وہ شکوہ سنج آسماں کیوں ہو


فرشتو! جب کسی سے ہو وقوع سعئ لاحاصل

مرے اعمال میں لکھدو وہ محنت رائیگاں کیوں ہو


کہیں گے حالِ دل مرزاؔ کبھی رمز و کنایت میں

ملالِ خاطرِ احباب اندازِ بیاں کیوں ہو


مرزاؔ غالبؔ کی مشہور غزل پر مرزاؔ کی طبع آزمائی دیکھیے۔

۔

راحتیں طول مرض کی صرف درماں ہو گئیں

زندگی جن مشکلوں سے تھی وہ آساں ہو گئیں


صورتیں امید کی خوابِ پریشاں ہو گئیں

سامنے آنکھوں کے آئیں اور پنہاں ہو گئیں


اُن سے کیا لطف تعلق اُن سے کیا دل بستگی

غیر کے ماتم میں جو زلفیں پریشاں ہو گئیں


ناخن وحشت نے سینے پر جو کیں گلکاریاں

فصل گل میں زینتِ چاکِ گریباں ہو گئیں


سیکڑوں رخنے کیے پیدا در و دیوار میں

شوق کی نظریں رقیب چشم درباں ہو گئیں


بے مرمت سی جو قبریں کوچہٗ وحشت میں تھیں

وہ بھی آخر صرف استحکام زنداں ہو گئیں


کُھل گےٗ چینِ جبیں سے ان کی بدخوابی کے بھید

جن اداؤں کو چھپاتے تھے نمایاں ہو گئیں


دل میں اب کیا رہ گیا ہے، ناامیدی کے سوا

آرزوئیں خون ہو کر نذرِ مژگاں ہو گئیں


مقطع ملاحظہ ہو؎


چند باتیں وہ جو ہم رندوں میں تھیں ضرب المثل

اب سُنا مرزاؔ کہ وردِ اہلِ عرفاں ہو گئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نگاہِ مہر ہے عالم کے اجزاےٗ پریشاں پر

ہر اک ذرے کا حق ثابت ہے خورشید درخشاں پر


فنا کے بعد بھی چھوٹا نہ میں قید تعلق سے

مری تصویر کھنچوائی گئی دیوارِ زنداں پر


بہل ہی جاےٗ گا دل شہر کی گلیوں میں اے ناصح

نہیں آوارگی موقوف کچھ سیرِ بیاباں پر


کبھی تو اس طرف بھی کوئی بھولے سے نکل آےٗ

کہاں تک بیکسی رویا کرے گورِ غریباں پر


دکھاتے جوشِ وحشت کے مزے تجھ کو بھی اے ناصح

مگر کیا کیجیےٗ قابو نہیں بندِ گریباں پر


مجھے ذوقِ جنوں نے دے کے رخصت ذوقِ خواری کی

کیے ہیں بار ہا احسان اطفالِ دبستاں پر


سمجھتے کافرانِ عشق کی دشواریاں یہ بھی

اگر طاعت بتوں کی فرض ہوتی اہلِ ایماں پر


کہیں ہم اب کچھ ایسے شعر مرزاؔ جس میں جدت ہو

کہاں تک حاشیے لکھا کریں غالبؔ کے دیواں پر


۔۔۔


چھوٹی بحروں میں مرزاؔ کی روانی طبیعت کا اندازہ کیجیے۔


ابر جب جھوم جھوم کر آےٗ

دل جو اُمڈے ہوےٗ تھے بھر آےٗ


دل میں طوفاں اٹھاتے تھے نالے

لب تک آےٗ تو بے اثر آےٗ


ذیل کے شعر میں کوٹھے کا استعمال اور مصرع کی بلندی دیکھیے۔


کہیےٗ کیا آسمان سے ٹھری

آپ کوٹھے سے کیوں اُتر آےٗ


چند شعر ایک طرح میں اور سنےٗ؎


مرتے مرتے نہ قضا یاد آئی 

اسی کافر کی ادا یاد آئی


تم جدائی میں بہت یاد آےٗ

موت تم سے بھی سوا یاد آئی


لذت معصیتِ عشق نہ پوچھ

خلد میں بھی یہ بلا یاد آئی


چارہ گر زہر منگا دے تھوڑا

لے مجھے اپنی دوا یاد آئی


ردیف وہی، قافیہ و بحر مختلف؎


روشِ وحش و طیر یاد آئی

دشت وحشت کی سیر یاد آئی


ذاہدو آج ہم کو پھر وہ شے

جس سے ہے تم کو بیر یاد آئی


دیکھ کر مشہدِ ادا اُن کو

لالہ و گل کی سیر یاد آئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب چند منتخب غزلیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لڑ کے جاتے ہو تو ایک تیغ لگاتے جاؤ

ہاتھ اٹھاتے ہو تو یوں ہاتھ اُٹھاتے جاؤ


حالِ دل سچ بھی کہوں میں تو مجھے جھٹلا دو

بھید کھلتے ہوں تو کچھ بات بناتے جاؤ


وعدہٗ شام کرو، صبح کو جاتے ہو اگر

کوئی بے وقت جو سوےٗ تو جگاتے جاؤ


کہیں بدنام نہ ہو جاؤ پشیماں کیوں ہو

ہاتھ ملتے ہو تو مہندی بھی لگاتے جاؤ


یوں چلو راہ وفا میں کہ نہ پاےٗ کوئی

جو نشاں راہ میں ہیں ان کو مٹاتے جاؤ


میرؔ کا نام تو روشن ہے مگر اے مرزاؔ

ایک چراغ اور سرِ راہ جلاتے جاؤ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چارہ گر مشورہٗ ترکِ وفا دیتے ہیں

زہر دیتے ہیں یہ ظالم کہ دوا دیتے ہیں


مجھ کو یہ خوف کہ تم بھی کہیں اُن میں سے نہ ہو

چاہنے والے کو جو لوگ دغا دیتے ہیں


کان تک اُس کے نہ پہنچے تو نہ پہنچے فریاد

سننے والوں کا کلیجا تو پکا دیتے ہیں


الحذر شیخ بُرے ہوتے ہیں پینے والے

اچھے اچھوں کو یہ دھوکے سے پلا دیتے ہیں


تنگئی عیش میں ممکن نہیں ترکِ لذت

سوکھے ٹکڑے بھی تو فاقوں میں مزا دیتے ہیں


یادِ ایام جوانی ہے بہت درد انگیز

وہی اچھے جو افسانے بُھلا دیتے ہیں


جب غزل کوئی نئی کہتے ہیں مرزاؔ صاحب

کسی حیلے سے انھیں جا کے سنا دیتے ہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بُرے یا بھلے لہو رونے والے

یہی لوگ ہیں سرخرو ہونے والے


تہِ چرخ برپا ہوےٗ حشر کیا کیا

مزاروں میں سویا کیے سونے والے


زہے خوش نصیبی شہیدانِ غم کی

مزاروں سے ہنستے اٹھے رونے والے


شب وعدہ چیخیں گے ہم بھی سحر تک

ذرا سُن رکھ او شام سے سونے والے


کہاں تک تو برسے گا اے ابر کُھل جا

ابھی دیر تک روئیں گے رونے والے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ﻧﺎﻟﮧ ﺭﮐﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﺮ ﮔﺮﻡ ﺟﻔﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ

ﺩﺭﺩ ﺗﮭﻤﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﭘﮭﺮ ﻧﻈﺮ ﺟﮭﯿﻨﭙﺘﯽ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﺟﮭﮑﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﺮ ﺧﻄﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺮﺕ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ

ﺩﻡ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﺑﺨﺖ ﻣﺰﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﺣﺎﻝ ﺩﻝ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﭼﻮﮎ ﮔﺌﮯ

ﺍﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﺁﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺍﺛﺮ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺷﺮﺭ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﻮﮞ

ﻭﺭﻧﮧ ﺷﻌﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻟﮧ ﻭ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺁ ﺭﺳﻮﺍؔ

ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ


بشکریہ خالد محمود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...