ہم بھی پیئں تمہیں بھی پلایئں تمام رات
جاگیں تمام رات جگایئں تمام رات
ان کی جفایئں یاد دلایئں تمام رات
وہ دن بھی ہو کہ ان کو ستایئں تمام رات
زاہد جو اپنے روزے سے تھوڑا ثواب دے
میکش اسے شراب پلایئں تمام رات
اے قیس بے قرار ہےکچھ کوہ کن کی روح
آتی ہے بے ستوں سے صدایئں تمام رات
تا صبح میکدے سے رہی بوتلوں کی مانگ
برسیں کہاں یہ کالی گھٹایئں تمام رات
خلوت ہے بے حجاب ہیں وہ جل رہی ہے شمع
اچھا ہے اس کو اور جلایئں تمام رات
شب بھر رہے کسی سے ہم آغوشیوں کے لطف
ہوتی رہیں قبول دعایئں تمام رات
دابے رہے پروں سے نشیمن کو رات بھر
کیا کیا چلی ہیں تیز ہوایئں تمام رات
کاٹا ہے سانپ نے ہمیں سونے بھی دو ریاضؔ
ان گیسوؤں کی لی ہے بلایئں تمام رات
جناب ریاض خیر آبادی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں