بدھ، 27 مئی، 2020

اقبال، مغربی فلسفہ اور مادی جدلیات۔ اول


اقبال، مغربی فلسفہ اور مادی جدلیات
عمران شاہد بھنڈر
پہلا حصہ

اقبال کی نظم’لینن خدا کے حضور میں‘ کا شمار ان نظموں میں ہوتا ہے جن میں اقبال کے عقائد و نظریات کے علاوہ ان کے تصورِعقلیت،تاریخی مادیت اور سماجی و سیاسی تضادات کی تحلیل کے لیے ان کے وضع کردہ طریقۂ کار کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اقبال کی یہ نظم ادبی حوالوں سے معروضی اور موضوعی فکر کو تضادات سے پُراور پیچیدہ جب کہ فکری و نظری حوالوں سے سماجی، ثقافتی اور مذہبی افکار کو ہم آہنگ کرتے ہوئے پیش کرنے کی سعی ہے۔بظاہر ’ مرکزیت‘ کے محرکاتی عنصر کی بناء پریہ نظم اقبال کے حقیقی اہداف تک صرف ظاہری سطح پر رسائی حاصل کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے تاہم متضاد فکری عناصر جو لینن کی شخصیت کو مسخ کر کے ہی ممکن ہوسکتے تھے ان کواس نظم میں شاعر کے اپنے الٰہیاتی محرکات کے باوجود دبانا ممکن نہیں ہے، جونہی ہم اس کے متن کا محتاط انداز میں تجزیہ کرتے ہیں تو شاعر کی خواہش کے برعکس صورتحال اجاگر ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لینن نے تمام زندگی مادی جدلیات کی نظری اور عملی جہت میں مکمل ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ ان دونوں جہتوں میں مکمل ہم آہنگی اکتوبر انقلاب کی شکل میں قائم کر کے بھی دکھائی ہے۔ مادی جدلیات کے وسط میں موجود تضادات کی عملی اور نظری سطح پر تحلیل لینن کی اولین ترجیح رہی ہے جب کہ مثالیت پسندی اقبال کی فکر کا جزوِ لازم ہے اس لیے فکری سطح پر لینن اور اقبال کے درمیان عدم تطابق نظم کے تضادات کو واضح کرتا ہے۔
آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کی یہ نظم لینن کی شخصیت کے عملی اور نظری پہلوکے درمیان مستقل پیکار کو نظر انداز کرنے کے علاوہ لینن کے سیاسی، سماجی اور معاشی افکار سے بھی انحراف کرتی ہے ۔یہ نظم لینن کی شخصیت کے فلسفیانہ پہلو کو،جو مادیت سے جنم لیتا ہے ، قطعاََ نظر انداز کر کے لینن کو ایک ایسے سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرتی ہے جس میں اپنے عمل اور فلسفیانہ بصیرت کے حوالے سے کسی بھی طرح کی کوئی یکتائی نہیں ہے یقینا یہ حقیقی لینن نہیں ہیں بلکہ اقبال کے الٰہیاتی تصورات کا لبادہ اوڑھے ہوئے لینن ہیں۔ یہ لینن کے حقیقی دنیاوی کردار سے اخذ شدہ تجرید نہیں ہیں ۔ یہ اقبال کی خالص تجرید ہے جس کا اطلاق لینن پر کیا گیاہے جو شاید اقبال کے ذہن کے علاوہ اور کہیں موجود نہیں تھا۔
نظم میں متخالف نظریات کی کمزور پیکار اور ’ایمان‘ کی ’مرکزیت‘ کی بنا ء پرلینن کے افکار سے انحراف کیا گیا ہے۔ اس سے نظم کی باطنی وحدت ،جو جمالیات کی بناء پر قائم ہے، کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تاہم خارجی سطح پر موجود نظریاتی اور عملی تضادات جو تاریخی تسلسل کا حصہ ہیں اور جوعہد ِ حاضر میں مزید پیچیدہ اور خطرناک ہوچکے ہیں، ان کی تحلیل کے حوالے سے مذہبی نقطۂ نظر کو پیش کرکے یہ نظم عدم تیقن کی صورتحال کو قائم رکھنے کی طرف مائل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانیت کی بقا مذہب میں پناہ لینے ہی سے ممکن ہے لیکن حقیقت میں مذہبی آئیڈیالوجی سماجی و سیاسی تضادات کی شدت میں اضافہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اقبال کی یہ نظم سرمایہ داری نظام میں تشکیل شدہ تضادات کے ادراک اور ان کے انہدام کے لیے لینن کے سیاسی کردار کومارکسی فکر کے تحت نمایاں تو کرتی ہے مگر بحران کے خاتمے کے لیے آسمانی آئیڈیالوجی کو لازمی قرار دیتی ہے۔
آخری شعر کے علاوہ لینن کو جس فلسفہ وفکر کے تحت پیش کیا گیا ہے، ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ وہ فکر اقبال کی اپنی نہیں ہے ، اس تمام فکر کو مارکسی فکر میں بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ نظم میں پیش کیے گئے تمام اشعار مارکسی فلسفے سے ماخوذ ہیں تاہم آخری شعر میں مذہبیت کے غلبے کی وجہ سے جو کہ اقبال کی اپنی آئیڈیالوجی ہے، وہ فکری تسلسل ٹوٹتا ہے جو نظم کے باقی اشعار میں قائم رہتا ہے۔نظم کے عنوان سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ضروری تھا کہ نظم عدم تسلسل کی جانب مائل رہے اگر مارکسی فلسفے کے تحت تشکیل پائے گئے افکار کا تسلسل برقرار رہتا تو لینن کے حوالے سے ان کی متصوفانہ فکر کی جگہ وہ فکر لے لیتی جو لینن کی تمام زندگی میں عملی اور نظری سطح پر رہنما رہی ہے۔
نظم میں موجود تضادات دو سطحوں پر دکھائی دیتے ہیں: ایک طرف سماجی سطح پر جنھیں بورژوا فلسفے کے تحت دیکھیں تو رجائیت نظر نہیں آتی۔واضح رہے کہ تضادات متصورہ نہیں، حقیقی ہیں۔ بورژوا دانشوروں کے مطابق ان کی حیثیت خیالی ہے یا ذہنی ہے، جن پر انسانی شعور بآسانی غالب آسکتا ہے۔ سوشلزم کی رو سے سماجی یا طبقاتی تضادات کی نوعیت اور شدت اور اس کے بعد پیداواری عمل میں طبقات کا کردار اور جدلیاتی مادیت کی رو سے ان کا نظری سطح پر ظاہر ہونا تضادات کو رجائیت کی جانب لے جاتا ہے جیسا کہ 1917 کے روسی انقلاب سے واضح ہے ۔ان کے علاوہ وہ تضادات جو لینن کی شخصیت کی عکاسی کے حوالے سے محض شاعر کے تخیل کے تخلیق کردہ ہیںمثال کے طور پر یہ کہ لینن سے متعلق یہ کہنا کہ وہ سماجی تضادات کی تحلیل کے لیے آسمان کی جانب دیکھ رہا ہے۔ اقبال کے ذہن میں موجود یہ آئیڈیالوجی بھی مثالیت اور مادیت کے درمیان تاریخی کشمکش کا نتیجہ ہے جس کا لینن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نظم میں ان تضادات کی تخلیق دراصل اقبال کی اپنی آئیڈیالوجی کو نظری سطح پر فتح دلانے کی کوشش ہے اوریہی اقبال کی اس نظم کا غالب پہلو ہے۔
اقبال نے مفاہمت کی اس کوشش میں’جوہر‘ کے برعکس محض مظاہر کو مدِ نظر رکھا ہے۔ ان کی فکر کے غالب پہلو کے پیشِ نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کے لیے ظاہر اور مادیت کے برعکس بھی ایک سچائی ہے جس کو پانے کے لیے ’ عقلیت پسندی‘ کی بجائے وجدان کی ضرورت ہے۔ وجدان کی حیثیت سے تو انکار ممکن نہیں ہے مگر مثالیت پسندوں کا وجدان خارجیت سے کٹا ہوا ہوتا ہے جو اشیاء کے بارے میں انسان کے محدود سے لا محدود علم کو جاننے کے برعکس کسی جامد سچائی کی جستجو میں مصروف رہتا ہے۔اس کے لیے مادی دنیا کی گہرائی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وجدانیت پرستوں کا موقف ہے کہ وہ کسی انجانی دنیا سے سچائی کو ڈھونڈ کر لاتے ہیں جب کہ حقیقت میں جب وہ سامنے آتی ہے تو اپنی تشریح و توضیح کے لیے منطقی و تعقلی اصولوں ہی کی محتاج ہوتی ہے۔
یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مادی یا لیننی جدلیات دو سطحوں پر عمل آرا ہوتی ہے: ایک نظریاتی اور دوسری عملی۔ بنظرِ غور ان کا تجزیہ ثابت کردیتا ہے کہ دونوں سطحیںایک دوسرے کی سچائی کو ثابت کردیتی ہیں۔ اگر نظر ی و عملی سطح پرفرق باقی رہے تو یہ محض تجزیے کا نقص ہے۔اقبال نے اس نظم میںخود کو محض مظاہر تک خیال پرستانہ انداز میں محدود رکھا ہے ۔ انھوں نے مادی پہلوکو مدنظر رکھ کرلینن کی جدلیاتی فکر کی حقیقی روح تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر تاریخی حقائق کی روشنی میں وہ ایسا کرتے تو الٰہیاتی مابعد الطبیعات پر قائم ہوئی مرکزیت کی تحلیل ہوتی ہوئی نظر آتی اور لینن کی مختلف تصویر کی تشکیل ہوتی جو ان کی متصورہ تصویر سے زیادہ حقیقی اور توانا ہوتی!اس پہلوتک رسائی حاصل کرنے کے لیے جدلیاتی عوامل کی باطنی پیکار کی ضرورت اقبال نے اپنے مذہبی اور ثقافتی محرکات کی بنا پر محسوس نہیں کی۔
نظم بطور ِ فن پارہ فنکار کی(صرف فنکار کی) فکری وجمالیاتی وحدت کا احساس لیے ہوئے ہے۔ الٰہیاتی تخیل کا احساس تنقیدی نظر سے دیکھنے سے برقرار رہتا ہے۔ یہی ’الہٰیاتی معنی‘ اقبال کی اس نظم کا ’مرکزی ‘نکتہ ہے۔بالائی سطح پر نظم کا ہر شعر مغربی معاشرے کی تہذیبی شکست و ریخت کی عکاسی کرتا ہے۔ مغربی تہذیب کا انہدام مارکسزم کے مفہوم میں ایک نظام کا انہدام ہے جس کے مآخذات کو کسی مفکر کے شعور میں نہیں،اس نظام کے اپنے داخلی تضادات میں دیکھنا چاہیے ۔ اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا یہ انہدام سرمایہ داری کے اپنے تضادات کی بدولت نہیں بلکہ اقبال کی ماورائی خواہش سے جنم لیتا ہے یہاں پر مارکسی فکر اور اقبال کی آئیڈیالوجی کے تحت تشکیل پائے ہوئے تصورِ انہدام میں مماثلت موجود ہے۔ مغربی تہذیب کی یہ خود سوزی بیسویں صدی میں عمل میں آچکی ہے لہٰذا مارکسی مفکروں کے علاوہ اقبال کا مقدمہ بھی درست ثابت ہوا ہے۔
نظم کا کلی مفہوم یاسیت کی نمایندگی کرتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظم شاید 1905 کے روسی انقلاب کے بعد لکھی گئی ، جو ردِ انقلاب میں تبدیل ہوگیا۔ اگر اس نظم کو1917 کے روسی انقلاب کے بعد لکھا ہوا تصور کیا جائے تو نظم کے آخری شعر کا دوسرا مصرعہ ’دنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات‘ صورتحال کی غلط ترجمانی کی بنا پربے معنی ہو جاتا ہے۔تاہم اس نظم کی اہمیت عہد ِ حاضر کی زوال پذیر صورتحال کی وجہ سے آج بھی برقرار ہے۔ نظم کے آغاز و اختتام سے قطع نظر اس کا باقی حصہ اس عہد کا معروضی مطالعہ پیش کرتاہے ، جو عہد حاضر میں بھی متعلقہ ہے۔اس پہلو سے نہ ہی اس وقت اختلاف ممکن تھا اور نہ ہی بربریت و سفاکیت کا شکار عہدِ حاضر میں۔

نوٹ: مضمون کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ساجھا کیا گیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...