اتوار، 12 اپریل، 2020

ہاں میں اعظم گڑھ ہوں


ہاں میں اعظم گڑھ ہوں!

ہاں میں اعظم گڑھ ہوں۔جی ہاں! وہی اعظم گڑھ جو ہندوستان کے صوبۂ اتر پردیش کا ایک ضلع ہے،جی ہاں! اترپردیش کے مشرقی حصے میں جلوہ فگن ہوں۔ہاں میری پہچان ایک اور بھی ہے،جسے لوگ اپنے ناموں کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں، اسے اعظمی کہتے ہیں،ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! گھاگھرا ندی کے جنوب میں  بسا ہوا ہوں،زمانۂ قدیم میں میرا کوئی وجود نہیں تھا، یہاں جنگل ہی جنگل ہواکرتا تھا۔
آبادی بہت کم اور فاصلے پر تھی، میری سرزمین کا تعلق دو ریاستوں کے زیر اثر تھا۔مغرب میں کوشلیا راج اجودھیا اور مشرق میں کاشی راج بنارس سے تھا، درمیان میں ٹونس ندی سرحد تھی۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس کے راجہ، راجہ بکرماجیت سنگھ نے اپنے سگے بھائی کا قتل کردیا تھا اور اسی کی پاداش میں مغل شاہی فوجوں نے اسے گرفتار کرکے دہلی میں قید  کر دیا تھا۔
وہاں جاکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ دہلی سے سزا مکمل کرکے واپس جب لوٹے تو ایک مسلم خاتون سے شادی کرلی- ان کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام اعظم خان اور دوسرے کا نام عظمت خان تھا، جی ہاں! میں وہی اعظم گڑھ ہوں،جس کے بسانے والے کو لوگ راجہ اعظم شاہ کے نام سے بھی جانتے ہیں، ویسے میرے وجود کو تو زیادہ زمانہ نہیں گزرا، چارصدی ہی گزری ہے۔
تاریخی اعتبار سے میرا پیدائشی نام 1665ء بمطابق 1074ھ میں پڑا، جس  کے  335 سال گزر چکے ہیں۔ٹونس ندی کے کنارے میرا قلعہ نما گھر بھی بناتھا، جس کے کنارے آبادیوں کا ایک ہجوم بس گیا اور پھر میں اتنا پلا بڑھا کہ دنیا میں میرا نام روشن ہو گیا۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس کو انگریزوں نے 1836ء بمطابق 1252ھ میں ضلع کا درجہ عطا کیا اور میرے ضلع کے پہلے کلکٹر مسٹر تھامسن مقرر ہوئے۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس میں صوفی سنت آکر بستے تھے،جسے دیکھ کر بادشاہ اورنگزیب نے مجھے شیرازِ ہند کےنام سے ایک الگ پہچان عطا کی تھی ۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس نے بھگوان رام کو بن باس کے زمانے میں آنوک گاؤں میں ٹھہرنے کےلیے دروازہ کھول دیا تھا۔
ہاں ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جو مہا بھارت کے تین سو سال بعد ارجن کے پر پوتے راجہ پریکچھت کو ناگ راج سے بچنے کے لیے پناہ دی۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس کی سر زمین پر بھگوان رام چندرجی کے قدم پڑے تو وہیں سکھوں کے گرو، گرو گوبند سنگھ جی مہاراج کے قدم سے لے کرگرو تیغ بہادر جی کی قدم بوسی کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا۔
اس خطۂ اعظم گڑھ کا کیا کہنا! جہاں حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ جیسے بزرگ کے قدم پڑے ہوں اور اورنگ زیب جیسے انصاف پسند بادشاہ نے میری سرزمین کی زیارت کی ہو۔  ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں پر ہندو دھرم کے چار دھاموں میں سے ایک دھام "دُرباسا" میں موجود ہے اور پھولپور تحصیل کے پکھیا گوند صاحب کے تاریخی مقامات بھی موجود ہیں۔
دیورہابابا، مہاتما کے آشرم، موہن گھاٹ آشرم، نظام آباد میں شیتلا دیوی کا مندر موجود ہے۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس کے ایک سپوت مولانا پیر علی نے بہار کے پٹنہ میں برطانوی حکومت کی چولیں ہلا دی تھیں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو گنگا کے کنارے پھانسی دی گئی تھی۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس کو دو بار آزادی نصیب ہوئی۔ 1857ء میں بابوکنور سنگھ نے افغان پناہ گزینوں اور راجپوتوں کے ساتھ مل کر مجھے ڈھائی سال تک برطانوی تسلط سے آزاد رکھا۔  ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس کے سپوتوں کے بہت زیادہ قصے ہیں۔ تازہ مثال آزاد ہندوستان فوج کے برگیڈیئر عثمان خان اور حولدار عبدالحمید کانام ہی دشمنوں کے لیے کافی ہے۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس نے آزاد ہند فوج کے لیے اپنے چالیس فیصد سپوتوں کو اس میں بھرتی کراکر دیش کے لیے عظیم قربانیاں پیش کر دیں۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کے ڈرائیور کرنل نظام الدین جیسے سپوتوں کوجنم دیا۔ ویسے تو میرے سپوتوں نے ہر میدان میں الگ الگ  اور نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ کوئی ہندی کا کوی بن گیا تو کوئی اردو کا شاعر،تو کوئی علامہ، وقت کا فقیہ اور ان سب میں ایک نام علامہ شبلی نعمانی کا ہے،جس نے سیرت النبی جیسی کتاب لکھ کر پوری دنیا میں میری زرخیزی کا لوہا منوایا۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس نے ثانی اقبال  (اقبال سہیلؔ)کو جنم دیا جس نے میری تعریف کچھ ان لفظوں میں کی تھی:
اس خطۂ اعظم گڑھ پہ مگرفیضانِ تجلی ہے یکسر
جوذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس نے اپنے صوبہ کو ایک وزیر اعلیٰ رام نریش یادو کی شکل میں دیا جو بعد میں مدھیہ پردیش کے راج پال بنائے گئے اور دل کا دورہ پڑنے سے موت واقع ہوئی۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس نےاپنے بطن سےان گنت مبلغ، فقیہ، علامہ، شاعر، ادیب،کوی،کوپیدا کیا، جن کے کچھ نام یہ ہیں: مولانا اسلم جیراج پوری،مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا حمید الدین فراہی،مہاپنڈت راہل سانکرتیاین،مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری، خلیل الرحمٰن اعظمی، سید احتشام حسین، اقبال سہیل،کیفی اعظمی،شیام نارائن پانڈے،اجودھیا سنگھ اپادھیائے ہری اودھ، شمس الرحمن فاروقی، کملا کانت، اسرارنیوٹن، آئی جی اسلام احمد،شیخ ثانی عبدالحق اعظمی، مولانا شاہ وصی اللہ، مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری، مرزا اسلم بیگ،بابو وشرام رائے، رام نریش یادو، مفتی عبداللہ پھولپوری، مولانا مجیب اللہ ندوی، قاضی اطہر مبارک پوری، علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی محدث کبیر انڈیا وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے۔ میں اپنے سپوتوں کا نام لکھنے بیٹھ جاؤں تو ایک دفتر بھر جائے مگر ناموں کا سلسلہ ختم نہ ہو، ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس نے پڑوسی ملک پاکستان کو سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ کی شکل میں مزرا اسلم بیگ کو دیا۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس کا ایک سپوت فرینک ایف اسلام نے امریکہ میں میرا نام روشن کیا ہے۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس کی لمبائی85کلومیٹر، چوڑائی75کلومیٹر ہے اور میرا کل رقبہ 4234کلومیٹر ہے۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جسکی آبادی 2011کی مردم شماری کےمطابق 4613913ہے، جس میں مردوں کی تعداد 2285004ہے جب کہ خواتین کی تعداد 2328909ہے۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد  چالیس ہزار سے زائد ہے۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں!جس میں دو نگر پالیکا، سات تحصیل (تحصیل اعظم گڑھ،سگڑی، پھولپور، نظام آباد، لال گنج، بوڑھن پور، مینہ نگر)، بائیس بلاک(اہرولا، اترولیا، اعظم گڑھ، بلریا گنج، ہرَیّا،جہانا گنج، کوئلسا، لال گنج، مہاراج گنج، مارٹین گنج، مینہ نگر، مرزا پور، محمد پور، پلھنا، پلھنی، پَوَئی، پھولپور، رانی کی سرائے، تہبر پور، ترواں، ٹھیکما)،
دس (10)نگر پنچایت(مبارکپور، اترولیا، اعظم گڑھ، بلریا گنج، سرائےمیر، جین پور، لال گنج، مہاراج گنج، مینہ نگر، پھولپور، ماہل)،20117 گرام سبھا: 10، اسمبلی سیٹ(اعظم گڑھ صدر، گوپال پور، سگڑی، مبارک پور، مینہ نگر، پھولپور، پوئی، لال گنج، نظام آباد، اَترولیا،دیدار گنج)  اور2پارلمانی سیٹیں (اعظم گڑھ صدر،لال گنج)موجود ہیں۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس کی آغوش میں دارالمصنفین جیسی عالمی لائبریری ہے، جس کی بنیاد علامہ شبلی نعمانی نے1913ء میں رکھی۔  ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس کی آغوش میں مدارس اسلامیہ کا جال بچھا ہوا ہے اور تقریباً ہر مکاتیب فکر کے مذہبی ادارے میرے سینے پر موجود ہیں۔مدرسہ عربیہ بیت العلوم، جامعہ فیض العلوم،جامعہ شرقیہ وغیرہ۔
اکثر مدارس میں دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے، جس میں بطور خاص نام، جامعۃ الفلاح، مدرسۃ الاصلاح، جامعہ اشرفیہ مبارک پور،پیش پیش ہیں۔ ہاں میں ہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں مکاتیب اسلامیہ کا جال بچھا ہوا ہے تو وہیں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بہتات ہے۔ شبلی کالج، شبلی نیشنل کالج، ابن سینا طبیہ کالج، جیوتی نکیتن، پالی ٹیکنک کالج، اگرسین ڈگری کالج، دیو انٹر کالج، فاطمہ گرلس کالج، وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ وہیں ایک اعداد وشمار کے مطابق اس خطے میں 1320 بیسک جونئیر اسکول،355 بیسک سینئر اسکول،117انٹر کالج،11ڈگری کالج،ایک پالی ٹیکنک کالج موجود ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس میں روزگار کے نام پر ایک چینی (شوگر) مل ہے، ہاں یہ وہی شوگر مل ہے،جس کی بنیاد 1975ء میں رکھی گئی تھی، اس کے بعد اس کو تالا جڑ دیا گیاتھا پھر ملائم سنگھ یادو کے فرزند سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کے ہاتھوں دوبارہ افتتاح کیا گیا۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں پر نوادہ گاؤں رہائشی حاجی حنیف پلائی فیکٹری نام سےعلاقے بھر میں کافی مشہور ہے مگر کاغذی نام بھارت پلائی فیکٹری ہے،جس کو 2006میں پورا پورا ٹیکس بھرنے پر ایوارڈ سے نوازاگیا تھا۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں بچوں کے کھانے کی ٹافیاں، بسکٹ، نہانے دھونے کے لیے صابن، تیل، پینٹ، آیورویدک دوائیاں وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں پر روزگار نہ ہونے کے باوجود بھی میرے سپوت خوش حال زندگی بسر کررہے ہیں۔یہاں کے زیادہ تر لوگ خلیجی ممالک میں روزگار کی غرض سے رہتے ہیں اور  آج کی پیڑھی کے بہت سے نوجوان  ملک کی بہت سی یونی ورسٹیوں (بنگال، مہاراشٹر، جموں و کشمیر، دہلی ) میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔  ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں کے مٹی کے برتن آج بھی بہت مشہور ہیں۔
نظام آباد کے مٹی کے برتن غیر ملکیوں کو آج بھی بہت ہی پسند ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں مبارکپور قصبے کے ہر گھر میں بنارسی ساڑی تیار کی جاتی ہے،جس کو اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی کافی پسند کیا جاتا ہے ۔ ہاں میں اعظم گڑھ ہوں! جس کے پیٹ سے چیرتی ہوئی کئی ندیاں گزرتی ہیں۔ٹونس ندی، مگھئی ندی، گھاگرا، چھوٹی سرجو، مسئی، ملنی، قیار، ہاہا، سونی کانگی، ادنتی، بگھاری وغیرہ موجود ہیں۔

ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں پر تقریباً ہر قسم کی فصل بوئی اور کاٹی جاتی ہےلیکن کچھ خاص فصلیں یہاں پر زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے گیہوں، اونکھ(گنا)، چاول، سرسوں، مکئی، پھلوں میں پھلوں کا راجہ آم یہاں پر زیادہ پیدا ہوتاہے اور اس کے ساتھ امرود، بیر وغیرہ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں پر سرکاری و غیر سرکاری ہسپتال بھی قائم ہیں، جن میں کچھ خاص کے نام ہیں:صدر ہسپتال، رماٹراما سینٹر، ویدانتا ہاسپیٹل، لائف لائن، ڈینٹل ہاسپٹل، طاہر میموریل ہاسپٹل وغیرہ۔ ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جو ابھی بھی فرقہ وارانہ فسادات سے کافی حد تک محفوظ ہے، میرے دشمنوں نے تو پوری کوشش کی مگر میرے سپوتوں نے میری لاج رکھی ہوئی ہے۔ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جس کو سیاسی بھیڑیوں نے اپنے مفاد کی خاطر مجھے آتنک گڑھ کے نام سے مشہور کرنا چاہا مگر میری تاریخی حیثیت کے آگے یہ پروپیگنڈہ زیادہ دیر تک ٹک نہ سکا۔ میرے کچھ جیالوں نے اس کا مقابلہ2008میں دہلی سے لے کر لکھنؤ تک کیا اور بتایا کہ ہم امن کے پجاری ہیں۔  ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں سے پورے ملک ہندوستان میں ٹرین سے آپ سفر کرسکتے ہیں۔
میری سرزمین سے کیفی اعظمی کے نام پر کیفیات ایکسپریس دہلی تک روز مرہ سفر کرتی ہے۔گودان ایکسپریس چھپرا، گورکھپور سے ہوتے ہوئے ممبئی کے لوک مانیہ تلک ٹرمنل تک دندناتی پھرتی ہے۔ ہاں یہیں سے امیروں کی غریب نواز بھی گزرتی ہے،یہاں سے بلیا، مئو، وارانسی، جونپور، شاہ گنج تک پیسنجر ٹرین بھی چلتی ہے۔
ہاں میں وہی اعظم گڑھ ہوں! جہاں پر ہوائی اڈّے کا کام زوروں پر ہے۔ جلد ہی آسمانی سفر سے بھی میرے سپوت اتریں گے۔ میری سرحدیں، گورکھپور، امیڈکر نگر، مئو، جونپور، سلطان پور، غازی پور سے ملتی ہیں۔اللہ تعالیٰ سے آخیر میں دعا ہے کہ میرے سینے پر بسنے والے تمام انسانوں کی ہر شروروفتن سے حفاظت فرمائے آمین۔

نتیجہء فکر ریحان اعظمی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...