ہفتہ، 14 ستمبر، 2024

ساغر صدیقی کی ایک حکایت


 ساغر صدیقی کے والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں، کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے۔ غصہ میں اس لڑکی کے گھر والوں نے لڑکی کی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی جو کامیاب نہ ہوئی لیکن ساغر اپنے گھر کی ۔تمام آسائش و آرام چھوڑ چھاڑ کر لاہور رہنے لگا۔

جب اس کی محبوبہ کو پتہ چلا کہ ساغر داتا دربار ہے تو وہ داتا صاحب آ گئی کافی تلاش کے بعد آ خر تاش کھیلتے ہوئے ایک نشیڑیوں کے جھڑمٹ میں ساغر مل ہی گیا۔ اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے میرے خاونذ نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور ہماری داستان محبت سن کر مجھے طلاق دے دی ہے۔ اب اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو۔ ساغر نے کہا:

بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ہم وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں
غربت، ڈپریشن، ٹینشن کی وجہ سے ساغر صدیقی کے آخری چند سال نشے میں گزرے اور وہ بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے۔ گلیوں میں فٹ پاتھ پر سویا کرتے تھے لیکن اس وقت بھی انھوں نے شاعری کرنا نہ چھوڑا۔
میری غربت نے میرے فن کا اڑا یا ہے مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغؔر کو خدا یاد نہیں                     ساغر صدیقی
کہتے ہیں کہ جب جنرل ایوب خان صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ایوب خان صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ اسٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے اسٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی۔ یقینا" کسی نے خون کے آنسوؤں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے: جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لیے خوش خبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے۔ جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دنگ رہ گئے ۔اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں۔ جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاؤ اور کہنا کہ جنرل ایوب خان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انھوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟ کون سا شاعر؟ ارے !آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے۔ چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں۔ جب وہ جنرل ایوب خان صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو جنرل صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے۔ جاؤ، ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی۔ اسی لیے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بہ شمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لیے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اصرار کے بعد وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے جنرل صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لیے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئی اور پھر انھوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا کہ:
جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
میری غربت نےاڑایا ہے میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
جب نامور گلو کار مہدی حسن نے یہ غزل گائی تو ان کی آواز میں یہ غزل ہندستان بھی پہنچی اور اسے دیگر ہندوستانی گلوکاروں نے بھی گایا ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دن ساغر صدیقی سوتر منڈی (پاکستان) میں ایک پان کی دکان کے سامنے سے گزر رہے تھےتو اس وقت آل انڈیا ریڈیو کے کسی اسٹیشن سے کوئی گلوکار ،ان کی یہی غزل گا رہا تھا، ساغر صدیقی رک گئے ۔غزل کے اختتام پر اناؤنسر نے جب یہ کہا ''ابھی آپ پاک و ہند کے مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غزل سن رہے تھے'' تو ساغر نے ہنس کر کہا ''واہ رے مولا! ان کو معلوم ہی نہیں کہ ساغر کس حال میں زندہ ہے'' اور یہ شعر کہہ کر چل دیے :
ساقیا تیرے بادہ خانے میں ۔۔۔۔ نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں ۔۔
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انھیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے
فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ بڑا اندھیرا ہے
جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
بنام زہرہ جبینان خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ بڑا اندھیرا ہے


*یہ تحریر سوشل میڈیا سے اجازت لے کر کاپی کی گئی ہے۔ *

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

کمپلین نہیں شکایت

        مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اس کے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائے گی  پھر کہا گیا اردو کے لیے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحب زادے گویا ہوئے :

This is Kamran, how can I help you ? 

ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحب زادے ! ہم نے تو اردو کے لیے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے۔  اس کے  باوجود یہ انگریزی فرمانے لگے "جی بولیے ؟" 

ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں، انسان تو کہتا ہے"

جواباً ارشاد ہوا: "جی کہیے،"

 ہم نے کہا: " ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہیے تھا " فرمائیے! “

 اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے: “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“

ہم نے کہا: "ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے۔ اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت، اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے۔"

 اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا: " سر میں سمجھ گیا آپ شکایت  بتائیں۔‘‘

 ہم نے کہا: " سر نہیں جناب! اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے، شکایت سننے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے۔ اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں۔"

ہم نے کہا: " کیا؟ ۔۔۔!!"  تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔

کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے  اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں۔ آپ نے اردو کے لیے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے۔ " ہم نے کہا: “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے؟ آپ کو نشست سے اٹھنا چاہیے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لیے ایک دبایا ہے ۔

کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!“ 

ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفت گو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے  مگر کیا افتاد پڑی  آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!! *کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!

ساغر صدیقی کی ایک حکایت

  ساغر صدیقی کے والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں، کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے۔ غصہ...