منگل، 2 جون، 2020

چارپائی کا پیار

چارپائی کا پیار

ہم میں سے  بعض حضرات ایسے ہیں کہ جب وہ صبح بیدار ہو  کر کسی کام سے باہر جانے کی سوچتے ہیں تو ان کی چارپائی رونے لگتی ہے لہٰذا چارپائی کو زار و قطار روتا ہوا دیکھ، یہ حضرات اس کو چپ کرانے کی تدبیریں کرتے ہیں لیکن چارپائی جب کسی صورت چپ نہیں ہوتی تو پھر آنجناب چارپائی کی خوش نودی کے لیے اس سے لپٹ (لیٹ)جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے، ایسے میں چند دوا کی شیشیاں،  کچھ نسخے، بیڑی کا بنڈل اور ماچس، موبائل، رسالہ  وغیرہ تکیہ کے نیچے اور داہنے بائیں رکھ دیتے ہیں تاکہ چارپائی یہ سمجھےکہ  حضرت یہیں آس پاس ہی ہیں۔ ایسے میں  موصوف  موقعے کو  غنیمت جان لپکے جھپکے دفتر پہنچے ، حاضری رجسٹر پر چڑیا بٹھائی اور دفتر سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پرنسپل یا  ہیڈ لاکھ ڈھونڈتے پھریں کہ محترم آئے تو ہیں، رجسٹر میں دستخط کی سوغات بھی ہے تو پھر گئے کہاں؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ پرنسپل اور صدور بڑے جابر ہوتے ہیں، وہ دن میں دو بار حاضری لیتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے دوست چار و ناچار کسی طرح رجسٹر میں تو حاضر ہو جاتے ہیں مگر معاملہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔

در اصل ہندستان میں اس روایت کے بنیاد گزار رشید احمد صدیقی ہیں۔ انھوں نے چارپائی کی اس قدر؛ قدر و منزلت بڑھائی کہ ہم میں سے جس نے بھی ان کا تحریر کردہ مضمون ’چارپائی‘ پڑھا ہے، وہ چارپائی کی زینت بننے ہی میں فخر محسوس کرتا ہے۔ اس سے  چارپائی کی جدائی یا اس کا رونا  بسورنا برداشت نہیں ہوتا لہٰذا اہل اقتدار اور صاحبِ حل و عقد سے میری گزارش ہے کہ ہمارے ایسے  دوست جنھیں دنیا میں چارپائی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں، ان کے لیے؛ ان کے گھروں تک حاضری کی سہولت فراہم کرنے کی زحمت گوارا کریں تاکہ ہمارے دوستوں کی چارپائیوں کو ان کے فراق میں آہ و بقا  اور سینہ کوبی نہ کرنا پڑے ورنہ ممکن ہے کہ یہ چارپائی کے سکون کے لیے کسی دن سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...