اتوار، 26 مئی، 2019

کھول دو Khol do

کھول دو

سعادت حسن منٹو
امر تسر سے اسپيشل ٹرين دوپہر دو بجے  چلي آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچي، راستے ميں کئی آدمی مارے گئے، متعد زخمي اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے ۔۔۔کيمپ کی ٹھنڈی زمين پرجب سراج الدين نے آنکھيں کھوليں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ايک متلاطم سمندر ديکھا تو اس کی سوچنے  کی قوتيں اور بھی ضعيف ہوگئيں، وہ دير تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے ديکھتا رہا۔ يوں تو کيمپ ميں ہر طرف شور برپا تھا ليکن بوڑھے سراج الدين کے کان جيسے بند تھے، اسے کچھ سنائ نہيں ديتا تھا، کوئی اسے ديکھتا تو يہ خيال کرتا تھا کہ وہ کسی گہری  فکر ميں غرق ہے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا ہے، اس کے ہوش و حواس شل تھے، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کي طرف بغير کسي ارادے کے ديکھتے ديکھتے سراج الدين کي نگاہيں سورج سے ٹکرائيں، تيز روشني اس کے وجود کے رگ و ريشے ميں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئي تصويريں دوڑ گئيں، لوٹ، آگ۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔اسٹیشن۔۔۔گولياں۔۔۔رات اور سکينہ۔۔۔سراج الدين ايک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کي طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھليے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کيا۔ پورے تين گھنٹے وہ سکينہ سکينہ پکارتا کيمپ کي خاک چھانتا رہا مگر اسے اپني جوان اکلوتي بيٹي کا پتہ نہ چل سکا، چاروں طرف ايک دھاندلي سي مچي ہوئي تھي، کوئي اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئي ماں، کوئي بيوي اور کوئي بيٹی۔ سراج الدين تھک ہار کر ايک طرف بيٹھ گيا اور حافظے پر زور دينے لگا کہ سکينہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی تھی ليکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکينہ کي ماں کي لاش پر جا کر جم جاتا ہے، جس کي ساري انتڑياں باہر نکلي ہوئي تھيں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔
سکينہ کي ماں مر چکي تھي، اس نے سراج الدين کي آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا ليکن سکينہ کہاں تھي، جس کے متعلق اس کي ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکينہ کو لے کر جلدي يہاں سے بھاگ جاؤ۔
سکينہ اس کے ساتھ ہی تھی، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے، سکينہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کے لیے سراج الدين نے رکنا چاہا مگر سکينہ نے چلا کر کہا ابا جي ۔۔۔چھوڑیے ليکن اس نے دوپٹہ اٹھا ليا تھا۔۔۔يہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کي بھري ہوئي جيب کي طرف ديکھا اور اس ميں ہاتھ ڈال کر ايک کپڑا نکالا۔۔۔سکينہ کا وہي دوپٹا تھا۔۔۔ليکن سکينہ کہاں تھي؟
سراج الدين نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور ديا مگر وہ کسي نتيجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کيا وہ سکينہ کو اپنے ساتھ اسٹيشن لے آيا تھا؟۔۔۔کيا وہ اس کے ساتھ ہي گاڑي ميں سوار تھي؟۔۔۔ راستہ ميں جب گاڑي روکي گئي تھي اور بلوائي اندر گھس آئے تھے تو کيا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکينہ کو اٹھا کر لے گئے؟
سراج الدين کے دماغ ميں سوال ہي سوال تھے، جواب کوئي بھي نہيں تھا، اس کو ہمدردي کي ضرورت تھی ليکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھيلے ہوئے تھے، سب کو ہمدردي کي ضرورت تھي، سراج الدين نے رونا چاہا مگر آنکھوں نے اس کي مدد نہ کي، آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسي قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کي مدد کرنے کے لیے  تيار تھے، آٹھ نوجوان تھے، جن کے پاس لاري تھي، بندوقيں تھيں، سراج الدين نے ان کو لاکھ لاکھ دعائيں ديں اور سکينہ کا حليہ بتايا، گورا رنگ ہے، بہت ہي خوبصورت ہے ۔۔۔مجھ پر نہيں اپني ماں پر تھي۔۔۔عمر سترہ برس کے قريب اکلوتي لڑکي ہے، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔
رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدين کو يقين دلايا کہ اگر اس کي بيٹي زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں اس کے پاس ہوگي۔
آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کي، جان ہتھيلي پر رکھ کر وہ امر تسر گئے، کئي عورتوں کئ مردوں اور کئي بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچايا، دس روز گزر گئے مگر انہيں سکينہ نہ ملي۔
ايک روز وہ اسي خدمت کے لیے لاري پر امر تسر جا رہے تھے کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہيں ايک لڑکي دکھائي دي، لاري کي آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کرديا۔ رضاکاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پيچھے بھاگے، ايک کھيت ميں انہوں نے لڑکي کو پکڑ ليا، ديکھا تو بہت ہي خوبصورت تھي، داہنے گال پر موٹا تل تھا، ايک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہيں۔۔۔کيا تمہارا نام سکينہ ہے؟
لڑکي کا رنگ اور بھي زرد ہوگيا، اس نے کوئي جواب نہ ديا ليکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسہ ديا تو اس کی وحشت دور ہوئي اس نے مان ليا کہ وہ سراج الدين کي بيٹي سکينہ ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکينہ کي دل جوئی کی، اسے کھانا کھلايا، دودھ پلايا اور لاري ميں بيٹھا ديا، ايک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے ديا کيونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی اور بار بار بانہوں سے اپنے سينے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش ميں مصروف تھي۔ کئی دن گزر گئے ۔۔۔سراج الدين کو سکينہ کي کوئي خبر نہ ملي، وہ دن بھر مختلف کميپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا ليکن کہيں سے بھي اس کی بيٹی سکينہ کا پتہ نہ چلا سکا۔ رات کو وہ بہت دير تک ان رضاکار نوجوانوں کي کاميابي کے لیے  دعائيں مانگتا رہا، جنہوں نے اس کو يقين دلايا تھا کہ اگر سکينہ زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں وہ اسے ڈھونڈ نکاليں گے۔
ايک روز سراج الدين نے کيمپ ميں ان نوجوان رضا کاروں کو ديکھا، لاري ميں بيٹھے تھے، سراج الدين بھاگا بھاگا ان کے پاس گيا، لاري چلنے والي تھي کہ اس نے پوچھا بيٹا ميري سکينہ کا پتہ چلا؟
سب نے ايک زبان ہو کر کہا چل جائے گا، چل جائے گا اور لاري چلادي۔
سراج الدين نے ايک بار پھر ان نوجوانوں کي کاميابی کے لیے  دعا مانگي اور اس کا جي کس قدر ہلکا ہوگيا، شام کے قريب کيمپ ميں جہاں سراج الدين بيٹھا تھا، اس کے پاس ہي کچھ گر بڑ سي ہوئي چار آدمي کچھ اٹھا کر لارہے تھے، اس نے دريافت کيا تو معلوم ہوا کہ ايک لڑکي ريلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑي تھي، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہيں، سراج الدين ان کے پيچھے پيچھے ہوليا، لوگوں نے لڑکي کو اسپتال والوں کے سپرد کيا اور چلے گئے۔
کچھ دير بعد ايسے ہي اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑي کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گيا، کمرے ميں کوئي نہيں تھا، ايک اسٹيريچر تھا، جس پر ايک لاش پڑي تھي، سراج الدين چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کي طرف بڑھا، کمرے ميں دفعتا روشني ہوئي سراج الدين نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل ديکھا اور چلايا، سکينہ۔
ڈاکٹر نے جس نے کمرے ميں روشني کي تھي، سراج الدين سے پوچھا کيا ہے؟
سراج الدين کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا، جی ميں ۔۔۔ جی ميں۔۔۔اس کا باپ ہوں۔
ڈاکٹر نے اسٹريچر پر پڑی  ہوئ لاش کی طرف ديکھا، اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدين سے کہا کھڑکی کھول دو۔
سکينہ کے مردہ جسم ميں جنبش پيدا ہوئی، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نيچے سرکا ديا، بوڑھا سراج الدين خوشی سے چلايا، زندہ ہے۔۔۔ميري بيٹی زندہ ہے۔۔۔ڈاکٹر سر سے پير تک پسينے ميں غرق ہوگيا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ناکارہ اور مفلوج قوم

 ناکارہ اور مفلوج قوم اس تحریر کو توجہ سے پڑھیے ۔ پروفیسر اسٹیوارٹRalph Randles Stewart باٹنی میں دنیا کے پہلے چار ماہرین میں شمار ہوتے تھے،...