جمعرات، 10 اکتوبر، 2024

تم اک گورکھ دھندا ہو

 مشہورِ زمانہ قوالی (تم اک گورکھ دھندہ ہو) جس کو استاد نصرت فتح علی خان کی آواز نے امر کر دیا لیکن اس کے شاعر کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ۔آیئے ان کے بارے میں جانتے ہیں ۔

پیدائش :

ان کا اصل نام محمد صدیق اور تخلص ناز تھا۔ ناز خیالوی"جھوک خیالی" نامی ایک گاؤں394 گ ب میں 1947ء میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے انھیں خیالوی کہا جاتا ہے۔ 

جھوک خیالی گاؤں ضلع فیصل آباد، صوبہ پنجاب، پاکستان میں تاندلیانوالہ کے نزدیک اور لاہور سے 174 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے

شاگردی :

وہ ایک ممتاز اردو شاعر احسان دانش کے ایک شاگرد تھے۔

نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو

جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو

کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی

کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو

زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے

وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو

خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی

طور ہی ، بن کے تجلی سے جلا دیتے ہو

نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل

خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو

چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں

نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو

بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں

آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو

جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی

بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو

خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر

خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو

اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے

اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو

کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری

تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو

جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی

اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو

جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے

تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو

سوہنی گر تم کو “مہینوال” تصور کر لے

اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو

خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب

ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو

ناز خیالوی

پیر، 30 ستمبر، 2024

گزرا ہوا زمانہ از سر سید احمد خاں

گزرا ہوا زمانہ

سرسید احمد خاں

 

برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات بھی ڈراؤنی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے۔ آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔ بڈھا نہایت غمگین ہے مگر اس کا غم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر۔ اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسو بھی بہے چلے جاتے ہیں۔

پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے۔ اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے جب کہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی۔ روپیے اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر، ماں باپ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب یاد آتے تھے۔ وہ اور زیادہ غمگین ہوتا تھا اور بے اختیار چلا اٹھتا تھا، ’’ہائے وقت، ہائے وقت، ہائے گزرے ہوئے زمانے۔ افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔‘‘

پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ سفید چہرہ، سڈول ڈیل، بھرا بھرا بدن رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں بھرا ہوا دل۔ جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتے تھے اور نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا، ’’آہ ابھی بہت وقت ہے۔‘‘ اور بڑھاپے آنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لئے تیار رہتا۔ آہ وقت گزر گیا۔ آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ’’ابھی وقت بہت ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹٹول ٹٹول کر کھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی، دیکھا کہ رات ویسی ہی ڈراؤنی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے۔ ہولناک آندھی چل رہی ہے۔ درختوں کے پتے اڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں۔ تب وہ چلا کر بولا، ’’ہائے ہائے، میری گزری ہوئی زندگی بھی ایسی ہی ڈراؤنی ہے، جیسی یہ رات۔‘‘ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔

اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمہارے ہی بھلے کے لئے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جا ری ہے۔ دوست، آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔

ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا کے ساتھ برتی تھیں۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے مروت رہنا، دوست، آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا۔ اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جاتا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ’’ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت نکل گیا۔ اب کیوں کر اس کا بدل ہو۔‘‘

وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا اور ٹکراتا لڑتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔

اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پنا یاد آیا جس میں نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن۔ نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش۔ اس نے اپنی اس نیکی کے زمانہ کو یاد کیا، جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا، نمازیں پڑھنی، حج کرنا، زکوٰۃ دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنوئیں بنوانا یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کی جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کو جن سے بیعت کی تھی، اپنی مدد کو پکارتا تھا۔ مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں۔ مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور پھر ویسے ہی جنگل ہیں۔ کنوئیں اندھے پڑے ہیں۔ نہ پیر اور نہ فقیر۔ کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی۔ اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا،

’’ہائے وقت، ہائے وقت، میں نے تجھ کو کیوں کھودیا۔‘‘

وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے۔ آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے تارے نکل آئے ہیں۔ ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ دل بہلانے کے لیے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آ گئی۔ وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے اس سے پوچھا،

’’کہ تم کون ہو۔‘‘

وہ بولی کہ ’’میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں۔‘‘

اس نے پوچھا کہ’’تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے۔‘‘

وہ بولی، ’’ہاں ہے۔ نہایت آسان، پر بہت مشکل۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا، ’’واللہ لا ایزید ولا انقص۔‘‘ ادا کر کہ انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے۔ اس کو میں مسخر ہوتی ہوں۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ انسان ہی ایسی چیز ہے اخیر تک رہے گا۔ پس جو بھلائی کی انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل در نسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسی تک ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کر دیتی ہے۔ مادی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جاری رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں۔ جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے، انسان کی بھلائی میں کوشش کرے۔ کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں دل و جان و مال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہو گئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔‘‘

اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پر مبنی تھے۔ نیک کام جو کئے تھے ثواب کے لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کئے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی۔ تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا،

’’ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں۔ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہو سکتا۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہو گیا۔

تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس کو گلے لگا کر اس کی بلائیں لیں۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ کر کھڑے ہوئے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے، کیوں تو بے قرار ہے۔ کس لیے تیری ہچکی بندھ گئی ہے۔ اٹھ منہ ہاتھ دھو، کپڑے پہن۔ نوروز کی خوشی منا، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔

یہ سن کر وہ لڑکا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا،

’’او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے۔ میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچتھاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ او خدا او خدا تو میری مدد کر۔ آمین۔

پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین

 

*سوشل میڈیا سے اٹھایا ہوا۔ اگر املا کی غلطی ہو تودر گزر کریں

ہفتہ، 14 ستمبر، 2024

ساغر صدیقی کی ایک حکایت


 ساغر صدیقی کے والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں، کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے۔ غصہ میں اس لڑکی کے گھر والوں نے لڑکی کی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی جو کامیاب نہ ہوئی لیکن ساغر اپنے گھر کی ۔تمام آسائش و آرام چھوڑ چھاڑ کر لاہور رہنے لگا۔

جب اس کی محبوبہ کو پتہ چلا کہ ساغر داتا دربار ہے تو وہ داتا صاحب آ گئی کافی تلاش کے بعد آ خر تاش کھیلتے ہوئے ایک نشیڑیوں کے جھڑمٹ میں ساغر مل ہی گیا۔ اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے میرے خاونذ نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور ہماری داستان محبت سن کر مجھے طلاق دے دی ہے۔ اب اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو۔ ساغر نے کہا:

بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ہم وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں
غربت، ڈپریشن، ٹینشن کی وجہ سے ساغر صدیقی کے آخری چند سال نشے میں گزرے اور وہ بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے۔ گلیوں میں فٹ پاتھ پر سویا کرتے تھے لیکن اس وقت بھی انھوں نے شاعری کرنا نہ چھوڑا۔
میری غربت نے میرے فن کا اڑا یا ہے مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغؔر کو خدا یاد نہیں                     ساغر صدیقی
کہتے ہیں کہ جب جنرل ایوب خان صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ایوب خان صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ اسٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے اسٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی۔ یقینا" کسی نے خون کے آنسوؤں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے: جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لیے خوش خبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے۔ جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دنگ رہ گئے ۔اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں۔ جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاؤ اور کہنا کہ جنرل ایوب خان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انھوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟ کون سا شاعر؟ ارے !آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے۔ چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں۔ جب وہ جنرل ایوب خان صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو جنرل صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے۔ جاؤ، ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی۔ اسی لیے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بہ شمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لیے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اصرار کے بعد وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے جنرل صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لیے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئی اور پھر انھوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا کہ:
جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
میری غربت نےاڑایا ہے میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
جب نامور گلو کار مہدی حسن نے یہ غزل گائی تو ان کی آواز میں یہ غزل ہندستان بھی پہنچی اور اسے دیگر ہندوستانی گلوکاروں نے بھی گایا ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دن ساغر صدیقی سوتر منڈی (پاکستان) میں ایک پان کی دکان کے سامنے سے گزر رہے تھےتو اس وقت آل انڈیا ریڈیو کے کسی اسٹیشن سے کوئی گلوکار ،ان کی یہی غزل گا رہا تھا، ساغر صدیقی رک گئے ۔غزل کے اختتام پر اناؤنسر نے جب یہ کہا ''ابھی آپ پاک و ہند کے مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غزل سن رہے تھے'' تو ساغر نے ہنس کر کہا ''واہ رے مولا! ان کو معلوم ہی نہیں کہ ساغر کس حال میں زندہ ہے'' اور یہ شعر کہہ کر چل دیے :
ساقیا تیرے بادہ خانے میں ۔۔۔۔ نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں ۔۔
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انھیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے
فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ بڑا اندھیرا ہے
جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
بنام زہرہ جبینان خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ بڑا اندھیرا ہے


*یہ تحریر سوشل میڈیا سے اجازت لے کر کاپی کی گئی ہے۔ *

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

کمپلین نہیں شکایت

        مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اس کے بعد عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائے گی  پھر کہا گیا اردو کے لیے ایک دبائیے، ہم نے تامل نہ کیا، فوراً ایک صاحب زادے گویا ہوئے :

This is Kamran, how can I help you ? 

ہم نے ان سے کہا ،"میاں صاحب زادے ! ہم نے تو اردو کے لیے ایک دبائیے پر عمل کیا ہے۔  اس کے  باوجود یہ انگریزی فرمانے لگے "جی بولیے ؟" 

ہم نے کہا،" بولتے تو جانور بھی ہیں، انسان تو کہتا ہے"

جواباً ارشاد ہوا: "جی کہیے،"

 ہم نے کہا: " ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہیے تھا " فرمائیے! “

 اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے: “ سوری، فرمائیے کیا کمپلین ہے؟“

ہم نے کہا: "ایک تو یہ کہ سوری نہیں معذرت سننا چاہیں گے۔ اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے، دوسری بات یہ کہ کمپلین نہیں شکایت، اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے۔"

 اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا: " سر میں سمجھ گیا آپ شکایت  بتائیں۔‘‘

 ہم نے کہا: " سر نہیں جناب! اس لیے کہ ایک نمبر کا یہی تقاضا ہے، شکایت سننے کے بعد کہا، "جی ہم نے آپ کی شکایت نوٹ کرلی ہے۔ اسے کنسرن ڈپارٹمنٹ کو فارورڈ کردیتے ہیں۔"

ہم نے کہا: " کیا؟ ۔۔۔!!"  تو واقعتاٌ بوکھلا گئے، ہم نے کہا," شکایت نوٹ نہیں بلکہ درج کرنی ہے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچانی ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اردو کے لئے ایک دبایا ہے ۔

کہنے لگے," جناب میں سیٹ سے  اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں۔ آپ نے اردو کے لیے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے۔ " ہم نے کہا: “ ابھی کہاں دبایا ہے، آپ سیٹ سے کیوں اٹھے؟ آپ کو نشست سے اٹھنا چاہیے تھا، پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لیے ایک دبایا ہے ۔

کہنے لگے “ اب میں رو دوں گا!“ 

ہم نے کہا ,"ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفت گو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے  مگر کیا افتاد پڑی  آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ۔!! *کہنے لگے," میرے باپ کی توبہ....!!

ہفتہ، 25 مئی، 2024

بچھو پھوپھی۔ عصمت چغتائی

بچھو پھوپھی

عصمت چغتائی

جب پہلی بار میں نے انہیں دیکھا تو وہ رحمان بھائی کے پہلے منزلے کی کھڑکی میں بیٹھی لمبی لمبی گالیاں اور کوسنے دے رہی تھیں۔ یہ کھڑکی ہمارے صحن میں کھلتی تھی اور قانونا اسے بند رکھا جاتا تھا کیوں کہ پردے والی بی بیوں کا سامنا ہونے کا ڈر تھا۔ رحمان بھائی رنڈیوں کے جمعدار تھے، کوئی شادی بیاہ، ختنہ، بسم اللہ کی رسم ہوتی، رحمان بھائی اونے پونے ان رنڈیوں کو بلا دیتے اور غریب کے گھر میں بھی وحید جان، مشتری بائی اور انوری کہروا ناچ جاتیں۔

مگر محلے ٹولے کی لڑکیاں بالیاں ان کی نظر میں اپنی سگی ماں بہنیں تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی بندو اور گیندا آئے دن تاک جھانک کے سلسلہ میں سر پھٹول کیا کرتے تھے، ویسے رحمان بھائی محلے کی نظروں میں کوئی اچھی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی کی زندگی ہی میں اپنی سالی سے جوڑ توڑ کر لیا تھا۔ اس یتیم سی سالی کا سوائے اس بہن کے اور کوئی مرا جیتا نہ تھا۔ بہن کے ہاں پڑی تھی۔ اس کے بچے پالتی تھی۔ بس دودھ پلانے کی کسر تھی۔ باقی ساراگو موت وہی کرتی تھی۔

اور پھر کسی نک چڑھی نے اسے بہن کے بچے کے منہ میں ایک دن چھاتی دیتے دیکھ لیا۔ بھانڈا پھوٹ گیا اور پتہ چلا کہ بچوں میں آدھے بالکل ’’خالہ‘‘ کی صورت پہ ہیں۔ گھر میں رحمان کی دلہن چاہے بہن کی درگت بناتی ہوں پرکبھی پنچوں میں اقرار نہ کیا۔ یہی کہا کرتی تھیں۔ ’’جو کنواری کو کہے گا، اس کے دیدے گھٹنوں کے آگے آئے گا۔‘‘ ہاں بر کی تلاش میں ہردم سوکھا کرتی تھیں، پر اس کیڑے بھرے کباب کو بر کہاں جٌڑتا؟ ایک آنکھ میں یہ بڑی کوڑی سی پھلی تھی۔ پیر بھی ایک ذرا چھوٹا تھا۔ کولہا دبا کر چلتی تھی۔

سارے محلے سے ایک عجیب طرح کا بائیکاٹ ہو چکا تھا۔ لوگ رحمان بھائی سے کام پڑتا تو دھونس جما کر کہہ دیتے محلے میں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ یہی کیا کم عنایت تھی۔ رحمان بھائی اسی کو اپنی عزت افزائی سمجھتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ رحمان بھائی کی کھڑکی میں بیٹھ کر طول طویل گالیاں دیا کرتی تھی۔ کیوں کہ باقی محلے کے لوگ ابا سے دبتے تھے مجسٹریٹ سے کون بیر مول لے۔

اس دن پہلی دفعہ مجھے معلوم ہوا کہ ہماری اکلوتی سگی پھوپی بادشاہی خانم ہیں اور یہ لمبی لمبی گالیاں ہمارے خاندان کو دی جا رہی تھیں۔

اماں کا چہرہ فق تھا اور وہ اندر کمرے میں سہمی بیٹھی تھیں، جیسے بچھو پھوپی کی آواز ان پر بجلی بن کر ٹوٹ پرے گی۔ چھٹے چھ ماہے اسی طرح بادشاہی خانم رحمان بھائی کی کھڑکی میں بیٹھ کر ہنکارتیں، ابامیاں ان سے زراسی آڑ لے کر مزے سے آرام کرسی پردراز اخبار پڑھتے رہتے اور موقع محل پر کسی لڑکے بالے کے ذریعے کوئی ایسی بات جواب میں کہہ دیتے کہ پھوپی بادشاہی پھر شتابیاں چھوڑنے لگتیں۔ ہم لوگ سب کھیل کود، پڑھنا لکھنا چھوڑ کر صحن میں گچھا بنا کر کھڑے ہو جاتے اور مڑ مڑ اپنی پیاری پھوپی کے کوسنے سنا کرتے جس کھڑکی میں وہ بیٹھتی تھیں وہ ان کے طول طویل جسم سے لبا لب بھری ہوئی تھی۔ ابامیاں سے اتنی ہم شکل تھیں جیسے وہی مونچھیں اتار کر ڈوپٹہ اوڑھ کر بیٹھ گیے ہوں۔ اور باوجود کوسنے اور گالیاں سننے کے ہم لوگ بڑے اطمینان سے انہیں تکا کرتے تھے۔

ساڑھے پانچ فٹ کا قد، چار انگل چوڑی کلائی، شیر سا کلا، سفید بگلا بال، بڑا سا دہانہ، بڑے بڑے دانت بھاری سی تھوڑی اور آواز تو ماشاء اللہ ابا میاں سے ایک سر نیچی ہی ہو گی۔

پھوپی بادشاہی ہمیشہ سفید کپڑے پہنا کرتیں تھیں۔ جس دن پھوپا مسعود علی نے مہترانی کے سنگ کلیلیں کرنی شروع کیں پھوپی نے بٹے سے ساری چوڑیاں چھنا چھن توڑ ڈالیں۔ رنگا ڈوپٹہ اتار دیا اور اس دن سے وہ انہیں ’’مرحوم‘‘ یا ’’مرنے والا‘‘ کہا کرتی تھیں۔ مہترانی کو چھونے کے بعد انہوں نے وہ ہاتھ پیر اپنے جسم کو نہ لگنے دیئے۔

یہ سانحہ جوانی میں ہوا تھا اور اب جب سے ’’رنڈاپا‘‘ جھیل رہی تھیں۔ ہمارے پھوپا ہماری اماں کے چچا بھی تھے۔ ویسے تو نہ جانے کیا گھپلا تھا۔ میرے ابا میری اماں کے چچا لگتے تھے۔ اور شادی سے پہلے جب وہ چھوٹی سی تھیں تو میرے ابا کو دیکھ کر ان کا پیشاب نکل جاتا تھا۔ اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی منگنی اسی بھیانک دیو سے ہونے والی ہے۔ تو انہوں نے اپنی دادی یعنی ابا کی پھوپی کی پٹاری سے افیون چرا کر کھالی تھی۔ افیون زیادہ نہیں تھی اور کچھ دن لوٹ پوٹ کر اچھی ہو گئیں۔ ان دنوں ابا علی گڑھ کالج میں پڑھتے ان کی بیماری کی خبر سن کر امتحان چھوڑ کر بھاگے۔ بڑی مشکل سے ہمارے نانا جو ابا کے پھوپی زاد بھائی بھی تھے اور بزرگ دوست بھی، انہوں نے سمجھا بجھا کر واپس امتحان دینے بھیجا تھا۔ جتنی دیر وہ رہے، بھوکے پیاسے ٹہلتے رہے۔ ادھ کھلی آنکھوں سے میری اماں نے ان کا چوڑا چکلا سایہ پردے کے پیچھے بے قراری سے تڑپتے دیکھا۔

’’امراؤ بھائی! اگر انہیں کچھ ہو گیا... تو...‘‘ دیو کی آواز لرز رہی تھی۔ نانا میاں خوب ہنسے۔

’’نہیں برادر، خاطر جمع رکھو۔ کچھ نہ ہوگا۔‘‘

اس وقت میری منی سی معصوم ماں ایک دم عورت بن گئی تھی۔ اس کے دل سے ایک دم دیو زاد انسان کا خوف نکل گیا تھا۔ جبھی تو میری پھوپی بادشاہی کہتی تھی میری اماں جادو گرنی ہے اور اس کا تو میرے بھائی سے شادی سے پہلے تعلق ہو کر پیٹ گرا تھا۔ میری اماں اپنے جوان بچوں کے سامنے جب یہ گالیاں سنتیں تو ایسی بسور بسور کر روتیں کہ ہمیں ان کی مار فراموش ہو جاتی اور پیار آنے لگتا مگر یہ گالیاں سن کر ابا کی گمبھیر آنکھوں میں پریاں ناچنے لگتیں۔ وہ بڑے پیار سے ننھے بھائی کے ذریعے کہلواتے۔

’’کیوں پھوپی، آج کیا کھایا ہے؟‘‘

’’تیری میا کا کلیجہ۔‘‘ اس بے تکے جواب سے پھوپی جل کر مرندا ہو جاتیں، ابا پھر جواب دلواتے۔

’’ارے پھوپی، جب ہی منہ میں بواسیر ہو گئی ہے جلاب لو جلاب!‘‘

وہ میرے نوجوان بھائی کی مچمچاتی لاش پر کوؤں، چیلوں کی دعوت دینے لگتیں۔ ان کی دلہن کو جو نہ جانے بیچاری اس وقت کہاں بیٹھی اپنے خیالی دولہا کے عشق میں لرز رہی ہو گی، رنڈاپے کی دعائیں دیتیں۔ اور میری اماں کانوں میں انگلیاں دے کر بدبداتیں۔

’’جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔‘‘

پھر ابا اکساتے اور ننھے بھائی پوچھتے۔

’’پھوپی بادشہی، مہترانی پھوپی کا مزاج تو اچھا ہے؟‘‘ اور ہمیں ڈر لگتا کہ کہیں پھوپی کھڑکی میں سے پھاند نہ پڑیں۔

’’ارے جا سنپو لیے، میرے منہ نہ لگ، نہیں تو جوتی سے منہ مسل دوں گی۔ یہ بڈھا اندر بیٹھا کیا لونڈوں کو سکھا رہا ہے۔ مغل بچہ ہے تو سامنے آ کر بات کرے۔‘‘

’’رحمان بھائی اے رحمان بھائی، اس بورانی کتیا کو سنکھیا کیوں نہیں کھلاتے‘‘ ابا کے سکھانے پر ننھے بھائی ڈرتے ہوئے بولتے۔ حالانکہ انہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کیوں کہ سب جانتے تھے کہ آواز ان کی ہے مگر الفاظ اباں میاں کے ہیں۔ لہٰذا گناہ ننھے بھائی کی جان پر نہیں۔ مگر پھر بھی بالکل ابا کی شکل کی پھوپی کی شان میں کچھ کہتے ہوئے انہیں پسینے آ جاتے تھے۔

کتنا زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ہمارے ددھیال اور ننھیال والوں میں ننھیال حکیموں گلی میں تھی اور ددھیال گاڑی بانوں کٹہڑے میں۔ ننھیال والے سلیم چشتی کے خاندان سے تھے۔ جنہیں مغل بادشاہ نے مرشد کا مرتبہ دے کر نجات کا راستہ پہچانا۔ ہندوستان میں اسے بسے عرصہ گزر چکا تھا۔ رنگتیں سنولا چکی تھیں نقوش نرم پڑ چکے تھے۔ مزاج ٹھنڈے ہو گیے تھے۔

ددھیال والے باہر سے سب سے آخری کھیپ میں آنے والوں میں سے تھے۔ ذہنی طور پر ابھی تک گھوڑوں پر سوار منزلیں مار رہے تھے۔ خون میں لاوا دہک رہا تھا۔ کھڑے کھڑے تلوار جیسے نقوش، لال فرنگیوں جیسے منہ، گریلوں جیسی قد و قامت، شیروں جیسی گرجدار آوازیں۔ شہتیر جیسے ہاتھ پاؤں۔

اور ننھیال والے، نازک ہاتھ پیروں والے شاعرانہ طبیعت کے دھیمی آواز میں بولنے چالنے کے عادی۔ زیادہ تر حکیم، عالم اور مولوی تھے۔ جبھی محلے کا نام حکیموں کی گلی پڑ گیا تھا۔ کچھ کاروبار میں بھی حصہ لینے لگے تھے، شال باف، زردوز اور عطار وغیرہ بن چکے تھے۔ حالانکہ میری ددھیال والے ایسے لوگوں کو کنجڑے قصائی ہی کہا کرتے تھے کیوں کہ وہ خود زیادہ تر فوج میں تھے۔ ویسے مار دھاڑ کا شوق ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ کشتی پہلوانی، تیراکی میں نام پیدا کرنا، پنجہ لڑانا، تلوار اور پٹے کے ہاتھوں دکھانا اور چوسر پچیسی کو جو میری ننھیال کے مرغوب ترین کھیل تھے ہیجڑوں کے کھیل سمجھنا۔

کہتے ہیں جب آتش فشاں پہاڑ پھٹتا ہے تو لاوا وادی کی گود میں اتر آتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میرے ددھیال والے ننھیال والوں کی طرف خود بخود کھینچ کر آ گیے۔ یہ میل کب اور کس نے شروع کیا سب شجرے میں لکھا ہے، مگر مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ میرے دادا ہندوستان میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ دادیاں بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی مگر ایک چھوٹی سی بہن بن بیاہی تھی۔ نہ جانے کیوں کر وہ شیخوں میں بیاہ دی گئی۔ شاید میری اماں کے دادا نے میرے داد پر کوئی جادو کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنی بہن بقول پھوپی بادشاہی کنجڑوں قصائیوں میں دے دی۔ اپنے ’’مرحوم‘‘ شوہر کو گالیاں دیتے وقت وہ ہمیشہ اپنے باپ کو قبر میں چین نہ ملنے کی بد دعائیں دیا کرتیں۔ جنہوں نے چغتائی خاندان کی مٹی پلید کر دی۔

میری پھوپی کے تین بھائی تھے۔ میرے تایا میرے ابامیاں اور میرے چچا۔ بڑے دو ان سے بڑے تھے اور چچا سب سے چھوٹے تھے۔ تین بھائیوں کی ایک لاڈلی بہن ہمیشہ کی نخریلی اور تنک مزاج تھیں۔ وہ ہمیشہ تینوں پر رعب جماتیں اور لاڈ کرواتیں۔ بالکل لونڈوں کی طرح پلیں، شیر سواری تیر اندازی اورتلوار چلانے کی بھی خاصی مشق تھی۔ ویسے تو پھیل پھال کر ڈھیر معلوم ہوتی تھیں۔ مگر پہلوانوں کی طرح سینہ تان کر چلتی تھیں۔ سینہ تھا بھی چار عورتوں جتنا۔

ابا مذاق میں اماں کو چھیڑا کرتے۔

’’بیگم بادشاہی سے کشتی لڑوگی؟‘‘

’’اوئی توبہ میری!عالم فاضل باپ کی بیٹی‘‘ میری اماں کان پر کان پر ہاٹھ دھر کر کہتیں، مگر وہ ننھے بھائی سے فورا پھوپی کو چیلنج بھجواتے۔

’’پھوپی ہماری اماں سے کشتی لڑوگی؟‘‘

’’ہاں، ہاں بلا اپنی اماں کو۔ آجائے خم ٹھوک کر۔ ارے الو نہ بنا دوں تو مرزا کریم بیگ کی اولاد نہیں۔ باپ کا نطفہ ہے تو بلا۔ بلا ملا زادی کو...‘‘ اور میری اماں اپنا لکھنؤ کا بڑے پائنچوں کا پاجامہ سمیٹ کر کونے میں دبک جاتیں۔

’’پھوپی بادشاہی، دادا میاں گنوار تھے نا؟ بڑے نانا جان انہیں آمد نامہ پڑھایا کرتے تھے۔‘‘ ہمارے پرنانا کے دادا جان نے کبھی دادا کو کچھ پڑھا دیا ہو گا‘‘ ابا میاں چھیڑنے کو بات توڑ موڑ کر کہلواتے۔

’’ارے وہ استنجے کا ڈھیلا کیا میرے باوا کو پڑھاتا۔ مجاور کہیں کا، ہمارے ٹکڑوں پر پلتا تھا۔‘‘ یہ سلیم چشتی اور اکبر بادشاہ کے رشتے سے حساب لگایا جاتا۔ ہم لوگ یعنی چغتائی اکبر بادشاہ کے خاندان سے تھے۔ جنہوں نے میری ننھیال کے سلیم چشتی کو پیرو مرشد کہا تھا۔ مگر پھوپی کہتیں۔ ’’خاک، پیرومرشد کی دم! مجاور تھے مجاور۔‘‘

تین بھائی تھے مگر تینوں سے لڑائی ہو چکی تھی۔ اور وہ غصہ ہوتیں تو تینوں کی دھجیاں بکھیر دیتیں۔ بڑے بھائی بڑے اللہ والے تھے، انہیں حقارت سے فقیر اور بھیک منگا کہتیں۔ ہمارے ابا گورنمنٹ سروس میں تھے۔ انہیں غدار اور انگیزوں کا غلام کہتیں، کیوں کہ مغل شاہی انگریزوں نے ختم کر ڈالی، ورنہ آج۔ ’’مرحوم‘‘ پتلی دال کے کھانے والے جولاہے یعنی میرے پھوپا کے بجائے وہ لال قلعے میں زیب النساء کی طرح عرق گلاب میں غسل فرما کر کسی ملک کے شہنشاہ کی ملکہ بنی بیٹھی ہوتیں۔ تیسرے یعنی بڑے چچا دس نمر کے بدمعاشوں میں سے تھے اور سپاہی ڈرتا ڈرتا مجسٹریٹ بھائی کے گھر ان کی حاضری لینے آیا کرتا تھا۔ انہوں نے کئی قتل کیے تھے، ڈاکے ڈالے تھے۔ شراب اور رنڈی بازی میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ انہیں ڈاکو کہا کرتی تھیں جوان کے کیرئر کو دیکھتے ہوئے قطعی پھسپھسا لفظ تھا۔

مگر جب وہ اپنے ’’مرحوم‘‘ شوہر سے غصہ ہوتیں تو کہا کرتیں۔ ’’منہ جلے۔ نگوڑی ناہٹی نہیں ہوں۔ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ ان کو خبر ہو گئی تو دنیا کا نہ رہے گا۔ اور کچھ نہیں۔ اگر چھوٹا سن لے تو پل بھر میں انتڑیاں نکال کے ہاتھ میں تھما دے۔ ڈاکو ہے ڈاکو... اس سے بچ گیا تو منجھلا مجسٹریٹ تجھے جیل کی سزا دے گا۔ ساری عمر چکیاں پسوائے گا اور اس سے بچ گیا تو بڑا جو اللہ والا ہے۔ تیری عاقبت خاک میں ملا دے گا۔ دیکھ مغل بچی ہوں تیری اماں کی طرح شیخانی فتانی نہیں۔‘‘ مگر میرے پھوپا اچھی طرح جانتے تھے کہ تینوں بھائی ان پر رحم کھاتے ہیں اور وہ بیٹھے مسکراتے رہتے ہیں وہی میٹھی میٹھی زہریلی مسکراہٹ جس کے ذریعے سے میرے ننھیال والے ددھیال والوں کو برسوں سے جلا رہے ہیں۔

ہر عید بقر عید کو میرے ابا میاں بیٹوں کو لے کر عید گاہ سے سیدھے پھوپی اماں کے ہاں کوسنے اور گالیاں سننے جایا کرتے، وہ فورا پردہ کر لیتیں اور کوٹھڑی میں سے میری جادو گرنی ماں اور ڈاکو ماموں کو کوسنے لگتیں۔ نوکر کو بلا کر سویاں بجھواتیں۔ مگر یہ کہتیں ’’پڑوسن نے بھیجی ہیں۔‘‘

’’ان میں زہر تو نہیں ملا ہوا ہے؟‘‘ ابا چھیڑنے کو کہتے اور پھر ساری ننھیال کے چیتھڑے بکھیرے جاتے۔ سویاں کھا کر عیدی دیتے جو وہ فورا زمین پر پھینک دیتیں کہ ’’اپنے سالوں کو دو وہی تمہاری روٹیوں پر پلے ہیں۔‘‘ اور ابا چپ چاپ چلے آتے اور وہ جانتے تھے کہ پھوپی بادشاہی وہ روپے گھنٹوں آنکھوں سے لگا کر روتی رہیں گی۔ بھتیجوں کو وہ آڑ میں بلا کر عیدی دیتیں۔

’’حرامزادو اگر اماں ابا کو بتلایا تو بوٹیاں کاٹ کر کتوں کو کھلادوں گی۔‘‘ اماں ابا کو معلوم تھا کہ لڑکوں کو کتنی عیدی ملی۔ اگر کسی عید پر کسی وجہ سے ابا میاں نہ جا پاتے تو پیغام پر پیغام آتے ’’نصرت خانم بیوہ ہو گئیں، چلو اچھا ہوا۔ میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا‘‘ برے برے پیغام شام تک آتے ہی رہتے اور پھر وہ خود رحمان بھائی کے کوٹھے پر سے گالیاں برسانے آ جاتیں۔

ایک دن عید کی سویاں کھاتے کھاتے کچھ گرمی سے جی مالش کرنے لگا۔ ابا میاں کو الٹی ہو گئی۔

’’لو بادشاہی خانم، کہا سنا معاف کرنا، ہم تو چلے۔‘‘ ابا میاں نے کراہ کر آواز بنائی اور پھوپی لشتم پشتم پردہ پھینک چھاتی کوٹتی نکل آئیں۔ ابا کو شرارت سے ہنستا دیکھ الٹے پاؤں کو ستی لوٹ گئیں۔

’’تم آگئیں بادشاہی تو ملک الموت بھی گھبرا کر بھاگ گیے۔ ورنہ ہم تو آج ختم ہی ہو جاتے‘‘۔ ابا نے کہا۔ نہ پوچھیے پھوپی نے کتنے وزنی کوسنے دیئے۔ انہیں خطرے سے باہر دیکھ کر بولیں۔

’’اللہ نے چاہا بجلی گرے گی۔ نالی میں گر کردم توڑو گے۔ کوئی میت کو کاندھا دینے والا نہ بچے گا‘‘ ابا چڑانے کو انہیں دوروپئے بجھوا دیتے۔

’’بھئی ہماری خاندانی ڈومنیاں گالیاں دیدیں تو انہیں بیل تو ملنی ہی چاہئے۔‘‘ اور پھوپی بوکھلاہٹ میں کہہ جاتیں۔

’’بیل دے اپنی اماں بہنیا کو۔‘‘ اور پھر فورا اپنا منہ پیٹنے لگتیں خود ہی کہتیں۔ ’’اے بادشاہی بندی، تیرے منہ کو کالک لگے۔ اپنی میت آپ پیٹ رہی ہے۔‘‘ پھوپی کو اصل میں بھائی سے ہی بیر تھا۔ بس ان کے نام پر آگ لگ جاتی، ویسے کہیں ابا کے بغیر اماں نظر آجاتیں تو گلے لگا کر پیار کرتیں پیار سے ’’نچھو نچھو‘‘ کہتیں۔ ’’بچے تو اچھے ہیں۔‘‘ وہ بالکل بھول جاتیں کہ یہ بچے اسی بدذات بھائی کے ہیں جسے وہ ازل سے ابد تک کوستی رہیں گی۔ اماں ان کی بھتیجی بھی تھیں۔ بھئی کس قدر گھپلا تھا میری ددھیال ننھیال میں۔ ایک رشتے سے میں اپنی اماں کی بہن بھی لگتی تھی۔ اس طرح میرے ابا میرے دولہا بھائی بھی ہوتے تھے۔ میری ددھیا کو ننھیال والوں نے کیا کیا غم نہ دیئے۔ غضب تو جب ہوا جب میری پھوپی کی بیٹی مسرت خانم ظفر ماموں کو دل دے بیٹھی۔

ہوا یہ کہ میری اماں کی دادی یعنی ابا کی پھوپی جب لب دم ہوئیں تو دونوں طرف کے لوگ تیمارداری کو پہنچے۔ میرے ماموں بھی اپنی دادی کو دیکھنے گیے۔ مسرت خانم بھی اپنی اماں کے ساتھ ان کی پھوپی دیکھنے آئیں۔

بادشاہی پھوپی کو کچھ ڈر، خوف تو تھا نہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ میرے ننھیال والوں کی طرف سے انہوں نے اپنی اولاد کے دل میں اطمینان بخش حد تک نفرت بھر دی ہے اور پندرہ برس کی مسرت خانم کا بھی سن ہی کیا تھا۔ اماں کے کولہے سے لگ کر سوتی تھیں۔ دودھ پیتی ہی تو انہیں لگتی تھیں۔

پھر جب میرے ماموں نے اپنی کرنجی شربت بھری آنکھوں سے مسرت جہاں کے لچک دار سراپے کو دیکھا تو وہیں کی وہیں جم کر رہ گئیں۔

دن بھر بڑے بوڑھے تیمارداری کرکے تھک کر سو جاتے تو یہ فرمانبردار بچے سرہانے بیٹھے مریضہ پر کم ایک دوسرے پر زیادہ نگاہ رکھتے جب مسرت جہاں برف میں تر کپڑا بڑی بی کے ماتھے پر بدلنے کو ہاتھ بڑھاتیں تو ظفر ماموں کا ہاتھ وہاں پہلے سے موجود ہوتا۔

دوسرے دن بڑی بی نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ لرزتی کانپتی گاؤ تکیے کے سہارے اٹھ بیٹھیں، اٹھتے ہی سارے خاندان کے ذمہ دار لوگوں کو طلب کیا۔ جب سب جمع ہو گیے تو حکم ہوا۔ ’’قاضی کو بلواؤ۔‘‘

لوگ پریشان کہ بڑھیا قاضی کو کیوں بلا رہی ہے، کیا آخری وقت سہاگ رچائے گی، کس کو دم مارنے کی ہمت تھی۔

’’دونوں کا نکاح پڑھاؤ۔‘‘ لوگ چکرائے کن دونوں کا مگر ادھر مسرت جہاں پٹ سے بے ہوش ہو کرگریں ادھر ظفر ماموں بوکھلا کر باہر چلے۔ چور پکڑے گیے۔ نکاح ہو گیا، بادشاہی پھوپی سناٹے میں رہ گئیں۔

حالانکہ کوئی خطرناک بات نہ ہوئی تھی، دونوں نے صرف ہاتھ پکڑے تھے۔ مگر بڑی بی کے لیے بس یہی حد تھی۔

اور پھر جو بادشاہی پھوپی کو دورہ پڑا ہے تو بس گھوڑے اور تلوار کے بغیرانہوں نے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔ کھڑے کھڑے بیٹی داماد کو نکال دیا۔ مجبورا ابا میاں دولہا دولہن کو اپنے گھر لے آئے۔ اماں تو چاند سی بھابی کو دیکھ کر نہال ہو گئیں، بڑی دھوم دھام سے ولیمہ کیا۔

بادشاہی پھوپی نے اس دن سے پھوپی کا منہ نہیں دیکھا۔ بھائی سے پردہ کر لیا۔ میاں سے پہلے ہی ناچاقی تھی۔ دنیا سے منہ پھیر لیا۔ اور ایک زہر تھا کہ ان کے دل و دماغ پر چڑھتا ہی گیا۔ زندگی سانپ کے پھن کی طرح ڈسنے لگی۔

’’بڑھیا نے پوتے کے لیے میری بچی کو پھنسانے کے لیے مکر گانٹھا تھا۔‘‘

وہ برابر یہی کہے جاتیں، کیوں کہ واقعی وہ اس کے بعد بیس سال تک اور جئیں۔ کون جانے ٹھیک ہی کہتی ہوں پھوپی۔

مرتے دم تک بہن بھائی میں میل نہ ہوا۔ جب ابا میاں پر فالج کا چوتھا حملہ ہوا اور بالکل ہی وقت آگیا تو انہوں نے پھوپی بادشاہی کو کہلا بھیجا۔

’’بادشاہی خانم، ہمارا آخری وقت ہے۔ دل کا ارمان پورا کرنا ہو تو آ جاؤ۔‘‘

نہ جانے اس پیغام میں کیا تیر چھپے تھے۔ بھیا نے پھینکے اور بہنیا کے دل میں ترازو ہو گیے۔ ہلہلاتی، چھاتی کوٹتی، سفید پہاڑ کی طرح بھونچال لاتی ہوئی بادشاہی خانم اس ڈیوڑھی پر اتریں جہاں اب تک انہوں نے قدم نہیں رکھا تھا۔

’’لوبادشاہی، تمہاری دعا پوری ہو رہی ہے۔‘‘ ابا میاں تکلیف میں بھی مسکرا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں اب بھی جوان تھیں۔

پھوپی بادشاہی باوجود بالوں کے وہی منی سی بچھو لگ رہی تھیں جو بچپن میں بھائیوں سے مچل کر بات منوا لیا کر تی تھیں۔ ان کی شیر جیسی خرانٹ آنکھیں ایک میمنے کی معصوم آنکھوں کی طرح سہمی ہوئی تھیں۔ بڑے بڑے آنسو ان کے سنگ مرمر کی چٹان جیسے گالوں پر بہہ رہے تھے۔

’’ہمیں کو سو بچھو بی‘‘ ابا نے پیارسے کہا۔ میری اماں نے سسکتے ہوئے بادشاہی خانم سے کوسنے کی بھیک مانگی۔

یااللہ... یا اللہ... انہوں نے گرجنا چاہا۔ مگر کانپ کر رہ گئیں۔‘‘ یا... یااللہ... میری عمر میرے بھیا کو دیدے... یا مولا... اپنے رسول کا صدقہ...‘‘

وہ اس بچے کی طرح جھنجھلا کر رو پڑیں۔ جسے سبق یاد نہ ہو۔

سب کے منہ فق ہو گیے۔ اماں کے پیروں کا دم نکل گیا۔ یا خدا آج بچھو پھوپی کے منہ سے بھائی کے لیے ایک کوسنا نہ نکلا۔

صرف ابا میاں مسکرا رہے تھے۔ جیسے ان کے کوسنے سن کر مسکرا دیا کرتے تھے۔

سچ ہے، بہن کے کوسنے بھائی کو نہیں لگتے۔ وہ ماں کے دودھ میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔

تم اک گورکھ دھندا ہو

 مشہورِ زمانہ قوالی (تم اک گورکھ دھندہ ہو) جس کو استاد نصرت فتح علی خان کی آواز نے امر کر دیا لیکن اس کے شاعر کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ۔آی...