بدھ، 27 مئی، 2020

اقبال، مغربی فلسفہ اور مادی جدلیات۔ دوم

اقبال ، مغربی فلسفہ اور مادی جدلیات۔ دوسرا حصہ

عمران شاہد بھنڈر

مارکسی یا لیننی فکر میں فطرت ٹھوس مادے پر مشتمل ہے جس کا کردار جدلیاتی ہے۔ اس جدلیات کی رو سے ’ہے‘ اور ’ہونے‘ کا عمل باطنی طور پر مربوط ہے۔ مادی جدلیات کو لینن نے ہیگل کی ’منطق کی سائنس‘ کے مطالعے کے دوران مادی نقطہ نظر سے واضح کیا، جب کہ فلسفہ مادیت کا انتہائی مضبوط بنیادوں پر تجزیہ انھوں نے اپنی کتاب ’مادیت اور تجربی انتقاد‘ میں پیش کیا۔ لینن کی یہ کتاب اینگلزکی ’اینٹی ڈیوہرنگ‘ میں پیش کی گئی مادی جدلیات کو 1905 کے روسی انقلاب کی روشنی میں آگے بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ لینن کی یہ کتاب مادیت کی برتری کو اس عہد کی فطری سائنس کی روشنی میں ثابت کرتی ہے۔ مادیت کے اسی تصور کے تحت ہی لینن 1917 کے انقلاب کو کامیابی سے برپا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس طرح لینن کے افکار کو کسی صوفی کے ذہن میں تلاش کرنے کی بجائے زندہ تاریخ کے اوراق میں تلاش کرنا ضروری ہے ۔ لینن کی کتاب’’مادیت اور تجربی انتقاد‘‘ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مادی دنیا انسان کی حسیات یا شعور سے الگ خارج میں موجود ہے، جوحسیات پر اثر انداز ہو کر مختلف ’صورتوں ‘اور’ تمثال‘ وغیرہ کو پیدا کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حِس پرمعروضی سچائی کے اثرات کے علاوہ کوئی اور سچائی موجود نہیں ہے جو حس سے الگ مخفی طور پر موجود ہو۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ وہ’ تمثال‘ یا ’تصاویر‘ جو حس پر خارجی دنیا کے ارتسام کا نتیجہ ہیں، ان کے علاوہ کوئی اور حقیقت موجود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو یہ عمل بالکل میکانکی ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے لیے مادی جدلیات کی تنقید نہیں بلکہ سولہویں صدی کے اس عقلی فلسفے کی تنقید لازم آتی ہے، جس کا بانی فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ ہے۔
میکانکی مادیت کے اس خیال کو کہ خیال اور مادہ دو جداگانہ حقائق ہیں، جدلیاتی مادیت مسترد کرتی ہے۔ اس خیال کو جدلیاتی مفکرین میں کارل مارکس نے انتہائی جامع اور واضح طور پر پیش کیا ہے۔ فیورباخ پر لکھے گئے پہلے تھیسس میں کہتے ہیں کہ ’’فیورباخ سمیت ماضی کے تمام فلسفے کا بنیادی نقص یہ ہے کہ شے، حقیقت اور حسیت کو یا تو معروض کی ہیئت کے طور پر اور یا تفکری انداز میں سمجھا جاتا ہے‘‘۔ اگر شعوری سرگرمی کو معروض کی ہیئت تک محدود کر لیا جائے تو شعور کا کردار فاعلانہ نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر معروض کے اوصاف سے قطع نظر کر لی جائے تو عمل اپنے ہی بھنور میں الجھا رہتا ہے۔ دوسرے تھیسس میں مارکس گزشتہ فلسفے کے تسلیم کیے گئے التباس اور جسے تسلیم نہیں کیا گیا اس التباس کو ذہن میں رکھتے ہوئے تھیوری کو عمل سے جوڑ دیتے ہیں۔
مارکس کے خیال میں اگر’’ حسی معروض کو سوچ سے الگ کر لیا جائے تو انسانی سرگرمی کو معروضی سرگرمی کے طور پر نہ سمجھا جائے‘‘ تو ’انقلابی‘ سرگرمی اور تنقیدی عملی سرگرمی پر گرفت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مارکس کے یہی خیالات اس کے انقلابی فلسفے کی بنیاد ہیں، جو جدلیاتی مادیت میں انسانی سرگرمی کے کردار کو واضح کرتے ہیں۔
ہمارا نقطہ یہ ہے کہ معروضی عمل کے حس پر ہونیوالے اثرات کی حیثیت بنیادی اور قطعی ضرور ہے مگر مارکس کے تصور کی توثیق میں لینن کہتے ہیں کہ وہاں پر خیال پرستوں کے سچائیوں کو گھڑنے کے عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو معروضیت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ذہن ’اعلیٰ‘ قسم کی سچائیوں کو منظرِ عام پر لے کر آتا ہے، جن کی حیثیت یکتا ہوتی ہے۔ شعور کے خود مختار ہونے کو بھی مارکسی اور لیننی فکر قبول نہیں کرتی، کیونکہ شعور خود خارجی دنیا سے ارتباط یعنی سماجی، سیاسی اور معاشی تغیر وغیرہ سے متشکل ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی طرح کا شعور جو اپنے مکمل ہونے کا دعوی کرتا ہے، سماجی عمل سے ارتباط میں آ کر اپنے مستقل سچائی کے دعوئوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور سماج کے لیے انتہائی مضر ثابت ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
جہاں تک ’شے بالذات‘ کا تعلق ہے تو اس کے بارے اینگلز اور ان کے بعد لینن نے ثابت کیا کہ جاننے کے عمل میں شے با لذات ’شے ہمارے لیے‘ میں کیسے تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاہم یہاں پر اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے حواس و ادراکات کا مادی دنیا سے کیا تعلق ہے؟ معروضی سچ پر یقین رکھنے والے مادیت پسندوں کو اپنے ادراک و محسوسات کے بارے میں یہ یقین ہے کہ یہ مادی دنیا کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ لینن فلسفہ مادیت کے بارے میں ارنیسٹ ماخ اور رچرڈ ایوینیریس کو جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ مادہ ہمارے اعضاء پر عمل آراء ہونے کے دوران حسیات کو جنم دیتا ہے۔
ان حسیات کا انحصار مغز، اعصاب اور آنکھوں کی پتلیوں وغیرہ پر ہے۔ مختصر یہ کہ مادہ بنیاد ہے، جب کہ احساس، خیال اور شعور مادے کی اعلیٰ ترین پیداوار ہیں۔‘‘ ویسے بھی مادی مفکر ہونے کی وجہ سے لینن کے لیے فکری حوالوں سے یہ کبھی بھی کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں رہا کہ نظریات متغیر کیوں ہیں؟ کیونکہ وہ مادے کے تغیر کی بنا پر نظریات و افکار کے تغیر کی وجوہ کی تفہیم رکھتے تھے۔ جہاں تک جدلیات کا سوال ہے تو تغیر کے بغیر اس کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے۔ لینن نے اس کا بھر پور اظہار اپنی مذکورہ بالا کتاب میں کیا ہے۔اقبال کا یہ شعر ’شے بالذات‘ کی سچائی کا دعوی کرتا ہے   ؎
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
یہاں پر یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اقبال کے نزدیک ’شے بالذات‘ ایک ایسی سچائی ہے جس کا انکشاف لینن پر تو ان کی وفات کے بعد یعنی ’روز محشر‘ کو ہی ہونا چاہیے، مگر اقبال روز محشر سے پہلے ہی اس سے آگاہ دکھائی دیتے ہیں۔ اور وہ کیا کرنے والی ہے اس کا بھی علم رکھتے ہیں۔ مذہب کے حوالے سے یہ تسلیم کرنے میں شاید کوئی حرج نہ ہو، لیکن اسے فلسفیانہ قضایا کے طور پر پیش کیا جائے تو اس کے لیے دلیل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، جو ذاتی واردات کے برعکس ٹھوس اور منطقی طریقہ کار کی متقاضی ہوتی ہے۔
مارکسی فکر بالخصوص ’’ کمیو نسٹ مینی فیسٹو ‘‘ کے ساتھ اقبال کی اس نظم کا رشتہ جوڑنے کی دو وجوہ ہیں۔ موجودہ عالمی بحران جس کی پیشین گوئی مارکس اور اینگلز نے مینی فیسٹو میں کی تھی اس کی سچائی کو آج بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح یہ نظم ’’ مینی فیسٹو‘‘ کے مصنفین کے نظریات کی حقانیت کو ثابت کرتی ہے کیونکہ جو سوالات یا اعتراضات اقبال نے لینن کی زبان سے نکلوائے ہیں اُنھیں لینن سے قبل کی مارکسی فکر میں بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کے بیشتر اشعار کو ’’کمیو نسٹ مینی فیسٹو ‘‘ کے اقتباسات کے ساتھ ملا کر پیش کرنے کی وجہ مفکرین کی فکری یکسانیت یا یوں کہیں کہ اقبال کے تخلیقی عمل میں ’مینی فیسٹو‘ کے کردار کو بھی عیاں کرنا ہے۔’ مینی فیسٹو ‘کے مصنفین مغربی بورژوا طبقے کی مطلق العنانیت اور دیگر اقوام کے غریبوں کی دہشت زدہ حالت کو یوں بیان کرتے ہیں ،
’’بورژوا طبقے نے اپنے بمشکل ایک سو برس کے دور ِ حکومت میں اتنی بڑی اور دیو پیکر پیداواری قوتیں تخلیق کر لی ہیں کہ پچھلی تمام نسلیں مل کر بھی نہ کر سکی تھیں۔۔۔۔اس نے غیر مہذب اور نیم مہذب ملکوں کو مہذب ملکوں کا ،کسانوں کی قوموں کو بورژوا قوموں کا، مشرق کو مغرب کا محتاج بنا دیا‘‘
اقبال کا یہ شعر ملاحظہ کریں،
مشرق کے خداوند سفیرانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فی الذات
’مینی فیسٹو ‘کے مصنفین کو بورژوا کے اپنی ترقی و بقاء کے حوالے سے اقدامات مظلوموں کے استحصال کا نتیجہ دکھائی دیتے تھے، تاہم اُنھیں اس استحصال سے اُمید کی کرن بھی دکھائی دیتی تھی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ذرایع پیداوار مرکزی حیثیت اختیار کر لیں گے اور ملکیت کا ارتکاز بڑھتا چلا جائے گا۔ پیداواری قوتوں کی ترقی سے جو ذرایع تخلیق کیے جائیں گے وہ بلا آخر انھی کے خلاف استعمال ہونگے، تاہم بورژوا کی ترقی کے بارے میں مینی فیسٹو میں کسی طرح کا شبہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ مصنفین لکھتے ہیں ’’قدرت کی طاقتوں پر انسان کی کارفرمائی ، مشینیں، صنعتی ذرایع میں کیمیا کا استعمال ۔۔۔۔آج سے پہلے کسی زمانے کے لوگوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی‘‘ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...