اتوار، 6 ستمبر، 2020

راتوں کو جاگ کر دن میں سونے والی قوم کا انجام

راتوں کو جاگ کر دن میں سونے والی قوم کا انجام  

 (فکر انگیز تحریر)

بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کر کے اس کے سامنے کیوں پیش کیے گئے؟ 

قبر کے لیے زمین کی جگہ کیوں نہیں ملی؟

 آج بھی اس کی نسل کے بچے کھچے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ 

 کیوں؟

پڑھیں اور اپنی نسل کو بھی بتائیں۔

تباہی 1 دن میں نہیں آجاتی:

صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والے افراد درج ذیل تحریر کو غور سے پڑھیں۔

زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے اور مقام دلی ہے۔

 وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے۔ سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے۔

پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری، دونوں ڈرل کے لیے جاگ گئے ہیں.

دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت، انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں۔

انگریز عورتیں گھوڑسواری کو نکل گئی ہیں۔ سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کا سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے۔

 کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے۔

 بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے۔

دن کے ایک بجے سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کے لیے گھر کی طرف چل پڑا ہے۔

یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں  ''صبح''  کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔

ظل الٰہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا، جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔ اب کنیزیں نقرئی برتن میں ظلِ الٰہی کا منہ ہاتھ دھلا رہی ہیں اور تولیہ بردار ماہ جبینیں چہرہ، پاؤں اور شاہی ناک صاف کر رہی ہیں اور حکیم چمن لال شاہی پائے مبارک کے تلووں پر روغنِ زیتون مل رہا ہے۔،، 

اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔

دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیربازی،  مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا۔ ،،

اب ایک سو سال یا ڈیڑھ سو سال پیچھے چلتے ہیں۔

برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں۔ برسات کا موسم ہے مچھر ہیں اور پانی ہے۔ ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد''  سے واپس نہیں جاتا۔

لارڈ کلائیو پہروں گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے۔

اب 2018ء میں آتے ہیں۔

پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں۔آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔

بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے۔ پورے یورپ، امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور  سنگاپور میں کوئی دفتر،  کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں، جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں۔

آج کل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکا ہے۔ پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے۔

اللہ کی سنت کسی کے لیے نہیں بدلتی۔ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں، نہ اس نے کسی کو جنا،  نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کرے گا، وہ کامیاب ہوگا۔ عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائے گا تو دوسری جانب دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، ناکام رہے گا۔

بدر میں فرشتے نصرت کے لیے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر پالیسی بناتے رہے اور رات کے باقی بچے ہوئے حصہ میں سجدے میں پڑے رب ذوالجلال سے امداد و استعانت طلب کرتے رہے۔

مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں  یا  صوبوں کے دفاتر  یا نیم سرکاری ادارے یا نجی ادارے ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے۔  کتنے وزیر،  کتنے سیکرٹری،  کتنے انجینیر،  کتنے ڈاکٹر،  کتنے پولیس افسر،  کتنےڈی سی اور  کتنے کلرک آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟ 

کیا اس قوم کی بکھری باقیات کو بر صغیر میں پھر سے تباہ وبرباد ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت بچا سکتی ہے۔ جس میں کسی کو اس لیے مسند پر  بٹھایا جاسکتا ہے کہ وہ دوپہر سے پہلے اٹھتا ہی نہیں اور کوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے دل بہلاتا ہے جب کہ کچھ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دوپہر کے تین بجے اٹھتے ہیں۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم!

 کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے؟ جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا۔ کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہو گی اور یہ مت سوچا کریں کہ میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہوں گے، میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا؟ 

گاہک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اے اللہ میری امت کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما۔ آج ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ موبائل کے نشہ میں مبتلا ہے۔ کوئی گیم کا دیوانہ ہے تو کوئی سریل کا، کوئی اسپورٹس کا تو کوئی سوشل میڈیا کا۔ سب محنت اور جفاکشی عبادت الہی اور اطاعتِ رسول مخلوقِ خدا کی خدمت کو چھوڑ کر لایعنی میں منہمک اور مست ہے۔ کیا سوتے رہنے اورغفلت اور سستی میں پڑ کر بھی کسی قوم کو عروج ملا ہے؟ ہرگز نہیں! یہ سنت اللہ اصولوں کے خلاف ہے۔ میں امت مسلمہ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ خدارا اپنی نسل کی صحیح تربیت کریں ورنہ حالات مزید پستی اور بربادی کی جانب ڈھکیل دیں گے۔ اللہ خیر مقدر فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 

امت کی بقاء اور ترقی کی خاطر اس پبلک ویلفئر میسج کو اپنے حلقۂ احباب میں ضرور شیئر کریں۔ جزاک اللہ خیر

تاریخ کا سبق

یہ مسیج سوشل میڈیا پر موصول ہوا ہے۔ ساجھا کرنے کی وجہ اس میں خود لکھی ہوئی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...