اتوار، 13 اپریل، 2025

یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا

 کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے 

وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے


یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے

یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے 


اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن 

اس کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن

 

اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے 

دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی 

اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی 


آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے 

تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ 


کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ 

ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے 


کیفی اعظمی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مہاجر نامہ۔ منور رانا

 مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا...