جمعرات، 10 جون، 2021

3/جون 1857: اعظم گڑھ کی تاریخ کا ایک اہم دن

 

/3جون 1857 اعظم گڑھ کی تاریخ کا ایک اہم دن

 

📝 عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی پرانا تھانہ ،سرائے میر، اعظم گڑھ

 

1857 ءمیں جب انگریزوں کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار ہوئی اور پورے ہندوستان میں عوامی سطح پر بغاوتوں  کاسلسلہ شروع ہوا اور  میرٹھ،مرادآباد،شاملی اور دہلی وغیرہ سے اٹھنے والی بغاوت کی آواز چند ہی ایام میں ہندوستان کے چپے چپے تک پہنچ گئی، اس عوامی تحریک سے تقریبا ََ ہر ضلع متاثر ہوا، جگہ جگہ جنگیں ہوئیں، چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج اٹھا، خطہ خطہ شمع ِآزادی کے پروانوں کے خون سے سیراب ہوگیا۔اس تحریک کا اچھا خاصا اثر ضلع اعظم گڑھ میں بھی دکھا ۔اعظم گڑھ کی متعدد فوجیں انگریزوں کے خلاف بر سر پیکار ہوئیں، کچھ فوجیں زمینداران کے ماتحت تھیں، کچھ بادشاہوں اور کچھ اودھ حکومت کے زیر اثر تھیں۔ 1857 ءمیں اعظم گڑھ میں کئی جنگیں ہوئیں، جگہ جگہ آزادی کے متوالوں نے انگریزوں سے جھڑپیں کیں ۔اسی دوران باشندگانِ اعظم گڑھ  نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے خطۂ اعظم گڑھ کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا۔ جی ہاں آج سے 163 سال قبل آج ہی کے دن اعظم گڑھ  انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا تھا اور اسی دن علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمہ کی ولادت  بھی ہوئی تھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ حیات شبلی میں رقمطراز ہیں کہ:

مولانا شبلی مرحوم کی ولادت 3/جون1857 میں عین اسی ہنگامہ خیز زمانے میں ہوئی جو کہ عام طور پر غدر کے نام سے مشہور ہے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ عین اسی  وقت ولادت ہوئی ،جس دن ضلع اعظم گڑھ  کے باغیوں کی ایک جماعت نے ڈسٹرکٹ جیل کے پھاٹک کو توڑ   ڈالا اور بہت سے قیدیوں کو نکال لے گئے۔

 (حیات شبلی ص86 مع حاشیہ) 

ضلع اعظم گڑھ میں مئی کے اواخر میں  مجاہدین کی متعدد جماعتیں خفیہ طور پر بغاوت کی تیاری کررہی تھیں، جن میں سے رجمنٹ 17/ جو کہ اودھ حکومت کے زیر اثر تھی، سب سے زیادہ متحرک تھی۔ اس سے  قبل انگریزوں سے جھڑپوں کے دوران کئی جنگجوؤں کو اعظم گڑھ جیل میں قید کردیا گیا تھا۔ 3/جون 1857ء کو اعظم گڑھ کے اندر باغیوں کی متعدد جماعتوں نے بغاوت کی ۔

پرگنہ  ماہل پر مظفر جہاں کا قبضہ تھا ۔اس نے وہاں جنگی مورچہ بندی کررکھی تھی۔ پرگن سنگھ نے مہاراج گنج کے تھانے پر حملہ کیا ،شیخ رجب علی نے اعظم گڑھ کوتوالی پر حملہ کیا۔

(تاریخ جنگ آزادی 1857ص507 )

ان متحدہ حملوں کے نتیجے میں بڑے بڑے انگریز افسران غازی پور فرار ہوگئے اور اسی دن کوندا گاؤں (غالباََ کوہنڈہ)کی عوام نے پھول سنگھ کی رہنمائی میں انگریزوں کی نیل فیکٹریوں کو برباد کردیا تھا۔( ایضا ص 507)

اسی دوران رجمنٹ 17 جو پہلے ہی سے بغاوت کی خفیہ پلاننگ کررہی تھی ،انگریزوں کی ایک فوج پر حملہ کردیا جو اعظم گڑھ سے گزر رہی تھی، جس کا ذکر مورخ ساورکر نے کچھ یوں کیا ہے :

انقلابیوں نے 31مئی  سے  ہی پلان بناکر متحرک  تھے 3 جون کو انگریزوں کی ایک فوج جوکہ 7 لاکھ خزانہ کے ساتھ بنارس جارہی تھی اسی دوران رات میں رجمنٹ 17 نے ان پر حملہ کردیا اور وہاں پر انگریزوں کی ایک کثیر تعداد کو بلاک کردیا اور خزانہ لوٹ لیا۔[1857 کا سوتنترا سنگرام  ]

مشہور مورخ پنڈت کنہیا لال نے لکھا ہے کہ:

3 /جون کو ہندوستانی رجمنٹ 17 نے اعظم گڑھ میں فساد بپا کیا، انہوں نے لیفٹینٹ ہیچیسن کو تو جان سے مار ڈالا جب کہ سارجنٹ میجروں کو شدید زخمی کرکے سات آٹھ لاکھ روپئےاور توپیں لیکر اگلے روز اودھ روانہ ہوگئے۔

 [1857 کی بغاوت]    

اسی دوران دیسی سپاہیوں نے بھوندو سنگھ کو لیڈر بناکر بغاوت شروع کردی۔ اعظم گڑھ میں بغاوت شروع ہوتے ہی راجپوت،پٹھان اور  نہرن قبیلے شامل ہوگئے۔ ان علاقوں کے راجکماروں کے  علاوہ پلوار قبیلے کا سردار پرتھوی پال سنگھ اپنے سپاہیوں کو لیکر چلا آیا۔

نظام آباد،سگڑی، مبارک پور ،دیوگاؤں، چریا کوٹ ،بھگت پور اور ماہل وغیرہ بغاوت سے متاثر ہوئے۔

ان متحدہ حملوں کے بعد 3 /جون ہی کو شام 7 بجے شیخ رجب علی  نے اعظم گڑھ  ڈسٹرکٹ جیل کے پھاٹک کو توڑ کر اعظم گڑھ کو آزاد گھوست کردیا۔ [ اعظم گڑھ بھگول ص7   ]   

قاضی اطہر مبارک پوری علیہ الرحمہ نے اس آزادی کا ذکر کچھ یوں کیا ہے کہ :

شیخ رجب علی اور ان کے اصحاب یہاں کے مشہور بہادر تھے ،جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزی حکومت کا ضلع(اعظم گڑھ )سے خاتمہ کردیا تھا۔

[ تذکرہ علماء مبارک پور ص 67 ]  

مولانا عمیر الصدیق  ندوی صاحب فیوض بمہور میں رقمطراز ہیں کہ :

رجب علی اور ان کے جیالوں نے اعظم گڑھ کو آزاد کرایا ۔آزادی کی یہ تھوڑی سی راحت بھی بہت تھی

 [ فیوض بمہور ص 107 ]  

ضلع اعظم گڑھ سے جب انگریزی فوج کا مکمل خاتمہ ہوگیا تو ماہل کے راجہ ارادت جہاں نے جونپور شاہی قلعہ  سے خود مختار حکومت کا اعلان کردیا اور خود نائب ناظم کا دعوی کردیا ۔

[ دیار پورب میں علم اور علماء ]

بعد میں اودھ حکومت نے راجہ بینی مادھو سنگھ کو ناظم اعلی اور راجہ ارادت جہاں کو نائب ناظم مقرر کیا۔

آزادی کے بعد چند مہینوں تک اعظم گڑھ  آزاد رہا۔ اس دوران اعظم گڑھ  میں کئی جنگیں ہوئیں۔ صرف اترولیا ہی میں دو تین جنگ ہوئی  ۔مبارک پور میں چار روز تک جنگ ہوئ۔انگریزوں نے چند ہی ایام کے بعد ایک بڑی فوج کے ساتھ اعظم گڑھ پر  پھرحملہ کردیا  ۔ اترولیا میں راجہ بینی مادھو سنگھ سے زبردست جنگ ہوئی ۔آخر میں انگریزوں کو شکست کھاکر پیچھے ہٹنا پڑا ۔

  وہیں دوسری  طرف   انگریزوں کی ایک فوج نے بمہور پر چڑھائ کردی۔ شیخ رجب علی کو شہید کردیا گیا ۔بمہور کو آگ لگا دی گئی۔ آس پاس کے گاؤں کو لوٹ لیا گیا ۔

 اس کے بعد اعظم گڑھ میں برابر جنگیں ہوتی رہیں۔ 1857 کے اواخر میں ایک بار پھر انگریزی فوج اور راجہ بینی مادھو سنگھ کی فوج کے درمیان اترولیا میں جنگ ہوئی  اگر چہ اس جنگ میں انقلابیوں کو شکست کھانی پڑی اور اس طرح انگریز ایک بار پھر اعظم گڑھ میں داخل ہوئے لیکن مورخین نے لکھا ہے کہ :

اس جنگ میں انقلابیوں کی قلعہ میں چار چار  فٹ اونچی لاشیں تھیں۔

دوسری طرف راجہ سید اردات جہاں کی فوج  سے مبارک پور میں چار روز تک انگریزوں سے جنگ ہوتی رہی۔ اسی دوران اپنوں کی غداری کی وجہ سے صلح کے بہانہ راجہ سید ارادت جہاں کو پھانسی دے دی گئی اور فوج کو تہس نہس کردیا گیا ۔اس کے باوجود بھی انگریز اعظم گڑھ  پر مکمل قبضہ نہیں کرپائے۔

راجہ ارادت جہاں کے بیٹے مظفر جہاں نے 16 ہزار جنگجوؤں کو ماہل میں ٹریننگ دے کر انگریزوں سے جنگ کی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ:

پرگنہ ماہل پر راجہ مظفر جہاں  کا 1860 تک قبضہ رہا۔  دوسری طرف راجہ بینی مادھو سنگھ بھی وقتا ًفوقتاً ٹکراتے رہتے تھے۔

 

ابن عبدالعظیم الاعظمی 2 جون 11/50

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...