منگل، 24 دسمبر، 2024

لڑکی کی دعا از ساغر خیامی


لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی بھر کرے عاشق مرا سیوا میری

صبح سے شام تلک ہو کے مگن گاتا رہے

میرا عاشق مری الفت میں بھجن گاتا رہے

یوں میں چمکوں کہ زمانے میں اندھیرا ہو جائے

کوئی لنگڑا کوئی اندھا کوئی لولا ہو جائے

میرے جلووں کو عطا کر دے وہ قدرت یارب

میری نفرت کو بھی سمجھے وہ محبت یارب

میری فطرت ہو امیروں سے محبت کرنا

اور غریبوں کی سر راہ مرمت کرنا

بھولے بھالوں کی رقم خوب کھلانا مجھ کو

مرے اللہ سگائی سے بچانا مجھ کو

تو ہے مختار ہر اک راز کا یزدانی ہے

دودھ لانے کی مرے گھر میں پریشانی ہے

پیشگی ہی مرے درزی کی رقم بھی بھر دے

وقت پڑ جائے تو ڈیڈی کی چلم بھی بھر دے

اپنی دولت کی مرے ہاتھ میں جھولی دے دے

ایسا عاشق نہیں درکار جو گولی دے دے

میرا لچھمنؔ سا ہو دیور مجھے مقدور نہیں

رامؔ جیسا مرا شوہر ہو یہ منظور نہیں

جو پک اپ کرتا رہے پیار کی بانہوں میں مجھے

دیکھ سکتا ہو جو اغیار کی بانہوں میں مجھے

دعوے رکھتا نہ ہو جو یار پتی ہونے کا

جذبہ رکھتا ہو جو بیوی پہ ستی ہونے کا

میری الفت میں اسے کر دے تو پاگل مولا

میں کہوں چائے تو منگوا دے وہ کیمپا کولا

آئی آواز خداوند دیے دیتے ہیں

داخلہ تیرا جے این یو میں کئے دیتے ہیں

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

مصر میں فروغِ اردو کے لیے پروفیسر حسن الاعظمی کی جدوجہد

مصر میں فروغِ اردو کے لیے پروفیسر حسن الاعظمی کی جدوجہد


عبدالعلیم قاسمی بن عبدالعظیم اصلاحی


ہند و پاک میں وجود پذیر زبان "اردو" چند دہائیوں ہی میں مقامی سرحدوں کو عبور کرکے متعدد ملکوں میں داخل ہوئی ، آج دنیا کے کم و بیش اکثر ممالک کی یونیورسٹیوں اور جامعات  میں"  اردو "کو بحثیت زبان پڑھایا جاتا ہے ، بہت سی یونیورسٹیوں اور جامعات میں اردو کے علاحدہ  شعبے بھی قائم ہیں ، اردو اب محض مسلمانوں یا ہند و پاک کی زبان نہیں رہی ہے ؛ بلکہ یہ ایک عالمی زبان کا درجہ رکھتی ہے ، اردو کو فروغ دینے کے لیے ، اس کو متعدد ملکوں میں متعارف کرانے کے لیے عاشقانِ زبانِ اردو کی لازوال قربانیاں اور انتہک محنت و جدوجہد رہی ہے ۔ 

 پروفیسر حسن الاعظمی دنیا کی متعدد زبانوں پر مہارت رکھتے تھے، اردو ، فارسی ، عربی ، انگریزی اور ترکی پر یکساں مہارت تھی ، آپ کی کوششوں اور جد و جہد سے مصر میں اردو کے فروغ ملا ، جامعہ مصریہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں میں اردو کا شعبہ قائم ہوا ، مصر میں اردو کے فروغ کے بعد اہل شام ، بغداد اور ترکی بھی اپنے ملکوں میں اردو کے شعبے قائم کئے جو کہ حسن الاعظمی ہی کی جد و جہد کے ثمرات تھے ۔ 

حسن الاعظمی 25/ دسمبر 1918 کو مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ، مدرسۃ التعلیم اور جامعہ احیاء العلوم مبارک پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ، اس کے بعد 1930ء میں جامعہ سیفیہ سورت تشریف لائے ، یہاں آپ نے ملا رحمت مبارک پوری کی نگرانی میں اسلامی فرقوں کی بنیادی کتب اور ادیان عالم کا مطالعہ کیا ، مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیے عالم اسلام کے عظیم ادارہ  "جامعہ ازہر" مصر میں داخلہ لیا ، یہاں چند سال تعلیم حاصل کرکے  سند فراغت حاصل کی ، فراغت کے بعد جامعہ ازہر ہی میں پروفیسر منتخب ہوئے ، مصر اور عالم اسلام میں علامہ اقبال کے فلسفہ کو متعارف کرانا ، ان کے اشعار کو عربی میں پیش کرکے عالم عرب کو فکر اقبال سے روشناس کرانا اور مصر میں اردو کو فروغ دینا ،جلی حروف سے لکھنے کے لائق آپ کے کارہائے جلیلہ ہیں ۔

پروفیسر حسن الاعظمی کا شمار کثیر التصانیف مصنفین میں ہوتا ہے ، آپ نے اردو اور عربی میں سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں ، "المعجم الاعظم " کے نام سے چار جلدوں میں عربی اردو لغت اور پانچ جلدوں میں اردو عربی لغت لکھی ہے ، آپ نے ہند و پاک اور مصر کو ایک دوسرے سے روشناس کرانے کے لیے مصر کے حالات ، وہاں کی تاریخی ، ثقافتی اور تہذیبی نقوش پر مشتمل متعدد کتابیں بنام "آزاد مصد " ، "آج کا مصر" ، "انقلابی مصر "اور عظیم مصر "  وغیرہ اردو میں لکھی ،  اسی طرح ہندو پاک پر عربی میں کتابیں لکھی ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں ۔ 

(1)فتی الہند و باکستان (2)الثقافۃ الاسلامیۃ فی الھند و باکستان (3) کشمیر جنۃ الارض 

قاضی اطہر مبارک پوری اہل مبارک پور کے تصنیفی کارناموں کے ضمن میں لکھتے ہیں : 

استاذ محمد حسن الاعظمی مبارک پوری ازہری کی بہت سی عربی تصانیف قاہرہ اور بیروت سے شائع ہوئی ہیں ، 1939ء میں حکومت مصر نے "جامع ازہر" کے ہزار سالہ جشن کے موقع پر مشہور فاطمی حاکم امیر تمیم کا دیوان شائع کیا ، جسے استاذ موصوف نے مرتب کیا ، پھر 1954ء میں مصر سے شائع ہوا ۔ ان ہی کی جدوجہد سے شاہ فاروق کے دور میں جامع ازہر میں پہلی بار اردو زبان کی تعلیم جاری ہوئی ، اور وہی اس کے پہلے معلم ہوئے ، استاذ محمد حسن ازہری نے اپنی سینکڑوں عربی اردو تصانیف و توالیف  کے ذریعہ اسماعیلی مذہب کو ستر سے ظہور میں لاکھڑا کیا ۔ ان کی سینکڑوں تصانیف میں "المعجم الاعظم" عربی اردو لغت اہم ترین کتاب ہے ۔ "  (1)

پروفیسر حسن الاعظمی کے کارہائے جلیلہ میں سب سے بڑا کارنامہ مصر میں اردو کو فروغ دینا اور جامعہ مصریہ(موجودہ نام جامعہ قاھرہ) اور جامع ازہر میں اردو کے شعبہ کا قیام ہے ، جامعہ مصریہ میں شروع میں آپ کے مطالبہ پر اردو کو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے نصاب میں داخل کیا ، لیکن اس کے نمبرات شمار نہیں کئے جاتے تھے ، اس کے علاوہ آپ ہر پنج شنبہ کو "اقبالیات " پر لکچر دیتے تھے،جس کی وجہ سے علامہ اقبال کو براہ راست سمجھنے کے لیے مصریوں کے اندر اردو سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوا ، بعد میں آپ نے جامعہ مصریہ میں اردو کو دیگر زبانوں کی طرح نصاب میں مستقل طور داخل کرنے کی درخواست کی ، اس جدوجہد کی روداد حسن الاعظمی ہی کی قلم سے ملاحظہ فرمائیں ، لکھتے ہیں : 

"1937ء میں جب میں نے دیکھا کہ جامع مصریہ میں باقی تمام اہم مشرقی زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن اردو کونظرانداز کر دیاگیا ہے تو کلیة الآداب کے پرنسپل ڈاکٹر طہ حسین سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ اردو تعلیم کا بھی بندوبست ہونا چاہیے۔ بہت مشکل سے یہ فیصلہ ہوا کہ اردو ایک اختیاری مضمون کی طرح پڑھی جائے۔

  یعنی اس کے نمبر نہ شمار ہوں گے ۔ ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں نے اس عرصہ میں 20/ طلبہ کو اردو پڑھائی۔ شرط یہ تھی کہ اردو صرف وہی طلبہ پڑھ سکتے ہیں، جو فارسی اور عربي دونوں زبانوں سے واقف ہوں۔ چناں چہ میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ طلبہ کو پہلے اسیی اردو پڑھائی جس میں عربی و فارسی کے کافی الفاظ موجود تھے، اس طرح طلبہ بہتر اردو لکھنا پڑھنا سیکھ گئے، پھر انھیں آہستہ آہستہ آسان لفظ استعمال کرنے کی مشق کرائی ۔ غرض عرب طلبہ کو اردو تعلیم کے لیے یہاں سے الٹا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، مثلا پہلے اردو چوتھی، پھر تیسری، پھر دوسری پھر پہلی ۔ جو اردو یہاں آسان کہی جاسکتی ہے وہاں مشکل ہوگی۔ اس لیے کہ ہندی الفاظ زیادہ ہوتے ہیں، اور جو مشکل کہی جاتی ہے وہ وہاں آسان ہوگی ۔ اور اس طرح ہندوؤں کی متوقع اردو کا ہندوستان سے باہر رائج ہونا نا ممکن ہے ۔

 اس دوران میں نے یہ پروپیگنڈہ جاری رکھا کہ اردو کو دیگر زبانوں کا رتبہ دیا جائے اور اس کے نمبر دوسرے نمبروں میں شمار ہوں۔ آخر میری محنت بارآور ہوئی اور 7/ مارچ 1939ء کو پارلیمنٹ نے یہ تجویز منظور کرلی۔" (2)

پروفیسر حسن الاعظمی کی درخواست پر جامعہ مصریہ کے نصاب میں اردو داخل کی گئی ، اس وقت کے مصر کے فرماں رواں شاہ فاروق نے ایک خاص فرمان کے ذریعہ اس کی اجازت دی ، چونکہ یہ فرمان اردو کی تاریخ میں خاص اہمیت و افادیت رکھتا ہے ، اس لیے ہم یہاں اس طویل فرمان کے بعض اہم نکات  درج کرتے ہیں : 

"ہم فاروق اول شاہ مصر ، بابت لائحہ اساسیہ برائے کلیہ آداب و بربناء تصفیہ مجلس جامعہ (یونیورسٹی بورڈ) مورخہ 7/ مارچ 1939ء کو بربناء عریضہ وزیرِ تعلیمات عامہ و بمطابق رائے مجلس وزراء ذیل کا قانون درج کرتے ہیں ۔ 

(1) کلیہ آداب (آرٹ کالج ) میں ایک معہد (ٹرینگ کالج ) کھولا جائے، جس کا نام " معہد اللغات الشرقیہ و آدابھا " رکھا جائے ، اس کی غرض و غایت امم اسلامیہ کی زبانوں اور قدیم و جدید عربی لہجوں میں امتیاز پیدا کرنا ہے۔

(2) معہد حسب ذیل شعبوں پر مشتمل ہوگا ۔

(1)  شعبہ زبانِ امم اسلامیہ

 (2) شعبہ لہجاتِ عربیہ زبان امم اسلامیہ میں حسب ذیل زبانوں کی تعلیم دی جائے گی ، فارسی ترکی اور اردو (ہندوستانی ) مزید برآں قدیم اور زندہ مشرقی زبانوں کا اضافہ کیا جائے گا ، کلیہ میں طالب علم کی شرکت کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ عربی ادب کا بی اے (B.A) ہو یا کوئی اور ڈگری رکھتا ہو ، جو طیلسانین کے مساوی ہو جسے کالج بورڈ کی رائے کی بناء پر یونیورسٹی بورڈ معتبر سمجھے۔" (3)

 جامعہ مصریہ میں اردو کے قیام کے بعد اس شعبہ میں کسی ماہر استاذ کے لیے ہندوستان سے کسی موزوں شخص کے تقرر کے لیے خطوط لکھے گئے ، چونکہ ذریعہ تعلیم عربی تھی ، اور طلباء کے لیے اردو دانی کا ذوق عربی تفہیم و تدریس کے بغیر دشوار تھا ، نیز پروفیسر حسن الاعظمی ایک عرصے سے اردو خدمات انجام دے رہے تھے ، اور عربی میں بھی کافی مہارت حاصل کرلی تھی ، اور آپ نے جامع ازہر سے آخری ڈگری امتیاز کے ساتھ حاصل کی تھی ، اسی لیے بالآخر آپ ہی کو شعبہ اردو کا پروفیسر منتخب کیا گیا ۔ 


مولانا عبدالحلیم ظہوری مصر میں اردو کے اولین نقوش اور اردو کے فروغ  کے لیے مصر میں کی جانے والی سعی و جہد اورکوششوں کا تذکرہ "مصر میں اردو " نامی کتاب میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

" ادھر ایک عرصہ سے ہندوستان میں اردو زبان کو کل ہند زبان بنانے کا مسئلہ درپیش ہے ، تمام ممکن ذرائع اس کی نشر و اشاعت اور ترویج و توسیع کے لیے استعمال کئے جارہے ہیں، اس کو تمام ہندوستان کی قومی و ملکی زبان قرار دینے کے لیے کبھی اس کی ساخت ، اس کی ہییت ترکیبی اور اس کی لچک سے حجت کی جارہی ہے ، اور کبھی اس کے عالم گیر زبان ہونے کے دعوے میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں وہ بولی اور سمجھی جاتی ہے ، لیکن تحقیقات کی دنیا میں یہ امر حیرت افزا ہے کہ بیرون ہند میں اس کی ترویج و اشاعت کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ، سرزمین مصر میں جو اس وقت عالم اسلام کی تہذیب و ثقافت کا مرکز اور اسلامی علوم و فنون کا سرچشمہ ہے، اردو زبان کی نشر و اشاعت کے ذریعہ اس کے ادبیات و معارف اس کے علمی جواہر ریزوں اور یہاں کے بہترین دماغی شاہکار سے روشناس کرانے کے لیے کہاں تک اقدامی سعی اور عملی جدو جہد کی گئی ہے ۔ پروفیسر حسن الاعظمی دنیائے اردو ادب میں لائق صد تحسین اور مبارک آباد ہیں کہ آپ نے اردو زبان کی ترقی و احیاء کے لیے جدوجہد شروع کی ، 1938ء میں موصوف نے ڈاکٹر طہ حسین پرنسپل "کلیۃ الآداب" جامعہ مصریہ سے درخواست کی کہ اردو زبان کی تعلیم کا انتظام کلیہ میں کیا جائے ۔ 

اس درخواست کو منظور کرلیا گیا ، اور ڈاکٹر صاحب نے عارضی طور پر ایک سال کے لیے حسن الاعظمی صاحب کو "اردو ادب اور شاعری" پر لکچر دینے کے لیے مقرر کردیا۔ اس شعبہ میں ایم ، اے کے تقریبا  20/ طلباء نے شرکت کی ، ان دروس میں زیادہ تر علامہ اقبال کے فلسفہ کی تشریح اور اردو زبان کے دیگر بعض شعراء مثلا غالب ، حالی ، اکبر اور امجد حیدرآبادی وغیرہ سے تعارف کرایا گیا۔ جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ۔ 

1939ء میں مذکورہ طلباء نے حکومت مصریہ میں ایک عریضہ پیش کیا کہ اردو کو بطور ایک علمی زبان کے فارسی و ترکی زبان کے ساتھ ساتھ کلیہ آداب میں داخل کیا جائے ۔  اسی اثناء میں ڈاکٹر عبدالوہاب بک عزام نے جو اس وقت کلیہ آداب میں " شعبہ السنہ مشرقیہ "اور علامہ اقبال سے ان کا تعارف لندن میں ہوچکا تھا ، اقبالیات کو سمجھنے کے لیے پروفیسر حسن الاعظمی سے  اردو زبان سیکھی ، ڈاکٹر صاحب ترکی ، انگریزی فارسی ، جرمن اور دیگر کئی مغربی زبانوں کے ماہر ہیں ، آپ نے بھی اقبالیات کا ترجمہ عربی میں کیا اور اردو کو نصاب میں شریک کرنے میں بڑی مدد کی ۔ مصری پارلیامنٹ اور اردو شاہ مصر فاروق اول کے فرمان کے ذریعہ جامعہ مصریہ میں اردو کو شامل کیا گیا ، پروفیسر حسن الاعظمی کی ہی درخواست پر جامع ازہر وغیرہ میں بھی اردو شعبے کھلے ، مصر میں  اردو زبان کی خدمات اور اس کی نشر و  اشاعت کا یہ مختصر اولین خاکہ ہے۔ "(4)

جامعہ مصریہ میں اردو کے قیام کے بعد نصاب کا مسئلہ پیش آیا کہ اس شعبہ میں کون سی کتابیں پڑھائی جائے ، کیسا نصاب منتخب کیا جائے ،پروفیسر حسن الاعظمی نے اردو زبان کے اپنے ایک شاگرد ڈاکٹر عبدالوہاب بک عزام کے ساتھ مل کر اس شعبہ کے نصاب کو مرتب کیا ، جس کے ذریعہ مصر کے اساطین علم و ادب نے پروفیسر حسن الاعظمی سے اردو زبان سیکھی ، جن میں مصری ادیب محمد حسن زیات ، ڈاکٹر طہ حسین شیخ صاوی شعلان قابل ذکر ہیں ۔ پروفیسر حسن الاعظمی اپنی کتاب "عظیم مصر " میں لکھتے ہیں کہ : 

" تین سال کا نصاب مقرر ہوا اور فیصلہ ہوا کہ پہلے اور تیسرے سال امتحان ہوں ، ڈاکٹر عزام کی مدد سے میں نے عربی اور فارسی جاننے والوں کو اردو پڑھانے کا ایک خاص نصاب تیار کرلیا تھا، اس سے پہلے میں زیادہ تر طلبہ کو اقبال اور غالب کی نظم اور بعض ملکی نثر نگاروں کے چیدہ چیدہ شاہ کار پڑھاتا تھا۔" (5)

مارچ 1939ء میں جامع مصر میں باقاعدہ اردو زبان و ادب کی تعلیم شروع ہونے کے بعد اعظمی صاحب نے جامع ازہر مصر کے وائس چانسلر علامہ شیخ محمد مصطفى المراغی کی خدمت میں ایک مراسلہ روانہ کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جامعہ ازہر میں اردو تعلیم کو باقاعدہ شریکِ نصاب کیا جائے ۔ شیخ مراغی نے آپ سے وعدہ کیا کہ اگر کوئی موزوں شخص تعلیم دینے کے لیے مل جائے توکل ہی سے اس کا انتظام کیا جاسکتا ہے، اور یہاں تک کہا کہ اگر تم جامع مصر کو چھوڑ کر ازہر میں آنے کے لیے تیار ہو جاؤ تو ابھی تقرری کے احکام نافذ کیے جاسکتے ہیں۔

چناں چہ فروغِ اردو کے لیے آپ نے جامع مصریہ سے استعفی دے کر جامعہ ازہر میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ آپ کے بعد جامعہ مصریہ میں بہت سے اساتذہ نے اردو کی تعلیم دی ۔ ان میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف علیگ بھوپالی شاگرد علامہ عبد العزی میمن بھی تھے۔(6)

ڈاکٹر شباب الدین صاحب  پروفیسر حسن الاعظمی کی زریں خدمات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں  :

"اس علمی گہوارہ کا ایک فرزند جلیل حسن الاعظمی بھی ہے جو بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں آسمانِ علم و ادب پرطلوع ہوا، ابتدائی تعلیم مبارک پور ہی میں حاصل کی، مگر طلبِ علم کے شوق نے اس کو سورت، حیدر آباد، لاہور اور کراچی کے ساتھ ساتھ مصر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا، فراغت کے بعد قاہرہ یونیورسٹی میں پروفیسری کے منصب پر فائز ہوئے ، ان کی علمی و تصنیفی و  تعلیمی خدمات اور ادارتی سرگرمیوں کا دائرہ خاصا وسیع ہے ۔  ہمارے نزدیک ان کا سب سے حیرت انگیز کارنامہ مصر میں اردو زبان و ادب کے متعلق ان کی خدمات اور عالم عرب بالخصوص مصر میں علامہ اقبال کو متعارف کرانا ہے۔ مبارک پور کے اس فرزند نے اردو کی نشوونما اور ترقی کے لیے بڑی قابل فخر خدمت انجام دیں، عربوں کے لیے آسان اردو نصاب تیار کیا اور قاہرہ یونیورسٹی میں انھیں کی کوششوں سے باقاعدہ شعبہ اردو قائم ہوا اور آج بھی یہ  شعبہ پوری آب و تاب کے ساتھ سرگرم ہے۔اس کے موجودہ صدر پروفیسر جلال الحفناوی صاحب نے علامہ شبلی کی سیرت النبی پانی ، الفاروق ، علم الکلام، الکلام اور المامون وغیرہ کا عربی ترجمہ محض اردو زبان کے مصر میں فروغ کے مقصد سے کیا،  ان تمام سرگرمیوں کے پیچھے اگریہ کہا جائے کہ مولانا حسن الاعظمی کی کوششوں کا دخل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کے عرب علما عطاء الرحیم، محمد رزق المصری اور ڈاکٹر عبد الوہاب عزام وغیرہ سے بڑے گہرے مراسم تھے۔"(7)


1980ء میں "عین شمش یونیورسٹی "قاہرہ میں اردو کا آغاز ہوا ،ہا ہے۔ اب تو مصر كى جامعات، بطور خاص جامعہ ازہر، جامعہ عين شمس، جامعہ مصریہ  اور جامعہ قاهره وغیرہ ميں بھى ايم اے اور پى ايچ ڈى كى سطح پر ریسرچ و تحقيق كا کام ہورہا ہے

 ديگر جامعات ميں مثلا منصوره ، اسكندريہ ، وغيره بھى اردو كى تعليم اور تحقيقى كام ہورہا ہے ۔بعض دیگر جگہوں پر بھى اردو كورسز بھى ہوتے ہيں، 1996ء سے  جامعہ ازہر سے سالانہ اردو مجلہ" اردیات "شائع ہورہا ہے ۔ یقینا یہ سب پروفیسر حسن الاعظمی کی کوششوں ہی کے ثمرات ہے کہ آج مصر میں اردو کی ترویج و اشاعت ہورہی ہے ۔ 


مصادر و مراجع 

(1)قاضی اطہر مبارک پوری ، تذکرہ علماء مبارک پور، مکتبہ الفہیم مئو ، 2010ء ص: 96/97

(2)حسن الاعظمی ، عظیم مصر ، مکتبۃ الاعظمیہ کراچی ، اپریل 1981ء ، ص: 329/330 

(3)حسن الاعظمی ، حیاۃ والممات فی فلسفۃ اقبال ، بزم اقبال حیدرآباد ، 1975، ص: 220/221

(4)مولانا عبدالحلیم ظہوری ، مصر میں اردو ، ادارہ معارف اسلامیہ حیدرآباد ، ص: 14/ 16

(5)عظیم مصر ، ص: 330

(6)مہتاب پیامی ،بابائے عربی حسن الاعظمی ، اقبال ایجوکیشنل مبارک پور ، دسمبر 2013ء ، ص: 25

(7)مصدر سابق ،عظمت رفتہ از ڈاکٹر شباب الدین ص: 9


شائع شدہ ماہنامہ "الماس" ممبئی دسمبر 2021ء

بدھ، 4 دسمبر، 2024

چھوٹی سی بے رخی پہ شکایت کی بات ہے۔ قمر جلال آبادی

چھوٹی سی بے رخی پہ شکایت کی بات ہے

اور وہ بھی اس لیے کہ محبت کی بات ہے

میں نے کہا کہ آئے ہو کتنے دنوں کے بعد

کہنے لگے حضور یہ فرصت کی بات ہے

میں نے کہا کی مل کے بھی ہم کیوں نہ مل سکے

کہنے لگے حضور یہ قسمت کی بات ہے

میں نے کہا کہ رہتے ہو ہر بات پر خفا

کہنے لگے حضور یہ قربت کی بات ہے

میں نے کہا کہ دیتے ہیں دل تم بھی لاؤ دل

کہنے لگے کہ یہ تو تجارت کی بات ہے

میں نے کہا کبھی ہے ستم اور کبھی کرم

کہنے لگے کہ یہ تو طبیعت کی بات ہے


منگل، 3 دسمبر، 2024

بنجارہ نامہ از نظیر اکبرآبادی

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گوئیں پلا سر بھارا

کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے

اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے

کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے

کیا داکھ منقےٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا

یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا

قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا

دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے

زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے

جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے

پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی

اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی

یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی

دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی

اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی

کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی

کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چینی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل

اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل

گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ

چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر

جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر

نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر

کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے

جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے

کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے

کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


مفرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے

سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے

کیا ڈبے موتی ہیروں کے کیا ڈھیر خزانے مالوں کے

کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


کیا سخت مکاں بنواتا ہے خم تیرے تن کا ہے پولا

تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا

کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا

گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن

ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن

کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن

کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا

کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیے اور ٹانکے گا

ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا

اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہفتہ، 30 نومبر، 2024

اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے! پروین شاکر

 اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے

میں نے کہا۔۔۔۔۔!!!   


تُجھے عشق ہو خُدا کرے،

کوئی تُجھ کو اس سے جُدا کرے،

تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جا ئیں،

تیری آنکھ پُرنم رہا کرے،

تُو اس کی باتیں کیا کرے،

تو اس کی باتیں سُنا کرے،

اُسے دیکھ کر تو رُک پڑے،

وہ نظر جُھکا کر چلا کرے،

تُجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے،

تو ملن کی ہر پل دُعا کرے،

ترے خواب بکھریں ٹوٹ کر،

تُو کرچی کرچی چُنا کرے،

تُو نگر نگر پھرا کرے،

تُو گلی گلی صدا کرے،

میں کہوں عشق ڈھونگ ہے،

تُو نہیں نہیں کہا کرے،

یہ دُعا ہے آتشِ عشق میں،

کہ میری طرح تُو جلا کرے،

نہ نصیب ہو تُجھے بیٹھنا،

تیرے دل میں درد اٹھا کرے،

لٹیں ہوں کُھلی اور چشمِ تر،

کہیں نالہ لب پہ ہو سوز گر،

کہ میری تلاش میں در بدر،

تو پکڑ کے دل کو پھرا کرے،

تیرے سامنے تیرا گھر جلے،

تُو بجھا سکے نہ بس چلے،

تیرے دل سے نکلے یہی دعا،

نہ گھر کسی کا جلا کرے،

ُتجھے عشق ہو پھر یقین ہو،

اُسے تسبیحوں پر پڑھا کرے،

لوٹ آئیں خیر سے پھر وہ دن،

کہیں نہ آئے چین، تجھے میرے بن،

نہ لگائیں تجھ کو گلے سے ہم،

تُو ہزار منتیں کیا کرے،

تُجھے عشق ہو خُدا کرے،

کوئی تُجھ کو اس سے جُدا کرے۔۔۔


پروین شاکر


#hiba______writes

بدھ، 20 نومبر، 2024

شارب ردولوی کا زندگی نامہ

 

زندگی نامہ

نام مسیب عباس شارب 

قلمی نام شارب ردولوی

والد حکیم حسن عباس ، صدر الافاضل

والدہ امیرالنساء

تاریخِ پیدائش یکم ستمبر 1935 (بہ حساب سرٹیفکیٹ) ردولی، ضلع( بارہ بنکی) موجودہ ضلع ایودھیا، یوپی

بعض اہل خانہ کے مطابق 13 ؍  مارچ 1932

تعلیم: بی۔اے۔(آنرس) ایم۔اے۔ (اردو) پی ایچ۔ڈی ۔ لکھنؤ یونی ورسٹی، لکھنؤ

جدید اردو ادبی تنقید کے اصول Theoritical Basis of Modern Urdu Literary Criticism  

کے موضوع پر، پروفیسر احتشام حسین کی نگرانی میں پی ایچ ڈی۔


ملازمت:


1961 دیال سنگھ (شبینہ) کالج ،دہلی یونی ورسٹی میں اردو لکچرر کی حیثیت تقرر

1975 بیوروفارپروموشن آف اردو، وزارتِ تعلیم و  سماجی بہبود میں پرنسپل پبلی کیشن آفیسر کی حیثیت سے تقرر

1979 وزارت تعلیم سے مستعفی، دیال سنگھ کالج دہلی یونی ورسٹی میں بحیثیت سینئر لکچرر(ریڈر) واپسی

1990 دہلی یونی ورسٹی، شعبۂ اردو میںبحیثیت ریڈر تقرر

1993 جواہرلال نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی کے سنٹر آف انڈین لینگویجز میں بحیثیت پروفیسر تقرر

2000 جواہرلال نہرو یونی ورسٹی سے وظیفہ یاب (رٹائر)


 مطبوعہ کتابیں:

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم 2022(دوسرا ایڈیشن 2023)

دشت جنوں (مرتبہ) 2019

ترقی پسند شعری فکر اور اردو شعرا 2018

تنقیدی عمل 2015 (دوسرا ایڈیشن 2017)

اسرارالحق مجاز(مونوگراف) ساہتیہ اکاڈمی نئی دہلی 2009(دوسرا ایڈیشن 2016)

اسرارالحق مجاز(ہندی ترجمہ، کشمیری میں ترجمہ) 2015

مرثیہ اور مرثیہ نگار 2006

جدیداردو تنقید، اصول و نظریات 1968(آٹھواں ایڈیشن 2015)

تنقیدی مباحث(مضامین) 1995

معاصر اردو تنقید (مرتب) 1994

10۔ انتخاب غزلیات سودا مع مقدمہ 1992

11۔ آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید(مرتب) 1991

12۔ اردو مرثیہ (مرتب) 1991

13۔ تنقیدی مطالعے(مضامین) 1984

14۔ افکار سودا 1960(دوسرا ایڈیشن1974)

15۔ مطالعہ ولیؔ 1972

16۔ جگر فن اور شخصیت 1961 (دوسرا ایڈیشن2018)

17۔ گل صدرنگ(1960 میں حیات غزل گو شعرا کا انتخاب) 1960

18۔ مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر 1959


انعامات و اعزازات


٭ خمار میموریل اکیڈمی بارہ بنکی 2022

٭ آل انڈیا علماء بورڈ لکھنؤ 2021

٭ کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ، اردو اکادمی دہلی 2019

٭ یش بھارتی ایوارڈ،( حکومت اترپردیش کا سب سے بڑا اعزاز) 2017

٭ شان اودھ اعزاز، وَن وائس سوسائٹی لکھنؤ 2017

٭ کل ہند مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ کولکتہ 2015

٭ نواب واجد علی شاہ ایوارڈ، لکھنؤ لٹریری سوسائٹی 2014

٭ اعزاز ثاقب ایوارڈ، ثاقب ایجوکیشنل سوسائٹی 2014

٭ کیفی اعظمی کل ہند ایوارڈ لکھنؤ 2013

٭ افتخار اودھ ایوارڈ، مومن انصارسبھا لکھنؤ 2013

٭ اعزاز، انجمن ترقی پسند مصنفین کولکتہ 2011

٭ فن رتن ایوارڈ ، بھارتیہ فنکار سوسائٹی لکھنؤ 2011

٭ انجمن ترقی پسند مصنفین کے 75ویں جشن پر اعزاز ، الہ آباد 2011

٭ اردو ہندی ساہتیہ ایوارڈ یوپی لکھنؤ 2009

٭ غالب ایوارڈ(برائے تحقیق وتنقید) ایوان غالب نئی دہلی 2007

٭ ردولی سمان، لائنس انٹر نیشنل یوپی 2002

٭ مولاناابوالکلام آزاد ایوارڈ یوپی اردو اکیڈمی لکھنؤ 1999

٭ فراق گورکھپوری ایوارڈ، عالمی اردو کانفرنس نئی دہلی 1996

٭ تنقید و تحقیق ایوارڈ،اردو اکیڈمی دہلی 1986

٭ نیاز فتحپوری ایوارڈ ، ہمدرد فاؤنڈیشن و حلقہ نیاز و نگار کراچی ، پاکستان 1987

٭ نشان سجاد ظہیر، کل ہند ترقی پسند مصنفین گولڈن جبلی کانفرنس ،نئی دہلی 1986

٭ الفکر اعزاز، الفکر کراچی ، پاکستان 1986

٭ امتیاز میر ایوارڈ، آل انڈیا میر اکادمی لکھنؤ 1985

٭ تنقیدی مطالعہ پر یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ 1984

٭ جدید اردو تنقید اصول و نظریات پر یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ 1968

٭ مطالعہ ولی پر یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ 1974


علمی اداروں کی رکنیت:


٭ صدر کل ہند کیفی اعظمی اکیڈمی لکھنؤ 2018

٭ صدراردو رائٹرس فورم لکھنؤ 2013

٭ ممبر یوپی اردو اکیڈمی لکھنؤ 2009

٭ ممبر بورڈ آف مینجمنٹ آف دی اکیڈمی فار پروفیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ٹیچر

جامعہ ملیہ اسلامیہ 2008

٭ ممبر گورننگ کونسل غالب اکیڈمی، نئی دہلی 2002-1997

٭ ممبر بورڈ آف اسٹڈیز علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 2008-2002

٭ بانی منیجنگ شعاع فاطمہ تعلیمی و فلاحی ٹرسٹ لکھنؤ/دہلی 1996-2016

٭ صدر شعاع فاطمہ تعلیمی و فلاحی ٹرسٹ لکھنؤ/ دہلی 2016 تا حال

٭ چیئرمین اکسپرٹ کمیٹی برائے نصاب اتراکھنڈ اوپن یونیورسٹی،ہلدوانی 2009-2008

٭ سکریٹری سوسائٹی فارسروس(فلاحی ادارہ) لکھنؤ/دہلی 1997 تا حال

٭ کنوینر اردو بھاشا سمتی برلا فاؤنڈیشن نئی دہلی 95-1994

٭ سابق ممبر ایگزیکٹیو: دہلی اردو اکیڈمی دہلی 93-1991، 90-199

٭ ممبر ایگزیکٹیو یوپی اردو اکیڈمی لکھنؤ 87-1985، 84-1982، 79-1976

٭ ممبر آندھرا پردیش اردو اکیڈمی حیدر آباد،بحیثیت نمائندہ وزارت تعلیم حکومت ہند نئی دہلی

٭ سابق ممبر بورڈ آف اسٹڈیز: دہلی یونی ورسٹی، لکھنؤ یو نی ورسٹی، الہ آبادیو نی ورسٹی، 

علی گڑھ مسلم یو نی ورسٹی، کشمیریو نی ورسٹی، جموں یو نی ورسٹی، جواہر  لال نہرویو نی ورسٹی 78-1976


سفربیرون ِملک بسلسلۂ کانفرنس/ سیمینار وغیرہ


٭ مصر 1969 کنیڈا 1985، 1988

٭ سیریا (شام) 1969 امریکہ 1985، 1988

٭ لبنان 1969 انگلستان 1985،1988

٭ عراق 1969 پاکستان 2006، 1999، 1987، 1986

٭ کویت 1969 ابوظہبی، دوبئی (جشن عالیؔ) 1989


ذاتیات


٭ بیوی مشہور افسانہ نگار ڈاکٹر شمیم نکہت، پروفیسر و صدر شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی

٭ روشنیِ چشم شعاع فاطمہ:  جس کا 25 مئی 1995 کو بیس سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال ہوگیا ،جس کی یاد میںشعاع فاطمہ تعلیمی و فلاحی ٹرسٹ قائم کیا۔ اسی کی نگرانی میں شعاع فاطمہ پبلک گرلس انٹر کالج لکھنؤ میں قائم ہے جو یوپی بورڈ سے تسلیم شدہ ہے۔ جواہر لال نہرو یو نی ورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنؤمیں مستقل قیام ہے۔ علمی و ادبی مشغولیات کے علاوہ شعاع فاطمہ ٹرسٹ اور کالج مصروفیات کا ایک ذریعہ ہے۔

مستقل پتہ


٭ C 95, Secter -E- Aliganj Lucknow 226024

Mobile..9839009226

8840038282

L.L 05223157060

sharibrudaulvi35@gmail.com

smabbassharib@gmail.com



Prof. Sharib Rudelvi by Prof. Muzaffer Shahmiri

  

Prof. Sharib Rudelvi

                                    Prof. Muzaffer Shahmiri

                                                                                                                            Former Vice-Chancellor

                                                                                                                Dr. Abdul Haq Urdu University

Kurnool. A.P.

           

            I had the pleasure of knowing Prof. Sharib Rudelvi since my post-graduation days. I was in Sri Venkateswara University, Tirupati doing my PG in 1972-74. My dissertation supervisor, Dr. Ehtisham Ahmed Nadvi, an Arabic lecturer, asked me to write letters to various writers and Professors across India for suggestions regarding a good research topic for my dissertation. I wrote to as many as two dozen Professors. A couple of Professors sent back passive replies. Some appreciated my idea to do research at PG level and some wished me good luck in my research. But, it was only Prof. Sharib, who wrote in detail as to how I go about my research and indeed suggested some very good topics. Afterwards, I was in contact with him regarding my research throughout the  academic year. He responded to my letters with love and guided me wherever it was necessary. This created in me very respectful image of a good teacher and a beautiful human being.

            Prof. Sharib is a very soft spoken person. I always wondered how he dealt dealing with his stone cold opponents throughout in his career.  I once had the trouble of dealing with a mischievous colleague in University of Hyderabad, I asked Prof.Sharib, how to deal with these kind of trouble – makers? He simply replied:‘dont retaliate; they will silence themselves after some time, till then be patient’. It was great advice I received from him and that changed my whole perspective of life and from then on wards I felt I am free from the shackles of unnecessary and unwanted tension from the people around me. The reply of Prof. Sharib stole my heart. When I heard this from him, I recalled the great advice from Quran which says: ‘The true servants of the Merciful One are those who walk on the earth gently and when the foolish ones address them they simply say: Peace to you’. (25:63) No doubt, Prof. Sharib is embodiment of both the above mentioned qualities of a good human being. He walks gently on earth and does not meddle with the foolish ones.

            As far as his contribution to Urdu literature is concerned, I consider his book ‘Jadeed Urdu Tanqeed: Usool o Nazriyath’ as the Bible of Urdu criticism. This book is based on his Ph.D thesis which he submitted to Lucknow University and with due permission of the University it was first published in 1968. Till now, eight editions of this book have been published. This shows its clear popularity among the Urdu readers. In my view, this book is equally helpful to the students, teachers and critics alike.  This is a case where the author has brilliantly dealt with every aspect of criticism and Urdu criticism. You cannot overlook this great work if you wish to understand the basics of criticism, its development and new trends in this field worldwide.

            Basically, Prof. Sharib belongs to the school of Progressive writers. He firmly believes that Art and Literature can be created only in a given socio-political atmosphere. A writer or an artist cannot overlook the situations in which he is living. He has to take his data from the society where he dwells. He should understand the miseries and happiness of the people around him. He should understand the psychology of a common man and the people who are on the helm of affairs ruling them. He should comprehend the economical divisions in the society. An artist, a poet and a writer should clearly apprehend the value system of the society and they have to form a clear and worthwhile vision of the society and life, which makes the life better and easier to live on our planet. Having said that, it goes without saying that Prof. Sharib looks upon Literature and Criticism with an idea to connect it with the betterment of human life and society.

            Immediately after the fall of Marxist theory of literature in 1960, Modernism started gaining popularity in Urdu literature, which promoted individualism instead of collectiveness. This promoted an absurd thought among writers that ‘the Individual Man by himself is everything and that in the words of Prof.Sharib, no one is equal to him.’ He further writes that the writer or a poet was at his liberty to write anything and in any way he chooses leaving behind all the traditional ways of expressions, with which the reader was comfortable earlier.’ This created chaos in literature. Prof. Sharib does not subscribe to this sort of irresponsible liberty in literature. And the world soon has experienced the downfall of this trend in literature.

            Prof. Sharib has his own reservations on the new trends of criticism across the globe. He has studied the major trends of criticism and has formed his own opinion on each trend. He, especially looks on them for their efficacy to Urdu literature. Not all the emerging new trends of criticism been useful to all kinds of literature. Some trends may be useful to some literatures in some geographical limitations and some other regions may not be so. Hence, in his opinion one should be careful in choosing the new trends of criticism while applying them to the literature.

            In his book mentioned above and in another book entitled ‘Tanqeedi  Mubahis’ (1995) Prof. Sharib discusses the new trends of criticism and argues their stability in literature, as worthwhile trends. For example about Stylistic Criticism, which involves linguistic analyzation as a main source of criticism to understand a piece of literary art overlooking the content. Whereas, he gives much importance to the content of literature and its social motivations. This is because, a piece of literature is created in a given socio-political atmosphere. We certainly cannot ignore it and cannot solely depend on the linguistic part of the literature. In other words, we cannot turn blind eye on the social backdrop of the writer or a poet.

 

            Prof. Sharib holds an opinion that structural criticism has an edge over the stylistic criticism as it is deeper and multilayered. He also appreciates the theory of Deconstruction, which is an extension to the structural thought. This theory advocates to obtain more meanings of a word or a text as it doubts the consistency of language. We often see a word that does not possess fixed or stable meaning in a given context. It undergoes many layers of change. In other words, it undermines its own assumed meaning. Prof. Sharib points out that there is little or no impact of this philosophical theory on Indian literature including Urdu criticism.

            Post-Modernism is not a theory by itself. It is rather a complex ‘situation’ formed with the combination of many theories. It challenges the traditional ways to understand the Art, Literature and Philosophy etc. And it also employs various techniques that help get to the depth of meaning which is in a fluid condition. Prof. Sharib Rudelvi, while appreciating the various methods to get to bottom of the meaning, raises a question that, a piece of art is mere meaning and nothing else. Does it not have other artistic qualities? Is it fair on the part of a critic to overlook those qualities of Art? In other words, why to limit the critical study of a piece of literature only up to the meaning or defining the meaning?

            As far as New Criticism is concerned, Prof. Sharib is of the opinion that, it is limited to short poems only. Long poems could not be analyzed by analyzing the ‘structure of the poem’ and avoiding the social background of the poet. Moreover, it is difficult to analyze prose with the principles of New Criticism, which give importance to the poem rather than the poet. It believes that once the poet completes his poem he is completely detached from what he has written. Now, the poem is in the hands of the reader and he is at the liberty to draw his own meaning of this creation.

            Prof. Sharib recommends a balanced analytical study of Art. His approach towards different categories of critical theories is positive. He, while appreciating the bright side of a new theory, argues its dark sides too. But, his criticism relies wholly on the aspect of making the meaning better or to change the short comings of the theory. I believe, he keeps his doors open to the changes that are occurring in our world of literature and tries to pick up the finer points of new changes. This is because, he wishes to use all tools of expression in an effective way like a good researcher should always do, which helps in expressing human love, happiness and miseries. Knowing that, we can walk on this earth peacefully.

                                              

                                             -----------------------------------------------

 

 

 

           

 

 

 

 

           

 

 

جون ایلیا اور زاہدہ حنا کی بیٹی فینانہ فرنام کی دل گداز تحریر

 جون ایلیا اور زاہدہ حنا کی بیٹی فینانہ فرنام کی دل گداز تحریر

8 نومبر 2021
آج ابو کی انیسویں برسی ہے دنیا اور ان کے مداحوں نے انھیں آج کے دن کھویا تھا مگر میں نے ابو کو سالہا سال پہلے کھو دیا تھا ۔ یہ وہ موضوع ہے جس پہ میں بات نہیں کرتی یا نہیں کرنا چاہتی تھی اور میں برسوں خاموش رہی بہت سے لوگوں نے چاہا کہ میں ان سے اس موضوع پر بات کروں مگر میں نے ہمیشہ ٹال دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ بہت ذاتی نوعیت کی بات ہے اور اپنے گھر کی بات میں دنیا سے کیوں کروں ۔ سحینا اور میں نے کئی دفعہ چاہا کہ ہم اس لئے ابو کے بارے میں بات کریں کیونکہ ہماری خاموشی کی وجہ سے لوگوں نے ایسی باتیں کیں جو بڑی تکلیف دہ تھیں اور سچ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا ۔
میری، سحینا اور زریون کی مشکل یہ ہے کہ ہمارے دونوں والدین مشہور ہیں اور مشہور لوگوں کی زندگی پر بات کرنا ان کے مداح اپنا حق سمجھتے ہیں بات اتنی سادہ ہوتی تو کوئی مشکل نہ تھی مگر سچائی کا علم ہوئے بغیر یا ایک طرف کی بات سن کر رائے قائم کرنا اور اس پر یقین لے آنا زیادتی ہے۔ ہماری خاموشی نے لوگوں کی مزید حوصلہ افزائی کی اور جس کا جو دل چاہا وہ اس نے کہا اور لکھا۔
آج سے زیادہ کوئی دن موضوع نہیں جب میں وہ سب یہاں لکھوں جو لکھنا آسان نہیں اور جسے لکھنے سے میں ہمیشہ بھاگتی رہی۔
بارہ برس کی عمر تک یہ تصویر ہی میری زندگی کا سچ تھی ۔ میں زندگی کو ایسا ہی سمجھتی تھی میں نہیں جانتی تھی کہ یہ تصویر میری زندگی کا اصل سچ نہیں ہے. مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت جب یہ تصویر کھینچی گئی تب اس میں امی ابو سچ میں ایسے ہی تھے ایک دوسرے کے لئے یا وہ میری سالگرہ پہ مجھے خوش کرنے کے لئے اس تصویر میں وہ رنگ بھر رہے تھے جن کا وجود ہی نہیں تھا۔
جب ایک دن آدھی رات کو میں نے ابو کو امی سے لڑتے ہوئے سنا تو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا اس کیفیت کو میں آج بھی بیان نہیں کرسکتی. میں صبح کے انتظار میں جا گتی رہی مجھے امی سے بات کرنی تھی مجھے جاننا تھا کہ یہ سب کیا ہے مجھے اس وقت رونا چاھئے تھا، میں اگر کسی فلم میں بھی کوئی جذباتی منظر دیکھ لوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں سینما میں میرے بچے خوب ہنستے ہیں مجھے اس طرح جذباتی ہوتا ہوا دیکھ، کر مگر اس رات میری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں گرا تھا. صبح میں نے جب امی سے پوچھا کہ کیا کل رات ابو آپ سے لڑ رہے تھے؟ تو وہ ایک سوال تھا اپنے کانوں سے سب سن کر بھی مجھے یقین نہیں آرہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے ماں باپ کو دنیا کا آئیڈیل کپل سمجھتی تھی اور ابو میرے آئیڈیل تھے میں ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی امی سے بھی زیادہ اور اس لہجے کی توقع میں ان سے نہیں کرتی تھی ۔ امی نے مجھے بہلا لیا تھا وہ شاید مجھے میری اس خیالی دنیا سے اصلی دنیا میں نہیں لانا چاھتی تھیں. انھیں معلوم تھا کہ حقیقت مجھے بہت زیادہ تکلیف دے گی مگر کب تک ۔ میں نے امی کی بات پر یقین کر لیا شاید اس لئے کہ میں کچھ اور جاننا اور سمجھنا نہیں چاھتی تھی. یہ وہ وقت تھا جب امی ابو کے اختلافات کمرے میں ہی حل ہوجاتے تھے مگر چند برس بعد یہ اختلافات کمرے کی چاردیواری سے نکل کر لوگوں کی گفتگو کا موضوع بن گئے۔
وہ بہت مشکل وقت تھا امی اور ہم تینوں بھائی بہنوں نے لوگوں سے وہ کچھ سنا اور برداشت کیا جو بہت تکلیف دہ تھا اور یہ اس لئے ہوا کہ ابو ہر جگہ بیٹھ کر ہمارے لئے جو دل چاھتا وہ کہتے اور لوگ ان کی بات کا یقین کر لیتے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکی کہ لوگوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جون ایلیا ان کے لئے ان کے پسندیدہ شاعر ہیں مگر میرے تو وہ باپ ہیں میں زندگی کو ان کے مصرعے میں تلاش نہیں کر سکتی تھی، میری تو زندگی تھے وہ میرے ، سحینا اور زریون کے تو باپ تھے وہ ہمیں شاعر جون ایلیا نہیں ہمارا باپ جون ایلیا چاہئے تھا جو کہیں کھو گیا تھا۔
وہ یہ بھول جاتے تھے کہ ہم کس جماعت میں پڑھ رہے ہیں یا ہماری عمر کتنی ہے انھیں ہماری سالگرہ یاد نہیں رہتی تھی وہ جب مجھے یا سحینا کو پکارتے تو ہمارے بجائے اپنی بھتیجیوں کے نام لیتے ۔ ابو نہ تو خود امی کو قبول کر سکے اور نہ انکے خاندان نے امی کو کبھی قبول کیا اس لئے کہ امی امروہہ کی نہیں تھیں اور نہ ہی وہ شیعہ تھیں ان باتوں کی وجہ سے امی ابو میں وہ فاصلے پیدا ہوگئے جو وقت کے ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ ابو سے یہ بات ہضم کرنا بھی مشکل ہوتا چلا گیا کہ وقت کے ساتھ امی کی شہرت میں اضافہ ہو رہا تھا، وہ ایک بہت پڑھے لکھے انسان تھے اور ان سے ایسی سوچ کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔
میں نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا کیونکہ جب لوگوں کو معلوم ہوتا کہ میں کس کی بیٹی ہوں تو سرگوشیاں شروع ہو جاتیں اور جو کچھ سننا پڑتا اس سے تکلیف ہوتی۔ جب نویں کلاس میں امتحانی فارم آئے تو میں نے گھر جا کر کہا کہ میں اپنا نام تبدیل کرناچاہتی ہوں تب میرا نام فینانہ جون تھا امی بہت حیران ہوئی تھیں کہ میں کیوں اپنا نام تبدیل کرنا چاھتی ہوں. میں نے کہا تھا کہ مجھے ابو کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگانا میں اس وقت سولہ سال کی تھی اور یہ فیصلہ لینا میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا مگر میں جانتی تھی کہ وہ رشتہ جو دنیا میں مجھے سب سے پیارا تھا وہ میرے اور ابو کے زندہ ہوتے ہوئے بھی ختم ہوگیا ہے، ابو میرے لئے اس دن مر گئے تھے، میرے لئے زندگی کے معنی تبدیل ہو گئے تھے۔ میرا نام جون سے فرنام ابو نے ہی رکھا تھا میں جب پیدا ہوئی تو ابو نے میرا نام فینانہ جون رکھا تھا ابو سے جب میرا رشتہ ٹوٹ گیا تو میرے لئے سب کچھ بدل گیا، میری پہچان بدل گئی اور ایسا ابو کی وجہ سے ہوا اس لئے میری ضد تھی کہ اب جو نام رکھا جائے گا وہ ابو ہی رکھیں گے ۔
میرے لئے بہت مشکل تھا لوگوں کا سامنہ کرنا، ان کے چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب دینا مگر پھر مجھے سمجھ میں آگیا کہ میں ابو کے کئے کی ذمہ دار نہیں ہوں. وہ اپنے کئے کے ذمہ دار خود ہیں۔ ابو اکثر امی سے لڑائی کے بعد کہتے کہ انھیں یاد نہیں کہ پچھلی رات کیا ہوا تھا اس لئے کہ وہ شراب کے نشے میں تھے مگر ہم سب جانتے تھے کہ وہ مکمل ہوش و حواس میں یہ سب کہہ رہے ہیں. ان کا کہنا تھا کہ شاعر کے یہ مسائل نہیں کہ وہ گھر کے کرائے یا سودا سلف کے بکھیڑوں میں پڑے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا چاہتے تھے ۔ میں نے اپنے دادا دادی کو نہیں دیکھا. ان کا انتقال امی ابو کی شادی سے پہلے ہو گیا تھا وہ دونوں سادہ مزاج تھے اور ابو کے طرز زندگی سے دکھی رہتے تھے۔ ابو کا یہ خیال کہ شاعر اور ادیب کو زندگی کے ان جھمیلوں سے آزاد ہونا چاہئے دراصل زندگی اور اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے فرار تھا۔
جب میں چار برس کی تھی تو ابو مجھے اپنے ساتھ علیم ماموں (مشہور شاعر) کے ہاں لے کر گئے. امی مجھے نہیں بھیجنا چاہتی تھیں، مگر ابو ضد کرکے لئے گئے جب ابو رات دو بجے واپس آئے اور امی نے ان سے دروازے پر پوچھا کہ فینی کہاں ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا، مجھے کیا معلوم اندر ہو گی. میں سوچتی ہوں کہ امی پہ اس وقت کیا گزری ہو گی. امی مجھے جاکر لائی تھیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ چاہے شاعر ہو یا ادیب، مصور ہو یا موسیقار ہم فنون لطیفہ سے منسلک لوگوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ عام آدمی کی طرح کیسے زندگی گزار سکتا ہے. وہ تو شاعر ہے مصور ہے تو اس سے ذمہ داری کا تقاضا کیسے کیا جائے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر والے بھی ہیں اور گھر والوں کے لئے ان کا زندگی کے ہر قدم پہ موجود رہنا اور ساتھ دینا ضروری ہے۔
میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ابو کے مداح ابو کے بچوں سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم ابو کو سرکار ، مرشد جون ایلیا سمجھیں ہم ان کے چاہنے والوں کو کیسے سمجھائیں کہ ہمارے لئے وہ فقط باپ تھے ہمیں ان سے صرف محبت اور شفقت چاہئے تھی. اولاد اپنے باپ سے اتنا تو چاہ ہی سکتی ہے باپ شاہ ہو یا گدا، اولاد کے لئے صرف باپ ہوتا ہے. ہم تینوں بھی صرف اپنے باپ سے ان کی محبت چاہتے تھے۔
ابو سے زیادہ خوش قسمت انسان میں نے نہیں دیکھا. قدرت نے انہیں سب دیا عزت، شہرت، مگر وہ خوش نہیں رہ سکے کیونکہ انھوں نے اپنے رشتوں کی قدر نہیں کی۔ جو انسان محبت کرنے والے ماں باپ کا اور اولاد کا نہ ہو وہ اپنا بھی نہیں ہو پاتا۔
ابو کے انتقال کی خبر مجھے فون پر امی نے دی تھی. مجھے یقین نہیں آیا تھا کہ ابو نہیں رہے ۔وہ میری زندگی سے بہت پہلے رخصت ہو گئے تھے اور اس دن وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ ہمارے لئے باپ کا خانہ خالی رہا جس کی وجہ سے زندگی وہ نہیں رہی جیسا اسے ہونا چاہئے تھا مگر امی، نانی اماں، خالہ، ماموں، بوا، انکل اور رحمت ماموں ان سب نے ہمیں بہت پیار دیا۔ ابو کے ہوتے ہوئے ان کے بغیر زندگی کا قرینہ ان سب سے سیکھا زندگی کو ہم نے سر اٹھا کر جیا اور ہر لمحے زندگی نے جو خوشیاں اور نعمتیں ہمیں دیں ہم اس پر شکرگزار رہے ۔ ابو اگر ہماری زندگی میں ہوتے تو زندگی بہت الگ ہوتی جو زندگی ان کے بغیر جینی پڑی اس سے کوئی شکایت نہیں ہے. اس نے ہمیں وہ بننے میں مدد دی جو آج ہم ہیں۔ میرے دونوں بہن اور بھائی نہ صرف بہت اچھے انسان ہیں ان کو اس کی بھی داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے سر اٹھا کر زندگی کو جیا جو آسان نہیں تھا۔ امی کے حوصلے اور ہمت کی داد دینا تو مشکل ہے کہ انھوں نے کیسے تین بچے تن تنہا پالے اور ہم اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں . میری جب کامران سے شادی ہوئی تھی تو امی نے ان سے اور ان کے گھر والوں سے ابو کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات کی تھی ۔ میں نے اپنے طور پر بھی کامران سے بات کی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ ابو کے مداح ہیں اور ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ابو زندہ ہوتے ہوئے بھی میری زندگی میں کہیں نہیں ہیں. وہ آج بھی ابو کے مداح ہیں مگر وہ میرے اور ابو کے تعلق کے ٹوٹ جانے کو سمجھتے ہیں اور میرے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں ۔ میرے دونوں بچے میرے باپ سے میرے تعلق کو جانتے ہیں ۔میری بیٹی ان کی شاعری پڑھتی ہے اور میرا بیٹا کالج سے آکر بتاتا ہے کہ اس کے دوست محبت میں ناکام ہو کر ابو کی شاعری پڑھتے ہیں۔

یہ سوشل میڈیا سے اٹھائی ہوئی تحریر ہے۔ کتابِ رخ پر کھو جائے گی۔ اس لیے یہاں محفوظ کر دیا ہے۔

ہفتہ، 16 نومبر، 2024

اصولِ گفتگو۔ سقراط

 " اصولِ گفتگو "

ایک دفعہ افلاطون اپنے اُستاد "سقراط" کے پاس آیا اور کہنے لگا۔
“آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا”
سقراط نے مسکرا کر پوچھا “وہ کیا کہہ رہا تھا؟
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا “آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا!
اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا “تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی کسوٹی پر پرکھو۔ اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کہ کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے یا نہیں؟
” افلاطون نے عرض کیا “میرے عظیم استاذ! تین کی کسوٹی کیا ہے؟
” سقراط بولا “کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات مجھے بتانے والے ہو یہ سو فیصد سچ ہے؟
” افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔‘‘
سقراط نے ہنس کر کہا “پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟
افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا،
سقراط نے کہا “یہ پہلی کسوٹی تھی۔ اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔
“مجھے تم جو بات بتانے والے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟
”افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ “جی! نہیں یہ بُری بات ہے‘‘
سقراط نے مسکرا کر کہا “کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاذ کو بُری بات بتانی چاہیے؟
افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط بولا “گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پوری نہیں اُترتی۔
افلاطون خاموش رہا۔
سقراط نے ذرا سا رُک کر کہا “اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ کہ جو بات تم مجھے بتانا چاہتے ہو کیا یہ میرے لیے فائدے مند ہے؟
افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا “اُستاذ محترم! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدے مند نہیں ہے۔
سقراط نے ہنس کر کہا:
“اگر یہ بات میرے لیے فائدے مند نہیں تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟”
افلاطون خاموش تھا اور اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے، اُس کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔
1۔ “کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟”،
2۔ “کیا یہ بات اچھی ہے؟‘‘
3۔ “کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟”
اگر وہ بات تین کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی تو وہ بے دھڑک بول دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا، تو وہ خاموش ہو جاتے۔
May be a black-and-white image of 1 person and monument
All reactions:
743
9
207
Like
Comment
Send
Share

مخفف کے اصول

 https://www.facebook.com/share/p/19wymLbfjh/