اتوار، 6 ستمبر، 2020

غبار خاطر میں چائے کا ذکر

 مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
"چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔ جن جن ملکوں میں چین سےبراہ راست گئی مثلاً روس، ترکستان، ایران۔ وہاں کبھی بھی کسی کو یہ خیال نہیں گزرا۔ مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی، انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہی کے ذریعے ہوا اس لیے یہ بدعتِ سیئہ یہاں بھی پھیل گئی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔ بنیاد ظلم در جہاں اندک بود۔ ہر کہ آمد براں مزید کرد۔ اب انگریز تو یہ کہہ کر الگ ہو گئے کہ زیادہ دودھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن ان کے تخمِ فساد نے جو برگ و بار پھیلا دیے ہیں، انہیں کون چھانٹ سکتا ہے؟ لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں۔ کھانے کی جگہ پیتے ہیں، اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے کہ:
ہائے کمبخت، تو نے پی ہی نہیں
دراصل یہ عالمگیر غلطی اس طرح ہوئی کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جب چائے کی مانگ ہر طرف بڑھ رہی تھی ہندوستان کے بعض انگریز کاشتکاروں کو خیال ہوا کہ سیلون اور ہندوستان کے بلند اور مرطوب مقامات میں چائے کی کاشت کا تجربہ کریں۔ انہوں نے چین سے چائے کے پودے منگوائے اور یہاں کاشت شروع کی۔ یہاں کی مٹی نے چائے پیدا کرنے سے تو انکار کر دیا مگر تقریباً اسی شکل و صورت کی ایک دوسری چیز پیدا کر دی۔ ان زیاں کاروں نے اسی کا نام چائے رکھ دیا، اور اس غرض سے کہ اصلی چائے سے ممتاز رہے، اسے کالی چائے کے نام سے پکارنے لگے۔
معاملہ کا سب سے زیادہ درد انگیز پہلو یہ ہے کہ خود چین کے بعض ساحلی باشندے بھی اس عالمگیر فریب کی لپیٹ میں آ گئے اور اسی پتی کو چائے سمجھ کر پینے لگے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ بدخشانیوں نے لال پتھر کو لعل سمجھا، اور کشمیریوں نے رنگی ہوئی گھانس کو زعفران سمجھ کر اپنی دستاریں رنگنی شروع کر دیں۔
نوعِ انسانی کی اکثریت کے فیصلوں کا ہمیشہ ایسا ہی حال رہا ہے۔ جمعیت بشری کی یہ فطرت ہے کہ ہمیشہ عقلمند آدمی اکا دکا ہوگا۔ بھِیڑ بے وقوفوں ہی کی رہے گی۔ ماننے پر آئیں گے تو گائے کو خدا مان لیں گے۔ انکار پر آئیں گے تو مسیح کو سُولی پر چڑھا دیں گے۔
انہوں نے چین سے چائے پینا تو سیکھ لیا مگر اور کچھ سیکھ نہ سکے۔ اول تو ہندوستان اور سیلون کی سیاہ پتی ان کے ذوق چائے نوشی کا منتہاءِ کمال ہوا۔ پھر قیامت یہ ہے کہ اس میں بھی ٹھنڈا دودھ ڈال کر اسے یک قلم گندہ کر دیں گے۔ مزید ستم ظریقی دیکھیے کہ اس گندے مشروب کی معیار سنجیوں کے لیے ماہرینِ فن کی ایک پوری فوج موجود رہتی ہے۔ کوئی اِن زیاں کاروں سے پوچھے کہ اگر چائے نوشی سے مقصود انہی پتیوں کو گرم پانی میں ڈال کر پی لینا ہے تو اس کے لیے ماہرینِ فن کی دقیقہ سنجیوں کی کیا ضرورت ہے؟ جو پتی بھی پانی کو سیاہی مائل کر دے، اور ایک تیز بو پیدا ہو جائے، چائے ہے، اور اس میں ٹھنڈے دودھ کا ایک چمچہ ڈال کر کافی مقدار میں گندگی پیدا کر دی جا سکتی ہے۔ چائے کا ایک ماہرِ فن بھی اس سے زیادہ کیا خاک بتلائے گا؟
ایک مدت سے جس چینی چائے کا عادی ہوں، وہ وہائٹ جیسمین  کہلاتی ہے۔ یعنی "یاسمین سفید" یا ٹھیٹ اردو میں یوں کہیے کہ "گوری چنبیلی۔ اس کی خوشبو جس قدر لطیف ہے، اُتنا ہی کیف تُند و تیز ہے۔ رنگت کی نسبت کیا کہوں؟ لوگوں نے آتش سیال کی تعبیر سے کام لیا ہے۔ لیکن آگ کا تخیل پھر ارضی ہے اور اس چائے کی علویت کچھ اور چاہتی ہے۔ میں سورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یوں سمجھیے، جیسے کسی نے سورج کی کرنیں حل کر کے بلوریں فنجان میں گھول دی ہیں۔
یہاں ہمارے زندانیوں کے قافلہ میں اس جنس کا شناسا کوئی نہیں ہے۔ اکثر حضرت دودھ اور دہی کے شائق ہیں اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دودھ اور دہی کی دنیا چائے کی دنیا سے کتنی دُور واقع ہوئی ہے؟ عمریں گُزر جائیں پھر بھی یہ مُسافت طے نہیں ہو سکتی کہاں چائے کے ذوقِ لطیف کا شہرستانِ کیف و سرور، اور کہاں دودھ اور دہی کی شکم پُری کی نگری!
ان حضرات میں صرف ایک صاحب ایسے نکلے جنہوں نے ایک مرتبہ میرے ساتھ سفر کرتے ہوئے یہ چائے پی تھی اور محسوس کیا تھا، کہ اگرچہ بغیر دودھ کی ہے مگر اچھی ہے۔ یعنی بہتر چیز تو دہی دودھ والا گرم شربت ہوا جو وہ روز پیا کرتے تھے مگر یہ بھی چنداں بری نہیں۔ زمانے کی عالمگیر خیرہ مذاقی دیکھتے ہوئے یہ ان کی صرف "اچھی ہے" کی داد بھی مجھے اتنی غنیمت معلوم ہوئی کہ کبھی کبھی اُنہیں بُلا لیا کرتا تھا کہ آئیے، ایک پیالی اس "اچھی ہے" کی بھی پی لیجیے۔"
(یہ غبار خاطر میں چائے سے متعلق مولانا کے مکتوب کی تلخیص ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...