بدھ، 16 اپریل، 2025

مہاجر نامہ۔ منور رانا

 مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں

تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں


کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے

کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں 


نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں

پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں 


عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی

وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں 


کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی

کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں 


پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے

نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں 


یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد

ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں 


ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے

ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں 


گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب

الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں 


ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی

کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں 


کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں

کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں 


شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی

کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں 


ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے

کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں 


بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی

وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں 


یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی

کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں 


ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر

کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں 


مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بڑبڑاتی تھیں

سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں 


وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی

ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں 


یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے

مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں 


ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی

میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں 


وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے

کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں 


اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا

جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں 


اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں

ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں 


محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا

مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں 


محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر

تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں 


ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو

بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں 

 


ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی

وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں 


تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے 

ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں 


یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی

وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں_


مہاجر نامہ (منور رانا)

پیر، 14 اپریل، 2025

ہم بھی پیئں تمہیں بھی پلایئں تمام رات۔ ریاض خیرآبادی

 ہم بھی پیئں تمہیں بھی پلایئں تمام رات

جاگیں تمام رات جگایئں تمام رات


ان کی جفایئں یاد دلایئں تمام رات

وہ دن بھی ہو کہ ان کو ستایئں تمام رات


زاہد جو اپنے روزے سے تھوڑا ثواب دے

میکش اسے شراب پلایئں تمام رات


اے قیس بے قرار ہےکچھ کوہ کن کی روح

آتی ہے بے ستوں سے صدایئں تمام رات


تا صبح میکدے سے رہی بوتلوں کی مانگ

برسیں کہاں یہ کالی گھٹایئں تمام رات


خلوت ہے بے حجاب ہیں وہ جل رہی ہے شمع 

اچھا ہے اس کو اور جلایئں تمام رات


شب بھر رہے کسی سے ہم آغوشیوں کے لطف

ہوتی رہیں قبول دعایئں تمام رات 


دابے رہے پروں سے نشیمن کو رات بھر

کیا کیا چلی ہیں تیز ہوایئں تمام رات


کاٹا ہے سانپ نے ہمیں سونے بھی دو ریاضؔ

ان گیسوؤں کی لی ہے بلایئں تمام رات

 

جناب ریاض خیر آبادی

اتوار، 13 اپریل، 2025

یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا

 کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے 

وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے


یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے

یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے 


اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن 

اس کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن

 

اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے 

دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی 

اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی 


آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے 

تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ 


کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ 

ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے 


کیفی اعظمی

منشی نول کشور کی چتا کو آگ کیوں نہیں لگی؟

 تاریخ عالم کا وہ واحد ہندو جس کی چتا پر کئی من گھی ڈالاگیا مگر اُس کے جسم کو آگ نہ لگی، اُس کا قرآن سے کیا تعلق تھا ،
تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے ۔ پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے۔ دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا۔ نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی*
۔دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا۔وقت گزرتا رہا اورطباعت و اشاعت کا کام جاری رہا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ہوئی۔ مسلمان،ہندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاہور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔ ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ *یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وہی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھےہوگئے.اور اب گھر پر آرام کرنے لگےجبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا. *اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ہاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ہونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے . *ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ہوا نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہیں لگ رہی۔ مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب *جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شمشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔ اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ہےاور جیسے احترام کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ہی نہیں سکے گی چاہے آپ پورے ہندوستان کا تیل اور گھی چتا پر ڈال دیں۔ اس لئے بہترہے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئے۔ 
چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتےہوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ہندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے ۔شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا*
روزنامہ اوصاف
29-10-2019۔
نوٹ
دعوتی تقاضہ کے پیش نظراس پیغام کودوسروں تک ضرور پہنچائیں تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپکے ذریعے بدل دے۔
۔آپ تو مسلمان ہیں قران پر ایمان یقین رکھتے ہیں
 فیس بک سے نقل #من #نقل #و

جمعہ، 11 اپریل، 2025

ہوش والوں کے سبھی ہوش ٹھکانے لگ جائیں ۔ مبشر سعید

ہم اگر تیرے خدوخال بنانے لگ جائیں

صرف آنکھوں پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں

میں اگر پھول کی پتی پہ ترا نام لکھوں
تتلیاں اُڑ کے ترے نام پہ آنے لگ جائیں

تو اگر ایک جھلک اپنی دکھا دے اُن کو
سب مصور تری تصویر بنانے لگ جائیں

ایک لمحے کو اگر تیرا تبسم دیکھیں
ہوش والوں کے سبھی ہوش ٹھکانے لگ جائیں

ہم اگر وجد میں آئیں تو زمانے کو سعید
کبھی غزلیں تو کبھی خواب سنانے لگ جائیں

ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا

 ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا

بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا

رہے دو دو فرشتے ساتھ اب انصاف کیا ہوگا
کسی نے کچھ لکھا ہوگا کسی نے کچھ لکھا ہوگا

بروز حشر حاکم قادر مطلق خدا ہوگا
فرشتوں کے لکھے اور شیخ کی باتوں سے کیا ہوگا

تری دنیا میں صبر و شکر سے ہم نے بسر کر لی
تری دنیا سے بڑھ کر بھی ترے دوزخ میں کیا ہوگا

سکون مستقل دل بے تمنا شیخ کی صحبت
یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہوگا

مرے اشعار پر خاموش ہے جز بز نہیں ہوتا
یہ واعظ واعظوں میں کچھ حقیقت آشنا ہوگا

بھروسہ کس قدر ہے تجھ کو اخترؔ اس کی رحمت پر
اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا

پنڈت ہری چند اختر

مہاجر نامہ۔ منور رانا

 مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا...