پیر، 16 مئی، 2022

سقراط اور زہر کا پیالہ

 سقراط اور زہر کا پیالہ

سقراط ایک سنگتراش سوفرونس کس اور ایک دائی، فائی ناریت کا بیٹا تھا، وہ جیومیٹری اور فلکیات کا ماھر مانا جاتا تھا، اس نے ادب موسیقی اور جمناسٹکس میں باقاعدہ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سقراط ایک منصف مزاج تھا وہ زبانی بحث کو تحریر پر فوقیت دیتا تھا اسی لیئے اس نے اپنی بالغ  زندگی کا زیادہ عرصہ ایتھنز کی گلیوں اور بازاروں میں بحث کے متمنی کسی بھی شخص کے ساتھ بحث بازی کرتے ہوئے گزارا، وہ نہایت جفاکش اور خود منضبط تھا، وہ اپنی حاضر جوابی اور دلچسپ حس مزاح کے باعث مقبول تھا وہ ایک فلسفی تھا لیکن اس نے نہ کوئی کتاب لکھی تھی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ فلسفیانہ مکتب قائم کیا تھا، لیکن فلسفے میں اس کی حصیداری بنیادی طور پر اخلاقی نوعیت کی تھی، انصاف، محبت اور نیکی جیسے تصورات کی معروضی تفہیم پر یقین اور حاصل کردہ خود آگہی اس کی تعلیمات کی اساس تھی۔

وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ تمام بدی، لاعلمیت اور جہالت کا نتیجہ ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے برا نہیں بنتا- سقراط  ہمیشہ حق اور سچ کی جستجو میں لگا رہتا تھا، اس کی نظر میں حقیقی علم ہی ایک ایسی چیز تھی جس کے ذریعے سچ کو حاصل کیا جا سکتا تھا۔ سقراط اکثر اپنے دوست و احباب سے ان مسئلوں پر گفتگو کرتا رہتا تھا اور بحث کرتا رہتا تھا کہ ہو سکتا ہے کہیں سے حق کی جھلک نظر آجائے، اس کی محنت ہر وقت جاری و ساری تھی، اس کے بہت سارے شاگرد بھی تھے جن میں سب سے بڑا افلاطون تھا، افلاطون نے بہت ساری کتابیں لکھیں تھیں جو آج بھی موجود ہیں، ان کی کتابوں میں سے سقراط کے بارے میں معلومات موجود ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ وقت کی حکومت ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتی جو حق اور سچ کی تلاش میں ہر وقت مصروف عمل رہتے ہیں، تو ایتھنز کی  حکومت کو بھی سقراط کا یہ انداز بلکل پسند نہیں تھا کہ وہ ہروقت حق کی تلاش میں رہے اور لوگوں سے بحث مباحثے کرے، اس لیئے سقراط پر مقدمہ چلایا گیا اور موت کی  سزا سنائی گئی۔

حکومت نے سقراط کو کہا کہ اگر تم واعدہ کرو کہ آئیندہ لوگوں سے بحث کرنا چھوڑ دو گے اور اپنا رویہ تبدیل کرو گے تو تم کو معاف کیا جاسکتا ہے تو سقراط نے صاف انکار کردیا کہ میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا.جو بات حق ہوگی، صحیح ہوگی اس کو ترک نہیں کرسکتا، وہ بڑی بے باکی اور جرآت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نظریات پر ڈٹے رہے جس کے بدلے اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا (جیسا کہ اس دور میں سزائے موت دینے کا دستور تھا) جس کو پی کر وہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہوگیا، " مرتے وقت اس نے اپنے اوپرالزام لگانے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مجھے اس شرط پر آزاد کرنا چاہتے ہو کہ میں حق کی تلاش اور جسجتجو چھوڑ دوں تو اس کے لیئے آپ کی مہربانی کیونکہ میں آپ کا ایسا کوئی حکم ماننے والا نہیں ہوں، میرا ایمان ہے کہ یہ کام مجھ پر رکھا گیا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں میں اپنی حق پرست گفتگو اور بحث بند نہیں کرونگا جو بھی مجھے ملے گا اس سے پوچھوں گا کہ تمہیں اس بات پر افسوس نہیں ہے کہ تم دولت اورعزت کے پیچھے بھٹک رہے ہو حق پرستی یعنی اپنی زندگی کو روحانی بلندیوں سے مالا مال کرنے کی تمہیں کوئی فکر نہیں؟" سقراط نے یہ بھی کہا کہ مجھے پتا نہیں کہ موت کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ اچھی ہو، میں اس سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے یقین ہے کہ اپنے فرض سے غافل ہونا ضرور خراب ہے، اس لیئے جس چیز میں اچھائی ہے اس کو برائی پر ترجیح دے رہا ہوں۔

سقراط نے اپنی زندگی میں علم اورادب کی بہت خدمت کی اور حق پرستی کو ہمیشہ اوپر رکھا اور اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ کہ اس نے حق کی پاسداری کے لیئے اپنے آپ کو موت کے حوالے کرتے ہوئے زہر)پائزن آف ہام لاک( کا پیالہ پی لیا۔


درج بالا مضمون درج ذیل ویب گاہ  سے منقول ہے۔ 


Great Philosopher-Socrates and the cup of poison (allrung.com)

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...