ارسطو کے تنقیدی
نظریات
ارسطو قدیم یونان کا عظیم فلسفی، سائنسدان، ریاضی دان،
استاد، تحقیق نگار ااور مصنف تھا۔ اس کی تحریروں کے موضوعات طبیعیات، ما بعد الطبیعات (Metaphysics)، شاعری، تھیٹر، موسیقی، منطق، فن بلاغت، لسانیات، سیاسیات،
حکومت، اخلاقیات، حیاتیات اور حیوانیات تھے۔ ارسطو 384 قبل مسیح میں یونان کے ایک
چھوٹے سے ساحلی قصبے Stagira
میں پیدا ہوا۔ اس کے باپ کا نام Nicomachus
تھا جو کہ ریاست
میسیڈونیا کے بادشاہ Amyntas
کا درباری طبیب تھا۔ یہ
خیال کیا جاتا ہے کہ ارسطو کے آبا و اجداد کئی نسلوں سے ریاست کے شاہی دربار میں
بطور معالج کام کرتے چلے آ رہے تھے۔ ارسطو
کا ابھی لڑکپن ہی تھا تبھی اس کے باپ کا انتقال ہو گیا لیکن اس کے باوجود ساری عمر
ارسطو کا شاہی دربار سے قریبی واسطہ رہا اور اس نے اس ماحول کا کافی اثر بھی لیا۔
ارسطو کی ماں کا نام Phaestis تھا ل، اس سے زیادہ اس کے
بارے میں مزید کچھ معلوم نہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ارسطو کی ماں بھی اس کے
بچپن ہی میں فوت ہو گئی تھی۔
ارسطو کے باپ کے مرنے کے بعد ارسطو کا بہنوئی Proxenus
اس کا سرپرست بنا اور اس
کے جوان ہونے تک اس کا خرچ اٹھاتا رہا۔ چونکہ ارسطو کا تعلق معالج خاندان سے تھا،
اس لیے ارسطو کو ایسی تربیت ملی، جس نے اس کا رجحان مظاہر قدرت کے مطالعے کی طرف
کر دیا۔ ایسی تعلیم و تربیت نے ارسطو کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور یہی
وجہ تھی کہ ارسطو اپنے استاد افلاطون کے برعکس بہت گہرا فلسفی نہ بن سکا۔ جب 367
قبل مسیح میں ارسطو سترہ سال کا ہوا،تو اسے اعلی تعلیم کے لیے Athens بھیج دیا گیا۔ اس زمانے میں ایتھنز کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا
تھا۔ اس شہر میں ارسطو نے افلاطون کی اکادمی میں داخلہ لیا جو کہ پورے یونان میں
اعلیٰ ترین درسگاہ تھی۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ارسطو ایک مثالی عالم بن
گیا۔ افلاطون کی اس اکادمی سے ارسطو بیس سال تک منسلک رہا، 347 قبل مسیح میں افلاطون
کا انتقال ہو گیا۔ اگرچہ ارسطو اپنے استاد کا بہت ہونہار شاگرد تھا لیکن افلاطون
کے مرنےکے بعد اس کی اکادمی کا سربراہ نہ بن سکا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب
افلاطون نے اسے اپنی زندگی میں اپنا جانشین نہ بنایا تو اس نے دلبرداشتہ ہو کر وہ
اکادمی ہی چھوڑ دی۔ افلاطون نے اپنا جانشین اپنے بھتیجے Speusippus
کو بنا دیا تھا اور
افلاطون کی موت کے بعد وہی اس کی اکادمی کا سربراہ بنا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ
بہت سے بنیادی فلسفیانہ معاملات میں ارسطو اور افلاطون کے نظریات ایک دوسرے سے
کافی مختلف تھے۔ افلاطون کا نظریہ یہ تھا کہ دنیا میں خیالات، فلسفہ اور نقائص سے
پاک چیزیں ہی سب کچھ ہیں، جبکہ اس نظریہ کے برعکس ارسطو خیالات کی دنیا کی بجائے
حقیقت اور مادی دنیا کے بارے میں زیادہ سوچاکرتاتھا۔
دو یونانی ریاستوں کے بادشاہ Hermias
نے ارسطو کو اپنے دربار
میں ملازم رکھ لیا اور ارسطو چند سال تک اس کی دونوں ریاستوں میں باری باری مقیم
رہا۔ پھر بادشاہ کی لے پالک بیٹی Pythias
جو کہ بادشاہ کی بھانجی
بھی تھی سے ارسطو نے شادی کر لی۔ ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی اور اس کا نام بھی
انہوں نے Pythias
رکھا۔ جب اس بادشاہ کی ریاست پر ایرانیوں کا قبضہ ہوگیا تو ارسطو وہاں سے Macedonia چلا گیا، اگلے چار سال کے دوران ارسطو مختلف علاقوں میں سفر کرتا
رہا، جہاں نہ صرف وہ علم حاصل کرتا رہا بلکہ لوگوں کو تعلیم بھی دیتا رہا۔ اسی
عرصے میں ارسطو نے حیاتیاتی سائنسوں پر تجربات کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا۔ ارسطو
نے نباتات اور حیوانیات پر اپنے جو مشاہدات کیے وہ انہیں دنوں کے تجربات پر مشتمل
ہیں۔ انہیں علاقوں میں اس کی ملاقات اپنے جیسے ایک اور شخص Theophrastus سے ہو گئی اور ان دونوں نے مل کر سائنسی میدان میں کافی تجربات
کیے۔ جب ایتھنز میں ارسطو نے اپنی اکادمی Lyceum قائم کی تو ارسطو کے بعد اس اکادمی کا سربراہ بھی یہی شخص مقرر
ہوا۔ ارسطو نے اس زمانے میں موجود نہ صرف تمام علوم کا مطالعہ کیا بلکہ ان علوم
میں اضافہ کرنے کے لیے اپنا خاطر خواہ حصہ بھی ڈالا۔ طبیعی سائنسوں میں ارسطو نے
علم تشریح الاعضاء (Anatomy)،
فلکیات، جنینیات
(embryology) جغرافیہ، علم ارضیات، فن موسمیات، فزکس اور
حیوانیات کا مطالعہ کیا۔ فلسفے میں ارسطو نے جمالیات، اخلاقیات، حکومت، ما بعد
الطبیعات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، فن بلاغت، اور دینیات کے بارے میں مضامین
لکھے۔ اس کے علاوہ ارسطو نے تعلیم، غیر ملکی رسوم و رواج، لٹریچر اور شاعری کا
مطالعہ کیا۔ اگر ارسطو کی تمام تحریروں کو جمع کر لیا جائے تو اس سے یونانی علوم
کا ایک انسائیکلو پیڈیا تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ارسطو
ہی وہ واحد شخص تھا جو اپنے زمانے کے تمام علوم سے واقف تھا۔
343 قبل مسیح میں یونانی ریاست میسیڈونیا کے بادشاہ فلپ
دوئم نے ارسطو کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی تا کہ وہ تیرہ سالہ شہزادے سکندر (جو
بعد میں سکندر اعظم کے نام سے مشہور ہوا) کو تعلیم دے سکے۔ بادشاہ نے ارسطو کو
اپنی شاہی اکادمی کا سربراہ بھی بنا دیا۔ اس عرصے میں ارسطو نہ صرف سکندر کو بلکہ
دو مزید افراد Ptolemy
اور Cassander کو بھی تعلیم دیتا رہا، اور یہ دونوں بھی
بعد میں بادشاد بنے۔
افلاطون کے جانشین Speusippus کی وفات کے بعد جب دوبارہ اس کی اکادمی کے لیے انتخابات ہوئے تو
ارسطو کی بجائے Xenocrates
اس کا سربراہ بن گیا، اس وجہ سے بادشاہ فلپ کی دلچسبی ارسطو میں کم ہو گئی ۔ ارسطو
پانچ سال تک سکندر کا استاد رہااور جب سکندر کا باپ فوت ہوا تو سکندر بادشاہ بن
گیا۔
ارسطو ایک ایسی فلسفیانہ دنیا تشکیل دینے میں مصروف ہو
گیا ،جس کا مرکز یونان ہو لیکن بادشاہ بن
جانے کے بعد سکندر کا ارادہ ارد گرد کے ممالک فتح کر کے یونان کی سرحدوں کو دور
دور تک پھیلانا تھا اور اس مقصد کے لیے اس
نے تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں ۔ ارسطو نے یونان کے لیے قومی حکمت عملی ترتیب دی ،جس
کے تحت اس کے خیال میں یونانی ثقافت کو وحشیوں سے دور رکھا جا سکتا تھا- اس کے
برعکس سکندر کا خیال تھا کہ انہیں غیر یونانی ثقافت کو بھی اپنی پالیسیوں میں جگہ
دینی چاہیے تا کہ غیر یونانی علاقوں میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے میں آسانی ہو
سکے۔ ارسطو کی خدمات کے اعتراف میں سکندر نے ارسطو کو مکمل آزادی دے دی کہ وہ
سائنسی علوم کے مطالعے میں اور سائنسی تحقیق کے لیے جتنی چاہے وہاں سے کتابیں حاصل
کر لے۔ اس کے بعد سکندر نے اپنی غیر ملکی مہمات کا سلسلہ شروع کر دیا اور چند ہی
سالوں میں اس کی سلطنت پھیلتی چلی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ سکندر نے ایک طرف تو افلاطون کی اکادمی
میں مدد جاری رکھی اور دوسری طرف ارسطو کو مشورہ دیا کہ اپنی اکادمی کھول لے۔
ارسطو نے ایتھنز میں Lyceum
کے نام سے اپنا سکول کھولا اور آئندہ بارہ سال تک اسے چلاتا رہا۔ یہاں اپنی باقی
ساری زندگی ارسطو نے علم حاصل کرنے اور دوسروں کو تعلیم دینے اور تصنیف و تالیف
میں گزار دی ۔ اس نے اپنےا سکول کو ایک بے مثال مرکز بنایا جہاں سائنسی تحقیقات کی
جاتی تھیں۔ یہاں صبح کے وقت ارسطو اپنے سینیر طالب علموں کے ساتھ تفصیلی بحث کیا
کرتا اور سہ پہر کے وقت وہ عام قسم کے فلسفی کا طالب علموں کو مقبول عام موضوعات
پر لیکچر دیا کرتا تھا۔ زمانہؑ قدیم میں ارسطو ہی دنیا کا واحد شخص تھا، جس نے سب
سے پہلے ایک بہت بڑی لائبریری قائم کی ۔ ارسطو کا یہ اسکول 525 قبل مسیح تک چلتا
رہا اورجب اس علاقے پر بادشاہ Justinian
کا قبضہ ہو گیا تو اس نے
اسے بند کرا دیا۔ ارسطو نے بارہ سال کے عرصے میں اپنا بہت سارا ادبی کام کیا۔ اس
نے بہت سے مکالمے لکھے جن کے محض چند ٹکڑے ہی صحیح سلامت بچ سکے ۔ ارسطو کے جو
مقالہ جات ہم تک پہنچے ہیں، وہ عام لوگوں کے مطالعے کے لیے نہ تھے بلکہ وہ تو اس
کے اپنے اسکول کے طلبہ کے کورس کا حصہ تھے۔ اگلے دو ہزار سال تک دنیا ارسطو کے ان
لا ثانی مقالہ جات سے استفادہ حاصل کرتی رہی۔
شادی کے تقریبا دس سال بعد ارسطو کی پہلی بیوی Pythias کا انتقال ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد ارسطو کا رومانس پتھیا کی غلام
لڑکی (Herpyllis) سے شروع ہو گیا، ارسطو نے اسے غلامی سے
آزاد کر دیا اور جلد ہی دونوں نے شادی کر لی۔ اس عورت کا تعلق بھی ارسطو کے آبائی
علاقے Stagira سے ہی تھا۔ Herpyllis سے ایک بیٹا پیدا ہوا اور ارسطو نے اس کا نام اپنے باپ کے نام پر Nicomachus رکھ دیا۔ بعد میں ارسطو نے اپنے فلسفیانہ کام Nicomachean
Ethic کا نام
بھی اپنے باپ Nicomachus
کی نسبت ہی سے
رکھا لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ نسبت ارسطو کے باپ سے ملتی ہے یا اس کے بیٹے
سے۔
ارسطو اپنا اسکول سکندر اعظم کی وفات تک چلاتا رہا، جس
کا 323 قبل مسیح میں اچانک انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ایتھنز کے شاہی خاندان
اور خود ارسطو کے لیے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے ۔ ایتھنز کی اسمبلی نے یونانی
شہری ریاستوں کو سکندر اعظم کے خاندان سے نجات دلانے کے لیے سکندر کے جانشین کے
خلاف جنگ شروع کر دی اور اس کو تخت سے ہٹا دیا۔ نئی انتظامیہ نے ارسطو کو نشانہ
بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس پر یہ الزام لگایا کہ ارسطو دیوتاؤں کا احترام نہیں
کرتا اور اسی بنا پر اسے ملحد قرار دے دیا گیا۔ یہی وہ الزام تھا ،جس کے تحت 399
قبل مسیح میں افلاطون کے استاد سقراط کو سزائے موت دی گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ اس
پر مقدمہ چلایا جاتا، ارسطو ایتھنز سے نکل گیا اور Euboea جزیرے میں Chalcis کے مقام پر چلا گیا اور اپنی زندگی کا باقی حصہ اس نے اپنی دوسری
بیوی کے ساتھ وہیں گزارا۔ اس علاقے میں جا کر ارسطو کے نظامِ انہضام میں خرابی
پیدا ہو گئی اور 322 قبل مسیح میں 63 سال کی عمر میں ارسطو کا انتقال ہو گیا۔ اسے
اس کی پہلی بیوی کی قبر کے قریب دفنا دیا گیا۔
good
جواب دیںحذف کریںشکریہ
جواب دیںحذف کریں