ہفتہ، 20 اپریل، 2013

Urdu shaeri me mahboob ka badalta tasawwur

اردو شاعری میں محبوب کا بدلتا تصور

اردو ادب کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس نے ہر دور میں سماج کے غالب رویوں، رجحانوں اور تحریکوں کی بھر پور نمائندگی کی ہے۔ خواہ وہ رویّے سماجی رہے ہوں، سیاسی ہوں یا پھر تہذیبی۔ سماج نے ادیبوں کو اور ادیبوں نے سماج کو ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے۔ اس طرح ہم سماج اور ادب کے تعلق کو ناگزیر یا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کہہ سکتے ہیں۔ شاید سماج اور ادب کے اسی تعلق کو دیکھتے ہوئے ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں
اگر ہم اس بات کی مثال لینا چاہیں تو کسی بھی عہد سے لے سکتے ہیں۔ نذیرؔ اکبرآبادی سے لے کر سوداؔ کے عہد تک یا غالبؔ کے عہد سے اقبال کے عہد تک یا پھر فیض و سردارؔ جعفری تک کے عہد سے اس طرح کی مثالیں بڑی آسانی سے لی جا سکتی ہیں کہ:
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیاکیجے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ


اردو شاعری میں محبوب کے تصورکو ذہن میں رکھ کر اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ جس طرح کا عہد ہوتا ہے، اسی طرح کا ادب پروان چڑھتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ہم میر کے زمانے کو لیں اور اس کا مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس عہد میں جس طرح کا دور تھا، اسی طرح کی شاعری بھی کی جاتی تھی یعنی میرؔ کے عہد میں پردے کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا اور گھر سے نکلنے پر پالکی کے ساتھ ساتھ کسی مرد کا ہونا بھی ضروری خیال کیاجاتا تھا لیکن بیسویں صدی تک آتے آتے وہ بندھن ٹوٹ گئے اور شاعر نے بے باک ہو کر کہا: ’’خدا بھی مسکرا دیتا ہے جب ہم پیار کرتے ہیں‘‘۔ یہ شعربیسویں صدی کا ہے اور یقیناً اس طرح کا شعر بیسویں صدی ہی میں ہو سکتا تھا۔ اس سے پہلے کے کسی بھی دور میں شاید ایسا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ دور ایسا تھا کہ محبوب کا دیدار ہی کسی طرح سے ہو جائے تو کافی ہوتا تھا یا پھر یہ کہ عاشق کومعشوق کی ایک جھلک مل جائے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا تھا۔ میرؔ کے عہد میں اور اس کے بعد غالبؔ اور مومنؔ کے عہد تک محبوب کا تصور لبِ بام کے دیدار تک ہی تھا۔ وصال کی باتیں بہت کم ہوتی تھیں۔ زیادہ تر عاشق ہجر کا رونا ہی روتے نظر آتے تھے۔ مثال کے طور پر میرؔ کے چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں، جن سے عاشق کی کیفیت کا اندازہ ہو سکے گا:

ہم تو عشق میں نا کس ٹھہرے کوئی نہ ایدھر دیکھے گا
آنکھ اٹھا کر وہ دیکھے تو یہ بھی اس کی مروت ہے

عشق کیا ہے اس گل کا یا آفت لائے سر پر ہم
جھانکتے اس کو ساتھ صبا کے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم

سو بار ہم تو تم بن گھرچھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے
سو نامہ بر کبوتر،کر ذبح ان نے کھائے

خط چاک اڑے پھرے ہیں اس کی گلی میں پر سے
آخر گرسنہ چشمِ نظارہ ہو گئے ہم
 ٹک دیکھنے کو اس کے برسوں مہینے ترسے

آنکھیں تو پتھرا گئیں تکتے ہوئے اس کی راہ

 شام و سحر انتظار دیکھیے کب تک رہے

آنکھ ملاتا نہیں ان دنوں وہ شوخ ٹک

 بے مزہ ہے ہم سے یار دیکھیے کب تک رہے

میرؔ کے یہ اشعار اس دور کی نمائندگی کرنے کے لیے کافی ہیں اور یہ ثابت کرنے کے لیے بھی کہ اس عہد میں ایک جھلک یا ایک دیدار ہی عاشق کے لیے باعث اطمینان ہوا کرتا تھا۔ غالبؔ کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ان کا روزانہ ایک گلی سے گزر ہوا کرتا تھا اور لب بام پر کھڑے اپنے محبوب کا دیدار کرتے ہوئے گزر جایا کرتے تھے لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ ایک دن، دو دن، تین دن گزر گئے پر وہ ماہ رو نظر نہیں آیا تو ان کی بے تابی کا ٹھکانہ نہیں رہا اور وہ اس کے گھر میں داخل ہو گئے۔ در اصل اس زمانے میں عورت کو ایک خاص عظمت حاصل تھی۔ جسے گھر کی زینت اور رونق کہا جاتا تھا۔ باہر نکلنا قطعی نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ کہیں کوئی ضروری کام پڑ جائے۔ ایسے میں اس کے ساتھ اس کی رہبری، رہنمائی اور حفاظت کے لیے مرد کا ساتھ ہونا ناگزیر ہوتا تھا۔غالبؔ جیسا شاعر بھی اپنے دور میں صرف اتنا کہہ سکا کہ:

ادھر وہ بد گمانی ہے،ادھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے

وہ اگر جھانکیں جھروکے سے تو اتنا پوچھوں
بستر اپنا پسِ دیوار کروں یانہ کروں 

غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں

منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا 

ان کے دیکھے سے آجاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں کیا وہ لکھیں گے جواب میں

یہ اشعار بھی اس رشتے کی وضاحت کر رہے ہیں، جس کا کہ ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ عاشق محبوب کی چشمِ کرم کی حسرت ہی لیے رہ جاتا تھا اور امید ہی اس کی تمام آرزوؤں کا حاصل ہوا کرتی تھی۔ غالب اور مومنؔ کے زمانے کی شاعری میں زیادہ تر موضوعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عاشق محبوب کے دیدار ہی پر صبر کر لیا کرتا تھا۔ ایک اور بات جو یہاں قابلِ ذکر ہے، وہ یہ کہ شاعری میں عاشق کو وصال کی امید ہمیشہ رہا کرتی تھی اور اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ معاشرے کا رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ اس سے آگے بڑھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ ایسے میں محبوب کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مکرِ شاعرانہ کا سہارا لینا پڑتا تھا، جس کے لیے مومنؔ خاص طورسے مشہور ہیں:
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا

میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
ایسے دور میں عاشق جب اپنے معشوق کے قدموں کے نشان دیکھ لیتا تھا تو بے ساختہ کہہ اٹھتاتھا:
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں                 خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
ایسے معاشرے میں عاشق کے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا، سوائے اس کے کہ:
جب گھر بنا لیا ترے گھر پر کہے بغیر                جانے گا تو نہ اب بھی مرا گھر کہے بغیر
اب تک جتنی مثالیں ہم نے پیش کی ہیں، اس سے انیسویں صدی کے معاشرے، اس کے رکھ رکھاؤ، اقدار اور اس معاشرے میں عورت کی حیثیت، مقام اور عظمت کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔
بیسویں صدی میں عورت کی شناخت، اس کی عظمت، معاشرے کی تعمیر میں اس کے رول اور اہمیت کو کسی حد تک تسلیم کیا گیا۔ بعض ادیبوں نے سماج کو بنانے میں اس کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس عہد میں تعلیم کا پھیلاؤ ہوا اور کچھ روشن خیال ادیبوں نے اسے اس کی آزادی اور مرد کے ہم پلہ قرار دینے کی مہم چلائی۔ اس سے قبل عورت کی شناخت یہ تھی کہ عورت محبت کی چیز ہے اور صرف اسی لیے دنیا میں لائی گئی ہے۔ یہاں آگے بڑھنے سے پہلے حسرتؔ موہانی کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ معاشرہ ان کے زمانے میں کس حد تک عورتوں کو آزادی فراہم کرتا تھا۔ ان کے عہد میں معاملہ لبِ بام سے آگے نکل چکا تھا۔ جبھی تو انہوں نے کہا:
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً


اور دپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
مذکورہ اشعار سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری کس طرح وقت کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ اس سے آگے بڑھنے پر ترقی پسند تحریک کا عہد آتا ہے، جس نے اردو ادب میں بہت سی مثبت اور اہم تبدیلیاں پیدا کیں اور اس کو بہت سی نئی فکری بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ ترقی پسند تحریک میں فیض احمد فیضؔ کا اپنا ایک مقام ہے جو نظریاتی اعتبار سے بھی مقبول ہے اوراپنی شاعری کے خاص لب و لہجے کی وجہ سے بھی۔ انہوں نے اگر کہیں جرأت مندی دکھائی ہے تو کسی حد تک روایت کی پاسداری بھی کی ہے۔ چوں کہ وہ دور ہی کچھ ایسا تھا کہ انھیں دونوں سے ہم آہنگی بنائے رکھنی پڑی۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر انہوں نے کہا:
اَن گِنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کِم خواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لِتھڑے ہوئے،خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیاکیجے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
اس نظم میں شاعر نے سب سے پہلے اپنے محبوب کے حسن کی تعریف کی ہے، اس کے بعد اسے سماج کی مشکلوں، مصیبتوں اور دکھوں سے واقف کرانے کی کوشش کی ہے۔ پھر یہ کہنے کی سعی کی ہے کہ جب سماج میں اتنے دکھ، مصیبتیں اور تکلیفیں ہیں تو پھر انسانیت کے ناتے ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے کچھ ایسے کام کریں، جس سے معاشرے کیمصیبتوں کا کچھ ازالہ ہو سکے۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ کیوں کہ تم سے زیادہ میری ضرورت اس ملک کو ہے، اس سماج کو ہے، اس لیے اب مجھ سے پہلی سی محبت کی توقع نہ رکھیں تو بہتر ہو گا۔ یہ فیضؔ تھے، جنہوں نے روایت سے بہت کم انحراف کیا ہے لیکن اس کے بعد ایک ایسے شاعر کا نام آتا ہے، جس کا خمیر انقلاب اور رومان سے اٹھا تھا، جسے اردو شاعری کی تاریخ میں اسرارالحق مجازؔ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجازؔ نے حقیقت میں اپنی ترقی پسندی کا ثبوت دیا اور ’’نوجوان خاتون سے‘‘ خطاب کیا تو اسے نوجوانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا:

اگر خلوت میں تو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل
بھری محفل میں آکر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا

ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے

اگر تو سازِ بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے

تو سامانِ جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل کا اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

در اصل ترقی پسند نظریے کی یہ صحیح ترجمانی تھی۔ اب تک ہم نے جتنی مثالیں دی ہیں، ان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اردو شاعری میں محبوب کا تصور حسنِ بازاری سا کبھی نہیں تھا۔ اسے چراغِ خانہ ہی کا درجہ دیا جاتا تھا اور گھر کی چہار دیواری ہی اس کی زندگی کا محور تھی۔ مجازؔ نے اسے یہ ہمت عطا کی اور کہا کہ اگر جوانوں نے سنانیں کھینچ لی ہیں تو اسے سامانِ جراحت اٹھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے عورت مرد کے ہم قدم جنگ نہیں کر سکتی لیکن سامانِ جراحت لے کر مرد کے ساتھ ضرور چل سکتی ہے۔ یہ وہ خیال تھا، جس نے عورت کو ایک نیا مقام ہی نہیں بلکہ ایک بلندی بھی عطا کی۔ اس سے آگے بڑھ کر عورت کے وجود کی عظمت، عفت اور وقار کو مزید بلندی سلامؔ مچھلی شہری نے عطا کی۔ وہ مجازؔ سے بھی دو قدم آگے نکل گئے اور کہا:
مجھے تو ہمدمو ہم راز چاہیے ایسی

جو دستِ ناز میں خنجر بھی ہو چھپائے ہوئے
نکل پڑے سرِ میداں اڑا کے آنچل کو
بغاوتوں کا مقدس نشاں بنائے ہوئے
اٹھا کے ہاتھ کہے انقلاب، زندہ آباد
لہو سے مثلِ دلہن مہندیاں رچائے ہوئے
اب یہ بات بڑے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے عورت کو ترقی پسندوں نے مرد کے ہم پلہ لا کھڑا کیا۔ اسے زندگی میں مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا۔ عورت کا یہی تصور دیگر ترقی پسند شعرأ کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔
عورت کی عظمت، اس کی شناخت، اہمیت اور سماج میں اس کے وجود کی مسلمہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کیفیؔ اعظمی نے ’’عورت‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم کہی ہے۔ یہ نظم انسانی تاریخ میں عورت کی اہمیت، اس کی تاریخ اور عظمت کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کی گئی ہے۔ نظم طویل ہے لہٰذا اس سے مثال کے طور پر چند بند نقل کیے جاتے ہیں:
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے
فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لیے
قہر ہے تیری ہر اک نرم اداتیرے لیے
زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لیے
رت بدل ڈال اگر پھولنا پھلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے ایک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
تو فلاطون و ارسطو ہے تو زہرا پرویں
تیرے قبضے میں ہے گردوں تری ٹھوکر میں ز میں
ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں وقت بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
کیفی کی یہ نظم ایک طویل نظم ہے، جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار نہایت تسلسل کے ساتھ، انسانی تاریخ میں عورت کی حیثیت کوپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’عورت‘‘ کے علاوہ کیفیؔ نے عورت کے تئیں اپنے خیالات و نظریات کا اظہار ’’بیوہ کی خود کشی‘‘ ، ’’سپردگی‘‘ اور ’’انتساب‘‘ میں کیا ہے۔ ان نظموں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کا مرتبہ کتنا بلند ہے؟ وہ عورت کو کسی بھی صورت میں مرد سے کم تر نہیں سمجھتے۔
اس مضمون کی ابتدا وہاں سے ہوئی تھی، جہاں عورت ہر طرح سے مختلف قسم کی سماجی زنجیروں میں جکڑی نظر آ رہی تھی۔ اس کا گھر سے نکلنا سماج کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو قطعی گوارہ نہیں تھا مگر مضمون کے اختتام تک آتے آتے سماجی بندھنوں کی وہ زنجیریں ٹوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ اب اس کے گھر سے نکلنے، مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ پھر بھی کبھی کبھی کچھ ایسے واقعات سننے میں آجاتے ہیں، جن سے انسانیت شرم سار ہو جاتی ہے مگر امید ہے کہ قدرت کی اس بے مثال تخلیق کو اس کا اصل مرتبہ ایک دن مل کر رہے گا، خواہ اس میں ذرا سی دیر ہی کیوں نہ ہو جائے۔



نوٹ: یہ مضمون پہلی بار 2006ء میں شائع ہوا تھا، جسے میں نے اپنی کتاب ’’تنقیدِ شعر‘‘ میں بھی شامل کیا ہے جو کہ 2009 میں منظرِ عام پر آئی ہے۔  

2 تبصرے:

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...