بدھ، 27 مئی، 2020

اقبال، مغربی فلسفہ اور مادی جدلیات: آخری حصہ

اقبال، مغربی فلسفہ اور مادی جدلیات: آخری حصہ

عمران شاہد بھنڈر
ibhinder@yahoo.co.uk
اقبال نے بھی مارکسی فکر کے اس پہلو کی روشنی میں بورژوا طبقے کی بے مثل ترقی کو محسوس کیا، تاہم اقبال کا یہ شعر ترقی کے پہلوکے ساتھ ساتھ شکوے کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں،
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
لینن نے اپنی کتاب ’ریاست اورانقلاب‘میں مغربی ’تعلیم مساوات‘اورمغربی لبرل جمہوریت کی بد ترین شکل کا باہمی رشتہ جوڑا تھا۔ان کے نزدیک مغربی جمہوریت طبقات پر مشتمل معاشرے کا نام ہے جب کہ حقیقی مساوات ملکیت کے حوالے سے برابری کے حق پر مبنی ہونی چاہیے جو سرمایہ داری نظام میں ناممکن ہے۔لینن لکھتے ہیں کہ ’’جمہوریت ریاست کی کئی مختلف شکلوں میں سے ایک شکل ہے چنانچہ ہر قسم کی ریاست کی طرح جمہوریت میں بھی ایک طرف تو لوگوں کے خلاف باقاعدہ اور باضابطہ تشدد سے کام لیا جاتا ہے اور دوسری طرف ظاہری یا رسمی طور سے وہ شہریوں کی برابری کا دم بھرتی ہے‘‘اقبال نے مارکسزم کے نظریہ سازوں سے اپنی اس نظم میں خاطر خواہ استفادہ کیاہے۔ اس نظم کے عنوان سے اسی صورت ہم آہنگ ہوا جا سکتا تھا۔ اس مصرعے کی مذکورہ بالا اقتباس سے مماثلت ملاحظہ کریں :
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مارکسزم کی رو سے بورژوا کی ترقی اور تباہی کی وجوہ تلاش کرنی مشکل نہیں ہیں۔بورژوا طبقہ اس کی موت کا پیغام لے کر آنیوالے طبقات کو کچلنے کے لیے ظلم کی ہر حد عبور کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے لیے اُسے کئی دوسرے اداروں کے علاوہ ریاستی مشینری کی ضرورت ہوتی ہے جو طاقت کا منبع ہے ۔ بورژوازی اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کا ذمہ اُٹھاتی ہے۔ دوسری طرف مزدور طبقے سے اس کی ہر طرح کی تخلیقی صلاحیت چھین لی جاتی ہے اور اُسے محض بوررژوا اپنے ذاتی منافع کے لیے مشین کے سپرد کر دیتا ہے۔ مینی فیسٹو میں مزدور کی غیر تخلیقی حیثیت کو یوں بیان کیا گیا ہے، ’’اس کی حیثیت مشین کے دم چھلّے سے زیادہ نہیں ہے اُسے اب صرف مشین کو چلانے کا نہایت اُکتا دینے والا اور آسان طریقہ آنا چاہیے‘‘
شاعر ِ مشرق کومینی فیسٹو کے مصنّفین کے مزدور کی غیرتخلیقی سرگرمی کے بارے میں کیے گئے تجزیے کو اس طرح پیش کرتے ہیں،
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات!
اس مضمون میں اشعار اور اقتباسات کے درمیان یہ مماثلت شاعر اور مصنّفین کی فکری یکجہتی کی عکاسی کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اقبال نے ’ مینی فیسٹو‘ کو سامنے رکھ کر اشعار لکھنے شروع کر دیے ہوں، ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اقبال کو لینن کے افکار کی نمایندگی مقصود تھی تاہم بنیادی فرق نظم کے آخری شعر میں عیاں ہوجاتا ہے۔ اسی ایک شعر میں اقبال کی فکر کے بنیادی پہلو کو مادی جدلیات کے بانیوں کی فکر سے ممیز کیا جاسکتا ہے ۔یہ شعر رجائیت کا علمبردار نہیں یاسیت کا داعی ہے۔ عمل کے برعکس بے عملی کی نمایندگی کرتا ہے اور دنیاوی استحصال کے خاتمے کو انسان کی موت کے بعد تصور کرتا ہے۔یہ شعر ایک ایسی تعیین Determinism کی نمایندگی کرتا ہے جو انسانی عمل پر عدم انحصارکی وجہ سے ظلم اور استحصال ، بربریت و سفاکیت اور دہشت و قتال کوفاتح قرار دیتی ہے، ملاحظہ کریں:
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات!
اس شعر میں اقبال نے سرمایہ داری نظام کے بحران کی تحلیل چند گھڑے گھڑائے اورجامد اُصولوں کے تحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بحران سماجی ، سیاسی اور معاشی عمل کے نتیجے میں جنم لینے والے ان تضادات کا نتیجہ ہے جن کی تشکیل اور ارتقاء میں جہاں پیداواری عمل کاوحشت ناک کردار شامل ہے تو ساتھ ہی ساتھ اس کودوام عطا کرنے والے خیال پرستانہ اور توہم پرستانہ ماورائی فلسفے بھی شامل ہیں۔ اقبال کو مقصود صرف عقیدے کی فوقیت ہے، اور عہد حاضر میں اسلامی ممالک میں جس طریقے سے اسے پیش کیا جاریا ہے، اور جس طریقے سے اس کی تخلیقی تشریحات سے روگردانی کی جارہی ہے، یہ تاریخی ارتقاء میں اپنا فعال کردار کھو چکا ہے۔ اب اس کا کردار افادیت کے برعکس مسائل کو مزید گنجلک کرنے والے عوامل کا سا ہو کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ رجعتی عقائد سماجی تغیراتی عمل سے تضاد میں آچکے ہیں۔ لینن کی اپنی تمام زندگی مارکسی جدلیاتی فکر کو ہر لمحہ تغیر پذیر سماج سے اخذ کرتے اور سماج پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے بسر ہوگئی۔
لینن کا تجزیاتی و تشریحی طریقۂ کار ایسا نہیں تھاجسے صرف ایک بار سیکھنا ہی ضروری ہوتا ہے اور اس کے بعد اسے شیلف سے اُٹھا کر ریاستی مشینری ، ’روحانی پولیس ‘یا پھر دوسرے جبری اداروں کے ذریعے اس کا اطلاق کر دیا جائے۔لیننی جدلیات معروضی متغیر عمل اور اس کے تمام تر عوامل کی تشکیل کو جمود کے برعکس اس کی حرکت میںدیکھنے سے از خود صورت پذیر ہوتی رہتی ہے،جس کے مطابق انسانی دماغ طرح طرح کے خیالات خود سے ہی نہیں تراشتا، بلکہ وہ انسانی شعور کو معروض سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ہم آہنگی کا یہ عمل جامد یا حرکت یا تضادات سے عاری نہیں ہے۔ لینن کا شعور کی اصطلاح کو استعمال کرنے کا رجحان کسی ان دیکھے عالم سے متشکل نہیں ہوتا، بلکہ معروض کی اپنی حرکت کے دوران حس کے تفاعل کی حد متعین کرتا ہوا شعور کی جانب بڑھتا ہے۔لینن ’فلسفیانہ نوٹ بک‘ میں حس کی معروض سے پیکار قبل شعورکی برتری کو مسترد کرتے ہیں، جب کہ حس کی شعور کے مقابلے میں خارجی معروض کی نمایندگی کو سطحی قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ حس میں شعور کے برعکس مکمل نمایندگی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
اقبال کے نزدیک اگر خرد کو ارتقاء کی پیداوار سمجھنا ہے تو اسے لازمی طور پر میکانکی بھی ہونا چاہیے، جیسا کہ اقبال دوسرے خطبے میں شعور کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’یہ کہنا کہ وہ مادے ہی کے عمل کا پس منظر ہے اس کی آزادانہ فعلیت سے انکار کرنا ہے، آزادانہ فعلیت سے انکار کرنا تمام علم کی قدر و قیمت ہی سے انکار کرنا ہے‘‘ (ایضاََ،ص، ۵۶)۔ اس سے اقبال کا شعور کے بارے میں واضح نکتہ سامنے آجاتا ہے۔ تاہم جدلیاتی مادیت میں شعور کا کردار انفعالی نہیں ہوتا،جیسا کہ لینن نے فلسفیانہ نوٹ بک میں واضح کیا ہے۔
اقبال کی’اسلامی فکر کی نئی تشکیل ‘ میں مادی جدلیات کا کہیں ذکر موجود نہیں ہے، یہاں تک کہ مارکس اور اینگلز کا بھی کوئی حوالہ موجود نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کا میکانکی مادیت کا تصور سولہویں صدی کے میکانکی تصور سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میںہیگل کا ذکر ان کی کائناتی ’سپرٹ‘ کے حوالے سے صرف دو بار چند الفاظ میںکیا گیا ہے، جس سے کسی بھی نکتے کی وضاحت نہیںہوتی۔جدلیاتی مادیت کے مارکس ، اینگلز اور لینن کے تصور سے انحراف کرنے کی وجہ سے اقبال نے مادیت سے ابھرتے ہوئے شعور کو میکانکی تصور کرتے ہوئے محدود گردانا اور ’وجدان‘ کو اعلیٰ سچائی کے حصول کے لیے لازمی سمجھ لیا۔اقبال جب پروفیسر وائٹ ہیڈ کی تقلید میں یہ کہتے ہیں کہ ’’مادیت کا روایتی نظریہ مکمل طور پر ناقابل تسلیم ہے‘‘ ، اس سے وہ جدلیاتی مادیت کے برعکس میکانکی مادیت کو ہی ذہن میں رکھتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...