ہفتہ، 1 مئی، 2021

وبائی مرض اور غالب کا "جدید خط"

وبائی مرض اور غالب کا "جدید خط"
 میاں۔۔۔ خط تمہارا مع غزل پہنچا۔ غزل کیا دیکھوں، فی الوقت عذابِ الٰہی دیکھ رہا ہوں۔ نہ کاغذ ہے نہ ٹکٹ نہ لفافہ۔ اگلے لفافوں میں سے ایک بیرنگ لفافہ میں لپیٹ کر اس تحریر کو سپرد ڈاک کردوں گا۔ تم نے دلی کا حال پوچھا ہے! 
میاں۔۔ اس کے مقدر میں تو اجڑنا ہی لکھا ہے۔۔۔ کبھی انسانوں سے کبھی آسمانوں سے!
کیفیت کیا لکھوں۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔ ہاتھ لرزاں قلم جنبش نکند ۔۔۔۔ لو صاحب تمہاری تواضع خاطر کے لیے جی ہلکا کیے لیتا ہوں۔ جی اپنا کڑا کر لو اور سنو۔۔۔ ہر جانب ہو کا عالم ہے۔ محلے ویران، مکان بے چراغ، نہ آدم نہ آدم زاد۔ بس ایک سناٹا کہ ہر سو چھایا ہوا ہے۔ شہر، اب شہر خموشاں ہے۔ ویرانی، وحشت، خاموشی، خوف، چشم تصور نے بھی کبھی دلی کو اس طرح دیکھا ہوگا؟ بحکم سرکار منادی والا آتا ہے، مرنے والوں کی تعداد بتا جاتا ہے۔ یہ عمل دن میں تین بار ہوتا ہے۔ خوف و دہشت کو ذرا جی سے دور کرنا چاہا کہ یہ کم بخت آ کر منادی موت کی سنا جاتا ہے۔ بتاؤ، ایسے حالات میں انسان زندگی کیوں کر اور کیسے کرے؟ صاحبانِ عالیشان کا فرمان ہے کہ ہر انسان چھوٹا بڑا، مرد و زن، اپنے مکانوں میں محصور رہے تادم فرمانِ ثانی۔ خلاف ورزی باعث سرزنشِ شدید ہوگی۔ حکم حاکم مرگ مفاجات۔ ناچار بیٹھا اپنے اشعار کی تسبیح کیے جاتا ہوں۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے 
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
مسموع ہوا ہے کہ تمام شہر اور اطراف کا علاقہ ایک وبائے ناگہانی کی زد میں ہے۔ یہ وبا آپسی اختلاط، میل ملاپ سے آگ کی طرح پھیلتی ہے، لہٰذا حفظ ما تقدم انسان، انسان سے دور رہے۔ اطباء و اہل حکمت وبا کا نام "کورونا وائرس" بتاتے ہیں۔ میں گنہ گار بندہ علی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس بیماری یا وبا کا نام میں نے قبل ازیں نہ پڑھا نہ سنا۔ بظاہر اسم مرکب ہے نصف اس کا ریختہ اور نصف انگریزی۔ ریختہ میں کرنا مصدر ہے، کر اس کا امر ہے: کرو حالتِ حکم۔ 'نا' اصرار کے لیے، جیسے چلو نا، آؤ نا، پیو نا وغیرہ وغیرہ۔ وائرس لفظ انگریزی کا ہے۔ میری فرنگی زبان میں ایسی استعداد نہیں کہ مفہوم تک رسائی ہو۔ فرہنگ سروری میں بھی یہ لفظ موجود نہیں۔ قرین قیاس "احتیاط" مفہوم ہو سکتا ہے۔ یوں جان لو۔۔۔۔ "کرو نا احتیاط"۔۔۔ روبہ کعبہ کہتا ہوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتا مگر وبا میں مرنا مجھے پسند نہیں؎ 
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
ان حالات میں مخلوق کو خالق سے رجوع ہونا چاہیے۔ توبہ، استغفار ہی نجات کا راستہ ہے۔ انسان معذور و مجبور۔۔۔! گزشتہ دنوں میرے کرم فرما، محسن و مہرباں راجہ نریندر سنگھ بہادر والئ پٹیالہ کا فرستادہ کارندہ غریب خانہ پہنچا۔ تین بوتلیں "لیکویور" کی راجہ صاحب نے تحفتاً بھجوائی تھیں، دے گیا۔ گویا اسے رسد سمجھو۔ میاں تم نہ سمجھو گے۔ یہ بہت قیمتی اعلیٰ درجہ کی انگریزی شراب ہے۔ مانند قوام، رنگت قرمزی، ذائقہ نہایت لطیف اور نشہ دیر پا۔ اللہ بڑا کارساز ہے ورنہ آج اس نفسا نفسی کے عالم میں یہ ناتواں بے سر و ساماں کہاں سے یہ عرق تسکین دل و جاں جٹا پاتا تھا۔ حقہ کے لوازمات اور عرق گلاب وافر مقدار میں موجود ہیں۔ چلو، بارے کچھ دنوں کا سہی، سامانِ عیش تو ہے۔ کوتوال شہر نے فصیل کے چاروں دروازے مقفل کر دیے ہیں۔ نہ کوئی آ سکتا ہے نہ جا سکتا ہے سوائے سرکاری منصب داروں اور جرنیلی کارندوں کے۔ دیکھو یہ صورت حال کب تک رہے۔ مرزا سرفراز خاں صاحب کو خط میرا پڑھوا دینا۔
نجات کا طالب۔۔۔ غالب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...