پیر، 24 دسمبر، 2012

Jahd-e Azadi me Urdu Shaeri ka Hissa


جہدِ آزادی میں اردو شاعری کا حصہ


ادب خواہ کسی زبان کا ہو، وہ اپنے عہد کے غالب کے رویوں کا ترجمان اور عکاس ہوتا ہے۔ خواہ وہ رویے سماجی ہوں، تہذیبی ہوں یا سیاسی۔ اردو ادب کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قدیم زمانے میں بھی شاعروں نے اپنے عہد کے حالات و واقعات پر بلا خوف و خطر اظہار خیال کیا ہے۔ حالاں کہ ان میں سے کچھ کو اس کی سزا بھی بھگتنی پڑی یا جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اردو شاعری میں یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ  تیز سے تیزتر ہوتا چلا گیا اور جہدِ آزادی کے دوران یہ رجحان اپنے عروج کو پہنچ گیا۔

کلاسیکی اردو شاعری میں شہر آشوب، ہجو اور دوسری شعری اصناف میں ایسے موضوعات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جنھیں آج کی جدید اصطلاح میں احتجاجی ادب کا نام دیا گیا ہے مگر ہر دور میں اس طرح کے احتجاجی ادب کا مزاج بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے لیے انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے ادب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلے میں انیسویں صدی کے ا دب سے بیسویں صدی کا ادب یکسر مختلف ہے۔

ادب ہمیشہ ہی سماج کے موثر رجحانات کا علم بردار رہا ہے۔ سیاست سماج کو پہلے متاثر کرتی ہے اس کے بعد سماج ادب کو متاثر کرتا ہے۔ عوام الناس ہی کی طرح ادیب بھی سماج کی ایک اکائی ہوتا ہے، اس لیے جس طرح ہر شخص پر سماج کا کچھ نہ کچھ فرض ہوتا ہے، اسی طرح ادیب پر بھی سماج کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا نباہ کرنے کے لیے ادیب ایسے مسائل پر بھی قلم اٹھاتا ہے، جن کا تعلق سماج، ملک، قوم اور کبھی کبھی دنیا سے بھی ہوتاہے۔ شاید اسی لیے ساحر لدھیانوی نے کہا ہے کہ:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں

روسی انقلاب کے بعد اردوادب میں ایک لہر بڑی تیزی سے آئی، جس کے قاعد’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کے خالق محمد اقبال تھے ۔ انہوں نے اپنے جذبات کو اس طرح پیش کیا کہ:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرأ کے درو دیوار ہلا دو 
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی 
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
یا پھر یہ کہ:
گیا دور سرمایہ داری گیا 
تماشہ دکھا کر مداری گیا
ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا ہی ہو مگر جب وہ فن کی بات کر تا ہے تو سچائی اور حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اورجس ملک میں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہوں، وہاں ادیب ان سے متاثر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ انسانیت کی ناقدری، نا انصافی، رنگ اور نسل کا امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں، وہاں ادیب چپ کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں آل احمد سرورلکھتے ہیں: 

’’ادب چوں کہ زندگی کی سچائیوں سے منہ موڑ ہی نہیں سکتا، اس لیے سماجی نا انصافیوں، حکمرانوں کے ذریعہ کیے جا رہے استحصال، ایک عام انسان دوستی اور دنیا کی عظمت اور رنگا رنگی کو بھی اپنے سینے میں محفوظ کر لیتا ہے۔‘‘ 

حبِ وطن، سماجی مسائل اورترقی، جنگ اور امن، رنگ اور نسل، یہ ایسے موضوعات ہیں، جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے۔ انسانیت کے خلاف جب جب ظلم ہوگا، انسان بے موت مارا جائے گا تو ادیب اپنی آواز ضرور بلند کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا دوسری عالمی جنگ سے نبرد آزما تھی تب ساحر لدھیانوی نے کہا تھا: 

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر          روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے          زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوںپہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے       جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی
آگ اور خون آج بخشے گی          بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانوں
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں 
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ادب ایک سماجی تاریخ کی بھی حیثیت رکھتاہے، جس میں کسی سماج یا ملک کی بدلتی ہوئی تہذیب کی تصویریں صاف نظر آتی ہیں۔ اس میں کسی نہ کسی سطح پر سماج کی اعلیٰ و ادنیٰ تہذیب کو بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اس اعلیٰ و ادنیٰ تہذیب کی سیاست میں وقت کا اہم رول ہوتا ہے، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ ادیب چوں کہ عام آدمی سے زیادہ حساس ہوتا ہے، اس لیے وہ زیادہ متاثر ہوتا ہے اور جو کچھ اسے محسوس ہوتا ہے، اسے اپنی تخلیقات میں پرو کر معاشرے کے سپرد کر دیتا ہے۔ جیسے:
چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز              ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم 
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں              اپنے اجداد کی میراث ہے مجبور ہیں ہم
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں          اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
فیض
ادب اور سماج کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے بالخصوص بیسویں صدی کے نصف اول میں، یہ رشتہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوگیا تھا، جب کہ انگریزوں کے ذریعے کیے جا رہے ظلم و ستم اپنی انتہا پر تھے۔ تقسیمِ بنگال پر پہلی بار یہاں کی عوام نے اپنے غم وغصے کا اظہار کھل کر کیا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حالی اور شبلی دو ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے ملک کی یکجہتی اور حب وطن کا اظہار سب سے پہلے کیا۔
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو            اٹھو اہلِ وطن کے دوست بنو
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر           نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر
ملک ہیں اتفاق سے آزاد                   شہر ہیں اتفاق سے آباد
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی                  اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی
شبلی مسلم لیگ کے سخت مخالف اور کانگریس کے زبر دست حمایتی تھے۔ مسلم لیگ کے بننے پر انہوں نے کہا تھا:

لیگ کی عظمت و جبروت سے انکار نہیں                    ملک میں غلغلہ ہے شور ہے، کہرام بھی ہے
مختصر اس کے فضائل کوئی پوچھے تو یہ ہیں             محسنِ قوم بھی ہے اور خادمِ حکام بھی ہے


پنڈت برج نرائن چکبست کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں کافی اہم ہے۔ ان کی شاعری میں حب وطن اورقومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ جہدِ آزادی میں ان کی شاعری وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔ ان کی شاعری کے بارے میں کالی داس گپتا رضا اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’اگر چکبست نہ ہوتے تو اردو شاعری بیسوی صدی کے آغاز کی سیاسی بیداری کے تذکرہ سے محروم رہ جاتی‘‘

چکبست کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر سیاسی واقعات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ جوانوں کے جینے کے ڈھنگ پر افسوس ظاہر کر تے ہوئے وہ کہتے ہیں:
موجود ہے جن بازؤں میں زور جوانی                   طوفاں سے انہیں کشتیِ قومی ہے بچانی
پر ہے مئے غفلت سے سروں میں یہ گرانی            آرام پسندی میں یہ رکھتے نہیں سانی
پہلو میں کسی کے دلِ دیوانہ نہیں ہے
ہیں مرد مگر ہمت مردانہ نہیں ہے


اس سلسلے کی چکبست کی نظمیں ’لارڈ کرزن سے جھپٹ ‘،’ فریادِ قوم‘ ،’ وطن کا راگ‘ اور’ ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا‘، خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی نظمیں ہیں، جن میں آزادی کے متوالوں کی ہمت کو بڑھانے کی کوشش نظر آتی ہے۔

آئے ہیں آپ تو کچھ حضرتِ کرزن ! سنیے                آپ اگر منھ کے کڑے ہیں تو ہوں میں بھی منہ پھٹ
آگیا طیش مجھے، دل کا نکالوں گا بخار                     صاف کہتا ہوں، نہیں بات میں اپنی بنوٹ
جس سے ناشاد رعایا ہے وہ ہے دور ترا
کردیا ملک کو اس پانچ برس میں چوپٹ
تو ہوجانے پہ جو راضی تو قسم سر کی ترے           کرکے چندہ تجھے ہم لے دیں ولایت کا ٹکٹ
اور جو تجھ کو نہیں منظور یہ احساں لینا                 بھیج دیں ہم تجھے بیرنگ بناکرپیکٹ
کونسل کے جو ترے ممبرِ سرکاری ہیں
وہ بھی کم بخت ہیں سب چور کے ساتھی گٹھ کٹ
یا الٰہی! یہ چلی بادِ مخالف کیسی              آگیا اُڑکے جو لندن سے یہ کوڑا کرکٹ

اسی طرح اپنی نظموں میں چکبست ہندو اور مسلمان دونوں قوم کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں :
بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤ ہشیار                       اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار                   تو زیرِ موجِ فنا ہوگا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھیشم و ارجن کا نام ڈوبے گا
اسی طرح مسلم نوجوانوں کے خون کو گرماتے ہوئے کہتے ہیں :
دکھا دو جوہرِ اسلام ائے مسلمانو!                    وقارِ قوم گیا قوم کے نگہبانو!
ستون ملک کے ہو قدرِ قومیت جانو!                 جفا وطن پہ ہے، فرضِ وفا کو پہچانو!
نبیِ خُلق و مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شانِ حمیت کی یادگار ہو تم
یہ ایک طویل نظم ہے جو پوری طرح سے جوش و خروش میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک میں ہوم رول کی مانگ بہت زوروں پر تھی۔ ایسے میں چکبست نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:
یہ جوشِ پاک زمانہ دبا نہیں سکتا                            رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا                       دلوں میں آکے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
ایک اور نظم جس کا عنوان ہے،’ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا‘ سے بھی ایک بند ملاحظہ ہو :
ہو ہوم رول حاصل ارمان ہے تو یہ ہے                         اب دین ہے تو یہ ہے ایمان ہے تو یہ ہے
برطانیہ کا سایہ سر پر قبول ہوگا                                 ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا
محمد اقبال نے اپنی شاعری کا آغازحب وطن سے سرشار نظموں سے کیا تھا۔ اردو شاعری میں ان کا نام اس وقت سب سے پہلے لیا جاتا ہے، جب ہم روسی انقلاب سے متاثر ہونے والے شاعروں کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے مارکسیت سے اقبال ہی متاثر ہوئے اور کہا:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!                                   کاخِ امرأکے درودیوار ہلا دو!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے                                      کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
جاگیر دارانہ نظام سے تنگ آ کر یہاں تک کہا دیا کہ:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے                       مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے


۱۹۲۹ء میں کانگریس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا، جس میں کانگریس نے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اسے حاصل کرنے کے لیے گاندھی جی کی قیادت میں سِوِل نافرمانی کی تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بھی طئے کیا کہ 26 جنوری ۱۹۳۰ء کو پورے ملک میں یومِ آزادی منایا جائے اور ایسا ہی ہوا۔ پورے ملک میں یوم آزادی منایا گیا اور کانگریس کا ترنگا جھنڈا لہرا یا گیا۔ اس موقع پر لوگوں نے ایک حلف بھی لیا تھا، جس کے الفاظ اس طرح تھے:


’’ہندوستان میں برطانوی حکومت نے ہندوستانی عوام کو نہ صرف آزادی سے محروم کیا ہے بلکہ اس کی بنیاد ہی عوام کی لوٹ کھسوٹ ہے اور اس نے ہندوستان کو معاشی، سیاسی اور تہذیبی طور سے برباد کیا ہے۔ اس لیے اب ہم اسی میں یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کو برطانیہ سے تعلق توڑ کر مکمل آزادی حاصل کرنا چاہیے۔‘‘


اس حلف نامے کے الفاظ سے عوامی بیداری، سیاست دانوں کے خیالات اور مکمل آزادی کی مانگ میں شدت کا آنا سبھی کچھ ظاہر ہے۔ سِوِل نافرمانی کی تحریک جیسے ہی شروع ہوئی، گاندھی جی اورجواہر لال نہرو جیسے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے کہا کہ :

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں             اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں         تقدیرکے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
کیا ان کو خبر تھی، سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے       اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے        اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں


انگریزوں کے خلاف جوش کے جذبات کا طوفان آتش فشاں کی طرح پھٹا پڑتا ہے۔ اس سے، ان کے سینے کے اندر کے طوفان، جلن اور تپش کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔انگریزوں کے خلاف جوش کے تیور ان کی نظم’’ نعرۂ شباب‘‘ میں دیکھنے کے لائق ہے:
دیکھ کر میرے جنوں کو ناز فرماتے ہوئے                           موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے
تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں                       ہڈیاں اس کفرو ایماں کی چبا ڈالوں گا میں!
پھر اٹھوں گا ابر کے مانند بل کھاتا ہوا                                گھومتا، گھرتا، گرجتا، گونجتا، گاتا ہوا
ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا                                   موت کے سائے میں رہ کر، موت پر چھایا ہوا
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
اب تک ہم نے جتنے شاعروں کی تخلیقات سے جہدِ آزادی کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ان سبھی نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو جہدِ آزادی میں حصہ لینے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اکسایا بلکہ وہ خود بھی اس میں بہ نفسِ نفیس شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ وہ کبھی بھی آنے والے کل سے مایوس نہیں ہوئے۔ انہیں یہ بھروسہ تھا کہ آنے والا کل آج جیسا نہیں ہوگا بلکہ وہ آج سے بہتر ہوگا، جس سے ایک نئے عہد کی شروعات ہوگی۔ اس نئی امید کی کرن کے بارے میں جوش نے کہا کہ:
اٹھو وہ صبح کا غُرفہ کھلا زنجیر شب ٹوٹی                   وہ دیکھو پَو پھٹی غنچے کھلے، پہلی کرن پھوٹی
اٹھو، چونکو، بڑھو، منھ ہاتھ دھو، آنکھوں کو مل ڈالو
ہوائے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو
مجاز نے عمر کے اعتبار سے بہت ہی کم عمر میں رومان سے انقلاب کی طرف رخ کیا۔ اپنی والہانہ شاعری کی بدولت پورے ملک میں نو عمری ہی میں ان کی ایک پہچان قائم ہو گئی تھی۔ جدو جہد آزادی جیسے جیسے تیز ہوتی گئی ویسے ویسے اردو شاعری کے تیور بھی نکھر تے گئے۔ اس مرحلے پربھلا وہ پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ مجازکی نظم ’انقلاب،سے ان کے تیور کی مثال ملاحظہ ہو:
آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے
کوہ و صحرا میں زمیں سے خون ابلے گا ابھی                    رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی
سر کشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی                    ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی
خون کی بو لے کے جنگل سے ہوائیں آئیں گی
خوں ہی خوں ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی


یہاں ایک بات کا ذکر خاص طور سے کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب تک ہم نے جتنی باتیں کیں، ان میں عورتوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں آیاہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے یہ محسو س کیا کہ بغیر عورتوں کے شامل ہوئے جد وجہد آزادی میں شدت نہیں پیدا ہوگی، اس لیے اس تحریک میں عورتوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔ یہ سوچ کر ترقی پسند ادیبوں نے عورتوں کو بھی جہد آزادی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اس سلسلے میں مجاز نے عورتوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ:
ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے 
اگر تو سازِ بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا
سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے                        تو سامانِ جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل کا اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
(نوجوان خاتون سے)
اردو شاعری کی یہ پہلی آواز ہے، جب عو رت کو مرد کے ہم قدم چلنے کی دعوت دی جا رہی ہے، اس کے بعد اس آوازکو مزید تقویت سلام مچھلی شہری نے عطا کی۔ انہوں نے مجاز سے بھی آگے بڑھ کر کہا کہ:
مجھے تو ہمدمو ہمراز چاہیے ایسی                جو دستِ ناز میں خنجر بھی چھپائے ہوئے
نکل پڑے سَرِ میداں اڑا کے آنچل کو              بغاوتوں کا مقدس نشاں بنائے ہوئے
اٹھا کے ہاتھ کہے! ’’انقلاب زندہ آباد‘‘               لہو سے مثلِ دلہن مہندیاں رچائے ہوئے( شرائط )


یہ نئی لہر جو اٹھی تو آگے اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تقسیمِ بنگال سے لے کر آزادی حاصل کرنے تک کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی تحریک نہیں، جس میں شامل ہونے اور انگریزمخالف آوازکو تیز سے تیزتر کرنے کے لیے اردو شاعروں نے اپنی تخلیقات نہ پیش کی ہوں۔ یہاں اس مضمون میں کچھ چنندہ شاعروں کی تخلیقات سے ہی مثالیں پیش کی جا سکیں مگر کوشش یہ رہی کہ نمائندہ شاعروں کی نظموں سے ہی مثالیں پیش کی جائیں تاکہ اس وقت کی عوام کی آواز، چل رہی تحریکوں اور عوام کی آرزوؤں و امنگوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ 

اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے مخدوم کا نام لینا ضروری ہے۔ کیوں کہ مخدوم کی آوازپچاس کی دہائی کی نمائندہ آوازوں میں سے ایک تھی۔ مخدوم کا لہجہ اپنے وقت کا انوکھا لہجہ تھا۔ کیوں کہ’’خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے‘‘۔ یہ بڑی امنگوں اور ولولوں کے شاعر تھے۔ شاید اسی لیے’’نئی دنیا نیا آدم‘‘ بنانے کی سوچ رہے تھے:


وقت ہے آؤ دو عالم کو دگرگوں کردیں                         قلبِ گیتی میں تباہی کے شرارے بھر دیں
پھونک دو قصر کو گر کن کا تماشہ ہے یہی                 زندگی چھین لو دنیا سے جو دنیا ہے یہی
زلزلو آؤ دہکتے ہوئے لاؤ آؤ          بجلیو آؤ گرجدار گھٹاؤ آؤ
آندھیو آؤ جہنم کی ہواؤ آؤ                  آؤ یہ کرۂ ناپاک بھسم کرڈالیں
کاسۂ دہر کو معمورِ کرم کر ڈالیں

یہ گرجدار آواز اردو شاعری کی اس وقت کی سب سے مضبوط آواز ہے۔ انگریزوں کی حکومت کے خلاف جوشعلے اردو شاعروں کے دلوں میں دہک رہے تھے، تب تک ٹھنڈے نہیں پڑے، جب تک کہ مادرِ ہند کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ بیسویں صدی کے نصف اول کی شاعری کا ذکر اردو زبان کی تاریخ میں جب بھی کیا جائے گا تو جہدِ آزادی میں اردو شاعری کے رول کو خاص طور سے جگہ دینے کے لیے مورخ اپنے آپ کو مجبور پائے گا۔


کتابیات

ارجن دیو، اندرا ارجن دیو، ۱۹۹۵، تہذیب کی کہانی (حصہ اول و دوم)، این.سی. ای. آر.ٹی.، نئی دہلی
پرویز، اطہر، ۱۹۸۶، ادب کا مطالعہ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
جوش ملیح آبادی، ۱۹۷۷، شعلہ و شبنم، بھارتی پبلیکشنز، دہلی
چکبست، کا لی داس گپتارضا(مرتب)، ۱۹۸۱، کلیاتِ چکبست (نظم)، ساکار پبلشرز پرائیوٹ لمٹیڈ، بمبئی
ساحر لدھیانوی، ۱۹۷۹، آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، اسٹار پبلیکشنز (پرائیوٹ) لمٹیڈ، نئی دہلی
ساحر لدھیانوی، ۱۹۷۹، تلخیاں، انجم بک ڈپو، اردو بازار، دہلی
فیض احمدفیض، ۱۹۹۰، کلامِ فیض، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
مجاز، اسرار الحق، ۱۹۹۵، آہنگ، مکتبہ دین وادب، امین الدولہ پارک، لکھنؤ
مخدوم محی الدین، ۱۹۶۶، بساطِ رقص، استقبالیہ کمیٹی، جشنِ مخدوم، حیدر آباد (دکن)
عتیق احمد ، ۱۹۸۷، اردو ادب میں احتجاج ، مکتبہ عالیہ، لاہور
افضال احمد، ۱۹۷۵، چکبست: حیات اورادبی خدمات، چاندی خانہ، ڈیوڑھی آغا میر، لکھنؤ
خلیل الرحمن اعظمی، ۱۹۹۶، اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
درخشاں تاجور، ۱۹۹۱، ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اردو شاعری کا حصّہ،B/34، تیواری پور آواس وکاس کالونی، گورکھپور
یوسف تقی، ۱۹۸۰، ترقی پسند تحریک اور اردو نظم، دیارِ فکر و فن ، کلکتہ

نوٹ: یہ مضمون ۸ اگست ۲۰۱۰ کو روزنامہ منصف میں شائع ہو چکا ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...