جمعرات، 18 فروری، 2021

مادری زبان کی اہمیت و افادیت

 مادری زبان کی اہمیت و افادیت

 روخان یوسفزئی


کسی قوم کے لیے اظہار کا سب سے بہترین ذریعہ اْس کی مادری زبان ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں دانشور اپنی دھرتی کے ساتھ جْڑے رہتے ہیں اور ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو اْن ممالک کی عوام اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں۔ لیکن محکوم دانشور، اْدھار سوچ کے حامل نام نہاد حکمران و لکھاری اپنی قوم کی اتنی بْرائیاں کرتے ہیں کہ عوام کو اپنی دھرتی، اپنی ماں بولی زبان اور اپنی تاریخ سے دور کر دیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی آمد نے یہاں کی عوام کو انتہائی ذلت آمیز رسوائی میں مبتلا کردیا۔ انگریز تو یہاں کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے آیا تھا لیکن جب اْس نے دیکھا کہ برصغیر کے حکمران تو بس تخت و تاج کی خاطر اپنے ہی پیارے بہن بھایؤں کے گلے کاٹ رہے ہیں تو انگریز نے تجارت کے ساتھ ساتھ اِس چھوٹے بر اعظم پر حکومت کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ اِس طرح دھرتی میں رہنے والے اپنی ہی زبان اور ثقافت پر نازاں ہونے کی بجائے شرمندگی محسوس کرنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز برصغیر کا حکمران کیا بنا اْس نے یہاں کے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا۔ اپنی زبان کو اتنا اونچا درجہ دے دیا کہ عوام دیسی زبانیں بولنے میں شرمندگی محسوس کرتے۔ یوں پھر تعلیمی نظام جو برصغیر میں صدیوں کی محنت کے بعد ترتیب پایا تھا اْس نظام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ ہندو شاطر تھے۔ اْنہوں نے انگریز کا ہمنوا بننے میں ہی عافیت سمجھی اور مسلمان جو علم کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھے ہوئے تھے انگریزی زبان کی ترویج کی وجہ سے یک دم ان پڑھ قرار دے دیئے گئے۔ انگریز نے غلامی کا وار اِس انداز میں کیا کہ مسلمانوں کا صدیوں سے رائج نصاب بے وقعت کر دیا گیا۔ ایک طرف مسلمان معاشی طور پر دلد ل میں پھنستے چلے گئے تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں انگریزی زبان کے فروغ کا زور و شور اْن کو لے ڈوبا۔ علم و عمل کی بنیاد پر برصغیر پر ہزار سال حکومت کرنے والی مسلم قوم کو ایک دم جاہل گنوار بنا کر رکھ دیا گیا۔ انگریز کی اِس کاری ضرب کی وجہ سے مسلمان اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔ متذکرہ بالا تمہید باندھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جن اقوام کا اپنی ہی مٹی سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے شکست اور ذلت و پستی اْن کا مقدر بن جاتی ہے۔ پاکستان، ہندوستان، امریکہ، افریقہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، ایران، اٹلی و دیگر ممالک کی اقوام کی اپنی علیحدہ زبانیں ہیں جو کہ اقوام کے افراد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کی ایک قومی زبان ہوتی ہے جس سے ہر ملک کے افراد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 21 فروری کو زبانوں کی پہچان اور ان کی اہمیت سے آگاہی کے لئے مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ نومبر 1999ء کو یونیسکو کی انسانی ثقافتی ورثے کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ رواں سال بھی اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کے ممالک میں محفلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے متعدد شہروں کی یونیورسٹیز، کالجز اور سکولز و دیگر سیاسی و سماجی اداروں میں زبانوں سے متعلق آگاہی کے لئے سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ انسان کی یاداشت بدل جاتی ہے لیکن زبان نہیں بدلتی، وہ یاداشت کھو سکتا ہے لیکن اپنی زبان نہیں بھول سکتا۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لئے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ قومیت کی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگارنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہیں۔ یاد رہے مقامی یا مادری زبانوں کو انسان کی دوسری جلد بھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہر لفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب و تمدن اور ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقاء اور اس کے فروغ کا سب سے موثر آلہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ اور اس کی قومیت غرض سب کچھ مٹ جائے گا۔ یہا ں پر ذکر کرنا مقصود ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہو چکی ہیں۔ زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 860 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیاء دوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11 اور اردو بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہے۔ آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زود اثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں، انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھرا کر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔ معلم کے لیے بھی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دینا بہت آسان ہوتا ہے اور اس کے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنا پڑتی اور مہینوں کا کام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج و اشاعت میں مدد ملتی ہے، زبان کی آبیاری ہوتی ہے، نیا خون داخل ہوتا ہے اور پرانا خون جلتا رہتا ہے جس سے صحت مند اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پذیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے، نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں، نیا ادب تخلیق ہوتا ہے اور استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام، عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب انگریزی زبان میں ہے۔ ہم کب تک انگریزی کا پیچھا کریں گے۔ قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقد کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء و محققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے، ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور ان کے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منوا سکے۔ عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ صرف 75 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور صرف 8 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو کل عالمی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار اور بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اربا ب اختیار کو چاہیے کہ قوم کو درست سمت میں لے کر جایا جائے اور ابتدائی کلاس میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...