اتوار، 21 مارچ، 2021

مضطر خیرآبادی


وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد ... مضطرؔ خیرآبادی کی برسی 20/مارچ1927 نام سید محمد افتخار حسین، مضطر تخلص۔ ’اعتبار الملک‘ ، ’اقتدار جنگ بہادر‘ خطاب۔1865ء میں خیرآباد(یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب احمد حسن رسوا اور والدہ محترمہ بی بی حرمن خیرآبادی۔ آپ کے دادا فضلِ حق خیرآبادی، غدر کے دور میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہد آزادی تھے۔ مضطرؔ نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار شہر خیرآباد، ٹونک، گوالیار، اندور، بھوپال اور رام پور میں گزارے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام اندور میں گزارے۔ شہزاد رضوی آپ کے پوتے ہیں۔مولانا فضل حق خیرآبادی کے نواسے اور شمس العلماء عبدالحق خیرآبادی کے بھانجے، جان نثار اختر کے والد' معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا تھے۔ محمد حسین ، بسمل(بڑے بھائی) اور امیر مینائی سے تلمذ حاصل تھا۔ مضطر ریاست ٹونک کے درباری شاعر تھے۔ دس برس کی عمر میں شعر موزوں کرنے لگے تھے۔ غزلوں کے علاوہ ان کی کئی نعتیہ مسدسوں نے شہرت پائی ہے۔ان کی کئی تصانیف ہیں جن کو ادبی دنیا میں کافی سراہا گیا۔ انہوں نے کرشمئہ دلبر نامی ایک رسالہ شائع کیا تھا۔ اور ان کے تقریباً تصانیف ضائع ہو جاتا اگر جاوید اختر انکو جمع کرنے بیڑا نا اٹھاتے ۔ مضطرؔ حافظ کریم خاں سندیلوی کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ صاحب سے روحانی نسبت رکھتے تھے۔ ان کے متصوفانہ کلام کا مجموعہ "الہامات" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی بعض ہندی تحریریں بھی مشہور ہیں۔ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ مضطر خیرآبادی کو ایک معروف شاعر کی حیثیت سے جانتے تھے ، جن کا کلام ادھر اُدھر اکثر ملتا تھا اور فن کے اعتبار سے لوگ ان کو استاد مانتے تھے ، لیکن کہیں کوئی باقاعدہ مجموعہ ایسا نہ تھا کہ جس کو کلیات مضطر کہا جاسکے ۔ اب جاوید اختر نا صرف ایک شاعر ہیں بلکہ کون سا وہ شعبہ نہیں جس میں انہوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو 70 کی دھائی تک ایک مشہور فلم اسکرپٹ رائٹر رہے، 80 کی دھائی فلموں میں گیت نگاری کی اور کئی ایوارڈ سمیٹے، پھر وہ اپنے خاندانی فن میں آگئے اور مشاعروں کو زینت بخشنے لگے ۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے انہو ں نے فرقہ پرستی (خواہ وہ ہندو فرقہ پرستی ہو یا مسلم فرقہ پرستی) کے خلاف جد و جہد شروع کی تو دیکھتے دیکھتے وہ رکن پارلیمنٹ بھی بن گئے ۔ ٹھہرے جاوید اختر ! وہ شاید کچھ چین و سکون میں آئے تو اب ان کو یہ خلش ہوئی کہ دادا مرحوم مضطر خیرآبادی کا کلام تلاش کیا جائے تو جناب اس تلاش میں بقول جاوید اختر انہوں نے دس سال صرف کردیئے ۔ کبھی آبائی گھر خیرآباد میں لکڑی کے ٹوٹے، دیمک زدہ بکسوں کو کھنگالا ، تو وہاں سے مضطر خیرآبادی کا کچھ کلام دستیاب ہوا اور پھر مضطر مرحوم بطور مجسٹریٹ جہاں جہاں اپنی نوکری پر رہے ، وہاں کا سفر کیا ، لائبریریوں کو چھانا ۔ اس سفر میں جاوید صاحب خیرآباد کے علاوہ لکھنؤ ، ٹونک ، رامپور ، اندور اور بھوپال گئے ، جہاں ذاتی لائبریروں سے کچھ مواد اکٹھا کیا ۔ الغرض اس طرح جاوید اختر نے ایک ٹیم کے ساتھ مضطر خیرآبادی کا جس قدر کلام اکٹھا کرسکتے تھے ، وہ انہوں نے کیا ۔ اب جو اس کو دیوان کی شکل دی گئی تو وہ پانچ جلدوں کا کلام بن گیا جو اردو ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک استاد شاعر کا غیر مطبوعہ کلام ہے ، جو دہلی میں شائع کردیا گیا ۔ لیکن یہ سمجھئے کہ یہ قصہ ابھی ادھورا ہے ، کیونکہ مضطر خیرآبادی کے کلام کی تلاش میں ایک ایسی غزل دستیاب ہوئی جو اردو والوں ، فلمی گانوں سے دلچسپی رکھنے والوں اور ہر کس و ناکس کی زبان پر آج بھی ہے ۔ اور وہ مشہور و معروف غزل ہے ۔ نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں محمد رفیع صاحب کی آواز میں یہ غزل دنیا بھر میں بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب ہو کر مشہور ہوگئی ۔ گو ادبی حلقوں میں نیاز فتح پوری اور آل احمد سرور جیسے نامور نقادوں نے اس غزل کے بارے میں برابر یہ کہا اور لکھا کہ یہ غزل بہادر شاہ ظفر کی نہیں ہے ، گو کہ بہادر شاہ ظفر ایک بڑے شاعر تھے ، لیکن فلمی دنیا نے اس غزل کو بہادر شاہ سے ایسا منسوب کیا کہ بس ’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘ بہادر شاہ کی ہو کر رہ گئی ، لیکن جاوید اختر کی مضطر خیرآبادی کے کلام کی تلاش کے دوران خود ان کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی یہ غزل ان کے اور کلام کے ساتھ دستیاب ہوئی ،جس سے یہ بھرم ختم ہوگیا کہ ’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘ جیسی مشہور غزل جاں نثار اختر ان کے فرزند رشید تھے۔ کا شاعر مضطر ہے، ظفر نہیں ۔ یہ اردو ادب کی بڑی بحث تھی جوآخر پایۂ تکمیل کو پہونچی اور اس طرح اب مستند ہوگیا کہ مضطر خیرآبادی نے ہی اس غزل کو رقم کیا تھا ۔ مضطر خیرآبادی انتقال سے پہلے کوئی بیس روز قبل اندور سے گوالیار چلے گئے۔ طبیعت بہت زیادہ خراب تھی ۔ علاج معالجے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 16رمضان المبارک 1345ھ مطابق 20 مارچ1927ء کو گوالیار میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ منتخب کلام نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں نہ دوائے درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں نہ میں مضطرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں مضطرؔ ان کا رقیب ہوں جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں _____ آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا اس سے کچھ کام بھی نکلے یہ اگر ہے بھی تو کیا نہ وہ پوچھے نہ دوا دے نہ وہ دیکھے نہ وہ آئے درد دل ہے بھی تو کیا درد جگر ہے بھی تو کیا آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا دیر ہی کیا ہے حسینوں کی نگاہیں پھرتے مجھ پہ دو دن کو عنایت کی نظر ہے بھی تو کیا صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا میں بدستور جلوں گا یہ نہ ہوگی مضطرؔ میری ساتھی شب غم شمع سحر ہے بھی تو کیا _____ اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے کسی کے درد محبت نے عمر بھر کے لیے خدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مجھے یہ ان کے حسن کو ہے صورت آفریں سے گلہ غضب میں ڈال دیا لاجواب کر کے مجھے وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے میں ان کے پردۂ بے جا سے مر گیا مضطرؔ انھوں نے مار ہی ڈالا حجاب کر کے مجھے _____ دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا دل جس کا لیا اس کو بہت دور نکالا زاہد کو کسی اور کی باتیں نہیں آتیں آیا تو وہی تذکرۂ حور نکالا دشمن کو عیادت کے لیے یار نے بھیجا اچھا یہ علاج دل رنجور نکالا اے تیر ستم چل تری دعوت ہے مرے گھر زخم‌ دل ناشاد نے انکور نکالا وہ تذکرۂ غیر پہ جھنجھلا کے یہ بولے پھر آپ نے مضطرؔ وہی مذکور نکالا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...