منگل، 24 دسمبر، 2024

لڑکی کی دعا از ساغر خیامی


لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی بھر کرے عاشق مرا سیوا میری

صبح سے شام تلک ہو کے مگن گاتا رہے

میرا عاشق مری الفت میں بھجن گاتا رہے

یوں میں چمکوں کہ زمانے میں اندھیرا ہو جائے

کوئی لنگڑا کوئی اندھا کوئی لولا ہو جائے

میرے جلووں کو عطا کر دے وہ قدرت یارب

میری نفرت کو بھی سمجھے وہ محبت یارب

میری فطرت ہو امیروں سے محبت کرنا

اور غریبوں کی سر راہ مرمت کرنا

بھولے بھالوں کی رقم خوب کھلانا مجھ کو

مرے اللہ سگائی سے بچانا مجھ کو

تو ہے مختار ہر اک راز کا یزدانی ہے

دودھ لانے کی مرے گھر میں پریشانی ہے

پیشگی ہی مرے درزی کی رقم بھی بھر دے

وقت پڑ جائے تو ڈیڈی کی چلم بھی بھر دے

اپنی دولت کی مرے ہاتھ میں جھولی دے دے

ایسا عاشق نہیں درکار جو گولی دے دے

میرا لچھمنؔ سا ہو دیور مجھے مقدور نہیں

رامؔ جیسا مرا شوہر ہو یہ منظور نہیں

جو پک اپ کرتا رہے پیار کی بانہوں میں مجھے

دیکھ سکتا ہو جو اغیار کی بانہوں میں مجھے

دعوے رکھتا نہ ہو جو یار پتی ہونے کا

جذبہ رکھتا ہو جو بیوی پہ ستی ہونے کا

میری الفت میں اسے کر دے تو پاگل مولا

میں کہوں چائے تو منگوا دے وہ کیمپا کولا

آئی آواز خداوند دیے دیتے ہیں

داخلہ تیرا جے این یو میں کئے دیتے ہیں

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

مصر میں فروغِ اردو کے لیے پروفیسر حسن الاعظمی کی جدوجہد

مصر میں فروغِ اردو کے لیے پروفیسر حسن الاعظمی کی جدوجہد


عبدالعلیم قاسمی بن عبدالعظیم اصلاحی


ہند و پاک میں وجود پذیر زبان "اردو" چند دہائیوں ہی میں مقامی سرحدوں کو عبور کرکے متعدد ملکوں میں داخل ہوئی ، آج دنیا کے کم و بیش اکثر ممالک کی یونیورسٹیوں اور جامعات  میں"  اردو "کو بحثیت زبان پڑھایا جاتا ہے ، بہت سی یونیورسٹیوں اور جامعات میں اردو کے علاحدہ  شعبے بھی قائم ہیں ، اردو اب محض مسلمانوں یا ہند و پاک کی زبان نہیں رہی ہے ؛ بلکہ یہ ایک عالمی زبان کا درجہ رکھتی ہے ، اردو کو فروغ دینے کے لیے ، اس کو متعدد ملکوں میں متعارف کرانے کے لیے عاشقانِ زبانِ اردو کی لازوال قربانیاں اور انتہک محنت و جدوجہد رہی ہے ۔ 

 پروفیسر حسن الاعظمی دنیا کی متعدد زبانوں پر مہارت رکھتے تھے، اردو ، فارسی ، عربی ، انگریزی اور ترکی پر یکساں مہارت تھی ، آپ کی کوششوں اور جد و جہد سے مصر میں اردو کے فروغ ملا ، جامعہ مصریہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں میں اردو کا شعبہ قائم ہوا ، مصر میں اردو کے فروغ کے بعد اہل شام ، بغداد اور ترکی بھی اپنے ملکوں میں اردو کے شعبے قائم کئے جو کہ حسن الاعظمی ہی کی جد و جہد کے ثمرات تھے ۔ 

حسن الاعظمی 25/ دسمبر 1918 کو مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ، مدرسۃ التعلیم اور جامعہ احیاء العلوم مبارک پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ، اس کے بعد 1930ء میں جامعہ سیفیہ سورت تشریف لائے ، یہاں آپ نے ملا رحمت مبارک پوری کی نگرانی میں اسلامی فرقوں کی بنیادی کتب اور ادیان عالم کا مطالعہ کیا ، مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیے عالم اسلام کے عظیم ادارہ  "جامعہ ازہر" مصر میں داخلہ لیا ، یہاں چند سال تعلیم حاصل کرکے  سند فراغت حاصل کی ، فراغت کے بعد جامعہ ازہر ہی میں پروفیسر منتخب ہوئے ، مصر اور عالم اسلام میں علامہ اقبال کے فلسفہ کو متعارف کرانا ، ان کے اشعار کو عربی میں پیش کرکے عالم عرب کو فکر اقبال سے روشناس کرانا اور مصر میں اردو کو فروغ دینا ،جلی حروف سے لکھنے کے لائق آپ کے کارہائے جلیلہ ہیں ۔

پروفیسر حسن الاعظمی کا شمار کثیر التصانیف مصنفین میں ہوتا ہے ، آپ نے اردو اور عربی میں سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں ، "المعجم الاعظم " کے نام سے چار جلدوں میں عربی اردو لغت اور پانچ جلدوں میں اردو عربی لغت لکھی ہے ، آپ نے ہند و پاک اور مصر کو ایک دوسرے سے روشناس کرانے کے لیے مصر کے حالات ، وہاں کی تاریخی ، ثقافتی اور تہذیبی نقوش پر مشتمل متعدد کتابیں بنام "آزاد مصد " ، "آج کا مصر" ، "انقلابی مصر "اور عظیم مصر "  وغیرہ اردو میں لکھی ،  اسی طرح ہندو پاک پر عربی میں کتابیں لکھی ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں ۔ 

(1)فتی الہند و باکستان (2)الثقافۃ الاسلامیۃ فی الھند و باکستان (3) کشمیر جنۃ الارض 

قاضی اطہر مبارک پوری اہل مبارک پور کے تصنیفی کارناموں کے ضمن میں لکھتے ہیں : 

استاذ محمد حسن الاعظمی مبارک پوری ازہری کی بہت سی عربی تصانیف قاہرہ اور بیروت سے شائع ہوئی ہیں ، 1939ء میں حکومت مصر نے "جامع ازہر" کے ہزار سالہ جشن کے موقع پر مشہور فاطمی حاکم امیر تمیم کا دیوان شائع کیا ، جسے استاذ موصوف نے مرتب کیا ، پھر 1954ء میں مصر سے شائع ہوا ۔ ان ہی کی جدوجہد سے شاہ فاروق کے دور میں جامع ازہر میں پہلی بار اردو زبان کی تعلیم جاری ہوئی ، اور وہی اس کے پہلے معلم ہوئے ، استاذ محمد حسن ازہری نے اپنی سینکڑوں عربی اردو تصانیف و توالیف  کے ذریعہ اسماعیلی مذہب کو ستر سے ظہور میں لاکھڑا کیا ۔ ان کی سینکڑوں تصانیف میں "المعجم الاعظم" عربی اردو لغت اہم ترین کتاب ہے ۔ "  (1)

پروفیسر حسن الاعظمی کے کارہائے جلیلہ میں سب سے بڑا کارنامہ مصر میں اردو کو فروغ دینا اور جامعہ مصریہ(موجودہ نام جامعہ قاھرہ) اور جامع ازہر میں اردو کے شعبہ کا قیام ہے ، جامعہ مصریہ میں شروع میں آپ کے مطالبہ پر اردو کو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے نصاب میں داخل کیا ، لیکن اس کے نمبرات شمار نہیں کئے جاتے تھے ، اس کے علاوہ آپ ہر پنج شنبہ کو "اقبالیات " پر لکچر دیتے تھے،جس کی وجہ سے علامہ اقبال کو براہ راست سمجھنے کے لیے مصریوں کے اندر اردو سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوا ، بعد میں آپ نے جامعہ مصریہ میں اردو کو دیگر زبانوں کی طرح نصاب میں مستقل طور داخل کرنے کی درخواست کی ، اس جدوجہد کی روداد حسن الاعظمی ہی کی قلم سے ملاحظہ فرمائیں ، لکھتے ہیں : 

"1937ء میں جب میں نے دیکھا کہ جامع مصریہ میں باقی تمام اہم مشرقی زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن اردو کونظرانداز کر دیاگیا ہے تو کلیة الآداب کے پرنسپل ڈاکٹر طہ حسین سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ اردو تعلیم کا بھی بندوبست ہونا چاہیے۔ بہت مشکل سے یہ فیصلہ ہوا کہ اردو ایک اختیاری مضمون کی طرح پڑھی جائے۔

  یعنی اس کے نمبر نہ شمار ہوں گے ۔ ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں نے اس عرصہ میں 20/ طلبہ کو اردو پڑھائی۔ شرط یہ تھی کہ اردو صرف وہی طلبہ پڑھ سکتے ہیں، جو فارسی اور عربي دونوں زبانوں سے واقف ہوں۔ چناں چہ میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ طلبہ کو پہلے اسیی اردو پڑھائی جس میں عربی و فارسی کے کافی الفاظ موجود تھے، اس طرح طلبہ بہتر اردو لکھنا پڑھنا سیکھ گئے، پھر انھیں آہستہ آہستہ آسان لفظ استعمال کرنے کی مشق کرائی ۔ غرض عرب طلبہ کو اردو تعلیم کے لیے یہاں سے الٹا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، مثلا پہلے اردو چوتھی، پھر تیسری، پھر دوسری پھر پہلی ۔ جو اردو یہاں آسان کہی جاسکتی ہے وہاں مشکل ہوگی۔ اس لیے کہ ہندی الفاظ زیادہ ہوتے ہیں، اور جو مشکل کہی جاتی ہے وہ وہاں آسان ہوگی ۔ اور اس طرح ہندوؤں کی متوقع اردو کا ہندوستان سے باہر رائج ہونا نا ممکن ہے ۔

 اس دوران میں نے یہ پروپیگنڈہ جاری رکھا کہ اردو کو دیگر زبانوں کا رتبہ دیا جائے اور اس کے نمبر دوسرے نمبروں میں شمار ہوں۔ آخر میری محنت بارآور ہوئی اور 7/ مارچ 1939ء کو پارلیمنٹ نے یہ تجویز منظور کرلی۔" (2)

پروفیسر حسن الاعظمی کی درخواست پر جامعہ مصریہ کے نصاب میں اردو داخل کی گئی ، اس وقت کے مصر کے فرماں رواں شاہ فاروق نے ایک خاص فرمان کے ذریعہ اس کی اجازت دی ، چونکہ یہ فرمان اردو کی تاریخ میں خاص اہمیت و افادیت رکھتا ہے ، اس لیے ہم یہاں اس طویل فرمان کے بعض اہم نکات  درج کرتے ہیں : 

"ہم فاروق اول شاہ مصر ، بابت لائحہ اساسیہ برائے کلیہ آداب و بربناء تصفیہ مجلس جامعہ (یونیورسٹی بورڈ) مورخہ 7/ مارچ 1939ء کو بربناء عریضہ وزیرِ تعلیمات عامہ و بمطابق رائے مجلس وزراء ذیل کا قانون درج کرتے ہیں ۔ 

(1) کلیہ آداب (آرٹ کالج ) میں ایک معہد (ٹرینگ کالج ) کھولا جائے، جس کا نام " معہد اللغات الشرقیہ و آدابھا " رکھا جائے ، اس کی غرض و غایت امم اسلامیہ کی زبانوں اور قدیم و جدید عربی لہجوں میں امتیاز پیدا کرنا ہے۔

(2) معہد حسب ذیل شعبوں پر مشتمل ہوگا ۔

(1)  شعبہ زبانِ امم اسلامیہ

 (2) شعبہ لہجاتِ عربیہ زبان امم اسلامیہ میں حسب ذیل زبانوں کی تعلیم دی جائے گی ، فارسی ترکی اور اردو (ہندوستانی ) مزید برآں قدیم اور زندہ مشرقی زبانوں کا اضافہ کیا جائے گا ، کلیہ میں طالب علم کی شرکت کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ عربی ادب کا بی اے (B.A) ہو یا کوئی اور ڈگری رکھتا ہو ، جو طیلسانین کے مساوی ہو جسے کالج بورڈ کی رائے کی بناء پر یونیورسٹی بورڈ معتبر سمجھے۔" (3)

 جامعہ مصریہ میں اردو کے قیام کے بعد اس شعبہ میں کسی ماہر استاذ کے لیے ہندوستان سے کسی موزوں شخص کے تقرر کے لیے خطوط لکھے گئے ، چونکہ ذریعہ تعلیم عربی تھی ، اور طلباء کے لیے اردو دانی کا ذوق عربی تفہیم و تدریس کے بغیر دشوار تھا ، نیز پروفیسر حسن الاعظمی ایک عرصے سے اردو خدمات انجام دے رہے تھے ، اور عربی میں بھی کافی مہارت حاصل کرلی تھی ، اور آپ نے جامع ازہر سے آخری ڈگری امتیاز کے ساتھ حاصل کی تھی ، اسی لیے بالآخر آپ ہی کو شعبہ اردو کا پروفیسر منتخب کیا گیا ۔ 


مولانا عبدالحلیم ظہوری مصر میں اردو کے اولین نقوش اور اردو کے فروغ  کے لیے مصر میں کی جانے والی سعی و جہد اورکوششوں کا تذکرہ "مصر میں اردو " نامی کتاب میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

" ادھر ایک عرصہ سے ہندوستان میں اردو زبان کو کل ہند زبان بنانے کا مسئلہ درپیش ہے ، تمام ممکن ذرائع اس کی نشر و اشاعت اور ترویج و توسیع کے لیے استعمال کئے جارہے ہیں، اس کو تمام ہندوستان کی قومی و ملکی زبان قرار دینے کے لیے کبھی اس کی ساخت ، اس کی ہییت ترکیبی اور اس کی لچک سے حجت کی جارہی ہے ، اور کبھی اس کے عالم گیر زبان ہونے کے دعوے میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں وہ بولی اور سمجھی جاتی ہے ، لیکن تحقیقات کی دنیا میں یہ امر حیرت افزا ہے کہ بیرون ہند میں اس کی ترویج و اشاعت کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ، سرزمین مصر میں جو اس وقت عالم اسلام کی تہذیب و ثقافت کا مرکز اور اسلامی علوم و فنون کا سرچشمہ ہے، اردو زبان کی نشر و اشاعت کے ذریعہ اس کے ادبیات و معارف اس کے علمی جواہر ریزوں اور یہاں کے بہترین دماغی شاہکار سے روشناس کرانے کے لیے کہاں تک اقدامی سعی اور عملی جدو جہد کی گئی ہے ۔ پروفیسر حسن الاعظمی دنیائے اردو ادب میں لائق صد تحسین اور مبارک آباد ہیں کہ آپ نے اردو زبان کی ترقی و احیاء کے لیے جدوجہد شروع کی ، 1938ء میں موصوف نے ڈاکٹر طہ حسین پرنسپل "کلیۃ الآداب" جامعہ مصریہ سے درخواست کی کہ اردو زبان کی تعلیم کا انتظام کلیہ میں کیا جائے ۔ 

اس درخواست کو منظور کرلیا گیا ، اور ڈاکٹر صاحب نے عارضی طور پر ایک سال کے لیے حسن الاعظمی صاحب کو "اردو ادب اور شاعری" پر لکچر دینے کے لیے مقرر کردیا۔ اس شعبہ میں ایم ، اے کے تقریبا  20/ طلباء نے شرکت کی ، ان دروس میں زیادہ تر علامہ اقبال کے فلسفہ کی تشریح اور اردو زبان کے دیگر بعض شعراء مثلا غالب ، حالی ، اکبر اور امجد حیدرآبادی وغیرہ سے تعارف کرایا گیا۔ جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ۔ 

1939ء میں مذکورہ طلباء نے حکومت مصریہ میں ایک عریضہ پیش کیا کہ اردو کو بطور ایک علمی زبان کے فارسی و ترکی زبان کے ساتھ ساتھ کلیہ آداب میں داخل کیا جائے ۔  اسی اثناء میں ڈاکٹر عبدالوہاب بک عزام نے جو اس وقت کلیہ آداب میں " شعبہ السنہ مشرقیہ "اور علامہ اقبال سے ان کا تعارف لندن میں ہوچکا تھا ، اقبالیات کو سمجھنے کے لیے پروفیسر حسن الاعظمی سے  اردو زبان سیکھی ، ڈاکٹر صاحب ترکی ، انگریزی فارسی ، جرمن اور دیگر کئی مغربی زبانوں کے ماہر ہیں ، آپ نے بھی اقبالیات کا ترجمہ عربی میں کیا اور اردو کو نصاب میں شریک کرنے میں بڑی مدد کی ۔ مصری پارلیامنٹ اور اردو شاہ مصر فاروق اول کے فرمان کے ذریعہ جامعہ مصریہ میں اردو کو شامل کیا گیا ، پروفیسر حسن الاعظمی کی ہی درخواست پر جامع ازہر وغیرہ میں بھی اردو شعبے کھلے ، مصر میں  اردو زبان کی خدمات اور اس کی نشر و  اشاعت کا یہ مختصر اولین خاکہ ہے۔ "(4)

جامعہ مصریہ میں اردو کے قیام کے بعد نصاب کا مسئلہ پیش آیا کہ اس شعبہ میں کون سی کتابیں پڑھائی جائے ، کیسا نصاب منتخب کیا جائے ،پروفیسر حسن الاعظمی نے اردو زبان کے اپنے ایک شاگرد ڈاکٹر عبدالوہاب بک عزام کے ساتھ مل کر اس شعبہ کے نصاب کو مرتب کیا ، جس کے ذریعہ مصر کے اساطین علم و ادب نے پروفیسر حسن الاعظمی سے اردو زبان سیکھی ، جن میں مصری ادیب محمد حسن زیات ، ڈاکٹر طہ حسین شیخ صاوی شعلان قابل ذکر ہیں ۔ پروفیسر حسن الاعظمی اپنی کتاب "عظیم مصر " میں لکھتے ہیں کہ : 

" تین سال کا نصاب مقرر ہوا اور فیصلہ ہوا کہ پہلے اور تیسرے سال امتحان ہوں ، ڈاکٹر عزام کی مدد سے میں نے عربی اور فارسی جاننے والوں کو اردو پڑھانے کا ایک خاص نصاب تیار کرلیا تھا، اس سے پہلے میں زیادہ تر طلبہ کو اقبال اور غالب کی نظم اور بعض ملکی نثر نگاروں کے چیدہ چیدہ شاہ کار پڑھاتا تھا۔" (5)

مارچ 1939ء میں جامع مصر میں باقاعدہ اردو زبان و ادب کی تعلیم شروع ہونے کے بعد اعظمی صاحب نے جامع ازہر مصر کے وائس چانسلر علامہ شیخ محمد مصطفى المراغی کی خدمت میں ایک مراسلہ روانہ کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جامعہ ازہر میں اردو تعلیم کو باقاعدہ شریکِ نصاب کیا جائے ۔ شیخ مراغی نے آپ سے وعدہ کیا کہ اگر کوئی موزوں شخص تعلیم دینے کے لیے مل جائے توکل ہی سے اس کا انتظام کیا جاسکتا ہے، اور یہاں تک کہا کہ اگر تم جامع مصر کو چھوڑ کر ازہر میں آنے کے لیے تیار ہو جاؤ تو ابھی تقرری کے احکام نافذ کیے جاسکتے ہیں۔

چناں چہ فروغِ اردو کے لیے آپ نے جامع مصریہ سے استعفی دے کر جامعہ ازہر میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ آپ کے بعد جامعہ مصریہ میں بہت سے اساتذہ نے اردو کی تعلیم دی ۔ ان میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف علیگ بھوپالی شاگرد علامہ عبد العزی میمن بھی تھے۔(6)

ڈاکٹر شباب الدین صاحب  پروفیسر حسن الاعظمی کی زریں خدمات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں  :

"اس علمی گہوارہ کا ایک فرزند جلیل حسن الاعظمی بھی ہے جو بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں آسمانِ علم و ادب پرطلوع ہوا، ابتدائی تعلیم مبارک پور ہی میں حاصل کی، مگر طلبِ علم کے شوق نے اس کو سورت، حیدر آباد، لاہور اور کراچی کے ساتھ ساتھ مصر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا، فراغت کے بعد قاہرہ یونیورسٹی میں پروفیسری کے منصب پر فائز ہوئے ، ان کی علمی و تصنیفی و  تعلیمی خدمات اور ادارتی سرگرمیوں کا دائرہ خاصا وسیع ہے ۔  ہمارے نزدیک ان کا سب سے حیرت انگیز کارنامہ مصر میں اردو زبان و ادب کے متعلق ان کی خدمات اور عالم عرب بالخصوص مصر میں علامہ اقبال کو متعارف کرانا ہے۔ مبارک پور کے اس فرزند نے اردو کی نشوونما اور ترقی کے لیے بڑی قابل فخر خدمت انجام دیں، عربوں کے لیے آسان اردو نصاب تیار کیا اور قاہرہ یونیورسٹی میں انھیں کی کوششوں سے باقاعدہ شعبہ اردو قائم ہوا اور آج بھی یہ  شعبہ پوری آب و تاب کے ساتھ سرگرم ہے۔اس کے موجودہ صدر پروفیسر جلال الحفناوی صاحب نے علامہ شبلی کی سیرت النبی پانی ، الفاروق ، علم الکلام، الکلام اور المامون وغیرہ کا عربی ترجمہ محض اردو زبان کے مصر میں فروغ کے مقصد سے کیا،  ان تمام سرگرمیوں کے پیچھے اگریہ کہا جائے کہ مولانا حسن الاعظمی کی کوششوں کا دخل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کے عرب علما عطاء الرحیم، محمد رزق المصری اور ڈاکٹر عبد الوہاب عزام وغیرہ سے بڑے گہرے مراسم تھے۔"(7)


1980ء میں "عین شمش یونیورسٹی "قاہرہ میں اردو کا آغاز ہوا ،ہا ہے۔ اب تو مصر كى جامعات، بطور خاص جامعہ ازہر، جامعہ عين شمس، جامعہ مصریہ  اور جامعہ قاهره وغیرہ ميں بھى ايم اے اور پى ايچ ڈى كى سطح پر ریسرچ و تحقيق كا کام ہورہا ہے

 ديگر جامعات ميں مثلا منصوره ، اسكندريہ ، وغيره بھى اردو كى تعليم اور تحقيقى كام ہورہا ہے ۔بعض دیگر جگہوں پر بھى اردو كورسز بھى ہوتے ہيں، 1996ء سے  جامعہ ازہر سے سالانہ اردو مجلہ" اردیات "شائع ہورہا ہے ۔ یقینا یہ سب پروفیسر حسن الاعظمی کی کوششوں ہی کے ثمرات ہے کہ آج مصر میں اردو کی ترویج و اشاعت ہورہی ہے ۔ 


مصادر و مراجع 

(1)قاضی اطہر مبارک پوری ، تذکرہ علماء مبارک پور، مکتبہ الفہیم مئو ، 2010ء ص: 96/97

(2)حسن الاعظمی ، عظیم مصر ، مکتبۃ الاعظمیہ کراچی ، اپریل 1981ء ، ص: 329/330 

(3)حسن الاعظمی ، حیاۃ والممات فی فلسفۃ اقبال ، بزم اقبال حیدرآباد ، 1975، ص: 220/221

(4)مولانا عبدالحلیم ظہوری ، مصر میں اردو ، ادارہ معارف اسلامیہ حیدرآباد ، ص: 14/ 16

(5)عظیم مصر ، ص: 330

(6)مہتاب پیامی ،بابائے عربی حسن الاعظمی ، اقبال ایجوکیشنل مبارک پور ، دسمبر 2013ء ، ص: 25

(7)مصدر سابق ،عظمت رفتہ از ڈاکٹر شباب الدین ص: 9


شائع شدہ ماہنامہ "الماس" ممبئی دسمبر 2021ء

بدھ، 4 دسمبر، 2024

چھوٹی سی بے رخی پہ شکایت کی بات ہے۔ قمر جلال آبادی

چھوٹی سی بے رخی پہ شکایت کی بات ہے

اور وہ بھی اس لیے کہ محبت کی بات ہے

میں نے کہا کہ آئے ہو کتنے دنوں کے بعد

کہنے لگے حضور یہ فرصت کی بات ہے

میں نے کہا کی مل کے بھی ہم کیوں نہ مل سکے

کہنے لگے حضور یہ قسمت کی بات ہے

میں نے کہا کہ رہتے ہو ہر بات پر خفا

کہنے لگے حضور یہ قربت کی بات ہے

میں نے کہا کہ دیتے ہیں دل تم بھی لاؤ دل

کہنے لگے کہ یہ تو تجارت کی بات ہے

میں نے کہا کبھی ہے ستم اور کبھی کرم

کہنے لگے کہ یہ تو طبیعت کی بات ہے


منگل، 3 دسمبر، 2024

بنجارہ نامہ از نظیر اکبرآبادی

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گوئیں پلا سر بھارا

کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے

اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے

کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے

کیا داکھ منقےٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا

یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا

قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا

دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے

زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے

جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے

پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی

اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی

یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی

دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی

اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی

کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی

کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چینی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل

اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل

گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ

چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر

جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر

نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر

کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے

جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے

کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے

کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


مفرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے

سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے

کیا ڈبے موتی ہیروں کے کیا ڈھیر خزانے مالوں کے

کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


کیا سخت مکاں بنواتا ہے خم تیرے تن کا ہے پولا

تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا

کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا

گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن

ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن

کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن

کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا

کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیے اور ٹانکے گا

ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا

اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہفتہ، 30 نومبر، 2024

اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے! پروین شاکر

 اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے

میں نے کہا۔۔۔۔۔!!!   


تُجھے عشق ہو خُدا کرے،

کوئی تُجھ کو اس سے جُدا کرے،

تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جا ئیں،

تیری آنکھ پُرنم رہا کرے،

تُو اس کی باتیں کیا کرے،

تو اس کی باتیں سُنا کرے،

اُسے دیکھ کر تو رُک پڑے،

وہ نظر جُھکا کر چلا کرے،

تُجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے،

تو ملن کی ہر پل دُعا کرے،

ترے خواب بکھریں ٹوٹ کر،

تُو کرچی کرچی چُنا کرے،

تُو نگر نگر پھرا کرے،

تُو گلی گلی صدا کرے،

میں کہوں عشق ڈھونگ ہے،

تُو نہیں نہیں کہا کرے،

یہ دُعا ہے آتشِ عشق میں،

کہ میری طرح تُو جلا کرے،

نہ نصیب ہو تُجھے بیٹھنا،

تیرے دل میں درد اٹھا کرے،

لٹیں ہوں کُھلی اور چشمِ تر،

کہیں نالہ لب پہ ہو سوز گر،

کہ میری تلاش میں در بدر،

تو پکڑ کے دل کو پھرا کرے،

تیرے سامنے تیرا گھر جلے،

تُو بجھا سکے نہ بس چلے،

تیرے دل سے نکلے یہی دعا،

نہ گھر کسی کا جلا کرے،

ُتجھے عشق ہو پھر یقین ہو،

اُسے تسبیحوں پر پڑھا کرے،

لوٹ آئیں خیر سے پھر وہ دن،

کہیں نہ آئے چین، تجھے میرے بن،

نہ لگائیں تجھ کو گلے سے ہم،

تُو ہزار منتیں کیا کرے،

تُجھے عشق ہو خُدا کرے،

کوئی تُجھ کو اس سے جُدا کرے۔۔۔


پروین شاکر


#hiba______writes

مخفف کے اصول

 https://www.facebook.com/share/p/19wymLbfjh/