پیر، 14 اپریل، 2025

ہم بھی پیئں تمہیں بھی پلایئں تمام رات۔ ریاض خیرآبادی

 ہم بھی پیئں تمہیں بھی پلایئں تمام رات

جاگیں تمام رات جگایئں تمام رات


ان کی جفایئں یاد دلایئں تمام رات

وہ دن بھی ہو کہ ان کو ستایئں تمام رات


زاہد جو اپنے روزے سے تھوڑا ثواب دے

میکش اسے شراب پلایئں تمام رات


اے قیس بے قرار ہےکچھ کوہ کن کی روح

آتی ہے بے ستوں سے صدایئں تمام رات


تا صبح میکدے سے رہی بوتلوں کی مانگ

برسیں کہاں یہ کالی گھٹایئں تمام رات


خلوت ہے بے حجاب ہیں وہ جل رہی ہے شمع 

اچھا ہے اس کو اور جلایئں تمام رات


شب بھر رہے کسی سے ہم آغوشیوں کے لطف

ہوتی رہیں قبول دعایئں تمام رات 


دابے رہے پروں سے نشیمن کو رات بھر

کیا کیا چلی ہیں تیز ہوایئں تمام رات


کاٹا ہے سانپ نے ہمیں سونے بھی دو ریاضؔ

ان گیسوؤں کی لی ہے بلایئں تمام رات

 

جناب ریاض خیر آبادی

اتوار، 13 اپریل، 2025

یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا

 کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے 

وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے


یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے

یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے 


اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن 

اس کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن

 

اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے 

دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی 

اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی 


آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے 

تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ 


کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ 

ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے 


کیفی اعظمی

منشی نول کشور کی چتا کو آگ کیوں نہیں لگی؟

 تاریخ عالم کا وہ واحد ہندو جس کی چتا پر کئی من گھی ڈالاگیا مگر اُس کے جسم کو آگ نہ لگی، اُس کا قرآن سے کیا تعلق تھا ،
تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے ۔ پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے۔ دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا۔ نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی*
۔دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا۔وقت گزرتا رہا اورطباعت و اشاعت کا کام جاری رہا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ہوئی۔ مسلمان،ہندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاہور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔ ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ *یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وہی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھےہوگئے.اور اب گھر پر آرام کرنے لگےجبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا. *اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ہاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ہونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے . *ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ہوا نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہیں لگ رہی۔ مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب *جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شمشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔ اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ہےاور جیسے احترام کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ہی نہیں سکے گی چاہے آپ پورے ہندوستان کا تیل اور گھی چتا پر ڈال دیں۔ اس لئے بہترہے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئے۔ 
چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتےہوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ہندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے ۔شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا*
روزنامہ اوصاف
29-10-2019۔
نوٹ
دعوتی تقاضہ کے پیش نظراس پیغام کودوسروں تک ضرور پہنچائیں تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپکے ذریعے بدل دے۔
۔آپ تو مسلمان ہیں قران پر ایمان یقین رکھتے ہیں
 فیس بک سے نقل #من #نقل #و

جمعہ، 11 اپریل، 2025

ہوش والوں کے سبھی ہوش ٹھکانے لگ جائیں ۔ مبشر سعید

ہم اگر تیرے خدوخال بنانے لگ جائیں

صرف آنکھوں پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں

میں اگر پھول کی پتی پہ ترا نام لکھوں
تتلیاں اُڑ کے ترے نام پہ آنے لگ جائیں

تو اگر ایک جھلک اپنی دکھا دے اُن کو
سب مصور تری تصویر بنانے لگ جائیں

ایک لمحے کو اگر تیرا تبسم دیکھیں
ہوش والوں کے سبھی ہوش ٹھکانے لگ جائیں

ہم اگر وجد میں آئیں تو زمانے کو سعید
کبھی غزلیں تو کبھی خواب سنانے لگ جائیں

ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا

 ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا

بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا

رہے دو دو فرشتے ساتھ اب انصاف کیا ہوگا
کسی نے کچھ لکھا ہوگا کسی نے کچھ لکھا ہوگا

بروز حشر حاکم قادر مطلق خدا ہوگا
فرشتوں کے لکھے اور شیخ کی باتوں سے کیا ہوگا

تری دنیا میں صبر و شکر سے ہم نے بسر کر لی
تری دنیا سے بڑھ کر بھی ترے دوزخ میں کیا ہوگا

سکون مستقل دل بے تمنا شیخ کی صحبت
یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہوگا

مرے اشعار پر خاموش ہے جز بز نہیں ہوتا
یہ واعظ واعظوں میں کچھ حقیقت آشنا ہوگا

بھروسہ کس قدر ہے تجھ کو اخترؔ اس کی رحمت پر
اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا

پنڈت ہری چند اختر

جمعرات، 27 مارچ، 2025

ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے

ہوئے  نام وَر  بے  نشاں   کیسے   کیسے

زمیں  کھا  گئی  آسماں  کیسے  کیسے


تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے

نکیلے  سجیلے   جواں   کیسے   کیسے


نہ  گُل  ہیں  نہ  غُنچے  نو  بُوٹے نہ پتے

ہوئے   باغ   نذرِ   خزاں   کیسے   کیسے


یہاں  درد  سے  ہاتھ   سینے   پہ   رکھا

وہاں  ان  کو  گزرے  گُماں کیسے کیسے


ہزاروں  برس  کی   ہے   بُڑھیا  یہ  دنیا

مگر  تاکتی  ہے   جواں   کیسے   کیسے


ترے  جاں  نثاروں  کے  تیور  وہی  ہیں

گلے  پر  ہیں  خنجر  رواں  کیسے کیسے


جوانی   کا   صدقہ   ذرا   آنکھ   اٹھاؤ

تڑپتے  ہیں  دیکھو  جواں  کیسے کیسے


خزاں  لُوٹ   ہی   لے   گئی   باغ   سارا

تڑپتے    رہے     باغباں     کیسے    کیسے


امیرؔ  اب  سخن  کی   بڑی  قدر   ہو  گی

پھلے  پھولیں  گے  نکتہ داں کیسے کیسے


امیرؔ مینائی

جمعرات، 9 جنوری، 2025

ٹھاکر کا کنواں۔ پریم چند

جو کھونے لوٹا منھ سے لگایا تو پانی میں سخت بدبو آئی۔ گنگی سے بولا، یہ کیسا پانی ہے؟ مارے باس کے پیا نہیں جاتا۔ گلاسوکھا جارہا ہے اور تو سڑا ہوا پانی پلائے دیتی ہے۔

گنگی پرتی دن شام کو پانی بھرلیا کرتی تھی۔ کنواں دور تھا۔ بار بار جانا مشکل تھا۔ کل وہ پانی لائی تو اس میں بو بالکل نہ تھی، آج پانی میں بدبو کیسی؟ لوٹا ناک سے لگایا تو سچ مچ بدبو تھی، ضرور کوئی جانورکنوئیں میں گر کر مرگیا ہوگامگر دوسرا پانی آوے کہاں سے؟

ٹھاکر کے کنوئیں پر کون چڑھنے دے گا۔ دور سے لوگ ڈانڈ بتائے گئے ساہو کا کنواں گاؤں کے اس سرے پر ہے، پر نتووہاں بھی کون پانی بھرنے دے گا؟ چوتھا کنواں گاؤں میں ہے نہیں۔

جوکھو کئی دن سے بیمار ہے۔ کچھ دیر تک تو پیاس روکے چپ پڑا رہا، پھر بولا، اب تو مارے پیاس کے رہا نہیں جاتا۔ لا، تھوڑا پانی ناک بند کرکے پی لوں۔ گنگی نے پانی نہ دیا۔ خراب پانی پینے سے بیماری بڑھ جائے گی، اتنا جانتی تھی، پرنتو یہ نہ جانتی تھی کہ پانی کو ابال دینے سے اس کی خرابی جاتی رہتی ہے۔ بولی یہ پانی کیسے پیوگے؟ نہ جانے کون جانور مرا ہے۔ کنوے سے میں دوسرا پانی لائے دیتی ہوں۔

جوکھو نے آشچریہ سے اس کی اور دیکھا۔ دوسرا پانی کہاں سے لائے گی؟

ٹھاکر اور ساہو کے دوکنوئیں تو ہیں، کیا ایک لوٹا پانی نہ بھرنے دیں گے؟

ہاتھ پاؤں توڑوائے گی اور کچھ نہ ہوگا۔ بیٹھ چپکے سے۔ برہمن دیوتا آشیرواد (دعا) دیں گے۔ ٹھاکر لاٹھی ماریں گے، ساہوجی ایک کے پانچ لیں گے۔ غریبوں کا درد کون سمجھتا ہے۔ ہم تومر بھی جاتے ہیں تو کوئی دوار پر جھانکنے نہیں آتا، کندھا دینا تو بڑی بات ہے، ایسے لوگ کنوئیں سے پانی بھرنے دیں گے۔

ان شبدوں میں کڑواستیہ تھا۔ گنگی کیا جواب دیتی، کنتواس نے وہ بدبودار پانی پینے کو نہ دیا۔

(۲)

رات کے نو بجے تھے۔ تھکے ماندے مزدور تو سوچکے تھے۔ ٹھاکر کے دروازے پر دس پانچ بے فکرے جمع تھے۔ میدانی بہادری کا تو اب زمانہ رہا ہے نہ موقع۔ قانونی بہادری کی باتیں ہو رہی تھیں۔ کتنی ہوشیاری سے ٹھاکر نے تھانے دار کو ایک خاص مقدمے میں رشوت دے دی اور صاف نکل گئے۔ کتنی عقل مندی سے ایک معرکہ کے مقدمے کی نقل لے آئے۔ ناظر اور مہتمم سبھی کہتے تھے، نقل نہیں مل سکتی۔ کوئی پچاس مانگتا کوئی سو، یہاں بے پیسے کوڑی نقل اڑادی۔ کام کرنے کا ڈھنگ چاہیے۔

کسی سمے گنگی کنوئیں سے پانی لینے پہنچی۔

کوپپی کی دھندلی روشنی کنوئیں پر آرہی تھی۔ گنگی جگت کی آڑ میں بیٹھی موقع کا انتظار کرنے لگی۔ اسی کنوئیں کا پانی سارا گاؤں پیتا ہے۔ کسی کے لیے روک نہیں، صرف یہ بدنصیب نہیں بھرسکتے۔

گنگی کا ودّروہی دل رواجی پابندیوں اور مجبوریوں پر چوٹیں کرنے لگا۔ ہم کیوں نیچ ہیں۔ یہ لوگ کیوں اونچے ہیں؟ اس لیے کہ یہ لوگ گلے میں تاگا ڈال لیتے ہیں۔ یہاں تو جتنے ہیں، ایک سے ایک چھنٹے ہیں۔ چوری یہ کریں، جال فریب یہ کریں، جھوٹے مقدمے یہ کریں، ابھی اس ٹھاکرنے تو اس دن بے چارے گڑریا کی ایک بھیڑ چرالی تھی اور بعد میں مارکر کھاگیا۔ انہی پنڈت جی کے گھر میں تو بارہوں ماس جوا ہوتا ہے۔ یہی ساہوجی تو گھی میں تیل ملاکر بیچتے ہیں۔ کام کرالیتے ہیں، مزدوری دیتے نانی مرتی ہے۔ کس بات میں ہیں ہم سے اونچے۔ ہاں، منہ میں ہم سے اونچے ہیں۔ ہم گلی گلی چلاتے نہیں کہ ہم اونچے ہیں، کبھی گاؤں میں آجاتی ہوں تو رس بھری آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جیسے سب کی چھاتی پر سانپ لوٹنے لگتا ہے۔ پرنتو گھمنڈ یہ کہ ہم اونچے ہیں۔

کنوئیں پر کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ گنگی کی چھاتی دھک دھک کرنے لگی۔ کہیں دیکھ لیں، تو غضب ہوجائے۔

ایک لات بھی تو نیچے نہ پڑے۔ اس نے گھڑا اور رسی اٹھالی اور جھک کر چلتی ہوئی ایک ورکش (درخت) کے اندھیرے سایے میں جاکھڑی ہوئی۔ کب ان لوگوں کو دیا آتی ہے کسی پر۔ بے چارے مہنگو کو اتنا مارا کہ مہینوں لہو تھوکتا رہا، اسی لیے تو کہ اس نے بے گار نہ دی تھی۔ اس پر یہ لوگ اونچے بنتے ہیں۔

کنوئیں پر دواستریاں پانی بھرنے آئی تھیں۔ ان میں باتیں ہو رہی تھیں۔

کھانا کھانے چلے اور حکم ہوا کہ تازہ پانی بھرلاؤ۔ گھڑے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

ہم لوگوں کو آرام سے بیٹھے دیکھ کر جیسے مردوں کو جلن ہوتی ہے۔

ہاں، یہ تو نہ ہوا ایک کلسا اٹھاکر بھرلاتے۔ بس حکم چلادیا کہ تازہ پانی لاؤ، جیسے ہم لونڈیاں ہی تو ہیں۔

لونڈیاں نہیں تو اور کیا ہو تم؟ روٹی کپڑا نہیں پاتی؟ دس پانچ روپے چھین جھپٹ کر لے ہی لیتی ہو۔ اور لونڈیاں کیسی ہوتی ہیں۔

مت لجاؤ دیدی۔ چھن بھر آرام کرنے کو جی ترس کر رہ جاتا ہے۔ اتنا کام کسی دوسرے کے گھر کر دیتی تو اس سے کہیں آرام سے رہتی۔ اوپر سے وہ احسان مانتا۔ یہاں کام کرتے کرتے مرجاؤ پر کسی کا منہ ہی سیدھا نہیں ہوتا۔ دونوں پانی بھر کر چلی گئیں تو گنگی ورکش کی چھایا سے نکلی اور کنوئیں کے جگت کے پاس آئی۔ بے فکرے چلے گئے تھے۔ ٹھاکر بھی دروازہ بند کر اندر آنگن میں سونے جارہے تھے۔ گنگی نے چھڑک (وقتی /عارضی) سکھ کی سانس لی۔ کسی طرح میدان تو صاف ہوا۔ امرت چرالانے کے لیے جوراج کمار کسی زمانے میں گیا تھا، وہ بھی شاید اتنی ساؤدھانی کے ساتھ اور سمجھ بوجھ کر نہ گیا ہوگا۔ گنگی دبے پاؤں کنوئیں کے جگت پر چڑھی۔ وجے کا ایسا انوبھو اسے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔

اس نے رسی کا پھندا گھڑے میں ڈالا۔ دائیں بائیں چوکنی درشٹی سے دیکھا، جیسے کوئی سپاہی رات کو شترو کے قلعے میں سوراخ کر رہا ہو۔ اگر اس سمے وہ پکڑلی گئی تو پھر اس کے لیے معافی یا رعایت کی رتی بھرامید نہیں۔ انت میں دیوتاؤں کو یاد کرکے اس نے کلیجا مضبوط کیا اور گھڑا کنویں میں ڈال دیا۔ گھڑے نے پانی میں غوطہ لگایا، بہت ہی آہستہ، ذرا بھی آواز نہ ہوئی، گنگی نے دوچار ہاتھ جلدی جلدی مارے۔ گھڑا کنوئیں کے منہ تک آپہنچا۔ کوئی بڑا شہزور پہلوان بھی اتنی تیزی سے اسے نہ کھینچ سکتا تھا۔

گنگی جھکی کہ گھڑے کو پکڑ کر جگت پر رکھے کہ یکایک ٹھاکر صاحب کا دروازہ کھل گیا۔ شیر کا منہ اس سے ادھیک بھیانک نہ ہوگا۔ گنگی کے ہاتھ سے رسی چھوٹ گئی۔ رسی کے ساتھ گھڑا دھڑام سے پانی میں گرا اور کئی چھڑتک پانی میں ہلکورے کی آوازیں سنائی دیتی رہی۔

ٹھاکر کون ہے، کون ہے؟ پکارتے ہوئے کنوئیں کے پاس آرہے تھے اور گنگی جگت سے کود کر بھاگی جارہی تھی۔ گھر پہنچ کر دیکھا کہ جوکھو لوٹا منہ سے لگائے وہی میلا گندا پانی پی رہا ہے۔


ہم بھی پیئں تمہیں بھی پلایئں تمام رات۔ ریاض خیرآبادی

 ہم بھی پیئں تمہیں بھی پلایئں تمام رات جاگیں تمام رات جگایئں تمام رات ان کی جفایئں یاد دلایئں تمام رات وہ دن بھی ہو کہ ان کو ستایئں تمام رات...