ایک گزارش: اپنے دستی گشتی فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ میں جہاں تک ممکن ہو سکے ترسیلی ضرورتوں کے لیے اردو ہی میں لکھیے کیوں کہ جیسے جیسے صارف کی تعداد بڑھے گی، کمپنیاں خود اردو فانٹس، سرچ انجن وغیرہ پر خود کام کریں گی اور ان کو بہتر بنائیں گی۔
بندے نے یہ بلاگ برقی قارئین اور بالخصوص طلبہ کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھ کر ترتیب دیا ہے۔ اسے مزید بہتر بنانے کے لیے آپ کے مثبت مشوروں کی ضرورت ہے۔
مارکسیت اوراقبالؔ
وہ کلیمِ بے تجلی: وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
اردو کی نظمیہ شاعری کی تاریخ میں محمد اقبالؔ ایک ایسا نام ہے، جسے ہم واقعتاً نابغۂ عصر کہہ سکتے ہیں۔بیسویں صدی کے نصف اول میں دوسرا کوئی ایسا شاعر نہیں جو کسی بھی اعتبار سے ان سے لگّا کھاتا ہو۔ جس طرح غالبؔ نے اردو غزل کو وہ مقام اور بلندی عطا کی ، جس سے آگے بڑھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ غزل کی پرواز کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اسی طرح اقبالؔ نے اردو نظم کو وہ اونچائی اور عروج عطا کیا، جس سے آگے اردو نظم آج تک سفر نہ کرسکی۔ہر چند کہ ہیئت و موادکے تجربے بہت ہوئے لیکن فکر کی وہ بالیدگی جسے اقبال نے امروز و فردا کے تصور کے طور پر پیش کیا تھا وہ شاید کہیں گم ہو گئی۔ اقبالؔ ایک دانا، فلسفی اور جہاں دیدہ شخص ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی نظام سیاست سے بھی بخوبی واقف تھے۔ شاید اسی لیے عالمی حالات و واقعات سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنا رد عمل سب سے پہلے پیش کرنے کی کوشش کی ۔
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
اقبال ؔ کی شاعری کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اول دور حب وطن کے جذبات کی شاعری سے معمور ہے تو دوسرا دور اشتراکی ؍مارکسی نظریات سے وابستہ شاعری کا ہے اور تیسرا دور قومی و ملی نظریات سے مملو نظموں کا ہے۔اقبالؔ کی حب الوطنی اور قومی و ملی شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن دوسرے دور یعنی ان کی شاعری میں مارکسی و اشتراکی نظریات پر نہ جانے کیوں ماہرین نے اتناکچھ نہیں لکھا جتنا کہ اول اور آخر دور کے بارے میں لکھا۔اسی لیے یہاں ہمیں ان کی شاعری کے دوسرے دور سے گفتگو کرنا مقصود ہے۔
مذکورہ سطور میں جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اقبالؔ کی شاعری کا آغاز حب وطن سے سرشار نظموں سے ہوا تھا۔ پہلے دور کی شاعری میں انھوں نے ’’ہمالہ‘‘، ’’ایک گائے اور بکری ‘‘، ’’ بچے کی دعا‘‘، ’’ماں کا خواب‘‘، ’’ پرندے کی فریاد‘‘ اور ’’ ترانۂ ہندی‘‘ جیسی نظمیں تخلیق کیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ عالمی منظر نامے پر رونما ہونے والے واقعات بالخصوص پہلی عالمی جنگ اور ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب پر بھی ان کی نگاہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ روسی انقلاب کا اثر اردو شعرا میں سب سے پہلے علامہ اقبالؔ ہی نے قبول کیا اور اپنی شاعری میں سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کہی۔ اقبالؔ جیسے حساس، مفکر، فلسفی، دور اندیش اور قوم پرست شاعر کے لیے یہ واقعات معمولی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کا ان پر گہرا اثر ہوا اور وہ مارکسی خیالات کے حامی ہی نہیں بلکہ اپنی نظموں میں کامریڈ نظر آنے لگے، جس کے نتیجے میں ان کی کئی شاہ کار نظمیں تخلیق ہوئیں۔ مثال کے لیے ’’ساقی نامہ‘‘ ، ’’سرمایہ و محنت‘‘، ’’سلطنت‘‘، ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ ، ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘، ’’الارض للّٰلہ‘‘ اور ’’فرمانِ خدا( فرشتوں سے)‘‘ کا نام خصوصی طور سے لیا جاسکتا ہے۔ اقبالؔ نے اس کرۂ ارض پر ہونے والے سب سے بڑے انقلاب سے گہر ااثر قبول کرتے ہوئے اپنے بالغ نظر مفکر ہونے کا ثبوت پیش کیا اور کہا:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو! کاخِ امرا کے درودیوار ہلا دو!
گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اقتباس از فرمانِ خدا( فرشتوں سے)
مذکورہ سطور اس بات کی گواہ ہیں کہ عالمی منظر نامے کی نبض پر اقبال کی کتنی گہری نظر تھی؟ یہ وہی دور ہے جب پوری دنیا میں مارکسی نظریات بہت تیزی سے پھیل رہے تھے۔ پوری دنیا کے مزدوروں، کسانوں اور عوام الناس نے ایک نیا فلسفۂ حیات پا لیا تھا۔ اقبالؔ جیسا بالغ نظر شاعر بھلا ان عالمی واقعات سے بے خبر کیسے رہ سکتا تھا۔
زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشہ دکھا کر مداری گیا
خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر
(اقتباس از ساقی نامہ)
روسی انقلاب نے پوری دنیا کے مفکرین کو سوچنے پر مجبور کر دیاتھا۔ یہاں سے مزدوروں، مفلسوں اور ناداروں کے ایک ہونے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہو جانے کا جو پیغام پوری دنیا کو ملا وہ عالمی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اسی فکر اور جذبے سے متاثر ہو کر اقبال ؔ نے اردو شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ،جسے عاجز مارکسی فکر یا رجحان کہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیوں کہ بغیر مارکسزم سے متاثر ہوئے کوئی شاعر یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ:
وہ کلیمِ بے تجلی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب
ابلیس کی مجلس شوریٰ
مذکورہ شعر سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبالؔ مارکس کے فلسفے سے کس قدر متاثر تھے؟ کہ انھوں نے ’’داس کیپیٹل ‘‘ کے مصنف کارل مارکس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہر چند کہ وہ (مارکس) پیغمبر نہیں ہے پھر بھی اسے صاحبِ کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کسی شخص پر کسی نظریے کا اس سے بڑھ کر اور کیا اـثر ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں خواجہ مسعود لکھتے ہیں کہ:
"In Javednama Iqbal generously praises Marx, giving him the highest status that a person could aspire to, short of prophet-hood. "He is not a prophet but he holds a book under his arm," says Iqbal about the author of Das Capital, which Iqbal calls the "bible of Socialism."" 1
ان اشعار کو پڑھ کر کوئی بھی اہلِ نظر یہ کہہ سکتا ہے کہ علامہ اقبالؔ اشتراکیت کے حامی وحمایتی تھے ۔ ان کی شاعری اگر ایک طرف فلسفے کی بلندیوں کو چھو رہی تھی تو دوسری طرف نوجوانوں کے لیے ان کی یہ نظمیں جہد وعمل کا پیغام دے رہی تھیں۔ وہ بھی اس عہد کے عالمی منظر نامے کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور اپنے دل کی آگ و سوزش کو لفظوں میں ڈھال کر سرمایہ پرستی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی سے واقف کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ کہتے ہیں:
رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت! پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
تو قادر و عادل ہے، مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات
اور آخر میں جب ان کی فکر کی کوئی انتہا باقی نہیں رہتی تو کہتے ہیں:
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!
اقبالؔ کی ایسی نظمیں جن پر اشتراکیت کا اثر صاف نظر آتا ہے ،وہ روسی انقلاب کے بعد ہی ان کے یہاں تخلیق ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اقبالؔ سے فیض حاصل کرتے ہوئے دوسرے بہت سے شعرا نے مارکسی نظریات سے مملو تخلیقات پیش کیں۔ اس لیے اردو میں اشتراکیت پر مبنی خیالات کے اظہار کا سپہ سالاراقبال ہی کو کہا جا سکتا ہے۔
اقبالؔ آزادی اور غلامی کی نعمت و لعنت کو اپنے مخصوص انداز میں جوانوں کے پیش نظر کرتے ہوئے جوانوں کو عشق کا درس دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عقل پر عشق کو ترجیح ہے۔ اقبال کی پوری شاعری میں عشق کو اولیت حاصل ہے۔ کیوں کہ دنیا کے کارخانے میں جو گرمی و حرکت ہے، وہ اسی عشق کے زور سے ہے لیکن جوانوں کی تن آسانی دیکھ کر فرماتے ہیں :
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
بندے کا یہ خیال ہے کہ اس کرۂ ارض پر اگر کچھ کر دکھانا ہے تو وہ عشق ہی سے ممکن ہے ۔اس لیے کہ عقل کسی کام کو کرنے سے قبل پچاس مرتبہ اس کے نفع و نقصان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب کہ عشق پہلے کر گزرنے اور پھر اس کے نتائج دیکھنے کا قائل ہوتا ہے۔ساحل پر کھڑا انسان کبھی بھی پار نہیں اتر سکتا کیوں کہ اس کی نگاہ دریا کے جزر و مد پر ہوتی ہے لیکن ’’بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق‘‘ کے مصداق پار وہ ہی اترے گا ،جس نے کہ حوصلہ کر کے دریا میں چھلانگ لگا دی ۔ اقبال اس طرح کے جوش اور ولولے کے قائل ہیں اور اسی طرح کا جذبہ نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ’’خضر راہ‘‘ میں اپنے دل کی آگ کو لفظوں میں کچھ اس طرح انڈیلتے ہیں:
زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟ اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک نوجواں اقوامِ نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
مذکورہ اشعار میں انھوں نے جس طرح کے سوالات اٹھائے ہیں، انھیں دیکھ کر کوئی بھی، جس نے کہ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے فوراً کہہ اٹھے گا کہ شاعر پر مارکسزم کا اثر غالب ہے۔ سوالات جو انھوں نے قائم کیے ان کے جوابات بھی خود ہی فراہم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بندۂ مزدور کوجاکر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
(اقتباس از سرمایہ و محنت)
مذکورہ سوالات اور ان کے جوابات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ اقبالؔ پر کس قدر اشتراکیت کا اثر تھا؟ اس لیے کہ بغیر مارکسی نظریات سے متاثر ہوئے اس طرح کے خیالات کا ورود ہونا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے نصف اول میں سرمایہ و محنت، مزدور اور آقا ، یہ ایسے عنوانات تھے ، جن پر بہت بحثیں ہوئیں ۔ایسے میں اقبالؔ جیسا دانا اس سے متاثر نہ ہوتا، ایسا ممکن نہیں لگتا۔روسی انقلاب کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جوانوں کو اکسانے، آمادۂ پیکار کرنے کے لیے اقبالؔ نے عزمِ جواں اور پیہم دواں زندگی کا درس دیا۔اس کے لیے وہ نوجوانوں کو انقلاب کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں:
چشمِ فرانسیسی بھی دیکھ چکی انقلاب جس سے دگر گوں ہوا مغربیوں کا جہاں
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے لانہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
(اقتباس از مسجد قرطبہ)
اتنا ہی نہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ انگریزوں اور ان کی شعبدہ بازیوں کو بالکل روز روشن کی طرح قوم کے سامنے پیش کردیا جائے تاکہ عوام اس حکوت کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے۔ اس لیے طرح طرح سے انھوں نے اپنے خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کی:
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت! پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری وعریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنّیت کے فتوحات؟
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرِ شام یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
تو قادر و عادل ہے، مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!
(اقتباس از لینن: خدا کے حضور میں)
یہ ایک انسانی جبلت ہے کہ جب انسان اپنے حال سے مطمئن نہیں ہوتا ہے تو وہ اپنے معبود سے شکایت کرتا ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ اشعار سے واضح ہے کہ شاعر آخر میں اپنے رب سے رجوع ہو رہا ہے کہ تو قادر بھی ہے اور عادل بھی ہے مگر تیرے کارخانے میں بندۂ مزدور کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اس طرح اقبالؔ نے عالمی اور ملکی تمام حالات کا جائزہ بڑے غائر طریقے سے اخذ کیا اور اپنی شاعری میں اپنے محسوسات پیش کیے۔ وہ پہلے اردو شاعر ہیں، جن کے یہاں اشتراکیت کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ اقبالؔ کی حیثیت اپنے عہد کے نابغۂ عصر کی سی ہے لہٰذا ان کے تصورات سے دوسرے شعرا نے اثر قبول کیا اور اردو شاعری کے دامن کو مارکسی نظریات کی حامل تخلیقات سے بھر دیا۔
مذکورہ بالا تمام مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اقبال ؔ کی شاعری میں پورا ایک دور ہے، جب انھوں نے مارکسی نظریات سے مملو نظمیں خوب کہیں۔ ان کی اسی طرح کی نظموں کو مد نظر رکھتے ہوئے راقم السطور نے انھیں اردو کا پہلا مارکسی شاعر کہنے کی جرأت کی ہے اور بس۔
حوالہ جات:
۱۔ http://profkmasud.wordpress.com/2008/02/08/marx-and-iqbal/
کتابیات
۱۔ کلیاتِ اقبال، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۱۹۹۷ء
2. Selected articles of Khwaja Masud, Marx and Iqbal http://profkmasud.wordpress.com/2008/02/08/marx-and-iqbal/
3. Iqbal on Marx by Shaheer Niazi http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/review/oct83/4.htm
4. Iqbal and Communism by Dr. Waheed Ishrat
http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/review/oct91/6.htm
تب بتایا گیا؛امراؤ جان ادا کو لکھنے والے مرزا ہادی رسوا۔ ہم بچپن میں قیصر باغ کے سینٹینیل اسکول میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے، پھر ہمیں بتایا گیا کہ یہاں ہادی رسوا نے تعلیم حاصل کی ہے۔ پھر گولا گنج میں کرسچین کالج جب ہم پڑھنے گئے تو پھر بتایا گیا کہ مرزا ہادی رسوا نے یہاں پڑھایا ہے ۔ لامرٹس گراؤنڈ میں ہڈسن کی قبر کی طرف ٹہلتے ہوئے نکلے کہ پیچھے سے نانا ابو نے کہا، مرزا ہادی یہاں بھی پڑھے ہیں۔ ارے یہ کیسے رسوا ہیں جو میرا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ چوپٹیا میں پیدا ہوئے اور آج کے روز ہی یعنی 21 اکتوبر ۱۹۳۱ء کو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں آخری سانس لینے والے مرزا ہادی رسوا نے میری زندگی کی ہر کروٹ پر کھڑے ہو کر کہا کہ ہمیں پہچان لو، دیکھ لو، یاد کرلو، زندگی کیسے بنتی اور بکھرتی ہے، اسے مجھ میں جھانک کر دیکھ لو۔
رسوا لکھنؤ کی سرزمین کا ایک وہ ستارہ جسے کتنی ہی زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔ جوسائنس میں اتنی مضبوط پکڑ رکھتا تھا کہ اس دور میں لوگ اسے دوسری دنیا کا آدمی سمجھتے تھے۔ مرزا نے رڑکی سے انجینئرنگ کی، پھر جب دل نہ لگا تو کیمسٹری میں مہارت حاصل کی، طبیعت یہاں بھی نہیں ٹھہری تو ایسٹرولوجی کی دنیا میں ستاروں کا حساب لگانے نکل پڑے۔ سائنس کا جنون ایسا کہ ساری جائیداد بیچ دی اور اپنی خود کی تجربہ گاہ بنا ڈالی۔ جب ہاتھ تنگ ہوئے تو لکھنؤ کے کرسچین کالج میں فارسی کے استاذ ہو گئے۔ یہیں انھوں نے سب سے پہلے اردو شارٹ ہینڈ کا طریقہ ترتیب دیا جس کی وجہ سے شارٹ ہینڈ چلن میں آیا۔
شاعری خاص کر مرثیوں کی دنیا کا سورج مرزا دبیر کو استاد مان کر ان کی شاگردی میں شاعری کی طرف رخ کیا۔ بیچ سفر میں وہ فانی دنیا چھوڑ گئے تب ان کے جگر اور جانشین مرزا جعفر اوج کے نزدیک جا بیٹھے۔ ہادی ایک انسان نہیں تھے بلکہ انسانی ذات کی الجھن تھے، تڑپ تھے، کسک تھے، جنھیں کچھ تو کرنا تھا یا بہت کچھ کرنا تھا۔
مجبوریوں نے انھیں ناول کی طرف کھینچا تو ایسی ایسی کہانی لکھ دی کہ آج بھی بحث ہوتی ہے کہ اس کے کردار سچے تھے یا صرف افسانہ۔ زمانوں سے بحث ہو رہی ہے کہ امراؤ جان ہادی رسوا کی ناول کا صرف ایک کردار ہے یا واقعی وہ تھیں، یہ ہوتی ہے کسی قلم کی طاقت۔
مرزا ہادی رسوا کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھ سکتے ہیں۔ ان کے قلم پر باتیں کر سکتے ہیں۔ آج جب ان کی یوم وفات کا دن ہے تو بس اتنا ہی کہیں گے کہ انھیں یاد بھر کر لیجیے، وہ بہت بڑا آدمی تھا۔
کتنے ہی فن کا مالک، دل جس پر لگایا تو ٹوٹ کر، رشتوں میں کتنے دھوکے کھائے؟ زندگی میں بہت دھکے کھائے مگر کبھی اف نہیں کیا، آپ ان کے ہزاروں کاموں کو کھوج کر پڑھیے۔ صرف ایک کتاب ’’امراؤ جان‘‘ دنیا کے سامنے ان کا نام اونچا اور ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
آج آپ کو یاد کرنے کا دن ہے مرزا ہادی رسوا۔۔۔ آج آپ نے دنیا سے منہ موڑا اور پیچھے ایک لمبی داستان چھوڑ گئے۔
نوٹ: حفیظ قدوائی کی فیس بک پوسٹ سے لیا گیا ہے۔ ہندی سے اردوکے قالب میں ڈھالنے کا کام ناچیز نے کیا ہے۔
مشہورِ زمانہ قوالی (تم اک گورکھ دھندہ ہو) جس کو استاد نصرت فتح علی خان کی آواز نے امر کر دیا لیکن اس کے شاعر کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ۔آیئے ان کے بارے میں جانتے ہیں ۔
پیدائش :
ان کا اصل نام محمد صدیق اور تخلص ناز تھا۔ ناز خیالوی"جھوک خیالی" نامی ایک گاؤں394 گ ب میں 1947ء میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے انھیں خیالوی کہا جاتا ہے۔
جھوک خیالی گاؤں ضلع فیصل آباد، صوبہ پنجاب، پاکستان میں تاندلیانوالہ کے نزدیک اور لاہور سے 174 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے
شاگردی :
وہ ایک ممتاز اردو شاعر احسان دانش کے ایک شاگرد تھے۔
نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی ، بن کے تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو “مہینوال” تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
ناز خیالوی
گزرا ہوا زمانہ
سرسید احمد خاں
برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا
بیٹھا ہے۔ رات بھی ڈراؤنی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی
ہے۔ آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔ بڈھا نہایت غمگین
ہے مگر اس کا غم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور
بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر۔ اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے
زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے
ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسو بھی بہے چلے جاتے ہیں۔
پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے۔ اپنا
لڑکپن اس کو یاد آتا ہے جب کہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ
تھی۔ روپیے اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر، ماں باپ،
بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں
کتابیں بغل میں لے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب
یاد آتے تھے۔ وہ اور زیادہ غمگین ہوتا تھا اور بے اختیار چلا اٹھتا تھا، ’’ہائے
وقت، ہائے وقت، ہائے گزرے ہوئے زمانے۔ افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔‘‘
پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ
سفید چہرہ، سڈول ڈیل، بھرا بھرا بدن رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں
بھرا ہوا دل۔ جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں
اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتے تھے اور نیکی اور خدا پرستی
کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا، ’’آہ ابھی بہت وقت ہے۔‘‘ اور بڑھاپے آنے کا
کبھی خیال بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا
ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی اور نیکی سے اپنے دل کو
سنوارتا اور موت کے لئے تیار رہتا۔ آہ وقت گزر گیا۔ آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے
کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ’’ابھی وقت
بہت ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹٹول ٹٹول کر کھڑکی
تک آیا۔ کھڑکی کھولی، دیکھا کہ رات ویسی ہی ڈراؤنی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔
بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے۔ ہولناک آندھی چل رہی ہے۔ درختوں کے پتے اڑتے ہیں
اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں۔ تب وہ چلا کر بولا، ’’ہائے ہائے، میری گزری ہوئی زندگی بھی
ایسی ہی ڈراؤنی ہے، جیسی یہ رات۔‘‘ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا
یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں۔ ماں گویا محبت سے اس کو
چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر
گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا
ہم تمہارے ہی بھلے کے لئے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیے ہوئے
خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جا ری ہے۔ دوست، آشنا سب غمگین کھڑے
ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس
نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست،
آشنا کے ساتھ برتی تھیں۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے
مروت رہنا، دوست، آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا۔ اور اس پر ان گلی
ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی
میں گھٹ جاتا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ’’ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت
نکل گیا۔ اب کیوں کر اس کا بدل ہو۔‘‘
وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا اور ٹکراتا لڑتا
کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ
تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ
آبیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پنا یاد آیا جس میں نہ وہ
جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن۔ نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا
جوش۔ اس نے اپنی اس نیکی کے زمانہ کو یاد کیا، جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی
طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا، نمازیں پڑھنی، حج کرنا، زکوٰۃ دینی،
بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنوئیں بنوانا یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔
فقیروں اور درویشوں کی جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کو جن سے بیعت کی تھی، اپنی
مدد کو پکارتا تھا۔ مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے
ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں۔ مسجدیں ٹوٹ کر یا تو
کھنڈر ہیں اور پھر ویسے ہی جنگل ہیں۔ کنوئیں اندھے پڑے ہیں۔ نہ پیر اور نہ فقیر۔
کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا
ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ
سوجھی۔ اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا،
’’ہائے وقت، ہائے وقت، میں نے تجھ کو کیوں کھودیا۔‘‘
وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو
دیکھا کہ آسمان صاف ہے۔ آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے تارے نکل آئے ہیں۔ ان
کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ دل بہلانے کے لیے تاروں بھری رات کو
دیکھ رہا تھا کہ یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک
خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے
دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آ گئی۔ وہ اس کے
حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے اس سے
پوچھا،
’’کہ تم کون ہو۔‘‘
وہ بولی کہ ’’میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں۔‘‘
اس نے پوچھا کہ’’تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے۔‘‘
وہ بولی، ’’ہاں ہے۔ نہایت آسان، پر بہت مشکل۔ جو کوئی
خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا، ’’واللہ لا ایزید ولا انقص۔‘‘ ادا کر کہ
انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے۔ اس کو میں مسخر ہوتی ہوں۔ دنیا میں
کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ انسان ہی ایسی چیز ہے اخیر تک رہے گا۔ پس جو
بھلائی کی انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل در نسل اخیر تک چلی آتی ہے۔
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسی تک ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کر
دیتی ہے۔ مادی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک
جاری رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں۔ جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے، انسان
کی بھلائی میں کوشش کرے۔ کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں دل و جان و مال سے ساعی
ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہو گئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔‘‘
اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس
نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی
بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پر مبنی تھے۔ نیک کام جو کئے تھے
ثواب کے لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کئے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی
خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس
ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی۔ تب تو نہایت
مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا،
’’ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں۔
ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہو سکتا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہو گیا۔
تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی
باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس کو گلے لگا کر
اس کی بلائیں لیں۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ
کر کھڑے ہوئے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے، کیوں تو بے قرار ہے۔
کس لیے تیری ہچکی بندھ گئی ہے۔ اٹھ منہ ہاتھ دھو، کپڑے پہن۔ نوروز کی خوشی منا،
تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب
دیکھا اور خواب میں بڈھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے
سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ
ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔
یہ سن کر وہ لڑکا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے
پکارا،
’’او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے۔ میں کبھی اس بڈھے
کی طرح نہ پچتھاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا
چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ او خدا او
خدا تو میری مدد کر۔ آمین۔
پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے
بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ
پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور
اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین
ساغر صدیقی کے والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں، کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے۔ غصہ میں اس لڑکی کے گھر والوں نے لڑکی کی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی جو کامیاب نہ ہوئی لیکن ساغر اپنے گھر کی ۔تمام آسائش و آرام چھوڑ چھاڑ کر لاہور رہنے لگا۔
ایک گزارش: اپنے دستی گشتی فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ میں جہاں تک ممکن ہو سکے ترسیلی ضرورتوں کے لیے اردو ہی میں لکھیے کیوں کہ جیسے ج...