جمعہ، 30 نومبر، 2012

Deewan-e-Ghalib ki Pahli Ghazal: Tafheem-o-Tajzia

دیوانِ غالب کی پہلی غزل : تفہیم و تجزیہ 

غالب کی تفہیم کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے کو محیط ہے ۔ اس عرصے میں کتنے ہی دانشور، شارحین اورمحققین نے غالب کی شاعری کی مختلف جہا ت کا احاطہ کر نے کی کوششیں کیں لیکن کیا ان مفا ہیم تک ان کی رسائی ممکن ہو سکی؟ کیا شعر کے ان تمام پہلو ؤں کا احاطہ کر لیا گیا؟ جوکہ شاعر کا اصل مد عا تھا۔ کیاحقیقت میں ان مفاہیم تک شارحین پہنچ سکے جوکہ شاعر بیان کرنا چاہتا تھا؟ کیوں کہ غالب نے اپنے اشعار کی جو شرح خود پیش کی تھی، اسے ان کے لائق و فائق شاگرد یعنی حالی نے قبول نہیں کیا اور حالی نے جو تا ویل پیش کی، اس سے مختلف نظم طبا طبا ئی نے شرح پیش کی۔ اسی طرح طباطبا ئی کو حسرت موہانی نے، حسرت موہانی کو بیخود مو ہانی نے قبول نہیں کیا اور یہ سلسلہ یوں ہی شمس الرحمٰن فاروقی تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ اگر کسی ایک کی تاویل سے دوسرا سخن شناس مطمئن ہو تا تو شاید مزید تشریح کی ضرورت نہ پیش آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرعہد میں سخن فہم حضرات نے غالب کو اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کو ششیں کی ہیں اوراس سلسلے کے آئندہ بھی جاری رہنے کے قوی امکانات ہیں۔ میں تفہیمِ غالب میں کوئی اضا فہ تو نہیں کر سکتا، پھر بھی دیوانِ غالب کی پہلی غزل کے بارے میں، جسے ان کی سب سے زیادہ مشکل غزل سمجھا جاتا ہے، دو باتیں عرض کر نا چا ہتا ہوں ۔
غزل کا مطلع اپنے عہد کی روایت سے مختلف ہی نہیں بلکہ منفرد بھی ہے، جس میں غالب نے تنظیم دوجہاں اورانسانی تقدیر پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی حوصلہ مندی اور فکری بلندی تھی ورنہ زمانے کاعام چلن بنے بنائے راستوں پر ہی چلنے کا رہا ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شو خیِ تحریر کا 
 کاغذی ہے پیر ہن، ہر پیکرِتصویر کا

مطلعے کو پڑ ھتے ہی غالب کا یہ شعر :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے         جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے
بے سا ختہ ذہن میں آجا تا ہے اورغا لب کے ’’گنجینۂ معنی کے طلسم ‘‘ کا قا ئل ہو نا پڑ تا ہے۔ کیوں کہ اس شعر میں جس قدر معنوی پہلو پو شیدہ ہیں، اسی قدر صنعتیں بھی موجود ہیں۔ اس طرح کی تہ داری شاعری میں عام نہیں۔ اس شعر کی تشریح خود غا لب نے کی ہے کہ ’’نقش کس کی شو خیِ تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورت تصویر ہے، اس کا پیر ہن کا غذی ہے ۔ یعنی ہستی اگر چہ مثل تصا ویر اعتبار محض ہو، موجب رنج و آزار ہے ‘‘۔
شعر کی گرہ کھو لنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے شعر کے کلیدی لفظ کو تلاش کر لیا جائے ۔ اس کے ہاتھ آجانے کے بعد شعر کی گر ہیں خود بخود کھلتی چلی جائیں گی ۔ زیر بحث شعر میں لفظ ’’کِس‘‘ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے بعد ’’نقش‘‘ اور’’شوخیِ تحریر‘‘ خاص تو جہ کے طالب ہیں۔ اگر ’’کِس‘‘ کو خالقِ کونین کا استعارہ تسلیم کر لیا جائے تو شعر کے معنی کسی حد تک واضح ہو جائیں گے لیکن شعر کی معنو یت محدود ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ’’کِس کی‘‘ کے استفہام کا لطف بھی جاتا رہے گا، جو کہ اس شعر کی حقیقی جاذبیت ہے۔ پھر بھی اتنا کہا جاسکتا ہے کہ’’کِس‘‘ کا اشارہ خالقِ مطلق کی طرف ہی ہے کہ اس نے ازراہِ شوخی تصویر کو ناپائیدار بنایا ہے، اسی لیے تصویر اپنی زبان بے زبانی سے فریاد کر رہی ہے کہ جب ہستی کو نا پا ئیدار ہی بنا نا تھا تو اس میں اس درجہ کمال، اس درجہ کشش رکھنا کیا ضروری تھا ؟
دنیا کی یہ رنگا رنگی یہ کشش یہ دلفر یبی اور موہ کیا ہے ؟ جب کہ ہر چیز فانی ہے۔ 
قدیم زمانےہی میں  کیا آج بھی یہ چلن عام ہے کہ شعری مجموعوں کے آغا ز میں حمد، نعت اور منقبت  کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غالب نے روش عام سے گریز کرتے ہوئے، دیوان کے پہلے ہی شعر میں تخلیقِ کا ئنات پر سوالیہ نشان لگایا۔ اس شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غا لب کا ئنات کے فلسفے کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کا ئنات کا راز کیا ہے؟ جہاں ہر شئے مجبورو لاچا ر دکھا ئی دیتی ہے اورشاید اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہی انہوں نے کہا تھا کہ :
سبزہ و گل کہا ں سے آئے ہیں ؟
ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے ؟
جب کہ تجھ بن نہیں کو ئی موجود ہے 
پھر یہ ہنگا مہ ائے خدا کیا ہے ؟
اب شعر کے اس مفہوم کی طرف رخ کر تے ہیں، جس کا ذکر عموماً کیا جاتا ہے کہ ایران میں رسم تھی کہ فریادی فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر دربار میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ کیوں کہ  کاغذ کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، یہ ہوا کے تیز جھو نکے سے، آگ کی گرمی سے، حتٰی کہ ذرا سی رگڑ لگنے سے بھی تار تار ہو سکتا ہے، لہٰذا کا غذی پیرہن فریادی کی بے بساطی کی دلیل سمجھا جاتا تھا یعنی اس دنیا میں انسان کی ہستی ٹھیک کا غذی پیرہن کی طرح ہے، جس کی کہ کوئی ساکھ ،کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ چوں کہ مصور، تصویر کو کاغذ پر بناتا ہے، جس کا وجود عارضی اور بے بساط ہوتا ہے، اس لیے تصویر اپنے خالق سے جدائی پر فریاد کر رہی ہے۔ 
زیربحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کا غذ ی ہے پیرہن ہرپیکرِتصویرکا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے، لہٰذا ’’شوخیِ تحریر‘‘ سے اگر انسانی ’’شعور و احساس‘‘ مراد لیے جائیں اورسا تھ ہی ساتھ فرشتوں اور تمام جانداروں کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان کی عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے جو کہ خالق کائنات کی ’’شوخیِ تحریر‘‘ کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔
غا لب کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے، اس بات کو خاص طورسے ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی شاعری کا اصل جوہر استفہام، فلسفہ، فکر کی بلندی اور احساس کا وہ انوکھا پن ہے جو ہمارے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ اس لیے ان کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں مذکورہ با توں کا لحاظ خصوصی طورپر رکھنا ہوگا۔ اس شعر پر اگرصنائع لفظی اورمعنوی کے اعتبار سے غور کریں تو تلمیح، استعارہ، تجاہلِ عارفانہ، تجنیس صوتی اور حسن تعلیل کا ذکر کرنا ناگریز ہوگا لیکن ذہن نشین رہے کہ غالب کی شاعری میں ان چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اورتفکر و تخیل کی اول۔ اس شعر کے مفہوم کو واضح کر نے میں غالب ہی کا ایک شعر ہماری رہنمائی کچھ اس طرح کر رہا ہے کہ :
نہ تھا کچھ، توخدا تھا؛ کچھ نہ ہوتا، تو خدا ہو تا 
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہو تا؟ 
اس شعر کا پہلا مصرع بالکل واضح ہے اوردوسرا ہماری رہنمائی اس طرح کر رہا ہے کہ میرے وجود نے یا میرے ہو نے نے، مجھ کو یعنی انسان کو خوار و رسوا کیا ہے ورنہ میں تو ’’کُل‘‘ کا ’’جُز‘‘ تھا مگر افسوس کہ ’’کُل‘‘ سے بچھڑنے کے باعث میں کہیں کا نہیں رہا ۔ اس شعر کے اور بھی پہلو ہیں مگر ان کی تفصیل کا محل یہ نہیں ۔ اب ایک بار پھر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تصویر مصور سے یا ’’نقش‘‘ اپنے خالق سے جدا ہونے اوراپنے وجود کے عارضی ہونے کی شکا یت کر رہا ہے۔ 
کاو کاوِ سخت جانی ہا ئے تنہائی نہ پوچھ 
صبح کرنا شام کا، لا نا ہے جوئے شیر کا
اس شعر کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ انتظار محبوب میں رات گزارنا، جوئے شیر لانے کے مترادف یعنی اتنہا ئی دشوار گزار امر ہے۔ ائے سخت جان محبوب، میری تنہا ئی کے بارے میں مت پوچھ کیوں کہ جو کاوشیں، جو تدبیریں اور جو کوششیں میں اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے کرتا ہوں وہ جوئے شیر لانے سے کسی صورت بھی کم نہیں۔
اس شعر کا ایک مفہو م یہ بھی ممکن ہے کہ جوئے شیر لانے یا کوہ کنی کی تمام مدت میں جو مشکلیں، صعوبتیں اورجو سختیاں فرہاد پر گذریں، وہ مجھ پر ہر رات گذرجاتی ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر انتظار محبوب میں شام کو صبح کر نے کے اپنے عمل کو، کوہکن کی صعوبتوں سے بڑھ کر ثابت کرنا چاہ رہا ہو یا یہ کہ فرہاد پر جو گذری ہو سوگذری ہو لیکن میری مشکل، مجھے تو اس سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے۔ اگر شبِ تنہا ئی سے دنیاوی زندگی مراد لی جائے تو اس کی صبح کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ کوہ کنی کرنا۔
اگر صبح کو سفید اور شام کو سیاہی کی تمثیل تسلیم کر لیا جائے تو سیا ہی کے  بطن سے سفیدی پیدا کرنے کے عمل کو جوئے شیر لانے کے مترادف کہا جاسکتا ہے۔
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چا ہیے
سینۂ شمشیر سے باہرہے دم شمشیر کا 
اس شعر کی بنیاد ’’حسنِ تعلیل‘‘ پر ہے۔ اس لیے سب سے پہلے حسنِ تعلیل کی تعریف جان لینا مناسب ہوگا ۔’’تعلیل کے معنی ہیں وجہ بیان کرنا، وجہ متعین کرنا۔ یہ اس عمل کی خو بی و ندرت کی مثال ہے جب کہ کسی عمل یا واقعے کے لیے کو ئی ایسی وجہ بیان کی جائے جو چا ہے واقعی نہ ہو مگر اس میں کو ئی شاعرانہ جدت و نزاکت ہو اوربات فطرت اور واقعے سے مناسبت بھی رکھتی ہو تو اسے حسنِ تعلیل کہتے ہیں‘‘۔ چو نکہ ’دَم‘ لفظ اس شعر میں کلیدی حیثیت کاحامل ہے، اس لیے یہاں لفظ ’دَم‘ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ’دَم‘ کے معنی ہیں سانس، روح، جان، تلوار کی دھار، باڑ وغیرہ۔ تلوار کی دھار اندر کی طرف نہیں بلکہ باہر کی طرف ہو تی ہے، جو ایک فطری چیز ہے لیکن غالب نے جس خوبصورتی سے حسنِ تعلیل کی بنیاد پر اس شعر کی بند ش کی ہے، اس کالطف اہلِ نظر ہی جانتے ہیں۔ تلوار کے ’دَم‘ کو یا تلوار کی دھار کے باہر ہو نے کو اس کے قتل کر نے کی آرزو، عاشق کے جذبۂ بے اختیا ر شوق پر محمول کرنا، شا عرانہ جدت اور فکرکی با لید گی کا کمال ہے۔ 
عاشق کہتا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی آرزو میں تلوار اس قدر بے اختیار، بے قا بو ہوئی جا رہی ہے کہ دمِ شمشیر، سینۂ شمشیر سے با ہر نکل آیا ہے۔
محا ورہ ’’آپے سے باہر ہونا‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ عاشق کو قتل کر نے کے لیے تلوار اس قدر بے اختیار ہوئی جا رہی ہے کہ اس کا دم اس کے سینے سے باہرنکل آیا ہے ۔
عاشق کے شوقِ شہا دت کو دیکھ کر شمشیر کے بے اختیار ہو نے میں ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمشیر، شمشیرِحقیقی نہ ہو کر محبوب کے ناز و ادا کی شمشیر ہو، جس سے قتل ہو نے کے لیے عاشق بے قرار ہے کہ کاش میرا محبوب مجھے اپنے عشوہ و غمزے سے قتل کر دیتا تو میرے دل کی مراد پوری ہو جاتی ۔
آگہی، دامِ شنیدن جس قدر چا ہے بچھا ئے 
مدَّعا عنقاہے اپنے عالم تقریر کا 
زبان اظہار کا محض ایک ذریعہ ہے۔ شاعر جو کچھ کہنا چا ہتا ہے، اس کا اصل مقصد ان لفظوں اوربین السطور میں پنہاں ہوتا ہے، جن کا کہ وہ استعمال کر تا ہے یعنی اس کا منشا یہ ہو تا ہے کہ فکر و تخیل کی جس سطح سے اس نے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں تک سا مع و قاری کی رسا ئی ان لفظوں کے وسیلے سے ہو جائے، جن کا کہ شاعر نے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر قاری و سامع کی رسائی فکر کی اس سطح تک ہو ہی جائے، جہاں سے کہ شعر کہا گیا ہے کیوں کہ اس میں قاری وسامع کی بصیرت، سخن فہمی اورلیاقت کا دخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعر زیرِبحث میں غا لب چیلنج کر تے نظر آتے ہیں کہ :
آپ کی قوت فہم، سخن شناسی اور سخن فہمی کی صلا حیت، خواہ کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لے، اپنی لیاقت اور عقل مندی کے گھوڑے خواہ کتنے ہی کیوں نہ دوڑا لے مگر میں جس بلندی سے جو بات کہنا چاہتا ہوں، وہاں تک آپ کی رسائی ممکن نہیں ہے اور قطعی نہیں ہے۔ اس مو قع پراس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ غا لب کے ہم عصرانہیں مہمل گو کہا کر تے تھے۔ ممکن ہے اس شعرمیں ان حضرات کی طرف غالب کا تخاطب ہو۔ ساتھ ہی اس شعر میں یہ بات بھی پنہاں ہے کہ شاعر کو اپنی شاعری کے معیار اوراس کی دائمیت کا کسی قدر اندازہ ہوگیا تھا، جبھی تو انہیں بارگاہ ایزدی میں اپنے ہم عصروں کے لیے یہ دعا مانگنی پڑی تھی کہ :
یا رب! نہ وہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات 
دے او ردل ان کو ، جو نہ دے مجھ کو زباں اور 
ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری شاعری تمہا ری سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہی ہے کہ میں آج کا نہیں بلکہ آئندہ آنے والے زمانے کا شاعر ہوں۔ شاید اسی لیے انہیں یہ کہنا پڑا:
ہوں گر میِ نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشنِ ناآفریدہ ہوں 
زیر بحث غزل کا آخری شعر ہے :
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتش زیرِپا یعنی اضطرا بی کیفیت، بے چینی اور بے قراری۔ شاعر کہتا ہے کہ قید ہونے کے باوجود میری کیفیت سیمابی ہے اورمیرے جو شِ جنوں کے سامنے زنجیرکی کو ئی حیثیت نہیں ہے۔
گرفتارِ عشق، گرمیِ عشق سے بے قرار ہے اورعاشق کی آتشِ عشق سے زنجیرموئے آتش دیدہ یعنی بے وقعت ہو کے رہ گئی ہے۔ مذکورہ شعر کے مفہوم سے ملتا جلتا غالب کا ایک اور شعر ہے:
گر کیا نا صح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی 
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟
اب شعر کا مفہوم یہ ٹھہرا کہ عاشق کو گرفتار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ عاشق کی گرفتاری سے اس کا جنونِ عشق، نہ ہی کم ہوتا ہے اورنہ ہی فنا ہوتا ہے بلکہ اور فروغ پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عاشق کی سیمابی کیفیت نے یعنی اس کی آتش زیرپا ئی نے، زنجیر کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔
اب ہم ایک بار پھر جب غزل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس غزل کی ابتدا فطرت کے جبر سے ہو ئی تھی، جس کا انسان کے پاس کوئی چا رہ نہیں۔ فطرت کے سامنے انسان مجبور و بےبس ہے لیکن مقطعے تک آتے آتے بات اختیار کی منزل تک آگئی، جہاں انسان کی آتش زیرپائی نے فطرت کی زنجیروں کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی مجبوریوں کو موئے آتش دیدہ بنا دیا ہے اوراس طرح فطرت کے جبر کی گرفت ڈھیلی ہوتی نظر آتی ہے، اتنا ہی اس کا اختیار ہے اور بس۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...