ہفتہ، 17 نومبر، 2012

Yagana Changezi-Hum zaban-e-Aatash


یگانہ چنگیزی :ہم زبانِ آتَش

کلام یاس سے دنیا میں پھراک آگ لگی
یہ کون  حضرت آتَش کا  ہم زباں نکلا
     بیسویں صدی کے نصف اول میں جن شعرأ کے حصے میں بہت زیادہ شہرت و مقبولیت آئی، ان میں یاس یگانہ چنگیزی کا نام بھی خاص طور سے قابلِ ذکر ہے البتہ یہ بات الگ ہے کہ ان کو جتنی مقبولیت اپنی شاعری سے حاصل ہوئی، اس سے زیادہ تشہیر’’ غالب شکن‘‘ ہونے کے باعث نصیب ہوئی۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا ایک مخصوص رنگ ہے۔ ان کا تعلق کسی دبستان سے نہیں تھا۔ روزمرہ، محاورے، زبان اور لفظوں کے در و بست پر انہیں بڑی قدرت حاصل تھی۔ اسی سے اردو شاعری میں انہوں نے اپنی طبیعت کی جولانیاں خوب دکھائیں۔ 

     ان کا نام مرزا واجد حسین تھا۔ پہلے یاس تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں یگانہ ہوگئے۔ آپ کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے تھے اور سلطنت مغلیہ کے دامن سے وابستہ ہو گئے تھے۔ پرگنہ حویلی عظیم آباد میں جاگیریں ملیں اور وہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ یگانہ چنگیزی۲۷! ذی الحجہ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۷ /اکتوبر۱۸۸۴ کو پٹنہ کے محلے مغل پورہ میں پیدا ہوئے ۔  پانچ چھ سال کی عمر سے مکتب میں داخل ہوئے ۔ فارسی کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد عظیم آباد (پٹنہ) کے محمڈن اینگلو عربک اسکول میںنام لکھوایا گیا۔اسکول میں ہمیشہ اول رہے ۔ پڑھنے میں اچھے تھے ،اس لیے ہر سال وظیفہ اور انعام پاتے رہے ۔۱۹۰۳ میں انٹرنس پاس کیا ۔  ۱۹۰۴ میں مٹیا برج ،کلکتہ تشریف لے گئے ،جہاں شہزادہ مرزا مقیم بہادر کے صاحب زادوں شہزادہ محمود یعقوب علی مرزا اور شہزادہ محمد یوسف علی مرزا کی انگریزی تعلیم کے استاد مقرر ہوئے ۔ لیکن کلکتہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی اور کچھ دنوں بعد وطن واپس چلے آئے ۔ علاج کے سلسلے میں لکھنؤ آئے اور لکھنؤ کی فضا ایسی راس آئی کہ اچھے ہوکر بھی واپس جانا گوارا نہیں کیا ۔ لکھنؤ ہی میں ۱۹۱۳ میں شادی کرکے اسی کو اپنا وطن بنالیا۔
     یگانہ کا لکھنؤ کا قیام بڑا ہنگامہ خیز اور معرکہ آرا رہا ، جس کا اثر ان کے فن پر بھی پڑا ۔ معرکہ آرائیوں نے بھی ان کے فن کو جلا بخشی۔ شروع میں لکھنؤ کے شعرأ سے ان کے تعلقات خوشگوار تھے ۔ اتناہی نہیں وہ عزیز، صفی، ثاقب و محشر وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے تھے ۔ جب عزیز کی سرپرستی میں رسالہ ’’ معیار‘‘ جاری ہوا اور معیار پارٹی وجود میں آئی تو یگانہ بھی اس پارٹی کے مشاعروں میں غالب کی زمینوں میں غزلیں پڑھتے تھے ۔ ان طرحی مشاعروں کی جو غزلیں’’ معیار‘‘ میں چھپی ہیں، ان میں بھی یگانہ کی غزلیںشامل ہیں ۔ لیکن یہ تعلق بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا اور لکھنؤکے اکثر شعرأ سے یگانہ کی چشمک ہوگئی ۔  اس سلسلے میں مالک رام بہ زبان یگانہ تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ اب اس میں میرا کیا قصور ! یہ خدا کی دین ہے،میرا کلام پسند کیاجانے لگا ۔ باہر کے مشاعروں میں بھی اکثر جانا پڑتا ۔ میری یہ ہر دل عزیزی اور مقبولیت ان تھڑدلوں سے دیکھی نہ گئی ۔ ‘‘
(مرزا یگانہ چنگیزی، مضمون مشمولہ، میرزایگانہ :شخصیت اور فن, ص:۲۰)
     یگانہ سے اہلِ لکھنؤ کی چشمک کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ ’’ معیار‘‘ پارٹی کے مشاعروں میں ان کے کلام پر خندہ زنی کی جاتی تھی اور بے سروپا اعتراض کیے جاتے تھے مگر یہ سب کچھ زبانی ہوتا تھا ۔ اصلی اور تحریری جنگ کا آغاز خود یگانہ نے کیا ۔ اس کے بعد ایک دوسرے کے خلاف لکھنے کا سلسلہ چل پڑا، جس کی انتہا ’’ شہرتِ کاذبہ‘‘ نامی یگانہ کی کتاب ہے ۔ لکھنؤ کے شعرأ غالب کے بڑے قائل تھے، لہٰذا یگانہ کے لیے اب یہ بات بھی ناگزیر ہوگئی کہ وہ غالب کی بھی مخالفت کریں ۔ غالب کی مخالفت کے سلسلے میں انہیں اندھا مخالف نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ انہوںنے خود کہا ہے کہ :
"یہ کس نے آپ کو بہکا دیا کہ میں غالب کا مخالف ہوں، وہ یقینا بہت بڑا شاعر ہے۔  صاحب ! غالب کی صحیح قدر و منزلت مجھ سے زیادہ کون سمجھے گا ۔ مجھے غصہ اس بات پر آتا ہے کہ لوگ اس کے جائز مقام سے زیادہ اسے دینا چاہتے ہیں ۔  اور پھر قسم یہ ہے کہ یہ بھی وہ لوگ نہیں، جو اس کا صحیح مقام سمجھتے ہوں، بلکہ وہ جو تقلیداً اسے بڑا سمجھتے ہیں ۔۔۔ تو صاحب ! میں غالب کے خلاف نہیں تھا، اور نہ ہو ںلیکن میں اس کی جائز جگہ سے زیادہ اس کے حوالے کردینے پر تیار نہیں ۔"
 (مضمون از مالک رام مشمولہ ،میرزا یگانہ :شخصیت اور فن ،ص: ۱۹ )
     یگانہ نے اس مخالفت کے چلتے اپنے آپ کو ’’آتش کا مقلد‘‘ کہنا شروع کردیا اور اپنے مجموعۂ کلام ’’نشترِیاس‘‘ کے سرورق پر اپنے نام سے پہلے ’’ خاک پائے آتش ‘‘ لکھا اورجب اس کے ایک سال بعد ’’چراغِ سخن‘‘ شائع ہوا تو انہوں نے اپنے آپ کو ’’آتش پرست ‘‘ کے درجے تک پہنچا دیا ۔ اسی بنیاد پر انہوںنے آتش اور غالب کا تقابلی مطالعہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آتش، غالب سے بڑا شاعر ہے ۔ یہ مضمون رسالہ ’’ خیال ‘‘ میں نومبر۱۹۱۵ میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ ایک لمبی مدت تک جاری رہا ۔ اس غالب شکنی کی انتہا وہ رسالہ ہے، جو انہوں نے ۱۹۳۴ میں ’’ غالب شکن‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ اس رسالے کو دوبارہ مزید اضافوں کے ساتھ ۱۹۳۵ میں چھاپا ۔ اس مخالفت کی وجہ سے یگانہ کا اچھا خاصا وقت ضائع ہوگیا کیوں کہ اس مخالفت سے نہ تو شعرائے لکھنؤکا کچھ ہوا اور نہ ہی غالب کو کچھ نقصان پہنچا بلکہ یگانہ ہی خسارے میں رہے کہ اپنی شاعری پر پوری طرح توجہ نہ دے سکے ۔
    ان سب مخالفتوں اور معرکہ آرائیوں کے باوجود یگانہ کا ایک گروپ تھا، جن سے ان کے اچھے مراسم تھے ۔ ۱۹۱۹ میںانہوں نے ’’ انجمن خاصانِ ادب ‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی ۔ اس انجمن کے صدر: بیخود موہانی، سکریٹری: یگانہ اور جوائنٹ سکریٹری: عبدالباری آسی تھے۔ اس انجمن کے اعزازی رکن اور سرپرستوں میں فصاحت لکھنوی اور سید مسعود حسن رضوی ادیب جیسے لکھنوی اہل قلم بھی شامل تھے ۔
    زندگی کے دوسرے مشاغل کے ساتھ ساتھ یگانہ کی ملازمت کا سلسلہ بھی ناہمواری کا شکار رہا ۔ ایک عرصے تک وہ ’’ اودھ اخبار ‘‘ سے وابستہ رہے ۔ لیکن حتمی طور سے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ کب سے کب تک ،البتہ ’’ اودھ اخبار ‘‘ کے اڈیٹروں میں یگانہ کا نام شامل ہے ۔۱۹۲۴ میں یگانہ اٹاوہ چلے گئے ، جہاں انہیں اسلامیہ ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی ۔ مارچ۱۹۲۵ کے آس پاس وہ اٹاوہ کو چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے، وہاں ایک پریس میں انہیں ملازمت مل گئی۔ ۱۹۲۶ میں انہوں نے لاہور کا رخ کیا اور ’’ اردو مرکز ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں کا ماحول انہیں راس آیا۔ یہاں کے ادیبوں سے ان کے بہتر مراسم رہے ۔ کئی کتابوں اوررسالوں کے چھپنے کی سبیل پیدا ہوئی ۔ اقبال کے یہاں بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا ۔ اقبال بھی یگانہ کے بڑے قائل تھے ۔ ۱۹۲۷ میں یگانہ ’’ اردو مرکز‘‘ سے علاحدہ ہوگئے لیکن قیام لاہور ہی میں رہا ۔ لاہور کے بعد انہوں نے حیدرآباد دکن کا رخ غالباً۱۹۲۸ میں کیا ۔ حیدرآباد میں ان کا قیام ان کے لیے کافی آسودگی لے کر آیا ۔ جہاں ان کا تقرر نثار احمد مزاج کے توسط سے محکمہ رجسٹریشن میں ’’نقل نویس‘‘ کی حیثیت ہو گیا۔ یہا ںان کی آمدنی پچیس تیس روپے ماہوار تھی اور کبھی کبھی زیادہ بھی ہوجاتی تھی ۔۱۹۳۱ میں یگانہ محکمۂ رجسٹریشن میں باقاعدہ ملازم ہوگئے ۔ یہ جگہ سب رجسٹرار کی تھی ۔ اس طور سے وہ ’’ عثمان آباد‘‘ ، ’’لاتور‘‘ اور ’’یادگیر‘‘ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور ۱۹۴۲ میں ۵۵ برس کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا ۔ ۱۹۴۶ میں وہ بمبئی گئے اور وہاں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو ملازمت دلوائی ۔ حیدرآبادمیں نواب معظم جاہ نے انہیں اپنے دربار سے وابستہ کرناچاہا لیکن یگانہ راضی نہ ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یگانہ بار بار حیدرآباد روزگار کی امید سے آتے رہے لیکن انہیں مایوسی ہی نصیب ہوئی ۔ ان کے حالات دن بہ دن ابتر ہوتے گئے اور اسی عالم میں انہوںنے تین یاچار فروری۱۹۵۶ کو داعی اجل کولبیک کہا ۔
    یگانہ کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ نشترِ یاس‘‘۱۹۱۴ میں شائع ہوا ۔ اس کا بڑا حصہ ان کے ابتدائی اور روایتی کلام پر مشتمل ہے ۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’ آیاتِ وجدانی‘‘ کے نام سے ۱۹۲۷ میں منظر عام پر آیا ۔ یگانہ کی قدر و منزلت کا دارو مدار بڑی حد تک اسی مجموعے پر ہے ۔ ’’ آیاتِ وجدانی ‘‘ کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ ’’ ترانہ ‘‘ کے نام سے سات سال بعد ۱۹۳۳ میں شائع ہوا ۔ ۱۹۳۴ میں ’’آیاتِ وجدانی ‘‘ کا دوسرا اڈیشن منظر عام پر آیا ۔-۱۹۴۵۴۶ میں اس مجموعے کا تیسرا اڈیشن بھی آگیا ۔ اس اشاعت کا کام پہلی اشاعتوں سے بہتر تھا ۔ ۱۹۴۶میں جب یگانہؔ بمبئی گئے تھے، اس وقت ان کی ملاقات سید سجاد ظہیر سے ہوئی تھی ۔ ان کے لیے یگانہ نے اپنے تمام مجموعوں میں شامل کلام کو ’’گنجینہ‘‘ کے نام سے مرتب کردیا ۔ یہ مجموعہ کمیونسٹ پارٹی کے اشاعتی ادارے سے ۱۹۴۷ میں شائع کیا گیا ۔ اس کے علاوہ انہوںنے چند کتابچے بھی لکھے تھے ۔ مثلاً ’’ شہرتِ کاذبہ ‘‘ جسے خرافاتِ عزیز کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے ’’ غالب شکن ‘‘ بھی شائع کیا ، جس سے لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں بڑی اٹھا پٹک ہوئی ۔
یگانہ کی شاعرانہ خصوصیات:
    یگانہ ایک کلاسیکی غزل گو شاعر تھے ۔ حالانکہ انہوں نے قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں لیکن ان کی اصل پہچان ان کی غزلیں ہی ہیں ۔ انہوںنے غزل کے موضوعات کے دائرے کو ایک نئی جہت اور اونچائی عطا کی اور ایسے مضامین نظم کیے جو پہلی بار حقیقت پسندانہ کیفیت کے ساتھ غزل کے افق پر نمودار ہوئے ۔ وہ خود اپنی ذاتی زندگی میں، جس طرح کے شیریں و تلخ تجربات سے گزرے تھے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کا جس طرح تجربہ کیا تھا ، اس سے ان کے دل و دماغ نے جو تاثرات قبول کیے تھے ، انہیں واقعات نے ان کی غزلوں کو اصلیت پسندی اور تابناکی بخشی ۔ان کی غزل گوئی ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے ۔ وہ ایک خود دار اور صاف گو انسان تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی اس کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے ۔
    یگانہ کی شاعری میں جو چیز سب سے پہلے دل پر اثر کرتی ہے، وہ ہے ان کا زورِکلام ۔ بندش کی چستی کے علاوہ بلند بانگ مضامین کے لیے ایسے الفاظ لے آتے ہیں، جو پوری طرح مفہوم کو ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ خیالات کو بھی جلا دیتے ہیں ۔ دوسری چیز جو ان کی شاعری میں دلکشی پیدا کرتی ہے وہ ہے ’’طنز‘‘ ،ان کی شاعری کا یہ عنصر کہیں کہیں اتنا تیز اور تیکھا ہوتا ہے کہ زور بیان کا لطف دوبالا کردیتا ہے ۔
انسان کا انسان فرشتے کا فرشتہ          انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا         خدا تھے کتنے مگر کوئی آڑے آنہ گیا
کیسے کیسے خدا بنا ڈالے           کھیل بندے کا ہے خدا کیا ہے
حال دونوں کا ہے غیر،اب سامنا مشکل کا ہے
دل کو میرا درد ہے اور مجھ کو رونا دل کا ہے
جو  خاک کا  پتلا،  وہی صحرا کا بگولہ
مٹنے پہ بھی اک ہستی برباد رہے گی
’’دردِدل  کے  واسطے  پیدا  کیا  انسان  کو ‘‘
زندگی پھر کیوں ہوئی ہے دردِ سر میرے لیے
    یگانہ کے کلام میں تخیل کی بلند پروازی اور فکر کی بالیدگی دیکھتے ہی بنتی ہے ۔ وہ حقائق کو عالمِ بالا سے چن کر لاتے ہیں اور نہایت صفائی و سادگی کے ساتھ اشعار میں سمو دیتے ہیں ۔ بندش ایسی ہوتی ہے کہ الفاظ و تراکیب میں مطلب ومفہوم الجھنے نہیں پاتا ۔ ان کے کلام میں زیادہ تر حوصلہ اور ہمت افزائی کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں ۔ مصیبتوں میں گِھرجانے کے باوجودبھی انسان کو ہمت کسی بھی صورت میں ہارنا نہیں چاہیے ۔
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
ہمیں سر مار کر تیشے سے مرجانا نہیں آتا
بزم دنیا میں یگانہ ایسی بیگانہ روی     میں نے مانا عیب ہے لیکن ہنر میرے لیے
رات دن شوقِ رہائی میں کوئی سر پٹکے  کوئی زنجیر کی جھنکار سے دیوانہ بنے
واہ کس ناز سے آتا ہے ترا دور شباب      جس طرح دور چلے بزم میں پیمانے کا
باز آ ساحل پہ غوطے کھانے والے باز آ  
ڈوب مرنے کا مزہ دریائے بے ساحل میں ہے
بلند ہوتو کھلے تجھ پہ راز پستی کا         بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
    یگانہ ایک خود دار،حق گو اور بے باک انسان تھے اور یہی خصوصیات ان کے کلام میں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کی خودداری کہیں کہیں ’’ اناپرستی ‘‘ سے جاملتی ہے ، جسے بعض ناقدین نے ان کی ’’کجروی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ اپنے دور میں انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی ،جس کے وہ مستحق تھے ۔ ان کی زندگی کشمکش، آزمائش اور اتار چڑھاؤ سے عبارت تھی، اس کے باوجود ان کی شاعری میں زندگی سے فرار، مایوسی اور پست ہمتی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے کو طئے کرنے کی ان میں بڑی جرأت تھی ۔ میرا خیال ہے شاید اسی وجہ سے ان کے کلام میں مایوسی، قنوطیت اور حرماں نصیبی نہیں پائی جاتی ۔
ہنوز زندگی تلخ کا مزا نہ ملا
کمال صبر ملا صبر آزمانہ ملا
بہار آئے گی پھر یاس ناامید نہ ہو            ابھی تو گلشن ناپائدار باقی ہے
دل ہے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پیے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں، کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا   ہوں  مگر  دنیا  کو  سمجھانا  نہیں  آتا
رہائی کا خیالِ خام ہے یا کان بجتے ہیں؟
  اسیرو، بیٹھے کیا ہو گوش بر آوازِ در ہوکر
پاؤں ٹوٹے ہیں مگر آنکھ ہے منزل کی طرف
کان اب تک ہوس بانگ درا کرتے ہیں
     یگانہ کے کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں فارسی ترکیبوں کے استعمال سے کافی لگاؤ تھا ۔ تشبیہات کی جدت سے وہ طرزِبیان میں تازگی پیدا کرتے ہیں ۔ ان کے مصرعے نہایت چست ہوتے ہیں ۔  ان کے یہاں الفاظ کی بندش سے اشعار میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مثلاً:
وحشت آباد عدم ہے وہ دیارِ خاموش
کہ قدم رکھتے ہی ایک ایک سے بیگانہ بنے
حسن وہ حسن کبھی جس کی حقیقت نہ کھلے
رنگ وہ رنگ جو ہر رنگ میں شامل ہوجائے
چشمِ نامحرم سے، غافل، روئے لیلیٰ ہے نہاں
ورنہ اک دھوکا ہی دھوکا پردۂ محمل کا ہے
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
     یگانہ نے صرف اپنا تخلص ہی یاس سے یگانہ (-۱۹۲۰۲۱ میں ) نہیں کیا بلکہ ۱۹۳۲ تک پہنچتے پہنچتے، اس میں چنگیزی کا اضافہ بھی کرلیا ۔ اس کے بارے میں خودلکھتے ہیں کہ:
’’ جس طرح چنگیز نے اپنی تلوار سے دنیا کا صفایا کردیا تھا، اسی طرح جب سے میں نے غالب پرستوں کا صفایا کرنے کا تہیہ کیا ہے، یہ لقب اختیار کیا ہے۔ ‘‘
(بحوالہ : یگانہ سوانحی خاکہ، مشمولہ، کلیاتِ یگانہ چنگیزی، ص  ۶۸)
     یہ تبدیلی صرف تخلص تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نظریات و افکار میں بھی تبدیلی کی دلالت ہے۔اہلِلکھنؤ سے ان کے معرکے نے انہیں اور خود سر اورپر اعتماد بنا دیا ۔ انہیں معرکوں کے باعث ان کے لہجے میں تیزی آئی۔یہاں یگانہ کے کلام سے کچھ ایسے شعر دیکھتے چلیں، جن سے ان کے لہجے کا انوکھا پن ہی نہیں بلکہ تیکھا پن بھی سامنے آجائے توشاید کوئی مضائقہ نہ ہو۔
کون دیتا ہے ساتھ مردوں کا          حوصلہ ہے تو باندھ ٹانگ سے ٹانگ
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کرچکے اب ترک دعا کرتے ہیں
کلامِ یاس سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
یہ کون حضرتِ آتَش کا ہم زباں نکلا
دن چڑھے سامنا کرے کوئی        شمع کیا شمع کا اجالا کیا
صبر کرنا سخت مشکل ہے، تڑپنا سہل ہے
اپنے بس کا کام کرلیتا ہوں آساں دیکھ کر
          مندرجہ بالا اشعار یگانہ کی یگانہ روی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے ان کا کلام ان کے کسی ہم عصر سے کم تر نہیں ہے۔ روزمرہ، محاوروں کا استعمال، طرزِ ادا، کلام میںروانی اور بے ساختگی یگانہ کی خاص پہچان بن گئے تھے ۔ ان کی شاعری کی خصوصیات پرگفتگو ہو اور بات رباعیوں کی نہ کی جائے تو ناانصافی ہوگی ۔ انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی ایک طرح کی جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ دیگر شعرأ سے ان کا رنگ الگ رہے ۔ اس فراق میں انہوں نے ایسی بندشیں اور محاورے استعمال کیے جو منجھے ہوئے نہیں تھے یا جن پر زبان کی صفائی نے ابھی تک جلا نہیں بخشی تھی ۔ لیکن یہ بات طئے ہے کہ یگانہ کو رباعی کے فن پر کامل عبور تھا ۔وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ رباعی کے چوتھے مصرعے میں خیال کی تان ٹوٹتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیاں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں ۔ انہوں نے غالب کے کلام پر بھی رباعی میں اظہار خیال کیا تھا ۔ یگانہ کی رباعیوں کے مجموعے کا نام ’’ ترانہ ‘‘ ہے، جسے کافی سراہا گیا ہے ۔ ان کی رباعیوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے تمام تر رباعیوں کو عنوان دے کر رقم کیا ہے ۔ مثلاً : ’’ تحفۂ  درد‘‘ ملاحظہ ہو:
دل کو پہلے ٹٹول لیتا ہوں
پھر تحفۂ درد مول لیتا ہوں
آثارِ زلال و درد و مستی و خمار
آنکھوں آنکھوں میں تول لیتا ہوں
’’ حسن دو روزہ ‘‘
سورج کو گہن میں نہیں دیکھا شاید
 کیوں، چاند کو گہن میں نہیں دیکھا شاید
اے حسن دو روزہ پہ اکڑنے والو
یوسف کو کفن میں نہیں دیکھا شاید
’’ٹیڑھے مرزا‘‘
شاہوں سے مری کلاہ ٹیڑھی ہی رہی
بد مغزوں سے رسم و راہ ٹیڑھی ہی رہی
ٹیڑھے مرزا کو کون سیدھا کرتا
سیدھی نہ ہوئی نگاہ ٹیڑھی ہی رہی
     یگانہ نے غالب شکنی کے باعث بڑی بدنامی مول لی لیکن یہ بدنامی ایسے ہی نہیں تھی بلکہ انہوں نے بہت سی رباعیاں اس سلسلے میں کہی تھیں ۔ ان کی اس رنگ کی بھی چند رباعیاں پیش ہیں تاکہ حقیقت کا اندازہ کیا جاسکے ۔
غالب کے سوا کوئی بشر ہے کہ نہیں
اوروں کے بھی حصے میں ہنر ہے کہ نہیں
مردہ بھیڑوں کو پوجتا ہے ناداں
زندہ شیروں کی کچھ خبر ہے کہ نہیں

اللہ ری ہوا وہو میں خلعت و زر
مرزا کا سر ہے اور انگریز کا در
ہاں کیوں نہ ہوں مورکھوں کے دیوتا غالب
ہے باؤلے گاؤں اونٹ بھی پرمیشر
          یگانہ چنگیزی کی شاعرانہ خصوصیات پر ہم نے اب تک جتنی باتیں کیں اور ان کے حوالے سے جتنی مثالیں پیش کیں، ان سے یگانہ  کی شاعری اور ان کے زبان و بیان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یگانہ کی شاعری  اور ان کے خاص رنگ کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے خاص خاص رنگ اس مضمون سے واضح ہوجائیں ۔

پرویز احمد اعظمی،
نیا دور لکھنو، مارچ ۲۰۱۱

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...